الروم آية ۱
الٓمّٓ ۚ
طاہر القادری:
الف، لام، میم (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)،
English Sahih:
Alif, Lam, Meem.
1 Abul A'ala Maududi
ا ل م
2 Ahmed Raza Khan
الم
3 Ahmed Ali
المۤ
4 Ahsanul Bayan
الم
سُوْرَۃُ الرُّوْمِ ٣٠ یہ سورت مکی ہے اس میں (٦٠) آیات اور (٦) رکوع ہیں
5 Fateh Muhammad Jalandhry
الٓمٓ
6 Muhammad Junagarhi
الم
7 Muhammad Hussain Najafi
الف، لام، میم۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
الۤمۤ
9 Tafsir Jalalayn
ال م
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آیت نمبر 1 تا 10
ترجمہ : الم اس کی مراد اللہ ہی بہتر جانتا ہے رومی مغلوب ہوگئے اور وہ اہل کتاب ہیں ان کو اہل فارس نے مغلوب کردیا اور وہ اہل کتاب نہیں ہیں، بلکہ بت پرست ہیں، اس خبر سے اہل مکہ خوشی ہوئے اور مسلمانوں سے کہا ہم تم کو اسی طرح مغلوب کردیں گے جس طرح اہل فارس نے رومیوں کو قریبی زمین میں یعنی جزیرۂ روم کے اس علاقہ میں جو فارس سے بہت قریب تھا، جہاں دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا تھا اور وہ یعنی رومی مغلوب ہونے کے بعد مصدر کی اضافت مفعول کی جانب کی گئی ہے، ای فارسٍ ایّاھم جنگ کی ابتداء کرنے والے اہل فارس ہیں، عنقریب چند سال کے بعد دونوں لشکروں کا دوبارہ مقابلہ ہوا، اور رومی فارسیوں پر غالب آگئے، پہلے اور بعد میں اختیار اللہ ہی کو ہے یعنی روم کے غلبہ سے پہلے اور اس کے بعد، معنی یہ کہ اہل فارس کا اولاً غالب آجانا اور رومیوں کا ثانیاً غالب آجانا یہ (سب) اللہ ہی کے حکم اور ارادہ سے تھا، اور اس دن یعنی جس دن رومی غالب ہوں گے تو مسلمان اہل فارس کے مقابلہ ان کی اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے چناچہ (مسلمان) اس سے خوش ہوئے، اور اس نصرت (غلبہ) کے وقوع کا علم بدر کے دن جبرائیل (علیہ السلام) کے وحی لیکر آنے سے ہوا، اور یہ خوشی مسلمانوں کو مشرکوں پر (بدر کے دن) نصرت (غلبہ) کی خوشی کے ساتھ حاصل ہوئی وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے وہ غالب ہے درحقیقت غالب و مہربان وہی ہے اللہ کا وعدہ ہے اس کو تلفظ میں اپنے فعل سے بدل دیا گیا ہے اور اصل یہ ہے وَعَدَھم اللہ النصرَ اللہ تعالیٰ نصرت کے اپنے وعدہ کا خلاف نہیں کرے گا لیکن اکثر لوگ یعنی کفار مکہ مومنین سے اللہ کے نصرت کے وعدہ کو نہیں جانتے وہ تو (صرف) دینوی زندگی کے ظاہر (ہی) کو یعنی دینوی معاش کے طریقوں مثلاً تجارت اور زراعت اور تعمیرات اور شجرکاری وغیرہ کو جانتے ہیں اور وہ آخرت سے بالکل بیخبر ہیں اور لفظ ھُمْ کا اعادہ تاکید کے لئے ہے کیا ان لوگوں نے اپنے دل میں اس بات پر غور نہیں کیا ؟ تاکہ غفلت سے باز آجائیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے (سب کو) بڑے قرینے سے اور مقررہ تک کے لئے پیدا فرمایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اپنی مدت پوری ہونے کے بعد فنا ہوجائے گا اور اس کے بعد (زندہ ہوکر) اٹھنا ہوگا یقیناً اکثر لوگ یعنی کفار مکہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں یعنی مرنے کے بعد زندہ ہونے پر یقین نہیں رکھتے، کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر یہ نہیں دیکھا کہ ان کے پہلے لوگوں یعنی سابقہ امتوں کا کیا انجام ہوا ؟ اور وہ ان کی ہلاکت ہے ان کے رسول کی تکذیب کرنے کی وجہ سے اور وہ ان سے بہت زیادہ طاقتور تھے مثلاً عاد اور ثمود اور انہوں نے (بھی) زمین کو جوتا اور زراعت وشجرکاری کے لئے اس کو الٹ پلٹ کیا اور مکہ والوں سے اس کو زیادہ آباد کیا، اور ان کے پاس ان کے رسول روشن یعنی واضح دلائل لے کر آئے یہ تو ناممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ بغیر جرم کے ان کو ہلاک کرکے ان پر ظلم کرتا لیکن (اصل بات یہ ہے) کہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر اپنے رسولوں کی تکذیب کرکے ظلم کرتے
تھے آخرش برا کرنے والوں کا بہت ہی برا انجام ہوا، السُّواٰی، اَسْوَءُ کی تانیث ہے بمعنی اقبح اگر عاقبۃُ پر رفع ہو تو سُوْآی کان کی خبر ہوگی اور کان فعل کی تذکیر عاقبۃً کے مؤنث مجازی ہونے کی وجہ سے ہوگی اور اگر عاقبۃ ُ پر نصب ہو تو (السُوْاٰی) کان کا اسم ہوگا اور (بد انجامی) سے مراد جہنم ہے اور ان کی بد انجامی کی وجہ یہ ہوئی کہ انہوں نے اللہ کی آیتوں قرآن کی تکذیب کی اور وہ ان (آیتوں) کا مذاق اڑاتے تھے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : غُلِبَتِ الرّومُ روم ایک قبیلہ کا نام ہے جو کہ ان کے جدامجد روم بن عیصو بن ابراہیم کے نام سے موسوم ہے، عیصو اپنے بھائی یعقوب کے ساتھ اپنی ماں کے بطن میں تھے جب ان کی ولادت کا وقت آیا تو عیصو نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے کہا مجھے پہلے نکلنے دے اور اگر تو مجھے پہلے نہیں نکلنے دے گا تو میں تیرے برابر سے ہو کر نکل جاؤں گا، تو حضرت یعوب شفقۃً پیچھے ہٹ گئے، یہی وجہ ہے کہ حضرت یعقوب ابو الانبیاء ہوئے اور عیصو ابوالجبارین ہوئے (جمل) الجزیرۃ دجلہ اور فرات کے درمیان علاقہ کو کہا جاتا ہے، یہاں جزیرۃ العرب مراد نہیں ہے۔
قولہ : بالجزیرۃ محذوف کے متعلق ہو کر الارض کی صفت ہے ای ارض الروم الکائنۃ بالجزیرۃ وقَدْفرِحوا بذلِٰکَ ای منصرہٖ.
قولہ : یَوْمَ وُقوعِہٖ یوْمَ بَدْرٍ یومَ بدرٍ وقوعِہٖ سے بدل ہے بنزول، علِمُوا سے متعلق یعنی روم کے غلبہ کا علم واقعہ بدر کے دن ہوا رومیوں کو غلبہ اس روز ہوا جبکہ مسلمانوں کو مشرکین پر بدر میں غلبہ حاصل ہوا اور مسلمانوں کو یہ خبر حضرت جبرئیل کے ذریعہ پہنچی۔
تفسیر وتشریح
ربط وشان نزول : سورة عنکبوت کی آخری آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے راستہ میں جہاد کرنے کے لئے راستہ کھولدینے اور ان کے مقاصد میں کامیابی کی بشارت دی تھی، سورة روم کی ابتداء جس قصہ سے ہوئی ہے وہ اسی نصرت الہٰیہ کا مظہر ہے اس سورت میں جو روم اور فارس کی جنگ کا واقعہ مذکورہ ہے، ظاہر ہے کہ دونوں فریق کفار ہی تھے، مگر ان دونوں مشرکوں میں فارس آتش پرست مشرک تھے، اور رومی نصاریٰ اہل کتاب تھے، ظاہر ہے کہ دونوں قسم کے مشرکوں میں سے اہل کتاب مسلمانوں سے