النور آية ۵۸
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِيَسْتَـأْذِنْكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ وَالَّذِيْنَ لَمْ يَـبْلُغُوا الْحُـلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍۗ مِنْ قَبْلِ صَلٰوةِ الْفَجْرِ وَحِيْنَ تَضَعُوْنَ ثِيَابَكُمْ مِّنَ الظَّهِيْرَةِ وَمِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَاۤءِ ۗ ۗ ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّـكُمْ ۗ لَـيْسَ عَلَيْكُمْ وَ لَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَهُنَّ ۗ طَوّٰفُوْنَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلٰى بَعْضٍ ۗ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الْاٰيٰتِ ۗ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! چاہئے کہ تمہارے زیردست (غلام اور باندیاں) اور تمہارے ہی وہ بچے جو (ابھی) جوان نہیں ہوئے (تمہارے پاس آنے کے لئے) تین مواقع پر تم سے اجازت لیا کریں: (ایک) نمازِ فجر سے پہلے اور (دوسرے) دوپہر کے وقت جب تم (آرام کے لئے) کپڑے اتارتے ہو اور (تیسرے) نمازِ عشاء کے بعد (جب تم خواب گاہوں میں چلے جاتے ہو)، (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے کے ہیں، ان (اوقات) کے علاوہ نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر، (کیونکہ بقیہ اوقات میں وہ) تمہارے ہاں کثرت کے ساتھ ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، اسی طرح اللہ تمہارے لئے آیتیں واضح فرماتا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہے،
English Sahih:
O you who have believed, let those whom your right hands possess and those who have not [yet] reached puberty among you ask permission of you [before entering] at three times: before the dawn prayer and when you put aside your clothing [for rest] at noon and after the night prayer. [These are] three times of privacy for you. There is no blame upon you nor upon them beyond these [periods], for they continually circulate among you – some of you, among others. Thus does Allah make clear to you the verses [i.e., His ordinances]; and Allah is Knowing and Wise.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، لازم ہے کہ تمہارے مملوک اور تمہارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں، تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آیا کریں: صبح کی نماز سے پہلے، اور دوپہر کو جبکہ تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو، اور عشاء کی نماز کے بعد یہ تین وقت تمہارے لیے پردے کے وقت ہیں اِن کے بعد وہ بلا اجازت آئیں تو نہ تم پر کوئی گناہ ہے نہ اُن پر، تمہیں ایک دوسرے کے پاس بار بار آنا ہی ہوتا ہے اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنے ارشادات کی توضیح کرتا ہے، اور وہ علیم و حکیم ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! چاہیے کہ تم سے اذن لیں تمہارے ہاتھ کے مال غلام اور جو تم میں ابھی جوانی کو نہ پہنچے تین وقت نمازِ صبح سے پہلے اور جب تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو دوپہر کو اور نماز عشاء کے بعد یہ تین وقت تمہاری شرم کے ہیں ان تین کے بعد کچھ گناہ نہیں تم پر نہ ان پر آمدورفت رکھتے ہیں تمہارے یہاں ایک دوسرے کے پاس اللہ یونہی بیان کرتا ہے تمہارے لیے آیتیں، اور اللہ علم و حکمت والا ہے،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو تمہارے غلام اور تمہارےوہ لڑکے جو ابھی بالغ نہیں ہوئے تم سے ان تین وقتوں میں اجازت لے کر آیا کریں صبح کی نماز سے پہلے اور دوپہر کے وقت جب کہ تم اپنے کپڑے اتار دیتے ہو اور عشا کی نماز کے بعد یہ تین وقت تمہارے پردوں کے ہیں ان کے بعد تم پر اور نہ ان پر کوئی الزام ہے تم آپس میں ایک دوسرے کے پاس آنے جانے والے ہو اسی طرح الله تمہارے لیے آیتیں کھول کر بیان کرتا ہے اور الله جاننے والا حکمت والا ہے
