الاحزاب آية ۵۹
يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۤءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۗ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا
طاہر القادری:
اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے،
English Sahih:
O Prophet, tell your wives and your daughters and the women of the believers to bring down over themselves [part] of their outer garments. That is more suitable that they will be known and not be abused. And ever is Allah Forgiving and Merciful.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے نبی! اپنی بیبیوں اور صاحبزادیو ں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے،
3 Ahmed Ali
اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈالا کریں یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکایا کریں۔ (۱) اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی (۲) اور اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے۔
۵۹۔۱جلابیب، جلباب کی جمع ہے جو ایسی بڑی چادر کو کہتے ہیں جس سے پورا بدن ڈھک جائے اپنے اوپر چادر لٹکانے سے مراد اپنے چہرے پر اس طرح گھونگٹ نکالنا ہے کہ جس سے چہرے کا بیشتر حصہ بھی چھپ جائے اور نظریں جھکا کر چلنے سے اسے راستہ بھی نظر آتا جائے پاک وہند یا دیگر اسلامی ممالک میں برقعے کی جو مختلف صورتیں ہیں عہد رسالت میں یہ برقعے عام نہیں تھے پھر بعد میں معاشرت میں وہ سادگی نہیں رہی جو عہد رسالت اور صحابہ وتابعین کے دور میں تھی عورتیں نہایت سادہ لباس پہنتی تھیں بناؤ سنگھار اور زیب وزینت کے اظہار کا کوئی جذبہ ان کے اندر نہیں ہوتا تھا اس لیے ایک بڑی چادر سے بھی پردے کے تقاضے پورے ہوجاتے تھے لیکن بعد میں یہ سادگی نہیں رہی اس کی جگہ تجمل اور زینت نے لے لی اور عورتوں کے اندر زرق برق لباس اور زیورات کی نمائش عام ہوگئی جس کی وجہ سے چادر سے پردہ کرنا مشکل ہوگیا اور اس کی جگہ مختلف انداز کے برقعے عام ہوگئے گو اس سے بعض دفعہ عورت کو بالخصوص سخت گرمی میں کچھ دقت بھی محسوس ہوتی ہے لیکن یہ ذرا سی تکلیف شریعت کے تقاضوں کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہں رکھتی تاہم جو عورت برقعے کے بجائے پردے کے لیے بڑی چادر استعمال کرتی ہے اور پورے بدن کو ڈھانکتی اور چہرے پر صحیح معنوں میں گھونگٹ نکالتی ہے وہ یقینا پردے کے حکم کو بجالاتی ہے کیونکہ برقعہ ایسی لازمی شئی نہیں ہے جسے شریعت نے پردے کے لیے لازمی قرار دیا ہو لیکن آج کل عورتوں نے چادر کو بےپردگی اختیار کرنے کا ذریعہ بنالیا ہے پہلے وہ برقعے کی جگہ چادر اوڑھنا شروع کرتی ہیں پھر چادر بھی غائب ہوجاتی ہے صرف دوپٹہ رہ جاتا ہے اور بعض عورتوں کے لیے اس کا لینا بھی گراں ہوتا ہے۔ صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ اب برقع کا استعمال ہی صحیح ہے کیونکہ جب سے برقعے کی جگہ چادر نے لے لی ہے بےپردگی عام ہوگئ ہے بلکہ عورتیں نیم برہنگی پر بھی فخر کرنے لگی ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون بہرحال اس آیت میں نبی کی بیویوں، بیٹیوں اور عام مومن عورتوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت پردے کا حکم دیا گیا جس سے واضح ہے کہ پردے کا حکم علماء کا ایجاد کردہ نہیں ہے جیسا کہ آج کل بعض لوگ باور کراتے ہیں یا اس کو قرار واقعی اہمیت نہیں دیتے بلکہ یہ اللہ کا حکم ہے جو قرآن کریم کی نص سے ثابت ہے۔ اس سے اعراض، انکار اور بےپردگی پر اصرار کفر تک پہنچا سکتا ہے دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ نبی کی ایک بیٹی نہیں تھی جیسا کہ رافضیوں کا عقیدہ ہے بلکہ آپ کی ایک سے زائد بیٹیاں تھیں جیسا کہ نص قرآنی سے واضح ہے اور یہ چار تھیں جیسا کہ تاریخ و سیرت اور احادیث کی کتابوں سے ثابت ہے۔
