العنکبوت آية ۱
الٓمّٓ ۗ
طاہر القادری:
الف، لام، میم (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)،
English Sahih:
Alif, Lam, Meem.
1 Abul A'ala Maududi
الف ل م
2 Ahmed Raza Khan
الم
3 Ahmed Ali
المۤ
4 Ahsanul Bayan
ا لم
5 Fateh Muhammad Jalandhry
الم
6 Muhammad Junagarhi
الم
7 Muhammad Hussain Najafi
الف۔ لام۔ میم۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
المۤ ۤ
9 Tafsir Jalalayn
ال م
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آیت نمبر 1 تا 13
ترجمہ : الم اس کی مراد تو اللہ ہی کو معلوم ہے کیا ان لوگوں نے یہ گمان کررکھا ہے کہ ان کے صرف یہ کہنے پر کہ ہم ایمان لائے ہم انہیں آزمائے بغیر چھوڑدیں گے ان کو ایسی چیزوں سے آزمایا جائے گا کہ جن سے ان کے ایمان کی حقیقت ظاہر ہوجائے، یہ ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جب وہ ایمان لائے تو مشرکین نے اذیت پہنچائی اللہ تعالیٰ ان سے پہلے والوں کو بھی آزما چکا ہے یقیناً اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی جانچے گا جو اپنے ایمان میں سچے تھے مشاہدہ کے طور جانچنا اور ایمان کے بارے میں جھوٹوں کو بھی معلوم کے گا، کیا جو لوگ برائیاں یعنی شرک اور معاصی کررہے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے، تو ہم ان سے انتقام نہ لے سکیں گے ان کی یہ تجویز جس کا یہ فیصلہ کر رہے ہیں نہایت ہی بیہودہ ہے، جو شخص اللہ کی ملاقات کا خوف رکھتا ہے یقیناً اس کی ملاقات کا وقت آنے ہی والا ہے لہٰذا اس کو چاہیے کہ اس کے لئے تیاری کرے وہ اپنے بندوں کی باتوں کو سننے والا اور ان کے افعال کو جاننے والا ہے اور جس شخص نے جہاد کیا خواہ جہاد بالحرب ہو یا جہاد با لنفس تو وہ اپنے فائدہ کے لئے جہاد کرتا ہے اس لئے کہ اس کے جہاد کا نفع اسی کو ملنے والا ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ تو جہان والوں (یعنی) انسانوں اور جنوں اور فرشتوں اور ان کی عبادت سے بےنیاز ہے اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ہم ان کے گناہوں کا ان کے نیک اعمال کے صلہ میں ازالہ کردیں گے اور ہم ان کے اعمال کا حال یہ ہے کہ وہ اعمال نیک ہوں بہترین بدلہ دیں گے اَحْسَنَ حَسَنٌ کے معنی میں ہے اور اس کا نصب باء جارہ کو ساقط کردینے کی وجہ سے ہے اور ہم نے ہر انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید کی ہے اچھی تاکید یہ کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کرے اگر وہ تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک کرے کہ جس کے شریک کرنے کا تیرے پاس واقع کے مطابق علم نہیں ہے تو تو شرک کرنے میں ان کی اطاعت نہ کر تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے پھر میں ہر چیز سے جو تم کو باخبر کردوں گا پس میں تمہارے اعمال کی جزاء دوں گا اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہوں گے اور نیک اعمال کئے ہوں گے تو ہم ان کو صالحین یعنی انبیاء اور اولیاء میں شمار کرلیں گے بایں طور کہ ہم ان کا ان کے ساتھ حشر کریں گے اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو آمَنّا باللہ کہہ لیتے ہیں اور ان کو راستہ میں تکلیف پہنچائی جاتی ہے تو وہ لوگوں کی تکلیف یعنی ان کی ایذارسانی کو اپنے لئے عذاب