4 Ahsanul Bayan
ایمان والو! تم سے تمہاری ملکیت کے غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں (اپنے آنے کی) تین وقتوں میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے۔ نماز فجر سے پہلے اور ظہر کے وقت جب کہ تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو اور عشا کی نماز کے بعد، یہ تینوں وقت تمہاری (خلوت) اور پردہ کے ہیں، ان وقتوں کے ماسوا نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر (١)، تم سب آپس میں ایک دوسرے کے پاس بکثرت آنے جانے والے ہو (ہی)، اللہ اس طرح کھول کھول کر اپنے احکام سے بیان فرما رہا ہے۔ اللہ تعالٰی پورے علم اور کامل حکمت والا ہے۔
٥٨۔١ یعنی ان اوقات ثلاثہ کے علاوہ گھر کے مذکورہ خدمت گزاروں کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اجازت طلب کئے بغیر گھر کے اندر آ جا سکتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! تمہارے غلام لونڈیاں اور جو بچّے تم میں سے بلوغ کو نہیں پہنچے تین دفعہ یعنی (تین اوقات میں) تم سے اجازت لیا کریں۔ (ایک تو) نماز صبح سے پہلے اور (دوسرے گرمی کی دوپہر کو) جب تم کپڑے اتار دیتے ہو۔ اور تیسرے عشاء کی نماز کے بعد۔ (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے (کے) ہیں ان کے (آگے) پیچھے (یعنی دوسرے وقتوں میں) نہ تم پر کچھ گناہ ہے اور نہ ان پر۔ کہ کام کاج کے لئے ایک دوسرے کے پاس آتے رہتے ہو۔ اس طرح خدا اپنی آیتیں تم سے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے اور خدا بڑا علم والا اور بڑا حکمت والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
ایمان والو! تم سے تمہاری ملکیت کے غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں (اپنے آنے کی) تین وقتوں میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے۔ نماز فجر سے پہلے اور ﻇہر کے وقت جب کہ تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو اور عشا کی نماز کے بعد، یہ تینوں وقت تمہاری (خلوت) اور پرده کے ہیں۔ ان وقتوں کے ماسوا نہ تو تم پر کوئی گناه ہے نہ ان پر۔ تم سب آپس میں ایک دوسرے کے پاس بکثرت آنے جانے والے ہو (ہی)، اللہ اسی طرح کھول کھول کر اپنے احکام تم سے بیان فرما رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمت واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! چاہیے کہ تمہارے غلام اور وہ بچے جو ابھی حدِ بلوغ کو نہیں پہنچے (گھروں میں داخل ہوتے وقت) تین بار تم سے اجازت طلب کریں۔ نمازِ صبح سے پہلے، اور جس وقت تم دوپہر کو اپنے کپڑے اتار دیتے ہو اور نماز عشاء کے بعد۔ یہ تین وقت (آرام کرنے کیلئے) تمہارے لئے پردے کے وقت ہیں ان اوقات کے علاوہ تم پر اور ان پر کوئی حرج نہیں ہے تم لوگ ایک دوسرے کے پاس بار بار چکر لگاتے رہتے ہو۔ اسی طرح اللہ آیتوں کو کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو تمہارے غلام و کنیز اور وہ بچے ّجو ابھی سن بلوغ کو نہیں پہنچے ہیں ان سب کو چاہئے کہ تمہارے پاس داخل ہونے کے لئے تین اوقات میں اجازت لیں نماز صبح سے پہلے اور دوپہر کے وقت جب تم کپڑے اتار کر آرام کرتے ہو اور نماز عشائ کے بعد یہ تین اوقات پردے کے ہیں اس کے بعد تمہارے لئے یا ان کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ ایک دوسرے کے پاس چکر لگاتے رہیں کہ اللہ اسی طرح اپنی آیتوں کو واضح کرکے بیان کرتا ہے اور بیشک اللہ ہر شے کا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! تمہارے غلام لونڈیاں اور جو بچے تم میں سے بلوغ کو نہیں پہنچے تین دفعہ (یعنی تین اوقات میں) تم سے اجازت لیا کریں (ایک تو) نماز صبح سے پہلے اور (دوسرے گرمی کی دوپہر کو) جب تم کپڑے اتار دیتے ہو اور (تیسرے) عشاء کی نماز کے بعد (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے (کے) ہیں ان کے (آگے) پیچھے (یعنی دوسرے وقتوں میں) نہ تم پر کچھ گناہ ہے نہ ان پر کہ کام کاج کے لئے ایک دوسرے کے پاس آتے رہتے ہو اس طرح خدا اپنی آیتیں تم سے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے اور خدا بڑا علم والا اور حکمت والا ہے
