البقرہ آية ۱
الٓمّٓۚ
طاہر القادری:
الف لام میم (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)
English Sahih:
Alif, Lam, Meem.
1 Abul A'ala Maududi
الف لام میم
2 Ahmed Raza Khan
الم
3 Ahmed Ali
المۤ
4 Ahsanul Bayan
الم (۱)
ف۱ الف لام میم انہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے، یعنی علیحدہ علیحدہ پڑھے جانے والے حروف ان کے معنی کے بارے میں کوئی مستند روایت نہیں ہے (وَاللّہ العالِمُ بمرادہ) البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ضرور فرمایا ہے میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، میم ایک حرف اور لام ایک حرف ہر حرف پر ایک نیکی اور ایک نیکی کا اجر دس گنا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
الم
6 Muhammad Junagarhi
الم
7 Muhammad Hussain Najafi
الف۔ لام۔ میم۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
الۤمۤ
9 Tafsir Jalalayn
الم
اَلمّ اللہ ہی اس سے اپنی مراد کو بہتر جانتا ہے، یہ کتاب ہے جس کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑھتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ منجانب اللہ ہے اور جملہ (یعنی لَا رَیْبَ فِیْہِ ) خبر ہے جس کا مبتداء ذٰلِکَ ہے اور اسم بعید کا استعمال بیان تعظیم کے لئے ہے، ھُدًی خبر ثانی ہے اور معنی میں ھَادٍ کے ہے، متقیوں کے لئے رہنما ہے (یعنی) امتثال اوامر اور اجتناب نواہی کے ذریعہ تقویٰ کی رغبت رکھنے والے ہیں، (اس امتثال واجتناب) ہی کی بدولت نار جہنم سے بچنے کی وجہ سے ان کو متقی کہا گیا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو مغیبات پر ایمان رکھتے ہیں، یعنی ان چیزوں کی جو ان سے مخفی ہیں مثلاً بعث بعد الموت، جنت اور نار کی تصدیق کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں یعنی اس کے ارکان و شرائط کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا ہے، اس میں سے اللہ کی طاعت میں خرچ کرتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں، جو اس قرآن پر ایمان رکھتے ہیں، جو آپ پر نازل کیا گیا ہے اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا، یعنی تورات انجیل وغیرہ، اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں، یعنی اس کا پختہ علم رکھتے ہیں، یہی لوگ جو مذکورہ صفات سے متصف ہیں، اپنے رب کی جانب سے ہدایت پر ہیں اور یہی ہیں جو پوری طرح کامیاب ہیں، (یعنی) جنت کے (حصول کے) ذریعہ کامیاب اور نار جہنم سے نجات پانے والے ہیں، بلاشبہ وہ لوگ جو منکر ہوئے جیسا کہ ابو جہل اور ابو لہب وغیرہ، آپ کا ان کو ڈرانا اور نہ ڈرانا برابر ہے، (ءَاَنْذَرْتَھُمْ ) میں دونوں ہمزوں کی تحقیق اور دوسرے کو الف سے تبدیل کرکے اور دوسرے میں ترک تسہیل کرکے اور مُسَہُّلَہ اور محققہ کے درمیان الف داخل کرکے (اور ثانی میں) ترک تسہیل کرکے وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں، اس لئے کہ یہ بات ان کے بارے میں اللہ کے علم میں ہے، لہٰذا آپ ان کے ایمان کی امید نہ رکھیں اور انذار، خوف کے ساتھ ڈرانے کو کہتے ہیں، اللہ نے ان کے قلوب پر مہر لگا دی ہے اور ان کو سیل (Seel) کردیا ہے، لہٰذا اب ان میں خیر داخل نہیں ہوسکتی اور ان کی (قوت) سماعت یعنی کانوں پر (معنوی) مہر لگای گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ حق بات سن کر مستفید نہیں ہوتے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے، جس کی وجہ سے حق بات نہیں دیکھ سکتے اور ان کے لئے قوی اور دائمی عذاب ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قرآنی سورتوں کا ” سورة “ نام رکھنے کی وجہ تسمیہ :
سَوْرَۃُ البَقَرَۃِ : سورة ، لغت میں بلندی یا بلند منزل کو کہتے ہیں، (لسان، راغب) یعنی ہر سورت بلند مرتبہ ہے، سورت کے ایک معنی فصیل (شہر پناہ) کے بھی ہیں، شہر کے چاروں طرف کی دیوار کو سورت المدینہ کہتے ہیں قرآنی سورتوں کو سورت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنے مضامین کو اسی طرح احاطہ کئے رہتی ہے، جس طرح فصیل شہر کا احاطہ کئے رہتی ہے۔
ذَلِکَ : اسم اشارہ بعید کے لئے ہے، جس کا مشار الیہ محسوسات میں سے ہو، یعنی حواس خمسہ ظاہرہ سے جن کا ادراک کیا جاسکتا ہو، رَیْبَ شک و شبہ، ھو التردد بین المنقیضین لا ترجیح لاحدھما علی الآخر عند الشاک، ھُدًی، ہدایت سے ماخوذ ہے بمعنی رہنمائی غَیْبِ ہر وہ شئی جو انسان کے حواس خمسہ سے غائب ہو، یُقِیْمُوْنَ اقامت سے ماخوذ ہے، جس کے معنی سیدھا کرنے کے ہیں اور نماز کا سیدھا کرنا اس کو آداب و شرائط کی رعایت کرتے ہوئے خشوع خضوع کے ساتھ ادا کرنا ہے، رزق زندگی گزارنے کا سامان یُنْفِقُوْنَ یہ اتفاق سے ماخوذ ہے، بمعنی خرچ کرنا اٰخِرَۃِ مؤخر اور بعد میں آنے والی چیز، یہاں عالم دنیا کے مقابلہ میں عالم آخرت مراد ہے، یُوْقِنُوْنَ ، ایقان سے ماخوذ ہے، جمع مذکر غائب، مُفْلِحُوْنَ ، افلاح سے ماخوذ ہے، فلاح پوری کامیابی کو کہتے ہیں، سَوَآءٌ یہ اسم ہے قائم مقام مصدر کے یہی وجہ ہے کہ اس کا تثنیہ اور جمع نہیں آتا کہا جاتا ہے، ھما سوائ، ھم سَوَآءٌ اور جب اس کا تثنیہ لانا ہوتا ہے، تو کہا جاتا ہے، ھما سَیّانِ ، غِشَارَۃٌ، بروزن فِعالۃ یہ وزن کسی چیز پر مشتمل ہونے کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : عِصابہ اور عِمَامہ، غشٰوۃ، کے غین پر تینوں حرکت درست ہیں، اس کے معنی سرپوش کے ہیں، یہ مصدر بھی ہے، مگر اس جگہ ڈھانکنے والی چیز مراد ہے۔
