القصص آية ۲۲
وَلَـمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاۤءَ مَدْيَنَ قَالَ عَسٰى رَبِّىْۤ اَنْ يَّهْدِيَنِىْ سَوَاۤءَ السَّبِيْلِ
طاہر القادری:
اور جب وہ مَديَن کی طرف رخ کر کے چلے (تو) کہنے لگے: امید ہے میرا رب مجھے (منزلِ مقصود تک پہنچانے کے لئے) سیدھی راہ دکھا دے گا،
English Sahih:
And when he directed himself toward Madyan, he said, "Perhaps my Lord will guide me to the sound way."
1 Abul A'ala Maududi
(مصر سے نکل کر) جب موسیٰؑ نے مَدیَن کا رُخ کیا تو اُس نے کہا "اُمید ہے کہ میرا رب مجھے ٹھیک راستے پر ڈال دے گا"
2 Ahmed Raza Khan
اور جب مدین کی طرف متوجہ ہوا کہا قریب ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راہ بتائے
3 Ahmed Ali
اور جب مدین کی طرف رخ کیا تو کہا امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھا راستہ بتا دے گا
4 Ahsanul Bayan
اور جب مدین کی طرف متوجہ ہوئے تو کہنے لگے مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راہ لے چلے گا (١)
٢٢۔١ چنانچہ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور ایسے سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی فرمائی جس سے ان کی دنیا بھی سنور گئی اور آخرت بھی یعنی وہ ہادی بھی بن گئے اور مہدی بھی، خود بھی ہدایت یافتہ اور دوسروں کو بھی ہدایت کا راستہ بتلانے والے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب مدین کی طرف رخ کیا تو کہنے لگے اُمید ہے کہ میرا پروردگار مجھے سیدھا رستہ بتائے
6 Muhammad Junagarhi
اور جب مدین کی طرف متوجہ ہوئے تو کہنے لگے مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راه لے چلے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جب موسیٰ نے (مصر سے نکل کر) مدین کا رخ کیا تو کہا امید ہے کہ میرا پروردگار سیدھے راستہ کی طرف میری راہنمائی کرے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب موسٰی نے مدین کا رخ کیا تو کہا کہ عنقریب پروردگار مجھے سیدھے راستہ کی ہدایت کردے گا
9 Tafsir Jalalayn
اور جب مدین کی طرف رخ کیا تو کہنے لگے امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے سیدھا راستہ بتائے
آیت نمبر 22 تا 28
ترجمہ : اور جب مدین کی طرف متوجہ ہوئے یعنی مدین کی طرف رخ کیا، مدین شعیب (علیہ السلام) کی بستی تھی جو مصر سے آٹھ دن کی مسافت پر واقع تھی، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صاحبزادے مدین بن ابراہیم (علیہ السلام) کے نام سے یہ بستی موسوم تھی، اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین کے راستہ سے واقف نہیں تھے تو کہنے لگے مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھے راستے کی رہنمائی فرمائے گا، یعنی سیدھے راستہ یعنی مدین کے متوسط راستہ کی رہنمائی کرے گا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس ایک فرشتہ کو بھج دیا جس کے ہاتھ میں نیزہ تھا، تو وہ فرشتہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مدین کی طرف لے چلا، چناچہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین کے پانی یعنی اس کے کنوئیں پر پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں کی ایک بڑی جماعت اپنے مویشیوں کو پانی پلا رہی ہے اور ان لوگوں سے الگ دو عورتوں کو دیکھا جو اپنی بکریوں کو پانی سے روکے ہوئے ہیں، موسیٰ (علیہ السلام) نے ان دونوں سے معلوم کیا تمہارا کیا معاملہ ہے ؟ تم پانی کیوں نہیں پلا رہیں ؟ وہ بولیں جب تک چروا ہے واپس نہ چلے جائیں ہم پانی نہیں پلاتیں، الرّیاع راع کی جمع ہے یعنی جب تک یہ چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلا کر واپس نہ چلے جائیں ہم خوف ازدہام کی وجہ سے پانی نہیں پلاتیں (اور جب بھیڑ ختم ہوجائے گی، اور ایک قرأۃ میں یُصْدِرُ ریاعی (افعال) سے ہے ای یُصْرِفوا مواشیَّھم عن الماء (یعنی جب تک اپنے جانوروں کو نہ لوٹالیں) اور ہمارے والد صاحب بڑی عمر کے بوڑھے ہیں یعنی وہ پانی پلانے پر قادر نہیں ہیں خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ نے ان کی بکریوں کو دوسرے کنوئیں سے جو کہ اس کنوئیں کے قریب ہی تھا پانی پلا دیا، ایک بھاری پتھر اس کنوئیں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے (تنہا) اٹھا دیا کہ جس کو دس افراد (بمشکل) اٹھا سکتے تھے پھر دھوپ کی سخت گرمی کی وجہ سے ببول کے ایک درخت کے سایہ کی طرف لوٹ آئے حال یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) بھوکے بھی تھے پھر دعاء کی اے میرے پروردگار (اس وقت) جو نعمت بھی مجھ پر بھیج دیں کھانا (وغیرہ) میں اس کا حاجت مند ہوں، چناچہ وہ دونوں لڑکیاں (روازنہ) جتنے وقت میں لوٹا کرتی تھیں اس سے کم وقت میں اپنے ابا جان کے پاس لوٹ آئیں، تو ان کے والد نے ان سے جلدی چلے آنے کی وجہ دریافت کہ تو انہوں نے اس شخص کے بارے میں خبر دی جس نے ان کی بکریوں کو پانی پلایا تھا، تو ان کے والد نے ان میں سے ایک سے کہا اس کو میرے پاس بلا لاؤ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اتنے میں ان دونوں میں سے موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس ایک لڑکی آئی کہ شرماتی ہوئی چلتی تھی یعنی حضرت موسیٰ سے حیاء کی وجہ سے اپنے کرتے کی آستین کو اپنے چہرے پر رکھے ہوئے کہنے لگی میرے ابا جان آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے جو ہمارے (جانوروں) کو پانی پلایا ہے اس کا صلہ دیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس لڑکی کی دعوت کو قبول کرلیا، اپنے دل میں اجرت لینے کو ناپسند کرتے ہوئے اور گویا کہ لڑکی کا مقصد بدلہ دینا تھا اگر موسیٰ (علیہ السلام) اجرت لینا چاہیں پھر وہ لڑکی موسیٰ (علیہ السلام) کے آگے آگے چلی اور ہوا اس کے کپڑے کو اڑانے لگی جس کی وجہ سے اس کی پنڈلی کو ظاہر کرنے لگی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تم میرے پیچھے چلو اور مجھے راستہ بتاتی رہو، چناچہ لڑکی نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ اپنے اباجان شعیب (علیہ السلام) کے پا سپہنچ گئی، ان کے پاس شام کا کھانا تیار تھا، حضرت شعیب نے فرمایا تشریف رکھئے اور کھانا تنباول فرمائیے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ایس انہ ہو کہ یہ (کھانا) ان کے (جانوروں) کو میرے پانی پلانے کا عوض ہو، اور میرا تعلق ایسے گھرانے سے ہے کہ ہم کار خیر پر کوئی اجرت نہیں