آیت نمبر 58 تا 61
ترجمہ : اے ایمان والو تمہارے مملوکوں کو یعنی غلام اور باندیوں کو اور ان کو جو تم میں سے حد بلوغ کو نہیں پہنچے آزادوں میں سے، مگر عورتوں کے معاملہ سے واقف ہوگئے ہیں تین مرتبہ یعنی تین اوقات میں اجازت لینی چاہیے، صبح کی نماز سے پہلے اور دوپہر میں یعنی دوپہر کے وقت جب تم اپنے کپڑے اتار دیتے ہو اور نماز عشاء کے بعد یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں (ثلٰثُ ) کے رفع کے ساتھ اس وجہ سے کہ مبتداء محذوف کی خبر ہے اور مبتداء کے بعد مضاف محذوف ہے، اور مضاف الیہ مضاف کے قائم مقام ہوگیا ہے، ایھی اوقات ثلٰثِ عورتٍ لکم اور (ثلٰث) نصب کے ساتھ، اس کے قبل اوقات کو مقدر مان کر حال یہ ہے کہ اپنے ماقبل (یعنی من قبل صلوٰۃ والفجر) کے محل سے بدل ہونے کی وجہ سے منصوب ہو اور (اوقات) مضاف کو حذف کرکے مضاف الیہ (یعنی عورات) کو مضاف کے قائم مقام کردیا، اور یہ تینوں اوقات (ایسے ہیں کہ) ان میں کپڑے اتار دینے کی وجہ سے ستر کھل جاتا ہے، ان تینوں اوقات کے علاوہ میں نہ تم پر کوئی الزام ہے اور نہ ان پر یعنی مملوکوں اور بچوں پر، بغیر اجازت تمہارے پاس چلے آنے میں، وہ بکثرت تمہارے پاس خدمات کیلئے چکر لگاتے رہتے ہیں بعض بعض کے پاس آتے رہتے ہیں اور (یہ) جملہ اپنے ماقبل جملہ کی تاکید ہے، اسی طرح جیسا کہ مذکورہ احکام بیان کئے، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے احکام کھول کھول کر بیان کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے حالات سے واقف ہے اور جو اس کے لئے تدبیر کرتا ہے اس میں حکمت والا ہے، آیت استیذان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ منسوخ ہے اور کہا گیا ہے کہ منسوخ نہیں ہے لیکن لوگ استیذان میں سستی کرنے لگے ہیں (ترک کا لفظ غالباً سہو ہے) ورنہ تو مطلب یہ ہوگا کہ استیذان میں سستی ترک کرنے لگے ہیں۔
تنبیہ : حالانکہ یہ خلاف مقصود ہے اور جب تمہارے لڑکے اے آزاد لوگو ! حد بلوغ کو پہنچ جائیں تو تمام اوقات میں ان کو بھی اسی طرح اجازت لینی چاہیے جیسا کہ ان کے ماقبل مذکور لوگ اجازت لیتے ہیں یعنی بالغ آزاد، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اسی طرح احکام بیان کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ جاننے والا حکمت والا ہے، اور بڑی بوڑھی عورتیں جو اولاد اور حیض سے اپنے بڑھاپے کی وجہ سے مایوس ہوگئی ہوں اور اسی (بڑھاپے کی وجہ سے) نکاح کی امید (خواہش) نہ رکھتی ہوں تو ان پر اپنے (زائد) کپڑے اتار دینے میں کوئی گناہ نہیں مثلاً برقع، چادر، دوپٹہ جو سر بند کے اوپر ہوتا ہے بشرطیکہ مخفی زینت کا مظاہرہ نہ کریں جیسا کہ گلوبند، کنگن، پازیب، اور (اگر) اس سے بھی احتیاط رکھیں تو ان کے لئے اور زیادہ بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی باتوں کو سننے والے ہیں اور قلوب کے خطرات کو جاننے والے ہیں نہ تو نابینا شخص کے لئے کچھ مضائقہ ہے اور نہ لنگڑے کے لئے کچھ حرج ہے اور نہ مریض پر کوئی گناہ ہے، اپنے مقابلوں (غیر معذوروں) کے ساتھ کھانے میں اور نہ خود تمہارے لئے کچھ حرج ہے اس بات میں کہ تم اپنے گھروں سے کھاؤ یعنی اپنی اولاد کے گھروں سے یا اپنے باپوں کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے مومؤں کے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یان کے گھروں سے جن کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیں یعنی اس میں سے جس کی تم غیر کے لئے حفاظت کرتے ہو، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے اور دوست وہ ہے جو تمہارے ساتھ دوستی میں مخلص ہو، آیت کے معنی یہ ہیں کہ مذکورین کے گھروں (اموال) سے ان کی غیر موجودگی میں کھانا جائز ہے، یعنی جبکہ کھانے کے لئے ان کی رضا مندی کا علم ہوجائے اور تمہارے لئے (اس بات) میں کوئی حرج نہیں کہ سب مل کر کھاؤ یا الگ الگ یعنی متفرق طریقہ پر اَشْتَاتًا شتٌ کی جمع ہے یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو تنہا کھانے میں حرج محسوس کرتا تھا، اور اگر ساتھ کھانے والا کسی کو نہ پاتا تو نہ کھاتا اور جب تم اپنے ایسے گھروں میں داخل ہوا کرو کہ جن میں کوئی نہیں ہے ترو خود کو سلام کرلیا کرو یعنی کہا کرو السلام علینا وعلیٰ عباد اللہ الصَّالِحینَ اس لئے کہ فرشتے تم کو اس جا جواب دیں گے اور اگر ان میں اہل خانہ ہوں تو ان کو دعاء کے طور پر سلام کرلیا کرو، تحیۃً ، حَیِّیَ کا مصدر ہے جو خدا کی طرف سے مقرر ہے برکت والی عمدہ چیز ہے اس پر اجر دیا جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے احکام بیان فرماتا ہے یعنی تمہارے دین کے احکام کو واضح طریقہ پر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ان احکام کو سمجھو۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : ثَلٰثَ مرَّاتٍ ثلٰثَ کے منصوب ہونے کی دو وجہ ہیں اول یہ کہ لِیَسْتَاذِنُکُمْ کا مفعول فیہ ہے ای لیستاذنوا فی ثلٰثۃ اوقات فی الیوم واللیلۃ مفسر علام نے فی ثلٰث اوقاتٍ کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ ثلٰث مرَّاتٍ ظرف ہے اور مرّات بمعنی اوقاتٍ ہے، ای لِیَسْتَاذنکُمْ ثلٰثۃ اوقاتٍ اس کے بعد من قَبْلَ صلوٰۃٍ الفجرِ سے مِن بعد صلوٰۃِ العشاءِ تک ثلٰث اوقات کی تفسیر ہے۔ ثلٰثَ مراتٍ کے منصوب ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ لِیَستاذنکم کا مفعول مطلق ہے ای استاذنوا ثلٰث استیذاناتٍ ۔
قولہ : ثلٰثُ عوراتٍ لکم ثلٰثُ مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے مبتدا محذوف کے بعد اوقات مضاف محذوف ہے مضاف کو حذف کرکے مضاف الیہ یعنی عوراتٌ کو اس کے قائم مقام کردیا ہے، اس صورت میں وقف، العشاء پر ہوگا، ای ھِیَ ثلاثۃُ اوقاتٍ کائنۃٍ لکم اوقاتِ مذکورہ کو عوراتٌ کہا گیا ہے حالانکہ اوقات ثلٰثہ عوراتٍ نہیں ہیں لیکن چونکہ مذکورہ تینوں اوقات عدم تستُّر (کشف عورات) کے ہیں، مظروف بول کر ظرف مراد لیا گیا ہے (تسمیہ الشیئ باسم ما یقع فیہ) اور ثلٰث عوراتٍ کے منصوب ہونے کی صورت میں ثلٰث عوراتٍ اپنے ماقبل یعنی من قبل صلوٰۃِ الفجر کے محل سے بدل ہے اور مضاف الیہ مضاف کے قائم مقام ہے چونکہ مذکورہ تینوں اوقات میں (زائد) کپڑے اتار دینے کی وجہ سے پوشیدہ حصہ ظاہر ہوجاتا ہے، اسی وجہ سے ان اوقات کو عورات کہا گیا ہے۔ قولہ : ھِیَ مبتداء ہے تبدو فیھا العورات خبر ہے لالقاءِ الثیابِ الخ تبدو کی علت مقدمہ ہے اور اوقات کا عورات نام رکھنے کی علت کی طرف اشارہ بھی ہے، قولہ : بعضکم علیٰ بعض یہ جملہ سابق جملہ طوافون علیکم کی تاکید ہے۔ قولہ : متبَرِّجٰتٍ کی تفسیر مظھرات کرکے اشارہ کردیا کہ بزینۃٍ میں با تعدیہ کے لئے ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ بزینۃٍ میں با بمعنی لام ہے ای مظھرات لزینۃٍ ۔
جلباب بڑی چادر برقعہ وغیرہ جس میں پورا بدن چھپ جائے (جمع) جلابیب آتی ہے۔ قولہ : فوق الخمار کا تعلق قناعٌ سے ہے دوپٹہ وغیرہ کو کہتے ہیں۔ قولہ : فی مواکلَۃ مقابلیھم مواکلَۃ مصدر ہے اپنے مفعول کی جانب مضاف ہے ای فی اکلِھِمْ مع مقابلیْھِمْ (ای السالمین من ھذہ النقائص الثلٰثۃ) ۔ قولہ : وَلاَ عَلیٰ اَنفسِکُمْ یہ جملہ مستانفہ ہے۔ قولہ : صدیقکم صدیق کا طلاق واحد اور جمع دونوں پر ہوتا ہے۔ قولہ : مِنْ بیوت مَن ذُکرَ ماقبل میں گیارہ بیوت کا ذکر کیا گیا ہے یہ تعداد عادت اور عرف کے اعتبار سے ہے، قولہ : ای اذا علم رضاءھم بہٖ یہ رضا مندی صراحۃً ہو یا کسی ایسے قرینہ کی وجہ سے ہو جو رضا مندی پر دلالت کرتا ہو، اور مذکورہ اجازت عام کھانے پینے کی چیزوں میں ہے جیسے روٹی سالن وغیرہ یہ اجازت ایسی چیزوں میں نہیں ہے جو مخصوص طریقہ پر اہتمام کے ساتھ بنائی جاتی ہیں نیز اجازت کھانے کی حد تک ہے ساتھ لیجانے کی اجازت نہیں ہے، اسی طرح غیر ماکول اشیاء میں بھی تصرف کی اجازت نہیں ہے جب تک کہ صریح اجازت نہ ہو، قولہ : تحیۃً یہ فعل مقدر کا مفعول ہیں، اس صورت میں قعدت فسَلِّمُوْا کا معمول بھی ہوسکتا ہے اس لئے سلِّمُوْا اور تحیۃً کے معنی قریب قریب ہیں، اس صورت میں قعدت جلوساً کے قبیل سے ہوگا۔
