الفجر آية ۱
وَالْفَجْرِۙ
طاہر القادری:
اس صبح کی قَسم (جس سے ظلمتِ شب چھٹ گئی)٭، ٭ مراد ہر روز کی صبح یا نمازِ فجر ہے یا بطورِ خاص ماہ ذی الحجہ کی پہلی صبح یا یکم محرم کی صبح ہے یا عید الاضحٰی کی صبح۔ اس سے مراد سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی بھی ہے جن کی بعثت سے شبِ ظلمت کا خاتمہ ہوا اور صبحِ ایمان پھوٹی۔
English Sahih:
By the dawn
1 Abul A'ala Maududi
قسم ہے فجر کی
2 Ahmed Raza Khan
اس صبح کی قسم
3 Ahmed Ali
فجر کی قسم ہے
4 Ahsanul Bayan
قسم ہے فجر کی! (۱)
۱۔۱اس سے مراد مطلق فجر ہے، کسی خاص دن کی فجر نہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
فجر کی قسم
6 Muhammad Junagarhi
قسم ہے فجر کی!
7 Muhammad Hussain Najafi
قَسم ہے صبح کی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
قسم ہے فجر کی
9 Tafsir Jalalayn
فجر کی قسم
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، قسم ہے فجر کی یعنی ہر دن کی فجر کی، اور دس راتوں کی یعنی ذی الحجہ کی دس راتوں کی اور جفت کی یعنی زوج کی اور طاق کی اور الوتر وائو کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ ہے یہ دو لغت ہیں (وتر) میں بمعنی فرد، اور رات کی جب وہ رخصت ہونے لگے یعنی جب وہ آئے اور جائے، کیا اس قسم میں عقلمند کے لئے کافی قسم (نہیں) ہے ؟ اور جواب قسم محذوف ہے (اور وہ) لتعذبن یا کفار مکۃ ! ہے، (اے کفار مکہ ! تم کو ضرور عذاب دیا جائے گا) کیا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم نہیں کہ تریے رب نے عادیوں کے یعنی قوم ارم کے ساتھ کیا کیا ؟ ارم عاد اولیٰ ہے، ارم عطف بیان یا بدل ہے اور علمیت وتانیث کی وجہ سے غیر منصرف ہے جن کے قدر و قامت درازی میں ستونوں جیسے تھے ان میں کار دراز ترین چار سو گز کا تھا، زور و قوت میں دنیا بھر میں ان کے جیسا کوئی نہیں پیدا کیا یا اور قوم ثمود کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ جو وادی قریٰ میں پتھر تراشا کرتے تھے اور ان سے گھر بنایا کرتے تھے، صخر صخرۃ کی جمع ہے اور میخوں والے فرعون کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ اور وہ چار میخیں گاڑ دیتا تھا اور جس شخص کو سزا دینی ہوتی تھی اس کے چاروں ہاتھوں پیروں کو ان سے بادنھ دیا کرتا تھا، جنہوں نے شہروں میں بڑی سرکشی کی تھی اور ان میں قتل وغیرہ کے ذریعے بہت فساد برپا کر رکھا تھا سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا، بیشک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب گھات میں ہے، بندوں کے اعمال کی نگرانی کر رہا ہے لہٰذا کوئی عمل اس سے مخفی نہیں رہ سکتا کہ اس کی جزا نہ دے، سو اس کافر انسان کو جب اس کا رب آزماتا ہے بایں طور کہ مال وغیرہ کے ذریعہ اس کا اکرام کرتا ہے اور اس کو انعام دیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے میری قدر بڑھا دی (یعنی عزت بخشی) اور جب اس کو (دوسری طرح) آزماتا ہے یعنی اس کی روزی اس پر تنگ کردیتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے میری قدر گھٹا دی (یعنی ذلیل کردیا) ہرگز ایسا نہیں ہے یعنی غنا کی وجہ سے اکرام ہو اور فقر کی وجہ سے توہین ہو، ان دونوں باتوں کا تعلق اطاعت اور معصیت سے ہے، لیکن کفار مکہ اس بات سے واقف نہیں ہیں، بلکہ تم یتیم کے ساتھ عزت کا سلوک نہیں کرتے یعنی وہ لوگ فارغ البالی کے باوجود اس کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ نہیں کرتے یا میراث سے اس کا حق نہیں دیتے اور آپس میں ایک دوسرے کو مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتے نہ خود کو اور نہ دوسروں کو، طعام بمعنی اطعام ہے اور میراث کے مال کو سمیٹ کر کھا جاتے ہو عورتوں اور بچوں کے مال میراث پر ان کے شدید حریض ہونے کی وجہ سے، اپنے حصے کے ساتھ یا اپنے مال کے ساتھ، اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو جس کی وجہ سے اسے خرچ نہیں کرتے ہو اور ایک قرأت میں چاروں فعلوں میں تاء فوقانیہ کے ساتھ ہے، ہرگز نہیں ! (خبردار ! ) ان کی اس خصلت پر تنبیہ ہے، جب زمین کوٹ کوٹ کر برابر کردی جائے گی (یعنی) زمین کو ہلا دیا جائے گا حتی کہ اس زمین پر کی ہر عمارت معدوم اور منہدم ہوجائے گی اور تمہارا رب جلو افروز ہوگا یعنی اس کا حکم حال یہ کہ فرشتے صف در صف کھڑے ہوں گے (صفا صفا) حال ہے معنی میں مصطفین کے، یا ملائکہ کی بہت سی صفیں ہوں گی، اور جہنم اس روز ستر ہزار لگاموں کے ذریعہ کھینچ کر سامنے لائی جائے گی اور یہ لگا میں ستر ہزار فرشتوں کے ہاتھوں میں ہوں گی اور سخت آواز ہوگی اور جوش ہوگا اس دن انسان یعنی کافر انسان سا چیز کو سمجھ جائے گا، یومئذ، اذا سے بدل ہے اور اس کا جواب یتذکر الانسان ہے، جس میں اس نے حد سے تجاوز کیا ہوگا اور اس وقت اس کے سمجھنے سے کیا حاصل ہوگا، استفہام بمعنی نفی ہے، یعنی اس وقت سمجھ میں آنا اس کے لئے کچھ نافع نہ ہوگا، سمجھ میں آنے کے ساتھ ہی وہ کہے گا ہائے افسوس ! میں آخرت میں اپنی عمدہ زندگی کے لئے خیر اور ایمان آگے بھیج دیتا، یاد نیوی زندگی کے زمانہ میں (نیک اعمال کرلیتا) پھر اس دن اللہ (خود) عذاب دے گا کوئی (دوسرا) نہ دے گا، یعذب کسرہ کے ساتھ ہے یعنی وہ تعذیب غیر کے سپرد نہ کرے گا اور نہ اس کے جکڑنے والے کے مانند کوئی جکڑنے والا ہوگا یوثق میں ثاء کے کسرہ کے ساتھ اور ایک قرأت میں ذال اور ثاء کے فتحہ کے ساتھ ہے لہٰذا عذابہ اور وثقافہ کی ضمیریں کافر کی طرف راجع ہوں گی اور معنی یہ ہوں گے کہ نہ اس کے جیسا کوئی عذاب دے گا اور نہ اس کے جیسا کوئی جکڑے گا (دوسری طرف ارشاد ہوگا) اے نفس مطمئن ! (یعنی) مامون حال یہ کہ وہ مومنہ ہوگا اپنے رب کی طرف اس حال میں چل کہ تو ثواب سے خوش ہے اور اپنے عمل کی وجہ سے اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے یعنی دونوں وصفوں کو جامع ہوگا اور وہ دونوں حال ہیں، یہ بات اس سے موت کے وقت کہی جائے گی یعنی تو اس کے امر اور ارادہ کی طرف لوٹ اور قیامت کے دن اس سے کہا جائے گا تو میرے نیک بندوں میں شامل ہوجا اور میری جنت میں ان کے ساتھ داخل ہوجا۔
قولہ : والفجر، الفجر اسم فعل، مصدر بمعنی پو پھٹنا صبح کی روشنی نمودار ہونا، پھاڑ کر بہانا، وقت فجر، ان کے علاوہ اور بہنا سے معانی کے لئے مستعمل ہے قرآن مجید میں صرف وقت فجر اور طلوع سحر کے لئے اس کا استعمال ہوا ہے (لغات القرآن فجر سے یا تو ہر روز کی طلوع فجر مراد ہے یا خاص طور پر دسویں ذی الحجہ کی یا محرم کی پہلی تاریخ کی فجر مراد ہے اس لئے کہ اسی دن سے عربی کا نیا سال شروع ہوتا ہے، اور لیال عشر سے ذی الحجہ کی ابتدائی دس راتیں مع ان کے دنوں کے مراد ہیں، اس لئے کہ ان کی بہت فضیلت وارد ہوئی ہے۔
قولہ : والشفع والوتر کے معنی جفت اور طاق کے ہیں، شفع اور وتر کے معنی میں مفسرین کا بہت اختلاف ہے حتی کہ جفت و طاق کے معنی کی تعیین میں 36 اقوال ملتے ہیں۔
قولہ : اذا یسر، یسر دراصل یسری تھا تخفیفاً یاء کو فواصل کی رعایت کی وجہ سے حذف کردیا گیا۔
