الجاثیہ آية ۱
حٰمٓ ۚ
طاہر القادری:
حا، میم (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)،
English Sahih:
Ha, Meem.
1 Abul A'ala Maududi
ح م
2 Ahmed Raza Khan
حٰمٓ
3 Ahmed Ali
حمۤ
4 Ahsanul Bayan
حم
5 Fateh Muhammad Jalandhry
حٰم
6 Muhammad Junagarhi
حٰم
7 Muhammad Hussain Najafi
حا۔ میم۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
حمۤ
9 Tafsir Jalalayn
حٰم۔
آیت نمبر 1 تا 11
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے حٰمٓ اس کی مراد اللہ ہی بہتر جانتا ہے کتاب یعنی قرآن کا نزول اللہ کی طرف سے ہے (من اللہ) خبر ہے جو کہ اپنے ملک میں غالب اور اپنی صنعت میں حکمت والا ہے بلاشبہ آسمانون اور زمین میں یعنی ان دونوں کے پیدا کرنے میں ایسی نشانیاں ہیں جو اللہ کی قدرت اور وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں، اور خود تمہاری پیدائش میں یعنی تم سب کو نطفہ سے پیدا کرنے میں پھر دم بستہ سے پھر گوشت کے لوتھڑے سے، حتی کہ وہ نطفہ انسان ہوجاتا ہے، اور ان جانوروں کی پیدائش میں جنہیں وہ زمین پر پھیلاتا ہے (دابۃ) ہر وہ شئ ہے جو زمین پر چلے انسان وغیرہ، بعث کا یقین رکھنے والی قوم کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں اور رات دن کے بدلنے میں (یعنی) ان کے جانے اور آنے میں اور اس رزق (بارش) میں جسے وہ آسمان سے نازل کرتا ہے، اس لئے کہ (بارش) سبب رزق ہے اس بارش کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو زندہ کردیا اس کے مردہ ہوجانے کے بعد اور ہواؤں کے بدلنے میں بھی کبھی جنوباً ، تو کبھی شمالاً کبھی ٹھنڈی، تو کبھی گرم، ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو دلیل کو سمجھتے ہیں کہ ایمان لے آئیں، یہ جو نشانیاں مذکورہ ہوئیں اللہ کی نشانیاں ہیں یعنی اس کی وہ حجتیں ہیں جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں جنہیں ہم آپ کو راستی کے ساتھ سنا رہے ہیں (بالحق) نَتْلُوْا سے متعلق ہے پس اللہ کی بات اور قرآن ہے اور اس کی حجتوں کے بعد کس کی بات پر یہ کفار مکہ ایمان لائیں گے اور ایک قراءت میں تاء کے ساتھ (تؤمنون) ہے اور ہر جھوٹے، گنہگار بکثرت گناہ کرنے والے پر افسوس ہے، جو اپنے سامنے پڑھی جانے والی اللہ کی آیتوں قرآن کو سنتا ہے پھر بھی ایمان سے تکبر کرتا ہوا اپنے کفر پر مصر رہے، گویا کہ ان (آیات) کو سنا ہی نہیں ہے تو ایسے لوگوں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئے اور وہ جب ہماری آیتوں قرآن میں سے کسی آیت کی خبر پالیتا ہے تو اس کا مذاق بنالیتا ہے یہی ہیں وہ دروغ گو جب کے لئے اہانت آمیز عذاب ہے ان کے آگے جہنم ہے اس لئے کہ وہ دنیا میں ہیں، مال و اعمال میں سے انہوں نے جو کچھ بھی کمایا ان کو کچھ فائدہ نہ دے گا اور نہ وہ (کچھ کام آئیں گے) جن بتوں کو اللہ کے سوا کار ساز بنا رکھا تھا اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے یہ یعنی قرآن سرتاپا گمراہی سے ہدایت ہے اور جن لوگوں نے اپنے رب کی آیتوں کو نہ مانا ان کے لئے دردناک عذاب کا حصہ ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : تَنْزِیْلُ الکِتاب مبتداء ہے اور من اللہ کائن کے متعلق ہو کر اس کی خبر ہے العزیز الحکیم یہ دونوں اللہ کی صفات ہیں جیسا کہ مفسر علام نے اشارہ کیا ہے، اور یہ بھی درست ہے کہ تنزیل الکتاب، ھٰذا مبتداء محذوف کی خبر ہو اور من اللہ تنزیل کے متعلق ہو
قولہ : لاٰیاتٍ ، آیات اِنّ کا اسم ہونے کی وجہ سے منصوب کی وجہ سے منصوب ہے کسرہ کے ساتھ یہ باتفاق قراء ہے، لیکن آئندہ آنے والی آیاتٌ لقومٍ یوقنوں اور آیاتٌ لقوم یَعْقِلونَ ان میں رفع اور نصب دونوں قراءتیں ہیں، رفع تو اس لئے کہ آیات مبتداء مؤخر ہے اور فِی خلقکم خبر مقدم ہے اور نصب اس لئے کہ آیات معطوف ہے آیات اول پر جو کہ وہ اِنَّ کا اسم ہے اور فی خلقکم معطوف ہے فی السمٰوٰت والارض پر جو کہ اِنّ کی خبر واقع ہے، اس میں عامل واحد کے دو معمولوں پر عطف ہے جو بالاتفاق جائز ہے۔ (صاوی)
قولہ : وَخَلْقِ مَا یَبُتُّ شارح علام نے خَلْق مضاف مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ اس کا عطف خَلْقِکُمْ پر ہے یہ بھی درست ہے کہ مایَبُتُّ خلقکُم کی کم ضمیر مجرور پر ہو مگر یہ ان لوگوں کے نزدیک جائز ہوگا جو ضمیر مجرور پر بغیر اعادۂ جار کے عطف جائز کہتے ہیں۔
قولہ : وفی اختلاف اللیل والنھار، فی کو ظاہر کرکے اشارہ کردیا کہ یہاں فِی مقدر ہے جیسا کہ قراءت شاذہ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ (صاوی) قولہ : تلک آیاتٌ مبتداء خبر ہیں اور نَتْلُوھا حال۔
قولہ : لاَیُؤمنون سے اشارہ کردیا کہ فَباَیِّ حدِیْثٍ میں ہمزہ استفہام انکاری ہے۔
قولہ : وَیْلٌ عذاب اور جہنم کی وادی دونوں معنی میں مستعمل ہے۔
قولہ : کَاَنْ لم یَسْمَعْھا کأنْ اصل میں کَأنَّ تھا یہ مخففہ عن المثقلہ ہے، ضمیر شان محذوف ہے، ای کَأنَّہٗ اور جملہ یا تو مستانفہ ہے یا حال ہے۔ (صاوی) قولہ : اِتّخذھا ھُزُوًا۔
سوال : اِتَّخَذَھا کی ضمیر شیئًا کی طرف راجع ہے جو کہ مذکر ہے لہٰذا اس کی طرف ضمیر مؤنث لوٹانا صحیح نہیں ہے۔
جواب : معنی کے اعتبار سے مؤنث کی ضمیر لوٹانا درست ہے اس لئے کہ شیئًا سے مراد آیت ہے۔
دوسرا جواب : آیاتنا کی طرف لوٹانا بھی درست ہے۔
قولہ : ای امامھم اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وراء امام اور خلف دونوں معنی میں مستعمل ہے۔
تفسیر وتشریح
بالاتفاق یہ سورت مکی ہے، صرف ایک قول یہ ہے کہ آیت قل للذین آمنوا یَغْفِرُوا للذین لَا یَرجُوْنَ مدنی ہے، اس سورت کے تین نام ہیں، (١) جاثیۃ (٢) شریعۃ (٣) الدھر (اتقان) یہ تینوں اشیاء اس سورت میں مذکور ہیں، یہ اسماء اسم الکل باسم الجزء کے قبیل سے ہیں۔
