الشعراء آية ۱۴۱
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِيْنَ ۖ
طاہر القادری:
(قومِ) ثمود نے (بھی) پیغمبروں کو جھٹلایا،
English Sahih:
Thamud denied the messengers.
1 Abul A'ala Maududi
ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا
2 Ahmed Raza Khan
ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا،
3 Ahmed Ali
قوم ثمود نے پیغمبروں کو جھٹلایا
4 Ahsanul Bayan
ثمودیوں (١) نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا۔
١٤١۔ ١ ثمود کا مسکن حضر تھا جو حجاز کے شمال میں ہے، آجکل اسے مدائن صالح کہتے ہیں۔ (ایسر التفاسیر) یہ عرب تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبوک جاتے ہوئے ان بستیوں سے گزر کر گئے تھے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اور) قوم ثمود نے بھی پیغمبروں کو جھٹلا دیا
6 Muhammad Junagarhi
ﺛمودیوں نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
7 Muhammad Hussain Najafi
قومِ ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
او قوم ثمود نے بھی مرسلین کی تکذیب کی
9 Tafsir Jalalayn
اور قوم ثمود نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
آیت نمبر 141 تا 159
ترجمہ : ثمود نے (بھی) رسولوں کو جھٹلایا جبکہ ان کے بھائی صالح نے ان سے کہا کیا تم کو (خدا کا) خوف نہیں ہے، میں تمہارا امانت دار رسول ہوں سو تم اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو اور میں تم سے اس پر کچھ صلہ نہیں چاہتا، میرا صلہ تو رب العالمین پر ہے، کیا تم کو ان (راحت کی) چیزوں میں بےفکری کے ساتھ رہنے دیا جائے گا جو یہاں (دنیا میں) موجود ہیں (یعنی) باغوں اور چشموں اور کھیتوں اور کھجوروں میں جن کے شگوفے نرم و نازک ہیں (یا) (جن کے شگوفے گتھے ہوئے ہیں) اور تم پہاڑوں کو تراش کر فخر یہ طور پر گھر بناتے ہو ایک قرأۃ میں فارھین ہے یعنی ماہرانہ انداز سے سو اللہ سے ڈرو اور جس کام کے لئے میں تم سے کہوں اس میں میرا کہنا مانو اور بےباک حد سے تجاوز کرنے والوں کی بات نہ مانو جو معاصی کے ذریعہ ملک میں فساد برپا کرتے ہیں اور خدا کی اطاعت کرکے اصلاح نہیں کرتے تو ان لوگوں نے کہا تم پر تو کسی نے بڑا بھاری جادو کردیا ہے (یعنی) تم ان لوگوں میں سے ہو کہ جن پر زبردست جادو کردیا گیا ہو حتیٰ کہ ان کی عقل مغلوب ہوگئی ہو تم بھی ہم جیسے انسان ہو لہٰذا اگر تم اپنے دعوئے رسالت میں سچے ہو تو کوئی معجزہ پیش کرو (صالح علیہ السلام) نے فرمایا یہ ایک اونٹنی ہے، پانی کی ایک دن کی باری اس کی اور ایک دن پانی کا تمہارے لئے مقرر (خبردار) اس کو بری نیت سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ تو ایک بڑے بھاری دن کا عذاب تم کو گرفت میں لے لے گا عذاب کے بھاری ہونے کی وجہ سے پھر انہوں نے اس (اونٹنی) کو ہلاک تک دیا پھر وہ اس کے ہلاک کرنے پر پشیمان ہوگئے چناچہ ان کو عذاب موعود نے آدبوچا جس کے نتیجے میں ہلاک ہوگئے یقیناً اس (واقعہ) میں بڑی عبرت ہے ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لائے بلاشبہ آپ کا رب بڑا زبردست بہت مہربان ہے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
کذبت ثمود کذبت فعل کو مؤنث لایا گیا ہے اس لئے کہ ثمود قبیلہ کے معنی میں ہے ثمود قوم ثمود کے جداعلیٰ کا نام ہے ان ہی کے نام پر قوم کا نام رکھا گیا ہے، نسب اس طرح ہے ثمود بن عبید بن عَوْص بن عاد بن ارم بن سام بن نوح، ثمود حضرت صالح (علیہ السلام) کی امت ہے حضرت صالح (علیہ السلام) نے دو سو اسی سال عمر پائی حضرت صالح اور حضرت ہود (علیہ السلام) کے درمیان سو سال کا وقفہ ہے۔ (حاشیہ جلالین)
قولہ : فیما ھٰھنا من الخیر ھٰھُنَا ای فی الدنیا، من الخیر، مَا کا بیان ہے مراد اس سے دنیوی آرام و راحت کا سامان ہے آمِنِیْنَ تترکون کی ضمیر فاعل سے حال ہے۔ قولہ : فی جنّٰتٍ الخ یہ اعادۂ جار کے ساتھ فیما ھٰھُنَا سے تفصیل کے لئے بدل ہے۔ قولہ : طَلْعُھَا، طَلْعٌ ابتداء نمودار ہونے والا شگوفہ، پھر بَلٰغٌ پھر بسر پھر رطبٌ پھر تموھضِیْمٌ نرم، نازک۔
