السجدہ آية ۱
الٓمّٓ ۗ
طاہر القادری:
الف، لام، میم (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)،
English Sahih:
Alif, Lam, Meem.
1 Abul A'ala Maududi
ا ل م
2 Ahmed Raza Khan
الم
3 Ahmed Ali
المۤ
4 Ahsanul Bayan
الف لام میم
سُوْرَۃُ السَّجْدَ ۃِ ٣٢ سورۃ سجدہ مکی ہے اس میں تیس آیتیں اور تین رکوع ہیں
5 Fateh Muhammad Jalandhry
الٓمٓ
6 Muhammad Junagarhi
الم
7 Muhammad Hussain Najafi
الف، لام، میم۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
الۤمۤ
9 Tafsir Jalalayn
ال م
آیت نمبر 1 تا 11
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم والا ہے۔ اَلٓمّٓ اس کی مراد تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، بلاشبہ یہ کتاب قرآن تمام جہانوں کے پروردگار کیطرف سے نازل کی ہوئی ہے (تنزیل الکتاب) مبتداء ہے (لاشک فیہ) خبر اول ہے (من ربِّ العالمین) خبر ثانی ہے، کیا یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھڑ لیا ہے ؟ نہیں، (نہیں) بلکہ وہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے تاکہ آپ اس کے ذریعہ اس قوم کو ڈرائیں کہ جس کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، مانافیہ ہے تاکہ وہ آپ کے ڈرانے سے ہدایت حاصل کریں، اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے چھ دن میں پیدا کیا ان میں کا پہلا دن یکشنبہ ہے اور آخری دن جمہ پھر وہ عرش پر قائم ہوگیا (عرش) لغت میں تخت شاہی کو کہتے ہیں، ایساقیام جو اس کی
شان کے لائق ہے، اے کفار مکہ ! تمہارے لئے اس کے علاوہ کوئی حمایتی نہیں ہے (من ولی) من کی زیادتی کے ساتھ ما اسم ہے، یعنی
کوئی حمایتی نہیں، اور نہ کوئی سفارشی کہ کو تم سے اس کے عذاب کو دفع کرسکے، پھر کیا تم اس کو سمجھتے نہیں ہو کہ ایمان کے آؤ، آسمان سے لیکر زمین کی مدت تک ہرحال کی تدبیر کرتا ہے پھر تمام امور اور تدبیریں اسی کی طرف لوٹ جائیں گی ایسے دن میں کہ جس کی مقدار دنیا میں تمہارے شمار کے اعتبار سے ہزار سال کے برابر ہوگی اور سورة سَأَلَ میں پچاس ہزار سال ہے، اور وہ قتامت کا دن ہے اس کی شدید ہولنا کی کی وجہ سے بہ نسبت کافر کے، رہا مومن تو (وہ دن) اس پر ایک فرض نماز پڑھنے کے وقت سے بھی کم ہوگا کہ جس کو دنیا میں پڑھا کرتا تھا، جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے، یہ خالق جو کہ تدبیر کرنے والا ہے غائب اور حاضر کا جاننے والا ہے یعنی (ہر اس چیز کا) جو مخلوق کے لئے غائب اور جو ظاہر ہے جو غالب ہے اپنے ملک میں اور نہایت رحم والا ہے اطاعت کرنے والوں پر جس نے نہایت خوب بنائی جو چیز بھی بنائی (خَلَقَہٗ ) میں لام کے فتحہ کے ساتھ فعل ماضی ہونے کی وجہ سے، حال یہ ہے کہ (جملہ ہوکر) شئ کی صفت ہے اور سکون لام کے ساتھ بدل الاشتمال ہے، اور انسان یعنی آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کی ابتداء