المؤمن آية ۱
حٰمٓ ۚ
طاہر القادری:
حا، میم (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)،
English Sahih:
Ha, Meem.
1 Abul A'ala Maududi
ح م
2 Ahmed Raza Khan
حٰمٓ
3 Ahmed Ali
حمۤ
4 Ahsanul Bayan
حم
5 Fateh Muhammad Jalandhry
حٰم
6 Muhammad Junagarhi
حٰم
7 Muhammad Hussain Najafi
حا۔ میم۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
حم ۤ
9 Tafsir Jalalayn
حم
آیت نمبر 1 تا 9
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، حٰمٓ اللہ کی اس سے کیا مراد ہے ؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے، یہ کتاب قرآن اس اللہ کی جانب سے نازل کردہ ہے جو اپنے ملک میں غالب ہے اور اپنی مخلوق سے واقف ہے تَنزِیلُ الکتابِ مبتداء ہے، مِنَ اللہِ خبر، مومنوں کے گناہوں کو معاف کرنے والا ان کی توبہ کو قبول کرنے والا التوب مصدر ہے، کافروں پر سخت عذاب والا ہے شدیدٌ بمعنی مُشدِّدٌ ہے، بڑے وسیع انعام والا ہے، وہ ان صفات کے ساتھ ہمیشہ متصف ہے، لہٰذا ان صفات (ثلٰثہ) مشتقات کی اضافت تعریف کے لئے ہوگی، جیسا کہ آخری صفت (ذی الطول) میں (ہے) جس کے سوا کوئی معبود نہیں اسی کی طرف لوٹنا ہے، اللہ تعالیٰ کی آیتوں، قرآن میں وہی جھگڑتے ہیں جو اہل مکہ میں سے کافر ہیں، لہٰذا ان کا شہروں میں امن کے ساتھ طلب معاش کیلئے چلنا پھرنا (سفر کرنا) تجھ کو دھوکے میں نہ ڈال دے، اس لئے کہ ان کا انجام جہنم ہے، ان سے پہلے قوم نوح نے جھٹلایا، اور ان کے بعد دوسری جماعتوں نے، مثلاً عادو ثمود وغیرہ نے جھٹلایا، اور ہر امت نے اپنے رسول کو گرفتار کرلینے (قتل) کا ارادہ کیا، اور باطل کے ذریعہ کج بحثیاں کیں تاکہ اس بیہودہ طریقہ سے حق کو باطل کردیں، تو میں نے ان کو گرفتار عذاب کرلیا، تو میری گرفت ان کے حق میں کسی رہی ؟ یعنی وہ برمحل واقع ہوئی، اور اسی طرح آپ کے رب کا حکم کافروں کے بارے میں ثابت ہوگیا (اور وہ حکم) لأملانَّ جھنم ہے، کہ وہ دوزخی ہیں (أنَّھُم اصحٰب النار) کلمۃُ سے بدل ہے، عرش کے اٹھانے والے فرشتے، اور وہ فرشتے جو عرش کے گرد اگر د حلقہ بنائے ہوئے ہیں، حمد کے ساتھ ساتھ تسبیح بیان کرتے ہیں یعنی سبحان اللہ وبحمدہٖ کہتے ہیں (الذین یحملون العرش) مبتداء ہے (یُسبحُون) اس کی خبر ہے، اور اللہ تعالیٰ پر پوری بصیرت کے ساتھ ایمان رکھتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی تصدیق کرتے ہیں اور ایمان والوں کیلئے استغفار کرتے ہوئے کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار تو نے ہر چیز کا اپنی رحمت اور علم سے احاطہ کر رکھا ہے، یعنی تیری رحمت اور تیرا علم ہر شئ کو حاوی ہے تو جن لوگوں نے شرک سے توبہ کی اور تیرے راستہ (یعنی) دین اسلام پر چلے ان کو معاف کر دے اور نار جہنم سے بچالے، اے ہمارے پروردگار تو ان کو ہمیشگی کی جنت میں داخل فرما، جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے باپ دادؤں کو اور ان کی بیویوں اور