قولہ : من عند اللہ اس کا تعلق تحیۃً کی صفت محذوف سے بھی ہوسکتا ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی، تحیۃً صادرۃً من عند اللہ اور خود تحیۃ کے متعلق بھی ہوسکتا ہے، قولہ : یُثَابُ علَیْھَا یہ مبارکۃ کی تفسیر ہے۔
تفسیر و تشریح
یا ایھا الذین آمنوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایمانکم (الآیہ)
اقارب و محارم کے لئے خاص اوقات میں استیذان کا حکم : آداب معاشرت اور ملاقات کے آداب اسی سورت کی آیت 27/ 28/ 29 میں بیان ہوئے ہیں کہ کسی کی ملاقات کیلئے جاؤ تو بغیر اجازت ان کے گھروں میں داخل نہ ہو، گھر زنانہ ہو یا مردانہ آنے ولاا مرد ہو یا عورت، سب کے لئے اجازت لینا ضروری قرار دیا گیا ہے، مگر یہ احکام استیذان اجانب کے لئے تھے جو باہر سے ملاقات کے لئے آئے ہوں۔
شان نزول : مذکورہ آیت کی شان نزول میں متعدد واقعات ذکر کئے گئے ہیں :
(1) ابن عباس (رض) کی روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک انصاری لڑکے کو جس کا نام مدلج بن عمر تھا دوپہر کے وقت عمر بن خطاب کے پاس بھیجا تاکہ عمر کو بلا لائے، لڑکا گھر میں اچانک داخل ہوگیا اور حضرت عمر کو ایسی حالت میں دیکھ لیا جس کو دیکھنا عمر (رض) پسند نہیں کرتے تھے، تو یہ آیت نازل ہوئی۔
(2) کہا گیا ہے کہ اسماء بنت مرثد کے بارے میں نازل ہوئی اس کا ایل بالغ غلام تھا وہ ایک روز اسماء کے پاس اچانک چلا گیا جس کو اسماء نے ناپسند کیا اسماء نے اس واقعہ کا ذکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔
اس آیات میں ایک دوسرے استیذان کے احکام کا بیان ہے جن کا تعلق ان اقارب و محارم سے ہے جو عموماً ایک گھر میں رہتے ہیں اور ہر وقت آتے جاتے ہیں، اور ان سے عورتوں کا پردہ بھی نہیں ہے ایسے لوگوں کے لئے بھی اگرچہ گھر میں داخل ہونے کے وقت اس کا حکم ہے کہ اطلاع کرکے یا کم از کم قدموں کی آہٹ کرکے یا کھانس کھنکار کر گھر میں داخل ہوں اور یہ استیذان مستحب ہے، یہ حکم تو گھر میں داخل ہونے سے پہلے کا تھا لیکن گھر میں داخل ہونے کے بعد ایک دوسرے کے پاس آنے جاتے رہتے ہیں ان کے لئے تین خاص اوقات میں جو عام طور پر ہر شخص کے لئے خلوت اور آزادی کے اوقات ہیں ایک اور استیذان کا حکم ہے جو ان آیات میں دیا گیا ہے وہ تین اوقات صبح کی نماز سے پہلے دوپہر کو آرام کرنے کے وقت، اور عشاء کی نماز کے بعد کے اوقات ہیں، ان اوقات میں محارم و اقارب کو حتی کہ سمجھدار نابالخ بچوں اور مملوکہ باندیوں کو بھی اس کا پابند بنایا گیا ہے کہ ان تین اوقات میں کسی کی خلوت گاہ میں اجازت کے بغیر نہ جائیں، ان احکام کے بعد فرمایا :
لیس۔۔۔ بعدھن، یعنی ان واقعات کے علاوہ کوئی مضائقہ نہیں کہ ایک دوسرے کے پاس بلا اجازت چلے جایا کریں، یہ حکم بچوں کو نہیں بلکہ دراصل بڑوں کو ہے کہ بچوں کو تربیت کے طور ہر سمجھا دیا کریں کہ ان تین اوقات میں کسی کی خلوت گاہ میں بغیر اجازت کے نہ جانا چاہیے۔
آیت میں الذین ملکت ایمانکم اگرچہ عام ہے جس کے معنی مملوک کے ہیں جس میں باندی اور غلام دونوں شامل ہیں ان میں مملوک غلام جو بالغ ہو وہ تو شرعاً اجنبی غیر محرم کے حکم میں ہے اس سے مالکن کو پردہ کرنا واجب ہے اس کا بیان پہلے گذر چکا ہے، اس لئے یہاں اس لفظ سے باندیاں مراد ہیں یا پھر وہ غلام جو ابھی بالغ نہ ہوئے ہوں، جو ہر وقت گھر میں آتے جاتے رہتے ہیں۔
اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ یہ خاص استیذان اقارب کیلئے واجب ہے یا مستحب اور اب یہ حکم باقی ہے یا منسوخ ہوگیا، جمہور فقہاء کے نزدیک یہ حکم غیر منسوخ ہے اور وجوب کے لئے ہے، اگر کسی طریقہ سے یہ معلوم ہوجائے کہ مذکورہ تین اوقات میں صاحب کانہ اپنی خلوت گاہ میں اپنے اعضاء مستورہ کو کھولے ہوئے نہیں ہے یا اپنی بیوی کے کے ساتھ خلوت میں نہیں ہے تو اس صورت میں استیذان واجب نہیں ہے، حضرت ابن عباس (رض) کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ استیذان کی آیت منسوخ نہیں ہے بلکہ لوگ اس پر عمل کرنے میں سستی کرنے لگے ہیں۔
