الاحقاف آية ۱۵
وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسَانًا ۗ حَمَلَـتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۗ وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰـثُوْنَ شَهْرًا ۗ حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَبَلَغَ اَرْبَعِيْنَ سَنَةً ۙ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِىْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِىْۤ اَنْعَمْتَ عَلَىَّ وَعَلٰى وَالِدَىَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰٮهُ وَاَصْلِحْ لِىْ فِىْ ذُرِّيَّتِىْ ۗۚ اِنِّىْ تُبْتُ اِلَيْكَ وَاِنِّىْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ
طاہر القادری:
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم فرمایا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف کے ساتھ جنا، اور اس کا (پیٹ میں) اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا (یعنی زمانۂ حمل و رضاعت) تیس ماہ (پر مشتمل) ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور (پھر) چالیس سال (کی پختہ عمر) کو پہنچتا ہے، تو کہتا ہے: اے میرے رب: مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمایا ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک اعمال کروں جن سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری اولاد میں نیکی اور خیر رکھ دے۔ بیشک میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں یقیناً فرمانبرداروں میں سے ہوں،
English Sahih:
And We have enjoined upon man, to his parents, good treatment. His mother carried him with hardship and gave birth to him with hardship, and his gestation and weaning [period] is thirty months. [He grows] until, when he reaches maturity and reaches [the age of] forty years, he says, "My Lord, enable me to be grateful for Your favor which You have bestowed upon me and upon my parents and to work righteousness of which You will approve and make righteous for me my offspring. Indeed, I have repented to You, and indeed, I am of the Muslims."
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک بر تاؤ کرے اُس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی اس کو جنا، اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری طاقت کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا تو اس نے کہا "اے میرے رب، مجھے توفیق دے کہ میں تیری اُن نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائیں، اور ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہو، اور میری اولاد کو بھی نیک بنا کر مجھے سُکھ دے، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور تابع فرمان (مسلم) بندوں میں سے ہوں"
2 Ahmed Raza Khan
اور ہم نے آدمی کو حکم کیا اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے، ا س کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا تکلیف سے اور جنا اس کو تکلیف سے، اور اسے اٹھائے پھرنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس مہینے میں ہے یہاں تک کہ جب اپنے زور کو پہنچا اور چالیس برس کا ہوا عرض کی اے میرے رب! میرے دل میں ڈال کہ میں تیری نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کی اور میں وہ کام کروں جو تجھے پسند آئے اور میرے لیے میری اولاد میں صلاح (نیکی) رکھ میں تیری طرف رجوع لایا اور میں مسلمان ہوں
3 Ahmed Ali
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی کہ اسے اس کی ماں نے تکلیف سے اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف سے جنا اوراس کا حمل اور دودھ کا چھڑانا تیس مہینے ہیں یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا اور چالیں سال کی عمر کو پہنچا تو اس نے کہا اے میرے رب مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر انعام کی اور میرے والدین پر اور میں نیک عمل کروں جسے تو پسند کرے اور میرے لیے میری اولاد میں اصلاح کر بے شک میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور بے شک میں فرمانبردار میں ہوں
4 Ahsanul Bayan
اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا (١) اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے ہے (٢) یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا (۳) تو کہنے لگا اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے (٤) کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاؤ جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کیا ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور تو میری اولاد کو بھی صالح بنا۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔
۱۵۔۱ اس مشقت وتکلیف کا ذکر والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حکم میں مزید تاکید کے لیے ہے جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ماں اس حکم احسان میں باپ سے مقدم ہے کیونکہ نو ماہ تک مسلسل حمل کی تکلیف اور پھر زچگی کی تکلیف صرف تنہا ماں ہی اٹھاتی ہے باپ کی اس میں شرکت نہیں اسی لیے حدیث میں بھی ماں کے ساتھ حسن سلوک کو اولیت دی گئی ہے اور باپ کا درجہ اس کے بعد بتلایا گیا ہے ایک صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری ماں اس نے پھر یہی پوچھا آپ نے یہی جواب دیا تیسری مرتبہ بھی یہی جواب دیاچھوتھی مرتبہ پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تمہارا باپ۔ صحیح مسلم۔
١٥۔۲ فِصَا ل،ُ کے معنی، دودھ چھڑانا ہیں۔ اس سے بعض صحابہ نے استدلال کیا ہے کہ کم از کم مدت حمل چھ مہینے یعنی چھ مہینے کے بعد اگر کسی عورت کے ہاں بچہ پیدا ہو جائے تو وہ بچہ حلال ہی ہوگا، حرام نہیں۔ اس لئے کہ قرآن نے مدت رضاعت دو سال (٢٤) مہینے بتلائی ہے، اس حساب سے مدت حمل صرف چھ مہینے ہی باقی رہ جاتی ہے۔
١٥۔۳کمال قدرت (اَشْدُّہُ) کے زمانے سے مراد جوانی ہے، بعض نے اسے ١٨ سال سے تعبیر کیا ہے، حتٰی کہ پھر بڑھتے بھڑتے چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا یہ عمر قوائے عقلی کے مکمل بلوغ کی عمر ہے اسی لیے مفسرین کی رائے ہے کہ ہر نبی کو چالیس سال کے بعد ہی نبوت سے سرفراز کیا گیا ۔
١٥۔٤ اَوْزِغنِیْ بمعنی اَلْھِمْنِیْ ہے، مجھے توفیق دے۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے علماء نے کہا کہ اس عمر کے بعد انسان کو یہ دعا کثرت سے پڑھتے رہنا چاہئے۔ یعنی رَبی اَوْزغْنِیْ سے مِنَ الْمُسْلِمیْنَ تک۔ کو پہنچ گیا، یہ عمر قوائے عقلی کے مکمل بلوغ کی عمر ہے۔ اس لئے مفسرین کی رائے ہے کہ ہر نبی کو چالیس سال کے بعد ہی نبوت سے سرفراز کیا گیا
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے پیٹ میں رکھا اور تکلیف ہی سے جنا۔ اور اس کا پیٹ میں رہنا اور دودھ چھوڑنا ڈھائی برس میں ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب خوب جوان ہوتا ہے اور چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے کہ تو نے جو احسان مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کئے ہیں ان کا شکر گزار ہوں اور یہ کہ نیک عمل کروں جن کو تو پسند کرے۔ اور میرے لئے میری اولاد میں صلاح (وتقویٰ) دے۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں فرمانبرداروں میں ہوں
6 Muhammad Junagarhi
اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا۔ اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے۔ یہاں تک کہ جب وه پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو کہنے لگا اے میرے پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا ﻻؤں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور تو میری اوﻻد بھی صالح بنا، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اس کی ماں نے زحمت کے ساتھ اسے پیٹ میں رکھا اور زحمت کے ساتھ اسے جنم دیا اور اس کا حمل اور دودھ چھڑانا تیس مہینوں میں ہوا۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری طاقت کو پہنچا (جوان ہوا) اور پورے چالیس سال کا ہوگیا تو اس نے کہا اے میرے پروردگار! تو مجھے توفیق عطا فرما کہ میں تیرے اس احسان کاشکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور یہ کہ میں ایسا نیک عمل کروں جسے تو پسند کرتا ہے اور میرے لئے میری اولاد میں بھی صالحیت پیدا فرما میں تیری بارگاہ میں توبہ (رجوع) کرتا ہوں اور میں مسلمانوں(فرمانبرداروں) میں سے ہوں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرنے کی نصیحت کی کہ اس کی ماں نے بڑے رنج کے ساتھ اسے شکم میں رکھا ہے اور پھر بڑی تکلیف کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس کے حمل اور دودھ بڑھائی کا کل زمانہ تیس مہینے کا ہے یہاں تک کہ جب وہ توانائی کو پہنچ گیا اور چالیس برس کا ہوگیا تو اس نے دعا کی کہ پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکریہ ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا کی ہے اور ایسا نیک عمل کروں کہ تو راضی ہوجائے اور میری ذریت میں بھی صلاح و تقویٰ قرار دے کہ میں تیری ہی طرف متوجہ ہوں اور تیرے فرمانبردار بندوں میں ہوں
