لقمان آية ۱
الٓمّٓ ۗ
طاہر القادری:
الف، لام، میم (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)،
English Sahih:
Alif, Lam, Meem.
1 Abul A'ala Maududi
الم
2 Ahmed Raza Khan
الم
3 Ahmed Ali
المۤ
4 Ahsanul Bayan
الم (١)
سُوْ رَ ۃُ لُقْمٰنَ ٣١ سورت مکی ہے اس میں (٣٤) آیات اور (٤) رکوع ہیں
5 Fateh Muhammad Jalandhry
الٓمٓ
6 Muhammad Junagarhi
الم
7 Muhammad Hussain Najafi
الف، لام، میم۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
الۤمۤ
9 Tafsir Jalalayn
ال م
آیت نمبر 1 تا 11
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے الٓمّٓ اس کی (حقیقی) مراد تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے تلک یعنی یہ آیتیں حکمت والی کتاب قرآن کی آیتیں ہیں، اضافت بمعنی مِن ہے، وہ نیکوکاروں کے لئے رہبر اور (سراسر) رحمت ہے رَحمَۃٌ کے رفع کے ساتھ رِحْمَۃً عام قراءت میں آیات سے حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے (اور) عامل اس میں وہ (فعل) ہے جو تلک میں اشارہ کے معنی ہیں (یعنی اُشِیْرُ ) جو لوگ نماز قائم کرتے ہیں یہ محسنین کا بیان ہے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور آخرت پر (کامل) یقین رکھتے ہیں ثانی ھم پہلے ھم کی تاکید ہے، یہی ہیں وہ لوگ کو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں کامیاب ہونے والے ہیں اور بعض لوگ ایسے ہیں کہ جو لغو باتوں کو خریدتے ہیں یعنی وہ چیز جس کی وجہ سے مقصد سے غافل رہتے ہیں (نوٹ) یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جبکہ یَلْھٰی معروف پڑھا جائے اور اگر یُلْھٰی مجہول پڑھا جائے تو ترجمہ یہ ہوگا، اور بعض لوگ ایسے لغویات کو خرید لیتے ہیں کہ جن کے ذریعہ مقصد سے غافل کئے جائیں تاکہ اللہ کے راستہ سے یعنی اسلام کے طریقہ سے ناسمجھی کی وجہ سے گمراہی میں پڑے رہیں (یا) تاکہ لوگوں کو گمراہ کریں لیضل فتحہ اور ضمہ کے ساتھ ہے وَیَتخِذَھَا نصب کے ساتھ یُضِلَّ پر عطف کرتے ہوئے اور رفع کے ساتھ یَشْتری پر عطف کرتے ہوئے تاکہ ان آیات یعنی سبیل اللہ کا مذاق اڑائے یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کن عذاب ہے اور جب اس کو ہماری آیتیں قرآن پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو تکبر کرتا ہوا اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا کہ اس نے سنا ہی نہیں کہ اس کے کانوں میں ڈاٹ لگی ہوئی ہے (یعنی) گراں گوش ہے، اور تشبیہ کے دونوں جملے وَلّٰی کی ضمیر سے حال ہیں یا ثانی جملہ پہلے جملہ کا بیان ہے آپ اس کو دردناک عذاب کی خبر سنادیجئے اور خوشخبری کا ذکر اس کے لیے مذاق کے بطور ہے