مٹی سے کی، پھر اس کی نسل کا (سلسلہ) بےوقعت پانی کے جو ہر خون بستہ سے جاری کیا اور وہ نطفۂ منی ہے اور پھر اس کو یعنی آدم کی تخلیق کو ٹھیک ٹھاک کیا پھر اس میں اپنی روح پھونک دی یعنی اس کو زندگی بخشی اور حساس بنایا حالانکہ وہ جماد (بےحس) تھا اور اسی نے اے اولاد آدم تمہارے کان بنائے سَمعٌ بمعنی اسماعٌ ہے اور آنکھیں بنائیں اور دل بنائے (اس پر بھی) تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو مازائدہ قلت کی تاکید کے لئے ہے، اور منکرین بعث نے کہا : کیا جب ہم زمین میں رل مل جائیں گے یعنی زمین میں غائب ہوجائیں گے اس طریقہ پر کہ ہم مٹی ہوجائیں گے اور زمین میں خلط ملط ہوجائیں گے تو کیا ہم نئی تخلیق میں آجائیں گے ؟ یہ استفہام انکاری ہے، دونوں جگہوں میں دونوں ہمزوں کی تحقیق اور دوسرے کی تسہیل اور دونوں صورتوں میں دونوں ہمزوں کے درمیان الف داخل کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (بات یہ ہے) کہ وہ لوگ بعث (بعد الموت) کے ذریعہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم کو موت کا فرشتہ فوت کرے گا جو تم پر مقرر ہے یعنی تمہاری روحوں کو قبض کرکے پھر تم سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے، زندہ کرکے، بعد ازاں وہ تم کو تمہارے اعمال کی جزادے گا۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
سورة سجدہ مکی ہے اس میں تیس آیات ہیں اور بعض کے نزدیک انتیس آیات ہیں، البتہ تین آیتیں مدنی ہیں، یہ کلبی اور مقاتل کا قول ہے، ان کے علاوہ نے کہا ہے پانچ آیتیں مدنی ہیں، جن کی ابتداء تتجافیٰ جنوبھم سے ہے، اور انتہاء الذی کنتم بہ تکذبون پر ہے۔
قولہ : الٓمٓ تَنْزِیْلُ الکتابِ لاَ رَیْبَ فیہِ مِنْ رَّبِّ العٰلمین اس میں متعدد ترکیبیں ہوسکتی ہیں مگر بہتر اور آسان وہی ہے جس کو شارح علام نے بیان کیا ہے وہ یہ کہ تنزیل الکتاب مبتداء اور لا ریب فیہ خبر اول اور من رَّبّ العٰلمینَ خبر ثانی، مبتداء اپنی دونوں خبروں سے مل کر خبر المٓ مبتداء کی۔
قولہ : اَمْ یقولونَ افتراہُ اَمْ منقطعہ ہے جو معنی میں بل أیقولون افتراہ کے ہے اس میں ہمزہ انکاری ہے مگر مفسر علام نے صرف بل تحریر کیا ہے، شاید کہ کاتب سے ہمزہ رہ گیا ہے، مطلب یہ ہے کہ اس میں مشرکین کے اس دعوے کا انکار ہے کہ یہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خود ساختہ اور گھڑی ہوئی کتاب ہے، اس کا رد اور انکار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایسی بات نہیں ہے اس لئے کہ اس قسم کا کلام طاقت بشری سے باہر ہے پوری دنیائے عرب کے فصحاء وبلغاء اس کے مثل لانے سے عاجز رہے ہیں، اور آج بھی قرآن کا یہ چیلنج باقی ہے کہ ادنیٰ مثل تین آیتوں کے کوئی سورت بنا کر پیش کردے۔
