Skip to main content

ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا

Then
ثُمَّ
پھر
he followed
أَتْبَعَ
اس نے پیروی کی
(a) course
سَبَبًا
اسباب کی

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

پھر اُس نے (ایک دُوسری مہم کی) تیاری کی

English Sahih:

Then he followed a way

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

پھر اُس نے (ایک دُوسری مہم کی) تیاری کی

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

پھر ایک سامان کے پیچھے چلا

احمد علی Ahmed Ali

پھر اس نے ایک ساز و سامان تیار کیا

أحسن البيان Ahsanul Bayan

پھر وہ اور راہ کے پیچھے لگا (١)

٨٩۔١ یعنی اب مغرب سے مشرق کی طرف سفر اختیار کیا۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

پھر اس نے ایک اور سامان (سفر کا) کیا

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

پھر وه اور راه کے پیچھے لگا

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور ہم بھی اس کے ساتھ معاملہ میں نرم بات کریں گے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اس کے بعد انہوں نے دوسرے وسائل کا پیچھا کیا

طاہر القادری Tahir ul Qadri

(مغرب میں فتوحات مکمل کرنے کے بعد) پھر وہ (دوسرے) راستہ پر چل پڑا،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

ایک وحشی بستی۔
ذوالقرنین مغرب سے واپس مشرق کی طرف چلے۔ راستے میں جو قومیں ملتیں اللہ کی عبادت اور اس کی توحید کی انہیں دعوت دیتے۔ اگر وہ قبول کرلیتے تو بہت اچھا ورنہ ان سے لڑائی ہوتی اور اللہ کے اور اللہ کے فضل سے وہ ہارتے آپ انہیں اپنا ماتحت کر کے وہاں کے مال ومویشی اور خادم وغیرہ لے کر آگے کو چلتے۔ بنی اسرائیلی خبروں میں ہے کہ یہ ایک ہزار چھ سو سال تک زندہ رہے۔ اور برابر زمین پر دین الہٰی کی تبلیغ میں رہے ساتھ ہی بادشاہت بھی پھیلتی رہے۔ جب آپ سورج نکلنے کی جگہ پہنچے وہاں دیکھا کہ ایک بستی آباد ہے لیکن وہاں کے لوگ بالکل نیم وحشی جیسے ہیں۔ نہ وہ مکانات بناتے ہیں نہ وہاں کوئی درخت ہے سورج کی دھوپ سے پناہ دینے والی کوئی چیز وہاں انہیں نظرنہ آئی۔ ان کے رنگ سرخ تھے ان کے قد پست تھے عام خوراک ان کی مچھلی تھی۔ حضرت حسن (رح) فرماتے ہیں سورج کے نکلنے کے وقت وہ پانی میں چلے جایا کرتے تھے اور غروب ہونے کے بعد جانوروں کی طرح ادھر ادھر ہوجایا کرتے تھے۔ قتادہ کا قول ہے کہ وہاں تو کچھ اگتا نہ تھا سورج کے نکلنے کے وقت وہ پانی میں چلے جاتے اور زوال کے بعد دوردراز اپنی کھیتیوں وغیرہ میں مشغول ہوجاتے۔ سلمہ کا قول ہے کہ ان کے کان بڑے بڑے تھے ایک اوڑھ لیتے، ایک بجھالیتے۔ قتادہ (رح) کہتے ہیں یہ وحشی حبشی تھے۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ وہاں کبھی کوئی مکان یا دیوار یا احاطہ نہیں بنا سورج کے نکلنے کے وقت یہ لوگ پانی میں گھس جاتے وہاں کوئی پہاڑ بھی نہیں۔ پہلے کسی وقت ان کے پاس ایک لشکر پہنچا تو انہوں نے ان سے کہا دیکھو سورج نکلتے وقت باہر نہیں ٹھہرنا انہوں نے کہا نہیں ہم تو رات ہی رات یہاں سے چلے جائیں گے لیکن یہ تو بتاؤ کہ یہ ہڈیوں کے چمکیلے ڈھیر کیسے ہیں ؟ انہوں نے کہا یہاں سے پہلے ایک لشکر آیا تھا سورج کے نکلنے کے وقت وہ یہیں ٹھیرا رہا سب مرگئے یہ ان کی ہڈیاں ہیں یہ سنتے ہی وہ وہاں سے واپس ہو گے۔ پھر فرماتا ہے کہ ذوالقرنین کی اس کے ساتھیوں کی کوئی حرکت کوئی گفتار اور رفتار ہم پر پوشیدہ نہ تھی۔ گو اس کا لاؤ لشکر بہت تھا زمین کے ہر حصے پر پھیلا ہوا تھا لیکن ہمارا علم زمین و آسمان پر حاوی ہے۔ ہم سے کوئی چیز مخفی نہیں۔