اور وہ نضر بن حارث ہے جو تجارت کے سلسلہ میں حیرہ جایا کرتا تھا (وہاں) سے عجمیوں کی تاریخی کتابیں خرید لاتا تھا اور ان کتابوں کو اہل مکہ کو سنایا کرتا تھا، اور کہا کرتا تھا کہ محمد تو تم کو عاد وثمود کے قصے سناتے ہیں اور میں تم کو فارس اور روم کے قصے سناتا ہوں تو یہ لوگ اس کی بات کو پسند کرتے تھے اور قرآن سننا ترک کردیتے تھے، بیشک جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور کام بھی نیک کئے ان کے لئے نعمتوں والی جنتیں ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، حال مقدرہ ہے، یعنی ان کا جنت میں ہمیشہ رہنا مقدر ہوچکا ہے جب وہ اس میں داخل ہوجائیں گے اللہ کا وعدہ سچ یعنی اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے سچا وعدہ وہ غلبہ والا ہے اس کو کوئی شئ مغلوب نہیں کرسکتی کہ اس کو اس کے وعدوں اور وعیدوں کو پورا کرنے سے روک سکے، وہ بڑی حکمت والا ہے کہ وہ ہر شئ کو اس کے محل اور موقع ہی میں رکھتا ہے اسی نے آسمانوں کو بلا ستون بنایا (جیسا کہ) تم ان کو دیکھ رہے ہو عَمَدٌ عِمادٌ کی جمع ہے اور یہ بات اس
صورت میں بھی صادق آتی ہے کہ ستون بالکل ہی نہ ہوں اور زمین پر اونچے اونچے پہاڑ رکھ دیئے تاکہ تمکو لیکر (اضطرابی) حرکت
نہ کرے اور ہر قسم کے جانور زمین میں پھیلا دئیے اور ہم نے آسمان سے پانی پر سایا اس میں غیبت (سے تکلم کی جانب) التفات ہے پھر اس زمین میں طرح طرح کی (نباتات) کی عمدہ قسمیں اگائیں یہ ہیں اللہ کی پیدا کی ہوئی (چیزیں) یعنی اس کی مخلوق اب اے مکہ والو ! مجھے بتاؤ کہ غیر اللہ نے کیا پیدا کیا ؟ یعنی تمہارے معبودوں نے، حتی کہ تم نے انکو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرادیا، ما، استفہام انکاری مبتداء ہے اور ذَا بمعنی الذی مع اپنے صلہ کے اسکی خبر ہے، اور اَرُوْنی کو عمل سے روک دیا گیا ہے، اور اسکا مابعد دو مفعولوں کے قائم مقام ہے بل انتقال کے لئے ہے بلکہ ظالم صریح گمراہی میں ہیں ان کے شرک کرنے کی وجہ سے اور انہیں میں سے تم بھی ہو۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : اَیْ ھذِہِ الْآیَات، تِلْکَ اسم اشارہ بعید کی تفسیر، ھذا اسم اشارہ قریب سے کرکے اشارہ کردیا کہ سورت کی آیات عنداللہ رتبہ کے اعتبار سے رفع القدر ہیں، اگرچہ اذہان سے قریب ہیں، ھُوَ محذوف مان کردیا کہ ھُدًی ورحمۃً مبتداء محذوف ہے، اور اگر ھدًی اور رحمۃً منصوب ہوں تو آیات سے حال ہوں گے اور عامل تلکَ ، یُشیرُ کے معنی ہو کر ہوگا۔