٥٩۔۲ یہ پردے کی حکمت اور اس کے فائدے کا بیان ہے کہ اس سے ایک شریف زادی اور باحیا عورت اور بےشرم اور بدکار عورت کے درمیان پہچان ہوگی۔ پردے سے معلوم ہوگا کہ یہ خاندانی عورت ہے جس سے چھیڑ خانی کی جرات کسی کو نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس بےپردہ عورت اوباشوں کی نگاہوں کا مرکز اور ان کی ابو الہوسی کا نشانہ بنے گی
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے (مونہوں) پر چادر لٹکا (کر گھونگھٹ نکال) لیا کریں۔ یہ امر ان کے لئے موجب شناخت (وامتیاز) ہوگا تو کوئی ان کو ایذا نہ دے گا۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتیں سے کہہ دو کہ وه اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں، اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی، اور اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے نبی(ص)! آپ اپنی بیویوں، بیٹیوں اور (عام) اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ (باہر نکلتے وقت) اپنے اوپر چادر (بطور گھونگھٹ) لٹکا لیا کریں یہ طریقہ قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے پیغمبر آپ اپنی بیویوں, بیٹیوں, اور مومنین کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی چادر کو اپنے اوپر لٹکائے رہا کریں کہ یہ طریقہ ان کی شناخت یا شرافت سے قریب تر ہے اور اس طرح ان کو اذیت نہ دی جائے گی اور خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے
9 Tafsir Jalalayn
اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے (مونہوں) پر چادر لٹکا کر (گھونگھٹ نکال) لیا کریں یہ امر ان کے لئے موجب شناخت (وامتیاز) ہوگا تو کوئی انکو ایذا نہ دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
آیت نمبر 59 تا 68
ترجمہ : اے نبی اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور (دیگر) مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ (سر سے) نیچے کرلیا کریں اپنے اوپر تھوڑی سی چادریں (یعنی گونگھٹ کرلیا کریں) جَلَابِیْبْ ، جِلْبَابٌ کی جمع ہے، مِلْحَفَۃٌ اس چادر کو کہتے ہیں جس کو عورت اوڑھتی ہے، یعنی جب اپنی حاجت کے لئے نکلا کریں تو چادر کے کچھ حصے کو اپنے چہروں پر لٹکالیا کریں، سوائے ایک آنکھ کے، یہ اس طریقہ سے جلدی پہچان لی جاتا کریں گی کہ یہ آزاد عورتیں ہیں، تو ان کو چھیڑ چھاڑ کیا کرتے تھے، بےپردگی کے بارے میں ان سے جو کچھ اب تک (کوتاہی) ہوچکی ہے اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرمانے والے ہیں جبکہ وہ ستر کو اختیار کرلیں، قسم ہے لئن میں لام قسمیہ ہے، اگر یہ منافقین اپنے نفاق سے اور وہ تمہارے کے دلوں میں زنا کا مرض اور وہ لوگ جو مدینہ یعنی مومنین میں یہ کہہ کر افواہیں پھیلاتے ہیں کہ تم پر دشمن چڑھ آیا اور تمہارا لشکر قتل کردیا گیا یا شکست کھا گیا، باز نہ آئے، تو ہم آپ ان پر ضرور مسلط کردیں گے اس کے بعد وہ آپ کے پڑوس مدینہ میں سکونت اختیار نہ کرسکیں گے مگر بہت مختصر مدت پھر وہ نکالدیئے جائیں گے حال یہ ہے کہ وہ تیری طرف سے دھتکارے ہوئے ہوں گے، (یعنی) رحمت سے دور کئے ہوئے ہوں گے، جہاں کہیں ملیں گے پکڑے جائیں گے اور مار دھاڑ کی جائے گی یعنی یہ حکم ان کے بارے میں امر خداوندی کی رو سے ہے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں میں بھی جو سابق میں گذر چکے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے امم ماضیہ میں بھی مومنین میں افواہیں پھیلانے والے منافقوں کے لئے یہی طریقہ رکھا تھام اور آپ اللہ کے دستور میں کسی قسم کی تبدیلی نہ پائیں گے لوگ یعنی اہل مکہ آپ سے قیامت کے بارے میں معلوم کرتے ہیں کہ کب آئے گی ؟ تو آپ کہہ دیجئے کہ اس کا (صحیح) علم تو اللہ ہی کو ہے اور آپ کو کیا معلوم ؟ یعنی آپ اس کے بارے میں نہیں جانتے، عجب نہیں کہ قیامت قریب ہی واقع ہوجائے بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے کافروں سے دور کررکھا ہے اور ان کے لئے شدید بھڑکتی ہوئی آگ تیار کررکھی ہے جس میں وہ داخل ہوں گے اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے یعنی ان کے لئے خلود مقدر ہوچکا ہے نہ کوئی یار پائیں گے کہ ان کی آگ سے حفاظت کرسکے اور نہ مدگار کہ ان سے اس آگ کو دفع کرسکے جس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے (تو حسرت سے) کہیں گے کاش ہم اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے یا تنبیہ کے لئے ہے اور ان میں سے متبعین کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنے سرداروں کی اور ایک قراءت میں ساداتنا جمع کے ساتھ ہے اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی سو انہوں نے ہم کو راہ ہدایت سے ہٹا دیا اے ہمارے پروردگار ان کو دوہرا عذاب دے یعنی ہمارے عذاب کا دگنا، اور ان پر تعداد میں کثرت سے لغت فرما اور ایک قراءت میں بائے موحدہ کے ساتھ ہے یعنی (کبیرا ہے) بڑی لعنت۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : یُذْنِینَ اِدْناء سے مضارع جمع مؤنث غائب، وہ نیچا کرلیا کریں، مادہ دنُوٌّ ہے یُدْنِیْنَ میں یہ بھی احتمال ہے کہ قول کا مقولہ ہو اور خبر بمعنی امر ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ جواب امر ہو، جیسا کہ قُل لعبادی الذین آمنو ایقیموا الصلوٰۃ .
قولہ : لاَ یُؤْذَیْنَ اِیذاءٌ سے مضارع جمع مؤنث غائب منفی مجہول، ان عورتوں کو ایذاء نہ دی جائے۔
قولہ : اَلْمُرْ جِفُوْنَ یہ اِرْجَافٌ سے اسم فاعل ہے رَجْفَۃٌ سے مشتق ہے اس کے معنی حرکت دینے کے ہیں اخبار کا ذبہ اور افواہوں کو بھی رجفَۃٌ کہنے لگے ہیں، اس لئے کہ افواہوں سے بھی افراتفری اور ہیجان برپا ہوجاتا ہے۔
قولہ : ملْعُونینَ فعل مقدر کے فاعل سے حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ای یُخْرَجُوْنَ ملعونین، شارح (رح) تعالیٰ نے یّخرجون محذوف مان کر اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ : ومَا یُدْرِیْکَ مامبتداء اور یُدْرِیْکَ جملہ ہو کر خبر، استفہام انکاری ہے، شارح نے انت لا تعلمھا سے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ : یقولونَ یا لَیْتَنَا جملہ مستانفہ سوال مقدر کا جواب ہے کو کہ کلام سابق سے پیدا ہوتا ہے، سابق میں جب جہنمیوں کی حالت زار کا ذکر کیا گیا تو سوال پیدا ہوا کہ وہ کیا کریں گے ؟ تو بتایا گیا مافات پر حسرت کے طور پر کہیں گے یَالَیْتَنَا اور وُجُوْھُھُمْ کی ضمیر یا نفس وجوہ سے حال بھی ہوسکتا ہے۔
تفسیر وتشریح
اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں بیٹیوں اور عام مومن عورتوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت پردے کا حکم دیا گیا ہے، جس سے واضح ہے کہ پردے کا حکم علماء کا ایجاد کردہ نہیں ہے، جیسا کہ آج کل کے بعض جدید تعلیم یافتہ، باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں، یا اس کو قرار واقعی اہمیت نہیں دیتے، بلکہ یہ اللہ کا حکم ہے کہ جو قرآن کریم کی نص سے ثابت ہے، اس سے اعراض، انکار، اور بےپردگی پر اصرار کفر تک پہنچا سکتا ہے، نیز اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ضرورت ایک صاحبزادی نہیں تھی، جیسا کہ رافضیوں کا عقیدہ ہے بلکہ آپ کی ایک سے زائد بیٹیاں تھیں جیسا کہ قرآنی نص سے واضح ہے اور یہ چارتھیں جیسا کہ تاریخ و سیر اور احادیث کی کتابوں سے ثابت ہے۔