قولہ : ھذا۔
سوال : ذٰلِکَ کی تفسیر ھٰذا سے کیوں کی ؟
جواب : ذٰلِکَ ، بمعنی ھذا ہے، اس لئے کہ ذٰلِکَ کا مشار الیہ، الم، یا قرآن کریم ہے اور دونوں ہی نہایت قریب ہیں۔
سوال : تو پھر ذٰلِکَ کے بجائے، ھذا ہی کیوں استعمال نہیں کیا۔
جواب : بیان تعظیم کے لئے اسم اشارہ کا استعمال کیا۔
قولہ : اَلَّذِیْ یَقرؤہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے دیگر کتب سماویہ سے احتراز ہوگیا۔
قولہ : اَنَّہٗ مِنْ عند اللہ کے اضافہ کا مقصد ایک اعتراض کا جواب ہے۔
اعتراض : (الکتاب) مفرد ہے، اور مفرد میں شک کا کوئی مطلب نہیں ہوتا اس لئے کہ شک اور ظن اور علم کا تعلق قضیہ سے ہوتا ہے۔
جواب : اَلکتاب مفرد نہیں ہے بلکہ قضیہ ہے، اسکی تقدیر عبارت یہ ہے ذالک الکتابُ أنَّہ مِن عند اللہ
قولہ : اَلصائرنِ الی التقویٰ ۔
سوال : لِلْمُتَّقِیْنَ ، کی تفسیر اَلصَّائِرِیْنَ اِلَی التَّقْوٰی سے کرنے میں کیا نکتہ ہے ؟
جواب : اس تفسیر سے ایک سوال مقدر کا جواب مقصود ہے۔
سوال : سوال یہ ہے کہ ھُدًی لِلمتقین میں تحصیل حاصل ہے، یعنی یہ کتاب متقیوں کو ہدایت دینے والی ہے، متقیوں کو ہدایت دینے سے مراد ہے، جب کہ متقی تو خود ہی ہدایت یافتہ ہوتا ہے۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ متقین سے مراد اغبین الی التقویٰ ہے۔
قولہ : لِاتقائِھم بذلک النار کے اضافہ کا مقصد متقی کو متقی کہنے کی وجہ کو بیان کرنا ہے متقی کو اس کے اعمال صالحہ کے ذریعہ چونکہ جہنم سے بچایا جائے گا اس لئے اس کو متقی کہتے ہیں۔
قولہ : کا بی جھل وابی لھب وغیرھما، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْھِمْ ءَانْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَایُؤْمِنُوْنَ ، اس آیت میں عموم کے ساتھ کہا گیا ہے کہ آپ کو ان کو ڈرانا اور نہ ڈرانا برابر ہے ان میں سے کوئی بھی ایمان لانے والا نہیں حالانکہ ان ہی حضرات میں سے بہت سے افراد مشرف باسلام ہوئے۔
جواب : مفسر علام نے اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا، کی تفسیر کابی جھلٍ وابی لھبٍ سے کرکے اشارہ کردیا کہ عموم سے بعض افراد مراد ہیں، جن کا ایمان نہ لانا اللہ کے علم میں متعین تھا جیسا کہ ابوجہل اور ابو لہب۔
قولہ : ئَاَنْذَرْتَھُمْ ، اس میں پانچ قراءتیں ہیں، دونوں ہمزوں کی تحقیق کی صورت میں دو قراءتیں ہیں، (١) دونوں ہمزوں کے درمیان الف داخل کرکے، (٢) ترک ادخال کرکے، دوسرے ہمزہ کی تسہیل کی صورت میں بھی دو قراءتیں ہیں، (٣) ادخال الف، (٤) ترک ادخال الف اور (٥) پانچویں قراءت دوسرے ہمزہ کو الف سے بدل کر، وادخال الف میں واؤ بمعنی مع ہے، ای مع ادخال الف، مذکورہ پانچوں قراءتیں صاحب جلالین نے مندرجہ ذیل ترتیب سے بیان کی ہیں : (١) تحقیق ہمزتین (یعنی تحقیق محض بلا ادخال) (٢) ابدال ثانیہ بالالف مع المد (٣) تسہیل محض (بلا ادخال الف) (٤) تسہیل بلا ادخال (٥) ادخال مع تحقیق ثانیہ۔
الم : مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے محلاً مرفوع ہے، تقدیر عبارت یہ ہے، ھٰذا الم، ذٰلک، اسم اشارہ مبتداء اور نحلاً مرفوع الکتابُ ، ذلک مبتداء کی خبر اول، لارَیْبَ فِیِہِ ، خبرثانی، تقدیر عبات یہ ہے کہ لَارَیْبَ کائنٌ فیِہ، لا نفی جنس رَیْبَ اس کا اسم فیہ، کائن کے متعلق ہو کہ جملہ ہو کر ذلک کی خبر ثانی، ھدًی للمتقین خبر ثالث۔
قولہ : ءَاَنْذَرْتَھُمْ ، پہلا ہمزہ استفہامیہ تسویہ کے لئے ہے، ءَاَنْذَرْتَھُمْ ، تاویل مصدر ہو کر مبتداء ہے اور سواءٌ علیھم خبر مقدم ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سَوَاءٌ جاری مجریٰ مصدر اور ءَاَنْذَرْتَھُمْ کا فاعل جملہ ہو کر اِنَّ کی خبر۔
سوال : انذار اور اخبار بالعذاب میں کیا فرق ہے۔
جواب : انذار ایسے وقت میں ڈرانے کو کہتے ہیں کہ امر مخوف منہ سے احتراز ممکن ہو، ورنہ تو اخبار بالعذاب کہیں گے (ای فی وقت یَسَعُ التحرز من الامر المخوف واِلَّا فَیُسمّٰی اِخبار بالعذاب) ۔
خَتَمَ اللہ علی قلوبھِمْ : یہ اور اس کا مابعد ماقبل کی علت ہے یعنی یہ لوگ ایمان اس لئے نہیں لائیں گے کہ ان کے قلوب پر مہر لگا دی گئی ہے۔
سوال : مہر لگانے سے کیا مراد ہے ؟ حالانکہ یہ امر مشاہدہ ہے کہ آج تک کسی بھی کافر کے قلب پر مہر لگی ہوئی نظر نہیں آئی حالانکہ آپریشن کے ذریعہ بہت سے قلوب کا مشاہد کیا جاتا ہے۔
جواب : قلب سے مراد عقل ہے کو کہ ایک لطیفہ ربانیہ ہے، جو کہ قلب صنوبری کے ساتھ قائم ہوتا ہے جیسا کہ عرض کا قیام جوہر کے ساتھ اور حرارت کا قیام نار کے ساتھ ہوتا ہے اس اتصال کی کیفیت خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
قولہ : ای مَوَاضِعَہٗ : ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : مضاف کسی فائدہ کے لئے محذوف مانا گیا ہے ؟