الہٰی کے مانند سمجھ کر اس سے ڈرتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کی اطاعت کرتے اور نفاق کے مرتکب ہوتے ہیں، اور قسم ہے اگر مومنین کو تیرے رب کی طرف سے کوئی مدد آپہنچتی ہے جس کی وجہ سے ان کو مال غنیمت حاصل ہوتا ہے تو کہتے ہیں ہم تو ایمان میں تمہارے ساتھ تھے لہٰذا ہم کو بھی مال غنیمت میں شریک کرلو وَلَئِنْ میں لام قسم ہے لَیَقولُنَّ میں نون رفع کو مسلسل (تین) نون آنے کی وجہ سے اور جمع کی ضمیر واؤ کو التقاء ساکنین کی وجہ سے حذف کردیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کو جہان والوں
کا حال ایمان اور نفاق میں سے جو کچھ ہے معلوم نہیں ہے ؟ ضرور کیوں معلوم نہیں ہے (معلوم ہے) اور اللہ تعالیٰ دل سے ایمان
لانے والوں کو بھی بالیقین ظاہر کرکے رہے گا اور منافقوں کو بھی بالیقین ظاہر کرکے رہے گا، اور دونوں فریقوں کو بدلہ دے گا، اور فعلوں میں لام لام قسم ہے، اور کافر مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ تم دین میں ہمارا طریقہ اختیار کرو (بالفرض) اگر ہماری اتباع کرنے میں کوئی گناہ ہوا تو ہم اپنے اوپر اٹھالیں گے (یعنی اپنے ذمہ لے لیں گے اور تم سبکدوش ہوگے) اور امر بمعنی خبر ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حالانکہ وہ ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی اٹھانے والے نہیں ہیں، یہ تو اس معاملہ میں محض جھوٹے ہیں البتہ یہ اپنے (گناہوں کا بوجھ) لادے ہوں گے اور اپنے (گناہوں) کے بوجھ کے ساتھ ساتھ کچھ اور بوجھ بھی، مومنین سے یہ کہنے کی وجہ سے کہ تم ہمارے طریقہ کی اتباع کرو اور اپنے متبعین کو گمراہ کرنے کی وجہ سے اور یہ جو کچھ افتراء پردازیاں کررہے ہیں، قیامت کے روز ان سے ضرور باز پرس کی جائے گی، (یعنی) اللہ پر جو کذب بیانی کرتے ہیں، اور یہ باز پرس تو بیخ کے لئے ہوگی، لام دونوں فعلوں میں لام قسم ہے اور دونوں کا فاعل واؤ اور نون رفع حذف کردیا گیا ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : ای بقولھِمْ یہ ما کے مصدریہ ہونے کیطرف اشارہ ہے اور بامحذوف ہے اور اَنْ یترکوا، حسِبَ کے دو مفعولوں کی قائم مقام ہے
قولہ : نَزََلَ فی جماعۃٍ جیسا کہ عمار بن یاسر و عیاشؔ بن ابی ربیعہ وولیدبن سلمان بن ہشام ان فقراء کو مکہ میں ان کے ایمان لانے کی وجہ سے اذیت دی جاتی تھی۔
قولہ : علم مشاھدۃٍ اس بات کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب دینا ہے، سوال یہ ہے کہ یہ آیت علم خداوندی کے تجدد پر دلالت کرتی ہے حالانکہ باری تعالیٰ کا علم قدیم غیر حادث ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ علم سے مراد علم ظہور اور علم مشاہدہ ہے، آیت کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صادقین کے صدق اور کاذبین کے کذب کو ظاہر کردے تاکہ معلوم اللہ کے علم کے مطابق ظاہر ہوجائے (یعنی لوگوں کو علم خداوندی اور معلوم کی مطابقت معلوم ہوجائے) جو کہ معلوم کے ظاہر ہونے سے پہلے پردۂ خفا میں تھی
قولہ : یَحْکمُوْنَ جملہ ہو کر ما بمعنی الذی کا صلہ ہے صلہ میں ہٗ ضمیر محذوف ہے جس کو شارح (رح) تعالیٰ نے ظاہر کردیا ہے اور حکمھمْ ھٰذا مخصوص بالذم ہے۔
قولہ : فَلْیَسْتَعِدْ یہ مَنْ کان کا جواب شرط ہے اَحسَنَ نزع خافض کی وجہ سے منصوب ہے اصل میں بِاَحْسَنَ تھا۔
