الزمر آية ۱
تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ
طاہر القادری:
اس کتاب کا اتارا جانا اﷲ کی طرف سے ہے جو بڑی عزت والا، بڑی حکمت والا ہے،
English Sahih:
The revelation of the Book [i.e., the Quran] is from Allah, the Exalted in Might, the Wise.
1 Abul A'ala Maududi
اِس کتاب کا نزول اللہ زبردست اور دانا کی طرف سے ہے
2 Ahmed Raza Khan
کتاب اتارنا ہے اللہ عزت و حکمت والے کی طرف سے،
3 Ahmed Ali
یہ کتاب الله کی طرف سے نازل کی گئی ہے جو غالب حکمت والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اس کتاب کا اتارنا اللہ تعالٰی غالب با حکمت کی طرف سے ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اس کتاب کا اُتارا جانا خدائے غالب (اور) حکمت والے کی طرف سے ہے
6 Muhammad Junagarhi
اس کتاب کا اتارنا اللہ تعالیٰ غالب باحکمت کی طرف سے ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
یہ کتاب (قرآن) اس خدا کی طرف سے نازل کی گئی ہے جو (سب پر) غالب ہے (اور) بڑا حکمت والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہ صاحبِ عزت و حکمت خدا کی نازل کی ہوئی کتاب ہے
9 Tafsir Jalalayn
اس کتاب کا اتارا جانا خدائے غالب (اور) حکمت والے کی طرف سے ہے
آیت نمبر 1 تا 9
ترجمہ : شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے یہ کتاب یعنی قرآن اپنے ملک میں غالب اپنی صنعت میں حکمت والے اللہ کی طرف سے نازل کی ہوئی ہے القرآن مبتداء اور منَ اللہ اس کی خبر ہے، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یقیناً ہم نے اس کتاب کو آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے (بالحق) انزَلنا، سے متعلق ہے، سو آپ شرک سے خالص اعتقاد کے ساتھ (یعنی) توحید کا اعتقاد رکھتے ہوئے اسی کی بندگی کرتے رہئے، یاد رکھو عبادت جو کہ خالص ہو اللہ ہی کے لئے سزاوار ہے، اس کے علاوہ اس کا کوئی مستحق نہیں، اور جن لوگوں نے اس کے سوا بتوں کو اولیاء بنا رکھا ہے اور وہ مکہ کے کافر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ہم کو خڈا کا مقرب بنادیں قُربیٰ تقریباً معنی میں مصدر کے ہے جس دینی امر کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے اور مسلمانوں کے درمیان (عملی) فیصلہ فرما دے گا، کہ مومنوں کو جنت میں اور کافروں کو دوزخ میں داخل کرے گا، اس کی طرف ولد کی نسبت کرنے میں جھوٹے (اور) غیر اللہ کی عبادت کرکے ناشکرے کو اللہ راہ نہیں دکھاتا اگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ اولاد ہی کا ہوتا، جیسا کہ (کفار) کہتے ہیں کہ اللہ کے اولاد ہے تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا چن لیتا (یعنی) اس کو اولاد بنا لیتا، ان کے علاوہ جن کے بارے میں (کفار) کہتے ہیں (یعنی یہ کہ) فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور عزیر اور مسیح علیہما السلام، اللہ کے بیٹے ہیں، وہ تو پاک ہے یعنی اولاد رکھنے سے وہ پاک ہے وہ ایسا اللہ ہے جو واحد ہے اپنی مخلوق پر زبردست ہے اس نے زمین و آسمان کو حکمت سے پیدا کیا (بالحَقِّ ) خلَقَ سے متعلق ہے وہ رات کو دن میں داخل کردیتا ہے جس سے دن بڑا ہوجاتا ہے اور دن کو رات میں داخل کردیتا ہے تو رات بڑی ہوجاتی ہے اس نے سورج اور چاند کو کام پر لگا رکھا ہے ہر ایک اپنے محور پر وقت مقرر (یعنی) قیامت کے دن تک چلتا رہے گا یقین مانو وہی اپنے امر پر غالب ہے اور اپنے دشمنوں سے انتقام لینے والا ہے اور اپنے اولیاء کو بخشنے والا ہے اس نے تم لوگوں کو تن واحد سے یعنی آدم سے پیدا کیا پھر اسی سے اس نے ھواء کو اس کا جوڑا بنایا اور تمہارے لئے چوپایوں میں (یعنی) اونٹ، گائے، بکری، بھیڑ، دنبے آٹھ جوڑے پیدا کئے، ہر ایک نر و مادہ کا جوڑا، جیسا کہ سورة انعام میں بیان کیا گیا ہے، وہ تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ میں