القصص آية ۱
طٰسٓمّٓ
طاہر القادری:
طا، سین، میم (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)،
English Sahih:
Ta, Seen, Meem.
1 Abul A'ala Maududi
ط س م
2 Ahmed Raza Khan
طٰسم
3 Ahmed Ali
طسمۤ
4 Ahsanul Bayan
طسم
5 Fateh Muhammad Jalandhry
طٰسٓمٓ
6 Muhammad Junagarhi
طٰسم
7 Muhammad Hussain Najafi
طا۔ سین۔ میم۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
طۤسۤم
9 Tafsir Jalalayn
طسم
آیت نمبر 1 تا 13
ترجمہ : طٓسمٓ اس سے اللہ کی کیا مراد ہے وہی بہتر جانتا ہے یہ آیات مبین کی آیات ہیں آیات الکتاب میں اضافت بمعنی من اور مبین سے حق کو باطل سے ممتاز کرنے والی کتاب کی آیات ہیں ہم آپ کے سامنے موسیٰ و فرعون کا صحیح واقعہ بیان کرتے ہیں ان لوگوں کیلئے جو ایمان رکھتے ہیں (یعنی) مومنین کے لئے اس لئے کہ وہی اس قصہ سے استفادہ کرتے ہیں یقیناً فرعون نے سرزمین مصر میں سرکشی کر رکھی تھی اور مصر کے باشندوں کو اپنی خدمت کے لئے فرقوں میں تقسیم کر رکھا تھا ان میں سے ایک فرقہ کو کمزور کر رکھا تھا اور وہ بنی اسرائیل تھے ان کے نومود لڑکوں کو قتل کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا یعنی زندہ باقی رکھتا تھا، بعض کاہنوں کے اس سے یہ کہنے کی وجہ سے بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو تیرے ملک کے خاتمہ کا سبب بنے گا، بلاشبہ وہ قتل وغیرہ کی وجہ سے تھا ہی مفسدوں میں سے اور ہماری مشیئت کا تقاضہ یہ ہوا کہ ہم ان پر احسان فرمائیں جن کو ملک میں کمزور کر رکھا تھا اور ہم ان کے پیشوا بنائیں دونوں ہمزوں کی تحقیق اور ہمزۂ ثانی کا یا سے بدل کر، تاکہ خیر میں ان کی اقتداء کی جائے اور ہم ان کو فرعون کے ملک کا وارث بنائیں اور یہ کہ ہم ان کو ملک مصر و شام میں قدرت (اختیار) عطا فرمائیں اور فرعون و ہامان اور ان کے لشکر کو اور ایک قرأت میں یَریٰ یا را کے فتحہ کے ساتھ ہے اور تینوں اسموں (فرعون، ہامان، جنودُ ہما) کے رفع کے ساتھ بنی اسرائیل کی طرف سے وہ دکھائیں جس سے وہ ڈر رہے تھے وہ (فرعونی) اس بچہ سے خوف زدہ تھے جس کے ہاتھوں ان کے ملک کی بربادی مقدر تھی اور ہم نے موسیٰ کی والدہ کی جانب الہامی یا منامی وحی بھیجی اور (موسیٰ ) ہی وہ ولد مذکور ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کا علم سوائے ان کی بہن کے کسی کو نہیں ہوا کہ اس کو دودھ پلاتی رہ اور جب تجھے اس کے بارے میں کوئی خوف معلوم ہو تو اس کو دریائے نیل میں ڈال دینا اور نہ اس کے غرق کا اندیشہ کرنا اور نہ اس کی جدائی کا غم کرنا ہم یقیناً اس کو تیری طرف لوٹانے والے ہیں اور اسے اپنے رسولوں میں سے بنانے والے ہیں چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) کو تین ماہ تک (ان کی والدہ) دودھ پلاتی رہی کہ موسیٰ (علیہ السلام) روتے (بھی) نہیں تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) پر (جب) ذبح کا اندیشہ کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک اندر سے روغن زقت (تارکول) لگے ہوئے اور بچھونی بچھے ہوئے تابوت میں رکھ دیا اور اس کو بند کردیا اور رات کے وقت دریائے نیل میں ڈال دیا تو اسی رات کی صبح تابوت کو آل فرعون یعنی اس کے خدام نے اٹھا لیا بعد ازاں تابوت کو فرعون کے سامنے رکھ کر کھولا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو