النساء آية ۱۰۶
وَّاسْتَغْفِرِ اللّٰهَ ۗ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ۚ
طاہر القادری:
اور آپ اللہ سے بخشش طلب کریں، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے،
English Sahih:
And seek forgiveness of Allah. Indeed, Allah is ever Forgiving and Merciful.
1 Abul A'ala Maududi
اور اللہ سے در گزر کی درخواست کرو، وہ بڑا درگزر فرمانے والا اور رحیم ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور اللہ سے معافی چاہو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،
3 Ahmed Ali
اور الله سے بخشش مانگ بے شک الله بخشنے والا مہربان ہے
4 Ahsanul Bayan
اور اللہ تعالٰی سے بخشش مانگو! (١) بیشک اللہ تعالٰی بخشش کرنے والا، مہربانی کرنے والا ہے۔
١٠٦۔١ یعنی بغیر تحقیق کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیانت کرنے والوں کی حمایت کی ہے، اس پر اللہ تعالٰی سے مغفرت طلب کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ فریقین میں سے جب تک کسی کی بابت پورا یقین نہ ہو کہ وہ حق پر ہے اس کی حمایت اور وکالت کرنا جائز نہیں۔ علاوہ ازیں اگر کوئی فریق دھوکے اور فریب اور اپنی چرب زبانی سے عدالت یا حاکم مجاز سے اپنے حق میں فیصلہ کرا لے گا درآں حالیکہ وہ صاحب حق نہ ہو تو ایسے فیصلے کی عند اللہ کوئی اہمیت نہیں۔ اس بات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اس طرح بیان فرمایا خبردار! میں ایک انسان ہی ہوں اور جس طرح میں سنتا ہوں اسی کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہوں ممکن ہے ایک شخص اپنی دلیل و حجت پیش کرنے میں تیز طرار اور ہوشیار ہو اور میں اس کی گفتگو سے متاثر ہو کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں درآنحالیکہ وہ حق پر نہ ہو اور اس طرح میں دوسرے مسلمان کا حق اسے دے دوں اسے یاد رکھنا چاہیے کہ یہ آگ کا ٹکڑا ہے۔ یہ اس کی مرضی ہے کہ اسے لے لے یا چھوڑ دے۔ (صحیح بخاری)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور خدا سے بخشش مانگنا بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو! بے شک اللہ تعالیٰ بخشش کرنے واﻻ، مہربانی کرنے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور اللہ سے مغفرت طلب کریں، یقینا اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اللہ سے استغفار کیجئے کہ اللہ بڑا غفور و رحیم ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور خدا سے بخشش مانگنا بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے
وَاسْتغفِرِ اللہ ان اللہ کان غفورارحیما، یعنی اس بات پر کہ بغیر تحقیق کے آپ نے جو خیانت کرنے والوں کی حمایت کی ہے اس پر اللہ سے مغفرت طلب کریں، اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو مومنین اس منافق کے ساتھ اس کی حمایت کرنے کی وجہ سے خیانت یعنی معصیت میں مبتیلا ہوگئے آپ ان کے لئے مغفرت طلب کریں مذکورہ واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فریقین میں سے جب تک کسی پر پورا یقین نہ ہو کہ وہ حق پر ہے اس کی حمایت اور وکالت کرنا جائز نہیں۔
اگر کوئی فریق دھوکے اور فریب اور چرب زبانی سے عدالت یا حاکم سے اپنے حق میں فیصلہ کرالے تو ایسے فیصلے کی عند اللہ کوئی حیثیت نہیں، اس بات کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں اسطرح بیان فرمایا ہے، خبردار میں ایک انسان ہی ہوں اور جس طرح میں سنتا ہوں اسی کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہوں ممکن ہے کہ ایک شخص اپنی دلیل اور حجت پیش کرنے میں تیز طرار ہو اور ہوشیار ہو اور اس طرح میں ایک مسلمان کا حق دوسرے کو دیدوں، اسے یاد رکھنا چاہیے کہ یہ آگ کا ٹکڑا ہے یہ اس کی مرضی ہے کہ اسے لے لے یا چھوڑ دے۔ (صحیح بخاری)