ایک بناوٹ کے بعد دوسری بناوٹ پر بناتا ہے (یعنی اولاً ) نطفہ پھر علقہ پھر مضغہ تین تین تاریکیوں میں وہ پیٹ کی تاریکی اور رحم کی تاریکی اور جھلی کی تاریکی ہے یہ ہے اللہ تمہارا رب اسی کی سلطنت ہے اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں سو اس کی بندگی کو چھوڑ کر دوسروں کی بندگی کی طرف کہاں بہک رہے ہو، اگر تم کفر کرو گے یاد رکھو اللہ تمہارا محتاج نہیں اور وہ اپنے بندوں کے کفر کو پسند نہیں کرتا اگرچہ ان میں سے بعض سے اس (کفر) کا ارادہ کرے اور اگر تم اللہ کا شکر کرو گے کہ ایمان لے آؤ تو وہ اسے یعنی شکر کو تمہارے لئے پسند کرے گا (یرضَہُ ) میں ھاء کے سکون اور ضمہ کے ساتھ مع اشباع کے اور کوئی شخص کسی شخص کا بوجھ نہیں اٹھاتا پھر تم کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہوگا، سو وہ تمہارے سب اعمال بتادے گا جو تم کرتے تھے، وہ یقیناً دلوں تک کی باتوں سے واقف ہے اور انسان کافر کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ خوب رجوع ہو کر عاجزی کے ساتھ اپنے رب کو پکارتا ہے پھر جب اللہ تعالیٰ اس کو اپنے پاس سے نعمت یعنی انعام عطا فرما دیتا ہے تو اس سے پہلے جو دعاء کر رہا تھا اسے بالکل بھول جاتا ہے اور وہ اللہ ہے اور م۔ ا، مَن کی جگہ میں ہے اور خدا کے شریک بنانے لگتا ہے تاکہ اس کے راستہ یعنی دین اسلام سے بھٹک جائے (یا) بھٹکا دے (ی) کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ آپ فرما دیجئے کہ کفر کی بہار کچھ دن اور لوٹ لو، یعنی اپنی بقیہ زندگی (پھر آخر کار) تو دوزخیوں میں سے ہونے والا ہے بھلا جو شخص راتوں کے اوقات وظیفہ طاعت میں مشغول ہو کر رکوع اور سجدے یعنی نماز میں گزارتا ہو حال یہ ہے کہ وہ آخرت یعنی اس کے عذاب سے ڈر رہا ہو اور اپنے پروردگار کی رحمت، جنت کی امید بھی کر رہا ہو (أمنْ ) میں میم کی تخفیف کے ساتھ، اس شخص کے مانند ہوسکتا ہے کہ وہ کفر وغیرہ کے ذریعہ نافرمانی کرنے والا ہے اور ایک قراءت میں أم مَنْ ہے، اور أم بمعنی بَلْ اور ہمزہ ہے، آپ کہئے کہ (کہیں) علم والے اور بےعلم برابر ہوسکتے ہیں ؟ یعنی برابر نہیں ہوسکتے، جیسا کہ عالم اور جاہل برابر نہیں ہوسکتے یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل مند ہوں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
اس سورت کا نام سورة زمر ہے اُمَرْ ، زُمْرَۃٌ کی جمع ہے، اس کے معنی جماعت کے ہیں اس سورة کو سورة غُرَفْ بھی کہا جاتا ہے، یہ دونوں کلمے چونکہ اس سورت میں آئے ہیں اس لئے یہ اسم الکل باسم الجزء کے قبیل سے ہے، زُمر کا کلمہ وَسِیقَ الَّذِیْنَ کفروا اِلٰی جھنَّمَ زُمرًا اور وسیق الذین اتقوا ربھم الی الجنۃ زُمَرًا میں استعمال ہوا ہے، اور غُرَف کا کلمہ لَھُم غُرف مِن فَوقِھَا غُرفٌ میں استعمال ہوا ہے، یہ پوری سورت مکی ہے سوائے تین آیتوں کے یا عِبَادِیَ الذینَ اسرفُوا علیٰ انفُسِھِم سے تین آیتوں تک مدنی ہیں، اور بعض نے یہاں سے سات آیات تک مدنی کہا ہے۔
قولہ : تَنزِیلُ الکتاب، ھُوَ مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے ای ھُوَ تنزیل الکتاب اور کہا گیا ہے کہ مبتداء ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے اور کائنٌ جار مجرور سے متعلق ہو کر مبتداء کی خبر مقدر ہے ای تنزیل کائنٌ مِن اللہِ اور فرّاء اور کسائی نے فعل مقدر کی وجہ سے منصوب بھی کہا ہے ای اتَّبِعُوا تَنذِیْلَ الکتاب یا اقرَءُ واتَنزِیْلَ الکتاب اور فرّاء نے اغراء کے طور پر بھی نصب جائز کہا ہے ای الزَمُوا تنزیل الکتاب۔ (فتح القدیر شوکانی)
قولہ : مُخلَصًا، اُعْبُد کی ضمیر سے حال ہے۔
قولہ : زُلفٰی یہ یقربونَ کا مصدر بغیر لفظہٖ ہے، اصل میں یزلفون زلفیٰ ہے، انبتکم من الارض نباتاً کے مانند مصدر بغیر لفظہٖ ہے۔
قولہ : یُکوِّرُ ، تکویرًا سے بمعنی اللَّفُّ ، واللَّیُ بمعنی لپیٹنا یقال کار العمامۃَ علیٰ رآسَہٖ وکورھا دستار کو سر پر لپیٹا۔
