الدخان آية ۱
حٰمٓ ۚ
طاہر القادری:
حا، میم (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)،
English Sahih:
Ha, Meem.
1 Abul A'ala Maududi
ح م
2 Ahmed Raza Khan
حٰمٓ
3 Ahmed Ali
حمۤ
4 Ahsanul Bayan
حم
5 Fateh Muhammad Jalandhry
حٰم
6 Muhammad Junagarhi
حٰم
7 Muhammad Hussain Najafi
حا۔ میم۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
حمۤ
9 Tafsir Jalalayn
حٰم۔
آیت نمبر 1 تا 29
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے حٰمٓ اس سے اللہ کی کیا مراد ہے ؟ وہی بہتر جانتا ہے قسم ہے واضح کتاب قرآن کی جو حلال کو حرام سے ممتاز کرنے والی ہے، یقیناً ہم نے اس کو بابرکت رات میں نازل کیا ہے اور وہ شب قدر یا شب نصف شعبان ہے، اسی رات میں قرآن کو ساتویں آسمان پر موجود لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کیا گیا، بیشک ہم اس کے ذریعہ ڈرانے والے ہیں، اسی رات یعنی شب قدر یا شب نصف شعبان میں ہر محکم کام کا مثلاً روزی، موت وغیرہ جو اس سال اسی جیسی (آئندہ) رات تک ہونے والے ہوتے ہیں فیصلہ کیا جاتا ہے، ہمارے پاس سے حکم صادر ہو کر ہم ہی ہیں رسول بنا کر بھیجنے والے محمد کو اور سابقہ انبیاء کو مرسل الیہم پر رحم کرتے ہوئے تیرے رب کی جانب سے وہی ہے ان کی باتوں کا سننے والا ان کے افعال کو دیکھنے والا جو رب ہے، آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے ربّ کے رفع کے ساتھ (ھو) کی خبر ثالث ہونے کی وجہ سے، یا ربِّ کے جر کے ساتھ من ربک سے بدل ہونے کی وجہ سے، اے اہل مکہ ! اگر تم یقین کرنے والے ہو یہ کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا رب ہے تو یقین کرلو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے رسول ہیں اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی جلاتا ہے اور وہی مارتا ہے وہی تمہارا رب ہے اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا بھی، بلکہ وہ بعث کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے کھیل میں مصروف ہیں، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کا استہزاء کرتے ہوئے، تو (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدعاء فرمائی، اے میرے اللہ تو ان کے مقابلہ میں سات سالوں کے ذریعہ، یوسف (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سات سالوں کے مانند میری مدد فرما، اللہ تعالیٰ نے دعاء کو قبول کرتے ہوئے فرمایا آپ اس روز کا انتظار کیجئے کہ آسمان کی طرف ایک نظر آنے والا دھواں نمودار ہو جو سب لوگوں پر چھا جائے گا، چناچہ خشک سالی نمودار ہوگئی اور اہل مکہ شدید بھوک میں مبتلا ہوگئے، حتی کہ شدت بھوک کی وجہ سے زمین اور آسمان کے درمیان ان کو دھوئیں جیسی چیز نظر آنے لگی، تو کہنے لگے یہ بڑا تکلیف دہ عذاب ہے، اے ہمارے رب یہ آفت ہم سے دور کر ہم ایمان قبول کرتے ہیں (یعنی) تیرے نبی کی تصدیق کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کیلئے نصیحت کہاں ہے ؟ یعنی نزول عذاب کے وقت ایمان فائدہ دینے والا نہیں ہے کھول کھول کر بیان کرنے والے پیغمبر ان کے پاس آچکے، پھر انہوں نے اس سے بےرخی کی اور کہہ دیا سکھلایا ہوا پڑھایا ہوا باؤلا ہے، کوئی شخص اس کو قرآن سکھاتا ہے ہم اس آفت کو چندے دور کردیں گے یعنی بھوک کی تکلیف کو تم سے کچھ دنوں کیلئے دور کردیں گے چناچہ ان سے (بھوک کی) تکلیف دور کردی گئی، تو تم پھر پلٹ جاؤ گے یعنی اپنے کفر کی طرف آجاؤ گے چناچہ وہ اپنی سابقہ حالت کی طرف پلٹ گئے، جس دن ہم سخت پکڑ پکڑیں گے اور وہ بدر کا دن ہے ہم ان سے (پورا) بدلہ لیں گے اور بطش کے معنی سختی سے مواخذہ کرنے کے ہیں، یقیناً ہم ان سے پہلے فرعون کی قوم کو مع فرعون کے آزما چکے ہیں ان کے پاس اللہ کا باعزت رسول آیا اور وہ موسیٰ تھے یہ کہ اے اللہ کے بندو ! جس ایمان کی طرف میں دعوت دے رہا ہوں اس کو قبول کرلو، یعنی میری اطاعت پر ایمان ظاہر کرو یقین مانو میں تمہارے لئے امانتدار رسول ہوں اس چیز پر کہ جس کو لے کر میں بھیجا گیا ہوں، اور تم اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کی طاعت ترک کرکے سر کسی نہ کرو، میں تمہارے پاس اپنی رسالت پر کھلی دلیل لے کر آیا ہوں مگر ان لوگوں نے ان کو پتھروں سے کچل کر مارنے کی دھمکی دی چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں اس سے کہ تم مجھے سنگسار کرو اور اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے، کہ میری تصدیق کرو تو مجھے چھوڑ دو یعنی میری ایذاء رسانی سے باز آجاؤ مگر ان لوگوں نے ان کو نہ چھوڑا پھر انہوں نے اپنے رب سے دعاء کردی کہ یہ سب مجرم مشرک لوگ ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے بندوں بنی اسرائیل کو راتوں رات لے کر نکل جاؤ تمہارا تعاقب کیا جائے گا یعنی فرعون اور اس کی قوم تمہارا تعاقب کرے گی، جب تو اور تیرے ساتھی دریا پار کرلیں تو دریا کو ساکن کھلا ہوا چھوڑ دے، حتی کہ اس میں قبطی داخل ہوجائیں بلاشبہ یہ لشکر غرق کردیا جائے گا، اس بات پر اطمینان ہوا، چناچہ ان کو غرق کردیا گیا، وہ بہت سے باغات اور جاری چشمے اور کھیتیاں اور آرام دہ عمدہ مجلسیں چھوڑ گئے اور وہ آرام کی چیزیں جن میں وہ آرام کر رہے تھے، ایسا ہی ہوگیا کذٰلک، الامرُ مبتداء محذوف کی خبر ہے اور ہم نے ان کا یعنی ان کے اموال کا دوسری قوم یعنی بنی اسرائیل کو وارث بنادیا سو نہ تو ان پر آسمان رویا اور نہ زمین بخلاف مومنین کے کہ ان کی موت پر ان کی جائے نماز روتی ہے اور آسمان پر ان کے نیک اعمال چڑھنے کے راستہ روتے ہیں اور نہ تو بہ کیلئے انہیں مہلت ملی۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : والکتاب المبین انا انزلناہ (الآیۃ) واؤ قسمیہ ہے الکتاب مقسم بہ ہے انا انزلناہ الخ جواب قسم ہے۔
قولہ : انا کنا منذرین جواب قسم کی علت ہے، بعض حضرات نے انا کنا منذرین کو جواب قسم قرار دیا ہے اور انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ کو قسم اور جواب قسم کے درمیان جملہ معترضہ قرار دیا ہے، مگر اول احسن ہے۔
قولہ : فیھا یفرق یہ جملہ یا تو مستانفہ ہے یا لیلۃٍ کی صفت ہے اور درمیان میں انا کُنَّا منذرین جملہ معترضہ ہے۔
قولہ : فرقًا مفسر علام نے امرًا کی تفسیر فرقًا سے کرکے اشارہ کردیا کہ امرًا، یفرقُ کا مفعول مطلق بغیر لفظہٖ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے جیسے قمت وقوفًا سے کرکے اشارہ کردیا کہ امرًا، یفرقُ کا مفعول مطلق بغیر لفظہٖ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے جیسے قمت وقوفًا اور قعدت جلوسًا اور انزلناہ کی ضمیر فاعل سے حال بھی درست ہے، تقدیر عبارت یہ ہوگی انزلناہ حال کو ننا آمرین یا انزلناہُ کے مفعول سے بھی حال ہوسکتا ہے، تقدیر عبارت یہ ہوگی انزلناہ حال کونہٖ ماموراً بہ اور مفعول لہ ہونا بھی صحیح ہے، اس کا عامل انزلنَا ہوگا، تقدیر عبارت یہ ہوگی اَنْزَلْنَاہ لأمرِ الخلقِ ۔ (صاوی)