والقواعد من النساء یہ استثناء عورت کی شخصی حالت کے اعتبار سے ہے کہ جو عورت اتنی بوڑھی ہوجائے کہ اس کی طرف کسی کو رغبت نہ ہو تو اس کے لئے پردہ کے احکام میں سہولت دیدی گئی ہے کہ اجانب بھی اہل کے حق میں مثل محارم کے ہوجاتے ہیں جن اعضاء کا چھپانا محرموں سے ضروری نہیں ہے بوڑھی عورتوں کے لئے غیر مردوں سے بھی چھپانا ضروری نہیں ہے مگر ایسی بوڑھی عورتوں کے لئے بھی ایک قید تو یہ ہے کہ جو اعضاء محرم کے سامنے کھولے جائیں غیر محرم کے سامنے بھی کھول سکتی ہے بشرطیکہ بن سنور کر زینت اختیار نہ کرے۔ اور آخر میں دوسری بات یہ فرمائی وَاَن یَسْتَعْفِفْنَ خیرٌ لَّھُنَّ یعنی اگر بوڑھی عورتیں غیر محرموں کے سامنے آنے سے بالکل ہی بچیں تو یہ ان کے لئے بہتر ہے۔
لیس علی۔۔۔۔۔ حرج مفسرین نے آیت مذکورہ کے شان نزول کے سلسلہ میں چند واقعات تحریر کئے ہیں کسی نے کسی واقعہ کو آیت کا شان نزول قرار دیا ہے اور کسی نے کسی کو، اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ سب ہی واقعات نزول آیت کا سبب بنے ہوں۔
آیت کا ایک مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو کام تکلیف کے ہیں وہ ماقبل میں مذکور معذورین کے لئے معاف ہیں مثلاً جہاد، حج، جمعہ اور جماعت میں حاضری (کذافی الموضح) یا یہ مطلب ہے کہ ان معذور محتاج لوگوں کو تندرستوں کے ساتھ کھانے میں کچھ کھانے میں کچھ حرج نہیں، جاہلیت میں اس قسم کے محتاج معذور آدمی مالداروں اور تندرستوں کے ساتھ کھانے سے جھجک محسوس کرتے تھے انہیں خیال گذرتا تھا کہ شاید لوگوں کو ہمارے ساتھ کھانے سے نفرت ہو اور ہماری بعض حرکات اور اوضاع سے ایذا پہنچتی ہو اور واقعی بعض کو نفرت و وحشت ہوتی بھی تھی، نیز بعض مومنین کو غایت اتقاء کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوا کہ ایسے موزوروں اور مریضوں کے ساتھ کھانے میں شاید اصول عدل و مساوات قائم نہ رہ سکے، اندھے کو سب کھانے نظر نہیں آتے، لنگڑا ممکن ہے دیر میں پہنچے اور مناسب نشست سے نہ بیٹھ سکے، مریض کا تو پوچھنا ہی کیا ہے، اس بناء پر ساتھ کھانے میں احتیاط کرتے تھے تاکہ ان کی حق تلفی نہ ہو۔
کبھی یہ صورت حال بھی پیش آتی تھی یہ معذورین اور محتاجین کسی کے پاس اپنی ضرورت لیکر جاتے وہ شخص استطاعت نہ رکھتا تھا ازراہ بےتکلفی وہ اس معذور کو اپنے عزیز و اقارب کے گھر لیجاتے اس پر ان حاجت مندوں کو خیال ہوتا تھا کہ ہم تو آئے تھے اس کے پاس اور یہ دوسرے کے یہاں لے گیا کیا معلوم وہ ہمارے کھلانے سے ناخوش تو نہیں، ان تمام خیالات کی اصلاح کے لئے یہ آیت نازل ہوئی کہ خواہی نخواہی اس طرح کے اوہام میں مت پڑو اللہ نے ان سب معاملات میں وسعت رکھی ہے پھر تم خود
اپنے اوپر تنگی کیوں کرتے ہو ؟ (فوائد عثمانی)
اس زمانہ میں عرب میں چونکہ عرف و عادت تھی کہ آپس میں بلا تکلف اپنے عزیز و اقارب اور دوست و احباب کے گھر جا کر کھاپی لیتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی ساتھ لیجاتے تھے اس لئے کوئی ناخوشی یا ناگواری کا اظہار نہیں کرتا تھا چناچہ آج بھی اگر کہیں اس قسم کا عرف و عادت ہو تو اجازت ہوگی اور اگر عرف و عادت نہ ہو تو صریح اجازت کی ضرورت ہوگی، جیسا کہ ہمارے یہاں اس قسم کا عرف نہیں ہے لہٰذا اجازت کی ضرورت ہوگی۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ ان کے غلام اور نابالغ بچے اجازت طلب کر کے ان کے پاس آیا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان کی ہے اور یہ کہ اجازت طلب کرنے والوں کے لئے پردے کے یہ تین اوقات ہیں۔ عشاء کی نماز کے بعد جب سونے کا وقت ہوتا ہے اور فجر کی نماز کے لئے بیدار ہونے سے پہلے۔ غالب حالات میں، رات کے وقت سونے والے نے معمول کے لباس کی بجائے شب خوابی کا لباس پہنا ہوتا ہے۔۔۔ البتہ دن کے وقت، قیلولہ وغیرہ میں انسان بسا اوقات اسی معمول کے لباس ہی میں ہوتا ہے۔ اس کو اپنے اس ارشاد کے ساتھ مقید کیا ہے۔ ﴿ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ ﴾ ’’دوپہر کے وقت جب تم (قیلولہ کے لئے) کپڑے اتارتے ہو۔‘‘ پس مذکورہ بالا تین اوقات میں تمہارے غلام اور چھوٹے بچوں کو دوسرے لوگوں کی مانند اجازت لئے بغیر داخل ہونے کی اجازت نہیں۔۔۔ ان تین اوقات کے علاوہ دیگر اوقات کے بارے میں فریاما : ﴿ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ﴾ ’’نہیں ہے تم پر اور نہ ان پر کوئی گناہ ان اوقات کے بعد۔‘‘ یعنی یہ غلام اور بچے دوسروں کی مانند نہیں کیونکہ وہ ہمیشہ ان کے محتاج ہوتے ہیں اس لئے ان کا ہر وقت اجازت طلب کرتے رہنا ان کے لئے باعث تکلیف ہوگا۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ﴾ یعنی تمہارے کام سر انجام دینے اور تمہاری ضروریات پوری کرنے کے لئے ان کا تمہارے پاس آنا جانا رہتا ہے۔ ﴿ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰـهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ﴾ وہ تاکید کے لئے اپنی آیات کو اپنی حکمت کے ساتھ مقرون بیان کرتا ہے تاکہ شارع کی رحمت اور اس کی حکمت کی معرفت حاصل ہو۔ اس لئے فرمایا : ﴿ وَاللّٰـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴾ ’’اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘ اس کا علم تمام واجبات و مستحبات اور تمام ممکنات کا احاطہ کئے ہوئے ہے، وہ اس حکمت کو بھی خوب جانتا ہے جس کی بنا پر ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھا گیا۔ پس ہر مخلوق کو وہی تخلیق عطا کی گئی ہے جو اس کے لائق ہے اور اس نے تمام شرعی احکام عطا کئے ہیں جو اسکے مناسب حال ہیں۔ یہ متذکرہ صدر احکام بھی انہیں میں سے ہیں جنہیں اس نے خوب کھول کھول کر بیان کیا ہے اور ان کے مآخذ کو اور ان کے حسن کو واضح کیا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! jo ghulam londiyan tumhari milkiyat mein hain , aur tum mein say jo bacchay abhi buloog tak nahi phonchay , unn ko chahiye kay woh teen oqaat mein ( tumharay paas aaney kay liye ) tum say ijazat liya keren . namaz-e-fajar say pehlay , aur jab tum dophare kay waqt apney kapray utaar ker rakha kertay ho , aur namaz-e-esha kay baad . yeh teen waqt tumharay perday kay oqaat hain . inn oqaat kay ilawa naa tum per koi tangi hai , naa unn per . unn ka bhi tumharay paas aana jana laga rehta hai , tumhara bhi aik doosray kay paas . Allah issi tarah aayaton ko tumharay samney khol khol ker biyan kerta hai , aur Allah ilm ka bhi malik hai , hikmat ka bhi malik .
12 Tafsir Ibn Kathir
گھروں میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہوں
اس آیت میں قریب رشتے داروں کو بھی حکم ہو رہا ہے کہ وہ اجازت حاصل کر کے آیا کریں۔ اس سے پہلے کہ اس سورت کی شروع کی آیت میں جو حکم تھا وہ اجنبیوں کے لئے تھا۔ پس فرماتا ہے کہ تین وقتوں میں غلاموں کو نابالغ بچوں کو بھی اجازت مانگنی چاہے۔ صبح کی نماز سے پہلے کیونکہ وہ وقت سونے کا ہوتا ہے۔ اور دوپہر کو جب انسان دو گھڑی راحت حاصل کرنے کے لئے عموما اپنے گھر میں بالائی کپڑے اتار کر سوتا ہے اور عشاء کی نماز کے بعد کیونکہ وہ بھی بال بچوں کے ساتھ سونے کا وقت ہے۔ پس تین وقتوں میں نہ جائیں انسان بےفکری سے اپنے گھر میں کس حالت میں ہوتا ہے ؟ اس لئے گھر کے لونڈی غلام اور چھوٹے بچے بھی بےاطلاع ان وقتوں میں چپ چاپ نہ گھس آئیں۔ ہاں ان خاص وقتوں کے علاوہ انہیں آنے کی اجازت مانگنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کا آنا جانا تو ضروری ہے بار بار کے آنے جانے والے ہیں ہر وقت کی اجازت طلبی ان کے لئے اور نیز تمہارے لئے بھی بڑی حرج کی چیز ہوگی۔ ایک حدیث میں ہے کہ بلی نجس نہیں وہ تو تمہارے گھروں میں تمہارے آس پاس گھومنے پھرنے والی ہے۔ حکم تو یہی ہے اور عمل اس پر بہت کم ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں تین آیتوں پر عموما لوگوں نے عمل چھوڑ رکھا ہے۔ ایک تو یہی آیت اور ایک سورة نساء کی آیت ( وَاِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنُ فَارْزُقُوْھُمْ مِّنْهُ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا ) 4 ۔ النسآء :8) اور ایک سورة حجرات کی آیت (اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ 13) 49 ۔ الحجرات :13) شیطان لوگوں پر چھا گیا اور انہیں ان آیتوں پر عمل کرنے سے غافل کردیا گویا ان پر ایمان ہی نہیں میں نے تو اپنی اس لونڈی سے بھی کہہ رکھا ہے کہ ان تینوں وقتوں میں بےاجازت ہرگز نہ آئے۔ پہلی آیت میں تو ان تین وقتوں میں لونڈی غلاموں اور نابالغ بچوں کو بھی اجازت لینے کا حکم ہے دوسری آیت میں ورثے کی تقسیم کے وقت جو قرابت دار اور یتیم مسکین آجائیں انہیں بنام الہٰی کچھ دے دینے اور ان سے نرمی سے بات کرنے کا حکم ہے اور تیسری آیت میں حسب ونسب پر فخر کرنے بلکہ قابل اکرام خوف الہٰی کے ہونے کا ذکر ہے۔ حضرت شعبی (رح) سے کسی نے پوچھا کیا یہ آیت منسوخ ہوگئی ہے ؟ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں۔ اس نے کہا پھر لوگوں نے اس پر عمل کیوں چھوڑ رکھا ہے ؟ فرمایا اللہ سے توفیق طلب کرنی چاہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں اس آیت پر عمل کے ترک کی وجہ مالداری اور فراخ دلی ہے۔ پہلے تو لوگوں کے پاس اتنا بھی نہ تھا کہ اپنے دروازوں پر پردے لٹکا لیتے یا کشادہ گھر کئی کئی الگ الگ کمروں والے ہوتے ہیں تو بسا اوقات لونڈی غلام بیخبر ی میں چلے آتے اور میاں بیوی مشغول ہوتے تو آنے والے بھی شرما جاتے اور گھر والوں پر بھی شاق گزرتا اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کشادگی دی، کمرے جداگانہ بن گئے، دروازے باقاعدہ لگ گئے، دروازوں پر پردے پڑگئے تو محفوظ ہوگئے۔ حکم الہٰی کی مصلحت پوری ہوگئی اس لئے اجازت کی پابندی اٹھ گئی اور لوگوں نے اس میں سستی اور غفلت شروع کردی۔ سدی (رح) فرماتے ہیں یہی تین وقت ایسے ہیں کہ انسان کو ذرا فرصت ہوتی ہے گھر میں ہوتا ہے اللہ جانے کس حالت میں ہو اس لئے لونڈی غلاموں کو بھی اجازت کا پابند کردیا ہے کیونکہ اسی وقت میں عموما لوگ اپنی گھر والیوں سے ملتے ہیں تاکہ نہا دھو کر بہ آرام گھر سے نکلیں اور نمازوں میں شامل ہوں۔ یہ بھی مروی ہے کہ ایک انصاری (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے کچھ کھانا پکایا جائے لوگ بلا اجازت ان کے گھر میں جانے لگے۔ حضرت اسماء (رض) نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ تو نہایت بری بات ہے کہ غلام بےاجازت گھر میں آجائے ممکن ہے میاں بیوی ایک ہی کپڑے میں ہوں۔ پس یہ آیت اتری۔ اس آیت کے منسوخ نہ ہونے پر اس آیت کے خاتمے کے الفاظ بھی دلالت کرتے ہیں کہ اسی طرح تین وقتوں میں جن کا بیان اوپر گزرا اجازت مانگنی ضروری ہے لیکن بعد بلوغت تو ہر وقت اطلاع کر کے ہی جانا چاہے۔ جیسے کہ اور بڑے لوگ اجازت مانگ کر آتے ہیں خواہ اپنے ہوں یا پرائے۔
جو بڑھیا عورتیں اس عمر کو پہنچ جائیں کہ نہ اب انہیں مرد کی خواہش رہے نہ نکاح کی توقع حیض بند ہوجائے عمر سے اتر جائیں تو ان پر پردے کی وہ پابندیاں نہیں جو اور عورتوں پر ہیں۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایسی عورتوں کو اجازت ہے کہ وہ برقعہ اور چادر اتار دیا کریں صرف دوپٹے میں اور کرتے پاجامے میں رہیں۔ آپ کی قرأت بھی آیت (اَنْ يَّضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجٰتٍۢ بِزِيْنَةٍ ۭوَاَنْ يَّسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ 60) 24 ۔ النور :60) ہے۔ مراد اس سے دوپٹے کے اوپر کی جادر ڈالنا ضروری نہیں۔ لیکن مقصود اس سے بھی اظہار زینت نہ ہو۔ حضرت عائشہ سے جب اس قسم کے سوالات عورتوں نے کئے تو آپ نے فرمایا تمہارے لئے بناؤ سنگھار بیشک حلال اور طیب ہے لیکن غیر مردوں کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے نہیں۔
حضرت حذیفہ بن یمان (رض) کی بیوی صاحبہ جب بالکل بڑھیا پھوس ہوگئیں تو آپ نے اپنے غلام کے ہاتھوں اپنے سر کے بالوں میں مہندی لگوائی جب ان سے سوال کیا گیا تو فرمایا میں ان عمر رسیدہ عورتوں میں ہوں جنہیں خواہش نہیں رہی۔ آخر میں فرمایا گو چادر کا نہ لینا ان بڑی عورتوں کے لئے جائز تو ہے مگر تاہم افضل یہی ہے کہ چادروں اور برقعوں میں ہی رہیں۔ اللہ تعالیٰ سننے والا ہے۔