انکی اولاد میں سے جو نیک ہوں مَن صَلحَ کا عطف ھُم پر ہے جو وادخلھم میں ہے یا اس ھُم پر ہے جو وعدَتَّھُم میں ہے، بلاشبہ تو اپنی صنعت میں غالب باحکمت ہے اور تو ان کو برائیوں یعنی انکے عذاب سے محفوظ رکھ اور جسکو تو نے قیامت کے دن برائیوں (کے عذاب) سے بچا لیا، بیشک تو نے اس پر رحمت کردی اور یہی بڑی کامیابی ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وقَابلِ التَوبِ ۔ سوال : غافر الذَّنبِ اور قابل التَّوب دونوں کا مفہوم ایک ہے تو پھر قابل التوب کو ذکر کرنے سے کیا فائدہ ہے
جواب : وقابل التوب میں واؤ لا کر اشارہ کردیا کہ دونوں میں مغائرت ہے اس لئے کہ محوذ نوب بغیر تو بہ کے ممکن ہے اور بعض ذنوب میں قبول تو بہ ممکن ہے اور بعض میں نہیں، لہٰذا ان کے درمیان کوئی تلازم نہیں ہے، اسی مغائرت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے واؤ کا اضافہ فرمایا، تاکہ واؤ مغائرت پر دلالت کرے۔
قولہ : مصدَرٌ لفظ مصدر کے اضافہ کا مقصد ان لوگوں پر رد کرنا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ توبٌ، توبۃٌ کی جمع ہے مفسر علام نے لفظ مصدر کا اضافہ کرکے بتادیا کہ توبٌ بھی مصدر ہے۔
قولہ : مُشدِدُہٗ ۔ سوال : شدید کی تفسیر مُشِدِّدٌ سے کرنے میں کیا مصلحت ہے ؟
جواب : شدید العقاب، اضافت الصفۃ المشبھۃ الی الفاعل کے قبیل سے ہے، جو کہ اضافت لفظیہ کہلاتی ہے، یہ بالاتفاق تعریف کا فائدہ نہیں دیتی اگرچہ اس سے استمرار دوام کا ارادہ کیا جائے، لہٰذا اس کو لفظ جلالہ یعنی (لفظ) اللہ کی صفت بنانا درست نہیں نہیں ہے اس لئے کہ لفظ اللہ اعرف المعارف ہے، علامہ محلی نے شدید کی تفسیر مشددٌ سے کرکے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ شدید، مشددٌ اسم فاعل کے معنی میں ہے، اور اسم فاعل سے اگر استمرار و درام مراد ہو تو تعریف کا فائدہ دیتا ہے، لہٰذا شدید العقاب کا لفظ اللہ کی صفت واقع ہونا درست ہے، جیسا کہ اذینٌ بمعنی مؤذِّنٌ ہے۔
قولہ : الطَّولُ بمعنی فضل، یقال لفلانٍ طولٌ ای فضلٌ وزیادۃٌ طول کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اجر و انعام مراد ہوتا ہے، اسی لئے مفسر علام نے طول کی تفسیر الانعام الواسع سے کی ہے۔
قولہ : وھو موصوفٌ علی الدوام اس عبارت کا مقصد ایک اعتراض کو دفع کرنا ہے جس کی طرف سابق میں اشارہ کردیا گیا ہے۔
سوال : سوال کا ماحصل یہ ہے کہ اس جملہ میں لفظ اللہ کی چار صفات واقع ہوئی ہیں (1) غافر (2) قابل (3) شدید (4) ذی الطول، ان میں پہلی تین میں اضافت لفظیہ ہے جو تعریف کا فائدہ نہیں دیتی، لہٰذا ان تینوں صفات کا لفظ اللہ کی صفت واقع ہونا درست نہیں ہے۔ جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اضافۃ لفظیہ اس وقت تعریف کا فائدہ نہیں دیتی جبکہ اس سے دوام و استمرار کا ارادہ نہ کیا جائے اور اگر دو ام و استمرار مراد ہو تو اضافہ لفظیہ تعریف کا فائدہ دیتی ہے، مفسر علام نے اس عبارت سے اشارہ کردیا کہ یہاں استمرار و دوام مراد ہے جو کہ مفید تعریف ہے لہٰذا ان تینوں کا لفظ اللہ کی صفت بننا درست ہے، جیسا کہ مالک یوم الدین میں درست ہے۔