قولہ : وَمِنَ الناس مَنْ یشْتَرِی لَھْوَ الحدیث اس سے پہلی آیت میں نیکوکار مومنین کا ذکر تھا، اس آیت میں بطور تقابل بدکار مشرکین کا ذکر ہے، پہلی آیت میں محسنین کے اوصاف کا ذکر تھا اس آیت میں مشرکین کے اوصاف کا ذکر ہے، وَمِنَ الناس میں من تبعیضیہ ہے، شان نزول کے اعتبار سے اگرچہ ایک خاص شخص نضربن حارث بن کلدہ مراد ہے مگر الفاظ عام ہیں جس میں لہو الحدیث سے دلچسپی رکھنے والا ہر شخص داخل ہے۔
قولہ : لَھْوٌ (ن) کا مصدر ہے، ایسے فضول کام میں مشغول ہونا کہ جس کی وجہ سے مفید کام متروک ہوجائے، یہاں مصدر اسم فاعل کے معنی میں ہے یعنی وہ فضول باتیں جو غافل کرنے والی ہوں لَھْوَ الحدیث یہ اضافت بمعنی من ہے، جیسا کہ شارح نے منہ کہہ کر اشارہ کردیا ہے، اصل میں لھوًا من الحدیث تھا، فضول اور بےسروپا قصوں کا کھیل تماشہ۔
قولہ : ای مَا یَلْھٰی (س) واحد مذکر مضارع معروف۔
قولہ : عَمّا یعنی . مابمعنی وہ چیز جو مقصود ہو، اب ترجمہ یہ ہوا لَھْوَ الحدیث وہ شئ جو مفید اور کار آمد شئ سے غافل کردے۔
قولہ : لِیَضِلَّ اور لِیُضِلَّ دونوں قراءتیں ہیں پہلی صورت میں ترجمہ یہ ہوگا، وہ لہو الحدیث اس لئے خرید کر لاتا ہے تاکہ خرافات اور بیہودہ قصہ گوئیوں میں ہمیشہ مشغول ہو کر گمراہ رہے، اور دوسری صورت میں ترجمہ ہوگا، تاکہ وہ دوسروں کو گمراہ کرے یعنی ضال بھی اور مضل بھی۔
قولہ : صَمَمًا یہ وَقرًا کی تفسیر ہے ” وقر “ ڈاٹ کو کہتے ہیں جو کہ محسوس اور خارجی چیز ہوتی ہے، یہاں معنوی ڈاٹ مراد ہے اور وہ ثقل اور بہراپن ہے نہ سننے یا سن کر عمل نہ کرنے کو وقرٌ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
قولہ : فبَشّرْہُ ای اَعلِمہُ بشِّرْہ کی تفسیر اَعْلِمہُ سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہاں خوشخبری دینا مراد نہیں ہے، کیونکہ عذاب الیم کی
خوشخبری کا کوئی مطلب نہیں، اس لئے کہ خوشخبری اچھی خبر کی ہوا کرتی ہے، مراد مطلقاً خبر دینا ہے۔
قولہ : وَذکرُ البَشَارَۃِ تَھَکُّمٌ یہ فبشِّرہۃ کی دوسری تفسیر ہے، شارح علام کے لئے مناسب تھا کہ یہاں واؤ کے بجائے او ذکر کرتے۔
دوسری تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ یہاں بشارت سے مراد بشارت ہی ہے مگر یہ تمسخراً اور استہزاءً ہے۔
قولہ : خالدین فیھا یہ جنّٰتٌ یا لَھُمْ کی ضمیر سے حال مقدرہ ہے، اس لئے کہ حال اور ذوالحال کا زمانہ ایک ہونا ضروری ہے۔
قولہ : وَعَدَھم اللہ ذٰلک اس تفسیر سے اشارہ کردیا کہ وَعْدًا مصدر ہے اور اپنے فعل کی جگہ واقع ہے یعنی فعل کو حذف کرکے مصدر کو اس کی جگہ رکھ دیا گیا ہے، تقدیر عبارت تھی وَعَدَھم اللہ وَعْدًا اور وَعْدًا مصدر مؤکد لنفسہٖ ہے، اس لئے کہ۔ لَھُمْ جناتُ النعیم معنی میں وَعَدَھُم اللہ ذٰلک کے ہے، اور حَقًّا مصدر مؤکدہ لغیرہ ہے اس لئے کہ ہر وعدہ حق نہیں ہوتا۔
قولہ : اُسْطُوَ انَۃٌ ستوں، کھمبا (ج) اساطین .
