النساء آية ۱۲
وَلَـكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَـكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصِيْنَ بِهَاۤ اَوْ دَ يْنٍ ۗ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَاِنْ كَانَ لَـكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَاۤ اَوْ دَ يْنٍ ۗ وَاِنْ كَانَ رَجُلٌ يُّوْرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّلَهٗۤ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَاِنْ كَانُوْۤا اَكْثَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاۤءُ فِى الثُّلُثِ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصٰى بِهَاۤ اَوْ دَ يْنٍ ۙ غَيْرَ مُضَاۤرٍّ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ اللّٰهِ ۗ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَلِيْمٌ ۗ
طاہر القادری:
اور تمہارے لئے اس (مال) کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمہارے لئے ان کے ترکہ سے چوتھائی ہے (یہ بھی) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد، اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جا رہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا (ماں کی طرف سے) ایک بھائی یا ایک بہن ہو (یعنی اخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے، پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ تقسیم بھی) اس وصیت کے بعد (ہو گی) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے، اور اللہ خوب علم و حلم والا ہے،
English Sahih:
And for you is half of what your wives leave if they have no child. But if they have a child, for you is one fourth of what they leave, after any bequest they [may have] made or debt. And for them [i.e., the wives] is one fourth if you leave no child. But if you leave a child, then for them is an eighth of what you leave, after any bequest you [may have] made or debt. And if a man or woman leaves neither ascendants nor descendants but has a brother or a sister, then for each one of them is a sixth. But if they are more than two, they share a third, after any bequest which was made or debt, as long as there is no detriment [caused]. [This is] an ordinance from Allah, and Allah is Knowing and Forbearing.
1 Abul A'ala Maududi
اور تمہاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو اس کا آدھا حصہ تمہیں ملے گا اگر وہ بے اولاد ہوں، ورنہ اولاد ہونے کی صورت میں ترکہ کا ایک چوتھائی حصہ تمہارا ہے جبکہ وصیت جو انہوں ں نے کی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو اُنہوں نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے اور وہ تمہارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو، ورنہ صاحب اولاد ہونے کی صورت میں اُن کا حصہ آٹھواں ہوگا، بعد اس کے کہ جو وصیت تم نے کی ہو وہ پوری کر دی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کر دیا جائے اور اگر وہ مرد یا عورت (جس کی میراث تقسیم طلب ہے) بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں، مگر اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے، جبکہ وصیت جو کی گئی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو میت نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے، بشر طیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دانا و بینا اور نرم خو ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور تمہاری بیبیاں جو چھوڑ جائیں اس میں سے تمہیں آدھا ہے اگر ان کی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے ترکہ میں سے تمہیں چوتھائی ہے جو وصیت وہ کر گئیں اور دَین نکال کر اور تمہارے ترکہ میں عورتوں کا چوتھائی ہے اگر تمہارے اولاد نہ ہو پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں جو وصیت تم کر جاؤ اور دین نکال کر، اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کا ترکہ بٹنا ہو جس نے ماں باپ اولاد کچھ نہ چھوڑے اور ماں کی طرف سے اس کا بھائی یا بہن ہے تو ان میں سے ہر ایک کو چھٹا پھر اگر وہ بہن بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو سب تہائی میں شریک ہیں میت کی وصیت اور دین نکال کر جس میں اس نے نقصان نہ پہنچایا ہو یہ اللہ کا ارشاد ہے اور اللہ علم والا حلم والا ہے،
3 Ahmed Ali
جو مال تمہارحی عورتیں چھوڑ مریں اس میں تمہارا آدھا حصہ ہے بشرطیکہ ان کی اولاد نہ ہو او راگر ان کی اولاد ہو تو اس میں سےجو چھوڑ جائیں ایک چوتھائي تمہاری ہے اس وصیت کے بعد جو وہ کر جائیں یا قرض کے بعد اور عورتوں کے لیے چوتھائی مال ہے جو تم چھوڑ کر مرو بشرطیکہ تمہاری اولاد نہ ہوپس اگر تمہاری اولاد ہو تو جو تم نے چھوڑا اس میں ان کا آٹھواں حصہ ہے اس وصیت کے بعد جو تم کر جاؤ یا قرض کے بعد اوراگر وہ مرد یا عورت جس کی یہ میراث ہے باپ بیٹا کچھ نہیں رکھتا اور اس میت کا ایک بھائي یا بہن ہے تو دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے پس اگر اس سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں وصیت کی بات جوہو چکی ہو یا قرض کے بعد بشرطیکہ اورروں کا نقصان نہ ہو یہ الله کا حکم ہے اور الله جاننے والا تحمل کرنے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
تمہاری بیویاں جو چھوڑ مریں اور ان کی اولاد نہ ہو تو آدھوں آدھ تمہارا اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے چھوڑے ہوئے مال میں سے تمہارے لئے چوتھائی حصہ ہے (١) اس کی وصیت کی ادائیگی کے بعد جو وہ کر گئیں ہوں یا قرض کے بعد۔ اور جو (ترکہ) تم چھوڑ جاؤ اس میں سے ان کے لئے چوتھائی ہے اگر تمہاری اولاد نہ ہو اور اگر تمہاری اولاد ہو تو پھر انہیں تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا (٢) اس وصیت کے بعد جو تم کر گئے ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد۔ اور جن کی میراث لی جاتی ہے وہ مرد یا عورت کلالہ ہو یعنی اس کا باپ بیٹا نہ ہو (٣) اور اس کا ایک بھائی اور ایک بہن ہو (٤) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ اگر اس سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں (٥) اس وصیت کے بعد جو کی جائے اور قرض کے بعد (٦) جب کہ اوروں کا نقصان نہ کیا گیا ہو (٧) یہ مقرر کیا ہوا اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور اللہ تعالٰی دانا ہے بردبار۔
١٢۔١ اولاد کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد یعنی پوتے بھی اولاد کے حکم میں ہیں، اس پر امت کے علماء کا اجماع ہے (فتح القدیر، ابن کثیر) اس طرح مرنے والے شوہر کی اولاد خواہ اس کی وارث ہونے والی موجودہ بیوی سے ہو یا کسی اور بیوی سے۔ اسی طرح مرنے والی عورت کی اولاد اس کے وارث ہونے والے موجودہ خاوند سے یا پہلے کسی خاوند سے۔