نسبتاً قریب ہیں، اس لئے کہ دونوں اہل کتاب ہیں، اور اسی قدر مشترک سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اس مکتوب میں کام لیا جو روم کے بادشاہ کو دعوت اسلام دینے کے لئے بھیجا تھا اور وہ تَعَالَوْا الیٰ کلمۃٍ سَوَاءٍ بیْنَنَا وبَیْنَکُم ہے۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکہ کے قیام کے دوران روم اور فارس کے تعلقات نہایت کشدہ تھے گویا کہ دونوں حالت جنگ میں تھے، آخر کار دونوں کے درمیان جنگ چھڑگئی اور ابتداء فارس نے کی تھی اس جنگ میں اہل مکہ کی ہمدردیاں اہل فارس کے ساتھ تھیں، مشرکین مکہ کی یہ خواہش تھی کہ اہل فارس فتح مند ہوں اور مسلمانوں کی یہ تمنا تھی کہ رومی غالب ہوں، یہ جنگ رومیوں کے اس علاقہ میں ہوئی جو عرب کا علاقہ فارس سے بہت قریب تھا یہ جنگ اذرعات اور بصرہ کے علاقہ میں ہوئی، اس جنگ میں فارس نے روم کو شکست دیدی یہاں تک کہ قسطنطیہ بھی فتح کرلیا اور وہاں اپنی عبادت کیلئے ایک آتش کدہ تعمیر کیا اور یہ فتح کسریٰ پرویز کی
آخری فتح تھی اسکے بعداسکا زوال شروع ہوا اور پھر مسلمانوں کے ہاتھوں حضرت عمر کے دور خلافت میں اسکا خاتمہ ہوگیا (جمل وقرطبی) اس واقعہ سے مشرکین مکہ نے خوشیاں منائیں اور مسلمانوں کو عار دلائی کہ تم جسکو چاہتے تھے وہ ہار گیا اور جسطرح اہل کتاب رومیوں کو فارس کے مقابلہ میں شکست ہوئی ہے ہمارے مقابلہ میں تمکو بھی شکست ہوگی اس سے مسلمانوں کو رنج ہوا۔ (معارف)
سورة روم کی ابتدائی آیتیں اسی واقعہ سے متعلق نازل ہوئی ہیں، جن میں پیشین گوئی اور بشارت دی گئی ہے کہ چند سال بعد پھر رومی فارسیوں پر غالب آجائیں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے جب یہ آیات سنیں تو اس قدر پختہ یقین کرلیا کہ مکہ کے اطراف اور مشرکین کے مجامع اور بازار میں اعلان کرتے پھرتے تھے کہ تمہارے خوش ہونے کا کوئی موقعہ نہیں چند سال میں پھر روم فارس پر غالب آجائیں گے، مشرکین مکہ میں سے ابی بن خلف جمحی کھڑا ہوا اور کہا کذبت تو جھوٹا ہے، تو حضرت ابوبکر صدیق نے کہا انت اکذب یا عدواللہ تو جھوٹوں کا سردار ہے اے اللہ کے دشمن اور فرمایا میں تجھ سے اس بات پر شرط لگاتا ہوں کہ اگر رومی جیت گئے تو دس اونٹ تو مجھے دینا اور اگر ہارگئے تو دوں گا اور تین سال کی مدت مقرر ہوئی، (اس وقت تک اس قسم کی شرط حرام نہیں ہوئی تھی) شرط لگا کر ابوبکر صدیق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس واقعہ کا ذکر کیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے تو تین سال کی مدت بیان نہیں کی تھی کیونکہ قرآن میں بضع سنین مذکورہ ہے جس کا اطلاق تین سے نو تک ہوتا ہے، تم جاؤ اور جس سے یہ معاہدہ ہوا ہے اس سے کہہ دو کہ میں دس اونٹوں کے بجائے سو اونٹوں کی شرط لگاتا ہوں مگر مدت تین سال کے بجائے نوسال ہوگی، بعض روایات میں ہے کہ سات سال مقرر کی، چناچہ حضرت ابوبکر (رض) نے جا کر ابی بن خلف سے دوبارہ بات کی تو وہ راضی ہوگیا، جب ابی بن خلف کو یہ خطرہ ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ ابوبکر ہجرت کرکے چلے جائیں