قولہ : رَحْمَۃً مِنْ رَّبِّکَ اس میں پانچ صورتیں ہیں (1) رحمۃً مفعول لہٗ ہو، اس کا عامل یا تو انزَلْنَا ہوگا یا أمرًا یا یُفْرَقُ یا منذرین (2) رحمۃً فعل محذوف کا مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ای رحِمْنَا رحمَۃً (3) رحمۃً ، المرسلین کا مفعول ہو (4) مرسلین کی ضمیر سے حال ہو ای ذوی رحمۃ (5) امرًا سے بدل ہو۔
قولہ : فایقِنُوْا شارح (رح) نے اس سے اشارہ کردیا کہ اِنْ کنتم موقنین کا جواب شرط محذوف ہے اور جملہ شرطیہ خبروں کے درمیان جملہ معترضہ ہے، اس لئے کہ لا اِلٰہَ الاَّ ھو یہ جملہ اِنَّ کی خبر رابع ہے۔ (اعراب القرآن)
قولہ : دُخانٌ دھواں (ج) اَدْخِنَۃٌ آیت شریفہ میں جس دھوئیں کا ذکر ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں، اس دھوئیں کا ظہور عہد نبوی میں ہوچکا، حضرت علی (رض) اور دیگر صحابہ سے مروی ہے کہ اس کا ظہور قرب قیامت میں ہوگا، حضرت شاہ ولی اللہ (رح) تعالیٰ نے اول قول کو اختیار کیا ہے۔
قولہ : أن ادُّوٓا اِلَیَّ ، اَنْ مفسرہ بھی ہوسکتا ہے اس لئے کہ مجیئ الرسول قول رسول کے معنی کو متضمن ہے، جاء الرسول ای قال الرسول اور مصدریہ بھی صحیح ہے، اس صورت میں اَن مع اپنے مدخول کے نزع خافض کی وجہ سے مصدر کی تاویل میں ہو کر منصوب ہو ای بِاَنْ ادُّوا الیَّ اور جار مجرور جاءھم کے متعلق ہوں گے، اور یہ بھی درست ہے کہ أنْ مخففہ عن الثقیلہ ہو، اس کا اسم ضمیر شان محذوف ہو، اور ادُّوٓا الیَّ جملہ ہو کر اس کی خبر، عِبَادَ اللہ منادی مضاف حرف نداء محذوف، عباد سے مراد قبط ہوں گے، زمخشری نے کہا ہے کہ عباد اللہ، ادُّوا الیَّ کا مفعول بہ ہے اور وہ بنی اسرائیل ہیں اور ادُّوا الَیَّ معنی میں ارسلوھم معی کے ہے، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے جو سورة الشعراء میں آیا ہے ارسل معنا بنی اسرائیل (اعراب القرآن) علامہ محلی نے ادُّوا الیَّ کی تفسیر ما ادعوکم الیہ من الایمان سے کرکے اشارہ کردیا کہ اَن مصدریہ ہے اور اداء بمعنی قبول الدعوۃ ہے، مگر یہ ان لوگوں کے نزدیک ہے جو امر پر اَنْ مصدریہ کے دخول کے جواز کے قائل ہیں۔ (حاشیہ جلالین)
قولہ : عباد اللہ شارح نے مَا ادعُوکُمْ کا اضافہ کرکے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ ادُّوا کا مفعول محذوف ہے عباد اللہ منادی ہے یاء حرف نداء محذوف ہے، اور عباد اللہ سے مراد قبط ہیں، اور دیگر مفسرین نے کہا ہے کہ عِبَادَ اللہِ ادُّوا کا مفعول اور مراد بنی اسرائیل ہیں ای اَرْسِلُوْا معنی بنی اسرائیل۔
قولہ : اُترُل البحر رَھْوًا یہ رَھَا یَرْھُوْ کا مصدر ہے، ساکن ہونا، تھمنا، ٹھہرنا، اور بعض نے راہ کی وسعت مراد لی ہے، امام بخاری (رح) تعالیٰ نے سورة حٰمٓ کی تفسیر میں فرمایا کہ مجاہد نے کہا ہے رَھْوٌ خشک راستہ ہے، مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، کہ سمندر کو یہ حکم نہ دو کہ وہ اصلی حالت پر رجوع کرے بلکہ اس وقت تک اسی حالت پر چھوڑ دے کہ لشکر فرعون کا آخری سپاہی تک داخل ہوجائے، اور عبد بن حمید نے دوسرے طریق سے مجاہد سے رھوًا کے معنی منفرجًا یعنی وسیع اور کشادہ کے نقل کئے ہیں (لغات القرآن ملخصًا) علامہ محلی نے رھوًا کی تفسیر ساکنًا متفرجًا سے کرکے رَھْوًا کے دونوں معنی کی طرف اشارہ کردیا۔
قولہ : ای الأمر اس سے اشارہ کردیا کہ کذٰلک الاَمرُ مبتدا محذوف کی خبر ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
حٰم
11 Mufti Taqi Usmani
Haa-Meem .