لیتے، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا ایسی بات نہیں ہے بلکہ میری اور میرے آبا و اجداد کا یہ معمول ہے کہ ہم مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور کھانا کھلاتے ہیں، چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کھانا تناول فرمایا اور اپنی (پوری) سرگزشت سنائی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا فَلَمَّا جاء ہٗ جب موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس پہنچے اور ان سے اپنا سارا حال بیان کیا (القصص) مصدر ہے مقصوص کے معنی میں ہے یعنی اپنے قبطی کو قتل کرنے اور ان کے ان کو قتل کرنے اور فرعون کے جانب سے اپنے خوف کی پوری سرگزشت سنائی تو شعیب کہنے لگے (اب) اندیشہ نہ کرو تم ظالم لوگوں سے بچ آئے اس لئے کہ مدین پر فرعون کی سلطنت نہیں ہے ان میں سے ایک نے اور وہ وہی تھی جس کو (بلانے) بھیجا تھا، بڑی یا چھوٹی کہا ابا جان ان کو ملازم رکھ لیجئے (یعنی) ان کو اجیر رکھ لیجئے ہمارے بجائے ہماری بکریوں کو چرائیں گے کیونکہ جنہیں آپ اجرت پر رکھیں گے ان میں سب سے بہتر وہ ہوگا جو قوی اور امانت دار ہوگا یعنی ان کی قوت اور امانت کی وجہ سے ان کو ملازم رکھ لیجئے، چناچہ (شعیب علیہ السلام) نے اپنی بیٹی سے ان دونوں صفات کے بارے میں معلوم کیا تو اس نے وہ سب باتیں جن کا ذکر گذرا ہے اپنے والد صاحب کو بتائیں یعنی ان کے کنوئیں کے پتھر کو (تنہا) اٹھانے اور ان کے اس سے یہ کہنے کہ میرے پیچھے پیچھے چلو اور مزید کچھ اضافہ کے ساتھ یہ کہ جب میں ان کے پاس پہنچی اور ان کو میری آمد کا علم ہوا تو اپنا سر جھکا لیا اور اٹھایا نہیں، چناچہ شعیب (علیہ السلام) ان سے نکاح کرنے کی طرف راغب ہوئے، تو شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں اپنی ان دونوں بیٹیوں میں سے ایک کا تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں اور وہ بڑی ہے یا چھوٹی اس شرط پر کہ تم آٹھ سال تک میرے یہاں ملازمت کرو یعنی تم میری بکریاں چرانے کا کام کرو اور اگر آپ دس سال پورے کردیں یعنی دس سال بکریاں چرائیں تو یہ اتمام آپ کی طرف سے ہوگا اور میں آپ کو دس سال کی شرط لگا کر کسی مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا اور آپ انشائ اللہ تبرک کے لئے ہے مجھے عہد کو وفا کرنے والا پائیں گے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا یہ بات جو آپ نے فرمائی میرے اور آپ کے درمیان مکمل ہوگئی ان دونوں میں سے یعنی آٹھ یا دس سال میں ہے جس مدت کو بھی میں پوری کروں اس پر زیادتی کا مطالبہ کرکے مجھ پر کوئی جبر نہ ہوگا اَیَّما میں ما زائدہ ہے یعنی چرانے کی مدت کو (پورا کروں) اور ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اللہ نگہبان ہے یا شاہد ہے، اس بات سے عقد (نکاح) مکمل ہوگیا اور حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی بیٹی سے کہا (ان کو) ایک عصا دیدیں جس کے ذریعہ بکریوں کی درندوں سے حفاظت کریں (اور انبیاء سابقین کے) بہت سے عصا ان کے پاس موجود تھے چناچہ لڑکی کے ہاتھ میں آدم (علیہ السلام) کا عصا آگیا جو جنت کے درکت مورو کا تھا، چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے وہ عصا شعیب (علیہ السلام) کے علم میں لا کرلے لیا۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : سَوَاءَ السَّبِیْلِ یہ اضافہ صفت الی الموصوف ہے ای الطریق الوسط سواء السَّبیلَ کی تفسیر قصد السَّبیل سے کی ہے، اور یہ بتانے کے لئے کہ یہ اضافت صفت الی الموصوف کے قبیل سے قصد الطریق کی تفسیر الطریق الوسط سے کی ہے۔ قولہ : عَنَزَۃ عنزہ عصاء سے بڑا اور نیزے سے چھوٹا ہوتا ہے اس کے نیچے والے سرے پر لوہے کی اَنی ہوتی ہے۔ قولہ : مَاءَ مدینَ کی تفسیر بئرٌ سے کرکے اشارہ کردیا کہ حال بول کر محل مراد ہے اور بئرٌ سے پہلے ھو مبتداء محذوف ہے بئر اس کی خبر ہے ای ھو بئرٌ کائن فیھا۔ قولہ : اُمَّۃٌ کی تفسیر جماعۃ کثیرۃ سے کرکے اشارہ کردیا کہ تنوین تکثیر کے لئے ہے۔ قولہ : تَذُوْدَان امراتین کی صفت ہے نہ کہ وَجَدَ کا مفعول ثانی اس لئے کہ وَجَدَ بمعنی لَقِیَ ہے۔
سوال : مندرجہ ذیل چار افعال کے مفعولوں کو کیوں حذف کیا گیا ہے ؟ یَسْقُوْنَ تذُوْدَان وَلاَ نَسْقِیْ اور یُصْدِرُ الرعاءُ (افعال)
جواب : چونکہ مقصود با لذ ات فعل ہوتا ہے نہ کہ مفعول لہٰذ امذ کو رہ چاروں فعلوں کے مفا عیل کو حذف کردیا گیا ہے۔
قولہ علی ان تاجرنی فاعل یا مفعول سے حال ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے ای مشروطاً علیَّ اوعلَیٗکَ ذٰلکَ ۔ قولہ : التمام محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ مِنْ عندکَ مبتداء محذوف کی خبر ہے۔ قولہ : ذٰلک مبتداء ہے اور بینی وبینک اس کی خبر۔ قولہ : اَیَّمَا الاَجَلَیْنِ ایُّ شرطیہ ہے ما زائدہ ہے فَلاَ عُدْوانَ جواب شرط ہے۔
تفسیر و تشریح
ولما توجہ تلقاء مدین مدین ملک شام کے ایک شہر کا نام ہے جو مدین بن ابراہیم کے نام سے موسوم ہے ان ہی نے اس شہر کو بسایا تھا، یہ علاقہ فرعونی حکومت سے خارج تھا، مصر سے مدین آٹھ دن کی مسافت پر واقع تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جب فرعونی سپاہیوں کا طبعی خوف پیش آیا، جو نہ نبوت کے منافی ہے اور نہ توکل کے تو مصر سے ہجرت کا ارادہ فرمایا، اور مدین کی سمت کو شاید اس لئے اختیار کیا کہ مدین بھی اولاد ابراہیم کی بستی تھی اور حضرت موسیٰ بھی حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے تھے اس لئے کہ حضرت موسیٰ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پوتے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی نسل سے تھے۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے بالکل بےسروسامانی کی حالت میں نکلے، نہ کوئی توشہ تھا اور نہ کوئی سامان اور نہ راستہ معلوم، اسی اضطرار کی حالت میں اللہ جل شانہ کی طرف متوجہ ہوئے اور دعاء فرمائی عسیٰ ربِّی ان یھدینی سواء السبیل یعنی امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی فرمائے گا، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی یہ دعاء قبول فرمائی، مدین کے تین راستے تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بہدایت خداوندی متوسط راستہ اختیار فرمایا فرعونی سپاہی آپ کی تلاش و جستجو میں نکلے اور مشورہ میں یہ طے ہوا کہ بھاگنے والا کبھی سیدھا راستہ اختیار نہیں کرنا ہمیشہ بعید اور غیر معروف راستہ اختیار کرتا ہے لہٰذا موسیٰ نے بھی مختصر اور سیدھے راستہ کو چھوڑ کر طویل اور غیر معروف راستہ اختیار کیا ہوگا چناچہ فرعونی سپاہیوں نے درمیانی سیدھا راستہ ترک کرکے دشوار اور طویل راستہ اختیار کیا موسیٰ (علیہ السلام) بخیر و عافیت اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئے اور فرعونی سپاہی خائب و خاسر واپس آگئے، مفسرین لکھتے ہیں کہ اس سفر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی غذا صرف درختوں کے پتے تھے۔