شان نزول : قل للذین اٰمنوا لخ حضرت عمر بن الخطاب کے بارے میں نازل ہوئی ایک مشرک نے ان کو مکہ میں گالی دی، حضرت عمر نے چاہا کہ اس سے انتقام لیں، تو مذکورہ آیت نازل ہوئی پھر اس آیت کا حکم اقتلوا المشرکین سے منسوخ کردیا گیا۔ اس سورت کا مضمون بھی دیگر مکی سورتوں کی طرح عقائد کی اصلاح ہے چناچہ اس سورت میں توحید، رسالت اور آخرت کے عقائد ہی کو مختلف طریقوں سے مدلل کیا گیا ہے۔
ویل۔۔ اثیم بڑی خرابی ہوگی اس شخص کے لئے جو جھوٹا اور نافرمان ہو۔
شان نزول : اس آیت کے شان بزول میں متعدد وایات ہیں بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی اور بعض میں ہے کہ حارث بن کلدہ کے بارے میں نازل ہوئی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی، مفہوم قرآن کو سمجھنے کیلئے کسی ایک شخص کی تعیین کی ضرورت نہیں کُلْ کا لفط بتارہا ہے کہ آیت کے پس منظر میں خواہ یہ تینوں اشخاص ہوں، لیکن مراد وہ شخص ہے جو ان جیسی صفات کا حامل ہو۔
10 Tafsir as-Saadi
حٰم
11 Mufti Taqi Usmani
Haa-Meem .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو ہدایت فرماتا ہے کہ وہ قدرت کی نشانیوں میں غور و فکر کریں۔ اللہ کی نعمتوں کو جانیں اور پہچانیں پھر ان کا شکر بجا لائیں دیکھیں کہ اللہ کتنی بڑی قدرتوں والا ہے جس نے آسمان و زمین اور مختلف قسم کی تمام مخلوق کو پیدا کیا ہے فرشتے، جن، انسان، چوپائے، پرند، جنگلی جانور، درندے، کیڑے، پتنگے سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ سمندر کی بیشمار مخلوق کا خالق بھی وہی ایک ہے۔ دن کو رات کے بعد اور رات کو دن کے پیچھے وہی لا رہا ہے رات کا اندھیرا دن کا اجالا اسی کے قبضے کی چیزیں ہیں۔ حاجت کے وقت انداز کے مطابق بادلوں سے پانی وہی برساتا ہے رزق سے مراد بارش ہے اس لئے کہ اسی سے کھانے کی چیزیں اگتی ہیں۔ خشک بنجر زمین سبز و شاداب ہوجاتی ہے اور طرح طرح کی پیداوار اگاتی ہے۔ شمالی جنوبی پروا پچھوا ترو خشک کم و بیش رات اور دن کی ہوائیں وہی چلاتا ہے۔ بعض ہوائیں بارش کو لاتی ہیں بعض بادلوں کو پانی والا کردیتی ہیں۔ بعض روح کی غذا بنتی ہیں اور بعض ان کے سوا کاموں کے لئے چلتی ہیں۔ پہلے فرمایا کہ اس میں ایمان والوں کے لئے نشانیاں ہیں پھر یقین والوں کے لئے فرمایا پھر عقل والوں کے لئے فرمایا یہ ایک عزت والے کا حال سے دوسرے عزت والے حال کی طرف ترقی کرنا ہے۔ اسی کے مثل سورة بقرہ کی آیت ( اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ\019\00ڌ) 3 ۔ آل عمران :190) ، ہے امام ابن ابی حاتم نے یہاں پر ایک طویل اثر وارد کیا ہے لیکن وہ غریب ہے اس میں انسان کو چار قسم کے اخلاط سے پیدا کرنا بھی ہے۔ واللہ اعلم۔