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اس کی ماں نے اسکو تکلیف سے پیٹ میں رکھا اور تکلیف ہی سے جنا اور اس کا پیٹ میں رہنا اور دودھ چھوڑنا ڈھائی برس میں ہوتا ہے یہاں تک کہ جب خوب جوان ہوتا ہے اور چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار ! مجھے توفیق دے کہ تو نے جو احسان مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کئے ہیں انکا شکر گزار ہوں اور یہ کہ نیک عمل کروں جن کو تو پسند کرے اور میرے لیے میری اولاد میں صلاح (و تقوٰی) دے میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں فرمانبرداروں میں ہوں
ووصینا الانسان بوالدیہ احساناً لفظ وصیت خاص تاکیدی حکم کے لئے استعمال ہوتا ہے اور احسان و حسن دونوں حسن سلوک کے معنی میں ہیں جس میں خدمت و اطاعت بھی داخ ہے اور تعظیم و تکریم بھی۔
مذکورہ آیت اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگرچہ اولاد کو ماں اور باپ دونوں ہی کی خدمت کرنی چاہیے لیکن ماں کا حق اپنی اہمیت میں اس بناء پر زیادہ ہے کہ وہ اولاد کے لئے بہ نسبت باپ کے زیادہ تکلیف اٹھائی ہے۔ یہی بات اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے جو تھوڑے تھوڑے لفظی اختلاف کے ساتھ، بخاری، مسلم، ابودائود ترمذی وغیرہ میں وارد ہوئی ہے۔
مذکورہ چار آیتوں میں اصل مضمون انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرنا ہے، ضمناً دوسری تعلیمات بھی زیر بحث آگئی ہیں۔
والدہ کی خدمت کی زیادہ تاکید کیوں ؟
خدمت اگرچہ دونوں ہی کی کرنی چاہیے مگر چونکہ والدہ بچے کے لئے زیادہ تکلیف اٹھاتی ہے اس لئے اس کی خدمت کی اہمیت اور تاکید زیادہ ہے، ایک صحابی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : کس کا حق خدمت مجھ پر زیادہ ہے ؟ فرمایا صل امک ثم امک ثم امک ثم اباک ثم ادناک فادناک (مظہری) تیری ماں کا پھر پوچھا اس کے بعد کس کا ؟ فرمایا تیری ماں کا، پھر پوچھا پھر کس کا ؟ فرمایا تیری ماں کا، جب چوتھی مرتبہ پوچھا پھر کس کا ؟ آپ نے فرمایا : تیرے باپ کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ٹھیک ٹھیک اس آیت کی ترجمانی ہے، کیونکہ آیت میں بھی ماں کے تہرے حق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے : (١) اس کی ماں نے مشقت اٹھا کر پیٹ میں رکھا (٢) مشقت اٹھا کر ہی اس کو جنا (٣) اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس ماہ لگے۔
شان نزول :
بعض روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ آیات حضرت ابوبکر (رض) کی شان میں نازل ہوئی ہیں اخرج ابن عساکر من طریق الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس ال نزل (ووصینا الانسان بوالدیہ (الی یوعدون) فی ابی بکر الصدیق اسی بناء پر تفسیر مظہری میں ووصینا الانسان کے الف لام کو عہد کا قرار دے کر اس سے مراد ابوبکر صدیق لئے ہیں لیکن یہ ظاہر ہے کہ اگرچہ کسی آیت کا سبب نزول کوئی خاص فرد یا خاص واقعہ ہو، مگر حکم سب کے لئے عام ہوتاے، اگر آیت کو تعلیم عام کے لئے قرار دیا جائے تو اس صورت میں بھی صدیق اکبر اس تعلم کے پہلے مصداق قرار پائیں گے، جو ان ہونے اور چالیس سال عمر ہونے کے بعد کی تخصیصات جو ان آیات میں مذکور ہیں بطور تمثیل کے ہوں گے۔ (معارف)
حملہ وفصالہ ثلثون شھراً اس جملہ میں بھی ماں کی مشقت کا بیان ہے کہ بچے کے حمل اور وضع حمل کی مشقت کے بعد بھی ماں کو محنت و مشقت سے فراغت نہیں ملتی کیونکہ اس کے بعد بچے کی غذا بھی قدرت نے ماں کی چھاتیوں میں اتاری ہے، آیت میں ارشاد فرمایا کہ بچہ کا حمل اور دودھ چھڑانا تیس مہینہ میں ہے، حضرت علی (رض) نے اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ حمل کی مدت کم سے کم چھ ماہ ہے، اس لئے کہ قرآن کریم نے اکثر مدت رضاعت دو سال کا مل تمعین فرما دیئے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین اور یہاں حمل اور رضاعت دونوں کی مدت تیس ماہ قرار دی گئے ہے تو رضاعت کے دو سال یعنی ٢٤ مہینے نکلنے کے بعد چھ ماہ ہی باقی رہتے ہیں کہ جس کو حمل کی کم از کم مدت قرار دیا گیا ہے۔ (معارف )
اس آیت اور سورة لقمان کی آیت ١٤ اور سورة بقرہ کی آیت ٢٢٣ سے ایک قانونی نکتہ بھی نکلتا ہے جس کی نشاندہی ایک مقدمہ میں حضرت علی (رض) اور عباس ابن (رض) نے کی، اور عثمان (رض) نے اس کی بناء پر اپنا فیصلہ بدل دیا۔