تابوت سے نکالا درآنحالیکہ وہ اپنے انگوٹھے سے دودھ پی رہے تھے تاکہ انجام کار یہی بچہ ان کا دشمن ہوجائے کہ قبطیوں کے مردوں کو قتل کرے اور رنج کا باعث بنے ان کی عورتوں کو باندی بنائے اور ایک قرأت میں حَزْنًا میں حا کے ضمہ اور زاء کے سکون کے ساتھ ہے مصدر (حزنًا) میں یہ دو لغت ہیں، اور مصدر یہاں اسم فاعل کے معنی میں ہے اور حَزَنًا حَزِنَہ (س) سے ہے اور معنی میں اَحْزَنَہٗ کے ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ فرعون اور اس کا وزیر ہامان اور ان دونوں کا لشکر خطا کار تھے (خٰطِئِیْنَ ) خطِیْۃ سے مشتق ہے اور معنی نافرمانی کرنے والے کے ہیں چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کا ارادہ کرلیا تھا یہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اس کو قتل نہ کرو ممکن ہے کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اسے اپنا بیٹا ہی بنالیں چناچہ ان لوگوں نے اس کی بات مان لی اور یہ لوگ اس کے ساتھ اپنے انجام کا شعور ہی نہیں رکھتے تھے (ادھر) موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کا دل بےقرار ہوگیا اس کو معلوم ہوا کہ موسیٰ کو فرعون نے اٹھا لیا، یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کے سواء اس کے دل میں کوئی بات نہ رہی، اِنْ یہ اِنّ سے مخفف ہے اس کا اسم محذوف ہے ای اِنَّھَا قریب تھیں کہ وہ اس بات کو ظاہر کردیں کہ وہ میرا بیٹا ہے اگر ہم اس کے دل کو صبر کے ذریعہ قوی نہ کرتے یعنی اگر ہم اس کے دل کو تسلی نہ دیتے، تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں رہے یعنی اللہ کے وعدہ کی تصدیق کرنے والوں میں رہے، اور لولا کے جواب پر لولا کا ماقبل (لَتُبْدِیْ ) دلالت کر رہا ہے، اور موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے موسیٰ کی بہن مریم سے کہا تو ذرا موسیٰ کا سراغ تو لگا یعنی اس کے پیچھے پیچھے جاتا کہ تو اس کے حال سے باخبر رہے تو وہ اسے دور سے دیکھتی رہی یعنی دور سے خفیہ طور پر دیکھتی رہی اور فرعونیوں کو اس بات کی خبر بھی نہ ہوئی کہ وہ اس کی بہن ہے اور اس کی نگرانی کر رہی ہے اور ہم نے پہلے ہی یعنی ان کے اپنی والدہ کے پاس لوٹنے سے پہلے ہی دودھ ہلانے والوں کی بندش کر رکھی تھی یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی والدہ کے علاوہ کسی بھی اَنأ کے پستان قبول کرنے سے منع کردیا تھا چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے بلائی گئی انّاؤں میں سے کسی کی پستان کو قبول نہیں کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن نے جب موسیٰ پر ان کی شفقت کو دیکھا تو کہا کیا میں تم کو ایسے گھرانے کی نشاندہی کردوں کہ جو تمہارے لئے اس بچہ کی دودھ وغیرہ پلا کر پرورش کر دے ؟ اور وہ اس کے خیرخواہ بھی ہو اور مریم نے لہٗ کا ضمیر کا مرجع ان کے سوال کے جواب میں بادشاہ بنادیا، چناچہ مریم کا مشورہ مان لیا گیا، پھر تو وہ اپنی ماں کو بلا لائی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی والدی کی پستاوں کو قبول کرلیا، اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدی نے موسیٰ کے اس کی پستانوں کو قبول کرنے کی وجہ سے سوال کے جواب میں کہا کہ وہ عمدہ خوشبو والی اور عمدہ دودھ والی عورت ہے چناچہ ان کو اپنے گھر لیجا کر موسیٰ کو