قریش آية ۱
لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍۙ
طاہر القادری:
قریش کو رغبت دلانے کے سبب سے،
English Sahih:
For the accustomed security of the Quraysh -
1 Abul A'ala Maududi
چونکہ قریش مانوس ہوئے
2 Ahmed Raza Khan
اس لیے کہ قریش کو میل دلایا
3 Ahmed Ali
اس لیے کہ قریش کو مانوس کر دیا
4 Ahsanul Bayan
قریش کے مانوس کرنے کے لئے
5 Fateh Muhammad Jalandhry
قریش کے مانوس کرنے کے سبب
6 Muhammad Junagarhi
قریش کے مانوس کرنے کے لئے
7 Muhammad Hussain Najafi
چونکہ (اللہ نے) قریش کو مانوس کر دیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
قریش کے انس و الفت کی خاطر
9 Tafsir Jalalayn
قریش کے مانوس کرنے کے سبب
ترجمہ :۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، چونکہ قریش مانوس ہوئے (دوسرے الفھم پہلے ایلاف) کی تاکید ہے یہ الف بالمد کا مصدر ہے یعنی سردیوں میں یمن کے سفر سے اور گرمیوں میں شام کے سفر سے مانوس، ہر سال دونوں تجارتی سفروں سے بایت اللہ کی خدمت کے لئے مکہ میں قیام پر مدد لیتے تھے جو کہ ان کے لئے موجب فخر تھی اور وہ نضر بن کنانہ کی اولاد میں سے تھے، لہذا ان کو چاہیے کہ لایلف فلیعبدوا کے متعلق ہے اور فازائدہ ہے، اس گھر کے رب کی عبادت کریں، اس لئے کہ اس نے ان کو بھوک سے بچا کر کھانا کھلایا اور خوف سے بچا کر ان کو امن عطا کیا مکہ میں زراعت نہ ہونے کی وجہ سے ان کو بھوک لاحق ہوجاتی تھی اور ہاتھیوں کے لشکر سے وہ خوف زدہ تھے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : لایلف قریش ایلف باب افعال کا مصدر ہے، مانوس رکھنا، الفت کرنا۔
قولہ : قریش قبیلہ عدنان کے قبیلہ کنانہ کی ایک شاخ ہے، جو خاندان ریش کے نام سے مشہور ہوئی، قریش کے مورث اعلیٰ نضر کو ہی قریش کہا جاتا ہے، لایلف جار مجرور سے مل کر کس کے متعلق ہے ؟ اس میں بہت اختلاف ہے۔ اول راجح قول لکھا جاتا ہے، راجح قول یہ ہے کہ یہ اپنے مابعد فلیعبدوا سے متعلق ہے، تقدیر عبارت یہ ہوگی فان لم یعبدواللہ لسائر نعمہ السابقۃ فلیعبدوہ لایلفھم رحلۃ الشتاء والصیف یعنی اگر قریش اللہ کی دیگر کامل نعمتوں کا شکریہ ادا نہیں کرتے تو کم از کم اس کی نعمت کے شکریہ میں اس گھر کے مالک کی بندگی کریں کہ جس نے ان کو سردی، گرمی کے ان دو سفروں کا خوگر بنایا جو ان کی خوشحالی کے ضامن ہیں۔
عام طور پر جار مجرور کا تعلق مقدم سے ہوا کرتا ہے لہٰذا لایلف کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے ماقبل سے متعلق ہو، اسی لئے متعلق میں متعدد اقوال ہیں، گزشتہ سورة فیل سے معنوی تعلق کی بناء پر بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ لایلف سے پہلے ایک جملہ محذوف ہے اور وہ انا اھلکنا اصحب الفیل ہے یعنی ہم نے اصحاب فیل کو اس لئے ہلاک کیا کہ قریش مکہ سردی اور گرمی کے دو سفروں کے عادی تھے، تاکہ ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ رہے اور سب کے دلوں میں ان کی عظمت پیدا ہوجائے، چناچہ اصحاب فیل کے ہلاک ہونے کے بعد نہ صرف یہ کہ قریش مکہ کی عظمت باقی رہی، بلکہ اس میں اور اضافہ ہوگیا او عرب کو پورا یقین ہوگیا کہ بیت اللہ واقعتہ اللہ کا گھر ہے، اور اگر خدانخواستہ ابرہہ بیت اللہ کو منہدم کردیتا تو قریش مکہ کی نہ صرف یہ کہ عظمت کم ہوجاتی، بلکہ ختم ہوجاتی اور بیت اللہ کے خادم اور مجاور ہونے کی وجہ سے جو قدر و قیمت ان کو حاصل تھی وہ سب خاک میں مل جاتی، رہزنی اور لوٹ مار کے جو واقعات غیروں کے ساتھ ہو رہے تھے، وہ قریش کے ساتھ بھی ہونے لگتے، لیکن اللہ نے بیت اللہ کی حفاظت فرما کر قریش کی عزت وقار میں اور چار چاند لگا دیئے اور ان کے لئے راستے پہلے سے بھی زیادہ مامون و محفوظ ہوگئے۔