قولہ : ایصَاءً ذاحسن اس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حسنًا وصینا کے مصدر محذوف کی صفت ہے حذف مضاف کے ساتھ اور اگر مضاف کو محذوف نہ مانین تو مبالغہ صفت واقع ہونا درست ہے۔
قولہ : وَالَّذِیْنَ آمنُوْ ا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مبتدا ہے اور لَنُکَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَیّئٰتِھِمْ مع قسم محذوف کے مبتداء کی خبر ہے، تقدیر عبارت یہ ہے واللہ لنکفِّرَنَّ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ والَّذِینَ آمنُوْا لخ فعل محذوف کی وجہ سے محلاً منصوب ہو تقدیر عبارت یہ ہوگی ونخلص الذین آمنوا وعملوا الصّٰلحٰت من سیِّئٰتِھم اس صورت میں یہ باب اشتغال سے ہوگا۔
قولہ : موافقۃ للواقع یہ محذوف کی علت ہے تقدیر عبارت یہ ہے وذکر ھٰذا القید موافقۃ للواقع .
قولہ : فلاَ مفھومَ لہٗ مطلب یہ ہے کہ اس کا مفہوم مخالف مراد نہیں ہے کہ جس کے معبود ہونے پر تیرے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو اس کو میرا شریک مت کر اور جس کے معبود ہونے پر دلیل ہو اس کو شریک کرسکتا ہے ( یہاں یہ مراد نہیں ہے) اس لئے کہ اس کے سوا نہ ایسا کوئی معبود ہے کہ اس کے وجود پر دلیل ہو اور نہ ایسا معبود ہے کہ اس کے وجود پر دلیل نہ ہو بلکہ وہ الٰہ واحد ہے۔
تفسیر وتشریح
الم۔۔۔ یترکوا (الآیۃ) یعنی یہ گمان کہ صرف زبانی ایمان لانے کے بعد بغیر امتحان لئے انہیں چھوڑ دیا جائے گا صحیح نہیں، بلکہ انہیں جان ومال کی تکالیف اور دیگر آزمائشوں کے ذریعہ جانچا پرکھا جائے گا تاکہ کھرے کھوٹے کا، سچے جھوٹے کا، مخلص و منافق کا (لوگوں کو) پتہ چل جائے۔
اہل ایمان خصوصاً انبیاء (علیہم السلام) اور صلحاء کو مختلف قسم کی آزمائشوں سے گذرنا پڑتا ہے انجام کار ان کو کامیابی ہوتی ہے یہ آزمائشیں مختلف کی ہوتی ہیں کبھی تو کفار وفجار کی ایذادسانی کے ذریعہ آزمائش ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور خصوصاً خاتم الانبیاء اور آپ کے اصحاب کو بہت سی آزمائشوں سے گذرنا پڑا، جس کے بیشمار واقعات سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہیں، اور بعض اوقات جسمانی آزمائشوں سے گذرتا پڑتا ہے جیسے حضرت ایوب (علیہ السلام) کو گذرنا پڑا۔
شان نزول : مراد اگرچہ عام ہے ہر زمانہ کے علماء و صلحاء اور اولیاء امت کو مختلف قسم کی آزمائشیں آتی ہیں اور آتی رہیں گی، مگر از روئے روایات یہ آیت چند ضعفاء صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن میں یہ حضرات بھی شامل ہیں، عمار بن یاسر، عیاش بن ابی ربیعہ، ولید بن الولید، سلمان بن ہشام ان تمام حضرات اور بہت سے فقراء صحابہ کو مکہ میں اذیت ناک سزائیں دی جاتی تھیں جس کی وجہ سے بعض صحابہ تنگ دل ہو کر دل برداشتہ ہوجاتے تھے، امام بخاری نے حضرت خباب بن الارت سے روایت کی ہے حضرت خباب فرماتے ہیں کہ ایک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ کے سایہ میں اپنی چادر پر ٹیک لگاتے ہوئے بیٹھے تھے، ہم نے اپنی تکلیف کی آپ سے شکایت کی اور تکلیف کے ازالہ اور نصرت خداوندی کیلئے دعا کی درخواست کی، تو آپ نے فرمایا تم سے پہلے ایسے لوگ گذرے ہیں کہ جن کو گڑھے میں کھڑا کرکے نصف دفن کردیا جاتا تھا اور سر پر آرادکھ کردو نصف کردیا جاتا تھا اور لوہے کی کنگھیوں کے ذریعہ ہڈیوں سے گوشت چھڑایا جاتا تھا پھر بھی یہ لوگ اپنے دین کو رد نہیں کرتے تھے، وَاللہ یہ صورت حال جلدی ہی ختم ہونے والی ہے، یہاں تک کہ صنعاء یمن سے حضرموت تک سوار سفر کرے گا اور خدا کے سوا اس کو کسی کا خوف نہ ہوگا، مگر تم جلدی کرتے ہو۔ (جمل ملخصًا)