قولہ : ھل فی ذلک قسم لذی حجر یہ استفہام تقریری ہے یعنی ان قسموں میں عقلمند کے لئے کاف قسم ہے، قوم عاد کی جانب حضرت ہود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا تھا اس قوم کے دو نام ہیں (١) عاد (٢) ارم، اس لئے کہ عاد بیٹا ہے عوص کا اور عوص بیٹا ہے ارم کا، اور ارم بیٹا ہے سام بن نوح کا، لہٰذا کبھی تو اس قوم کے باپ عاد کی طرف نسبت کر کے قوم عاد کہتے ہیں اور کبھی ان کے دادا کے نام کی طرف نسبت کر کے قوم ارم کہتے ہیں، پس عاد اور ثمود دونوں ارم میں جا کر مل جاتے ہیں، عاد بواسطہ عوص کے اور ثمود بواسطہ عابر کے اور یہاں ارم اس لئے بڑھا دیا ہے کہ اس قوم عاد میں دو طبقے ہیں ایک متقدمین کا جس کو عاد اولیٰ کہتے ہیں اور دوسرا متاخیرن کا جن کو عاد اخریٰ کہتے ہیں اس سے معلوم ہوگیا کہ یہاں عاد اولیٰ مراد ہے، عاد نے بارہ سو سال عمر پائی جس کی صلبی اولاد کی تعداد چار ہزار تھی اس نے ایک ہزار عورتوں سے شادی کی اور اس کا انتقال حالت کفر میں ہوا۔ (جمل) ماقبل میں چار چیزوں کی قسمیں مذکور ہیں ان کا جواب قسم محذوف ہے اور وہ لعذبن یا کفار مکۃ ! ہے اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ جواب قسم مذکور ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا قول ” ان ربک لبالمرصاد “ ہے، مفسر عالم نے اول قول کو اختیار کیا ہے۔
قولہ : ذات العماد بعض حضرات نے اس کا ترجمہ ” دراز قد “ بیان کیا ہے اور دراز ترین قد والا پانچ سو ہاتھ کا خود اپنے ہاتھ سے اور قصیر ترین تین سو ہاتھ کا، اور بعض حضرات نے ذات العماد کا ترجمہ ستونوں والی بلند عمارتوں والے، مراد لیا ہے (جمل) مفسر علام نے اول معنی مراد لئے ہیں۔
تفسیر و تشریح
اس سورت میں پانچ چیزوں کی قسم کھا کر اس مضمون کی تاکید کی گئی ہے جو آگے (ان ربک لبا لمرصاد) میں بیان ہوا ہے یعنی اس دنیا میں تم جو کچھ کر رہے ہو اس پر جزاء و سزا ہونا لازمی ہے تمہارے سب اعمال تمہارے رب کی نگرانی میں ہیں۔
وہ پانچ چیزیں جن کی قسم کھائی ہے ان میں سے۔
پہلی چیز فجر یعنی صبح صاق کا وقت ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر روزگ کی صبح صادق مردا ہو، اس لئے کہ یہ صبح صادق عالم میں ایک عظیم انقلاب لاتی ہے اور حق تعالیٰ شانہ کی قدرت کاملہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الفجر میں الف لام کو عہد کا قرار دے کر کسی خاص دن کی فجر مراد ہو، حضرت علی، حضرت ابن عباس، اور حضرت ابن زبیر (رض) سے پہلے معنی یعنی عام وقت فجر مراد ہونا مقنلو ہے اور ابن عباس (رض) کی ایک روایت میں ماہ محرم کی پہلی تاریخ کی فجر مراد ہونا بھی منقول ہے حضرت قتادہ (رض) نے بھی یہی تفسیر کی ہے اور بعض حضرات سے دسویں ذی الحجہ یعنی یوم النحر کی فجر مراد ہونا منقول ہے، یوم نحر کی تخصیص کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دن کے لئے ایک رات ساتھ لگائی ہے جو اسلامی اصول کے مطابق دن سے پہلے ہوتی ہے، صرف یوم نحر ایک ایسا دن ہے کہ اس کے ساتھ کوئی رات نہیں ہے، کیونکہ یوم النحر سے پہلے جو رات ہے وہ یوم النحر کی نہیں بلکہ شرعاً عرفہ ہی کی رات قرار دی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی حج کرنے والا عرفہ کے دن میدان عرفات میں نہ پہنچ سکا اور رات کو صبح صادق سے پہلے کسی وقت بھی عرفات میں پہنچ گیا تو اس کا وقوف معتبر اور حج صحیح ہوجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یوم عرفہ کی دوراتیں ہیں ایک اس سے پہلے اور دوسری اس کے بعد اور یوم النحر کی کوئی رات نہیں اس لحاظ سے یوم النحر کی فجر تمام ایام میں ایک خاص شان رکتھی ہے۔ (قرطبی، معارف)
دوسری چیز جس کی قسم کھائی گئی ہے وہ دس راتیں ہیں کیونکہ حدیث شریف میں ان کی بڑی فضیلت آئی ہے۔