اور شرط کی رقم میں وصول نہ کرسکوں، چناچہ ابی بن خلف ابوبکر صدیق کے پاس آیا اور کہا مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تم مکہ چھوڑ کر چلے جاؤ لہٰذا مجھے ضامن دو چناچہ حضرت ابوبکر نے اپنے صاحبزادے عبدالرحمٰن کی ضمانت دی جب ابی بن خلف نے جنگ میں شرکت کے لئے احد جانے کا ارادہ کیا تو عبدالرحمٰن بن ابی بکر نے اس کو پکڑا اور کہنے لگے کہ کفیل دیکر جاؤ جب تک کفیل نہ دو گے تم کو ہرگز نہ چھوڑوں گا چناچہ ابی بن خلف نے مجبوراً کفیل دیدیا، اور احد کی جنگ میں شریک ہونے کے لئے چلا گیا، احد سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلوار سے زخم خوردہ ہو کر واپس آیا اور اسی زخم کی وجہ سے کچھ روز بعد مرگیا، روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شرط کا یہ واقعہ ہجرت سے پانچ سال قبل پیش آیا تھا اور سات سال پورے ہونے پر غزوۂ بدر کے وقت رومی اہل فارس پر غالب آگئے اس صورت میں شرط کا معاملہ ہجرت سے پانچ سال پہلے واقع ہوا، مگر اس روایت کو صحیح ماننے میں دشواری یہ پیش آتی ہے کہ یہ بات طے ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے شرط کی رقم (سو اونٹ) ابی بن خلف کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں سے وصول کی ہیں اور ابی بن خلف کا انتقال غزوۂ احد کے بعد ہوا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ رومیوں کے غلبہ کی اطلاع کے وقت جو کہ غزوۂ بدر میں ہوئی ابی بن خلف زندہ تھا اس لئے کہ اس کا انتقال غزوۂ احد کے بعد ہوا ہے، تو پھر شرط کی رقم کے ورثاء سے وصول کرنے کے کیا معنی ؟ البتہ تطبیق کی یہ شکل ہوسکتی ہے کہ ابی بن خلف نے شرط کی رقم (اونٹ) دینے میں تاخیر کی ہو ٹال مٹول کرتے کرتے ایک سال کا عرصہ نکالدیا ہو اس کے بعد اس کا انتقال ہوگیا ہو جس کی وجہ سے اس کے وارثوں سے رقم وصول کی گئی ہو۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ رومیوں کا غلبہ صلح حدیبیہ کے وقت ہوا تھا اخرجہٗ الترمذی وحسّنہ (روح المعانی) اس روایت کے مطابق حضرت ابوبکر اور ابی بن خلف کی شرط کا معاملہ ہجرت سے ایک سال پہلے مانتا ہوگا جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے اس صورت میں ابی بن خلف کے ورثاء سے شرط کی رقم (سواونٹ) وصول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہوگا اس لئے کہ ابی بن خلف غزوۂ احد کے بعد متصلاً مرچکا تھا، صاحب جمل نے یوم بدر والی روایت کو قبل سے بیان کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صلح حدیبیہ کی روایت راجح ہے اگرچہ اکثر محدثین نے غزوۂ بدر کے موقع ہی کو رومیوں کی فتح کا وقت قرار دیا ہے۔ جب شرط کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق (رض) جیت گئے اور سو اونٹ ان کو ہاتھ آئے تو سب کو لیکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان اونٹوں کو صدقہ کردو اور حضرت براء بن عازب کی روایت سے اس میں یہ الفاظ منقول ہیں ھٰذا سحت تصدق بہ تو حرام ہے اس کو صدقہ کردو۔ (روح المعانی)