دوسرا جواب : بعض حضرات نے یہ جواب بھی دیا کہ یہ تینوں مشتقات لفظ اللہ سے بدل ہیں اور بدل میں تعریف میں مطابقت ضروری نہیں ہے۔
قولہ : فلا یغررک فاجواب شرط پر واقع ہے، اور شرط محذوف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اِذَا علمتَ انَّھم کفار فلا یغروک امھالھم ما خوذون عن قریب۔ قولہ : لیدحضوا ادحاض سے جمع مذکر غائب منصوب بمعنی مصدر باطل کرنا، زائل کرنا (ف) دَحَضَ یَدحَضُ دحضًا، دحوضًا، مدحضًا پھسلنا، باطل ہونا۔ (لغات القرآن)
قولہ : فکیف کان عقاب یہ دراصل عقابی تھا، مصحف امام کے رسم الخط کی اتباع میں ی کا حذف کردیا گیا، کیف اسم استفہام کان کی خبر
مقدم ہونے کی وجہ سے محلا منصوب ہے اور عقاب، کان کا اسم مرفوع ہے، علامت رفع ما قبل (ی) متکلم محذوف پر ضمہ مقدرہ ہے
قولہ : بدلٌ من الکلمۃ اگر لفظ کلمہ سے خاص انَّھم اصحابُ النار مراد ہے، تو یہ بدل الکل من الکل ہوگا، اور اگر کلمۃ سے لأملئنَّ جھنم مراد ہو جیسا کہ علامہ محلی نے مراد لیا ہے تو یہ بدل الاشتمال ہوگا، اسلئے کہ اس صورت میں کلمہ اصحاب النار کو بھی مشتمل ہوگا
قولہ : فاغفر فافصیحہ ہے اغفر صیغہ امر ہے۔
قولہ : وقھم واؤ عاطفہ ہے اس کا عطف فاغفر پر ہے قھِم، قِ فعل امر حذف حرف علت پر مبنی ہے ھا مفعول بہ اول اور عذاب الجحیم مفعول ثانی ہے۔ قولہ : ای عذابھا اس عبارت سے اشارہ کردیا کہ السئت کا مضاف محذوف ہے۔
تفسیر و تشریح
سورة مومن (غافر) کی خصوصیات اور فضائل : یہاں سے سورة احقاف تک سات سورتیں حٰمٓ سے شروع ہوتی ہیں، ان کو ” حوامیم “ کہا جاتا ہے، حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا کہ حوامیم دیباج قرآن ہیں، دیباج ریشمی کپڑے کو کہتے ہیں، مراد زینت ہے، اور مسعر بن کدام فرماتے ہیں کہ ان کو عرائس کہا جاتا ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ ہر چیز کا ایک مغز اور خلاصہ ہوتا ہے قرآن کا مغز اور خلاصہ حوامیم ہیں۔ (بحوالہ معارف)
ہر بلا سے حفاظت کا نسخہ : مسند بزار میں اپنی سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شروع دن میں آیت الکرسی اور سورة مؤمن کی پہلی تین آیتیں حٰمٓ سے الیہ المصیرُ تک پڑھنے والا اس دن ہر برائی اور تکلیف سے محفوظ رہے گا، اس کو ترمذی (رح) تعالیٰ نے بھی روایت کیا ہے، اس میں ایک راوی متکلم فیہ ہے۔ (ابن کثیر، معارف)
دشمن سے حفاظت : ابو داؤد و ترمذی میں صحیح سند کے ساتھ حضرت مہلت بن ابی صفرہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے ایسے شخص نے روایت کی جس نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ آپ کسی جہاد کے موقع پر رات میں حفاظت کیلئے فرما رہے تھے کہ اگر تم پہ شب خون مارا جائے تو حٰمٓ لا ینصرون پڑھ لینا۔ (معارف ملخصاً )