فائدہ : اس آیت میں حمل کی اقل مدت کا بیان ہے اور رضاعت کی اکثر مدت کی طرف اشارہ ہے، حمل کی کم از کم چھ ماہ کی مدت متعین ہے، اس سے کم میں صحیح سالم بچہ پیدا نہیں ہوسکتا، مگر زیادہ سے زیادہ کتنی مدت بچہ حمل میں رہ سکتا ہے اس میں عادتیں مختلف ہیں اسی طرح رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت متعین ہے کہ دو سال تک دودھ پلایا جاسکتا ہے کم سے کم مدت کی کوئی تعیین نہیں۔
اکثر مدت حمل اور مدت رضاعت میں فقہاء کا اختلاف :
اکثر مدت حمل امام اعظم ابوحنیفہ رحمتہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دو سال ہے، امام مالک رحمتہ اللہ تعالیٰ سے مختف روایات منقول ہیں چار سال، پانچ سال، سات سال، امام شافعی رحمتہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک چار سال ہے، امام احمد رحمتہ اللہ تعالیٰ کی مشہور روایت بھی چار ہی سال کی ہے۔ (مظہری) اور اکثر مدت رضاعت جس کے ساتھ احکام رضاعت متعلق ہوتے ہیں جمہور فقراء کے نزدیک دو سال ہے، امام مالک، شافعی، احمد بن حنبل رحمتہ اللہ تعالیٰ اور ائمہ حنفیہ میں سے امام باویوسف اور مام محمد رحمھا اللہ تعالیٰ سب اس پر متفق ہیں اور صحابہ کرام میں سے حضرت عمر (رض) اور ابن عباس (رض) کا بھی یہی قول ہے (دار قطنی بحوالہ معارف) نیز حضرت علی اور عبداللہ بن مسعود کا بھی یہی قول ہے (ابن ابی شیبہ، معارف) صرف امام ابوحنیفہ سے یہ منقول ہے کہ ڈھائی سال تک بچہ کو دودھ پلایا جاسکتا ہے، جس کا حاصل جمہوریہ حنفیہ کے نزدیک یہ ہے، اگر بچہ کمزور ہو، ماں کے دودھ کے سوا دو سال تک بھی دوسری غذا نہ لے سکتا ہو تو مزید چھ ماہ دودھ پلانے کی اجازت ہے کیونکہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ مدت رضاعت پوری ہونے کے بعد ماں کا دودھ بچے کو پلانا حرام ہے، مگر فتویٰ فقہاء حنفیہ کا بھی جمہور ائمہ کے مسلک پر ہے وہ کہ اگر دو سال کی مدت کے بعد دودھ پلایا گیا ہو اس سے حرمت رضاعت ثابت نہ ہوگی۔ (معارف القرآن)
حضرت عثمان غنی (رض) کے عہد خلافت میں ایک شخص نے قبیلہ جہینہ کی ایک عرت سے نکاح کیا اور شادی کے چھ ہی ماہ بعد اس کے یہاں صحیح سالم بچہ پیدا ہوگیا، اس شخص نے حضرت عثمان (رض) تعالیٰ کی خدمت میں یہ معاملہ پیش کیا، آپ نے اس عورت کو زانیہ قرار دیکر رجم کا حکم فرما دیا، جب حضرت علی (رض) نے یہ قصہ تو فوراً حضرت عثمان (رض) کے پاس پہنچے اور فرمایا یہ آپ نے کیا فیصلہ کر یا ؟ حضرت علی (رض) نے فرمایا نہیں، پھر حضرت علی (رض) نے قرآن مجید کی مذکورہ تینوں آیتیں ترتیب کے ساتھ پڑھیں، سورة بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : مائیں اپنے بچوں کے پودے پور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے اور سورة احقاف میں فرمایا اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ اب اگر تیس مہینوں میں سے رضاعت کے دو سال نکال دیئے جائیں تو حمل کے چھ ماہ رہ جاتے ہیں، اس سے معلم ہوا کہ حمل کی کم از کم مدت جس میں بچہ زندہ سلامت پیدا ہوسکتا ہے، چھ مہینے ہیں، لہٰذا جس عورت نے نکاح کے بعد چھ ماہ میں بچہ جنا ہے اسے زانیہ نہیں کہا جاسکتا۔ حضرت علی (رض) کا یہ استدلال سن کر حضرت عثمان (رض) نے فرمایا اس کی طرف میرا ذہن نہیں گیا، پھر آپ نے عورت کو واپس بلوایا اور اپنے فیصلے سے رجوع کرلیا ایک روایت میں ہے کہ ہے کہ حضرت علی (رض) کے فیصلے کی تائید حضرت ابن عباس (رض) نے بھی فرمائی۔ (ابن جریر، احکام القرآن للحصاص، ابن کثیر) ۔ فائدہ :۔
اس مقام پر جانا لینا فائدہ سے خالی نہ ہوگا کہ جدید ترین طبی تحقیقات کی رو سے ماں کے پیٹ میں ایک بچہ کے لئے کم از کم 28 ہفتے ہفتے درکار ہوتے ہیں جن میں میں وہ نشو نما پاک زندہ، ولادت کے قابل ہوسکتا ہے، یہ مدت چھ مہینے سے کچھ زائد بنتی ہے، اسلامی قانون میں نصف مہینے کے قریب مزید رعایت دی گئی ہے کیونکہ ایک عورت کو زانیہ قرار دینا اور ایک بچے کو نسب سے محروم کرنا بڑا سخت معاملہ ہے اور اس کی نزاکت اس کا تقاضا کرتی ہے کہ ماں اور بچے کو قانونی نتائج سے بچانے کے لئے زیادہ سے زیادہ گنجائش دی جائے۔