سابقہ آیات میں مسلمانوں کو ان چیزوں کی تنبیہ کی گئی تھی جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت اور تکلیف پہنچی تھی، مگر کچھ مسلمان نا واقفیت یا بےتوجہی کی وجہ سے بلا قصد ایذاء میں مبتلا ہوجاتے تھے، مثلاً آپ کے گھر پر بغیر دعوت کے پہنچ جانا، یا دعوت کے وقت سے بہت پہلے آکر بیٹھ جانا، یا کھانے کے بعد آپ کے گھر میں باہمی گفتگو میں مشغول ہو کر دیر تک بیٹھے رہنا، جن پر آیت یٰایُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَتَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ (الآیۃ) نازل ہوئی، یہ ایذاء اور تکلیف تو وہ تھی جو بلا قصدوارادہ آپ کو پہنچ جاتی تھی، اس پر صرف تنبیہ کردینا ہی کافی سمجھا گیا، مذکورۃ الصدر دو آیتوں میں اس تکلیف و ایذا کا ذکر ہے جو مخالفین اسلام اور منافقین کی طرف سے قصداً آپ کو پہنچائی جاتی تھی، اس بالقصد وبالا رادہ ایذاء پر اللہ تعالیٰ نے لعنت اور عذاب کی وعید سنائی ہے۔
اللہ کو ایذاء پہچانے سے مراد ایسے اعمال و اقوال کا ارتکاب ہے جو شرعاً ممنوع و حرام ہیں، اگرچہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اور ہر تاثر وانفعال سے منزہ ہے، کسی کی مجال نہیں کہ اس کو کوئی تکلیف پہنچا سکے، مگر ایسے افعال واقوال کا ارتکاب کہ جن سے عادۃ ایذاء ہوتی ہے، ان کو ایذاء اللہ سے تعبیر کردیا گیا ہے یا حوادث و مصائب کے وقت زمانہ کو برا زمانہ کہنا کہ درحقیقت فاعل حقیقی تو حق تعالیٰ ہی ہیں، یہ لوگ تو زمانہ کو فاعل سمجھ کر گالیاں دیتے تھے مگر درحقیقت وہ فاعل حقیقی تک پہنچی تھیں۔ اور دیگر بعض ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ دراصل مقصد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذاء سے روکنا اور اس پر وعید کرنا ہے مگر آیت میں ایذاء رسول کو ایذاء حق کے عنوان سے تعبیر کردیا گیا، کیونکہ آپ کو ایذاء پہنچانا درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کو ایذاء پہنچانا ہے، اور قرآن کے سیاق وسباق سے بھی اسی دوسرے قول کی ترجیح معلوم ہوتی ہے، کیونکہ پہلے بھی ایذاء رسول کا بیان تھا اور اگے بھی اسی کا بیان آرہا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذاء کا اللہ تعالیٰ کے لئے ایذاء ہونا حضرت عبدالرحمٰن بن مغفل مزنی (رض) کی روایت سے ثابت ہے۔
قَالَ رسُولُ اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ اللہ فِی اَصْحَابِی لَا تَتَّخِذُوْھُمْ غَرَضًا مِنْ بعدِیْ آذی اللہ وَمَنْ آذی اللہ یُوشِکُ اَنْ یَّاخُذَ.(ترمذی شریف)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو ان کو میرے بعد اپنے اعتراضات و تنقیدات کا نشانہ نہ بناؤ کیونکہ ان سے جس نے محبت کی میری محبت کی وجہ سے کی، اور جس نے بغض رکھا میرے بغض کی وجہ سے رکھا، اور جس نے ان کو ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذاء پہنچائی اور جس نے مجھے ایذاء دی اس نے اللہ کو ایذاء دی اور جس نے اللہ کو ایذاء دی تو قریب ہے کہ اللہ اس سے گرفت کرے گا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذاء سے اللہ کو ایذاء ہوتی ہے، اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرام میں سے کسی کو ایذاء پہنچانا یا ان کی شان میں گستاخی کرنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذاء ہے۔