قولہ : بل ھو الحق، افتراء کی نفی کرنے کے بعد اثبات حقیقت کے لئے یہ اضراب انتقالی ہے، یہ اضراب ابطالی بھی ہوسکتا ہے یعنی مشرکین کے قول افتراء کو باطل کرتے ہوئے کہا گیا ہے، اس صورت میں تقدیر عبارت یہ ہوگی لیس ھُو کما قالوا بل ھو الحق اب رہا یہ مقولہ کہ کل ما فی القرآن من الا ضراب انتقالیٌ تو اس کے علاوہ پر محمول ہوگا (صاوی) آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ قرآن میں جو کچھ ہے وہ حق ہے اور یہ حصر جملہ (بل ھو الحق) معرفۃ الطرفین سے مستفاد ہے۔
قولہ : لِتُنْذِرَ قَوْمًا . تُنْذِرُ دو مفعولوں کو نصب دیتا ہے پہلا مفعول قَوْمًا ہے، دوسرا محذوف ہے جسکو مفسر نے اپنے قول بہ سے ظاہر کیا ہے اور بعض حضرات نے مفعول ثانی العقاب محذوف مانا ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی لتنذر قومًا العقابَ اور ما اتاھم الخ قومًا کی صفت ہے۔
قولہ : لَعَلَّھم یھتدون یہ ترجی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعتبار سے ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ قوم کو ہدایت کی امید کے ساتھ ڈراتے رہئے اور مایوس نہ ہوجئے۔ قولہ : اللہ، الذی خَلَق الخ جملہ مبتداء خبر ہے۔
قولہ : مَالکم من دونہٖ من ولیٍ من دونہٖ ، ما کا اسم ہے من زائدہ ہے، اس عبارت سے مفسر علام نے اشارہ کردیا کہ ما حجازیہ ہے ولیٍ اسم مؤخر ہے، اور من دونِہٖ خبر مقدم ہے، مگر اس میں یہ اعتراض ہوگا کہ ما کے عامل ہونے کے لئے اس کے اسم و خبر میں ترتیب ضروری ہے حالانکہ یہاں ترتیب باقی نہیں ہے، اس کا یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ نحویوں کے قول ضعیف کے مطابق عمل کیا ہے، اس لئے کہ قول ضعیف کے مطابق ما کے عمل کے لئے ترتیب شرط نہیں ہے، اور بہتر یہ ہے کہ ما کو تمیمیہ مانا جائے اور من دونہٖ کو خبر مقدم اور ولیّ کو مبتداء مؤخر مانا جائے اس لئے اس لئے کہ قرآن میں قول ضعیف پر حمل کرنا مناسب نہیں ہے۔
قولہ : اَفَلاَ تَتَذَکَّرُوْنَ ہمزہ، محذوف پر داخل ہے، اور فاعاطفہ ہے، تقدیر عبارت یہ ہے أغَفَلْتُمْ فَلَاتَتَذَکَّرُوْنَ ھٰذَا، ھٰذَا، تَتذکرونَّ کا مفعول ہے۔
قولہ : یُدَبِّرُ الْاََمْرَ (الآیۃ) یعنی اللہ تعالیٰ کو کہ خالق اور مدبرالامور ہے وہ اپنے ارادے اور علم ازلی کے مطابق مخلوق میں تصرف کرتا ہے یعنی ہر آن اس کی ایک شان ہے ای کلَّ یومٍ ھو فی شأن ہر شئ اسی کی قضاء وقدر سے ہوتی ہے۔
قولہ : من السماء الی الارض ابن عباس (رض) نے فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ قضاء وقدر نازل ہوتی ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ مراد وحی کا نزول ہے۔
قولہ : مدۃ الدنیا مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی عمر (انسانی) سات ہزار سال ہے اور آپ کی بعثت چھٹے ہزار کے
شروع میں ہوئی ہے اور بعض آثار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کی عمر ہزار سال سے زیادہ ہوگی مگر یہ زیادتی پانچ سو سال سے زیادہ نہ ہوگی۔ (الکشف عن مجاوزۃ ھٰذہ الأمۃ الف، للسیوطی).