اور بعض حضرات نے متعلق محذوف جملہ اعجبوا مانا ہے یعنی قریش کے معامل ہ سے تعجب کرو کہ وہ کس طرح سردی گرمی کے سفر آزادانہ بےخطر ہو کر کرتے ہیں۔
قولہ : ایلافھم یہ پہلے ایلف کی تاکید لفظی ہے بعض حضرات نے ثانی کو اول سے بدل قرار دیا ہے، رحلۃ پہلے ایلف کا مفعول بہ ہے۔
قولہ : فلیعبدوا اس میں فاء جزائیہ ہے، شرط محذوف ہے، تقدیر عابرت یہ ہے کہ ان لم یعبدوا لسائر نعمہ فلیعبدوہ لایلفھم رحلۃ الشتاء والصیف، فانھا اظھر نعمھم علیھم اور فلیعبدوا میں لام امر کا ہے۔
تفسیر و تشریح
اس پر سب کا اتفاق ہے کہ معنی اور مضمون کے اعتبار سے یہ سورت سورة فیل ہی سے متعلق ہے اور شاید اسی وجہ سے بعض مصاحف میں ان دونوں سورتوں کو ایک ہی سورت کر کے لکھا گیا تھا، بایں طور کہ ان کے درمیان بسم اللہ نہیں لکھی تھی، مگر حضرت عثمان غنی (رض) نے جب تمام مصاحف کو جمع کر کے ایک نسخہ تیار فرمایا اور تمام صحابہ کرام (رض) کا اس پر اجماع ہوا، جس نسخہ قرآن کو جمہور کے نزدیک ” مصحف امام “ کہا جاتا ہے تو اس میں ان دونوں سورتوں کو الگ الگ ہی لکھا گیا ہے۔
رحملۃ الشتاء والصیف سردی اور گرمی کے سفروں سے مراد یہ ہے کہ گرمی کے زمانہ میں قریش کے سفر شام اور فلسطین کی طرف ہوتے تھے اس لئے کہ وہ ٹھنڈے علاقہ ہیں اور سردی کے زمانہ میں جنوب یعنی یمن کی طرف ہوتے تھے، اسی لئے کہ یہ گرم علاقہ ہے۔
رب ھذا البیت سے مراد بیت اللہ کا رب ہے رب ھذا البیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ قریش کو یہ نعمت اسی گھر کی بدولت حاصل ہوئی ہے اور اسی بیت کے رب نے انہیں اصحاب فیل کے حملے سے بچایا اور اسی گھر کی خدمت اور سد انت کی وجہ سے انہیں سارے عرب میں عزت ملی اور وہ پورے عرب میں بےخوف و خطر سفر کرتے تھے، پس ان کو جو کچھ نصیب ہوا وہ اس گھر کے رب کی بدلوت نصیب ہوا اس لئے انہیں اسی کی عبادت کرنی چاہیے۔
10 Tafsir as-Saadi
بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ جار اور مجرور کا تعلق ماقبل سورت سے ہے ، یعنی ہم نے اصحاب فیل کے ساتھ جو کچھ کیا وہ قریش، ان کے لیے امن ، ان کے مصالح کی درستی، تجارت اور کسب معاش کے لیے سردیوں میں یمن کی طرف اور گرمیوں میں شام کی طرف ان کے سفر کی خاطر کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں کو ہلاک کردیا جنہوں نے ان کے بارے میں کسی برائی کا ارادہ کیا۔ عربوں کے دلوں میں حرم اور اہل حرم کے معاملے کو تعظیم بخشی، یہاں تک کہ عرب قریش کا احترام کرنے لگے ،قریش جہاں بھی سفر کا ارادہ کرتے تو عرب معترض نہ ہوتے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو شکر ادا کرنے کا حکم دیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
chunkay quraish kay log aadi hain ,
12 Tafsir Ibn Kathir
امن وامان کی ضمانت :