١٢۔٢ بیوی اگر ایک ہوگی تب بھی اسے چوتھا یا آٹھواں حصہ ملے گا اگر زیادہ ہونگی تب بھی یہی حصہ ان کے درمیان تقسیم ہوگا، ایک ایک کو چوتھائی یا آٹھواں حصہ نہیں ملے گا یہ بھی ایک اجماعی مسئلہ ہے (فتح القدیر)
١٢۔٣ کلالہ سے مراد وہ میت ہے، جس کا نہ باپ ہو نہ بیٹا۔ یہ اکلیل سے مشتق ہے اکلیل ایسی چیز کو کہتے ہی جو کہ سر کو اس کے اطراف وجوانب سے وارث قرار پایا جائے (فتح القدیر و ابن کثیر) اور کہا جاتا ہے کہ کلالہ کلل سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں تھک جانا۔ گویا اس شخص تک پہنچتے پہنچتے سلسلہ نسل ونسب تھک گیا اور آگے نہ چل سکا۔
١٢۔٤ اس سے مراد اخیافی بہن بھائی ہیں جن کی ماں ایک اور باپ الگ الگ کیونکہ عینی بھائی بہن یا علاتی بہن بھائی کا حصہ میراث میں اس طرح نہیں ہے اور اس کا بیان اس سورت کے آخر میں آرہا ہے یہ مسئلہ بھی اجماعی ہے (فتح القدیر) اور دراصل نسل کے لئے مرد و زن ( ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ) 4۔ النساء;11) کا قانون چلتا ہے یہی وجہ ہے کہ بیٹے بیٹیوں کے لئے اس جگہ اور بہن بھائیوں کے لئے آخری آیت نساء میں ہر دو جگہ یہی قانون ہے البتہ صرف ماں کی اولاد میں چونکہ نسل کا حصہ نہیں ہوتا اس لئے وہاں ہر ایک کو برابر کا حصہ دیا جاتا ہے بہرحال ایک بھائی یا ایک بہن کی صورت میں ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔
١٢۔٥ ایک سے زیادہ ہونے کی صورت میں یہ سب ایک تہائی حصے میں شریک ہونگے، نیز ان میں مذکر اور مؤنث کے اعتبار سے بھی فرق نہیں کیا جائے گا۔ بلا تفریق سب کو مساوی حصہ ملے گا، مراد مرد ہو یا عورت۔
١٢۔٦ میراث کے احکام بیان کرنے کے ساتھ تیسری مرتبہ کہا جا رہا ہے کہ ورثے کی تقسیم، وصیت پر عمل کرنے اور قرض کی ادائیگی کے بعد کی جائے جس سے معلوم ہوتا ہے ان دونوں باتوں پر عمل کرنا کتنا ضروری ہے۔ پھر اس پر بھی اتفاق ہے کہ سب سے پہلے قرضوں کی ادائیگی کی جائے گا اور وصیت پر عمل اس کے بعد کیا جائے گا لیکن اللہ تعالٰی نے تینوں جگہ وصیت کا ذکر دین (قرض) سے پہلے کیا حالانکہ ترتیب کے اعتبار سے دین کا ذکر پہلے ہونا چاہیے تھا۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ قرض کی ادائیگی کو تو لوگ اہمت نہیں دیتے ہیں نہ بھی دیں تو لینے والے زبردستی بھی وصول کر لیتے ہیں لیکن وصیت پر عمل کرنے کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے اور اکثر لوگ اس معاملے میں تساہل یا تغافل سے کام لیتے ہیں اس لئے وصیت کا پہلے ذکر فرما کر اس کی اہمیت واضح کردی گئی (روح المعانی)
١٢۔٧ بایں طور پر وصیت کے ذریعے سے کسی وارث کو محروم کر دیا جائے یا کسی کا حصہ گھٹا دیا جائے یا کسی کا حصہ بڑھا دیا جائے یا یوں ہی وارثوں کو نقصان پہنچانے کے لئے کہہ دے کہ فلاں شخص سے میں نے اتنا قرض لیا ہے درآں حالیکہ کچھ بھی نہیں لیا ہو، گویا اقرار کا تعلق وصیت اور دین دونوں سے ہے اور دونوں کے ذریعے سے نقصان پہنچانا ممنوع اور کبیرہ گناہ ہے۔ نیز ایسی وصیت بھی باطل ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو مال تمہاری عورتیں چھوڑ مریں۔ اگر ان کے اولاد نہ ہو تو اس میں نصف حصہ تمہارا۔ اور اگر اولاد ہو تو ترکے میں تمہارا حصہ چوتھائی۔ (لیکن یہ تقسیم) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو ان کے ذمے ہو، کی جائے گی) اور جو مال تم (مرد) چھوڑ مرو۔ اگر تمہارے اولاد نہ ہو تو تمہاری عورتوں کا اس میں چوتھا حصہ۔ اور اگر اولاد ہو تو ان کا آٹھواں حصہ (یہ حصے) تمہاری وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو تم نے کی ہو اور (ادائے) قرض کے (بعد تقسیم کئے جائیں گے) اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا مگر اس کے بھائی بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ اور اگر ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ حصے بھی ادائے وصیت و قرض بشرطیکہ ان سے میت نے کسی کا نقصان نہ کیا ہو (تقسیم کئے جائیں گے) یہ خدا کا فرمان ہے۔ اور خدا نہایت علم والا (اور) نہایت حلم والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ مریں اور ان کی اوﻻد نہ ہو تو آدھوں آدھ تمہارا ہے اور اگر ان کی اوﻻد ہو تو ان کے چھوڑے ہوئے مال میں سے تمہارے لئے چوتھائی حصہ ہے۔ اس وصیت کی ادائیگی کے بعد جو وه کر گئی ہوں یا قرض کے بعد۔ اور جو (ترکہ) تم چھوڑ جاؤ اس میں ان کے لئے چوتھائی ہے، اگر تمہاری اوﻻد نہ ہو اور اگر تمہاری اوﻻد ہو تو پھر انہیں تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا، اس وصیت کے بعد جو تم کر گئے ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد۔ اور جن کی میراث لی جاتی ہے وه مرد یا عورت کلالہ ہو یعنی اس کا باپ بیٹا نہ ہو۔ اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے اور اس سے زیاده ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں، اس وصیت کے بعد جو کی جائے اور قرض کے بعد جب کہ اوروں کا نقصان نہ کیا گیا ہو یہ مقرر کیا ہوا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ دانا ہے بردبار
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جو ترکہ تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں اس میں سے آدھا تمہارے لئے ہوگا اگر ان کی اولاد نہ ہو اور اگر ان کے اولاد ہو تو پھر تمہیں ان کے ترکہ کا چوتھا حصہ ملے گا۔ یہ تقسیم اس وصیت کو پورا کرنے کے بعد ہوگی، جو انہوں نے کی ہو اور اس قرضہ کی ادائیگی کے بعد جو ان کے ذمہ ہو۔ اور وہ (بیویاں) تمہارے ترکہ میں سے چوتھے حصہ کی حقدار ہوں گی۔ اگر تمہاری اولاد نہ ہو۔ اور اگر تمہارے اولاد ہو تو پھر ان کا آٹھواں حصہ ہوگا اور (یہ تقسیم) اس وصیت کو پورا کرنے کے بعد ہوگی جو تم نے کی ہو اور اس قرض کو ادا کرنے کے بعد جو تم نے چھوڑا ہو۔ اور اگر میت (جس کی وراثت تقسیم کی جانے والی ہے) کلالہ ہو یعنی مرد ہو یا عورت بے اولاد ہو اور اس کے ماں باپ نہ ہوں۔ مگر بھائی بہن ہوں تو اگر اس کا صرف ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو بھائی یا بہن کو چھٹا حصہ ملے گا۔ اور اگر بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو پھر وہ کل ترکہ کی ایک تہائی میں برابر کے شریک ہوں گے۔ مگر (یہ تقسیم) اس وصیت کو پورا کرنے اور قرضہ کے ادا کرنے کے بعد ہوگی جو کی گئی (جبکہ وصیت کرنے والا وارثوں کو) ضرر پہنچانے کے درپے نہ ہو۔ یہ اللہ کی طرف سے لازمی ہدایت ہے، اور اللہ بڑے علم و حلم والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور تمہیںاپنی بیویوں کے ترکے میں سے اگر ان کی اولاد نہ ہو نصف حصہ ملے گا اور اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے ترکے میں سے چوتھائی تمہارا ہو گا، یہ تقسیم میت کی وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی اور تمہاری اولاد نہ ہو تو انہیں تمہارے ترکے میں سے چوتھائی ملے گااور اگر تمہاری اولاد ہو تو انہیں تمہارے ترکے میںسے آٹھواں حصہ ملے گا، یہ تقسیم تمہاری وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی اور اگر کوئی مرد یا عورت بے اولادہو اور والدین بھی زندہ نہ ہوں اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو بھائی اور بہن میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، پس اگر بہن بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی حصے میں شریک ہوں گے، یہ تقسیم وصیت پرعمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی، بشرطیکہ ضرر رساں نہ ہو، یہ نصیحت اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ بڑا دانا، بردبار ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور جو مال تمہاری عورتیں چھوڑ مریں، اگر ان کے اولاد نہ ہو تو اس میں نصف حصہ تمہارا اور اگر اولاد ہو تو ترکے میں تمہارا حصہ چوتھائی (لیکن یہ تقسیم) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو ان کے ذمہ ہو کی جائے گی) اور جو مال تم مرد چھوڑ مرو۔ اگر تمہارے اولاد نہ ہو تو تمہاری عورتوں کا اس میں چوتھا حصہ اور اگر اولاد ہو تو ان کا آٹھواں حصہ (یہ حصے) تمہاری وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو تم نے کی ہو اور (ادائے) قرض کے بعد تقسیم کیے جائیں گے اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا مگر اس کے بھائی یا بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ۔ اور اگر ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ حصے بھی) ادائے وصیت و قرض بعد کے بشرطیکہ انسے میت نے کسی کا نقصان نہ کیا ہو (تقسیم کیے جائیں گے) یہ خدا کا فرمان ہے اور خدا نہایت علم والا (اور) نہایت حلم والا ہے۔
وَلَکُمْ نِصْفُ مَ اتَرَکَ اَزْوَاجُکُمْ (الآیۃ) سابقہ آیت میں نسبی رشتہ داروں کے حصوں کا بیان تھا۔ اس آیت میں دیگر مستحقین کا ذکر ہے جن کا میت سے نسبی تعلق نہیں ہے بلکہ زوجیت کا رشتہ ہے۔ اولاد کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد یعنی پوتے بھی اولاد کے حکم میں ہوتے ہیں اس پر امت کا اجماع ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ فوت ہونے والی عورت نے اگر اولاد نہ چھوڑی ہو تو شوہر کو بعد ادائے دین اور انفاذ و صیت مرحومہ کے کل مال کا نصف ملے گا، اور باقی نصف میں دوسرے ورثاء مثلاً مرحومہ کے والدین، بھائی، بہن حسب قاعدہ حصہ پائیں گے، اور اگر مرحومہ نے اولاد چھوڑی ہو اس شوہر سے ہو یا پہلے شوہر سے ہو تو موجودہ شوہر کو مرحومہ کے مال سے اداء دَیْن اور انفاذ وصیت اور کفن دفن کے اخرجات کے بعد مال کا چوتھائی حصہ ملے گا، بقیہ دیگر مستحقین کے درمیان حسب قاعدہ تقسیم ہوگا۔ اور اگر مرنے والا شوہر ہے اور اس نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی نہ اس بیوی سے اور نہ کسی دوسری بیوی سے تو بعد انفاذ وصیت اور اداء دَیْن بیوی کو مرحوم کے مال سے چوتھائی حصہ ملے گا بیوی خواہ ایک ہو یا ایک سے زیادہ، اور اگر مرنے والے شوہر نے اولاد بھی چھوڑی خواہ اسی بیوی سے ہو یا دوسری بیوی سے تو بعد اداء دین، اگر دَیْن ہو اور بعد انفاذ وصیت، اگر وصیت کی ہو، بیوی کو اٹھواں حصہ ملے گا بیوی خواہ ایک ہو یا ایک سے زیادہ۔
وَاِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّورَثُ کَلٰلَۃً ، کلالہ کی متعدد تعریفیں کی گئی ہیں مشہور تعریف یہ ہے کہ جس کے اصول و فروع نہ ہوں وہ کلالہ ہے، یعنی جس کے نہ دادا پردادا ہوں اور نہ بیٹے پوتے۔ صاحب روح المعانی نے لکھا ہے کہ کلالہ اصل میں مصدر ہے جو کلال کے معنی میں ہے اور کلال کے معنی ہیں تھک جانا، جو ضعف پر دلالت کرتا ہے، کلالہ کا اطلاق اس مرنے والے پر بھی کیا گیا ہے جس نے نہ اولاد چھوڑی ہو اور نہ والد۔
حاصل کلام : حاصل کلام یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مرد یا عورت وفات پاجائے اور اس کے نہ باپ ہو اور نہ دادا، اور نہ اولاد اور اس کے ایک بھائی یا بہن اخیافی (ماں شریک) ہو تو ان میں سے اگر بھائی ہے تو اس کو سدس (چھٹا) حصہ ملے گا اور اگر بہن ہو یا دو بھائی یا دو بہن ہوں تو یہ سب مرنے والے کے کل مال کے تہائی حصے میں شریک ہوں گے اور اس میں مذکر اور مؤنث سب برابر ہوں گے۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں، ولَیْسَ فی الفرائض موضع یکون فیہ الذّکر وَاْلُانثیٰ سَوَاء، اَلّا فی میراثِ الِاخْوۃ لِاُم، یعنی فرائض میں سوائے ماں شریک بھائی بہنوں کے کوئی صورت ایسی نہیں کہ جس میں مذکر اور مؤنث برابر کے حصہ دار ہوں۔
وصیت کے مسائل : اس آیت میں تین مرتبہ وصیت کا ذکر آیا ہے، میت کی تجہیز و تکفین کے بعد کل مال سے قرضہ ادا کرنے کے بعد جو بچے اس میں سے ایک تہائی مال میں وصیت نافذ ہوگی، اگر اس سے زیادہ وصیت ہو تو اس کا شرعاً اعتبار نہیں، ضابطہ کے مطابق ادائے دَیْن وصیت پر مقدم ہے اور دَیْن میں مہر بھی شامل ہے اگر ادا نہ کیا ہو۔
مسئلہ : وارث کے حق میں وصیت کرنا باطل ہے، اگر کسی نے اپنے وارث کے حق میں وصیت کی تو اس کا کوئی اعتبار نہیں وارث کے لئے میراث ہی کافی ہے۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا : اِن اللہ قد اَعْطٰی کلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہٗ ، فلا وَصِیَّۃ لِوَارِثٍ ۔ اللہ نے ہر حق دار کو اس کا حق دیدیا ہے پس کسی وارث کے حق میں کوئی وصیت معتبر نہیں۔
البتہ اگر دیگر ورثاء اجازت دیدیں تو وصیت نافذ ہوگی، باقی مال شرعی طریقہ پر تقسیم کیا جائیگا جس میں اس وارث کو بھی اپنے حصہ کی میراث ملے گی، بعض آیتوں میں اِلاّ اَنْ یشاء الورثۃ، کا استثناء بھی مذکور ہے۔ (کما ذکرہ صاحب الھدایۃ، معارف)
