التین آية ۱
وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِۙ
طاہر القادری:
انجیر کی قَسم اور زیتون کی قَسم،
English Sahih:
By the fig and the olive
1 Abul A'ala Maududi
قسم ہے انجیر اور زیتون کی
2 Ahmed Raza Khan
انجیر کی قسم اور زیتون
3 Ahmed Ali
انجیر اور زیتون کی قسم ہے
4 Ahsanul Bayan
قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
انجیر کی قسم اور زیتون کی
6 Muhammad Junagarhi
قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی
7 Muhammad Hussain Najafi
قَسم ہے انجیر اور زیتون کی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
قسم ہے انجیر اور زیتون کی
9 Tafsir Jalalayn
انجیر کی قسم اور زیتون کی
ترجمہ،۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی یعنی کھائے جانے والے دونوں پھلوں کی، یا قسم ہے دو پہاڑوں کی جن پر (مذکورہ) دونوں پھل پیدا ہوتے ہیں ملک شام میں اور قسم ہے طور سینین کی یعنی اس پہاڑ کی کہ جس پر موسیٰ (علیہ الصلوۃ والسلام) سے اللہ تعالیٰ ہم کلام ہوئے تھے اور سینین کے معنی مبارک (یا وہ مقام ہے) جو پھل دار درختوں کی وجہ سے حسین ہو اور قسم ہے اس پر امن شہر مکہ کی اس میں لوگوں کے زمانہ جاہلیت اور اسلام میں مامون ہونے کی وجہ سے اور ہم نے جنس انسان کو بہترین معتدل صورت پر پیدا کیا پھر ہم نے اس کے بعض افراد کو نیچوں سے نیچ کردیا یہ بڑھاپے اور ضعف سے کنایہ ہے، چناچہ مومن کا عمل (بڑھاپے کے زمانہ میں) شباب کے زمانہ کی بہ نسبت گھٹ جاتا ہے، مگر اس کے اجر کا سلسلہ بدستور جاری رہتا ہے، اللہ تعالیٰ کے قول ” الا الذین آمنوا “ الآیۃ کی دلیل سے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے لئے ختم نہ ہونے والا اجر ہے اور حدیث شریف میں ہے، جب مومن بڑھاپے کی وجہ سے اس حالت کو پہنچ جاتا ہے کہ جو اس کو عمل سے عاجز کردیتی ہے تو اس کے لئے وہی اجر لکھا جاتا ہے جو وہ (زمانہ شباب میں) کیا کرتا تھا، پس اے کافر ! تجھے اب یعنی مذکورہ صورت حال کے بعد اور وہ صورت حال، انسان کو احسن صورت میں پیدا کرنا پھ اس کو گھٹیا ترین عمر تک پہنچا دینا ہے جو کہ بعث (بعد الموت) پر قدرت رکھنے پر دلالت کرتی ہے، روز جزاء کے جھٹلانے پر کس چیز نے آمادہ کیا ؟ وہ جزا کہ جو بعث اور حساب کے بعد ہوگی، یعنی کس چیز نے تجھے اس کی تکذیب کرنے والا بنادیا ؟ حالانکہ اس کا کوئی سبب نہیں ہے، کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں کا حاکم نہیں ہے ؟ یعنی وہ تمام فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بڑا فیصلہ کرنے والا ہے، اور اس کے جزا کا حکم کرنے کا تعلق بھی اسی فیصلہ سے ہے اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو پوری سورة تین پڑھے اس کو ” بلی وانا علی ذلک من الشاھدین “ کہنا چاہیے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : والتین والزیتون، طور سینین، وھذا البلد الامین اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک مقسم علیہ کے لئے چار قسمیں کھائی ہیں، اس لئے کہ مقسم علیہ کی عظمت اور اہمیت پر دلالت مقصود ہے اور مقسم علیہ ” لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم “ ہے۔
قولہ : والتین والزیتون، تین اور زیتون سے کیا مراد ہے اس میں دو قول ہیں، ابن عباس (رض) نے فرمایا، اس سے مراد انجیر اور زیتون دونوں پھل ہیں۔