شان نزول : اس آیت کے شان نزول کے متعلق متعدد روایات ہیں، بعض میں ہے کہ یہ آیت حضرت صدیقہ کو تہمت لگانے کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صفیہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح کے وقت بعض منافقین نے طعن کیا تھا اس کے متعلق نازل ہوئی مگر صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت ہر ایسے معاملہ کے متعلق نازل ہوئی ہے جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت پہنچے۔
مسئلہ : جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی طرح کی ایذاء پہنچائے، آپ کی ذات باصفات میں کوئی عیب نکالے خواہ صراحتاً ہو یا کنایۃً وہ کافر ہوگیا، اور اس آیت کی رو سے اس پر لعنت دنیا میں بھی ہوگی اور آخرت میں بھی۔ (کذاقال القاضی ثناء اللہ فی التفسیر المظھری)
دوسری آیت میں عام مومنین کو ایذاء پہنچانے کے حرام اور بہتان عظیم ہونے کو بیان کیا ہے جبکہ وہ اس کے شرعاً مستحق نہ ہوں، کسی مسلمان کو بغیر وجہ شرعی تکلیف پہنچانا حرام ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اس آیت کریمہ کو ” آیت حجاب“ سے موسوم کیا گیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ تمام عورتوں کو عمومی طور پر پردے کا حکم دیں اور اس کی ابتدا اپنی ازواج مطہرات اور اپنی بیٹیوں سے کریں کیونکہ دوسروں کی نسبت، ان کے لئے یہ حکم زیادہ مؤکد ہے، نیز کسی معاملے میں دوسروں کو حکم دینے والے کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ اپنے گھر سے ابتدا کرے جیسا کہ فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا﴾(التحریم :66؍6) ” اے مومنو ! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کی آگ سے بچاؤ۔“
اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ﴿يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ﴾ ” وہ اپنی چادریں اوڑھ کر گھونگٹ نکال لیا کریں۔“ (جِلبْاَب) وہ کپڑا ہے جو عام لباس کے اوپر اوڑھ لیا جاتا ہے مثلاً دوپٹا، اوڑھنی اور چادر وغیرہ، یعنی چادر وغیرہ سے اپنے چہروں اور سینوں کو ڈھانپ لیا کریں، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا :
﴿ذٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ﴾ ” یہ امر ان کے لئے موجب شناخت ہوگا تو کوئی ان کو ایذا نہیں دے گا۔“ آیت کریمہ کا یہ جملہ عدم حجاب کی صورت میں وجود اذیت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اگر وہ پردہ نہیں کریں گی تو بسا اوقات ان کے بارے میں کوئی شخص اس وہم میں مبتلا ہوسکتا ہے کہ یہ پاک باز عورتیں نہیں ہیں اور کوئی بدکردار شخص، جس کے دل میں مرض ہے، آگے بڑھ کر تعرض کر کے ان کو تکلیف پہنچا سکتا ہے۔ ان کی اہانت بھی ہوسکتی ہے۔ شرارت پسند شخص ان کو لونڈیاں سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ برا سلوک کرسکتا ہے، اس لئے حجاب بدطینت لوگوں کی لالچ بھری نظروں سے بچاتا ہے۔
﴿وَكَانَ اللّٰـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴾ ” اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔“ اس نے تمہارے گزشتہ گناہ بخش دیئے اور تم پر رحم فرمایا کہ اس نے تمہارے لئے احکام بیان فرمائے، حلال اور حرام کو واضح کیا۔ یہ عورتوں کی جہت سے برائی کا سدباب ہے۔ رہا شریر لوگوں کے شرکا سدباب، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا :
11 Mufti Taqi Usmani