فلیعلمن۔۔۔ صدقوا یعنی امتحانات اور شدائد کے ذریعہ اور غیر مخلص اور نیک وبد میں ضرور امتیاز کریں گے کیونکہ مخلصین کے ساتھ منافقین کا خلط ملط بعض اوقات بڑے نقصان کا باعث ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کو ہر شخص کے پیدا ہونے سے پہلے ہی معلوم ہے کہ کون بد ہے اور کون نیک، اللہ تعالیٰ کے جانچنے اور پرکھنے کا مطلب دوسروں پر ظاہر کردینا ہے۔
وَوَ صَّیْنَا الا نسَانَ یہاں وَصَّیْنَا کے معنی تاکیدی حکم کرنے کے ہیں، نیز خیر خواہی اور ہمدردی کے طور پر کسی کو نیک کام کی طرف بلانے کے بھی ہیں حُسْنًا مصدر ہے اس کے معنی خوبی کے ہیں اس جگہ خوبی والے طرز عمل کو مبالغہ کے طور پر حسن سے تعبیر کیا گیا ہے، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا تاکیدی حکم فرمایا، بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف نہ ہو جیسا کہ حدیث شریف میں ہے، لاَ طَاعَۃَ لمخلوق فی معصیۃِ الخالقِ (رواہ احمد والحاکم) یعنی خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی طاعت جائز نہیں، مذکورہ آیت حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کے بارے میں نازل ہوئی، یہ صحابہ کرام میں سے ان دس حضرات میں شامل ہیں جن کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا ہی میں جنت کی خوشخبری سنادی تھی، جن کو عشرۂ مبشرہ کہا جاتا ہے یہ اپنی والدہ کے فرمانبردار تھے اور ان کی راحت رسانی کا بہت خیال رکھتے تھے، ان کی والدہ حمنہ بنت ابی سفیان کو جب یہ معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے سعد مسلمان ہوگئے ہیں تو انہوں نے بیٹے کو تنبیہ کی اور قسم کھائی کہ میں اس وقت تک نہ کھانا کھاؤں گی اور نہ پانی پیوں گی جب تک کہ تم اپنے آبائی دین میں پھر واپس نہ آجاؤ، اسی طرح بھوک پیاس سے مرجاؤں گی اور ساری دنیا میں ہمیشہ کے لئے یہ رسوائی تمہارے سر رہے گی کہ تم اپنے والدہ کے قاتل ہو (مسلم، ترمذی) اس آیت نے حضرت سعد کو ان کی بات ماننے سے روک دیا، بغوی کی ایک روایت کے مطابق حضرت سعد کی والدہ تین دن اور تین راتیں اپنی قسم کے مطابق بھوکی پیاسی رہیں، حضرت سعد حاضر ہوئے، ماں کی محبت اور اطاعت اپنی جگہ تھی مگر اللہ تعالیٰ کے فرمان کے سامنے کچھ نہ تھی اس لئے والدہ کو مخاطب کرکے کہا امی جان ! اگر تمہارے بدن میں سو روحیں بھی ہوتیں اور ایک ایک کرکے نکلتی رہتیں تب بھی میں اپنا دین نہ چھوڑتا، اب تم چاہو کھاؤ پیو یا مرجاؤ، بہرحال میں اپنے دین سے نہیں ہٹ سکتا، ماں نے ان کی گفتگو سے مایوس ہو کر کھانا کھالیا۔
ومن۔۔۔ باللہ (الآیۃ) اس آیت میں ایل نفاق یا کمزور ایمان والوں کا حال بیان کیا گیا ہے کہ اگر ایمان کی وجہ سے انہیں ایذا پہنچتی ہے تو عذاب الہٰی کی طرح وہ ان کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہے، نتیجتاً وہ ایمان سے پھرجاتے ہیں اور عوام کے دین کو اختیار کرلیتے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
آیت 1
11 Mufti Taqi Usmani
Alif-Laam-Meem .
