Skip to main content

تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ

(The) revelation
تَنزِيلُ
نازل کرنا ہے
(of) the Book
ٱلْكِتَٰبِ
کتاب کا
(is) from
مِنَ
سے
Allah
ٱللَّهِ
اللہ کی طرف
the All-Mighty
ٱلْعَزِيزِ
جو غالب ہے،
the All-Wise
ٱلْحَكِيمِ
حکمت والا ہے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اِس کتاب کا نزول اللہ زبردست اور دانا کی طرف سے ہے

English Sahih:

The revelation of the Book [i.e., the Quran] is from Allah, the Exalted in Might, the Wise.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اِس کتاب کا نزول اللہ زبردست اور دانا کی طرف سے ہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

کتاب اتارنا ہے اللہ عزت و حکمت والے کی طرف سے،

احمد علی Ahmed Ali

یہ کتاب الله کی طرف سے نازل کی گئی ہے جو غالب حکمت والا ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اس کتاب کا اتارنا اللہ تعالٰی غالب با حکمت کی طرف سے ہے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اس کتاب کا اُتارا جانا خدائے غالب (اور) حکمت والے کی طرف سے ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اس کتاب کا اتارنا اللہ تعالیٰ غالب باحکمت کی طرف سے ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

یہ کتاب (قرآن) اس خدا کی طرف سے نازل کی گئی ہے جو (سب پر) غالب ہے (اور) بڑا حکمت والا ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

یہ صاحبِ عزت و حکمت خدا کی نازل کی ہوئی کتاب ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اس کتاب کا اتارا جانا اﷲ کی طرف سے ہے جو بڑی عزت والا، بڑی حکمت والا ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