والذین قال لوالدیہ ماسبق میں اللہ تعالیٰ نے اس شخص کا ذکر فرمایا جس نے اپنے اور اپنے والدین کے اوپر اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کیا (یعنی ابوبکر صدیق (رض) اس آیت میں اس شخص کا ذکر فرمایا جس نے اپنے والدین سے جبکہ انہوں نے اس کو ایمان کی دعوت دی ایسا کلمہ کہا جو ان کی طرف سے تنگ دلی پر دلالت کرتا تھا، فرمایا : والذین قال لوالدیہ اف لکما اس شخص سے مراد عبدالرحمٰن بن ابوبکر ہے جیسا کہ روایات سے معلوم ہوتا ہے، اخرج ابن جریر عن عباس فی آلایۃ، قال : ھذا ابن لابی بکر (رض) اسی کے مثل ابو حاتم نے سدی سے روایت کیا ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے، جیسا کہ بخاری کی روایت سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ وہ روایتیں جو اس آیت کا مصداق عبدالرحمٰن بن ابی بکر کو ٹھہراتی ہیں صحیح نہیں ہیں۔
امام بخاری (رح) تعالیٰ نے یوسف بن ماہک سے روایت کیا ہے کہ مروان، معاویہ (رض) بن سفیان کی جانب سے مدینہ کا حاکم تھا ایک روز اس نے خطبہ دیا اور خطبہ میں اس بات کا ذکر کیا کہ امیر معاویہ (رض) اللہ تعالیٰ عنہ کی خواہش ہے کہ ان کے بعد ان کے بیٹے یزید کی بیعت لی جائے، اس پر عبدالرحمٰن بن ابی بکر کچھ بولے، مروان نے کہا اس کو پکڑ لو، حضرت عبدالرحمٰن اپنی بہن حضرت عائشہ کے گھر میں داخل ہوگئے جس کی وجہ سے مروان ان پر قابو نہ پاسکا، تو مروان نے کہا یہی ہے وہ شخص جس کے بارے میں آیت والذین قال لو الدیہ اف لکما نازل ہوئی حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : ما انزل اللہ فینا شیئاً من القرآن الا ان اللہ انزل عذری یعنی سورة نور کی ان آیتوں کے علاوہ جن میں میری برأت نازل کی گئی ہے ہمارے بارے میں کچھ نازل نہیں ہوا۔ (فتح القدیر، شوکانی)
ایک دوسری روایت جس کو عبد بن حمید و النسائی وابن لامنذرو الحاکم نے نقل کیا ہے ابن مردویہ نے محدم بن زیادہ سے اس کی تصحیح کی ہے، فرمایا : جب حضرت امیر معاوضہ (رض) نے اپنے بیٹے) یزید) کے لئے بیعت لی تو مروان نے کہا یہ ابوبکر و عمر کی سنت ہے، عبدالرحمٰن بن ابی بکر نے کہا ہر قتل اور قیصر کی سنت ہے، تو اس وقت مروان نے کہا یہی ہے وہ شخص جس کے بارے میں آیت والذین قال لو الدیہ اف لکما نازل ہوئی یہ بات جب حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو پہنچی تو فرمایا مروان نے جھوٹ بلا واللہ ایسا نہیں ہے، اگر میں چاہوں تو اس شخص کا نام بتاسکتی ہوں جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے، ہاں البتہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مروان کے باپ (حکم) پر لعنت فرمائی اور مروان اس وقت حکم کی پشت میں تھے، لہٰذا مروان ان لوگوں میں سے ہے جس پر اللہ نے لعنت فرمائی۔
ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر اس آیت کے مصداق نہیں ہیں اور ہو بھی کیسے سکتے ہیں کہ عبدالرحمٰن جیسے جلیل القدر صحابی جن کی تلوار آبدار نے قیصر و کسریٰ کو پست کردیا اور جن کے خون زخم سے شام و عراق کی زمینیں آج تک گلگوں و گل بو میں ہیں جنہوں نے اپنی جان اللہ کے لئے فدا کی، یہ سمجھ اور عقل سے بالاتر ہے کہ ایسے پاکیزہ و پاک باطن کے بارے میں اولئک الذین حق علیھم القول فی امم قد خلت من قبلھم من قبلھم من الجن والانس انھم کانوا خاسرین جیسی وعید شدید نازل ہو۔ (خلاصۃ التفاسیر للتائب لکھنوی، فتح القدیر شوکانی ملخصاً )
10 Tafsir as-Saadi
یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم اور والدین کی قدرو توقیر ہے کہ اس نے اولاد کو حکم دیا اور ان کو اس امر کا پابند کیا کہ وہ نرم وملائم بات، مال و نفقہ اور دیگر طریقوں سے اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کریں، پھر اس کے سبب موجب کی طرف اشارہ کیا، پھر اس مرحلے کا ذکر فرمایا جس میں ماں اپنے بچے کو اپنے بیٹ میں اٹھائے پھرتی ہے، اس حمل کے دوران میں تکالیف برداشت کرتی ہے، پھر ولادت کے وقت بہت بڑی مشقت کا سامنا کرتی ہے، پھر رضاعت اور پرورش کی تکلیف اٹھاتی ہے۔ مذکورہ مشقت تھوڑی سے مدت، گھڑی دو گھڑی کے لئے نہیں بلکہ وہ طویل مدت ہے جس کا عرصہ ﴿ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ﴾ ” تیس مہینے ہے۔“ جن میں سے غالب طور پر نو ماہ کے لگ بھگ حمل اور باقی مہینے رضاعت کے لئے ہیں۔ اس آیت کریمہ کو اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿ وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ﴾ (البقرۃ: 2؍233) ” اور مائیں اپنی اولاد کو کامل دو سال دودھ پلائیں۔“ کے ساتھ ملا کر استدلال کیا جاتا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے، کیونکہ رضاعت کی مدت کو، جو کہ دو سال ہے، تیس مہینوں میں سے نکال دیا جائے تو حمل کی مدت چھ ماہ بچتی ہے۔