12 Tafsir Ibn Kathir
حروف مقطعہ کی بحث سورة بقرہ کی تفسیر کے شروع میں گزرچکی ہے۔
امتحان اور مومن
پھر فرماتا ہے یہ ناممکن ہے کہ مومنوں کو بھی امتحان سے چھوڑ دیا جائے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ سب سے زیادہ سخت امتحان نبیوں کا ہوتا ہے پھر صالح نیک لوگوں کا پھر ان سے کم درجے والے پھر ان سے کم درجے والے۔ انسان کا امتحان اس کے دین کے انداز پر ہوتا ہے اگر وہ اپنے دین میں سخت ہے تو مصیبتیں بھی سخت نازل ہوتی ہیں۔ اسی مضمون کا بیان اس آیت میں بھی ہے ( اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلَا رَسُوْلِهٖ وَلَا الْمُؤْمِنِيْنَ وَلِيْجَةً ۭ وَاللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ 16ۧ) 9 ۔ التوبہ :16) کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ تم چھوڑ دئیے جاؤ گے ؟ حالانکہ ابھی اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے مجاہد کون ہے ؟ اور صابر کون ہے ؟ اسی طرح سورة برات اور سورة بقرہ میں بھی گزر چکا ہے کہ کیا تم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ تم جنت میں یونہی چلے جاؤ گے ؟ اور اگلے لوگوں جیسے سخت امتحان کے موقعے تم پر نہ آئیں گے۔ جیسے کہ انہیں بھوک، دکھ، درد وغیرہ پہنچے۔ یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ کے ایماندار بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کہاں ہے ؟ یقین مانو کہ اللہ کی مدد قریب ہے۔ یہاں بھی فرمایا ان سے اگلے مسلمانوں کی بھی جانچ پڑتال کی گئی انہیں بھی سرد گرم چکھایا گیا تاکہ جو اپنے دعوے میں سچے ہیں اور جو صڑف زبانی دعوے کرتے ہیں ان میں تمیز ہوجائے اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اللہ اسے جانتا نہ تھا وہ ہر ہوچکی بات کو اور ہونے والی بات کو برابر جانتا ہے۔ اس پر اہل سنت والجماعت کے تمام اماموں کا اجماع ہے۔ پس یہاں علم رویت یعنی دیکھنے کے معنی میں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) لنعلم کے معنی لنری کرتے ہیں کیونکہ دیکھنے کا تعلق موجود چیزوں سے ہوتا ہے اور عم اس سے عام ہے۔ پھر فرمایا ہے جو ایمان نہیں لائے وہ بھی یہ گمان نہ کریں کہ امتحان سے بچ جائیں گے بڑے بڑے عذاب اور سخت سزائیں ان کی تاک میں ہیں۔ یہ ہاتھ سے نکل نہیں سکتے ہم سے آگے بڑھ نہیں سکتے ان کے یہ گمان نہایت برے ہیں جن کا برا نتیجہ یہ عنقریب دیکھ لیں گے۔