حَیْرَ مُضَارٍّ کی تفسیر : مطلب یہ ہے کہ مرنے والے کے لئے یہ جائز نہیں کہ وصیت یا دَیْن کے ذریعہ ورثاء کو نقصان پہنچائے، وصیت یا دَیْن کے ذریعہ ورثاء کو ضرر پہنچانے کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں مثلاً یہ کہ قرض کا جھوٹا اقرار کرلے، یا اپنے ذاتی مال کے بارے میں امانت کا اقرار کرے کہ فلاں کی امانت ہے تاکہ اس میں میراث جاری نہ ہو، یا ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کرے، یا کسی شخص پر اس کا قرض ہو جو وصول نہ ہوا ہو لیکن یہ کہ دے کہ وصول ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ﴾ یعنی میت کے ذمے اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگا، اس کی وجہ وصیت کی اہمیت کو واضح کرنا ہے (تاکہ ورثاء اس کو نظر انداز نہ کریں) علاوہ ازیں وصیت کا نفاذ ورثاء پر شاق گزرتا ہے (اور وہ اس پر عمل کرنے سے بالعموم گریز کرتے ہیں) وگرنہ قرض کی ادائیگی، وصیت پر اصل مال میں سے ہوگی۔ جہاں تک وصیت کا معاملہ ہے تو وہ صرف ایک تہائی مال یا اس سے کم ہیں، نیز صرف غیر وارث اجنبیوں کے لیے جائز ہے اس کے علاوہ اگر وصیت کی گئی ہے تو وہ نافذ نہیں ہوگی البتہ اگر ورثاء اجازت دے دیں تو نافذ ہوسکتی ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ﴾ ” تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون نفع کے اعتبار سے تمہارے زیادہ قریب ہے“ یعنی اگر وراثت کے حصے تمہاری عقل اور تمہارے اختیار کے مطابق بنائے جاتے تو اس قدر نقصان پہنچتا جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کیونکہ عقل ناقص ہے اور ہر زمان و مکان کے مطابق جو چیز زیادہ اچھی اور زیادہ لائق ہے اس کی معرفت حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ پس انسان نہیں جانتا کہ اس کی اولاد یا والدین میں سے دینی اور دنیاوی مقاصد کے حصول میں کون اس کے لیے زیادہ فائدہ مند اور اس کے زیادہ قریب ہے۔
﴿فَرِيضَةً مِّنَ اللَّـهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴾” اللہ کی طرف سے مقرر کیا ہوا ہے بے شک اللہ پورے علم اور کامل حکمتوں والا ہے“ یعنی وراثت کے ان حصوں کو اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس نے جو شریعت بنائی ہے اسے محکم کیا ہے اور اس نے جو چیز مقدر کی ہے اسے بہترین اندازے کے ساتھ مقدر کیا ہے۔ عقل ان جیسے احکام وضع کرنے سے قاصر ہے جو ہر حال اور ہر زمان و مکان کے موافق اور نفاذ کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
شوہر اور بیویوں کے لیے وراثت کے احکام :۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ وَلَكُمْ ﴾ یعنی اے شوہرو !﴿نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۚ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ﴾ ” اور جو کچھ تمہاری بیویاں (ترکے میں) چھوڑ جائیں اس میں سے نصف کے تم حق دار ہو بشرطیکہ ان کی اولاد نہ ہو۔ اگر ان کی اولاد ہے تو تمہیں جو کچھ وہ چھوڑ جائیں اس کا چوتھائی ملے گا (یہ تقسیم) مرنے والی کی وصیت کی تعمیل اور اس کے قرضے کی (ادائیگی) کے بعد (عمل میں لائی جائے) اور ان کے لیے جو کچھ تم چھوڑ جاؤ اس کا چوتھائی حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری اولاد نہ ہو اور اگر تمہاری اولاد ہو تو ان کے لیے تمہارے ترکے کا آٹھواں حصہ ہوگا (یہ تقسیم) تمہاری وصیت کی تکمیل یا قرضے ( کی ادائیگی) کے بعد (عمل میں لائی جائے) “ اولاد کے مسمی کے زمرے میں، جس کے وجود اور عدم وجود کو میاں بیوی کی وراثت میں شرط بنایا گیا ہے، صلبی اولاد یا بیٹے کی اولاد لڑکے یا لڑکیاں خواہ ایک ہو یا متعدد جو اس شوہر یا بیوی سے ہوں یا کسی اور سے، شمار ہوتی ہیں اس میں بیٹیوں کی اولاد شامل نہیں اور اس پر اجماع ہے۔
(کلالہ) کا معنی اور اس کے احکام :۔
﴿وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ ﴾” اور اگر کوئی مرد ہو (جو ترکہ چھوڑ جائے) اور اس کا نہ باپ ہو نہ بیٹا اور بھائی یا بہن ہو“ اس سے مراد اخیافی (ماں شریک) بہن بھائی ہیں جیسا کہ بعض قراءت میں بھی وارد ہے اور فقہاء کا اجماع ہے کہ یہاں بہن بھائی سے مراد اخیافی بہن بھائی ہیں۔ اگر میت کلالہ ہے یعنی میت کا باپ ہے نہ بیٹا، یعنی باپ ہے نہ دادا، بیٹا ہے نہ پوتا،بیٹی ہے نہ پوتی۔۔۔ خواہ نیچے تک چلے جائیں۔۔۔ ایسی میت کو کلالہ کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کی تفسیر بیان کی ہے اور اسی مفہوم پر اجماع واقع ہوگیا۔ وللہ الحمد
﴿فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا ﴾ یعنی بھائی اور بہن دونوں میں سے ہر ایک کے لیے (السدس) چھٹا حصہ ہے﴿فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ ﴾ یعنی اگر وہ ایک سے زائد ہوں ﴿فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ﴾یعنی ایک تہائی میں سب شریک ہیں اور ایک تہائی سے زیادہ نہیں ملے گا خواہ ان کی تعداد دو سے بڑھ جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ﴾ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ اس میں مرد اور عورتیں سب برابر ہیں کیونکہ لفظ ” شریک“ مساوات کا تقاضا کرتا ہے۔ (یعنی اس صورت میں مرد کو عورت سے دگنا حصہ نہیں، بلکہ برابر کا حصہ ملے گا) لفظ ”کلالہ“ دلالت کرتا ہے کہ فروع نیچے تک اور اصول مرد اوپر تک خواہ کتنی ہی دور کیوں نہ جائیں، وہ ماں کی اولاد کو ساقط کردیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اخیافی بہن بھائیوں کو صرف کلالہ کی صورت میں وارث بنایا ہے اور اگر وہ کلالہ کی صورت میں وارث نہیں بنتے تو وہ کسی اور صورت میں میت کے وارث نہیں بن سکتے۔ اس پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ﴾دلالت کرتا ہے کہ ”مسئلہ حماریہ“ کے مطابق حقیقی بھائی ساقط ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر میت کا شوہر، ماں اور حقیقی بھائی بھی ہوں تو شوہر کے لیے نصف ترکہ، ماں کے لیے چھٹا حصہ اور اخیافی بھائیوں کے لیے ایک تہائی حصہ ہے اور حقیقی بھائی ساقط ہوجائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک تہائی ترکہ کو اخیافی بھائیوں کی طرف مضاف کیا ہے اگر اس ترکہ میں حقیقی بھائیوں کو شریک کرلیا جائے تو یہ اس چیز کو جمع کرنا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تفریق کی ہے۔ نیز اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اخیافی بھائی اصحاب فروض ہیں اور حقیقی بھائی عصبہ ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ نے فرمایا ”میراث کے مقررہ حصے ان کے حق داروں کو دو جو بچ جائے وہ اس مرد کو دے دو جو میت کا سب سے زیادہ قریبی ہے۔ [صحيح البخاري، الفرائض، باب ميراث الوالد من أبيه و أمه، ح: 6732 و صحيح مسلم، الفرائض، باب الحقوا الفرائض بأهلها.... ح: 1615]
اور اصحاب فروض وہ لوگ ہیں جن کا حصہ اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیا ہے۔
زیر بحث کلالہ کے مسئلہ میں اصحاب فروض کو دینے کے بعد کچھ باقی نہیں بچتا اس لیے حقیقی بھائی ساقط ہوجائیں گے اور یہی صحیح موقف ہے۔ رہی حقیقی بھائیوں اور بہنوں کی وراثت، یا باپ کی طرف سے بھائیوں اور بہنوں کی وراثت، تو یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ﴾ (النساء: 4؍176) میں مذکور ہے۔ پس ایک حقیقی یا باپ کی طرف سے بہن کے لیے نصف ترکہ ہے۔ اگر دو ہوں تو ان کے لیے دو تہائی ترکہ ہے۔
اگر کلالہ کی ایک حقیقی بہن، ایک یا زائد باپ کی طرف سے بہنیں ہوں تو ترکہ کا نصف حصہ حقیقی بہن کو ملے گا اور دو تہائی میں سے باقی جو کہ چھٹا حصہ بنتا ہے دو تہائی کی تکمیل کے لیے باپ کی طرف سے بہن یا بہنوں کو ملے گا۔ اگر حقیقی بہنیں دو تہائی حصہ لے لیں تو باپ کی طرف سے بہنیں ساقط ہوجائیں گی جیسا کہ بیٹیوں اور پوتیوں کے بارے میں گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔ اگر بھائی اور بہنیں وارث ہوں تو ایک بھائی کو دو بہنوں کے مساوی حصہ ملے گا۔