قولہ : وان ارادہٗ من بعضھم یعنی اللہ اپنے بندے کے کفر سے راضی نہیں ہے اگرچہ کفر کا وجود اللہ کے ارادہ ہی سے ہے، اس لئے کہ ارادہ اور مشیئت خداوندی کے بغیر کسی شئ کا وجود نہیں ہوسکتا، اور ارادہ کیلئے رضا لازم نہیں ہے جیسے ناخواستہ کسی کام کے کرنے میں ارادہ تو ہوتا ہے مگر رضا مندی نہیں ہوتی۔
قولہ : یرضَہ ہا ضمیر کا مرجع شکر ہے، اگر تم اللہ کا شکر کرو گے تو وہ تمہارے شکر سے خوش ہوگا یَرضَہْ اصل میں یرضاہُ تھا، شرط کی جزاء ہونے کی وجہ سے الف ساقط ہوگیا یرضَہْ میں تین قراءتیں ہیں، ضمہ مع الاشباع یعنی (کھینچ کر) اور ضمہ بغیر الإشباع، اور ہا کے سکون کے ساتھ۔
قولہ : ای الشکرَ اس اضافہ کا مقصد یَرَضَہْ کی ضمیر مفعولی کا مرجع متعین کرنا ہے اور یرضَہٗ کا فاعل اللہ ہے۔
قولہ : خَوَّلَہٗ تخویل (تفعیل) سے ماضی واحد مذکر غائب، اس کو عطا کیا، مالک بنایا، منہُ کی ضمیر حق تعالیٰ کی طرف راجع ہے۔
قولہ : تَرَکَ ، نَسِیَ کی تفسیر ترک سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہاں نسیان کے لازم معنی مراد ہیں، ترک نسیان کیلئے لازم ہے، اور لازم معنی مراد لینے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ نسیان پر مؤاخذہ نہیں رُفِعَ عن امتی الخطاء والنسیان حدیث مشہور ہے۔
قولہ : ما کان یدعوا الیہ من قبلُ ، ما میں تین وجہ جائز ہیں (1) مَا موصولہ بمعنی الذی اور الذی سے مراد ضُرٌّ (تکلیف) ای نسی الضُّر الَّذِی کان یدعوا الیٰ کشفہٖ یعنی ہمارے اس پر انعام کرنے اور اس کی تکلیف کو دور کرنے کے بعد وہ اس تکلف کو بھول گیا، جس کے دور کرنے کی دعا کرتا تھا (2) ما بمعنی الذی، مراد باری تعالیٰ ، ای نسی الَّذِی کان یتضرعُ الیہِ یعنی تکلیف دور ہونے کے بعد اس ذات کو بھول گیا جس سے تکلف دور کرنے کی دعا کر رہا تھا، مگر یہ ان کے نزدیک درست ہے جو ما کا اطلاق ذوی العقول کیلئے جائز سمجھتے ہیں۔ (3) ما مصدریہ ہو ای نسی کونہٗ داعِیًا یعنی مصیبت کے دور ہونے کے بعد وہ یہ بھی بھول گیا کہ میں کسی وقت داعی تھا۔
قولہ : من قبل ای من قبل تخویل النعمۃ۔ قولہ : وھُوَ اللہُ مفسر علام نے اس عبارت سے اشارہ کردیا کہ اس کے نزدیک دوسری صورت پسندیدہ ہے۔
قولہ : قانتٌ، قُنُوتٌ سے اسم فاعل وظیفۂ طاعت کو ادا کرنے والا (اعراب القرآن) خشوع خضوع کرنے والا، اطاعت کرنے والا۔ (لغات القرآن) قولہ : اٰناءٌ یہ انیٰ کی جمع ہے بمعنی اوقات۔
قولہ : امَّن، اَمْ متصلہ بھی ہوسکتا ہے، اس کا مقابل محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے الکافرُ خیرٌ ام الذی ھو قانتٌ ہمزہ من موصولہ پر داخل ہے، میم کو میم میں ادغام کردیا گیا ہے، یا اَمْ منقطع ہے، اس کی تقدیر بَل اور ہمزہ کے ساتھ ہوگی ای بَلْ اَمَن ھو قانتٌ کغَیرہٖ ؟ اور تخفیف کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، اس صورت میں ہمزہ استفہام انکاری ہوگا۔
قولہ : کمن ھُو عاصٍ بکفرہٖ وغیرہٖ سے شارح کا مقصد اَمْ من ھو قانتٌ کے معادل کو بیان کرنا ہے۔
تفسیر و تشریح
سورة زمر کے فضائل : امام نسائی (رح) نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت بیان کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
جب روزہ رکھتے تو اس کثرت اور تسلسل کے ساتھ رکھتے کہ ہم یہ خیال کرتے کہ شاید اب آپ کبھی افطار نہ کریں گے، اور جب آپ افطار فرماتے تو اس قدر تسلسل کے ساتھ افطار فرماتے کہ ہم خیال کرتے کہ شاید اب آپ کبھی روزہ نہ رکھیں گے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزانہ ہر شب کو سورة بنی اسرائیل اور سورة زمرتلاوت فرماتے، اور یہ امام ترمذی نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے کَانَ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لایَنَامُ حتّٰی یقرأ الزُمر و بنی اسرائیل یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تک نہ سوتے جب تک کہ سورة زمر اور سورة بنی اسرائیل تلاوت نہ فرما لیتے۔ (فتح القدیر شوکانی)