ایک عجیب واقعہ : ابن کثیر (رح) نے ان آیات سے متعلق ایک عجیب واقعہ بیان کیا ہے، حضرت ثابت بنانی (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں حضرت مصعب بن زیبر (رح) تعالیٰ کے ساتھ کوفے کے ایک علاقہ میں تھا میں اس خیال سے کہ دو رکعت پڑھ لوں ایک باغ میں چلا گیا، میں نے نماز سے پہلے سورة حٰمٓ کی ابتدائی آیتیں الیہ المصیرُ تک پڑھیں، اچانک دیکھا کہ ایک شخص میرے پیچھے ایک سفید خچر پر سوار ہے، جس کے بدن پر یمنی کپڑے ہیں، اس شخص نے مجھ سے کہا کہ جب تم غافر الذنب کہو تو اس کے ساتھ یہ دعاء کرو، یا غافر الذنب اغفرلی ذنبی اور جب تم قابل التوب پڑھو تو یہ دعاء پڑھو، یا قابل التوبِ اقبل توبتی اور جب تم شدید العقاب پڑھو، تو یہ دعا کرو شدید العقاب لاتعاقبنی اور جب ذی الطول پڑھو تو یہ دعاء کرو یا ذا الطول طُل عَلَی بخیرٍ ۔
ثابت بنانی کہتے ہیں کہ اس سے یہ نصیحت سننے کے بعد جو ادھر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا، میں اس کی تلاش میں باغ کے دروازے پر آیا، لوگوں سے معلوم کیا، کہ کیا ایک ایسا شخص یمنی لباس میں یہاں سے گزرا ہے ؟ سب نے کہا ہم نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا، ثابت بنانی کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ الیاس (علیہ السلام) تھے۔ (ابن کثیر، معارف)
آیات کی تفسیر : حٰمٓ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ اللہ کا نام ہے، مگر ائمہ متقدمین کے نزدیک یہ حروف مقطعات میں سے ہے، جن کی حقیقی مراد اللہ ہی کو معلوم ہے یا اللہ اور اس کے رسول کے درمیان ایک راز ہیں۔
غافر الذنب، قابل التوب، غافر الذنب کے معنی ہیں گناہ پر پردہ ڈالنے والا، اور قابل التوب کے معنی ہیں توبہ کا قبول کرنے والا، یہ دو لفظ الگ الگ لائے گئے ہیں، اگرچہ دونوں کا مفہوم بظاہر تقریباً ایک ہی معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت میں دونوں کے مفہوم میں فرق ہے، غافر الذنب میں اس طرف اشارہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ کو اس بات پر بھی قدرت ہے کہ کسی بندے کا گناہ بغیر توبہ کے بھی معاف کر دے، تو بہ کرنے والوں کو معافی دینا یہ دوسرا وصف ہے۔ (مظہری)
جدال فی القرآن کی ممانعت کا صحیح مطلب : ما یجادل۔۔۔۔ کفروا اس آیت میں جدال فی القرآن کو کفر قرار دیا گیا ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انَّ جدالاً فی القرآن کفرٌ یعنی بعض جدال قرآن میں کفر ہیں۔ (رواہ البغوی والبیہقی فی الشعب)
یہ جدال جس کو قرآن و حدیث میں کفر کہا گیا ہے اس سے مراد قرآنی آیات میں طعن کرنا اور فضول قسم کے شبہات نکال کر اس میں جھگڑنا، یا کسی آیت کے ایسے معنی بیان کرنا جو دوسری آیات قرآن اور نصوص سنت کے خلاف ہوں جو تحریف قرآن کے درجہ میں ہے ورنہ جس جدال (بحث و مباحثہ) کا مقصد ایضاح حق اور ابطال باطل اور منکرین و معترضین کے شبہات کا ازالہ ہو وہ مذموم نہیں ہے بلکہ محمود و مستحسن ہے۔ (بیضاوی، قرطبی، مظھری، ملخصاً )
