Skip to main content

وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِىۚ

And I (have) chosen you
وَٱصْطَنَعْتُكَ
اور میں نے تجھ کو بنایا
for Myself
لِنَفْسِى
اپنی ذات کے لیے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

میں نے تجھ کو اپنے کام کا بنا لیا ہے

English Sahih:

And I produced you for Myself.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

میں نے تجھ کو اپنے کام کا بنا لیا ہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور میں نے تجھے خاص اپنے لیے بنایا

احمد علی Ahmed Ali

اور میں نے تجھے خاص اپنے واسطے بنایا

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور میں نے تجھے خاص اپنی ذات کے لئے پسند فرمایا لیا۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور میں نے تم کو اپنے (کام کے) لئے بنایا ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور میں نے تجھے خاص اپنی ذات کے لئے پسند فرما لیا

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور میں نے تمہیں اپنی ذات کیلئے منتخب کر لیا۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور ہم نے تم کو اپنے لئے منتخب کرلیا

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور (اب) میں نے تمہیں اپنے (امرِ رسالت اور خصوصی انعام کے) لئے چن لیا ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

موسیٰ (علیہ السلام) فرار کے بعد۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جناب باری عزوجل فرما رہا ہے کہ تم فرعون سے بھاگ کر مدین پہنچے، یہاں سسرال مل گئے اور شرط کے مطابق ان کی بکریاں برسوں تک چراتے رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے اندازے اور اس کے مقررہ وقت پر تم اس کے پاس پہنچے۔ اس رب کی کوئی چاہت ناکام نہیں رہتی، کوئی فرمان نہیں ٹوٹتا، اس کے وعدے کے مطابق اس کے مقررہ وقت پر تمہارا اس کے پاس پہنچنا لازمی امر تھا۔ یہ بھی مطلب ہے کہ تم اپنی قدر و عزت کو پہنچے یعنی رسالت و نبوت ملی۔ میں نے تمہیں اپنا برگزیدہ پیغمبر بنا لیا۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ملاقات ہوئی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا آپ نے تو لوگوں کو مشقت میں ڈال دیا انہیں جنت سے نکال دیا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے فرمایا آپ کو اللہ نے اپنی رسالت سے ممتاز فرمایا اور اپنے لئے پسند فرمایا اور تورات عطا فرمائی کیا اس میں آپ نے یہ نہیں پڑھا کہ میری پیدائش سے پہلے یہ سب مقدر ہوچکا تھا ؟ کہاں ہاں۔ الغرض حضرت آدم (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر دلیل میں غلبہ پا گئے۔ میری دی ہوئی دلیل اور معجزے لے کر تو اور تیرا بھائی دونوں فرعون کے پاس جاؤ۔ میری یاد میں غفلت نہ کرنا تھک کر بیٹھ نہ رہنا۔ چناچہ فرعون کے سامنے دونوں ذکر اللہ میں لگے رہتے تاکہ اللہ کی مدد ان کا ساتھ دے انہیں قوی اور مضبوط بنا دے اور فرعون کی شان و شوکت ٹال دے۔ چناچہ حدیث شریف میں بھی ہے کہ میرا پورا اور سچا بندہ وہ ہے جو پوری عمر میری یاد کرتا رہے۔ فرعون کے پاس تم میرا پیغام لے کر پہنچو۔ اس نے بہت سر اٹھا رکھا ہے، اللہ کی نافرمانیوں پر دلیر ہوگیا ہے، بہت پھول گیا ہے اور اپنے خالق ومالک کو بھول گیا ہے۔ اس سے گفتگو نرم کرنا۔ دیکھو فرعون کس قدر برا ہے۔ حضرت موسیٰ کس قدر بھلے ہیں لیکن حکم یہ ہو رہا ہے کہ نرمی سے سمجھانا۔ حضرت یزید قاشی (رح) اس آیت کو پڑھ کر فرماتے یعنی اے وہ اللہ جو دشمنوں سے بھی محبت اور نرمی کرتا ہے۔ تیرا کیسا کچھ پاکیزہ برتاؤ ہوتا اس کے ساتھ جو تجھ سے محبت کرتا ہو اور تجھے پکارا کرتا ہو۔ حضرت وہب (رح) فرماتے ہیں کہ نرم گفتگو کرنے سے مراد یہ ہے کہ اسے کہنا کہ میرے غضب و غصے سے میری مغفرت و رحمت بہت بڑھی ہوئی ہے۔ عکرمہ (رح) فرماتے ہیں نرم بات کہنے سے مراد اللہ کی وحدانیت کی طرف دعوت دینا ہے کہ وہ لا الہ الا اللہ کا قائل ہوجائے۔ حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں اس سے کہنا کہ تیرا رب ہے تجھے مر کر اللہ کے وعدے پر پہنچنا ہے جہاں جنت دوزخ دونوں ہیں۔ حضرت سفیان ثوری (رح) فرماتے ہیں اسے میرے دروازے پر لا کھڑا کرو۔ الغرض تم اس سے نرمی اور آرام سے گفتگو کرنا تاکہ اس کے دل میں تمہاری باتیں بیٹھ جائیں جیسے فرمان الٰہی ہے یعنی اپنے رب کی راہ کی دعوت انہیں حکمت اور اچھے وعظ سے دے اور انہیں بہترین طریقے سے سمجھا بجھا دے تاکہ وہ سمجھ لے اور اپنی ضلالت و ہلاکت سے ہٹ جائے یا اپنے اللہ سے ڈرنے لگے اور اس کی اطاعت و عبادت کی طرف متوجہ ہوجائے۔ جیسے فرمان ہے یہ نصیحت اس کے لئے جو عبرت حاصل کرلے یا ڈر جائے پس عبرت حاصل کرنے سے مراد برائیوں سے اور خوف کی چیز سے ہٹ جانا اور ڈر سے مراد اطاعت کی طرف مائل ہوجانا ہے۔ حسن بصری (رح) فرماتے ہیں اس کی ہلاکت کی دعا نہ کرنا جب تک کہ اس کے تمام عذر ختم نہ ہوجائیں زید بن عمرو بن نفیل کے یا امیہ بن ابی صلت کے شعروں میں ہے کہ اے اللہ تو وہ ہے جس نے اپنے فضل و کرم سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ کہہ کر باغی فرعون کی طرف بھیجا کہ اس سے پوچھو تو کہ کیا اس آسمان کو بےستون کے تو نے تھام رکھا ہے اور تو نے ہی اسے بنایا ہے ؟ اور کیا تو نے ہی اس کے درمیان روشن سورج کو چڑھایا ہے جو اندھیرے کو اجالے سے بدل دیتا ہے ادھر صبح کے وقت وہ نکلا ادھر دنیا سے ظلمت دور ہوئی۔ بھلا بتلا تو کہ مٹی میں سے دانے نکالنے والا کون ہے ؟ اور اس میں بالیاں پیدا کرنے والا کون ہے ؟ کیا ان تمام نشانیوں سے بھی تو اللہ کو نہیں پہچان سکتا ؟