مسئلہ : قمار یعنی جوا، ازروئے نصوصِ قرآنی قطعی حرام ہے، ہجرت مدینہ کے بعد جس وقت شراب حرام کی گئی اسی کے ساتھ قمار بھی حرام کردیا گیا تھا اور اس کو شیطانی عمل قرار دیا انما الخمرو المیسرُوَالْاَنْصَابُ والا زلام رجسٌ من عمل الشیطٰن اور یہ دو طرفہ شرط جو حضرت صدیق (رض) نے ابی بن خلف کے ساتھ ٹھہرائی تھی یہ بھی ایک قسم کا جو اہی تھا، مگر یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے جب قمار حرام نہیں ہوا تھا، لہٰذا اس وقت شرط میں جیتا ہوا مال حرام نہیں تھا۔ اس لئے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے صدقہ کرنے کا حکم کیوں فرمایا ؟ اس کا جواب حضرات فقہاء نے یہ دیا ہے کہ یہ مال اگرچہ اس وقت حلال تھا مگر قمار کے ذریعہ اکتساب مال اس وقت بھی آپ کو پسند نہیں تھا اس لئے صدیق اکبر کی شان کے مناسب نہ سمجھ کر ان کو صدقہ کرنے کا حکم دیا اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ شراب حلال ہونے کے زمانے میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صدیق اکبر (رض) نے کبھی استعمال نہیں فرمائی۔
یعلمون۔۔۔ غٰفلون یعنی یہ لوگ دنیا کے ایک پہلو کو تو خوب جانتے ہیں کہ تجارت کس طرح کریں ؟ کس مال کی کریں، کہاں سے خریدیں اور کہاں سے خریدیں اور کہاں فروخت کریں ؟ لیکن اسی حیات دنیا کا دوسرا پہلو جو اس کی حقیقت اور اس کے اصلی مقصد کو واضح کرتا ہے کہ دنیا کا چند روز قیام درحقیقت ایک مسافرانہ قیام ہے انسان یہاں کا مقامی (نیشنل) نہیں بلکہ دوسرے ملک کا باشندہ ہے یہاں کچھ مدت کے لئے ویزا پر آیا ہے، اس کا اصل کام یہ ہے کہ اپنے اصلی وطن کے لئے یہاں سے سامان راحت فراہم کرکے وہاں بھیجے اور وہ سامان راحت ایمان اور عمل صالح ہے، اس دوسرے رخ سے بڑے بڑے عاقل کہلانے والے غافل اور بیخبر ہیں۔ (معارف)
اولم۔۔۔ انفسھم کیا لوگ اپنی ذات اور خدا کی کائنات میں غور نہیں کرتے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے زمین و آسمان اور دنیا کی ہر شئ کو کس قدر بہترین قرینے سے پیدا فرمایا ہے کوئی شئ خدا کی کائنات میں بےمقصد اور بےفائدہ نہیں، اگر یہ لوگ صرف اپنے وجود ہی میں غور کرلیں کہ کسی طرح نیست سے ہست کیا اور ایک حقیر وبے قدر پانی سے ان کی تخلیق کی اگر یہ لوگ اپنی ذات اور خدا کی کائنات میں غور وفکر کرتے تو یقیناً اللہ کے وجود، اس کی ربوبیت، اس کی الوہیت اور اس کی قدرت مطلقہ کا انہیں ادراک و احساس ہوجاتا اور اس پر ایمان لے آتے، نیز یہ حضرات کے سلسلہ میں شام ویمن کا سفر کرتے ہیں اور اس سفر کے دوران عاد وثمود کی بستیوں پر سے ان کا گذر ہوتا ہے تو کیا ان کے اخرابات و کھنڈرات کو نہیں دیکھتے ؟ یقیناً دیکھتے ہیں مگر ان کی تباہی کے اسباب پر غور و فکر نہیں کرتے اگر یہ ان قوموں کی تباہی کے اسباب اور ان کے عبرتناک انجام پر غور کریں تو یقیناً ان کو ہدایت ہوسکتی ہے۔
قولہ : سُوْآی برون فُعْلیٰ سوْءٌ سے اَسْوَءُ کی مونث ہے جیسے حُسْنیٰ اَحْسَنُ کی تانیث ہے یعنی ان کا جو انجام ہوا وہ بدترین انجام تھا۔
10 Tafsir as-Saadi
الم
11 Mufti Taqi Usmani
Alif-Laam-Meem