قولہ : فی یومٍ کانَ مِقدَارُہ الف سَنَۃٍ یہاں یوم سے معروف یوم مراد نہیں ہے کہ جو دوراتوں کے درمیان محدود ہوتا ہے بلکہ مدت دراز اور عصر طویل مراد ہے اس لئے کہ عرب مدت دراز کو یوم سے تعبیر کرتے ہیں، نحاس (رح) تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ لغت میں مطلق وقت کے معنی میں بھی مستعمل ہے، لہٰذا اب تعارض کا وہ اشکال دفع ہوگیا جو سورة سأل میں خمسین الف سنۃ اور یہاں الف سنۃ وارد ہوا ہے، مندرجہ ذیل شعر میں یوم مطلق مدت کے معنی میں استعمال ہوا ہے :
یومانِ : یومُ مقاماتٍ واندیۃٍ ویومُ سیرٍ الی الا عداء تأویبُ (اعراب القرآن)
قولہ : ذٰلک مبتداء ہے اور عالم خبر اول العزیز خبر ثانی اور الرحیم ثالث اور الذی احسن خبر رابع۔
قولہ : خَلَقہٗ فعل ماضی کی صورت میں جملہ ہو کر شئ کی صفت ہو تو محلاً مجرور ہوگی اور اگر کلَّ کی صفت ہو تو محلاً منصوب ہوگی اور اگر خَلْقَہٗ سکون لام کے ساتھ ہو جیسا کہ بعض قراءتوں میں ہے تو کلَّ سے بدل الاشتمال ہوگا۔
قولہ : وَبَدَأ اس کا عطف احسن پر ہے اور الانسان مفعول بہ ہے اور من طین خَلَقَ کے متعلق ہے، انسان سے مراد آدم (علیہ السلام) ہیں اور ہٗ ضمیر کا مرجع آدم ہیں نسلٌ بھی مرجع ہوسکتا ہے یعنی نسل آدم کو رحم مادر میں درست کیا۔
قولہ : مِنْ روحِہٖ میں اضافت تشریف کے لئے ہے۔
قولہ : جعل لکم میں غیب سے خطاب کی جانب التفات ہے اس لئے کہ مضغہ میں روح پھونکنے کے بعد مخاطب بننے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے السمعَ مصدر بمعنی اسماع ہے۔
قولہ : ادخال الف بینھما علی الوجھین یہاں وتر کھا کا لفظ چھوٹ گیا ہے، اس طرح کل چار قراءتیں ہوں گی۔
قولہ : فی الموضعین موضعین سے مراد أاِذَا ضَلَلْنَا اور أ اِنَّا ہے۔
قولہ : بل ھم بلقاء رَبِّھِمْ کافرون یہ انکار بعث سے انکار لقاء کی طرف اضراب ہے۔
تفسیر وتشریح
سورة سجدہ کی فضیلت : صحیح بخاری و مسلم میں روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن کی نماز میں سورة الٓمٓ السجدہ اور دوسری رکعت میں ھَلْ اَتیٰ علی الانسان پڑھتے تھے، اور یہ صحیح سند سے ثابت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو سونے سے قبل سورة الم السجدہ اور سورة ملک تلاوت فرمایا کرتے تھے۔
الٓمٓ (الآیۃ) مطلب یہ ہے کہ یہ جھوٹ، جادو، کہانت اور من گھڑت قصے کہانیوں کی کتاب نہیں ہے بلکہ رب العالمین کی طرف سے صحیفۂ ہدایت ہے اَمْ یقولون سے بطور تو بیخ فرمایا، کیا یہ کافر اور مشرک رب العالمین کے نازل کردہ اس کلام بلاغت نظام کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود گھڑلیا ہے ؟ ایسی بات نہیں ہے بلکہ یہ تیرے رب کی طرف سے صحیفۂ حق ہے تاکہ آپ انہیں ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تاکہ وہ راہ راست پر آجائیں، اس آیت میں نزول قرآن کی علت کا بیان ہے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عربوں میں پہلے نبی تھے، بعض حضرات نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو بھی عربوں میں مبعوث نبی قرار دیا ہے، (وللہ اعلم) اس اعتبار سے قوم سے مراد پھر خاص قریش مراد ہوں گے، جن کی طرف آپ سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا۔