قولہ : ھُوَ صَادِق بان لا عَمَدَ اَصْلاً شارح (رح) تعالیٰ نے مذکورہ عبادت سے بِغیْرِ عَمَدٍ تَرَونَ کے دو معنی کی طرف اشارہ کیا ہے، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایسے ستونوں پر قائم کیا ہے جن کو تم نہیں دیکھ سکتے، اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ آسمانوں کو بغیر ستونوں کے قائم کیا ہے جن کو تم نہیں دیکھ سکتے، اور اس کا تیسرا مطلب یہ ہے کہ آسمانوں کو بغیر ستونوں کے پیدا فرمایا اس لئے کہ جب آسمانوں کے ستون ہیں ہی نہیں تو نظر کہاں سے آئیں گے، اس لئے کہ قضیہ سالبہ جس طرح موضوع کے لئے محمول کے ثابت نہ ہونے کی صورت میں صادق آتا ہے اسی طرح موضوع سرے سے موجود نہ ہونے کی صورت میں بھی صادق آتا ہے، زید اگر بیٹھا ہو تو زیدٌ لیسَ بقائمٍ کہنا صحیح ہے، اور اگر زید دنیا میں موجود ہی نہ ہو تب بھی زید لیس بقائم صادق ہے۔
قولہ : لَاِنْ تمیدَ بکم مفسر علام نے لام تعلیل اور لائے نافیہ مقدر مان کر اشارہ کردیا ہے کہ زمین پر پہاڑوں کے نصب کرنے کی علت زمین کو اضطرابی حرکت سے روکنا ہے پیش نظر نسخہ میں انْ سے پہلے لام مکتوب نہیں ہے، صاوی کے نسخہ میں لام تعلیلیہ بھی مکتوب ہے۔
قولہ : مَاذَا خَلَقَ الَّذِیْنَ مِنْ دونِہٖ ، غَیرِہ، دونِہٖ کی تفسیر ہے آلِھَتُکُمْ ، الذین کی تفسیر ہے مَاذَا میں مَا استفہام انکاری ہے اور مبتداء ہے اور ذابمعنی الذی مع اپنے صلہ کے مبتداء کی خبر ہے اور عائد محذوف ہے ای مَا الذی خلقہٗ آلِھَتُکُمْ اور اَرُوْنِی ممنوع العمل ہے لفظاً ، اس لئے کہ ما استفہامیہ سے پہلے واقع ہوا ہے اگر ارونی کو عمل دیدیا جائے، تو ما استفہامیہ کی صدارت کلام باطل ہوجائے گی۔
قولہ : مَا بعدہٗ سَدَّ مسَدَّ المفعولین یہ اس صورت میں درست ہے جبکہ ارونی کو متعدی بسہ مفعول مانا جائے تو اس صورت میں مفعول اول اَرُونی کی یاء ہوگی اور بعد قائم مقام دو مفعولوں کے ہوگا، مگر یہ اس کے خلاف ہے جو بیان کیا گیا ہے کہ اَرَیٰ جب اَخْبَرَ کے معنی میں ہو تو متعدی بدو مفعول ہوتا ہے جیسا کہ یہاں ہے، لہٰذا اس صورت میں شارح کا سد مسد المفعولین کہنا مناسب معلوم نہیں ہوتا بلکہ سَدَّ مسد المفعول الثانی فرماتے تو بہتر ہوتا۔
تفسیر وتشریح
الٓمّ یہ حروف مقطعات میں سے ہے جن کی حقیقی مراد تو اللہ ہی کو معلوم ہے، تاہم بعض مفسرین نے اس کے دو اہم فائدے بیان کئے ہیں، ایک یہ کہ یہ قرآن انہی حروف مقطعات سے مرتب ہے جن کو عرب استعمال کرتے ہیں پھر بھی قرآن کا مثل پیش کرنے سے عاجز ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ ہی کا نازل کردہ ہے، اور جس پیغمبر پر یہ نازل ہوا ہے وہ سچا رسول ہے۔
دوسرا یہ کہ مشرکین اپنے ساتھیوں کو اس قرآن کے سننے سے روکتے تھے کہ مبادا اس سے متاثر ہو کر مسلمان ہوجائیں، اللہ تعالیٰ نے مختلف سورتوں کا آغاز حروف مقطعات سے فرمایا تاکہ وہ اسکے سننے پر مجبور ہوجائیں، کیونکہ یہ انداز بیان نرالا اور اچھوتا تھا