دودھ پلانے کی اجازت دیدی گئی، چناچہ موسیٰ کی والدہ موسیٰ (علیہ السلام) کو لیکر واپس چلی آئیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے موسیٰ کو اس کی والدہ کے پاس لوٹا دیا تاکہ اس کی آنکھیں موسیٰ کی ملاقات سے ٹھنڈی ہوں اور تاکہ اس وقت (فراق) کے غم میں نہ رہیں اور تاکہ جان لیں کہ بچہ کو ان کے پاس لوٹانے کا اللہ کا وعدہ سچ ہے لیکن اکثر لوگ اس وعدہ کے بارے میں نہیں جانتے اور نہ یہ بات جانتے ہیں کہ یہ اس کی بہن ہے اور یہ اس کی ماں ہے، موسیٰ (علیہ السلام) اپنی والدی کے پاس دودھ چھڑانے تک رہے اور (فرعون نے) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے لئے دودھ پلائی کی اجرت ایک دینار یومیہ مقرر کردی اور حضرت موسیٰ کی والدہ نے اس اجرت کو لے لیا اس لئے کہ حربی کا مال تھا پھر موسیٰ کو ان کی والدہ فرعون کے پاس لے آئیں، چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے پاس تربیت پاتے رہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حکایت بیان کرتے ہوئے سورة شعراء میں ارشاد فرمایا اَلَمْ نُرَبِّکَ فینَا ولِیْدًا ولَبِثْتَ فینَا من عمرک سنین۔
ترکیب، تحقیق و تفسیری فوائد
نَتْلُوْا عَلَیْکَ ای بواسطۃِ جبرائِیْلَ مِنْ نَبَاٍ خبر موسیٰ وفرعونَ بالحقِّ مِنْ تبعیضیہ ہے ای نتلوا علیک بعض نَبَأَ موسیٰ نتلوا کا مفعول محذوف بھی ہوسکتا ہے، تقدیر عبارت یہ ہوگی، نتلوا علیک شیئاً من نَبَأ موسٰی بقول اخفش مِنْ زائدہ بھی ہوسکتا ہے ای نَتْلُوْا عَلَیْکَ نَبَأ موسیٰ ۔ قولہ : بالحقِّ یہ نتلوا کی ضمیر فاعل سے حال ہے ای حال کوننا ملتَبِسِیْنَ بالصدقِ یا نَتْلُوْا کے مفعول سے حال ہے ای کون الخبر ملتبسًا بالصدق۔ قولہ : لاجلھم یہ اشارہ ہے کہ لقوم میں لام تعلیہ ہے اور نتلوا سے متعلق ہے یعنی مقصود بالذکر مومنین ہیں اس لئے کہ وہی اس سے منتفع ہوتے ہیں۔ قولہ : اِنّ فرعون علا یہ جملہ مستانفہ ہے، گویا کہ یہ سوال کیا گیا کہ موسیٰ و فرعون کا کیا قصہ تھا، تو جواب دیا اِنّ فرعونَ علیٰ ۔
قولہ : یذبّحُ ابناءھم یہ یُسْتضعفُ سے بدل ہے لقول بعضِ الکَھَنَۃِ یہ یذبح کی علت ہے۔ قولہ : نُمَکِّنَ لھُمْ فی الاَرْضِ ای نُسَلِّطُھُمْ علی مصر والشام۔ قولہ : نُرِیَ فرعون اور اس کے معطوفات نُرِیَ کا مفعول اول ہے ومَا کانُوْا یحذَرُوْنَ مفعول ثانی، جنودھما میں اضافت تغلیباً ہے یعنی لشکراگرچہ فرعون کا تھا اور ہامان اس کا وزیر تھا اور بادشاہ کے لشکر کو تغلیباً ہامان کا کہہ دیا گیا ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہامان کا بھی کوئی مخصوص لشکر ہو اور ایک قرأت میں یَرَیٰ ہے اس صورت میں تینوں اسماء فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہوں گے۔ قولہ : الیٰ ام موسیٰ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ محترمہ کے نام میں اختلاف ہے بعض حضرات یُوْحانِذْ بتاتے ہیں اور قرطبی نے ثعلبی سے نقل کیا ہے کہ ان کا نام لوخابنت ہانذ بن لاوی بن یعقوب ہے اس کے علاوہ اور اقوال بھی مذکور ہیں۔
قولہ : اَنْ اَرْضِعِیْہِ اَنْ تفسیریہ اور مصدریہ دونوں ہوسکتے ہیں۔ قولہ : ولاَ تخافِی غرقہٗ اوپر کہا گیا تھا فاِذَا خفت علیہ اور یہاں کہا جا رہا ہے لاتخافی دونوں میں تعارض معلوم ہوتا ہے، یہ تعارض لاتَخَافِیْ کی تفسیر غَرْقہ سے کرنے کی وجہ سے دفع ہوگیا فاذا خفت میں ذبح کا خوف مراد ہے اور لاَ تَخَافِیْ میں غرق کے خوف کی نفی ہے لہٰذا کوئی تعارض نہیں ہے القار سیاہ سیال مادہ جو کشتی وغیرہ میں لگایا جاتا ہے تاکہ پانی اثر نہ کرے جیسے تارکول وغیرہ۔