ما۔۔ نذیر نذیز سے اس جگہ رسول اصطلاحی مراد ہے، مطلب یہ ہے کہ قریش مکہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کوئی رسول نہیں آیا تھا، مگر اس سے لازم نہیں آتا کہ انبیاء کی دعوت بھی ان تک نہ پہنچی ہو اس لئے کہ دوسری آیت میں واضح طور پر ارشاد ہے وَاِنْ مِنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلاَ فِیْھَا نَذِیْر یعنی کوئی امت اور جماعت دنیا میں نہیں جس میں کوئی اللہ سے ڈرانے والا اور اللہ کی طرف دعوت دینے والا نہ آیا ہو۔ اس آیت میں لفظ نذیر اپنے عام لغوی معنی اللہ کی طرف دعوت دینے والا وہ خواہ کوئی رسول ہو یا کوئی نائب یا عالم دین اور داعی، تو اس آیت سے تمام امتوں تک توحید کی دعوت پہنچ جانا معلوم ہوتا ہے، اس کا مقتضٰی یہ ہے کہ اقوام عرب میں بھی توحید کی دعوت پہلے سے ضرور پہنچی ہوگی، مگر اس کیلئے یہ ضروری نہیں کہ یہ دعوت خود کوئی نبی و رسول لے آیا ہوسکتا ہے کہ ان کے نائبین علماء کے ذریعہ پہنچ گئی ہو، اسلئے اس سورت اور سورة یٰسین وغیرہ کی دو آیتیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قریش عرب میں آپ سے پہلے کوئی نذیر نہیں آیا تھا، ضروری ہے کہ اس میں نذیر سے مراد اصطلاحی معنی کے اعتبار و نبی ہو اگرچہ دعوت ایمان و توحید دوسرے ذرائع سے ان کے پاس پہنچ چکی ہو۔ زمانہ فترت یعنی آپ کی بعث سے پہلے بعض حضرات کے متعلق ثابت ہے کہ وہ دین ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) پر قائم تھے توحید پر ان کا ایمان تھا اور بت پرستی اور بتوں کے لئے قربانی سے متنفر تھے۔ روح المعانی میں موسیٰ بن عقبہ کی مغازی سے یہ روایت نقل کی ہے کہ عمر وبن نُفَیل جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعث سے پہلے آپ سے بھی ملے تھے مگر آپ کی بعث سے قبل ہی ان کا انتقال ہوگیا، اسی سال قریش نے بیت اللہ کی تعمیر کی تھی، یہ واقعہ آپ کی بعثت سے پانچ سال قبل کا ہے، ان کا حال موسیٰ بن عقبہ نے یہ نقل کیا ہے کہ قریش کو بت پرستی سے روکتے تھے اور بتوں کے نام پر قربانی کو برا سمجھتے تھے، اور مشرکین کا ذبیحہ نہیں کھاتے تھے۔ اسی طرح ورقہ بن نوفل جو آپکے زمانۂ شروع ہونے اور نزول قرآن کے وقت موجود تھے، توحید پر قائم تھے اور انہوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کرنے کا اپنا عزم ظاہر کیا تھا مگر جلدی ہی انکا انتقال ہوگیا