محسنین، محسنین کی جمع ہے اسکے ایک معنی ہیں احسان کرنے والا، والدین کے ساتھ، اعزہ و اقارب کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا، دوسرے معنی ہیں نیکیاں اختیار کرنے والا اور برائیوں سے اجتناب کرنے والا، تیسرے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت نہایت خشوع وخصوع کے ساتھ کرنے والا جس طرح حدیث جبرائیل میں ہے أنْ تعبد اللہ کأنکَ تراہ میں یہی معنی مراد ہیں، قرآن ویسے تو سارے جہان کے لئے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے لیکن اس سے اصل فائدہ چونکہ محسنین اور متقین ہی اٹھاتے ہیں اسلئے یہاں محسنین کی تخصیص فرمائی محسنین کے اوصاف شمار کراتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نماز، زکوٰۃ، اور آخرت پر یقین کو بیان فرمایا، یہ تینوں چونکہ نہایت اہم ہیں اسلئے انکا بطور خاص ذکر کیا ورنہ محسنین و متقین تمام فرائض وسنن بلکہ مستحبات تک کی پابندی کرتے ہیں
یؤتون الزکوٰۃ اس آیت میں زکوٰۃ کا حکم ہے حالانکہ آیت مکی ہے اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کا حکم مکہ ہی میں ہجرت سے پہلے آچکا تھا، ورنہ یہ مشہور ہے کہ زکوٰۃ کا حکم ہجرت سے دوسرے سال نافذ ہوا، اس سے مراد نصابوں کا تعین اور اس کی تفصیل ہے اور حکومت اسلامیہ کی جانب سے اس کی وصول یابی اور مصرف کا انتظام ہے، یہ ہجرت کے دوسرے سال ہوا ہے، ابن کثیر نے اقیموا الصَّلوٰۃ وآتوا الزکوٰۃ کے تحت یہی تحقیق فرمائی ہے۔
ومن۔۔۔ الحدیث، اشترٰی کے لغوی معنی خریدنے کے ہیں، اور بعض اوقات ایک کام کے بدلے دوسرے کو اختیار کرنے کیلئے بھی لفظ اشتراء استعمال کیا جاتا ہے جیسے الذینَ اشتَرَوا الضَّللَٰۃَبِالْھُدٰی وغیرہ آیات میں یہی معنی مراد لئے گئے ہیں۔
شان نزول : اس آیت کا شان نزول ایک خاص واقعہ ہے کہ نضر بن حارث بن کلدہ مشرکین مکہ میں ایک بڑا تاجر تھا، اور تجارت کے لئے مختلف ملکوں کا سفر کرتا تھا وہ ملک فارس سے شاہان عجم، کسریٰ وغیرہ کے تاریخی قصے خرید کرلاتا اور مشرکین مکہ سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو قوم عاد وثمود کے واقعات سناتے ہیں، میں تمہیں ان سے بہتر رستم اور اسفند یار اور دوسرے شاہان فارس کے قصے سناتا ہوں، یہ لوگ اس قصہ کو شوق اور رغبت سے سننے لگے، کیونکہ اس میں کوئی تعلیم تو بھی نہیں جس پر عمل کرنے کی محنت اٹھانی پڑے صرف لذت آمیز کہانیاں تھیں ان کی وجہ سے بہت سے مشرکین اس سے پہلے کو کلام الہٰی کے اعجاز اور یکتائی کی وجہ سے اس قرآن سننے کی رغبت رکھتے تھے اور چوری چوری سنا بھی کرتے تھے ان لوگوں کو قرآن سے اعراض کا بہانا ہاتھ آگیا اور حضرت ابن عباس سے درمنشور میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ نضر بن الحارث باہر سے ایک گانے والی لونڈی خرید لایا تھا اور رقص و سرود کی محفل قائم کرتا تھا تاکہ لوگوں کو قرآن سننے سے روکے۔