aey nabi ! tum apni biwiyon , apni betiyon aur musalmanon ki aurton say keh do kay woh apni chadaren apney ( mun kay ) oopper jhuka liya keren . iss tareeqay mein iss baat ki ziyada tawaqqo hai kay woh pehchan li jayen gi , to unn ko sataya nahi jaye ga . aur Allah boht bakhshney wala , bara meharban hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل کون ؟
اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تسلیما کو فرماتا ہے کہ آپ مومن عورتوں سے فرما دیں بالخصوص اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں سے کیونکہ وہ تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل ہیں کہ وہ اپنی چادریں قدریں لٹکالیا کریں تاکہ جاہلیت کی عورتوں سے ممتاز ہوجائیں اسی طرح لونڈیوں سے بھی آزاد عورتوں کی پہچان ہوجائے۔ جلباب اس چادر کو کہتے ہیں جو عورتیں اپنی دوپٹیا کے اوپر ڈالتی ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ مسلمان عورتوں کو حکم دیتا ہے کہ جب وہ اپنے کسی کام کاج کیلئے باہر نکلیں تو جو چادر وہ اوڑھتی ہیں اسے سر پر سے جھکا کر منہ ڈھک لیا کریں، صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں۔ امام محمد بن سیرین (رح) کے سوال پر حضرت عبیدہ سلمانی (رح) نے اپنا چہرہ اور سر ڈھانک کر اور بائیں آنکھ کھلی رکھ کر بتادیا کہ یہ مطلب اس آیت کا ہے۔ حضرت عکرمہ (رح) کا قول ہے کہ اپنی چادر سے اپنا گلا تک ڈھانپ لے۔ حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں اس آیت کے اترنے کے بعد انصار کی عورتیں جب نکلتی تھیں تو اس طرح لکی چھپی چلتی تھیں گویا ان کے سروں پر پرند ہیں سیاہ چادریں اپنے اوپر ڈال لیا کرتی تھیں۔ حضرت زہری سے سوال ہوا کہ کیا لونڈیاں بھی چادر اوڑھیں ؟ خواہ خاوندوں والیاں ہوں یا بےخاوند کی ہوں ؟ فرمایا دوپٹیا تو ضرور اوڑھیں اگر وہ خاوندوں والیاں ہوں اور چادر نہ اوڑھیں تاکہ ان میں اور آزاد عورتوں میں فرق رہے حضرت سفیان ثوری سے منقول ہے کہ ذمی کافروں کی عورتوں کی زینت کا دیکھنا صرف خوف زنا کی وجہ سے ممنوع ہے نہ کہ ان کی حرمت و عزت کی وجہ سے کیونکہ آیت میں مومنوں کی عورتوں کا ذکر ہے۔ چادر کا لٹکانا چونکہ علامت ہے آزاد پاک دامن عورتوں کی اس لئے یہ چادر کے لٹکانے سے پہچان لی جائیں گی کہ یہ نہ واہی عورتیں ہیں نہ لونڈیاں ہیں۔ سدی کا قول ہے کہ فاسق لوگ اندھیری راتوں میں راستے سے گزرنے والی عورتوں پر آوازے کستے تھے اس لئے یہ نشان ہوگیا کہ گھر گر ہست عورتوں اور لونڈیوں بانڈیوں وغیرہ میں تمیز ہوجائے اور ان پاک دامن عورتوں پر کوئی لب نہ ہلاسکے۔ پھر فرمایا کہ جاہلیت کے زمانے میں جو بےپردگی کی رسم تھی جب تم اللہ کے اس حکم کے عامل بن جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمام اگلی خطاؤں سے درگزر فرمالے گا اور تم پر مہر و کرم کرے گا، پھر فرماتا ہے کہ اگر منافق لوگ اور بدکار اور جھوٹی افواہیں دشمنوں کی چڑھائی وغیرہ کی اڑانے والے اب بھی باز نہ آئے اور حق کے طرفدار نہ ہوئے تو ہم اے نبی تجھے ان پر غالب اور مسلط کردیں گے۔ پھر تو وہ مدینے میں ٹھہر ہی نہیں سکیں گے۔ بہت جلد تباہ کردیے جائیں گے اور جو کچھ دن ان کے مدینے کی اقامت سے گزریں گے وہ بھی لعنت و پھٹکار میں ذلت اور مار میں گزریں گے۔ ہر طرف سے دھتکارے جائیں گے، راندہ درگاہ ہوجائیں گے، جہاں جائیں گے گرفتار کئے جائیں گے اور بری طرح قتل کئے جائیں گے۔ ایسے کفار و منافقین پر جبکہ وہ اپنی سرکشی سے باز نہ آئیں مسلمانوں کو غلبہ دینا ہماری قدیمی سنت ہے جس میں نہ کبھی تغیر و تبدل ہوا نہ اب ہو۔