جواب : یہ ہے کہ سمع، ایک معنوی شئی ہے، اس کی جانب ختم کی نسبت درست نہیں ہے اس لئے مضاف محذوف مان لیا اور بتادیا کہ سمع سے مراد مواضع السمع ہیں، جن پر مہر لگ سکتی ہے۔
سوال : سمعٌ کو مفرد لانے میں کیا حکمت ہے، جب کہ قلوب اور ابصار کو جمع لایا گیا ہے۔
جواب : یا تو اس لئے کہ سمعٌ مصدر ہے اور مصدر کا تثنیہ و جمع نہیں لایا جاتا، یا اس لئے کہ مسموع واحد ہے، وَعَلٰی سَمْعِھِمْ میں وقف تام ہوگیا، عَلیٰ ابصارھم خبر مقدم ہے اور غشاوۃ مبتداء مؤخر اور جملہ مستانفہ ہے۔
قولہ : قویٌ دَائِمٌ: عَظِیْمٌ کی تفسیر قوی دائمٌ سے کرنے کا مقصد اس شبہ کا جواب دینا ہے کہ عظیمٌ اجسام کی صفت واقع ہوتی ہے جیسا کہ : ” لَھَا عرش عظیم “ اور عذاب از قبیل معنی ہے لہٰذا عظیمٌ، عذاب کی صفت لانا درست نہیں ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ عظیم، قوی دائمٌ کے معنی میں ہے جو کہ معنی کی صفت واقع ہوتا ہے۔
اللغۃ والبلاغۃ
اَولٰئِکَ عَلیٰ ھُدًی مِّن رَّبِّھِمْ ۔
(١) وُضِعَ المصدر، ھدًی موضع الوصف المشتق الَّذِیْ ھو ھادٍ ، وذلِکَ اَوْغَلُ فی المبالغۃ فی التعبیر عن دَیْمُومَتِہٖ واستمرارہٖ کزید عدل۔
(٢) فی قولہ تعالیٰ : عَلٰی ھُدًی، استعارۃ تصریحیۃ تبعیۃ تبعیۃ، تشبُّھا لحال المتقین بحال من اعتلیٰ صھوۃَ جوادہ، فحذِفَ المشبَّہ، واستعیرت کلمۃ عَلٰی الدالۃ علی الْاِسْتِعْلاء والتفوقِ عَلیٰ ما بعدھا حقیقۃ، نحو : زید علی السطح او حکمًا نحو علیہ دین “۔
خَتَمَ اللہُ عَلیٰ قُلُوْبِھِمْ (الآیۃ)
فی اسناد الختم الی القلوب استعارۃً تمثیلیۃً ، فقد شُبِھَتْ قلوب الکفار فی نبوّھا عن الحق وعدم الاصغاء الیہ بحال قلوبٍ خَتَم اللہ عَلَیھَا، وھی قلوب البھائم وھو تشبیہ معقول بمحسوس۔
تفسیر و تشریح
سورة بقرہ کے فضائل : حدیث شریف میں سورة بقرہ کی ایک خاص فضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ سورت جس گھر میں پڑھی جائے اس گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” لاتجعلوا بُیُوْتَکم قبورًا فَاِنَّ البَیْتَ الَّذِی تُقْرَأُ فیہ سُورَۃُ الْبَقَرَۃِ لَایَدْخُلُہُ الشَّیْطَانُ “ (مسلم، باب استحباب صلوٰۃ النافلۃِ فی بیتہٖ ) حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ : لکل شئ بمنام وسنام القرآن سورة البقرۃ، ہر چیز کا کوہان ہوتا ہے اور قرآن کا کوہان سورة بقرہ ہے، ایک روایت میں ہے کہ قرآنی آیتوں کی سردار آیت الکرسی ہے جو کہ سورة بقرہ میں ہے۔
زمانہ نزول : نزول کے اعتبار سے یہ مدنی دور کی ابتدائی سورتوں میں سے ہے، البتہ اس کی طرض آیتیں حجۃ الوداع کے موقع پر نام نازل ہوئیں، جو مضمون کی مناسبت سے اس کے آخر میں شامل کردی گئیں ہیں، سورتوں کے مکی یا مدنی ہونے کے بارے میں علماء کے متعدد اقوال ہیں، مگر راجح اور صحیح قول یہ ہے کہ ہجرت سے پہلے نازل ہونے والی تمام سورتیں مکی ہیں، خواہ وہ مکہ میں نازل ہوئی ہوں یا مکہ سے باہر اور ہجرت کے بعد نازل ہونے والی سورتیں مدنی ہیں، خواہ مکہ ہی میں کیوں نہ نازل ہوئی ہوں، ٨٣ سورتیں مکہ میں نازل ہوئیں اور ٣١ سورتیں مدینہ میں یہ کل ١١٤ سورتیں ہوئیں۔
ابن عربی (رح) تعالیٰ نے کہا کہ سورة بقرہ میں ایک ہزار اوامر اور ایک ہزار نواہی اور ایک ہزار اخبار ہیں، اور ١، ١٥ مثلہ ہیں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے اس سورت کو حاصل کرنے میں آٹھ سال لگائے۔
سورة بقرہ کی وجہ تسمیہ : اس سورة کا نام ” بقرہ “ اس لئے ہے کہ اس میں ایک جگہ بقرہ کا ذکر آیا ہے، یہ اسم الکل باسم الجز کے قبیل سے ہے، قرآن مجید کی ہر سورت میں اس قدر وسیع مضامین بیان ہوئے ہیں کہ ان کے لئے مضمون کے لحاظ سے جامع عنوانات تجویز نہیں کیے جاسکتے، عربی زبان اپنی لغت کے اعتبار سے اگرچہ نہایت مالدار ہے، مشہور ہے کہ اگر تین حرفوں کو جمع کردیا جائے، تو ضرور کوئی بامعنی لفظ بن جائے گا، اس کے باوجود بہرحال ہے تو انسانی زبان ہی انسان جو زبانیں بھی بولتا ہے، وہ اس قدر تنگ اور محدود ہیں کہ وہ ایسے الفاظ یا فقرے فراہم نہیں کرسکتیں کہ جو ان وسیع مضامین کے لئے جامع عنوان بن سکتے ہوں، اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے قرآن کی بیشتر سورتوں کے لئے عنوانات کے بجائے نام تجویز فرمائے ہیں، جو محض علامت کا کام دیتے ہیں، اس سورة کو سورة بقرہ کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں گائے کے مسئلہ سے بحث کی گئی ہے اور اس کی ماہیت اور خاصیت اور فوائد بیان کئے گئے ہیں، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ سورت جس میں گائے کا ذکر آیا ہے۔