لَھْوَ الْحَدِیْث : ” لہو الحدیث “ کے معنی اور تفسیر میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں حضرت ابن عباس اور ابن مسعود اور جابر (رض) کی ایک روایت میں اس کی تفسیر گانے بجانے سے کی گئی ہے۔ (رواہ الحاکم) اور جمہور صحابہ وتابعین اور عامتہ المفسرین کے نزدیک لہو الحدیث عام ہے تمام ان چیزوں کے لئے جو اللہ کی عبادت اور اس کی یاد سے غفلت میں ڈالدیں اس میں غنا ومزامیر بھی داخل ہیں، اور بےسروپا بیہودہ قصے کہانیاں بھی، امام بخاری نے اپنی کتاب الادب المفرد میں اور بیہقی نے اپنی سنن میں یہی تفسیر کی ہے اس میں فرمایا لَھْوَ الحدیث ھو الغِنَاء وَاشباھُہٗ.(معارف)
لہو ولعب اور تمتع و تفریح کے سازو سامان کی دو قسمیں ہیں ایک وہ کہ جن کا تعلق کھیل کود کے مقابلوں اور مظاہروں سے بڑھی ہوئی دلچسپی اور انہماک سے ہے جیسا کہ اس زمانہ میں کرکٹ وغیرہ، اور دوسری قسم لطف و تفریح کی گفتگو ہے جس میں پڑکر لوگ فرائض وواجبات سے غافل ہوجاتے ہیں اس میں قصے کہانیاں اور فحش افسانے آتے ہیں، یہاں اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں دونوں کو یکجا کردیا ہے اور ان کو لہو و لعب سے تعبیر کیا ہے۔ قرآن کا ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ یہ آیت آج کے جدید ترین اسالیب و آلات تسلی و تفریح پر بھی منطبق ہوتی ہے، خصوصاً ویڈیو، ٹیلی ویژن پر تو پوری طرح منطبق ہوتی ہے اس لئے یہ بیک وقت لہو بھی ہے اور حدیث بھی، تطبیق کی تکمیل آیت کریمہ کے اگلے لفظ سے مزید ہوجاتی ہے، فرمایا ومن الناس مَن یشترِی لھْوَ الحدیث لِیُضِلَّ عن سبیل اللہ اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ بیہودہ حکایتیں خریدتے ہیں تاکہ لوگوں کو بےسمجھے خدا کے راستے سے گمراہ کریں، اب ذرا غور کیجئے کہ اس کے حصول کے لئے رقم خرچ کرنے اور بازار سے خریدنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صرف نام لینا باقی رہ گیا، ویڈیو اور ٹیلی ویژن کا، یہ قرآن کا اعجاز ہی معلوم ہوتا ہے کہ آج سے چودہ سو برس پہلے جو کتاب نازل ہوئی اس میں ٹھیک ٹھیک چودہ سو سال بعد ظاہر ہونے والے آلات و حالات کی نشاندہی کی اور وہ حرف بحرف صادق آئی، آج سے چودہ سو برس پہلے جب یہ چیزیں ایجاد ہونا تو روکنار، کسی نے خواب میں بھی نہ دیکھا تھا اور نہ اس وقت کوئی تصور کرسکتا تھا، اس وقت اللہ کی کتاب نے کہہ دیا کہ، بہت سے لوگ ہیں جو لہو الحدیث خریدتے ہیں۔
غناء اور مزامیر کے احکام : آیت مذکورہ میں چند صحابہ کرام نے لہو الحدیث کی تفسیر گانے بجانے سے کی ہے اور دوسرے حضرات نے اگرچہ تفسیر عام قرار دی ہے، ہر ایسے کھیل کو جو اللہ سے غافل کرے، لہو الحدیث قرار دیا ہے مگر ان کے نزدیک بھی گانا بجانا لہو الحدیث میں داخل ہے، ابوداؤد اور ابن ماجہ نے سنن میں اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں حضرت ابو مالک اشعری سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لَیَشْربَنَّ ناسٌ مِنْ اُمَّتی الخمرَ یَسُمُّونَھا بِغَیْرِ اِسْمِھَا یْعزفُ عَلیٰ رُؤسِھِمْ بالمعازف والمغنیات یخسف اللہ بھم الارضَ ویجعل اللہ منھم القردَۃَ الخنازیرَ.