موجودہ عثمانی قرآن کی ترتیب میں یہ سورت سورة فیل سے علیحدہ ہے اور دونوں کے درمیان بسم اللہ کی آیت کا فاصلہ ہے مضمون کے اعتبار سے یہ سورت پہلی سے ہی متعلق ہے جیسے کہ محمد بن اسحاق عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم وغیرہ سے تصریح کی ہے اس بنا پر معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے مکہ سے ہاتھیوں کو روکا اور ہاتھی والوں کو ہلاک کیا یہ قریشیوں کو الفت دلانے اور انہیں اجتماع میں ساتھ باامن اس شہر میں رہنے سہنے کے لیے تھا اور یہ مراد بھی کی گئی ہے کہ یہ قریشی جاڑوں میں کیا اور گرمیوں میں کیا دور دراز کے سفر امن وامان سے طے کرسکتے تھے کیونکہ مکہ جیسے محترم شہر میں رہنے کی وجہ سے ہر جگہ ان کی عزت ہوتی تھی بلکہ ان کے ساتھ بھی جو ہوتا تھا امن وامان سے سفر طے کرلیتا تھا اسی طرح وطن سے ہر طرح کا امن انہیں حاصل ہوتا تھا جیسے کہ اور جگہ قرآن کریم میں موجود ہے کہ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن والی جگہ بنادیا ہے اس کے آس پاس تو لوگ اچک لئے جاتے ہیں لیکن یہاں کے رہنے والے نڈر ہیں۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں لا یلف، میں پہلا لام تعجب کا لام ہے اور دونوں سورتیں بالکل جداگانہ ہیں جیسا کہ مسلمانوں کا اجماع ہے۔ تو گویا یوں فرمایا جارہا ہے کہ تم قریشیوں کے اس اجتماع اور الفت پر تعجب کرو کہ میں نے انہیں کیسی بھاری نعمت عطا فرما رکھی ہے انہیں چاہیے کہ میری اس نعمت کا شکر اس طرح ادا کریں کہ صرف میری ہی عبادت کرتے رہیں جیسے اور جگہ ہے (قُلْ اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ وَلَآ اُشْرِكَ بِهٖ ۭ اِلَيْهِ اَدْعُوْا وَاِلَيْهِ مَاٰبِ 36) 13 ۔ الرعد :36) ، یعنی اے نبی تم کہہ دو کہ مجھے تو صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی ہی عبادت کروں جس نے اسے حرم بنایا جو ہر چیز کا مالک ہے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کا مطیع اور فرمانبردار ہوں پھر فرمایا ہے وہ رب بیت جس نے انہیں بھوک میں کھلایا اور خوف میں نڈر رکھا نا ہیں چاہیے کہ اس کی عبادت میں کسی چھوٹے بڑے کو شریک نہ ٹھہرائیں جو اللہ کے اس حکم کی بجا آوری کرے گا وہ تو دنیا کے اس امن کے ساتھ آخرت کے دن بھی امن وامان سے رہے گا، اور اس کی نافرمانی کرنے سے یہ امن بھی بےامنی سے اور آخرت کا امن بھی ڈر خف اور انتہائی مایوسی سے بدل جائے گا جیسے اور جگہ فرمایا ( وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ\011\02 ) 16 ۔ النحل :112) ، اللہ تعالیٰ ان بستی والوں کی مثال بیان فرماتا ہے جو امن واطمینان کے ساتھ تھے ہر جگہ سے بافراغت روزیاں کھچی چلی آتی تھیں لیکن انہیں اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے کی سوجھی چناچہ اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں بھوک اور خوف کا لباس چکھا دیا یہی ان کے کرتوت کا بدلہ تھا ان کے پاس ان ہی میں سے اللہ کے بھیجے ہوئے آئے لیکن انہوں نے انہیں جھٹلایا اس ظلم پر اللہ کے عذابوں نے انہیں گرفتار کرلیا ایک حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قریشیو ! تمہیں تو اللہ یوں راحت و آرام پہنچائے گھر بیٹھے کھلائے پلائے چاروں طرف بد امنی کی آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں اور تمہیں امن وامان سے میٹھی نیند سلائے پھر تم پر کیا مصیبت ہے جو تم اپنے اس پروردگار کی توحید سے جی چراؤ اور اس کی عبادت میں دل نہ لگاؤ بلکہ اس کے سوا دو سروں کے آگے سر جھکاؤ۔ الحمد اللہ سورة قریش کی تفسیر ختم ہوئی۔