قولہ : مُمَھَّدٍ یہ تابوت کی صفت ثانیہ ہے صفت اولیٰ مطلیّٰ ہے، یعنی تابوتِ خشبی میں تارکول مل دیا تاکہ پانی اثر نہ کرے اور اس میں دھنی ہوئی روئی بچھا دی تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو تکلیف نہ ہو مُمَھَّدْ بچھایا ہوا۔ قولہ : فی عاقبۃ الامر اس سے اشارہ کردیا کہ لیکونَ میں لام عاقبت کے لئے ہے نہ کہ علت کے لئے اس لئے کہ اٹھاتے وقت تو مقصد ابن بنانا تھا جو ان ہونے کے بعد فرعون اور فرعونیوں کے لئے سبب رنج و غم ہوئے۔ قولہ : اِنّ فرعونَ وھامان الخ یہ معطوف علیہ فلتقطہٗ آلُ فرعون اور معطوف وقالت امرأۃ فرعون کے درمیان جملہ معترضہ ہے (جمل) ۔ قالت امرأۃ فرعون فرعون کی بیوی کا نام آسیہ بنت مزاحم بن عبید بن الریان بن الولید۔ قولہ : ھو قرۃ عین لی ولک ھو مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ قرۃ عینٍ مبتداء محذوف کی خبر ہے۔
قولہ : لَوْلاَ اَنْ رَّبَطْنَا الخ لولا کا جواب محذوف ہے جس پر لولا کا ماقبل یعنی لَتُبْدِیْنَ دلالت کر رہا ہے، تقدیر عبارت یہ ہے لو لا اَنْ رَّبَطْنَا علیٰ قَلْبِھَا لَاَبَدَتْ اَنہ اِبْنُھا۔ قولہ : وَھُمْ لا یشعرونَ یہ جملہ آل فرعون سے حال ہے۔ قولہ : لاختہ مریم مریم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی حقیقی بہن ہیں بعض حضرات نے مریم کے بجائے کلثمہ اور کلثوم بھی ذکر کیا ہے، والدہ کا نام یوحانذ اور والد کا نام عمران ہے مگر یہ عمران حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ مریم کے والد عمران کے علاوہ ہیں اس لئے کہ دونوں عمرانوں کے درمیان ایک ہزار آٹھ سو سال کا فاصلہ ہے (جمل)
قولہ : من کانٍ بعیدٍ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جُنُبٌ موصوف محذوف کی صفت ہے ای عن مکان بعیدٍ اختلاسًا ای اختفاءً ۔ حَرَّمْنَا علیہِ المَرَاضِعَ حَرَّمْنَا ای مَنَعْنَا تحریم سے مجازاً منع کرنا مراد ہے اس لئے یہاں تحریم کے شرعی معنی مراد لینا صحیح نہیں ہیں کیونکہ بچہ تکالیف شرعیہ کا مکلّف نہیں ہوتا، مَرَاضِع مُرْضِعٌ کی جمع ہے چونکہ دودھ پلانا عورتوں کے ساتھ مخصوص ہے اسی لئے ۃ کو ترک کردیا گیا ہے جیسے حائض میں۔ (روح المعانی)
تفسیر و تشریح
سورة قصص اس کو سورة موسیٰ بھی کہا جاتا ہے، یہ مکی سورتوں میں سب سے آخری سورت ہے جو ہجرت کے وقت مکہ مکرمہ اور حجفہ (رابغ) کے درمیان نازل ہوئی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غار ثور سے نکلنے کے بعد کفار مکہ کے خوف کی وجہ سے معروف راستہ ترک کرکے غیر معروف راستہ اختیار فرمایا تھا جب غیر معروف راستہ حجفہ (رابغ) کے قریب مکہ جانے والے معروف راستہ میں جا کر ملا تو آپ کو اپنا وطن مالوف مکہ یاد آگیا، اس وقت حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور آپ سے فرمایا کہ اے محمد کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا وطن جن میں آپ پیدا ہوئے یاد آرہا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں یاد آرہا ہے، اس پر جبرائیل امین نے قرآن کی یہ سورت سنائی جس کے آخر میں آپ کو اس بات کی بشارت