اعمال میں اخلاص کا مقام : فاعبد اللہ۔۔۔۔۔ الخالص یہاں دین کے معنی عبادت وطاعت کے ہیں جو تمام احکام دینیہ کو شامل ہیں، اس سے پہلے جملہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی عبادت وطاعت خالص اسی کے لئے کریں، جس میں شرک یار یاء و نمود کا شائبہ بھی نہ ہو، ابن مردویہ نے یزید الرقاشی سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا، یا رسول اللہ ہم اپنے اموال کو (راہ خدا میں) شہرت و ثنا کیلئے دیتے ہیں تو کیا ہمیں اس کا اجر ملے گا ؟ آپ نے فرمایا لاَ ! عرض کیا کہ ہم اگر اجر (ثواب) اور ذکر (نام آوری) کیلئے دیں تو کیا ہمیں اس کا اجر ملے گا ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انَّ اللہ لا یقبل الاَّ ما اخلص لہٗ اللہ تعالیٰ اسی عمل کو قبول فرماتے ہیں جو خالص اسی کیلئے ہو پھر آپ نے مذکورہ آیت تلاوت فرمائی۔ (فتح القدیر شوکانی)
حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں بعض اوقات کوئی صدقہ خیرات کرتا ہوں یا کسی پر احسان کرتا ہوں، جس میں میری نیت رضا جوئی کی بھی ہوتی ہے اور یہ بھی کہ لوگ میری تعریف کریں گے، آپ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسی چیز کو قبول نہیں فرماتے جس میں کسی غیر کو شریک کیا گیا ہو، پھر آپ نے آیت مذکورہ بطور استدلال کے تلاوت فرمائی الا للہ الدینُ الخالص (قرطبی)
اعمال کی مقبولیت کا دار و مدار اخلاص پر ہے نہ کہ تعداد پر : متعدد قرآنی آیات اس پر شاہد ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اعمال کا حساب گنتی سے نہیں بلکہ وزن سے ہوگا، حق تعالیٰ نے فرمایا ونَضَعُ الموازِیْنَ القِسطَ لِیَومِ القیامۃِ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں حساب گنتی اور شمار سے نہیں بلکہ وزن و مقدار سے ہوگا اور وزن، اعمال میں اخلاص سے پیدا ہوتا ہے، صحابہ کرام جو کہ مسلمانوں کی صفت اول ہیں، ان میں سے اکثر کے اعمال و ریاضیات کی تعداد گنتی اور شمار کے اعتبار سے کچھ زیادہ نظر نہ آئے گی، مگر اس کے باوجود ان کا ادنیٰ عمل باقی امت کے بڑے بڑے اعمال سے فائق ہونے کی وجہ ان کا کمال ایمان اور کمال اخلاص ہی تو ہے۔
والذین اتخذوا من دونہ اولیاءَ (الآیۃ) اہل مکہ اور تقریباً تمام اہل عرب کا عقیدہ تو یہی تھا کہ تمام کائنات کا مالک اور زمین و آسمان کا خلاق اور تمام کاموں میں متصرف صرف خدا ہی کی ذات ہے مگر اس کے باوجود انہوں نے کچھ دیوی دیوتاؤں اور فرشتوں کے بت تراش رکھے تھے، ان کی بندگی اور نذر و نیاز کرتے تھے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ خدا تعالیٰ ہی کو مالک کون و مکان اور خالق زمین و آسمان مانتے تھے تو پھر وہ ان بتوں کی بندگی کیوں کرتے تھے ؟ ان سے جب یہ سوال کیا جاتا تھا تو وہ یہی جواب دیتے تھے جو قرآن نے یہاں نقل کیا ہے، ما نعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفیٰ ہم ان بتوں کی بندگی محض اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے ذریعہ ہمیں اللہ کا قرب حاصل ہوجائے، یا اللہ کے حضور ہماری سفارش کردیں، یہ حضرات اس بات کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھے کہ ہم شرک کر رہے ہیں یا ہمارا یہ عمل شرک ہے آج بھی جو حضرات قبر پرستی اور مزار پرستی میں مبتلا ہیں اور رات دن قبروں پر نذر و نیاز کے علاوہ سجدہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، اپنے ان اعمال کو شرک ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ہی فیصلہ فرمائے گا، اور اسی کے مطابق جزاء و سزا دے گا۔