حروف مقطعات کی بحث : الم، ٢٩ سورتوں کے شروع میں ١٤ حروف مقطعات کا استعمال ہوا ہے جو کہ حروف ہجا کے نصف ہیں ان حروف کو مقطعات اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کو الگ الگ پڑھا جاتا ہے، اگرچہ یہ مرکب لکھے ہوئے ہیں، بعض سورتوں کے شروع میں صرف ایک حرف ہے جیسے، ق، اس کو احادی کہتے ہیں اور بعض کے شروع میں دو حروف ہیں جیسے : حم، اس کو ثنائی کہتے ہیں اور بعض کے شروع میں تین حروف ہیں جیسے : الم، اس کو ثلاثی کہتے ہیں، علی ھذا القیاس، رباعی اور خماسی اس سے زیادہ نہیں ہیں، اس لئے کہ کلام عرب میں پانچ حرفی سے زیادہ کوئی کلمہ نہیں ہے، حروف مقطعات کے بارے میں مختلف اقوال ہیں، ان میں احوط قبول یہ ہے کہ حروف مقطعات قرآن میں سِرٌّ من اسرار اللہ، یعنی حروف مقطعات قرآنی رازوں میں سے ایک راز ہے کما قال الشعبی و سفیان الثوری وجماعۃ من المحدثین، حروف مقطعات کا علم اللہ کے ساتھ خاص ہے، اور فرمایا لا نحبُّ ان نتکلم فیھا ولکن نؤمن بھا، یعنی ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ ان میں بحث و گفتگو کریں اور یہ قول حضرت ابوبکر اور علی بن ابی طالب (رض) کا ہے بعض حضرات نے حروف مقطعات کے معانی بیان کرنے کی کوشش کی ہے حضرت ابن عباس اور حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ حروف مقطعات اسم اعظم ہیں، مگر ہم ان حروف سے تالیف کو نہیں جانتے قطرب اور فراء وغیرہ نے کہا کہ حروف مقطعات سے حروف ہجا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن کا مقصد یہ بتانا ہے کہ قرآن جو اپنا مثل لانے کے لئے تحدی اور چیلنچ کر رہا ہے یہ کوئی انوکھے حروف سے مرکب نہیں ہے بلکہ یہ ان ہی حروف و کلمات سے مرکب ہے جن کو تم رات دن بولتے ہو، پھر کیا وجہ ہے کہ کہ تم قرآن کی ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت لانے سے بھی عاجز ہو، معلوم ہوا کہ یہ بشری کلام نہیں ہے۔
ابن کثیر (رح) تعالیٰ نے بھی قرطبی وغیرہ سے نقل کرکے شعبی و سفیان ثوری رحمہما اللہ تعالیٰ وغیرہ کے قول کو ترجیح دی ہے، جن بعض اکابر سے ان حروف کے معنی منقول ہیں اس سے صرف تمثیل و تنبیہ و تسہیل مقصود ہے، اللہ تعالیٰ کی مراد کی تعیین نہیں۔
بعض حضرات نے کہا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس دور میں قرآن کریم کا نزول ہوا اس دور کے اسالیب بیان میں اس طرح کے حروف مقطعات عام تھا، خطیب اور شعراء اس اسلوب سے کام لیتے تھے، چناچہ اب بھی کلام جاہلیت کے جو نمونے محفوظ ہیں، ان میں اس کی مثالیں ملتی ہیں، نیز مفرد حروف کا استعمال بھی کلام عرب میں موجود ہے۔
مثال کے طور پر۔
قال شاعر : قُلتُ لَھَا قفی فقالت ق، ای وقفت۔ اور حدیث شریف میں ہے مَنْ اَعَانَ علیٰ قتل مسلم بشطر کلمۃ، مثلاً کسی شخص نے کسی کے قتل کے بارے میں اقتل کہنے کے بجائے، اُق کہا یہ بھی قتل ہر معاونت ہے اس سے معلوم ہوا کہ حروف مقطعات کوئی پہیلی یا چیستاں نہیں کہ بولنے والے کے سوا کوئی نہ سمجھتا ہو، بلکہ سامعین بلعموم جانتے تھے کہ ان سے کیا مراد ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن کے خلاف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہم عصر مخالفین میں سے کسی نے بھی یہ اعتراض کبھی نہیں کیا کہ یہ بےمعنی حروف کیسے ہیں، جو تم بعض سورتوں کے شروع میں بولتے ہو اور یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام (رض) سے بھی کوئی روایت منقول نہیں کہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کے معانی پوچھے ہوں، اور نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی سے ان کو کوئی تفسیر منقول ہے، بعد میں یہ اسلوب عربی زبان میں بھی متروک ہوتا چلا گیا، اس بناء پر مفسرین کے لئے ان کے معنی متعین کرنا مشکل ہوگیا، لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ ان حروف کا مفہوم سمجھنے پر قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کا انحصار نہیں ہے، لہٰذا ایک عام ناظر کے لئے یہ قطعاً ضروری نہیں کہ وہ ان کی تحقیق میں سرگرداں ہو۔
ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَارَیْبَ فِیْہِ : یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں، یہ موقع بظاہر اشارہ بعید کا نہیں تھا اس لئے کہ اسی قرآن کی طرف اشارہ مقصود ہے جو لوگوں کے سامنے بلکہ دل میں موجود ہے، مگر بعید کا اشارہ لا کر قرآن کی عظمت شان کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ اس کی طرف بھی اشارہ مقصود ہے، کہ سورة فاتحہ میں جس صراط مستقیم کی درخواست کی گئی ہے یہ سارا قرآن اس درخواست اور دعاء کا جواب ہے اور صراط مستقیم کی تشریح اور تفصیل ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ ہم نے دعاء سن لی اور تمہاری رہنمائی کے لئے قرآن بھیج دیا جو آفتاب ہدایت ہے، جو شخص ہدایت چاہتا ہے وہ اس کو پڑھے اور سمجھے اور اس کے مقتضیٰ پر عمل کرے۔ (معارف القرآن)
پھر قرآن کے متعلق ارشاد ہے کہ (لاریب فیہ) اس میں کوئی شک نہیں، سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کی حقانیت میں شک و شبہ کرنے والے تو ہزاروں لاکھوں موجود ہیں، پھر یہ کہنا کہ یہ قرآن شک و شبہ سے بالا تر ہے اس کا کیا مطلب ہے ؟
پہلا جواب : اس کا سیدھا سادا ایک جواب تو یہ ہے کہ دلائل وبراہین کی روشنی میں عقل سلیم کے لئے اس کے کتاب الہیٰ ہونے میں شک کی گنجائش نہیں اور نہ اس میں کوئی شک کی بات۔
دوسرا جواب : شک و شبہ کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک یہ کہ خود کلام میں غلطی ہو، تو وہ کلام محل شک و شبہ ہوجاتا ہے، اور اگر کسی کو کج فہمی یا کم فہمی کی وجہ سے کسی طرح کا شبہ ہوجائے جس کا ذکر خود قرآن کریم میں چند آیتوں کے بعد ” اِنْ کنتم فی رَیْبِ “ میں آرہا ہے، اس لئے ہزاروں کم فہم یا کج فہموں کے شبہات و اعتراضات کے باوجود یہ بات کہنی صحیح ہے کہ اس کتاب میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔
ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْن : یہ کتاب پرہیزگاروں کے لئے رہنما ہے، یہاں ھدًی بمعنی ھادٍ ہے، تاکہ مصدر کا حمل ذات پر ہونے کا اعتراض نہ ہو، اور یہ بھی درست ہے کہ ھُدًی مصدر کو مصدر ہی کے معنی میں رکھا جائے، اس صورت میں مبالغہ کے طور حمل درست ہوگا، اور یہ حمل، زیدٌ عَدْلٌ کے قبیل سے ہوگا مطلب یہ ہوگا کہ یہ کتاب ہے تو سراسر ہدایت و رہنمائی، اور تمام انسانوں بلکہ پوری کائنات کی ہدایت و رہنمائی کیلئے نازل ہوئی ہے لیکن اس چشمہ فیض سے سیراب صرف وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو آب حیات کے متلاشی اور خوف الہیٰ سے سرشار ہوں گے اس چشمہ ہدایت سے فیضیاب ہونے کے لئے جن چھ صفات و شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ان کو ان دو آیتوں میں بیان کیا گیا ہے ان میں سے پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی متقی و پرہیزگار ہو، بھلائی اور برائی میں تمیز کرتا ہو، برائی سے بچنا چاہتا ہو، بھلائی کا طالب ہو اور اس پر عمل کرنے کا خواہشمند ہو، رہے وہ لوگ جو دنیا میں جانوروں کی طرح جیتے ہیں جنہیں کبھی یہ فکر لاحق نہ کوئی کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ صحیح بھی ہے یا نہیں، بس جدھر دنیا چل رہی ہو، یا جدھر خواہش نفس دھکیل دے اسی طرف چل پڑتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لئے قرآن میں کوئی رہنمائی نہیں ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
بعض سورتوں کی ابتدا میں جو حروف مقطعات آئے ہیں ان کے بارے میں محتاط اور محفوظ مسلک یہ ہے کہ بغیر کسی شرعی دلیل کے ان کے معانی معلوم کرنے کے لئے تعرض نہ کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ عقیدہ بھی رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے حروف مقطعات کو بے فائدہ نازل نہیں فرمایا بلکہ ان کے نازل کرنے میں کوئی حکمت پنہاں ہے جو ہمارے علم کی دسترس سے باہر ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
Alif-Laam-Meem
12 Tafsir Ibn Kathir
حروف مقطعات اور ان کے معنی
الم جیسے حروف مقطعات ہیں جو سورتوں کے اول میں آئے ہیں ان کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض تو کہتے ہیں ان کے معنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں اور کسی کو معلوم نہیں۔ اس لئے وہ ان حروف کی کوئی تفسیر نہیں کرتے۔ قرطبی نے حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت ابن مسعود (رض) سے ہی نقل کیا ہے۔ عامر، شعبی، سفیان ثوری، ربیع بن خیثم رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ابو حاتم بن حبان کو بھی اسی سے اتفاق ہے بعض لوگ ان حروف کی تفسیر بھی کرتے ہیں لیکن ان کی تفسیر میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں۔ علامہ ابو القاسم محمود بن عمر زمحشری اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں اکثر لوگوں کا اسی پر اتفاق ہے۔ سیبویہ نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن صبح کی نماز میں الم السجد اور ہل اتی علی الانسان پڑھتے تھے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں الم اور حم اور المص اور ص یہ سب سورتوں کی ابتداء ہے جن سے یہ سورتیں شروع ہوتی ہیں۔ انہی سے یہ بھی منقول ہے کہ الم قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ حضرت قتادہ اور حضرت زید بن اسلم کا قول بھی یہی ہے کہ اور شاید اس قول کا مطلب بھی وہی ہے جو حضرت عبدالرحمن بن زید اسلم فرماتے ہیں کہ یہ سورتوں کے نام ہیں اس لئے کہ ہر سورت کو قرآن کہہ سکتے ہیں اور یہ نہیں ہوسکتا کہ سارے قرآن کا نام المص ہو کیونکہ جب کوئی شخص کہے کہ میں نے سورة المص پڑھی تو ظاہر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس نے سورة اعراف پڑھی نہ کہ پورا قرآن واللہ اعلم۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ حضرت شعب سالم بن عبداللہ اسماعیل بن عبدالرحمن سدی کبیر یہی کہتے ہیں۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ الم اللہ تعالیٰ کا بڑا نام ہے۔ اور روایت میں ہے کہ حم، طس اور الم یہ سب اللہ تعالیٰ کے بڑے نام ہیں۔ حضرت علی اور حضرت ابن عباس دونوں سے یہ مروی ہے۔ ایک اور روایت میں ہے یہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہے اور اس کا نام بھی ہے۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں یہ قسم ہے۔ ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ اس کے معنی انا اللہ اعلم ہیں یعنی میں ہی ہوں اللہ زیادہ جاننے والا۔ حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے۔ ابن عباس، ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ سے روایت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے الگ الگ حروف ہیں۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں کہ یہ تین حرف الف اور لام اور میم انتیس حرفوں میں سے ہیں جو تمام زبانوں میں آتے ہیں۔ ان میں سے ہر ہر حرف اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی بلا کا ہے اور اس میں قوموں کی مدت اور ان کے وقت کا بیان ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تعجب کرنے پر کہا گیا تھا کہ وہ لوگ کیسے کفر کریں گے ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ اس کی روزیوں پر وہ پلتے ہیں۔ الف سے اللہ کا نام اللہ شروع ہوتا ہے اور لام سے اس کا نام لطیف شروع ہوتا ہے اور میم سے اس کا نام مجید شروع ہوتا ہے اور الف سے مراد آلا یعنی نعمتیں ہیں اور لام سے مراد اللہ تعالیٰ کا لطف ہے اور میم سے مراد اللہ تعالیٰ کا مجد یعنی بزرگی ہے۔ الف سے مراد ایک سال ہے لام سے تیس سال اور میم سے چالیس سال (ابن ابی حاتم) امام ابن جریر نے ان سب مختلف اقوال میں تطبیق دی ہے یعنی ثابت کیا ہے کہ ان میں ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو۔ ہوسکتا ہے یہ سورتوں کے نام بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نام بھی، سورتوں کے شروع کے الفاظ بھی ہوں اور ان میں سے ہر ہر حرف سے اللہ تعالیٰ کے ایک ایک نام کی طرف اشارہ، اور اس کی صفتوں کی طرف اور مدت وغیرہ کی طرف بھی ہو۔ ایک ایک لفظ کئی کئی معنی میں آتا ہے۔ جیسے لفظ امتہ کہ اس کے ایک معنی ہیں۔ دین جیسے قرآن میں ہے آیت ( اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓي اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰٓي اٰثٰرِهِمْ مُّهْتَدُوْنَ ) 43 ۔ الزخرف :22) ہم نے اپنے باپ دادوں کو اسی دین پر پایا۔ دوسرے معنی ہیں۔ اللہ کا اطاعت گزار بندہ۔ جیسے فرمایا آیت (اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا) 16 ۔ النحل :120) یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے مطیع اور فرمانبردار اور مخلص بندے تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔ تیسرے معنی ہیں جماعت، جیسے فرمایا آیت (وَجَدَ عَلَيْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُوْنَ ) 28 ۔ القصص :23) یعنی ایک جماعت کو اس کنویں پر پانی پلاتے ہوئے پایا۔ اور جگہ ہے آیت (وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا) 16 ۔ النحل :36) یعنی ہم نے ہر جماعت میں کوئی رسول یقینا بھیجا۔ چوتھے معنی ہیں مدت اور زمانہ۔ فرمان ہے آیت (وَادَّكَرَ بَعْدَ اُمَّةٍ ) 12 ۔ یوسف :45) یعنی ایک مدت کے بعد اسے یاد آیا۔ پس جس طرح یہاں ایک لفظ کے کئی معنی ہوئے اسی طرح ممکن ہے کہ ان حروف مقطعہ کے بھی کئی معنی ہوں۔ امام ابن جریر کے اس فرمان پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابو العالیہ نے جو تفسیر کی ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک لفظ، ایک ساتھ، ایک ہی جگہ ان سب معنی میں ہے اور لفظ امت وغیرہ جو کئی کئی معنی میں آئے ہیں جنہیں اصطلاح میں الفاظ مشترکہ کہتے ہیں۔ ان کے معنی ہوتے ہیں جو عبارت کے قرینے سے معلوم ہوجاتے ہیں ایک ہی جگہ سب کے سب معنی مراد نہیں ہوتے اور سب کو ایک ہی جگہ محمول کرنے کے مسئلہ میں علماء اصول کا بڑا اختلاف ہے اور ہمارے تفسیری موضوع سے اس کا بیان خارج ہے واللہ اعلم۔ دوسرے یہ کہ امت وغیرہ الفاظ کے معنی ہی بہت سارے ہیں اور یہ الفاظ اسی لئے بنائے گئے ہیں کہ بندش کلام اور نشست الفاظ سے ایک معنی ٹھیک بیٹھ جاتے ہیں ایک حرف کی دلالت ایک ایسے نام پر ممکن ہے جو دوسرے ایسے نام پر بھی دلالت کرتا ہو اور ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت نہ ہو تو مقدر ماننے سے نہ ضمیر دینے سے نہ وضع کے اعتبار سے اور نہ کسی اور اعتبار سے ایسی بات علمی طور پر تو نہیں سمجھی جاسکتی البتہ اگر منقول ہو تو اور بات ہے لیکن یہاں اختلاف ہے اجماع نہیں ہے اس لئے یہ فیصلہ قابل غور ہے۔ اب بعض اشعار عرب کے جو اس بات کی دلیل میں پیش کئے جاتے ہیں ایک کلمہ کو بیان کرنے کے لئے صرف اس کا پہلا حرف بول دیتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے لیکن ان شعروں میں خود عبارت ایسی ہوتی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے۔ ایک حرف کے بولتے ہی پورا کلمہ سمجھ میں آجاتا ہے لیکن یہاں ایسا بھی نہیں واللہ اعلم قرطبی کہتے ہیں ایک حدیث میں ہے کہ جو مسلمان قتل پر آدھے کلمہ سے بھی مدد کرے مطلب یہ ہے کہ اقتل پورا نہ کہے بلکہ صرف اق کہے مجاہد کہتے ہیں۔ سورتوں کے شروع میں جو حروف ہیں مثلاً ق، ص، حم، طسم الر وغیرہ یہ سب حروف ہجا ہیں۔ بعض عربی دان کہتے ہیں کہ یہ حروف الگ الگ جو اٹھائیس ہیں ان میں سے چند ذکر کر کے باقی کو چھوڑ دیا گیا ہے جیسے کوئی کہے کہ میرا بیٹا اب ت ث لکھتا ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام اٹھائیس حروف لکھتا ہے لیکن ابتدا کے چند حروف ذکر کر دئیے اور باقی کو چھوڑ دیا۔ سورتوں کے شروع میں اس طرح کے کل چودہ حروف آئے ہیں۔ ال م ص و ک ہ ی ع ط س ح ق ن ان سب کو اگر ملا لیا جائے تو یہ عبارت بنتی ہے۔ نص حکیم قاطع لہ سر تعداد کے لحاظ سے یہ حروف چودہ ہیں اور جملہ حروف اٹھائیس ہیں اس لئے یہ آدھے ہوئے بقیہ جن حروف کا ذکر نہیں کیا گیا ان کے مقابلہ میں یہ حروف ان سے زیادہ فضیلت والے ہیں اور یہ صناعت تصریف ہے ایک حکمت اس میں یہ بھی ہے کہ جتنی قسم کے حروف تھے اتنی قسمیں باعتبار اکثریت کے ان میں آگئیں یعنی مہموسہ مجہورہ وغیرہ۔ سبحان اللہ ہر چیز میں اس مالک کی حکمت نظر آتی ہے یہ یقینی بات ہے کہ اللہ کا کلام لغو، بیہودہ، بیکار، بےمعنی الفاظ سے پاک ہے جو جاہل لوگ کہتے ہیں کہ سرے سے ان حروف کے کچھ معنی ہی نہیں وہ بالکل خطا پر ہیں۔ اس کے کچھ نہ کچھ معنی یقیناً ہیں اگر نبی معصوم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے معنی کچھ ثابت ہوں تو ہم وہ معنی کریں گے اور سمجھیں گے ورنہ جہاں کہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ معنی بیان نہیں کئے ہم بھی نہ کریں گے اور ایمان لائیں گے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تو اس بارے میں ہمیں کچھ نہیں ملا اور علماء کا بھی اس میں بیحد اختلاف ہے۔ اگر کسی پر کسی قول کی دلیل کھل جائے تو خیر وہ اسے مان لے ورنہ بہتر یہ ہے کہ ان حروف کے کلام اللہ ہونے پر ایمان لائے اور یہ جانے کہ اس کے معنی ضرور ہیں جو اللہ ہی کو معلوم ہیں اور ہمیں معلوم نہیں ہوئے۔ دوسری حکمت ان حروف کے لانے میں یہ بھی ہے کہ ان سے سورتوں کی ابتداء معلوم ہوجائے لیکن یہ وجہ ضعیف ہے اس لئے کہ اس کے بغیر ہی سورتوں کی جدائی معلوم ہوجاتی ہے جن سورتوں میں ایسے حروف ہی نہیں کیا ان کی ابتداء انتہا معلوم نہیں ؟ پھر سورتوں سے پہلے بسم اللہ کا پڑھنے اور لکھنے کے اعتبار سے موجود ہونا کیا ایک سورت کو دوسری سے جدا نہیں کرتا ؟ امام ابن جریر نے اس کی حکمت یہ بھی بیان کی ہے کہ چونکہ مشرکین کتاب اللہ کو سنتے ہی نہ تھے اس لئے انہیں سنانے کے لئے ایسے حروف لائے گئے تاکہ جب ان کا دھیان کان لگ جائے تو باقاعدہ تلاوت شروع ہو لیکن یہ وجہ بھی بودی ہے اس لئے اگر ایسا ہوتا تو تمام سورتوں کی ابتدا انہی حروف سے کی جاتی حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ اکثر سورتیں اس سے خالی ہیں پھر جب کبھی مشرکین سے کلام شروع ہو یہی حروف چاہئیں۔ نہ کہ صرف سورتوں کے شروع میں ہی یہ حروف ہوں۔ پھر اس پر بھی غور کرلیجئے کہ یہ سورت یعنی سورة بقرہ اور اس کے بعد کی سورت یعنی سورة آل عمران یہ تو مدینہ شریف میں نازل ہوتی ہیں اور مشرکین مکہ ان کے اترنے کے وقت وہاں تھے ہی نہیں پھر ان میں یہ حروف کیوں آئے ؟ ہاں یہاں پر ایک اور حکمت بھی بیان کی گئی ہے کہ ان حروف کے لانے میں قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے جس سے تمام مخلوق عاجز ہے باوجود یہ کہ یہ حروف بھی روزمرہ کے استعمالی حروف کے لانے میں قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے جس سے تمام مخلوق عاجز ہے باوجود یہ کہ یہ حروف بھی روزمرہ کے استعمالی حروف سے ترکیب دئیے گئے ہیں لیکن مخلوق کے کلام سے بالکل نرالے ہیں۔ مبرد اور محققین کی ایک جماعت اور فراء اور قطرب سے بھی یہی منقول ہے زمخشری نے تفسیر کشاف میں اس قول کو نقل کر کے اس کی بہت کچھ تائید کی ہے۔ شیخ امام علامہ ابو العباس حضرت ابن تیمیہ (رح) اور حافظ مجتہد ابو الحاج مزی نے بھی یہی حکمت بیان کی ہے۔ زمحشری فرماتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام حروف اکٹھے نہیں آئے ہاں ان حروف کو مکرر لانے کی یہ وجہ ہے کہ بار بار مشرکین کو عاجز اور لاجواب کیا جائے اور انہیں ڈانٹا اور دھمکایا جائے جس طرح قرآن کریم میں اکثر قصے کئی کئی مرتبہ لائے گئے ہیں اور بار بار کھلے الفاظ میں بھی قرآن کے مثل لانے میں ان کی عاجزی کا بیان کیا گیا ہے۔ بعض جگہ تو صرف ایک حرف آیا ہے جیسے ص ن ق کہیں دو حروف آئے ہیں جیسے حم کہیں تین حروف آئے ہیں جیسے الم کہیں چار آئے ہیں جیسے المر اور المص اور کہیں پانچ آئے ہیں جیسے کھیعص اور حمعسق اس لئے کہ کلمات عرب کے کل کے کل اسی طرح پر ہیں یا تو ان میں ایک حرفی لفظ ہیں یا دو حرفی یا سہ حرفی یا چار حرفی یا پانچ حرفی کے پانچ حرف سے زیادہ کے کلمات نہیں۔ جب یہ بات ہے کہ یہ حروف قرآن شریف میں بطور معجزے کے آئے ہیں تو ضروری تھا کہ جن سورتوں کے شروع میں یہ حروف آئے ہیں وہاں ذکر بھی قرآن کریم کا ہو اور قرآن کی بزرگی اور بڑائی بیان ہو چناچہ ایسا ہی انتیس سورتوں میں یہ واقع ہوا ہے سنئے فرمان ہے آیت (الۗمّۗ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :2 ۔۔ 1) یہاں بھی ان حروف کے بعد ذکر ہے کہ اس قرآن کے اللہ جل شانہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں اور جگہ فرمایا آیت (الۗـۗمَّ ۙ اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ الْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ ۭ نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ بالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَاَنْزَلَ التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ ۙ ) 3 ۔ آل عمران :3 ۔۔ 2 ۔۔ 1) وہ اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور دائم قائم ہے جس نے تم پر حق کے ساتھ یہ کتاب تھوڑی تھوڑی نازل فرمائی ہے جو پہلے کی کتابوں کی بھی تصدیق کرتی ہے یہاں بھی ان حروف کے بعد قرآن کریم کی عظمت کا اظہار کیا گیا۔ اور جگہ فرمایا آیت (الۗمّۗصۗ ۚ كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِيْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَذِكْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ ) 7 ۔ الاعراف :2 ۔۔ 1) یعنی یہ کتاب تیری طرف اتاری گئی ہے تو اپنا دل تنگ نہ رکھ اور جگہ فرمایا آیت (الر کتاب انزلنا الیک) الخ یہ کتاب ہم نے تیری طرف نازل کی تاکہ تو لوگوں کو اپنے رب کے حکم سے اندھیروں سے نکال کر اجالے میں لائے۔ ارشاد ہوتا ہے آیت (الۗمّۗ ۚ تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۭ ) 32 ۔ السجدہ :2 ۔۔ 1) اس کتاب کے رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ فرماتا ہے آیت (حٰـمۗ ۚ تَنْزِيْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۚ ) 41 ۔ فصلت :2 ۔۔ 1) بخششوں اور مہربانیوں والے اللہ نے اسے نازل فرمایا ہے آیت (حمعسق کذلک یوحی الیک) الخ یعنی اسی طرح وحی کرتا ہے اللہ تعالیٰ غالب حکمتوں والا تیری طرف اور ان نبیوں کی طرف جو تجھ سے پہلے تھے، اسی طرح اور ایسی سورتوں کے شروع کو بہ غور دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان حروف کے بعد کلام پاک کی عظمت و عزت کا ذکر ہے جس سے یہ بات قوی معلوم ہوتی ہے کہ یہ حروف اس لئے لائے گئے ہیں کہ لوگ اس کے لئے معارضے اور مقابلے میں عاجز ہیں۔ واللہ اعلم۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان حروف سے مدت معلوم کرائی گئی ہے اور فتنوں لڑائیوں اور دوسرے ایسے ہی کاموں کے اوقات بتائے گئے ہیں۔ لیکن یہ قول بھی بالکل ضعیف معلوم ہوتا ہے اس کی دلیل میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے۔ لیکن اول تو وہ ضعیف ہے دوسرے اس حدیث سے اس قول کی پختگی کا ایک طرف اس کا باطل ہونا زیادہ ثابت ہوتا ہے۔ وہ حدیث محمد بن اسحاق بن یسار نے نقل کی ہے جو تاریخ کے مصنف ہیں۔ اس حدیث میں ہے کہ ابو یاسر بن اخطب یہودی اپنے چند ساتھیوں کو لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا آپ اس وقت سورة بقرہ کی شروع آیت (الۗمّۗ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ ٻ فِيْهِ ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :2 ۔۔ 1) تلاوت فرما رہے تھے وہ اسے سن کر اپنے بھائی حی بن اخطب کے پاس آیا اور کہا میں نے آج حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے۔ وہ پوچھتا ہے تو نے خود سنا ؟ اس نے کہا ہاں میں نے خود سنا ہے۔ حی ان سب یہودیوں کو لے کر پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا یہ سچ ہے کہ آپ اس آیت کو پڑھ رہے تھے۔ آپ نے فرمایا ہاں سچ ہے۔ اس نے کہا سنئے ! آپ سے پہلے جتنے نبی آئے کسی کو بھی نہیں بتایا گیا تھا۔ کہ اس کا ملک اور مذہب کب تک رہے گا لیکن آپ کو بتادیا گیا پھر کھڑا ہو کر لوگوں سے کہنے لگا سنو ! الف کا عدد ہوا ایک، لام کے تیس، میم کے چالیس۔ کل اکہتر ہوئے۔ کیا تم اس نبی کی تابعداری کرنا چاہتے ہو جس کے ملک اور امت کی مدت کل اکہتر سال ہو پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف متوجہ ہو کر دریافت کیا کہ کیا کوئی اور آیت بھی ایسی ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں المص۔ کہنے لگا یہ بڑی بھاری اور بہت لمبی ہے۔ الف کا ایک، لام کے تیس، میم کے چالیس، صواد کے نوے یہ سب ایک سو اکسٹھ سال ہوئے۔ کہا اور کوئی بھی ایسی آیت ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ " الر " کہنے لگا یہ بھی بہت بھاری اور لمبی ہے۔ الف کا ایک، لام کے تیس اور رے کے دو سو۔ جملہ دو سو اکتیس برس ہوئے۔ کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی ایسی ہے۔ آپ نے فرمایا " المر " ہے کہا یہ تو بہت ہی بھاری ہے الف کا ایک، لام کے تیس، میم کے چالیس، رے کے دو سو، سب مل کردو سو اکہتر ہوگئے۔ اب تو کام مشکل ہوگیا اور بات خلط ملط ہوگئی۔ لوگو اٹھو۔ ابو یاسر نے اپنے بھائی سے اور دوسرے علماء یہود سے کہا۔ " کیا عجب کہ ان سب حروف مجموعہ کی مدت حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملا ہو اکہتر ایک، سو ایک، سو اکتیس ایک، دو سو اکتیس ایک، دو سو اکہتر ایک، یہ سب مل کر سات سو چار برس ہوئے۔ انہوں نے کہا اب کام خلط ملط ہوگیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیتیں انہی لوگوں کے حق میں نازل ہوئیں آیت (ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ) 3 ۔ آل عمران :7) یعنی وہی اللہ جس نے تجھ پر یہ کتاب نازل فرمائی جس میں محکم آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور دوسری آیتیں مشابہت والی بھی ہیں۔ اس حدیث کا دارومدار محمد بن سائب کلبی پر ہے اور جس حدیث کا یہ اکیلا راوی ہو محدثین اس سے حجت نہیں پکڑتے اور پھر اس طرح اگر مان لیا جائے اور ہر ایسے حرف کے عدد نکالے جائیں تو جن پر چودہ حروف کو ہم نے بیان کیا ان کے عدد بہت ہوجائیں گے اور جو حروف ان میں سے کئی کئی بار آئے ہیں اگر ان کے عدد کا شمار بھی کئی کئی بار لگایا جائے تو بہت ہی بڑی گنتی ہوجائے گی۔ واللہ اعلم