فائدہ،۔ انجیر، غذا، دوا اور پھل، تینوں اوصاف کا جامع ہے، اطباء کیر ائے ہے کہ انجیر لطیف اور زود ہضم غذا ہے، معدہ میں زیادہ دیر نہیں ٹھہرتا، طبیعت کی تسکین کرتا ہے، بلغم کو کم کرتا ہے گردوں کی تطہیر کرتا ہ، نیز ریگ مثانہ کو خارج کرتا ہے، مثانہ کو تقویت دیتا ہے، بدن کو فربہ کرتا ہے اور جگر اور تلی کے سدوں کو کھولتا ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ انجیر کھانا منہ کی بدبو کو زائل کرتا ہے اور بالوں کو دراز کرتا ہے، روح المعانی میں یہ بھی ہے کہ انجیر بہترین غذا ہے اگر نہار منہ کھایا جائے اور اس کے بعد کچھ نہ کھائے، اور مزید لکھا ہے کہ یہ کثیر النفع دوا ہے، سدوں کو کھولتا ہے جگر کو قوی کرتا ہے ورم طحال کو زائل کرتا ہے اور عسر البول میں نافع ہے ہزال الکلی (ذبول گردہ) اور خفقان اور قیض النفس نیز کھانسی اور وجع الصدر وغیرہ میں مفید ہے۔ (روح المعانی) اگر خواب میں کسی نے انجیر پایا تو اس کو مال حاصل ہوگا اور اگر انجیر کھایا تو اس کو اولاد نصیب ہوگی۔ (جمل، صاوی)
بعض حضرات نے کہا ہے کہ تین اور زیتون ملک شام کے دو پہاڑ ہیں، مفسر علام نے بہت سے اقوال میں سے دو قوال نقل کئے ہیں۔
قولہ : وطور سینین یہ اضافت موصوف الی الصفت کے قبیل سے ہے۔
قولہ : فی بعض افرادہ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آیت میں صنعت است خدام ہے اس طریقہ پر کہ انسان کو اولاً جنس انسان کے معنی میں لیا پھر جب رددناہ کی ضمیر کو اس کی طرف لوٹایا تو انسان کے دوسرے معنی یعنی بعض افراد انسان کے معنی میں اور پھر ضمیر کو انسان کی طرف لوٹایا۔
تفسیر و تشریح
والتین والزیتون اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے، حسن بصری، عکرمہ، عطا بن ابی رباح جابر بن زید (علیہ الصلوۃ والسلام) وغیرہ کہتے ہیں کہ انجیر سے یہی انجیر مراد ہے جسے لوگ کھاتے ہیں اور زیتون سے مراد وہی پھل ہے جو مشہور ہے جس سے روغن زیتون نکالا جاتا ہے اور عام طور پر دستیاب ہے، ابن ابی حاتم (علیہ الصلوۃ والسلام) اور حاکم نے ایک قول عبداللہ بن عباس (رض) سے بھی اس کی تائید میں نقل کیا ہے۔
بعض مفسرین نے تین اور زیتون سے وہ مقامات مراد لئے ہیں جن مقامات میں یہ پیدا ہوتے ہیں، کعب (رض) احبار اور قتادہ اور ابن زید (رض) کہتے ہیں کہ تین سے مراد دمشق ہے اور زیتون سے مراد بیت المقدس۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَالتِّیْنِ﴾ انجیر کا معروف درخت اور اسی طرح ﴿الزَّیْتُوْنِ﴾ زیتون بھی ایک معروف درخت ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے ان دونوں کی قسم ان کے اور ان کے پھل کے کثیر الفوائد ہونے کی بنا پر کھائی ہے ، نیز اس بنا پر قسم کھائی ہے کہ ان دونوں درختوں کی ارض شام (فلسطین) میں، جو حضرت عیسیٰ ابن مریم کی نبوت کا محل ومقام ہے ، کثرت ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
qasam hai injeer aur zaitoon ki ,
12 Tafsir Ibn Kathir