ہے کہ انجام کار مکہ مکرمہ فتح ہو کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قبضہ میں آئے گا وہ آیت یہ ہے اِنّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ القُرْآنَ لَرَادُّکَ اِلیٰ مَعَادٍ سورة قصص میں سب سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بیان ہوا ہے اول اجمالاً اور پھر تفصیلاً نصف سورت تک موسیٰ (علیہ السلام) و فرعون کا قصہ بیان ہوا ہے اور آخر سورت میں موسیٰ (علیہ السلام) اور قارون کا قصہ بیان ہوا ہے اس سورت کے بارے میں حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ سورت نہ مکی ہے اور نہ مدنی بلکہ مقام حجفہ میں نازل ہوئی جو مکہ اور مدینہ کے درمیان میں ہے۔
قرآن کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ کو صحیح صحیح اس کی جزئیات کے ساتھ بیان کرنا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں کیونکہ وحی الٰہی کے بغیر ہزاروں سال قبل کے واقعات کو بالکل اسی طرح بیان کردینا جس طرح پیش آئے تھے ناممکن ہے، فرعون نے ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا اور خود بڑا معبود کہلاتا تھا بنی اسرائیل کو نہایت ذلت و مشقت میں مبتلا کر رکھا تھا جتنے بھی مشقت اور ذلت کے کام تھے وہ بنی اسرائیل سے لئے جاتے تھے حتی کہ بنی اسرائیل کے نو مولود لڑکوں کو قتل کرا دیتا تھا اور خدمت گزاری کے لئے لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا جس کی وجہ بعض نجومیوں کی یہ پیشین گوئی تھی کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے ایک بچہ کے ہاتھوں فرعون کی ہلاکت اور اس کی سلطنت کا خاتمہ ہوگا، جس کا حل فرعون نے یہ نکالا کہ پیدا ہونے والے ہر اسرائیلی بچے کو قتل کردیا جائے، حالانکہ اس احمق نے یہ نہیں سوچا کہ اگر کاہن سچا ہے تو ایسا یقیناً ہو کر رہے گا اور اگر وہ جھوٹا ہے تو قتل کروانے کی ضرورت ہی نہیں (فتح القدیر)
ونکمن لھم فی الارض سے ارض شام مراد ہے جہاں بنی اسرائیل کنعانیوں کی زمین کے وارث ہوئے کیونکہ بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے کے بعد مصر آنا ثابت نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)
واوحینا الی ام موسیٰ یہاں وحی سے مراد دل میں بات ڈالنا ہے نہ کہ وحی رسالت، مطلب یہ ہے کہ تو بےخوف خطر بچہ کو دریائے نیل میں ڈال دے اور اس کے ڈوبنے یا ضائع ہوجانے کا خوف نہ کر اور نہ اس کی جدائی کا غم، ہم یقیناً اسے تیری طرف لوٹا دیں گے اور ہم اسے پیغمبر بنانے والے ہیں جب ذبح و قتل کا سلسلہ زیادہ ہوا تو فرعون کی قوم کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں بنی اسرائیل کی نسل ہی ختم نہ ہوجائے جس کے نتیجے میں محنت و مشقت کے کام ہمیں خود کرنے پڑیں، اس اندیشہ کا ذکر انہوں نے فرعون سے کیا، جس پر نیا حکم جاری کردیا گیا کہ ایک سال بچے قتل کئے جائیں اور ایک سال چھوڑ دئیے جائیں، حضرت ہارون (علیہ السلام) اس سال پیدا ہوئے جو بچوں کے قتل کا سال نہیں تھا، اور موسیٰ (علیہ السلام) قتل کے سال پیدا ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کا سامان اس طرح پیدا فرمایا کہ اول تو ان کی والدہ پر حمل کے آثار ظاہر نہیں ہوئے کہ جس سے وہ فرعون کی چھوڑی ہوئی دائیوں کی نظر میں آجائیں اس لئے ولادت کا مرحلہ تو خاموشی کے ساتھ گزر گیا، لیکن ولادت کے بعد قتل کا خطرہ موجود تھا، جس کا حل خود اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو سمجھا دیا چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے ان کو ایک تابوت میں بند کرکے دریائے نیل میں ڈال دیا (ابن کثیر) یہ تابوت بہتا ہوا فرعون کے محل کے پاس پہنچ گیا جو لب دریا ہی تھا اور فرعون کے نوکر چاکروں نے نکال لیا۔