شفع اور وتر کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں مثلاً بعض نے نماز وتر اور غیر وتر مرالی ہے، بعض ائمہ تفسیر مثلاً ابن سیرین (رض) ، مسروق (رض) ابو صالح (رض) قتادہ (رض) نے فرمایا کہ شفع سے مراد تمام مخلوق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے تمام مخلوقات کو جفت پیدا کیا ہے ” ومن کل شیء خلقنا زوجین “ یعنی ہم نے ہر شئی کو جوڑے سے پیدا کیا اور ان کے بالمقابل وتر صرف اللہ ہے، مطلب یہ کہ ہر شئی بلکہ ہر ذرہ باجوڑ ہے، ہر شئی اور ہر ذرہ میں سوائے اللہ کے دو پہلو، مثبت اور منفی ضرور پائے جاتے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
ظاہر ہے کہ مقسم بہ ہی مقسم علیہ ہے ۔ جب معاملہ ظاہر اور اہم ہو تو یہ جائز اور مستعمل ہے ، اس مقام پر بھی اسی طرح ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فجر کی قسم کھائی ہے جو رات کا آخر اور دن کا مقدمہ ہے ، کیونکہ رات کے لوٹنے اور دن کے آنے میں ایسی نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت پر دلالت کرتی ہیں ، نیز یہ کہ تمام امور کی تدبیر کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ فجر کے و قت ایک نہایت فضیلت اور عظمت والی نماز واقع ہوتی ہے اور وہ اس کی اہل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی قسم کھائے ، اس لیے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے اور صحیح قول کے مطابق یہ رمضان المبارک یا ذوالحج کی دس راتیں ہیں ، کیونکہ یہ راتیں فضٗیلت والے ایام پر مشتمل ہیں ۔ ان راتوں میں ایسی عبادت وقربات واقع ہوتی ہیں جو دوسرے ایام میں نہیں ہوتیں۔ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے ایک طاق رات میں لیلۃ القدر واقع ہوتی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ان کے دنوں میں رمضان کے آخری عشرے کے روزے رکھے جاتے ہیں جو ارکان اسلام میں سے ایک بہت بڑا رکن ہے اور ذو الحج کے پہلے عشرے میں عرفہ میں وقوف ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مغفرت سے نوازتا ہے ، جس سے شیطان غمگین ہوتا ہے ۔ شیطان جس قدر حقیر اور دھتکارا ہوا عرفہ کے دن ہوتا ہے ، اتنا حقیر اور دھتکارا ہوا کبھی نہیں دیکھا گیا ، کیونکہ اس روز وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر فرشتوں اور اس کی طرف سے رحمت کو اترتے دیکھتا ہے۔ ان دنوں میں حج اور عمرے کے بہت سے افعال واقع ہوتے ہیں اور اشیا ء قابل تعظیم اور اس بات کی مستحق ہیں کہ ان کی قسم کھائی جائے۔
11 Mufti Taqi Usmani
qasam hai fajar kay waqt ki ,
12 Tafsir Ibn Kathir
شفع اور وتر سے کیا مراد ہے اور قوم عاد کا قصہ
فجر تو ہر شخص جانتا ہے یعنی صبح اور یہ مطلب بھی ہے کہ بقر عید کے دن کی صبح، اور یہ مراد بھی ہے کہ صبح کے وقت کی نماز، اور پورا دن اور دس راتوں سے مراد ذی الحجہ مہینے کی پہلی دس راتیں۔ چناچہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ کوئی عبادت ان دس دنوں کی عبادت سے افضل نہیں لوگوں نے پوچھا اللہ کی راہ کا جہاد بھی نہیں ؟ فرمایا یہ بھی نہیں مگر وہ شخص جو جان مال لے کر نکلا اور پھر کچھ بھی ساتھ لے کر نہ پلٹا بعض نے کہا ہے محرم کے پہلے دس دن مراد ہیں حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں رمضان شریف کے پہلے دس دن لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے یعنی ذی الحجہ کی شروع کی دس راتیں۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ عشر سے مراد عیدالاضحی کے دس دن ہیں اور وتر سے مرادعرفے کا دن ہے اور شفع سے مراد قربانی کا دن ہے اس کی اسناد میں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن متن میں نکارت ہے واللہ اعلم۔ وتر سے مراد عرفے کا دن ہے یہ نویں تاریخ ہوتی ہے تو شفع سے مراد دسویں تاریخ یعنی بقر عید کا دن ہے وہ طاق ہے یہ جفت ہے حضرت واصل بن سائب (رض) نے حضرت عطاء (رض) سے پوچھا کہ کیا وتر سے مراد یہی وتر نماز ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں شفع عرفہ کا دن ہے اور وتر عیدالاضحی کی رات ہے حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ شفع کیا ہے اور وتر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا آیت (فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِيْ يَوْمَيْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ\020\03 ) 2 ۔ البقرة :203) میں جو دو دن کا ذکر ہے وہ شفع ہے اور من تاخر میں جو ایک دن ہے وہ وتر ہے یعنی گیارہویں بارہویں ذی الحجہ کی شفع اور تیرھویں وتر ہے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ایام تشریق کا درمیانی دن شفع ہے اور آخری دن وتر ہے، بخاری و مسلم کی حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ایک کم ایک سو نام ہیں جو انہیں یاد کرلے جنتی ہے وہ وتر ہے وتر کو دوست رکھتا ہے زید بن اسلم فرماتے ہیں اس سے مراد تمام مخلوق ہے اس میں شفع بھی ہے اور وتر بھی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مخلوق شفع اور اللہ وتر ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ شفع صبح کی نماز ہے اور وتر مغرب کی نماز ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ شفع سے مراد جوڑ جوڑ اور وتر سے مراد اللہ عز و جل جیسے آسمان، زمین، تری، خشکی جن انس سورج چاند وغیرہ قرآن میں ہے آیت ( وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ 49) 51 ۔ الذاریات :49) ہم نے ہر چیز کو جوڑ جوڑ پیدا کیا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کرلو یعنی جان لو کہ ان تمام چیزوں کا خالق اللہ واحد ہے جس کا کوئی شریک نہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد گنتی ہے جس میں جفت بھی ہے اور طاق بھی ہے ایک حدیث میں ہے کہ شفع سے مراد وہ دن ہیں اور وتر سے مراد تیسرا دن۔ یہ حدیث اس حدیث کے مخالف ہے جو اس سے پہلے گزر چکی ہے ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد نماز ہے کہ اس میں شفع ہے جیسے صبح کی دو ظہر عصر اور عشاء کی چار چار اور وتر ہے جیسے مغرب کی تین رکعتیں جو دن کے وتر ہیں اور اسی طرح آخری رات کا وتر ایک مرفوع حدیث میں مطلق نماز کے لفظ کے ساتھ مروی ہے بعض صحابہ سے فرض نماز مروی ہے لیکن یہ مرفوع حدیث نہیں زیادہ ٹھیک یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمران بن حصین پر موقوف ہے، واللہ اعلم۔ امام ابن جریر نے ان آٹھ نو اقوال میں سے کسی کو فیصل قرار نہیں دیا۔ پھر فرماتا ہے رات کی قسم جب جانے لگے اور یہ بھی معنی کیے گئے ہیں کہ جب آنے لگے بلکہ یہی معنی زیادہ مناسب اور والفجر سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔ فجر کہتے ہیں رات کے جانے کو اور دن کے آنے کو تو یہاں رات کا آنا اور دن کا جانا مراد ہوگا۔ جیسے آیت ( وَالَّيْلِ اِذَا عَسْعَسَ 17 ۙ وَالصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَ 18 ۙ ) 81 ۔ التکوير :17) میں عکرمہ فرماتے ہیں مراد مزدلفہ کی رات ہے حجر سے مراد عقل ہے، حجر کہتے ہیں روک کو چونکہ عقل بھی غلط کاریوں اور جھوٹی باتوں سے روک دیتی ہے اس لیے اسے عقل کہتے ہیں۔ ، خطیم کو بھی حجر البیت اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ طواف کرنے والے کو کعبۃ اللہ کی شامی دیوار سے روک دیتا ہے اسی سے ماخوذ ہے حجر یمامہ اور اسی لیے عرب کہتے ہیں حجر الحاکم علی فلان جبکہ کسی شخص کو بادشاہ تصرف سے روک دے اور کہتے ہیں کہ حجرا محجورا تو فرماتا ہے کہ ان میں عقل مندوں کے لیے قابل عبرت قسم ہے کہیں تو قسمیں ہیں عبادتوں کی کہیں عبادت کے وقتوں کی جیسے حج نماز وغیرہ کہ جن سے اس کے نیک بندے اس کا قرب اور اس کی نزدیکی حاصل کرتے ہیں اور اس کے سامنے اپنی پستی اور خود فراموشی ظاہر کرتے ہیں جب ان پرہیزگار نیک کار لوگوں کا اور ان کی عاجزی و تواضع خشوع و خضوع کا ذکر کیا تو اب ان کے ساتھ ہی ان کے خلاف جو سرکش اور بدکار لوگ ہیں ان کا ذکر ہو رہا ہے تو فرمایا ہے کہ کیا تم نے نہ دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے عادیوں کو غارت کردیا جو کہ سرکش اور متکبر تھے، اللہ کی نافرمانی کرتے، رسول کی تکذیب کرتے اور بدیوں پر جھک پڑتے تھے ان میں اللہ کے رسول حضرت ہود (علیہ السلام) آئے تھے یہ عاد اولیٰ ہیں جو عاد بن ارم بن سام بن نوح کی اولاد میں تھے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایمانداروں کو تو نجات دے دی اور باقی بےایمانوں کو تیز و تند خوفناک اور ہلاک آفریں ہواؤں سے ہلاک کیا سات راتیں اور آٹھ دن تک یہ غضب ناک آندھی چلتی رہی اور یہ سارے کے سارے اس طرح غارت ہوگئے کہ ان کے سر الگ تھے اور دھڑ الگ تھے ان میں سے ایک بھی باقی نہ رہا جس کا مفصل بیان قرآن کریم میں کئی جگہ ہے سورة الحاقہ میں بھی یہ بیان ہے ارم ذات العماد یہ عاد کی تفسیر بطور عطف بیان کے ہے تاکہ بخوبی وضاحت ہوجائے یہ لوگ مضبوط اور بلند ستونوں والے گھروں میں رہتے تھے اور اپنے زمانے مکہ اور لوگوں سے بہت بڑے تن و توش والے قوت و طاقت والے تھے اسی لیے حضرت ہود (علیہ السلام) نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ آیت (وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاۗءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَصْۜطَةً ۚ فَاذْكُرُوْٓا اٰلَاۗءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 69) 7 ۔ الاعراف :69) یعنی یاد کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں قوم نوح کے بعد زمین پر خلیفہ بنایا ہے اور تمہیں جسمانی قوت پوری طرح دی تمہیں چاہیے کہ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فسادی بن کر نہ رہو اور جگہ ہے کہ عادیوں نے زمین میں ناحق سرکشی کی اور بول اٹھے کہ ہم سے زیادہ قوت والا اور کون ہے ؟ کیا وہ بھول گئے کہ ان کا پیدا کرنے والا ان سے بہت ہی زبردست طاقت و قوت والا ہے یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ اس قبیلے جیسے طاقتور اور شہروں میں نہ تھے بڑے طویل القامت قوی الجثہ تھے ارم ان کا دار السلطنت تھا۔ انہیں ستونوں والے کہا جاتا تھا اس لیے بھی کہ یہ لوگ بہت دراز قد تھے بلکہ صحیح وجہ یہی ہے۔ مثلھا کی ضمیر کا مرجع عماد بتایا گیا ہے ان جیسے اور شہروں میں نہ تھے یہ احقاف میں بنے ہوئے لمبے لمبے ستون تھے اور بعض نے ضمیر کا مرجع قبیلہ بتایا ہے یعنی اس قبیلے جیسے لوگ اور شہروں میں نہ تھے اور یہی قول ٹھیک ہے اور اگلا قول ضعیف ہے اسی لیے بھی کہ یہی مراد ہوتی تو لم یجعل کہا جاتا نہ کہ لم یخلق ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ان میں اس قدر زور و طاقت تھی کہ ان میں سے کوئی اٹھتا اور اور ایک بڑی ساری چٹان لے کر کسی قبیلے پر پھینک دیتا تو یچارے سب کے سب دب کر مرجاتے حضرت ثور بن زید دیلی فرماتے ہیں کہ میں نے ایک ورق پر یہ لکھا ہوا پڑھا ہے کہ میں شداد بن عاد ہوں میں نے ستون بلند کیے ہیں میں نے ہاتھ مضبوط کیے ہیں میں نے سات ذرائع کے خزانے جمع کیے ہیں جو امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکالے گی غرض خواہ یوں کہو کہ وہ عمدہ اونچے اور مضبوط مکانوں والے تھے خواہ یوں کہو کہ وہ بلند وبالا ستونوں والے تھے یا یوں کہو کہ وہ بہترین ہتھیاروں والے تھے یا یوں کہو لمبے لمبے قد والے تھے مطلب یہ ہے کہ ایک قوم تھی جن کا ذکر قرآن کریم میں کئی جگہ ثمودیوں کے ساتھ آچکا ہے یہاں بھی اسی طرح عادیوں اور ثمودیوں کا دونوں کا ذکر ہے واللہ اعلم۔ بعض حضرات نے یہ بھی کہا کہ ارم ذات العماد ایک شہر ہے یا تو دمشق یا اسکندریہ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اس لیے کہ عبارت کا ٹھیک مطلب نہیں بنتا کیونکہ یا تو یہ بدل ہوسکتا ہے یا عطف بیان دوسرے اس لیے بھی کہ یہاں یہ بیان مقصود ہے کہ ہر ایک سرکش قبیلے کو اللہ نے برباد کیا جن کا نام عادی تھا، نہ کہ کسی شہر کو میں نے اس بات کو یہاں اس لیے بیان کردیا ہے تاکہ جن مفسرین کی جماعت نے یہاں یہ تفسیر کی ہے کہ ان سے کوئی شخص دھوکے میں نہ پڑجائے وہ لکھتے ہیں کہ یہ ایک شہر کا نام ہے جس کی ایک اینٹ سونے کی ہے دوسرے چاندی کی اس کے مکانات باغات محلے وغیرہ سب چاندی سونے کے ہیں کنکر لولو اور جواہر ہیں مٹی مشک ہے نہریں بہہ رہی ہیں پھل تیار ہیں، کوئی رہنے سہنے والا نہیں ہے در و دیوار خالی ہیں کوئی ہاں ہوں کرنے والا بھی نہیں، یہ شہر جگہ بدلتا رہتا ہے کبھی شام میں کبھی یمن میں کبھی عراق میں کبھی کہیں کبھی کہیں۔ وغیرہ یہ سب خرافات بنو اسرائیل کی ہیں ان کے بددینوں نے یہ خود ساختہ روایت تیار کی ہے تاکہ جاہلوں میں باتیں بنائیں، ثعلبی وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ ایک اعرابی حضرت امیر معاویہ (رض) کے زمانہ میں اپنے گم شدہ اونٹوں کو ڈھونڈ رہا تھا کہ جنگل بیابان میں اس نے اسی صفت کا ایک شہر دیکھا اور اس میں گیا، گھوما پھرا، پھر لوگوں سے آ کر ذکر کیا لوگ بھی وہاں گئے لیکن پھر کچھ نظر نہ آیا، ابن ابی حاتم نے یہاں ایسے قصے بہت سے لمبے چوڑے نقل کیے ہیں یہ حکایت بھی صحیح نہیں اور اگر یہ اعرابی والا قصہ سندا صحیح مان لیں تو ممکن ہے کہ اسے ہوس اور خیال ہو اور اپنے خیال میں اس نے یہ نقشہ جما لیا ہو اور خیالات کی پختگی اور عقل کی کمی نے اسے یقین دلایا ہو کہ وہ صحیح طور پر یہی دیکھ رہا ہے اور فی الواقع یوں نہ ہو ٹھیک اسی طرح جو جاہل حریض اور خیالات کے کچے ہوں سمجھتے ہیں کہ کسی خاص زمین تلے سونے چاندی کے پل ہیں اور قسم قسم کے جواہر یاقوت لولو اور موتی ہیں اکسیر کبیر ہے لیکن ایسے چند موانع ہیں کہ وہاں لوگ پہنچ نہیں سکتے مثلا خزانے کے منہ پر کوئی اژدھا بیٹھا ہے کسی جن کا پہرہ ہے وغیرہ یہ سب فضول قصے اور بناوٹی باتیں ہیں انہیں گھڑ گھڑا کر بیوقوفوں اور مال کے حریصوں کو اپنے دام میں پھانس کر ان سے کچھ وصول کرنے کے لیے مکاروں نے مشہور کر رکھے ہیں پھر کبھی چلے کھینچنے کے بہانے سے کبھی بخور کے بہانے سے کبھی کسی اور طرح سے ان سے یہ مکار روپے وصول کرلیتے ہیں اور اپنا پیٹ پالتے ہیں ہاں یہ ممکن ہے کہ زمین میں سے جاہلیت کے زمانے کا یا مسلمانوں کے زمانے کا کسی کا گاڑا ہوا مال نکل آئے تو اس کا پتہ جسے چل جائے وہ اس کے ہاتھ لگ جاتا ہے نہ وہاں کوئی مار گنج ہوتا ہے نہ کوئی دیو بھوت جن پری جس طرح ان لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے یہ بالکل غیر صحیح ہے یہ ایسے ہی لوگوں کی خود ساختہ بات ہے یا ان جیسے ہی لوگوں سے سنی سنائی ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نیک سمجھ دے۔ امام ابن جریر نے بھی فرمایا ہے کہ ممکن ہے اس سے قبیلہ مراد ہو اور ممکن ہے شہر مراد و لیکن ٹھیک نہیں یہاں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک قوم کا ذکر ہے نہ کہ شہر کا اسی لیے اس کے بعد ہی ثمودیوں کا ذکر کیا کہ وہ ثمودی جو پتھروں کی تراش لیا کرتے تھے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا فٰرِهِيْنَ\014\09ۚ ) 26 ۔ الشعراء :149) یعنی تم پہاڑوں میں اپنے کشادہ آرام دہ مکانات اپنے ہاتھوں پتھروں میں تراش لیا کرتے ہو۔ اس کے ثبوت میں کہ اس کے معنی تراش لینے کے ہیں عربی شعر بھی ہیں ابن اسحاق فرماتے ہیں ثمودی عرب تھے وادی القری میں رہتے تھے عادیوں کا قصہ پورا پورا سورة اعراف میں ہم بیان کرچکے ہیں اب اعادہ کی ضرورت نہیں پھر فرمایا میخوں والا فرعون اوتاد کے معنی ابن عباس نے لشکروں کے کیے ہیں جو کہ اس کے کاموں کو مضبوط کرتے رہتے تھے یہ بھی مروی ہے کہ فرعون غصے کے وقت لوگوں کے ہاتھ پاؤں میں میخیں گڑوا کر مروا ڈالتا تھا چورنگ کر کے اوپر سے بڑا پتھر پھینکتا تھا جس سے اس کا کچومر نکل جاتا تھا بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسیوں اور میخوں وغیرہ سے اس کے سامنے کھیل کیے جاتے تھے اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس نے اپنی بیوی صاحبہ کو جو مسلمان ہوگئی تھیں لٹا کر دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں میں میخیں گاڑیں پھر بڑا سا چکی کا پتھر ان کی پیٹھ پر مار کر جان لے لی، اللہ ان پر رحم کرے، پھر فرمایا کہ ان لوگوں نے سرکشی پر کمر باندھ لی تھی اور فسادی لوگ تھے لوگوں کو حقیر و ذلیل جانتے تھے اور ہر ایک کو ایذاء پہنچاتے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کے عذاب کا کوڑا برس پڑا۔ وہ وبال آیا جو ٹالے نہ ٹلا ہلاک و برباد اور نیست و نابود ہوگئے، تیرا رب گھات میں ہے دیکھ رہا ہے سن رہا ہے سمجھ رہا ہے وقت مقررہ پر ہر برے بھلے کو نیکی کی جزاء سزا دے گا یہ سب لوگ اس کے پاس جانے والے تن تنہا اس کے سامنے کھڑے ہونے والے ہیں اور وہ عدل و انصاف کے ساتھ ان میں فیصلے کرے گا اور ہر شخص کو پورا پورا بدلہ دے گا جس کا وہ مستحق تھا وہ ظلم وجور سے پاک ہے یہاں ابن ابی حاتم نے ایک حدیث وارد کی ہے جو بہت غریب ہے جس کی سند میں کلام ہے اور صحت میں بھی نظر ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے معاذ ! مومن حق کا قیدی ہے اے معاذ ! مومن تو امید و بیہم کی حالت میں ہی رہتا ہے جب تک کہ پل صراط سے پار نہ ہوجائے۔ اے معاذ ! مومن کو قرآن نے بہت سی دلی خواہشوں سے روک رکھا ہے تاکہ وہ ہلاکت سے بچ جائے قرآن اس کی دلیل ہے خوف اس کی حجت ہے شوق اس کی سواری ہے نماز اس کی پناہ ہے روزہ اس کی ڈھال ہے صدقہ اس کا چھٹکارا ہے سچائی اس کی امیر ہے شرم اس کا وزیر ہے اور اس کا رب ان سب کے بعد اس پر واقف و آگاہ ہے وہ تیز نگاہوں سے اسے دیکھ رہا ہے اس کے راوی یونس اللہ اور ابو حمزہ مجہول ہیں پھر اس میں ارسال بھی ہے ممکن ہے یہ ابو حمزہ ہی کا کلام ہو، اسی ابن ابی حاتم میں ہے کہ ابن عبدالکلاعی نے اپنے ایک وعظ میں کہا لوگو ! جہنم کے ساتھ پل ہیں ان سب پر پل صراط ہے پہلے ہی پل پر لوگ روکے جائیں گے یہاں نماز کا حساب کتاب ہوگا یہاں سے نجات مل گئی تو دوسرے پل پر روک ہوگی یہاں امانتداری کا سوال ہوگا جو امانت دار ہوگا اس نے نجات پائی اور جو خیانت والا نکلا ہلاک ہوا تیسرے پل پر صلہ رحمی کی پرسش ہوگی اس کے کاٹنے والے یہاں سے نجات نہ پاسکیں گے اور ہلاک ہوں گے رشتہ داری یعنی صلہ رحمی وہیں موجود ہوگی اور یہ کہہ رہی ہوگی کہ اللہ جس نے مجھے جوڑا تو اسے جوڑ اور جسے مجھے توڑا تو اسے توڑ یہی معنی ہیں آیت (ان ربک لبالمر صادر) یہ اثر اتنا ہی ہے پورا نہیں۔