” میری امت کے کچھ لوگ شراب کو اس کا نام بدل کر پئیں گے ام کے سامنے معازف اور مزامیر کے ساتھ عورتوں کا گانا ہوگا، اللہ تعالیٰ ان کو زمین میں خسف کردے گا اور بعض کی صورتیں مسخ کرکے بندر اور خنزیر بنا دے گا “۔
رُوِیَ عن ابی ہریرہ قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إذَا (١) اتخفذ الفئ دولاً (٢) والامانۃ مغنمًا (٣) والزکوٰۃ مغرمًا، (٤)
و تعلم لغیرالدین، (٥) واطاع الرجل امْرأتہ (٦) وعقّ امَّہٗ ، (٧) واقصٰی اباہ، (٩) وظھرت الا صوات فی المساجد (١٠) وساد القبیلۃ فاسقُھم (١١) وکان زعیم القوم ارذلھم (١٢) واکرم الرجل مخافَۃ شرّہٖ (١٣) وظھرت القیان والمعازف (١٤) وشربت الخمر (١٥) ولَعَن آخر ھٰذہ الامۃ اَوَّلَھا فَلیَرْ تقبوا عند ذٰلک ریحًا حمراء وزلزلۃً ومسْخًا وقَذْفًاوَآیات تتَابِعُ کنظام بالٍ قطع سل کہ فتتابع بعضہ بعضًا . (رواہ الترمذی وقال ھٰذا حدیث حسن غریب)
” حضرت ابوہریرہ رجی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب غنیمت کو شخصی دولت بنالیا جائے اور جب لوگوں کی امانت کو مال غنیمت سمجھ لیا جائے، اور زکوٰۃ کو ایک تاوان سمجھا جانے لگے، اور علم دین کو دنیا طلبی کے لئے سیکھا جانے لگے اور جب شوہر اپنی بیوی کی اطاعت اور ماں کی نافرمانی کرنے لگے اور دوست کو اپنے قریب کرلے اور باپ کو دور رکھے اور مسجدوں میں شوروغل ہونے لگے اور قبیلہ کا سردار ان کا فاسق، بدکار بن جائے اور جب قوم کا سردار ان میں کا ارذل شخص بن جائے اور جب شریر آدمی کی عزت اس کے شر کے خوف سے کی جانے لگے اور جب گانے والی عورتوں اور باجوں گاجوں کا عام رواج ہوجائے اور جب شرابیں (کثرت) سے پی جانے لگیں اور اس امت کے آخری لوگ پہلے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں، تو اس وقت انتظار کرنا زمین میں دھنسنے کا اور صورتیں مسخ ہونے کا اور قیامت کی ایسی نشانیوں کا جو یکے بعد دیگرے اس طرح آئیں گی جیسے کسی ہار کی لڑی ٹوٹ جائے اور اس کے دانے بیک وقت بکھر جاتے ہیں “۔
تنبیہ : اس حدیث کے الفاظ کو بار بار پڑھئے اور دیکھئے کہ اس وقت کی دنیا اس حدیث کا پورا پورا نقشہ ہے یا نہیں ؟ اور وہ گناہ جو مسلمانوں میں عام ہوچکے ہیں اور بڑھتے جارہے ہیں انکی خبر چودہ سو سال پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیدی ہے، اور مسلمانوں کو متنبہ کیا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسے حالات سے باخبر رہیں، اور گناہوں سے بچنے بچانے کا پورا پورا اہتمام کریں، ورنہ جب یہ گناہ عام ہوجائینگے تو ایسے گناہ کرنے والوں پر آسمانی عذاب نازل ہونگے، اور پھر قیامت کی آخری علامات سامنے آجائیگی، مذکورہ گناہوں میں عورتوں کا گانا اور بجانے کے آلات طبلہ، سارنگی وغیرہ بھی ہیں، اس جگہ اس روایت کو اسی مناسبت سے نقل کیا گیا ہے۔ (معارف)
خلق۔۔۔ ترونھا ترکیب نحوی کے اعتبار سے اس کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ تَرَوْنَھَا کو بغیر ستونوں کے جیسا کہ تم دیکھتے ہو، یعنی اگر ستون ہوتے تم ان کو دیکھتے جب ستون نظر نہیں آتے تو معلوم ہوا کہ یہ آسمان کی عظیم الشان چھت بغیر ستونوں کے بنائی گئی ہے یہ تفسیر حضرت اور قتادہ سے منقول ہے۔ (ابن کثیر)
دوسرا مفہوم یہ ہے کہ تَرَوْنَھَا کی ضمیر سمٰوٰت کی طرف راجع ہو اور یہ جملہ مستقل قرار دیا جائے، اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے پیدا فرمایا جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، پہلی صورت میں ایک ترجمہ یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ آسمان ستونوں پر قائم ہیں لیکن ان ستونوں کو تم دیکھ نہیں سکتے وہ غیر مرئی ہیں۔ (یہ تفسیر ابن عباس و عکرمہ (رض) سے منقول ہے) ۔
10 Tafsir as-Saadi
الم
11 Mufti Taqi Usmani
Alif-Laam-Meem .