قاتل اور مختلف دین رکھنے والے کے لیے وراثت :۔
اگر یہ کہا جائے کہ آیا قرآن کریم سے قاتل، غلام، غیر مسلم، جزوی غلام، مخنث، باپ کی طرف سے بھائیوں کی معیت میں دادا، عول، رد، ذوالارحام، بقیہ عصبہ، بیٹیوں کی معیت میں باپ شریک بہنوں یا پوتیوں کی وراثت مستفاد ہوتی ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں اس بارے میں بعض دقیق اشارے اور تنبیہات موجود ہیں، گہرے غور و فکر کے بغیر ان اشارات کو سمجھنا مشکل ہے۔
رہا قاتل اور مخالف دین یعنی غیر مسلم، تو یہ بات معروف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مال کو ورثاء میں ان کے میت سے قرب اور دینی اور دنیاوی فوائد کے اعتبار سے تقسیم کرنے کی جو حکمت بیان کی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وارث نہیں بن سکتے۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس حکمت بالغہ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے :﴿ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ﴾ (النساء :4؍11) ” تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون نفع کے اعتبار سے تمہارے زیادہ قریب ہے۔ “
یہ بات معلوم اور واضح ہے کہ قاتل نے اپنے مورث کو سب سے بڑا نقصان پہنچایا ہے لہٰذا وہ امر جو اس کے لیے وارث کا موجب ہے، قتل کے ضرر کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ قتل اس نفع کی ضد ہے جس پر وراثت مرتب ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ قتل سب سے بڑا مانع ہے جو میراث کے حصول سے روکتا ہے اور قطع رحمی کا باعث بنتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ ۗ ﴾(الانفال :8؍ 75) ” اور رشتہ دار اللہ کے حکم کے مطابق ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں“ نیز ایک شرعی قاعدہ مشہور ہے کہ ” جو کوئی وقت سے پہلے کوئی چیز حاصل کرنے میں جلدی کرتا ہے اسے اس چیز سے محرومی کی سزا دی جاتی ہے۔ “
مندرجہ بالا توضیح سے واضح ہوتا ہے کہ اگر وارث، مورث کے دین سے مختلف دین رکھتا ہے تو وہ وراثت سے محروم ہے۔ وراثت کا موجب، جو کہ نسب کا اتصال ہے اور وراثت کا مانع جو کہ اختلاف دین ہے اور اختلاف دین ہر لحاظ سے وارث کو مورث سے علیحدہ کردیتا ہے۔ پس موجب اور مانع میں تعارض ہے۔ مانع زیادہ قوی ہے اور موجب وراثت کو روک دیتا ہے۔ بنا بریں مانع کے ہوتے ہوئے موجب پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ اس اصول کی وضاحت اس امر سے ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے حقوق کو کفار رشتہ داروں کے حقوق پر اولیت دی ہے۔ اس لیے جب مسلمان وفات پا جاتا ہے تو اس کا مال اس شخص کی طرف منتقل ہوگا جو اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد ﴿وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ ۗ ﴾ تو اسی صورت میں صادق آئے گا جب وارث اور مورث کا دین ایک ہو۔
وارث اور مورث کے دین میں تباین اور اختلاف کی صورت میں دینی اخوت مجرد نسبی اخوت پر مقدم ہے۔ علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ جلاء الافھام میں رقمطراز ہیں ” اس لفظ کے معنی پر مواریث کی آیت میں غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان توارث کو ” عورت“ کی بجائے ” زوجہ“ کے لفظ کے ساتھ معلق کیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں آیا ہے ﴿وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ ﴾ اس میں اس بات کی تعلیم ہے کہ یہ توارث اس زوجیت کی بنا پر واقع ہوا ہے جو کامل مشابہت اور تناسب کا تقاضا کرتی ہے۔ مومن اور کافر کے مابین کوئی مشابہت اور کوئی تناسب نہیں ہوتا اس لیے ان کے مابین توارث واقع نہیں ہوسکتا قرآن کریم کے مفردات اور مرکبات کے اسرار نہاں اس سے بہت بلند ہیں کہ عقل مندوں کی عقل اس کا احاطہ کرسکے۔۔۔ “
غلاموں کے لیے وراثت کے احکام :۔
جہاں تک غلام کا معاملہ ہے تو نہ وہ خود کسی وارث بن سکتا ہے اور نہ کوئی اس کا وارث بن سکتا ہے۔۔۔ رہا یہ معاملہ کہ کوئی اس کا وارث نہیں بن سکتا تو یہ بالکل واضح ہے کیونکہ اس کا کوئی مال ہی نہیں جس کا کوئی وارث ٹھہرے، بلکہ اس کے برعکس اس کا تمام مال اس کے آقا کی ملکیت ہے رہی یہ بات کہ وہ وارث بھی نہیں ہوسکتا، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا، اگر اس کے ہاتھ میں کوئی چیز آتی بھی ہے تو وہ اس کے مالک کی ملکیت ہوتی ہے۔ پس وہ میت کے لیے اجنبی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کے اس قسم کے ارشادات : ﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾اور ﴿وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ﴾ اور ﴿فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ﴾ وغیرہ اس کے لیے ہے جو ملکیت کا اثبات کرسکتا ہو اور غلام کے لیے چونکہ ملکیت کا اثبات ممکن نہیں، اس لیے معلوم ہوا کہ وہ میراث کا حق دار نہیں۔
رہا وہ شخص جو جزوی طور پر آزاد اور جزوی طور پر غلام ہو تو اس کے احکام میں بھی تبعیض ہوگی۔ پس اس میں جو آزادی کا حصہ ہے، اس کی وجہ سے اللہ نے وراثت کا جو حق مترتب کیا ہے، اس کا وہ مستحق ہوگا، کیونکہ آزادی کی وجہ سے وہ مالک بننے کے قابل ہے اور اس میں جو غلامی کا حصہ ہے، اس کی وجہ سے وہ اس کے قابل نہیں۔ تب اس صورت میں یہ جزوی طور پر آزاد ہے۔ وراثت میں حصہ لے گا اور خود اس کی میراث بھی اس کے ورثاء میں تقسیم ہوگی اور اپنی آزادی کی مقدار کے مطابق دوسروں کو وراثت سے محجوب کرے گا اور جب غلام، قابل تعریف اور قابل مذمت، ثواب کا حق دار اور عذاب کا حق دار، ان موجبات کی مقدار کے مطابق ہوسکتا ہے، جو اسے ان امور کا مستحق بناتی ہیں، تو یہ معاملہ بھی اسی طرح ہے۔
مخنث کے لیے وراثت کے احکام :۔
مخنث کا معاملہ تین امور سے خالی نہیں ہوتا۔
مخنث کی ذکوریت واضح ہوتی ہے (یعنی اس میں مرد کی علامتیں پائی جاتی ہیں) یا اس کی انوثیت واضح ہوتی ہے۔ (اس میں عورت کی علامتیں غالب ہوتی ہیں) یا اس کا مذکر ہونا یا مونث ہونا واضح نہیں ہوتا تب اس کو ” مشکل“ کہتے ہیں۔
اگر مخنث کا معاملہ واضح ہے تو اس کی وراثت کا مسئلہ بھی واضح ہے۔ چنانچہ اگر اس میں مرد کی علامتیں غالب ہیں تو اس پر اس نص کا اطلاق ہوگا جو مردوں کے بارے میں وارد ہوئی ہے اور اگر اس میں عورت کی علامتیں غالب ہیں تو اس پر عورتوں کے احکام کا اطلاق ہوگا۔ اگر وہ مشکل ہے تو اگر وہ مرد اور عورت ہیں جن کا حصہ وراثت مختلف نہیں۔ (بلکہ یکساں ہے) جیسے اخیافی بہن بھائیوں کا معاملہ ہے تو اس میں معاملہ بالکل واضح ہے۔