لیکون لھم عدوا وحزنا میں لام عاقبت کے لئے ہے یعنی انہوں نے تو اسے اپنا بچہ اور آنکھوں کی ٹھنڈک بنا کرلیا تھا نہ کہ دشمن سمجھ کر، لیکن انجام ان کے فعل کا یہ ہوا کہ وہ بچہ ان کا دشمن اور رنج و غم کا باعث ثابت ہوا، اِن فرعون وھامان وجنودھما کانوا خٰطِئینَ یہ جملہ ماقبل کی تعلیل ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) ان کے لئے دشمن کیوں ثابت ہوئے اس لئے کہ وہ سب اللہ کے نافرمان اور خطاکار تھے۔
قالت امرأت فرعون الخ یہ اس وقت کہا جب تابوت میں ایک حسین و جمیل بچہ انہوں نے دیکھا بعض کے نزدیک یہ اس وقت کا قول ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کی ڈاڑھی کے بال نوچ لئے تھے تو فرعون نے اس کے قتل کا حکم دیدیا تھا (ایسر التفاسیر) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ہمشیرہ نے جو کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی نگرانی پر مامور تھیں اور پیچھے پیچھے احتیاط کے ساتھ دور دور چل رہی تھیں جب دیکھا کہ تابوت محل کی طرف مڑ گیا اور فرعون کے خدام نے نکال لیا تو صورت حالی کی خبر کہ یہ اس کا بچہ ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر ہم ان کے دل کو مضبوط نہ کرتے تو راز کا افشا کر دیتیں، مگر ہماری توفیق سے موسیٰ کی والدہ نے صبر سے کام لیا اور اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ بھی یاد آگیا جس میں موسیٰ کو صحیح سلامت واپس لوٹانے کے لئے فرمایا تھا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنی قدرت تکوینی کے حکم سے موسیٰ کو اپنی ماں کے علاوہ کسی اور انّا کا دودھ پینے سے روکدیا، چناچہ بسیار کوشش کے باوجود کوئی انا انہیں دودھ پلانے اور چپ کرانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔
یہ منظر موسیٰ کی بہن مریم بڑی خاموشی سے دیکھ رہی تھیں بالآخر بول پڑیں کہ میں تمہیں ایسا گھرانا بتادوں کہ جو تمہارے لئے اس بچہ کی پرورش کر دے، چناچہ فرعونیوں نے حضرت موسیٰ کی ہمشیرہ مریم سے کہا کہ جا اس عورت کو لے چناچہ مریم اپنی ماں کو جو موسیٰ (علیہ السلام) کی بھی ماں تھیں بلا لائی، جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی والدہ کا دودھ پی لیا تو فرعون نے موسیٰ کی والدہ سے محل ہی میں رہنے کی استدعا کی تاکہ بچہ کی صحیح پرورش اور تربیت ہوسکے، لیکن موسیٰ کی والدہ نے بےاعتنائی اور خود داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں خاوند اور بچوں کو چھوڑ کر یہاں نہیں رہ سکتی بالآخریہ طے پایا کہ بچے کہ وہ اپنے ساتھ لیجائیں، اور وہیں اس کی پرورش کریں اور اسکی اجرت انہیں شاہی خزانے سے دیدی جائے، سبحان اللہ اللہ کی قدرت دودھ اپنے بچہ کو پلائیں اور اجرت فرعون سے وصول کریں، رب العالمین نے موسیٰ کو واپس لوٹانے کا وعدہ کس احسن طریقہ سے پورا فرمایا۔
10 Tafsir as-Saadi
طسم
11 Mufti Taqi Usmani
Tua-Seen-Meem .