لو اراد اللہ۔۔۔۔ ما یَشَاءُ (الآیۃ) یہ ان لوگوں پر رد ہے جو فرشتوں کو اللہ کی اولاد کہتے تھے، ان کے اس باطل اور محال خیال کو بطور فرض محال کے فرمایا اگر اس کو اولاد بنانا ہی تھا تو لڑکیوں ہی کو کیوں اولاد بنایا ؟ جیسا کہ مشرکین کا عقیدہ تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں، بلکہ وہ اپنی مخلوق میں سے جس کو پسند کرتا وہ اس کی اولاد ہوتی، نہ کہ وہ جن کو وہ باور کراتے ہیں، لیکن وہ تو والد وولد کے نقص ہی سے پاک ہے لم یلد ولم یولد اس کی خاص صفت ہے۔ (ابن کثیر تلخیصا وترمیما)
یُکورُ اللیل علی النھار ” تکویر “ کے معنی ایک شئ کو دوسری پر ڈال کر چھپا دینے کے ہیں، قرآن کریم نے دن اور رات کے انقلاب کو یہاں عام نظروں کے اعتبار سے لفظ تکویر سے تعبیر کیا ہے رات آتی ہے تو گویا دن کی روشنی پر ایک پردہ ڈال دیا گیا، اور جب دن آتا ہے تو رات کی تاریکی پردہ میں چلی جاتی ہے۔
چاند اور سورج متحرک ہیں : کل یجری لاجل مسمی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شمس و قمر، دونوں حرکت کرتے ہیں، فلکیات اور طبقات الارض کی مادی تحقیقات قرآن پاک یا کسی آسمانی کتاب کا موضوع بحث نہیں ہوتا، مگر اس معاملہ میں جتنی بات کہیں ضمناً آجاتی ہے اس پر یقین رکھنا فرض ہے، فلاسفہ کی قدیم و جدید تحقیقات تو موم کی ناک ہیں روز بدلتی رہتی ہیں، قرآنی حقائق غیر متبدل ہیں آیت مذکور سے یہ بات معلوم ہوئی کہ شمس و قمر دونوں حرکت میں ہیں، اس پر یقین رکھنا فرض ہے نہ اس میں شک کرنے کی گنجائش اور نہ تاویل کی ضرورت، اب رہا یہ معاملہ کہ ہمارے سامنے آفتاب کا طلوع و غروب زمین کی حرکت سے ہے یا خود ان سیاروں کی حرکت سے ہے قرآن نہ اس کا اثبات کرتا ہے اور نہ نفی، تجربہ سے جو کچھ معلوم ہوا اس کے ماننے میں حرج نہیں۔
خلقکُم۔۔۔۔ زوجھا (الآیۃ) ثم کے ذریعہ عطف، آدم و حواء (علیہم السلام) کے درمیان ترتیب تخلیق اور تاخیر کو بیان کرنے کے لئے ہے، معطوف علیہ مقدر ہے اور وہ نفس کی صفت ہے، تقدیر یہ ہے خلقکم من نفسٍ خلقھا واحدۃً ثُم جعل منھا زوجھا اور یہ بھی جائز ہے کہ واحدۃً کے معنی پر عطف ہو، ای من نفسٍ انفردت ثم جعل منھا زوجھا۔
سوال : حق تعالیٰ شانہ نے خلق کو جَعل سے کیوں تعبیر کیا ؟
جواب : حضرت حواء کو آدم (علیہ السلام) کی پسلی سے پیدا فرمانا یہ قدرت خداوندی پر زیادہ دلالت کرنے والا ہے، اس لئے کہ یہ طریق تخلیق، اللہ سبحانہ تعالیٰ کی عادت مستمرہ کے خلاف ہے بخلاف تخلیق آدم اور اس کی نسل کے کہ یہ عادت مستمرہ کے موافق ہے اس لئے کہ اشیاء کو عدم سے وجود میں لانا رحم مادر کے واسطہ سے ہونا یہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی عام عادت ہے، بخلاف حواء کے کہ ان کو آدم (علیہ السلام) کی پسلی سے پیدا کیا یہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی عادت مستمرہ نہیں ہے، اسی کی طرف اشارہ کرنے کیلئے خلق کے بجائے
جَعَلَ کا لفظ اختیار فرمایا۔
وانزل۔۔۔۔ ثمانیۃ ازواج اس کا عطف خلقکم پر ہے، یہاں تخلیق کو انزال سے تعبیر فرمایا ہے یا تو اس لئے کہ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تخلیق اولاً جنت میں ہوئی تھی، وہاں سے دنیا میں اتارا گیا اس صورت میں انزل حقیقی معنی میں ہوگا، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مجازاً انزل سے تعبیر کردیا ہو اس لئے کہ مویشی گھاس چارہ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے اور گھاس چارہ پانی سے پیدا ہوتا ہے اور پانی آسمان سے نازل ہوتا ہے تو گویا کہ مویشی آسمان سے نازل کردہ ہیں، اس میں نسبت سبب السبب کی طرف کردی گئی، جس طرح کہ شاعر نے مندرجہ ذیل شعر میں سبب کی طرف نسبت کی ہے : ؎
اذا نزل السماءُ بِاَرْضِ قوم رعیناہ وان کانوا غضابًا (فتح القدیر شوکانی)
شاعر نے نزل کی نسبت پانی کے بجائے پانی کے سبب یعنی بادل کی جانب کی ہے۔
وانزل لکم۔۔۔۔ ازواج یہ انہی چار قسم کے جانوروں کا بیان ہے جن کا ذکر سورة انعام کی آیت 143، 144 میں گزرا ہے اور وہ بھیڑ، بکری، اونٹ، گائے ہے جو نر و مادہ مل کر آٹھ ہوجاتے ہیں۔