فی۔۔۔ تعدون یعنی اس دن کی مقدار تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال ہوگی، اور سورة معارج میں فرمایا گیا فی یوم کان مقدارہٗ خمسین الف سنَۃٍ یعنی اس دن کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی، اس ایک اور پچاس کے فرق کی توجیہ، تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان دیکھ لی جائے، ایک سیدھا سا جواب وہ ہے جو بیان القرآن میں اختیار کیا گیا ہے، کہ اس دن کے ہولناک ہونے کے سبب یہ لوگوں کو بہت دراز معلوم ہوگا، اور یہ درازی اپنے ایمان کے اعتبار سے جو بڑے مجرم ہوں گے ان کو زیادہ اور جو کم ہیں ان کو کم محسوس ہوگی، یہاں تک کہ بعض لوگوں کو یہ دن ایک ہزار سال اور دوسروں کو وہی دن پچاس ہزار سال کا معلوم ہوگا، حتی کہ مومنین صالحین کو وہی دن ایک فرض نماز کے بقدر معلوم ہوگا، روح المانی میں اور بھی متعدد توجیہات بیان کی گئی ہیں مگر سب کی سب قیاسات اور تخمینات کے قبیل سے ہیں، ایسی چیز جس کو قرآن کا مدلول کہا جاسکے نہیں اس لئے اسلم اور بہتر طریقہ وہی ہے جو سلف صالحین اور صحابہ و تا بعین نے اختیار کیا ہے کہ اس ایک اور پچاس کے فرق کو علم الہٰی کے حوالہ کیا جائے، اور واللہ اعلم کہنے پر اکتفا کیا جائے، حضرت ابن عباس (رض) سے اسی قسم کا قول منقول ہے۔
الذی۔۔۔ خلقہ یعنی جو چیز بھی اللہ نے بنائی ہے چونکہ وہ اس کی حکمت اور مصلحت کے اقتضاء کے مطابق ہے، اس لئے اس میں اپنا ایک حسن اور انفرادیت ہے اس اعتبار سے اس کی ہر بنائی ہوئی اَحْسَنِ تقویم دیگر مخلوقات خواہ بظاہر کتنی ہی بری سمجھی جاتی ہوں، مثلاً کتا، خنزیر، سانپ، بچھو وغیرہ مگر مجموعہ عالم کے مصالح کے لحاظ سے ان میں کوئی برا نہیں۔
وبدا۔۔۔ طین اوپر بیان فرمایا کہ کار جانۂ عالم میں یوں تو ہر چیز حسین ہے مگر انسان سب سے زیادہ حسین اور بہتر ہے مگر یہ اس لئے نہیں کہ انسان کا مادہ جس سے انسان کو بنایا گیا ہے، وہ سب سے بہتر تھا اس لئے انسان سب سے زیادہ بہتر ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا مادۂ تخلیق سب سے کمتر یعنی مٹی یا منی ہے، اول انسان، آدم کو مٹی سے پیدا فرمایا جو عناصر اربعہ میں کمتر ہے اور دیگر انسانی ذریت کو مادہ منویہ سے پیدا فرمایا جو کہ کمتر اور ناپاک بھی ہے۔
قل۔۔۔ بکم اس سے سابقہ آیت میں منکرین قیامت کو تنبیہ اور ان کے استعجاب کا جواب تھا کہ مرنے اور مٹی ہوجانے کے بعد دوبارہ کس طرح زندہ ہوں گے ؟ اس آیت میں اس بات کا بیان ہے کہ انسان کو موت خودبخود نہیں آتی بلکہ ہر ذی روح کی موت کا ایک وقت مقرر ہے اور اس کے لئے حضرت عزرائیل (علیہ السلام) کی زیر قیادت فرشتوں کا ایک نظام قائم ہے، جس کی جس وقت اور جس جگہ موت مقرر ہے اسی جگہ اور اسی وقت اسکی روح قبض کرلی جاتی ہے، اسمیں ” ملک الموت “ بلفظ مفرد ذکر کیا گیا ہے اس سے حضرت عزرائیل (علیہ السلام) مراد ہیں، اور ایک دوسری آیت میں بلفظ جمع ذکر کیا گیا ہے الذین تتوفّٰھم الملٰئکۃ اس میں اشارہ ہے کہ قبض روح کی خدمت تنہا حضرت عزرائیل انجام نہیں دیتے انکے ماتحت بہت سے فرشتے شریک جار ہیں
10 Tafsir as-Saadi
الم
11 Mufti Taqi Usmani
Alif-Laam-Meem