روداد کے مطابق فیصلہ کرنا گناہ نہیں : اگرچہ قاضی کی حیثیت سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روادا کے مطابق فیصلہ کردینا بجائے خود آپ کے لئے کوئی گناہ نہ ہوتا، اور ایسی صورتیں قاضیوں کو پیش آتی رہتی ہیں کہ ان کے سامنے غلط روداد پیش کرکے حقیقت کے خلاف فیصلے حاصل کرلئے جاتے ہیں، لیکن ایسے وقت جبکہ اسلام اور کفر کے درمیان ایک زبردست کشمکش برپا تھی، اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روداد مقدمہ کے مطابق فیصلہ صادر فرما دتے تو اسلام کے مخالفوں کو آپ کے خلاف بلکہ پوری اسلامی جماعت اور خود وحدت اسلامی کے خلاف ایک زبردست اخلاقی حربہ مل جاتا وہ یہ کہتے پھرتے کہ اجی یہاں حق و انصاف کا کیا سوال ہے ؟ یہاں تو وہی جتھ بندی اور عصبیت کام کررہی ہے جس کے خلاف تبلغ کی جاتی ہے، اسی خطرے سے بچانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر مقدمے میں مداخلت فرمائی۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اجتہاد کا حق حاصل تھا : اِناانزلنا الیک الکتاب بالحق الخ، اس آیت سے پانچ باتیں ثابت ہوئیں، (١) ایک یہ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسے مسائل میں جن میں قرآن کریم کی کوئی صریح نص نہ ہو اپنی رائے سے اجتہاد کا حق حاصل تھا اور آپ نے مہمات میں بسا اوقات فیصلے اپنے اجتہاد سے فرمائے بھی ہیں، (٢) دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اجتہاد وہی معتبر ہے جو قرآنی اصول اور نصوص سے ماخوذ ہو خالص اپنی رائے اور خیال معتبر نہیں (٣) تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آپ کا اجتہاد دوسرے ائمہ مجتہدین کے اجتہاد سے مختلف تھا اسلئے کہ ائمہ مجتہدین کے اجتہاد میں غلطی کا احتمال ہمیشہ باقی رہتا ہے بخلاف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجتہاد کے کہ اگر آپ سے کبھی اجتہادی خطا ہوجاتی تو حق تعالیٰ اس پر آپ کو متنبہ فرمادیتے اور حق کے مطابق کرادیتے، اور اگر آپ نے اجتہاد سے کوئی فیصلہ فرمایا اور حق تعالیٰ کی طرف سے اس میں تنبیہ وغیرہ نہیں آئی تو یہ اس بات کی علامت تھی کہ آپ کا فیصلہ صحیح ہے، (٤) چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ قرآن سے سمجھتے تھے وہ اللہ ہی کا سمجھا یا ہوا تھا اس میں غلطی کا امکان نہ ہوتا تھا بخلاف دیگر علماء مجتہدین کے، یہ بات لفظ بِمَا اَرَاکَ اللہ سے سمجھ میں آتی ہے، اسی وجہ سے جب ایک شخص نے فاروق اعظم (رض) ، سے کہا فاحکم بما اراک اللہ تو آپ نے اس کو ڈانٹا کہ یہ خصوصیت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہے، (٥) پانچویں بات یہ معلوم ہوئی کہ کسی جھوٹے مقدمہ کی دانستہ پیروی کرنا یا اس کی تائید و حمایت کرنا سب حرام ہے۔ (معارف ملحصّا)
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَّاسْتَغْفِرِ اللَّـهَ﴾ ” اور اللہ سے مغفرت طلب کریں۔“ اگر آپ سے کوئی کوتاہی صادر ہوئی ہے تو اس کی بخشش طلب کیجیے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴾” بے شک اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے“ جو کوئی اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہے اور توبہ کر کے اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس کے بعد اس کو عمل صالح کی توفیق سے نوازتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ثواب کے حصول اور اس کے عقاب کے زوال کا موجب بنتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur Allah say maghfirat talab kero , beyshak Allah boht bakhshney wala , bara meharban hai .