اور اگر اس کو مرد مقدر کرتے ہوئے یا عورت مقدر کرتے ہوئے اس کا حصہ وراثت مختلف ہو اور ہمارے پاس کے بارے میں تیقن کا کوئی ذریعہ نہ ہو تو ہم اسے وہ حصہ نہ دیں گے جو دونوں صورتوں میں سب سے زیادہ بنتا ہے کیونکہ اس میں ان لوگوں پر ظلم کا احتمال ہے جو اس کی معیت میں وراثت کے حق دار ہیں اور نہ ہم اسے کم ترین حصہ دیں گے کیونکہ اس صورت میں خود اس پر ظلم کا احتمال ہے۔ پس ان کے درمیان اعتدال کی راہ اختیار کرنا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ﴾ (المائدہ :5؍ 8) ” عدل کیا کرو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ “
اس قسم کی صورتحال میں ہمارے پاس اس سے زیادہ کوئی عدل کا راستہ نہیں جس کا گزشتہ سطور میں ہم ذکر کرچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ﴾(البقرہ :2؍286) ” اللہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی طاقت کے مطابق“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (التغابن :64؍16) ” پس جہاں تک ہوسکے اللہ سے ڈرو“
دادا کے لیے وراثت کے احکام :۔
رہا حقیقی بھائیوں یا باپ شریک (علاتی) بھائیوں کی موجودگی میں میت کے دادا کے لیے وراثت کا مسئلہ کہ آیا مذکورہ بھائی دادا کی معیت میں وراثت میں سے حصہ لیں گے یا نہیں۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ کی کتاب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس فتویٰ کی تائید کرتی ہے کہ دادا بھائیوں کو معجوب کر دے گا، چاہے وہ حقیقی بھائی ہوں یا علاتی (باپ شریک) یا اخیافی (ماں شریک) ہوں جیسے باپ ان سب کو معجوب کردیتا ہے۔
اس کی توضیح یہ ہے کہ قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر دادا کو باپ کہا گیا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَـٰهَكَ وَإِلَـٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ ﴾ (البقرہ :2؍133) ” جب یعقوب وفات پانے لگے تو انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ انہوں نے جواب دیا تیرے معبود اور تیرے آباء ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی“ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کا قول نقل فرمایا : ﴿وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ﴾(یوسف :12؍38) ” میں نے اپنے آباء ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کی ملت کی پیروی کی ہے۔ “
پس اللہ تعالیٰ نے دادا اور باپ کے دادا کو ” باپ“ کے نام سے موسوم کیا ہے یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ دادا اپ کے مقام پر ہوتا ہے اور وراثت میں اس کا وہی حصہ ہے جو باپ کا حصہ ہے جس کو باپ معجوب کرتا ہے اس کو دادا بھی معجوب کرے گا (یعنی باپ کی عدم موجودگی میں)
اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ میت کے باپ کی عدم موجودگی میں میت کی میراث میں میت کی اولاد وغیرہ کی معیت میں اس کے بھائیوں، چچاؤں کے بیٹوں کے ہوتے ہوئے دادا کا وہی حکم ہے جو باپ کا حکم ہے۔۔۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ اخیافی بھائیوں کے علاوہ دوسرے بھائیوں کو معجوب کرنے میں بھی دادا کا وہی حکم ہو جو باپ کا حکم ہے اور جب بیٹے کا بیٹا صلبی بیٹے کی مانند ہے تو دادا باپ کے مقام پر کیوں نہیں ہوس کتا اور جب باپ کا دادا میت کے بھتیجے کی موجودگی میں، اہل علم کے اجماع کے مطابق، بھتیجے کو معجوب کر دے گا۔ تو پھر میت کا دادا میت کے بھائی کو کیوں معجوب نہیں کرسکتا؟ لہٰذا جو داد کی معیت میں بھائیوں کو وارث قرار دیتا ہے اس کے پاس کوئی نص ہے نہ اشارہ نہ تنبیہ اور نہ قیاص صحیح۔
عول اور اس کے احکام :۔
عول کے مسائل کے احکام قرآن مجید سے مستفاد ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب مواریث کے لیے حصے مقرر کردیئے ہیں اور ان کی دو حالتیں ہوتی ہیں۔
وہ ایک دوسرے کو معجوب کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔ اگر وہ ایک دوسرے کو معجوب کرتے ہیں تو وراثت میں معجوب ساقط ہوجاتا ہے اور وہ کسی چیز کا مستحق نہیں رہتا۔ اگر وہ ایک دوسرے کو معجوب نہیں کرتے تو وہ مندرجہ ذیل دو صورتوں سے خالی نہیں۔ یا تو وہ ترکہ کے تمام حصے کے وارث نہیں بنتے۔ (یعنی ورثاء کو ان کے شرعی حصے دینے کے بعد بھی ترکہ بچ جاتا ہے)
یا وہ ترکہ کے تمام حصوں کے وارث اس طرح بنتے ہیں کہ یہ مقرر کردہ حصے مجموعی طور پر نہ تو ترکہ سے کم ہوتے ہیں اور نہ زیادہ یا مقرر کردہ حصے ترکہ سے بڑھ جاتے ہیں۔
پہلی دو صورتوں میں ہر وارث اپنا پورا حصہ حاصل کرتا ہے مگر آخری صورت میں جب حصے ترکہ سے بڑھ جائیں تو یہ بھی دو حالتوں سے خالی نہیں۔ یا تو ہم بعض ورثاء کا وہ حصہ کم کردیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مقرر کیا ہے اور نہ میں سے باقی ورثاء کا حصہ پورا پورا عطا کرتے ہیں۔ یہ ترجیح بلا دلیل ہے ان میں سے کوئی ایک نقصان اٹھانے کا کسی دوسرے سے زیادہ مستحق نہیں۔
پس دوسری صورت کا یوں تعین ہوتا ہے کہ ہم امکانی حد تک ہر وارث کو اس کا پورا حصہ ادا کرتے ہیں اور موجود ترکہ کو ان کے درمیان ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کردیتے ہیں جیسے مقروض کے اس مال کو قرض خواہوں کے مابین تقسیم کیا جاتا ہے جو قرض خواہوں کے مطالبے سے کم ہوتا ہے۔ اب اس مال کو عول کے اصول کو استعمال کئے بغیر تقسیم کرنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم فرائض (وراثت) میں عول کا مسئلہ بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرما دیا ہے۔
رو اور اس کے احکام :۔
عول کے اس طریقے کے بالکل برعکس روکا اصول معلوم ہوا، اس لیے کہ جب اصحاب فروض میں ترکہ کو تقسیم کرنے کے بعد ترکہ میں سے کچھ بچ جائے اور اس کا کوئی حق دار نہ ہو اور قریب یا دور میت کا عصہ بھی نہ ہو۔ اگر یہ بچا ہوا ترکہ کسی ایک کو عطا کردیں تو یہ بلا دلیل ترجیح ہے اور یہ بچا ہوا کسی ایسے شخص کو دے دینا جو میت کا قریبی نہیں ہے تو یہ گناہ، کج روی اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مخالفت ہے ﴿ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ﴾ (الانفال :8؍75) ” اور رشتہ دار اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔“ پس یہ بات متحقق ہوگئی کہ بچا ہوا ترکہ اصحاب فروض کو ان کے حصے کے مطابق واپس لوٹا دینا چاہئے۔
زوجین کی طرف رد کے احکام :۔
ان فقہاء کے نزدیک جو بچے ہوئے ترکے کو زوجین کی طرف لوٹانے کے قائل نہیں، ان کے مسلک کے مطابق زوجین اپنے مقررہ حصے سے زیادہ لینے کے مستحق نہیں، کیونکہ ان کے درمیان نسبی قرابت نہیں ہوتی۔ مگر صحیح مسلک یہ ہے کہ رد کے ضمن میں زوجین کا حکم بھی وہی ہے جو باقی ورثاء کا ہے۔ مذکورہ بالا دلیل سب کو اسی طرح شامل ہے جس طرح اصول عول میں سب شامل ہیں۔
میراث میں ذوی الارحام کا حکم :۔