باطل عقائد کی تردید۔
اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ یہ قرآن عظیم اسی کا کلام ہے اور اسی کا اتارا ہوا ہے۔ اس کے حق ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ جیسے اور جگہ ہے ( وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ\019\02ۭ ) 26 ۔ الشعراء ;192) ، یہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے۔ جسے روح الامین لے کر اترا ہے۔ تیرے دل پر اترا ہے تاکہ تو آگاہ کرنے والا بن جائے۔ صاف فصیح عربی زبان میں ہے اور آیتوں میں ہے یہ باعزت کتاب وہ ہے جس کے آگے یا پیچھے سے باطل آ ہی نہیں سکتا یہ حکمتوں والی تعریفوں والے اللہ کی طرف سے اتری ہے۔ یہاں فرمایا کہ یہ کتاب بہت بڑے عزت والے اور حکمت والے اللہ کی طرف سے اتری ہے جو اپنے اقوال افعال شریعت تقدیر سب میں حکمتوں والا ہے۔ ہم نے تیری طرف اس کتاب کو حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے۔ تجھے چاہیے کہ خود اللہ کی عبادتوں میں اور اس کی توحید میں مشغول رہ کر ساری دنیا کو اسی طرف بلا، کیونکہ اس اللہ کے سوا کسی کی عبادت زیبا نہیں، وہ لاشریک ہے، وہ بےمثال ہے، اس کا شریک کوئی نہیں۔ دین خالص یعنی شہادت توحید کے لائق وہی ہے۔ پھر مشرکوں کا ناپاک عقیدہ بیان کیا کہ وہ فرشتوں کو اللہ کا مرقب جان کر ان کی خیالی تصویریں بنا کر ان کی پوجا پاٹ کرنے لگے یہ سمجھ کر یہ اللہ کے لاڈلے ہیں، ہمیں جلدی اللہ کا مقرب بنادیں گے۔ پھر تو ہماری روزیوں میں اور ہر چیز میں خوب برکت ہوجائے گی۔ یہ مطلب نہیں کہ قیامت کے روز ہمیں وہ نزدیکی اور مرتبہ دلوائیں گے۔ اس لئے کہ قیامت کے تو وہ قائل ہی نہ تھے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ انہیں اپنا سفارشی جانتے تھے۔ جاہلیت کے زمانہ میں حج کو جاتے تو وہاں لبیک پکارتے ہوئے کہتے اللہ ہم تیرے پاس حاضر ہوئے۔ تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسے شریک جن کے اپنے آپ کا مالک بھی تو ہی ہے اور جو چیزیں ان کے ماتحت ہیں ان کا بھی حقیقی مالک تو ہی ہے۔ یہی شبہ اگلے پچھلے تمام مشرکوں کو رہا اور اسی کو تمام انبیاء (علیہم السلام) رد کرتے رہے اور صرف اللہ تعالیٰ واحد کی عبادت کی طرف انہیں بلاتے رہے۔ یہ عقیدہ مشرکوں نے بےدلیل گھڑ لیا تھا جس سے اللہ بیزار تھا۔ فرماتا ہے ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا 36؀) 16 ۔ النحل ;36) ، یعنی ہر امت میں ہم نے رسول بھیجے کہ تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے الگ رہو اور فرمایا ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ 25؀) 21 ۔ الأنبیاء ;25) ، یعنی تجھ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے سب کی طرف یہی وحی کی کہ معبود برحق صرف میں ہی ہوں پس تم سب میری ہی عبادت کرنا۔ ساتھ ہی یہ بھی بیان فرما دیا کہ آسمان میں جس قدر فرشتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی بڑے مرتبے والے کیوں نہ ہوں سب کے سب اس کے سامنے لاچار عاجز اور غلاموں کی مانند ہیں اتنا بھی تو اختیار نہیں کہ کسی کی سفارش میں لب ہلا سکیں۔ یہ عقیدہ محض غلط ہے کہ وہ اللہ کے پاس ایسے ہیں جیسے بادشاہوں کے پاس امیر امراء ہوتے ہیں کہ جس کی وہ سفارش کردیں اس کا کام بن جاتا ہے اس باطل اور غلط عقیدے سے یہ کہہ کر منع فرمایا کہ کے سامنے مثالیں نہ بیان کیا کرو۔ اللہ اسے بہت بلند وبالا ہے۔ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کا سچا فیصلہ کر دے گا اور ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا ان سب کو جمع کر کے فرشتوں سے سوال کرے گا کہ کیا یہ لوگ تمہیں پوجتے تھے ؟ وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ہے، یہ نہیں بلکہ ہمارا ولی تو تو ہی ہے یہ لوگ تو جنات کی پرستش کرتے تھے اور ان میں سے اکثر کا عقیدہ و ایمان انہی پر تھا۔ اللہ تعالیٰ انہیں راہ راست نہیں دکھاتا جن کا مقصود اللہ پر جھوٹ بہتان باندھنا ہو اور جن کے دل میں اللہ کی آیتوں، اس کی نشانیوں اور اس کی دلیلوں سے کفر بیٹھ گیا ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے عقیدے کی نفی کی جو اللہ کی اولاد ٹھہراتے تھے مثلاً مشرکین مکہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں۔ یہود کہتے تھے عزیز اللہ کے لڑکے ہیں۔ عیسائی گمان کرتے تھے کہ عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں۔ پس فرمایا کہ جیسا ان کا خیال ہے اگر یہی ہوتا تو اس امر کے خلاف ہوتا، پس یہاں شرط نہ تو واقع ہونے کے لئے ہے نہ امکان کے لئے۔ بلکہ محال کے لئے ہے اور مقصد صرف ان لوگوں کی جہالت بیان کرنے کا ہے۔ جیسے فرمایا ( لَـوْ اَرَدْنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّآ ڰ اِنْ كُنَّا فٰعِلِيْنَ 17؀) 21 ۔ الأنبیاء ;17) اگر ہم ان بیہودہ باتوں کا ارادہ کرتے تو اپنے پاس سے ہی بنا لیتے اگر ہم کرنے والے ہی ہوئے اور آیت میں ہے ( قُلْ اِنْ كَان للرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ڰ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ 81؀) 43 ۔ الزخرف ;81) یعنی کہہ دے کہ اگر رحمان کی اولاد ہوتی تو میں تو سب سے پہلے اس کا قائل ہوتا۔ پس یہ سب آیتیں شرط کو محال کے ساتھ متعلق کرنے والی ہیں۔ امکان یا وقوع کے لئے نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ نہ یہ ہوسکتا ہے نہ وہ ہوسکتا ہے۔ اللہ ان سب باتوں سے پاک ہے وہ فرد احد، صمد اور واحد ہے۔ ہر چیز اس کی ماتحت فرمانبردار عاجز محتاج فقیر بےکس اور بےبس ہے۔ وہ ہر چیز سے غنی ہے سب سے بےپرواہ ہے سب پر اس کی حکومت اور غلبہ ہے، ظالموں کے ان عقائد سے اور جاہلوں کی ان باتوں سے اس کی ذات مبرا و منزہ ہے۔