ولما ورد۔۔۔ مدین، ماء مدین سے وہ کنواں مراد ہے جس سے اس بستی کے لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلاتے تھے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دو عورتوں کو دیکھا کہ وہ اپنی بکریوں کو روکے ہوئے دور کھڑی ہیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو رحم آیا تو ان سے معلوم کیا کہ تم اپنی بکریوں کو کیوں روکے کھڑی ہو ؟ پانی کیوں نہیں پلاتیں ؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ہماری عادت یہی ہے کہ ہم مردوں کے ساتھ اختلاط سے بچنے کے لئے اس وقت تک بکریوں کو پانی نہیں پلاتیں جب تک یہ لوگ کنوئیں پر ہوتے ہیں، قدرتی طور پر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تمہارے یہاں کوئی مرد نہیں کہ جو یہ کام انجام دے سکے تو اس سوال کا جواب انہوں نے خود ہی وَاَبُوْنَا شیخٌ کبیرٌ کہہ کر دیدیا کہ ہمارے والد صاحب بہت ضعیف اور بوڑھے ہیں وہ یہ کام نہیں کرسکتے، اس لئے ہم اس کام کے لئے مجبور ہیں، اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کے کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی۔
اس واقعہ سے چند اہم فوائد حاصل ہوئے، اول ضعیفوں کی مدد کرنا، انبیاء کی سنت ہے، دوسرا بوقت ضرورت اجنبی عورت سے بات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، بشرطیکہ فتنہ کا خوف نہ ہو، تیسرا شرم و حیا عورتوں کا زیور ہے یہ واقعہ اگرچہ اسلام سے بہت پہلے کا ہے مھر اس وقت بھی دونوں لڑکیوں نے اپنی فطری اور طبعی شرافت کی وجہ سے تکلیف برداشت کرنا تو گوارا کیا مگر مردوں کے ساتھ اختلاط پسند نہیں کیا، چوتھا عورتوں کا باہر کے کاموں کے لئے نکلنا اس وقت بھی ناپسند سمجھا جاتا تھا اسی لئے لڑکیوں نے اپنے باہر نکلنے کا یہ کہہ کر عذر بیان کیا کہ چونکہ ہمارے والد صاحب ضعیف اور بوڑھے ہیں اس لئے بدرجہ مجبوری ہم کو نکلنا پڑا ہے۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان لڑکیوں پر ان کی مجبوری کی وجہ سے رحم آگیا اسی کنوئیں سے یا اس کے قریب دوسرے کنوئیں سے جس پر ایک بھاری پتھر رکھا ہوا تھا جس کو بمشکل دس آدمی اٹھا سکتے تھے تنہا اٹھا کر الگ رکھدیا اور ان کی بکریوں کو پانی پلا دیا، اور ببول کے ایک درخت کے سایہ میں جا کر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت مندی کے لئے دعا کرنے لگے۔
ادھر یہ ہوا کہ یہ لڑکیاں اپنے مقررہ وقت سے پہلے گھر پہنچ گئیں تو ان کے والد نے وجہ دریافت کی لڑکیوں نے واقعہ بیان کیا، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے چاہا کہ اس شخص نے احسان کیا ہے اس کی مکافات کرنی چاہیے، اس لئے انہیں ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کو بلانے بھیجا، یہ حیا کے ساتھ شرماتی ہوئی پہنچی، اور شرماتے ہوئے حیاء کی وجہ سے منہ پر کرتے کی آستین رکھ کر بات کی، اور اپنے والد صاحب کی دعوت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پہنچا دی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کے ساتھ چل پڑے، ہوا چونکہ تیز تھی جس کی وجہ سے کپڑا اڑتا تھا جس سے اس کی پندلی کھل جاتی تھی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تم میرے پیچھے چلو اور اشارہ یعنی دائیں بائیں کہہ کر راستہ بتاتی رہو۔
گھر پہنچ کر حضرت شعیب (علیہ السلام) سے دعاء سلام ہوئی شام کا کھانا تیار تھا شعیب (علیہ السلام) نے کھانے کے لئے کہا مگر موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ کہہ کر کھانے سے معذرت کردی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں نے آپ کی بکریوں کو پانی پلا کر جو نیکی کی ہے یہ کھانا اس کا معاوضہ ہو تو حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا ایسی بات نہیں ہے بلکہ مہمانوں کی مہمان نوازی کرنا تو ہمارا خاندانی طریقہ ہے چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کھانا تناول فرمایا کھانے کے دوران حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے پورے واقعہ کی قتل قبطی سے لیکر آخر تک کی پوری روداد سنا دی حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا اب اندیشہ نہ کرو یہ علاقہ فرعون کی حکومت سے خارج ہے وہ یہاں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
شعیب (علیہ السلام) کی ایک صاحبزادی نے جس کا نام صفوراء یا کیّا تھا اپنے والد سے عرض کیا کہ آپ کو گھر کے کام کاج کے لئے ایک ملازم کی ضرورت ہے آپ ان ہی کو ملازم رکھ لیجئے کیونکہ ملازم میں دو صفتوں کا ہونا ضروری ہے ایک تو کام کی صلاحیت دوسرے امانت و دیانت داری، ہمیں ان کے تنہا پتھر اٹھا کر پلانی پلانے سے ان کی قوت کا اندازہ ہوگیا اور راستہ میں اپنے پیچھے کردینے سے امانت داری کا تجربہ ہوچکا ہے۔
چناچہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اِنِیّ ارِیْدُ اَنْ اُنکِحَکَ اِحدیٰ ابنَتَیَّ ھٰتَیْنِ کہہ کر خود ہی اپنی ایک لڑکی کے نکاح کا ارادہ ظاہر فرمایا اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی مرد صالح مناسب حال ملے تو پھر لڑکی کے ولی کو اسکا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ لڑکے کی طرف سے پیش کش ہو بلکہ خود ہی پیش کش کرنا سنت انبیاء ہے، ابو سعود میں چھوٹی لڑکی کا نام صفیراء اور بڑی کا صفراء لکھا ہے۔
اِحدی ابنَتَیَّ شعیب (علیہ السلام) نے دونوں لڑکیوں میں سے کسی ایک کو متعین کرکے گفتگو نہیں فرمائی بلکہ اس کو مبہم رکھا کہ ان میں سے کسی ایک کو آپ کے نکاح میں دینے کا ارادہ ہے، مگر چونکہ یہ باقاعدہ عقد نکاح نہیں تھا جس میں ایجاب و قبول اور گواہوں کا ہونا شرط ہے بلکہ یہ تو معاملہ کی گفتگو تھی تاکہ شرائط معاملہ طے جائیں، مثلاً یہ کہ اگر آپ کو آٹھ سال تک یہاں ملازمت منظور ہو تو ہم ایک لڑکی کا نکاح آپ سے کردیں گے، لہٰذا یہاں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ منکوحہ کی تعیین کے بغیر نکاح کیسے درست ہوگیا ؟