ان تکفروا۔۔۔ عنکم مطلب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے کفر و ایمان سے مستثنیٰ ہے کسی کے ایمان سے نہ اس کا کوئی فائدہ اور نہ کفر سے کچھ نقصان، صحیح مسلم کی ایک حدیث قدسی میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا، اے میرے بندو ! اگر تمہارے اولین و آخرین اور تمہارے انسان اور جن سب کے سب انتہائی فسق و فجور میں مبتلا ہوجائیں تو میرے ملک و سلطنت میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آتی۔ (ابن کثیر، معارف)
ولا یرضی لعبادہ الکفر، کفر اگرچہ انسا، اللہ کی مشیت ہی سے کرتا ہے، اس لئے کہ کوئی کام خدا کی مشیت اور ارادہ کے بغیر نہیں ہوسکتا، تاہم کفر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتے، اس کی رضا حاصل کرنے کا طریقہ اور ذریعہ شکر ہی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی مشیت اور چیز ہے اور اس کی رضا اور چیز ہے۔
اہل سنت والجماعت کا عقیدہ : اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی اچھا یا برا کام یا کفر و ایمان اللہ جل شانہ کی مشیت اور اس کے ارادہ کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا، البتہ حق تعالیٰ کی رضا اور پسندیدگی صرف ایمان اور اچھے کاموں سے متعلق ہوتی ہے، شیخ الاسلام علامہ دینوری نے اپنی کتاب ” الاصول والضوابط “ میں تحریر فرمایا ہے :
مذھب اھل الحق الایمانُ بالقدرِ واثباتہٖ وانَّ جمیعَ الکائنات خیرھا وزشرُّھا بقضاء اللہ وقدرہ وھو مرید لَھَا کُلھا ویکرہ المعاصی مع أنہ تعالیٰ مُرید لھَا لحِکمۃٍ یعلمُھا جلَّ وعَلا۔ (روح المعانی، معارف)
” اہل حق کا مذہب تقدیر پر ایمان لانا ہے اور یہ کہ تمام کائنات اچھی ہو یا بری سب اللہ تعالیٰ کے حکم و تقدیر سے وجود میں آتی ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کا تخلیق کا ارادہ بھی فرماتے ہیں، مگر وہ معاصی کو مکروہ اور ناپسند سمجھتا ہے اگرچہ اسکی تخلیق کا ارادہ کسی حکمت و مصلحت سے ہوتا ہے جس کو وہ خود ہی جانتا ہے “۔
أمن ھُو قانتٌ اٰناء اللیل لفظ اَمَّن دو لفظوں سے مرکب ہے اَمْ حرف استفہام اور من اسم موصول سے، اس جملہ سے پہلے کفار کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں اپنے کفر و فسق کے مزے اڑالو، آخر کار تم جہنم کے ایندھن ہو وگے، اس کے بعد اس جملہ میں مومن مطیع کا بیان ہے، جس کو اَمَّن کے لفظ سے شروع کیا ہے، علماء تفسیر نے فرمایا کہ اس سے پہلے ایک جملہ جو کہ اس جملہ کا معادل ہے محذوف ہے کہ کافر سے کہا جائے گا کہ تو اچھا ہے یا وہ مومن مطیع جس کا ذکر آگے آتا ہے
واذا مس۔۔۔۔ منیبًا (الآیۃ) جب اللہ تعالیٰ مصیبت زدہ انسان کی فریاد کو سن لیتے ہیں اور اس کی مصیبت کو دور کردیتے ہیں تو مصیبت دور ہونے کے بعد اس ذات کو کہ جس سے عاجزی اور انکساری کے ساتھ دعا کرتا تھا بھول جاتا ہے اور پھر اسی کفر و معصیت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ ایک تو یہ کافر و مشرک ہے جس کا حال یہ ہے جو ابھی اوپر مذکور ہوا، اور دوسرا وہ شخص ہے جو تنگی اور خوشحالی خوشی اور غمی میں رات کی گھڑیاں اللہ کے سامنے عاجزی اور فرمانبرداری کا اظہار کرتے ہوئے قومہ و قیام، رکوع و سجود میں گزارتا ہے، اور آخرت کا خوف بھی اس کے دل میں ہے، اور اپنے رب کی رحمت کا امیدوار بھی ہے، یعنی امید و بیم کی کیفیت سے سرشار ہے، جو اصل ایمان ہے، کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ نہیں اور یقیناً نہیں، خوف ورجاء کے بارے میں حضرت انس (رض) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک شخص کے پاس عیادت کے لئے گئے مریض حالت سکرات میں تھا، آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تو خود کو کسی حالت میں پاتا ہے، اس نے عرض کیا میں اللہ سے امید رکھتا ہوں، اور اپنے گناہوں کی وجہ سے ڈرتا بھی ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس موقع پر جس بندے کے دل میں یہ دونوں باتیں ہوں تو اللہ اسے وہ چیز عطا فرماتا ہے جو وہ امید رکھتا ہے اور اس چیز سے بچا لیتا ہے جس سے وہ ڈرتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب ذکر الموت)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن کی عظمت اور اس ہستی کے جلال کے بارے میں آگاہ کرتا ہے جس نے اس قرآن کے ذریعے سے کلام کیا اور جس کی طرف سے یہ قرآن نازل ہوا، نیز اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ یہ قرآن، اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جو غالب اور حکمت والا ہے۔ مخلوق کے لئے الوہیت اس کا وصف ہے، کیونکہ وہ عظمت و کمال اور عزت و غلبہ کا مالک ہے جس کی بناء پر وہ تمام مخلوق پر غالب اور ہر چیز اس کی مطیع اور اس کے سامنے سرافگندہ ہے۔ اس کی تخلیق و امر حکمت پر مبنی ہے۔
قرآن اس ہستی کی طرف سے نازل ہوا ہے جس کا یہ وصف ہے، کلام متکلم کا وصف ہے اور وصف ہمیشہ اپنے موصوف کے تابع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سی کامل ہے، اس کا کوئی مثیل و نظیر نہیں، اسی طرح اس کا کلام بھی ہر لحاظ سے کامل اور بے مثال و بے نظیر ہے۔ یہ ایک وصف ہی اللہ تعالیٰ کے مرتبے پر دلالت کرنے کے لئے کافی ہے، مگر بایں ہمہ، اللہ تعالیٰ نے جس ہستی پر اسے نازل فرمایا ہے اس کے ذریعے سے اس کے کمال کو بیان فرمایا اور وہ ہستی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات ہے جو تمام مخلوق میں سب سے زیادہ شرف کی حامل ہے۔ تب معلوم ہوا کہ یہ کتاب اپنی دعوت سمیت، تمام کتابوں میں سب سے زیادہ شرف کی حامل ہے اور یہ سراسر حق ہے۔ پس قرآن حق کے ساتھ نازل ہوا جو اپنی سچی خبروں اور عدل و انصاف پر مبنی احکام پر مشتمل ہے تاکہ مخلوق کو گمراہی کی تارکیوں سے نکال کر ہدایت کی روشنی میں لائے اور یہ کتاب اپنی اخبار صادقہ اور اپنے احکام عادلہ کے بارے میں حق پر مشتمل نازل ہوئی۔
11 Mufti Taqi Usmani
yeh kitab Allah ki taraf say nazil ki jarahi hai , jo baray iqtidar ka malik hai , boht hikmat wala .
12 Tafsir Ibn Kathir
باطل عقائد کی تردید۔
اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ یہ قرآن عظیم اسی کا کلام ہے اور اسی کا اتارا ہوا ہے۔ اس کے حق ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ جیسے اور جگہ ہے ( وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ\019\02ۭ ) 26 ۔ الشعراء :192) ، یہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے۔ جسے روح الامین لے کر اترا ہے۔ تیرے دل پر اترا ہے تاکہ تو آگاہ کرنے والا بن جائے۔ صاف فصیح عربی زبان میں ہے اور آیتوں میں ہے یہ باعزت کتاب وہ ہے جس کے آگے یا پیچھے سے باطل آ ہی نہیں سکتا یہ حکمتوں والی تعریفوں والے اللہ کی طرف سے اتری ہے۔ یہاں فرمایا کہ یہ کتاب بہت بڑے عزت والے اور حکمت والے اللہ کی طرف سے اتری ہے جو اپنے اقوال افعال شریعت تقدیر سب میں حکمتوں والا ہے۔ ہم نے تیری طرف اس کتاب کو حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے۔ تجھے چاہیے کہ خود اللہ کی عبادتوں میں اور اس کی توحید میں مشغول رہ کر ساری دنیا کو اسی طرف بلا، کیونکہ اس اللہ کے سوا کسی کی عبادت زیبا نہیں، وہ لاشریک ہے، وہ بےمثال ہے، اس کا شریک کوئی نہیں۔ دین خالص یعنی شہادت توحید کے لائق وہی ہے۔ پھر مشرکوں کا ناپاک عقیدہ بیان کیا کہ وہ فرشتوں کو اللہ کا مرقب جان کر ان کی خیالی تصویریں بنا کر ان کی پوجا پاٹ کرنے لگے یہ سمجھ کر یہ اللہ کے لاڈلے ہیں، ہمیں جلدی اللہ کا مقرب بنادیں گے۔ پھر تو ہماری روزیوں میں اور ہر چیز میں خوب برکت ہوجائے گی۔ یہ مطلب نہیں کہ قیامت کے روز ہمیں وہ نزدیکی اور مرتبہ دلوائیں گے۔ اس لئے کہ قیامت کے تو وہ قائل ہی نہ تھے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ انہیں اپنا سفارشی جانتے تھے۔ جاہلیت کے زمانہ میں حج کو جاتے تو وہاں لبیک پکارتے ہوئے کہتے اللہ ہم تیرے پاس حاضر ہوئے۔ تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسے شریک جن کے اپنے آپ کا مالک بھی تو ہی ہے اور جو چیزیں ان کے ماتحت ہیں ان کا بھی حقیقی مالک تو ہی ہے۔ یہی شبہ اگلے پچھلے تمام مشرکوں کو رہا اور اسی کو تمام انبیاء (علیہم السلام) رد کرتے رہے اور صرف اللہ تعالیٰ واحد کی عبادت کی طرف انہیں بلاتے رہے۔ یہ عقیدہ مشرکوں نے بےدلیل گھڑ لیا تھا جس سے اللہ بیزار تھا۔ فرماتا ہے ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا 36) 16 ۔ النحل :36) ، یعنی ہر امت میں ہم نے رسول بھیجے کہ تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے الگ رہو اور فرمایا ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ 25) 21 ۔ الأنبیاء :25) ، یعنی تجھ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے سب کی طرف یہی وحی کی کہ معبود برحق صرف میں ہی ہوں پس تم سب میری ہی عبادت کرنا۔ ساتھ ہی یہ بھی بیان فرما دیا کہ آسمان میں جس قدر فرشتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی بڑے مرتبے والے کیوں نہ ہوں سب کے سب اس کے سامنے لاچار عاجز اور غلاموں کی مانند ہیں اتنا بھی تو اختیار نہیں کہ کسی کی سفارش میں لب ہلا سکیں۔ یہ عقیدہ محض غلط ہے کہ وہ اللہ کے پاس ایسے ہیں جیسے بادشاہوں کے پاس امیر امراء ہوتے ہیں کہ جس کی وہ سفارش کردیں اس کا کام بن جاتا ہے اس باطل اور غلط عقیدے سے یہ کہہ کر منع فرمایا کہ کے سامنے مثالیں نہ بیان کیا کرو۔ اللہ اسے بہت بلند وبالا ہے۔ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کا سچا فیصلہ کر دے گا اور ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا ان سب کو جمع کر کے فرشتوں سے سوال کرے گا کہ کیا یہ لوگ تمہیں پوجتے تھے ؟ وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ہے، یہ نہیں بلکہ ہمارا ولی تو تو ہی ہے یہ لوگ تو جنات کی پرستش کرتے تھے اور ان میں سے اکثر کا عقیدہ و ایمان انہی پر تھا۔ اللہ تعالیٰ انہیں راہ راست نہیں دکھاتا جن کا مقصود اللہ پر جھوٹ بہتان باندھنا ہو اور جن کے دل میں اللہ کی آیتوں، اس کی نشانیوں اور اس کی دلیلوں سے کفر بیٹھ گیا ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے عقیدے کی نفی کی جو اللہ کی اولاد ٹھہراتے تھے مثلاً مشرکین مکہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں۔ یہود کہتے تھے عزیز اللہ کے لڑکے ہیں۔ عیسائی گمان کرتے تھے کہ عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں۔ پس فرمایا کہ جیسا ان کا خیال ہے اگر یہی ہوتا تو اس امر کے خلاف ہوتا، پس یہاں شرط نہ تو واقع ہونے کے لئے ہے نہ امکان کے لئے۔ بلکہ محال کے لئے ہے اور مقصد صرف ان لوگوں کی جہالت بیان کرنے کا ہے۔ جیسے فرمایا ( لَـوْ اَرَدْنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّآ ڰ اِنْ كُنَّا فٰعِلِيْنَ 17) 21 ۔ الأنبیاء :17) اگر ہم ان بیہودہ باتوں کا ارادہ کرتے تو اپنے پاس سے ہی بنا لیتے اگر ہم کرنے والے ہی ہوئے اور آیت میں ہے ( قُلْ اِنْ كَان للرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ڰ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ 81) 43 ۔ الزخرف :81) یعنی کہہ دے کہ اگر رحمان کی اولاد ہوتی تو میں تو سب سے پہلے اس کا قائل ہوتا۔ پس یہ سب آیتیں شرط کو محال کے ساتھ متعلق کرنے والی ہیں۔ امکان یا وقوع کے لئے نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ نہ یہ ہوسکتا ہے نہ وہ ہوسکتا ہے۔ اللہ ان سب باتوں سے پاک ہے وہ فرد احد، صمد اور واحد ہے۔ ہر چیز اس کی ماتحت فرمانبردار عاجز محتاج فقیر بےکس اور بےبس ہے۔ وہ ہر چیز سے غنی ہے سب سے بےپرواہ ہے سب پر اس کی حکومت اور غلبہ ہے، ظالموں کے ان عقائد سے اور جاہلوں کی ان باتوں سے اس کی ذات مبرا و منزہ ہے۔