12 Tafsir Ibn Kathir
حروف مقطعہ کا بیان پہلے ہوچکا ہے۔
یہ آیتیں ہیں واضح جلی روشن صاف اور کھلے قرآن کی تمام کاموں کی اصلیت اب گذشتہ اور آئندہ کی خبریں اس میں ہیں اور سب سچی اور کھلی۔ ہم تیرے سامنے موسیٰ اور فرعون کا سچا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے ہم تیرے سامنے بہترین واقعہ بیان کرتے ہیں۔ اس طرح کہ گویا تو اس کے ہونے کے وقت وہیں موجود تھا۔ فرعون ایک متکبر سرکش اور بددماغ انسان تھا۔ اس نے لوگوں پر بری طرح قبضہ جمارکھا تھا اور انہیں آپس میں لڑوا لڑوا کر ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈلوا کر انہیں کمزور کرکے خود ان پر جبر وتعدی کے ساتھ سلطنت کر رہا تھا۔ خصوصا بنی اسرائیل کو تو اس ظالم نے نیست ونابود کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اور دن رات یہ بےچارے بیکار میں گھیسٹے جاتے تھے۔ اس پر بھی اس کا غصہ ٹھنڈانہ ہوتا تھا یہ ان کی نرینہ اولاد کو قتل کروا ڈالتا تھا۔ تاکہ یہ افرادی قوت سے محروم رہیں قوت والے نہ ہوجائیں اور اس لئے بھی کہ یہ ذلیل وخوار رہیں اور اس لئے بھی کہ اسے ڈر تھا کہ ان میں سے ایک بچے کے ہاتھوں میری سلطنت تباہ ہونے والی ہے۔ بات یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) مصر کی حکومت میں سے مع اپنی بیوی صاحبہ حضرت سارہ کے جا رہے تھے اور یہاں کے سرکش بادشاہ نے حضرت سارہ کو لونڈی بنانے کے لئے آپ سے چھین لیا جنہیں اللہ نے اس کافر سے محفوظ رکھا اور اسے آپ پر دست درازی کرنے کی قدرت ہی حاصل نہ ہوئی تو اس وقت حضرت ابراہیم نے بطور پیش گوئی فرمایا تھا کہ تیری اولاد میں سے ایک کی اولاد کے لڑکے کے ہاتھوں ملک مصر اس قوم سے جاتا رہے گا اور انکا بادشاہ اس کے سامنے ذلت کے ساتھ ہلاک ہوگا۔ چونکہ یہ روایت چلی آرہی تھی اور ان کے درس میں ذکر ہوتا رہتا تھا جسے قبطی بھی سنتے تھے جو فرعون کی قوم تھی، انہوں نے دربار میں مخبری کی جب سے فرعون نے یہ ظالمانہ اور سفاکانہ قانوں بنادیا کہ بنو اسرائیل کے بچے قتل کردئے جائیں اور ان کی بچیاں چھوڑ دی جائیں۔ لیکن رب کو جو منظور ہوتا ہے وہ اپنے وقت پر ہو کر ہی رہتا ہے حضرت موسیٰ زند رہ گئے اور اللہ نے آپ کے ہاتھوں اس عاری سرکش کو ذلیل وخوار کیا، فالحمدللہ چناچہ فرمان ہے کہ ہم نے ان ضعیفوں اور کمزوروں پر رحم کرنا چاہا۔ ظاہر ہے کہ اللہ کی چاہت کا پورا ہونا یقینی ہے۔ جیسے فرمایا آیت ( وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ كَانُوْا يُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا ۭ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ڏ بِمَا صَبَرُوْا ۭوَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهٗ وَمَا كَانُوْا يَعْرِشُوْنَ\013\07 ) 7 ۔ الاعراف :137) آپ نے اس گری پڑی قوم کو ان کی تمام چیزوں کا مالک بنادیا۔ فرعون نے اپنی تمام ترطاقت کا مظاہرہ کیا لیکن اسے اللہ کی طاقت کا اندازہ ہی نہ تھا۔ آخر اللہ کا ارادہ غالب رہا اور جس ایک بچے کی خاطر ہزاروں بےگناہ بچوں کا خون ناحق بہایا تھا۔ اس بچے کو قدرت نے اسی کی گود میں پلوایا، پروان چڑھایا، اور اسی کے ہاتھوں اسکا اسکے لشکر کا اور اسکے ملک ومال کا خاتمہ کرایا تاکہ وہ جان لے اور مان لے کہ وہ اللہ کا ذلیل مسکین بےدست وپا غلام تھا اور رب کی چاہت پر کسی کی چاہت غالب نہیں آسکتی۔ حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو اللہ نے مصر کی سلطنت دی اور فرعوں جس سے خائف تھا وہ سامنے آگیا اور تباہ و برباد ہوا۔ فالحمد للہ