تین سے مراد کسی کے نزدیک تو مسجد دمشق ہے کوئی کہتا ہے خود دمشق مراد ہے، کسی کے نزدیک دمشق کا ایک پہاڑ مراد ہے بعض کہتے ہیں کہ اصحاب کہف کی مسجد مراد ہے، کوئی کہتا ہے کہ جودی پہاڑ پر مسجد نوح ہے وہ مراد ہے۔ بعض کہتے ہیں انجیر مراد ہے زیتون سے کوئی کہتا ہے مسجد بیت المقدس مراد ہے۔ کسی نے کہا کہ وہ زیتون جسے نچوڑتے ہو، طور سینین وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسیٰ سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا بلد الامین سے مراد مکہ شریف ہے اس میں کسی کو اختلاف نہیں۔ بعض کا قول یہ ہے کہ یہ تینوں وہ جگہیں ہیں جہاں تین اولو العزم صاحب شریعت پیغمبر بھیجے گئے تھے، تین سے مراد تو بیت المقدس ہے۔ جہاں پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجا گیا تھا اور طور سینین سے مراد طور سینا ہے جہاں حضرت موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا اور بلد امین سے مراد مکہ مکرمہ جہاں ہمارے سردار حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجے گئے، تورات کے آخر میں بھی ان تینوں جگہوں کا نام ہے اس میں ہے کہ طور سینا سے اللہ تعالیٰ آیا یعنی وہاں پر حضرت عیسیٰ کو وہاں بھیجا اور فاران کی چوٹیوں پر وہ بلند ہوا یعنی مکہ کے پہاڑوں سے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا، پھر ان تینوں زبردست بڑے مرتبے والے پیغمبروں کی زمانی اور وجودی ترتیب بیان کردی۔ اسی طرح یہاں بھی پہلے جس کا نام لیا اس سے زیادہ شریف چیز کا نام پھر لیا اور پھر ان دونوں سے بزرگ تر چیز کا نام آخر میں لیا۔ پھر ان قسموں کے بعد بیان فرمایا کہ انسان کو اچھی شکل و صورت میں صحیح قدو قامت والا، درست اور سڈول اعضاء والا خوبصورت اور سہانے چہرے والا پیدا کیا پھر اسے نیچوں کا نیچ کردیا یعنی جہنمی ہوگیا، اگر اللہ کی اطاعت اور رسول کی اتباع نہ کی تو اسی لیے ایمان والوں کو اس سے الگ کرلیا، بعض کہتے ہیں کہ مراد انتہائی بڑھاپے کی طرگ لوٹا دینا ہے۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں جس نے قرآن جمع کیا وہ رذیل عمر کو نہ پہنچے گا، امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں لیکن اگر یہی بڑھاپا مراد ہوتا تو مومنوں کا استشناء کیوں ہوتا ؟ بڑھاپا تو بعض مومنوں پر بھی آتا ہے پس ٹھیک بات وہی ہے جوا وپر ہم نے ذکر کی جیسے اور جگہ سورة والعصر میں ہے کہ تمام انسان نقصان میں ہیں سوائے ایمان اور اعمال صالح والوں کے کہ انہیں ایسی نیک جزاملے گی جس کی انتہا نہ ہو جیسے پہلے بیان ہوچکا ہے پھر فرماتا ہے اے انسان جبکہ تو اپنی پہلی اور اول مرتبہ کی پیدائش کو جانتا ہے تو پھر جزا و سزا کے دن کے آنے پر اور تیرے دوبارہ زندہ ہونے پر تجھے کیوں یقین نہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ تو اسے نہیں مانتا حالانکہ ظاہر ہے کہ جس نے پہلی دفعہ پیدا کردیا اس پر دوسری دفعہ کا پیدا کرنا کیا مشکل ہے ؟ حضرت مجاہد ایک مرتبہ حضرت ابن عباس سے پوچھ بیٹھے کہ اس سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ؟ آپ نے فرمایا معاذ اللہ اس سے مراد مطلق انسان ہے عکرمہ وغیرہ کا بھی یہی قول ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ کیا اللہ حکم الحاکمین نہیں ہے وہ نہ ظلم کرے نہ بےعدلی کرے اسی لیے وہ قیامت قائم کرے گا اور ہر ایک ظالم سے مظلوم کا انتقال لے گا، حضرت ابوہریرہ سے مرفوع حدیث میں یہ گذر چکا ہے کہ جو شخص والتین والزیتون پڑھے اور اس کے آخر کی آیت الیس اللّٰہ پڑھے تو کہہ دے بلی وانا علی ذالک من الشاھدین یعنی ہاں اور میں اس پر گواہ ہوں۔ اللہ کے فضل و کرم سے سورة التین کی تفسیر ختم ہوئی فالحمد اللہ۔