علیٰ ان تاجرنی ثمانی حجج آٹھ سال کی ملازمت و خدمت کو نکاح کا مہر قرار دیا گیا، اس میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ شوہر اپنی بیوی کی خدمت و ملازمت کا اس کا مہر قرار دے سکتا ہے یا نہیں، اول بات یہ ہے کہ مہر کا یہ معاملہ شریعت محمدیہ کے لحاظ سے درست نہ ہو مگر شعیب (علیہ السلام) کی شریعت کے لحاظ سے درست ہو شرائع انبیاء میں اس قسم کے فروعی مسائل میں فرق ہونا نصوص سے ثابت ہے۔
امام ابوحنیفہ کی ظاہر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدمت زوجہ کو مہر نہیں بنایا جاسکتا، مگر ایک روایت جس پر علماء متاخرین نے فتویٰ دیا ہے کہ خود بیوی کی خدمت کو مہر قرار دینا تو شوہر کے احترام و اکرام کے خلاف ہے، مگر بیوی کا کوئی ایسا کام جو گھر سے باہر کو ہو مثلاً بکریاں چرانا یا تجارت وغیرہ اگر اس میں شرائط اجارہ کے مطابق مدت متعین کردی جائے جیسا کہ اس واقعہ میں آٹھ سال کی مدت متعین کردی گئی تو اس کی صورت یہ ہوگی کہ اس مدت کی ملازمت کی تنخواہ بیوی کے ذمہ لازم ہوگی تو اس تنخواہ کو مہر قرار دینا جائز ہوگا۔ (ذکرہٗ فی البدائع عن نو ادر بن سماعہ بحوالہ معارف)
قولہ : فوقع فی یدھا عصاء آدم حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی لڑکی سے کہا ان کو ایک عصا دے دو تاکہ اس سے بکریوں کی نگرانی کریں، شعیب (علیہ السلام) کے پاس انبیاء (علیہم السلام) کے متبرک باقیات تھے ان میں حضرت آدم (علیہ السلام) کا مورو کا وہ عصاء بھی تھا جس کو وہ جنت سے ساتھ لائے تھے لڑکی کے ہاتھ میں وہی عصا آگیا حضرت شعیب چونکہ نابینا تھے، اس لئے ٹٹول کر معلوم کرلیا کہ یہ آدم (علیہ السلام) کا عصاء ہے یہ کہہ کر واپس کردیا کہ دوسرا دے دو ، اس طرح سات مرتبہ واپس کیا مگر ہر بار وہی عصا ہاتھ میں آتا تھا مجبوراً وہی عصا حضرت موسیٰ کو دیدیا مگر شعیب (علیہ السلام) کو بعد میں خیال آیا کہ یہ تو انبیاء کی امانت تھی مجھے نہیں دینا چاہیے تھی واپسی کا مطالبہ کیا مگر موسیٰ (علیہ السلام) نے انکار کردیا اس میں نزاع پیدا ہوا بات زیادہ بڑھ گئی آخر یہ طے ہوا کہ سب سے پہلے جو شخص آئے وہ جو فیصلہ کرے وہ فریقین کو منظور ہوگا، چناچہ انسان کی شکل میں ایک فرشتہ آیا اور اس نے یہ فیصلہ کیا کہ اس عصاء کو زمین پر ڈال دیا جائے جو اٹھالے وہ لے لے، چناچہ ایس اہی کیا گیا اور شعیب (علیہ السلام) نے اٹھانے کی کوشش کی مگر نہ اٹھا سکے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اٹھا لیا تو ان ہی کو دیدیا گیا۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاءَ مَدْيَنَ﴾ یعنی جب آپ نے مدین جانے کا ارادہ کیا۔ مدین جنوبی فلسطین میں واقع تھا جہاں فرعون کی عملداری نہ تھی۔ ﴿قَالَ عَسَىٰ رَبِّي أَن يَهْدِيَنِي سَوَاءَ السَّبِيلِ﴾ ” کہنے لگے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھا راستہ بتائے۔“ یعنی معتدل اور مختصر راستہ جو نہایت آسانی اور سہولت سے مدین پہنچاتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو سیدھا اور مختصر راستہ دکھایا اور وہ مدین پہنچ گئے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jab unhon ney madiyan ki taraf rukh kiya to kaha kay : mujhay poori umeed hai kay mera perwerdigar mujhay seedhay raastay per daal dey ga .