فلا یغررک۔۔۔ البلاد، مشرکین قریش موسم سرما میں یمن کا اور موسم گرما میں ملک شام کا تجارتی سفر کرتے تھے اور حرم بیت اللہ کی خدمت کی وجہ سے ان کا سارے عرب میں احترام تھا اس لئے یہ لوگ اپنے سفروں میں محفوظ و مامون رہتے تھے، اور خوب تجارتی نفع کماتے تھے، اور اسی وجہ سے ان کی مالداری اور سرداری قائم تھی، ظہور اسلام کے ابتدائی دور میں بھی ان کی یہی صورت حال تھی، جس کی وجہ سے یہ حضرات اس بےجاپندار میں مبتلا تھے کہ اگر اللہ کے نزدیک ہم مجرم ہوتے جیسا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے ہیں تو ہماری یہ نعمتیں سلب ہوجاتیں، اس سے بعض مسلمانوں کو بھی کچھ شبہات پیدا ہونے کا امکان تھا، اس لئے اس آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت و مصلحت سے ان کو چند روزہ مہلت دے رکھی ہے، اس سے آپ یا مسلمان کسی دھوکے میں نہ پڑیں، چند روزہ مہلت کے بعد ان پر عذاب آنے ہی والا ہے اور ان کی یہ ریاست و سرداری فنا ہونے والی ہے، جس کی ابتداء غزوۂ بدر سے ہوگئی اور فتح مکہ تک چھ سال کی قلیل مدت میں اس کا مکمل ظہور ہوگیا۔
الذین یحملون العرش اس آیت میں فرشتوں کی ایک مخصوص جماعت اور ان کے کام کا تذکرہ ہے، یہ ان فرشتوں کی جماعت ہے جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، اور وہ جو عرش کے اردگرد ہیں، ان کا ایک کام یہ ہے کہ یہ اللہ کی تسبیح وتحمید کرتے ہیں اور اس کے سامنے عجزو تذلل کا اظہار کرتے ہیں، دوسرا کام یہ کہ اہل ایمان کیلئے دعاء مغفرت کرتے ہیں، اخرج ابو الشیخ عن وھب حملۃ العرش اربعۃ الخ ابو الشیخ نے وہب سے بیان کیا کہ حاملین عرش چار فرشتے ہیں قیامت کے دن ان کی تعداد آٹھ ہوجائے گی۔ (روح المعانی، ابن کثیر) حاملین عرش اور مقرب فرشتے مومنین کے لئے یہ دعاء بھی کرتے ہیں ومن صَلَحَ من آبائھم وازواجھم وذُرِّیّٰتھم یعنی ان کے آباؤ اجداد اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جن میں مغفرت کی صلاحیت ہو یعنی جن کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہو، ان کو بھی انہیں لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل فرما، اس سے معلوم ہوا کہ ایمان تو شرط نجات ہے، اگر مذکورہ اہل جنت کے آباؤ اجداد کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہو اگرچہ عمل میں اس درجہ کے نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ ان متعلقین کو بھی محض اپنے فضل و کرم سے جنت میں انہیں کے ساتھ کردیں گے اور ان کو ایک درجہ میں کرنے کی یہ شکل ہوگی کہ ان میں سے جو ان جنتیوں سے نیچے درجہ میں ہوں گے ان کو ترقی دیکر اوپر کے درجہ میں پہنچا دیا جائے جائے گا نہ یہ کہ اوپر کے درجہ والوں کی تنزلی کرکے نیچے کے درجہ میں لاکر یکجا کیا جائیگا، اسی کو ایک دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے الحقنَا بھم ذُرِّیَّتھُم۔