قولہ : الذِیْنَ یُفسِدونَ فی الاَرْضِ مُسْرِفینَ کی صفت کا شفہ ہے اس لئے کہ یہاں مسرفین کے معروف معنی مراد نہیں ہیں۔
تفسیر و تشریح
قوم ثمود کا مسکن حجر تھا جو حجاز کے شمال میں واقع ہے آج کل اس کو مدائن صالح کہتے ہیں (ایسر التفاسیر) یہ عرب تے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تبوک جاتے ہوئے ان کی بستیوں سے گزر ہوا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بستیوں سے ان کے معذب ہونے کی وجہ سے تیزی سے سرجھکائے ہوئے گزر گئے تھے اتترکون فیما ھٰھُنا آمین یعنی یہ نعمتیں کیا تمہیں ہمیشہ حاصل رہیں گی نہ تمہیں موت آئے گی اور نہ عذاب ؟ یہ استفہام انکاری توبیخی ہے یعنی ایسا نہیں ہوگا بلکہ عذاب یا موت کے ذریعہ جب اللہ چاہے گا تم ان نعمتوں سے محروم ہوجاؤ گے اس میں اس بات کی طرف ترغیب ہے کہ تم اللہ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرو اور اس پر ایمان لاؤ اور ترہیب ہے کہ اگر ایمان و شکر کا راستہ اختیار نہیں کیا تو پھر تباہی و بربادی تمہارا مقدر ہے وقال ھٰذہ ناقۃ یہ اونٹنی تھی جو ان کے مطالبہ پر پتھر کی ایک چٹان سے بطور معجزہ ظاہر ہوئی تھی، پانی کے لئے ایک دن اونٹنی کا اور ایک دن دیگر تمام جانوروں کیلئے مقرر کردیا گیا تھا نیز ان سے یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ اس کو بری نیت سے ہاتھ نہ لگانا نہ اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا یہ اونٹنی ان کے درمیان ایک مدت تک رہی لیکن کچھ عرصہ کے بعد ان لوگوں نے اس کے قتل کا منصوبہ بنا لیا اور ایک روز رات کی تاریکی میں ایک قدار نامی شخص نے قوم کی رضا مندی سے اس کو ہلاک کردیا یہ اونٹنی باوجودیکہ اللہ کی قدرت کی نشانی اور صالح (علیہ السلام) کی نبوت کی ایک واضح دلیل تھی مگر قوم ثمود اس پر ایمان نہیں لائی اور کفر و شرک کے راستہ پر گامزن رہی جب اونٹنی کو قتل کردیا گیا تو حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا اب تمہیں صرف تین دن کی مہلت ہے چوتھے دن تمہیں ہلاک کردیا جائے گا، اونٹنی کو سہ شنبہ کو ہلاک کیا گیا اور وہ لوگ شنبہ کے روز ہلاک کر دئیے گئے، حضرت صالح (علیہ السلام) نے نزول عذاب کی کچھ علامتیں مقرر فرما دی تھیں ان کا ظہور اس طرح ہوا کہ چہار شنبہ کو ان کے چہرے زرد ہوگئے پھر پنجشنبہ کو سرخ ہوگئے پھر بروز جمعہ سیاہ ہوگئے ہفتہ کے روز سخت زلزلہ اور شدید چنگھاڑ کے ذریعہ ہلاک کردیئے گئے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿كَذَّبَتْ ثَمُودُ﴾ ” قوم ثمود نے جھٹلا دیا۔“ علاقہ حجر کے شہروں میں آباد معروف قبیلہ ہے ﴿الْمُرْسَلِينَ﴾ ” پیغمبروں کو۔“ انہوں نے صالح علیہ السلام کی تکذیب کی جو توحید لے کر ان کے پاس آئے جو تمام انبیاء و مرسلین کی دعوت تھی، اس لئے حضرت صالح علیہ السلام کی تکذیب گویا تمام رسولوں کی تکذیب ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
qoam-e-samood ney payghumberon ko jhutlaya ,
12 Tafsir Ibn Kathir
صالح (علیہ السلام) اور قوم ثمود
اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول حضرت صالح (علیہ السلام) کا واقعہ بیان ہو رہا کہ آپ اپنی قوم ثمود کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے یہ لوگ عرب حجر نامی شہر میں رہتے تھے جو وادی القری اور ملک شام کے درمیان ہے۔ یہ عادیوں کے بعد اور ابراہمیوں سے پہلے تھے شام کی طرف جاتے ہوئے آپ کا اس جگہ سے گزرنے کا بیان سورة اعراف کی تفسیر میں پہلے گزرچکا ہے۔ انہیں ان کے نبی نے اللہ کی طرف بلایا کہ یہ اللہ کی توحید کو مانیں اور حضرت صالح (علیہ السلام) کی رسالت کا اقرار کریں لیکن انہوں نے بھی انکار کردیا اور اپنے کفر پر جمے رہے اللہ کے پیغمبر کو جھوٹا کہا۔ باوجود اللہ سے ڈرتے رہنے کی نصیحت سننے کی پرہیزگاری اختیار نہ کی۔ باوجود رسول امین کی موجودگی کے راہ ہدایت اختیار نہ کی۔ حالانکہ نبی کا صاف اعلان تھا کہ میں اپنا کوئی بوجھ تم پر ڈال نہیں رہا میں تو رسالت کی تبلیغ کے اجرا کا صرف اللہ تعالیٰ سے خواہاں ہوں۔ اس کے بعد اللہ کی نعمتیں انہیں یاد دلائیں۔