اس کے ذریعے سے ذوی الارحام کی وراثت بھی معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اگر میت کے پیچھے کوئی ایسا شخص نہ بچے جو اصحاب فروض (جن کے حصے اللہ کی طرف سے مقرر ہیں) یا عصبہ ( میت کا قریب ترین رشتے دار) میں شمار ہوتا ہو تو میراث کا معاملہ دو امور کے مابین گھومتا ہے۔ ترکہ کا مال بیت المال میں جمع ہو جس سے اجنبی لوگ استفادہ کریں یا ترکہ میت کے ان اقارب کی طرف لوٹ جائے جو ورثاء کے متفق علیہ قریبی ہیں۔ ان دونوں میں سے دوسرا مسلک متعین ہے اور اس کی صحت پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے ﴿ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ﴾ (الانفال :8؍75)
اس لیے میراث کو اولوالارحام کے علاوہ کسی اور طرف پھیرنا اس شخص کو محروم کرنا ہے جو دوسروں سے زیادہ اس کا مستحق ہے۔ پس ذوی الارحام کو وارث بنانا متعین ہوگیا اور جب ان کو وارث بنانا متعین ہوگیا تو یہ معلوم ہوگیا کہ کتاب اللہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے حصے مقرر نہیں فرمائے۔ نیز یہ کہ ان کے اور میت کے درمیان کچھ واسطے ہیں جن کے سبب سے وہ میت کے رشتہ دار بنے پس ان کو اسی مقام پر رکھا جائے گا جس کے ذریعے سے وہ میت کے قریبی بنتے ہیں۔ واللہ اعلم
میت کا عصبہ کون ہے؟ اور میراث میں اس کا حکم :۔
رہی باقی عصبہ کی وراثت جیسے بیٹے، بھائی، بھتیجے، چچا اور چچاؤں کے بیٹے، تو ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ﴿ أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ﴾ (صحیح البخاری‘الفرائض‘ باب میراث ابن الابن اذالم یکن ابن ‘ ح:6735وصحیح البخاری ‘ الفرائض ‘ باب الحقوا الفرائض ، اھلھا۔۔۔‘ح 1615۔) ” وراثت کے مقررہ حصے ان کے حق داروں کو دے دو جو بچ جائے اس مرد کو دے دو جو میت کا سب سے زیادہ قریبی ہے۔ “
اور فرمایا : ﴿وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ﴾(النساء :4؍33) ” جو مال ماں اور قریبی رشتہ دار چھوڑ کر مر جاتے ہیں ہم نے ہر ایک کے حق دار مقرر کردیئے ہیں۔“ جب ہم اصحاب فروض کو ان کے مقررہ حصے عطا کر دیں اور کچھ باقی نہ بچے تو عصبہ کسی چیز کا حق دار نہیں ہوتا اور اگر ترکہ میں سے کچھ باقی بچ جائے تو عصبہ میں سے جو سب سے زیادہ مستحق ہیں وہ اپنی جہات اور درجات کے مطابق حصہ لیں گے۔
عصبہ کی جہات :۔
عصبہ کی پانچ جہات ہیں۔ بیٹے، باپ، بھائی اور بھتیجے، چچا اور چچاؤں کے بیٹے، پھر ولاء، ان میں سے اس کو مقدم رکھا جائے گا جو جہت کے اعتبار سے سب سے قریب ہے۔ اگر تمام ایک ہی جہت میں واقع ہوں تو ان میں وہ زیادہ مستحق ہے جو منزلت کے اعتبار سے سب سے قریب ہے۔ اگر تمام ایک ہی جہت میں واقع ہوں تو ان میں وہ زیادہ مستحق ہے جو منزلت کے اعتبار سے زیادہ قریب ہے۔ اگر منزلت کے اعتبار سے سب برابر ہوں تو جو سب سے زیادہ قوی ہے وہ زیادہ مستحق ہے اور وہ حقیقی بھائی ہے۔ اگر ہر پہلو سے برابر ہوں تو سب عصبہ میں شریک ہوں گے، واللہ اعلم۔
رہا باپ شریک بہنوں کا بیٹیوں کی معیت یا بھتیجوں کی معیت میں عصبہ ہونا اور ان کا ترکہ میں سے اپنے حصوں سے زائد لینا۔۔۔ تو قرآن مجید میں ایسی کوئی چیز نہیں جو یہ دلالت کرتی ہو کہ بہنیں بیٹیوں کی وجہ سے ساقط ہوجائیں گی۔ جب صورتحال یہ ہوا اور بیٹیوں کے اپنا حصہ لینے کے بعد کچھ بچ جائے تو وہ بہنوں کو دیا جائے گا اور ان کو چھوڑ کر اس عصبہ کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی جو ان سے بعید تر ہے۔ مثلاً بھتیجا، چچا اور وہ لوگ جو ان سے بھی بعید تر ہیں واللہ اعلم۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur tumhari biwiyan jo kuch chorr ker jayen , uss ka aadha hissa tumhara hai , ba-shartey-kay unn ki koi aulad ( zinda ) naa ho . aur agar unn ki koi aulad ho to uss wasiyyat per amal kernay kay baad jo unhon ney ki ho , aur unn kay qarz ki adaegi kay baad tumhen unn kay tarkay ka chothai hissa milay ga . aur tum jo kuch chorr ker jao uss ka aik chothai unn ( biwiyon ) ka hai , ba-shartey-kay tumhari koi aulad ( zinda ) naa ho . aur agar tumhari koi aulad ho to uss wasiyyat per amal kernay kay baad jo tum ney ki ho , aur tumharay qarz ki adaegi kay baad unn ko tumharay tarkay ka aathwan hissa milay ga . aur agar woh mard ya aurat jiss ki meeras taqseem honi hai , aisa ho kay naa uss kay walaiden zinda hon naa aulad , aur uss ka aik bhai ya aik behan zinda ho to unn mein say her aik chatay hissay ka haq daar hai . aur agar woh iss say ziyada hon to woh sabb aik tehai mein shareek hon gay . ( magar ) jo wasiyyat ki gaee ho uss per amal kernay kay baad aur marney walay kay zimmay jo qarz ho uss ki adaegi kay baad , ba-shartey-kay ( wasiyyat ya qarz kay iqrar kernay say ) uss ney kissi ko nuqsan naa phonchaya ho . yeh sabb kuch Allah ka hukum hai , aur Allah her baat ka ilm rakhney wala , burdbaar hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
وراثت کی مزید تفصیلات
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مرد و تمہاری عورتیں جو چھوڑ کر مریں اگر ان کی اولاد نہ ہو تو اس میں سے آدھوں آدھ حصہ تمہارا ہے اور اگر ان کے بال بچے ہوں تو تمہیں چوتھائی ملے گا، وصیت اور قرض کے بعد۔ ترتیب اس طرح ہے پہلے قرض ادا کیا جائے پھر وصیت پوری کی جائے پھر ورثہ تقسیم ہو، یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام علماء امت کا اجماع ہے، پوتے بھی اس مسئلہ میں حکم میں بیٹیوں کی ہی طرح ہیں بلکہ ان کی اولاد در اولاد کا بھی یہی حکم ہے کہ ان کی موجودگی میں خاوند کو چوتھائی ملے گا۔ پھر عورتوں کو حصہ بتایا کہ انہیں یا چوتھائی ملے گا یا آٹھواں حصہ چوتھائی تو اس حالت میں کہ مرنے والے خاوند کی اولاد نہ ہو، اور آٹھواں حصہ اس حالت میں کہ اولاد ہو، اس چوتھائی یا آٹھویں حصے میں مرنے والے کی سب بیویاں شامل ہیں چار ہوں تو ان میں یہ حصہ برابر برابر تقسیم ہوجائے گا تین یا دو ہوں تب بھی اور اگر ایک ہو تو اسی کا یہ حصہ ہے آیت (من بعد وصیتہ) کی تفسیر اس سے پہلی آیت میں گزر چکی ہے۔ (کلالہ) مشتق ہے اکلیل سے اکلیل کہتے ہیں اس تاج وغیرہ کو جو سر کو ہر طرف سے گھیر لے، یہاں مراد یہ ہے کہ اس کے وارث ارد گرد حاشیہ کے لوگ ہیں اصل اور فرع یعنی جڑیا شاخ نہیں، صرف ابوبکر صدیق (رض) سے کلالہ کا معنی پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں میں اپنی رائے سے جواب دیتا ہوں اگر ٹھیک ہو تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے اور اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بری الذمہ ہیں، کلالہ وہ ہے جس کا نہ لڑکا ہو نہ باپ، حضرت عمر (رض) جب خلیفہ ہوئے تو آپ نے بھی اس سے موافقت کی اور فرمایا مجھے ابوبکر کی رائے سے خلاف کرتے ہوئے شرم آتی ہے (ابن جریر وغیرہ) ابن عباس فرماتے ہیں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سب سے آخری زمانہ پانے والا میں ہوں میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا فرماتے تھے بات وہی ہے جو میں نے کہی ٹھیک اور درست یہی ہے کہ کلالہ اسے کہتے ہیں جس کا نہ ولد ہو والد، حضرت علی، ابن مسعود، ابن عباس، زید بن ثابت رضوان اللہ علیہم اجمعین، شعبی، نخعی، حسن، قتادہ، جابر بن زید، حکم رحمتہ اللہ علیہم اجمعین بھی یہی فرماتے ہیں، اہل مدینہ اہل کوفہ اہل بصرہ کا بھی یہی قول ہے ساتوں فقہاء چاروں امام اور جمہور سلف و خلف بلکہ تمام یہی فرماتے ہیں، بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے اور ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی آیا ہے، ابن لباب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ کلالہ وہ ہے جس کی اولاد نہ ہو لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور ممکن ہے کہ راوی نے مراد سمجھی ہی نہ ہو پھر فرمایا کہ اس کا بھائی یا بہن ہو یعنی ماں زاد، جیسے کہ سعد بن وقاص وغیرہ بعض سلف کی قرأت ہے، حضرت صدیق وغیرہ سے بھی یہی تفسیر مروی ہے تو ان میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے اگر زیادہ ہوں تو ایک ثلث میں سب شریک ہیں، ماں زاد بھائی باقی وارثوں سے کئی وجہ سے مختلف ہیں، ایک تو یہ کہ یہ باوجود اپنے ورثے کے دلانے والے کے بھی وارث ہوتے ہیں مثلاً ماں دوسرے یہ کہ ان کے مرد و عورت یعنی بہن بھائی میراث میں برابر ہیں تیسرے یہ کہ یہ اسی وقت وارث ہوتے ہیں جبکہ میت کلالہ ہو پس باپ دادا کی یعنی پوتے کی موجودگی میں یہ وارث نہیں ہوتے، چوتھے یہ کہ انہیں ثلث سے زیادہ نہیں ملتا تو گویہ کتنے ہی ہوں مرد ہوں یا عورت، حضرت عمر کا فیصلہ ہے کہ ماں زاد بہن بھائی کا ورثہ آپس میں اس طرح بٹے گا کہ مرد کے لئے دوہرا اور عورت کے لئے اکہرا، حضرت زہری فرماتے ہیں حضرت عمر ایسا فیصلہ نہیں کرسکتے تاوقتیکہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنا ہو، آیت میں اتنا تو صاف ہے کہ اگر اس سے زیادہ ہوں تو ثلث میں شریک ہیں، اس صورت میں علماء کا اختلاف ہے کہ اگر میت کے وارثوں میں خاوند ہو اور ماں ہو یا دادی ہو اور دو ماں زاد بھائی ہوں اور ایک یا ایک سے زیادہ باپ کی طرف سے بھائی ہوں تو جمہور تو کہتے ہیں کہ اس صورت میں خاوند کو آدھا ملے گا اور ماں یا دادی کو چھٹا حصہ ملے گا اور ماں زاد بھائی کو تہائی ملے گا اور اسی میں سگے بھائی بھی شامل ہوں گے قدر مشترک کے طور پر جو ماں زاد بھائی ہے، امیر المومنین حضرت عمر فاروق (رض) کے زمانہ میں ایک ایسی ہی صورت پیش آئی تھی تو آپ نے خاوند کو آدھا دلوایا اور ثلث ماں زاد بھائیوں کو دلوایا تو سگے بھائیوں نے بھی اپنے تئیں پیش کیا آپ نے فرمایا تم ان کے ساتھ شریک ہو، حضرت عثمان سے بھی اسی طرح شریک کردینا مروی ہے، اور دو روایتوں میں سے ایک روایت ایسی ہے ابن مسعود اور زید بن ثابت اور ابن عباس (رض) سے بھی مروی ہے، حضرت سعید بن مسیب، قاضی شریح، مسروق، طاؤس، محمد بن سیرین، ابراہیم نخعی، عمر بن عبدالعزیز، ثوری اور شریک رحہم اللہ کا قول بھی یہی ہے، امام مالک اور امام شافعی اور امام اسحاق بن راھویہ بھی اسی طرف گئے ہیں، ہاں حضرت علی بن ابو طالب (رض) اس میں شرکت کے قائل نہ تھے بلکہ آپ اولاد ام کو اس حالت میں ثلث دلواتے تھے اور ایک ماں باپ کی اولاد کو کچھ نہیں دلاتے تھے اس لئے کہ یہ عصبہ ہیں اور عصبہ اس وقت پاتے ہیں جب ذوی الفرض سے بچ جائے، بلکہ وکیع بن جراح کہتے ہیں حضرت علی سے اس کے خلاف مروی ہی نہیں، حضرت ابی بن کعب حضرت ابو موسیٰ اشعری کا قول بھی یہی ہے، ابن عباس سے بھی مشہور یہی ہے، شعبی، ابن ابی لیلی، ابو حنیفہ، ابو یوسف، محمد بن حسن، حسن بن زیادہ، زفر بن ہذیل، امام احمد، یحییٰ بن آدم، نعیم بن حماد، ابو ثور، داؤد ظاہری بھی اسی طرف گئے ہیں ابو الحسن بن لبان فرضی نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، ملاحظہ ہو ان کی کتاب الایجاز پھر فرمایا یہ وصیت کے جاری کرنے کے بعد ہے، وصیت ایسی ہو جس میں خلاف عدل نہ ہو کسی کو ضرر اور نقصان نہ پہنچایا گیا ہو نہ کسی پر جبر و ظلم کیا گیا ہو، کسی وارث کا نہ ورثہ مارا گیا ہو نہ کم و بیش کیا گیا ہو، اس کے خلاف وصیت کرنے والا اور ایسی خلاف شرع وصیت میں کوشش کرنے والا اللہ کے حکم اور اس کی شریعت میں اس کے خلاف کرنے والا اور اس سے لڑنے والا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں وصیت میں کسی کو ضرر و نقصان پہنچانا کبیرہ گناہ ہے (ابن ابی حاتم) نسائی میں حضرت ابن عباس کا قول بھی اسی طرح مروی ہے بعض روایتوں میں حضرت ابن عباس سے اس فرمان کے بعد آیت کے اس ٹکڑے کی تلاوت کرنا بھی مروی ہے، امام ابن جریر کے قول کی مطابق ٹھیک بات یہی ہے کہ یہ مرفوع حدیث نہیں موقوف قول ہے، ائمہ کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ وارث کے لئے جو اقرار میت کر جائے آیا وہ صحیح ہے یا نہیں ؟ بعض کہتے ہیں صحیح نہیں ہے اس لئے کہ اس میں تہمت لگنے کی گنجائش ہے، حدیث شریف میں بہ سند صحیح آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق پہنچا دیا ہے اب وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں، مالک احمد بن حنبل ابوحنیفہ کا قول یہی ہے، شافعی کا بھی پہلا قول یہی تھا لیکن آخری قول یہ ہے کہ اقرار کرنا صحیح مانا جائے گا طاؤس حسن عمر بن عبدالعزیز کا قول بھی یہی ہے، حضرت امام بخاری (رح) بھی اسی کو پسند کرتے ہیں اور اپنی کتاب صحیح بخاری شریف میں اسی کو ترجیح دیتے ہیں، ان کی دلیل ایک یہ روایت بھی ہے کہ حضرت رافع بن خدیج (رض) نے وصیت کی کہ فزاریہ نے جس چیز پر اپنے دروازے بند کر رکھے ہوں وہ نہ کھولے جائیں، حضرت امام بخاری (رح) نے پھر فرمایا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں بہ سبب وارثوں کے ساتھ بدگمانی کے اسکا یہ اقرار جائز نہیں، لیکن میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو فرمایا ہے بدگمانی سے بچو بدگمانی تو سب سے زیادہ جھوٹ ہے، قرآن کریم میں فرمان اللہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ جس کی جو امانت ہو وہ پہنچا دو ، اس وارث اور غیر وارث کی کوئی تخصیص نہیں، یہ یاد رہے کہ یہ اختلاف اس وقت ہے جب اقرار فی الواقع صحیح ہو اور نفس الامر کے مطابق ہو اور اگر صرف حیلہ سازی ہو اور بعض وارثوں کو زیادہ دینے اور بعض کو کم پہنچانے کے لئے ایک بہانہ بنا لیا ہو تو بالاجماع اسے پورا کرنا حرام ہے اور اس آیت کے صاف الفاظ بھی اس کی حرمت کا فتویٰ دیتے ہیں (اقرار فی الواقع صحیح ہونے کی صورت میں اس کا پورا کرنا ضروری ہے جیسا کہ دوسری جماعت کا قول ہے اور جیسا کہ حضرت امام بخاری (رح) کا مذہب ہے۔ مترجم) پھر فرمایا یہ اللہ عزوجل احکام ہیں اللہ عظیم و اعلیٰ علم و حلم والا ہے۔