حضرت سعید بن مسیب (رح) تعالیٰ نے فرمایا کہ مومن جب جنت میں جائے گا تو اپنے باپ بیٹے، بھائی وغیرہ کو پوچھے گا کہ وہ کہاں ہیں اس کو بتلایا جائے گا کہ انہوں نے تمہارے جیسا عمل نہیں کیا اس لئے وہ یہاں نہیں پہنچ سکے، یہ کہے گا کہ میں نے جو عمل کیا تھا وہ صرف اپنے لئے نہیں کیا تھا بلکہ اپنے اور ان کے لئے کیا تھا تو حکم ہوگا کہ ان کو بھی جنت میں داخل کردو۔ (ابن کثیر، معارف)
10 Tafsir as-Saadi
حٰم
11 Mufti Taqi Usmani
Haa-Meem
12 Tafsir Ibn Kathir
سورتوں کے اول میں حم وغیرہ جیسے جو حروف آئے ہیں ان کی پوری بحث سورة بقرہ کی تفسیر کے شروع میں کر آئے ہیں جس کے اعادہ کی اب چنداں ضرورت نہیں۔ بعض کہتے ہیں حم اللہ کا ایک نام ہے اور اس کی شہادت میں وہ یہ شعر پیش کرتے ہیں
یذکرنی حم والرمح شاجر
فھلا تلا حم قبل التقدم
یعنی یہ مجھے حم یاد دلاتا ہے جب کہ نیزہ تن چکا پھر اس سے پہلے ہی اس نے حم کیوں نہ کہہ دیا۔ ابو داؤد اور ترمذی کی حدیث میں وارد ہے کہ اگر تم پر شب خون مارا جائے تو حم لاینصرون کہنا، اس کی سند صحیح ہے۔ ابو عبید کہتے ہیں مجھے یہ پسند ہے کہ اس حدیث کو یوں روایت کی جائے کہ آپ نے فرمایا تم کہو حم لاینصروا یعنی نون کے بغیر، تو گویا ان کے نزدیک لاینصروا جزا ہے فقولوا کی یعنی جب تم یہ کہو گے تم مغلوب نہیں ہوگے۔ تو قول صرف حم رہا یہ کتاب یعنی قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ ہے جو عزت و علم والا ہے، جس کی جناب ہر بےادبی سے پاک ہے اور جس پر کوئی ذرہ بھی مخفی نہیں گو وہ کتنے ہی پردوں میں ہو، وہ گناہوں کی بخشش کرنے والا اور جو اس کی طرف جھکے اس کی جانب مائل ہونے والا ہے۔ اور جو اس سے بےپرواہی کرے اس کے سامنے سرکشی اور تکبر کرے اور دنیا کو پسند کرکے آخرت سے بےرغبت ہوجائے۔ اللہ کی فرمانبرداری کو چھوڑ دے اسے وہ سخت ترین عذاب اور بدترین سزائیں دی نے والا ہے۔ جیسے فرمان ہے ( نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 49ۙ ) 15 ۔ الحجر :49) یعنی میرے بندوں کو آگاہ کردو کہ میں بخشنے والا اور مہربانیاں کرنے والا بھی ہوں اور میرے عذاب بھی بڑے دردناک عذاب ہیں۔ اور بھی اس قسم کی آیتیں قرآن کریم میں بہت سی ہیں جن میں رحم و کرم کے ساتھ عذاب و سزا کا بیان بھی ہے تاکہ بندہ خوف وامید کی حالت میں رہے۔ وہ وسعت و غنا والا ہے۔ وہ بہت بہتری والا ہے بڑے احسانوں، زبردست نعمتوں اور رحمتوں والا ہے۔ بندوں پر اس کے انعام، احسان اس قدر ہیں کہ کوئی انہیں شمار بھی نہیں کرسکتا چہ جائیکہ اس کا شکر ادا کرسکے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی ایک نعمت کا بھی پورا شکر کسی سے ادا نہیں ہوسکتا۔ اس جیسا کوئی نہیں اس کی ایک صفت بھی کسی میں نہیں اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں نہ اس کے سوا کوئی کسی کی پرورش کرنے والا ہے۔ اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ اس وقت وہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کے مطابق جزا سزا دے گا۔ اور بہت جلد حساب سے فارغ ہوجائے گا۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب (رض) سے ایک شخص آکر مسئلہ پوچھتا ہے کہ میں نے کسی کو قتل کردیا ہے کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ آپ نے شروع سورت کی دو آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا ناامید نہ ہو اور نیک عمل کئے جا۔ (ابن ابی حاتم) حضرت عمر کے پاس ایک شامی کبھی کبھی آیا کرتا تھا اور تھا ذرا ایسا ہی آدمی ایک مرتبہ لمبی مدت تک وہ آیا ہی نہیں تو امیرالمومنین نے لوگوں سے اس کا حال پوچھا انہوں نے کہا کہ اس نے بہ کثرت شراب پینا شروع کردیا ہے۔ حضرت عمر نے اپنے کاتب کو بلوا کر کہا لکھو یہ خط ہے عمر بن خطاب کی طرف سے فلاں بن فلاں کی طرف بعداز سلام علیک میں تمہارے سامنے اس اللہ کی تعریفیں کرتا ہوں جس کے ساتھ کوئی معبود نہیں جو گناہوں کو بخشنے والا توبہ کو قبول کرنے والا سخت عذاب والا بڑے احسان والا ہے جس کے سوا کوئی اللہ نہیں۔ اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ یہ خط اس کی طرف بھجوا کر آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا اپنے بھائی کیلئے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل کو متوجہ کردے اور اس کی توبہ قبول فرمائے جب اس شخص کو حضرت عمر (رض) کا خط ملا تو اس نے اسے بار بار پڑھنا اور یہ کہنا شروع کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی سزا سے ڈرایا بھی ہے اور اپنی رحمت کی امید دلا کر گناہوں کی بخشش کا وعدہ بھی کیا ہے کئی کئی مرتبہ اسے پڑھ کر رودیئے پھر توبہ کی اور سچی پکی توبہ کی جب حضرت فاروق اعظم کو یہ پتہ چلا تو آپ بہت خوش ہوئے۔ اور فرمایا اسی طرح کیا کرو۔ جب تم دیکھو کہ کوئی مسلمان بھائی لغزش کھا گیا تو اسے سیدھا کرو اور مضبوط کرو اور اس کیلئے اللہ سے دعا کرو۔ شیطان کے مددگار نہ بنو۔ حضرت ثابت بنانی فرماتے ہیں کہ میں حضرت مصعب بن زبیر (رض) کے ساتھ کوفے کے گرد و نواح میں تھا میں نے ایک باغ میں جاکر دو رکعت نماز شروع کی اور اس سورة مومن کی تلاوت کرنے لگا میں ابھی الیہ المصیر تک پہنچا ہی تھا کہ ایک شخص نے جو میرے پیچھے سفید خچر پر سوار تھا جس پر یمنی چادریں تھیں مجھ سے کہا جب غافر الذنب پڑھو تو کہو یاغافر الذنب اغفرلی ذنبی اور جب قابل التوب پڑھو تو کہو یاشدید العقاب لا تعاقبنی حضرت مصعب فرماتے ہیں میں نے گوشہ چشم سے دیکھا تو مجھے کوئی نظر نہ آیا فارغ ہو کر میں دروازے پر پہنچا وہاں جو لوگ بیٹھے تھے ان میں سے میں نے پوچھا کہ کیا کوئی شخص تمہارے پاس سے گذرا جس پر یمنی چادریں تھیں انہوں نے کہا نہیں ہم نے تو کسی کو آتے جاتے نہیں دیکھا۔ اب لوگ یہ خیال کرنے لگے کہ یہ حضرت الیاس تھے۔ یہ روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے اور اس میں حضرت الیاس کا ذکر نہیں۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