﴿ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ ﴾ یعنی جب وہ اپنی قوت و شباب کی انتہا اور اپنی عقل کے کمال کو پہنچ جاتا ہے ﴿ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي ﴾ ” اور چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے رب ! مجھے توفیق دے۔“ یعنی اے میرے رب مجھے الہام کر اور مجھے توفیق عطا کر ﴿أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ ﴾ ” کہ تو نے جو احسان مجھ پر اور میرے والدین پر کیے ہیں ان کا شکر گزار ہوں۔“ یعنی دین اور دنیا کی نعمتیں اور اس کا شکر کرنا یہ ہے کہ ان نعمتوں کو، منعم کی اطاعت میں صرف کیا جائے اور اس کے مقابلے میں ان نعمتوں کی شکرگزاری سے عجز کے اعتراف اور ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا میں کوشاں رہا جائے۔
والدین کو نعمتوں سے نوازا جانا، ان کی اولاد کو ان نعمتوں سے نوازا جانا ہے کیونکہ ان نعمتوں اور ان کے اسباب و آثار کا اولاد تک پہنچنا لازم امر ہے، خاص طور پر دین کی نعمت، کیونکہ علم و عمل کے ذریعے سے والدین کا نیک ہونا اولاد کے نیک ہونے کا سب سے بڑا سبب ہے۔
﴿ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ ﴾ ” اور ایسے نیک کام کروں جن سے تو راضی ہو“ وہ اس طرح کہ وہ ان اعمال کا جامع ہو جو اسے نیک بناتے ہیں اور ان اعمال سے پاک ہو جو اسے خراب کرتے ہیں، یہی وہ اعمال ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ قبول فرما کر ان پر ثواب عطا کرتا ہے۔ ﴿ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ﴾ ” اور تو میری اولاد کو بھی صالح بنا“ جب اس نے اپنے لئے نیکی کی دعا کی تو اس نے اپنی اولاد کے لئے بھی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کے احوال کو درست فرما دے۔ نیز ذکر فرمایا کہ اولاد کی نیکی کا فائدہ والدین کی طرف لوٹتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا : ﴿وَأَصْلِحْ لِي ﴾ ” اور میرے لئے اصلاح کردے۔ “
﴿ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ ﴾ میں گناہ اور معاصی سے تیرے پاس توبہ کرتا ہوں اور تیری اطاعت کی طرف لوٹتا ہوں ﴿ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴾ ” اور بے شک میں تیرے مطیع بندوں میں سے ہوں۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney insan ko apney walaiden say acha bartao kernay ka hukum diya hai . uss ki maa ney bari mushaqqat say ussay ( pet mein ) uthaye rakha , aur bari mushaqqat say uss ko jana , aur uss ko uthaye rakhney aur uss kay doodh churraney ki mauddat tees maheenay hoti hai , yahan tak kay jab woh apni poori tawanai ko phonch gaya , aur chaalees saal ki umar tak phonch gaya to woh kehta hai kay : yaar rab ! mujhay tofiq dijiye kay mein aap ki uss naimat ka shukar ada kerun jo aap ney mujhay aur meray maa baap ko ata farmaee , aur aesay naik amal kerun jinn say aap razi hojayen , aur meray liye meri aulad ko bhi salahiyat dey dijiye . mein aap kay huzoor tauba kerta hun , aur mein farmanbardaaron mein shamil hun .
12 Tafsir Ibn Kathir
والدین سے بہترین سلوک کرو
اس سے پہلے چونکہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی عبادت کے اخلاص کا اور اس پر استقامت کرنے کا حکم ہوا تھا اس لئے یہاں ماں باپ کے حقوق کی بجا آوری کا حکم ہو رہا ہے۔ اسی مضمون کی اور بہت سی آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں جیسے فرمایا آیت ( وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۭ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا 23) 17 ۔ الإسراء :23) یعنی تیرا رب یہ فیصلہ کرچکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو۔ اور آیت میں ہے آیت (ان اشکر لی والوالدیک الی المصیر) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا لوٹنا تو میری ہی طرف ہے اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں پس یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے انسان کو حکم کیا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ احسان کرو ان سے تواضع سے پیش آؤ۔ ابو داؤد طیالسی میں حدیث کہ حضرت سعد کی والدہ نے آپ سے کہا کہ کیا ماں باپ کی اطاعت کا حکم اللہ نہیں ؟ سن میں نہ کھانا کھاؤں گی نہ پانی پیوں گی جب تک تو اللہ کے ساتھ کفر نہ کر حضرت سعد کے انکار پر اس نے یہی کیا کہ کھانا پینا چھوڑ دیا یہاں تک کہ لکڑی سے اس کا منہ کھول کر جبراً پانی وغیرہ چھوا دیتے اس پر یہ آیت اتری یہ حدیث مسلم شریف وغیرہ میں بھی ہے ماں نے حالت حمل میں کیسی کچھ تکلیفیں برداشت کی ہیں ؟ اسی طرح بچہ ہونے کے وقت کیسی کیسی مصیبتوں کا وہ شکار بنی ہے ؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس آیت سے اور اس کے ساتھ سورة لقمان کی آیت (وَّفِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ 14) 31 ۔ لقمان :14) اور اللہ عزوجل کا فرمان آیت ( وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّـتِمَّ الرَّضَاعَةَ\023\03 ) 2 ۔ البقرة :233) یعنی مائیں اپنے بچوں کو دو سال کامل دودھ پلائیں ان کے لئے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہیں ملا کر استدلال کیا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے۔ یہ استدلال بہت قوی اور بالکل صحیح ہے۔ حضرت عثمان اور صحابہ کرام کی جماعت نے بھی اس کی تائید کی ہے حضرت معمر بن عبداللہ جہنی فرماتے ہیں کہ ہمارے قبیلے کے ایک شخص نے جہنیہ کی ایک عورت سے نکاح کیا چھ مہینے پورے ہوتے ہی اسے بچہ تولد ہوا اس کے خاوند نے حضرت عثمان سے ذکر کیا آپ نے اس عورت کے پاس آدمی بھیجا وہ تیار ہو کر آنے لگی تو ان کی بہن نے گریہ وزاری شروع کردی اس بیوی صاحبہ نے اپنی بہن کو تسکین دی اور فرمایا کیوں روتی ہو اللہ کی قسم اس کی مخلوق میں سے کسی سے میں نہیں ملی میں نے کبھی کوئی برا فعل نہیں کیا تو دیکھو کہ اللہ کا فیصلہ میرے بارے میں کیا ہوتا ہے۔ جب حضرت عثمان کے پاس یہ آئیں تو آپ نے انہیں رجم کرنے کا حکم دیا۔ جب حضرت علی کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے خلیفتہ المسلمین سے دریافت کیا کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ اس عورت کو نکاح کے چھ مہینے کے بعد بچہ ہوا ہے جو ناممکن ہے۔ یہ سن کر علی مرتضیٰ نے فرمایا کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا ؟ فرمایا ہاں پڑھا ہے فرمایا کیا یہ آیت نہیں پڑھی (وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا 15) 46 ۔ الأحقاف :15) اور ساتھ ہی یہ آیت بھی (حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ\023\03 ) 2 ۔ البقرة :233) پس مدت حمل اور مدت دودھ پلائی دونوں کے مل کر تیس مہینے اور اس میں سے جب دودھ پلائی کی کل مدت دو سال کے چوبیس وضع کر دئے جائیں تو باقی چھ مہینے رہ جاتے ہیں تو قرآن کریم سے معلوم ہوا کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے اور اس بیوی صاحبہ کو بھی اتنی ہی مدت میں بچہ ہوا پھر اس پر زنا کا الزام کیسے قائم کر رہے ہیں ؟ حضرت عثمان نے فرمایا واللہ یہ بات بہت ٹھیک ہے افسوس میرا خیال ہے میں اس طرف نہیں گیا جاؤ اس عورت کو لے آؤ پس لوگوں نے اس عورت کو اس حال پر پایا کہ اسے فراغت ہوچکی تھی۔ حضرت معمر فرماتے ہیں واللہ ایک کوا دوسرے کوے سے اور ایک انڈا دوسرے انڈے سے بھی اتنا مشابہ نہیں ہوتا جتنا اس عورت کا یہ بچہ اپنے باپ سے مشابہ تھا خود اس کے والد نے بھی اسے دیکھ کر کہا اللہ کی قسم اس بچے کے بارے میں مجھے اب کوئی شک نہیں رہا اور اسے اللہ تعالیٰ نے ایک ناسور کے ساتھ مبتلا کیا جو اس کے چہرے پر تھا وہ ہی اسے گھلاتا رہا یہاں تک کہ وہ مرگیا (ابن ابی حاتم) یہ روایت دوسری سند سے آیت (فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ 81) 43 ۔ الزخرف :81) کی تفسیر میں ہم نے وارد کی ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جب کسی عورت کو نو مہینے میں بچہ ہو تو اس کی دودھ پلائی کی مدت اکیس ماہ کافی ہیں اور جب سات مہینے میں ہو تو مدت رضاعت تئیس ماہ اور جب چھ ماہ میں بچہ ہوجائے تو مدت رضاعت دو سال کامل اس لئے کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے کہ حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے۔ جب وہ اپنی پوری قوت کے زمانے کو پہنچا یعنی قوی ہوگیا جوانی کی عمر میں پہنچ گیا مردوں میں جو حالت ہوتی ہے عمومًا پھر باقی عمر وہی حالت رہتی ہے۔ حضرت مسروق سے پوچھا گیا کہ انسان اب اپنے گناہوں پر پکڑا جاتا ہے ؟ تو فرمایا جب تو چالیس سال کا ہوجائے تو اپنے بچاؤ مہیا کرلے۔ ابو یعلی موصلی میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جب مسلمان بندہ چالیس سال کا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے حساب میں تخفیف کردیتا ہے اور جب ساٹھ سال کا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف جھکنا نصیب فرماتا ہے اور جب ستر سال کی عمر کا ہوجاتا ہے تو آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی سال کا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں ثابت رکھتا ہے اور اس کی برائیاں مٹا دیتا ہے اور جب نوے سال کا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرماتا ہے اور اس کے گھرانے کے آدمیوں کے بارے میں اسے شفاعت کرنے والا بناتا ہے۔ اور آسمانوں میں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ اللہ کی زمین میں اس کا قیدی ہے۔ یہ حدیث دوسری سند سے مسند احمد میں بھی ہے۔ بنو امیہ کے دمشقی گورنر حجاج بن عبداللہ حلیمی فرماتے ہیں کہ چالیس سال کی عمر میں تو میں نے نافرمانیوں اور گناہوں کو لوگوں کی شرم و حیا سے چھوڑا تھا اس کے بعد گناہوں کے چھوڑنے کا باعث خود ذات اللہ سے حیا تھی۔ عرب شاعر کہتا ہے بچپنے میں ناسمجھی کی حالت میں تو جو کچھ ہوگیا ہوگیا لیکن جس وقت بڑھاپے نے منہ دکھایا تو سر کی سفیدی نے خود ہی برائیوں سے کہہ دیا کہ اب تم کوچ کر جاؤ۔ پھر اس کی دعا کا بیان ہو رہا ہے کہ اس نے کہا میرے پروردگار میرے دل میں ڈال کہ تیری نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام فرمائی اور میں وہ اعمال کروں جن سے تو مستقبل میں خوش ہوجائے اور میری اولاد میں میرے لئے اصلاح کر دے یعنی میری نسل اور میرے پیچھے والوں میں۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میرا اقرار ہے کہ میں فرنبرداروں میں ہوں۔ اس میں ارشاد ہے کہ چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر انسان کو پختہ دل سے اللہ کی طرف توبہ کرنی چاہیے اور نئے سرے سے اللہ کی طرف رجوع ورغبت کر کے اس پر جم جانا چاہیے ابو داؤد میں ہے کہ صحابہ کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) التحیات میں پڑھنے کے لئے اس دعا کی تعلیم کیا کرتے تھے دعا (اللھم الف بین قلوبنا واصلح ذات بیننا و اھدنا سبل السلام ونجنا من الظلمات الی النور وجنبنا الفواحش ما ظھر منھا وما بطن وبارک لنا فی اسماعنا اوبصارنا وقلوبنا وازواجنا وذریاتنا وتب علینا انک انت التواب الرحیم واجعلنا شاکرین لنعمتک مثنین بھا علیک قابلیھا واتمھا علینا) یعنی اے اللہ ہمارے دلوں میں الفت ڈال اور ہمارے آپس میں اصلاح کر دے اور ہمیں سلامتی کی راہیں دکھا اور ہمیں اندھیروں سے بچا کر نور کی طرف نجات دے اور ہمیں ہر برائی سے بچا لے خواہ وہ ظاہر ہو خواہ چھپی ہوئی ہو اور ہمیں ہمارے کانوں میں اور آنکھوں میں اور دلوں میں اور بیوی بچوں میں برکت دے اور ہم پر رجوع فرما یقینا تو رجوع فرمانے والا مہربان ہے اے اللہ ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر گذار اور ان کے باعث اپنا ثنا خواں اور نعمتوں کا اقراری بنا اور اپنی بھرپور نعمتیں ہمیں عطا فرما۔ پھر فرماتا ہے یہ جن کا بیان گذرا جو اللہ کی طرف توبہ کرنے والے اس کی جانب میں جھکنے والے اور جو نیکیاں چھوٹ جائیں انہیں کثرت استغفار سے پالینے والے ہی وہ ہیں جن کی اکثر لغزشیں ہم معاف فرما دیتے ہیں اور ان کے تھوڑے نیک اعمال کے بدلے ہم انہیں جنتی بنا دیتے ہیں ان کا یہی حکم ہے جیسے کہ وعدہ کیا اور فرمایا یہ وہ سچا وعدہ ہے جو ان سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ابن جریر میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بروایت روح الامین (علیہ الصلوۃ والسلام) فرماتے ہیں انسان کی نیکیاں اور بدیاں لائی جائیں گی۔ اور ایک کو ایک کے بدلے میں کیا جائے گا پس اگر ایک نیکی بھی بچ رہی تو اللہ تعالیٰ اسی کے عوض اسے جنت میں پہنچا دے گا۔ راوی حدیث نے اپنے استاد سے پوچھا اگر تمام نیکیاں ہی برائیوں کے بدلے میں چلی جائیں تو ؟ آپ نے فرمایا ان کی برائیوں سے اللہ رب العزت تجاوز فرما لیتا ہے دوسری سند میں یہ بفرمان اللہ عزوجل مروی ہے۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند بہت پختہ ہے حضرت یوسف بن سعد فرماتے ہیں کہ جب حضرت علی کے پاس تھا اور اس وقت حضرت عمار، حضرت صعیصعہ، حضرت اشتر، حضرت محمد بن ابوبکر بھی تھے۔ بعض لوگوں نے حضرت عثمان کا ذکر نکالا اور کچھ گستاخی کی۔ حضرت علی اس وقت تخت پر بیٹھے ہوئے تھے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ حاضرین مجلس میں سے کسی نے کہا کہ آپ کے سامنے تو آپ کی اس بحث کا صحیح محاکمہ کرنے والے موجود ہی ہیں چناچہ سب لوگوں نے حضرت علی سے سوال کیا۔ اس پر آپ نے فرمایا حضرت عثمان ان لوگوں میں سے تھے جن کے بارے میں اللہ عزوجل فرماتا ہے آیت ( اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَـيِّاٰتِهِمْ فِيْٓ اَصْحٰبِ الْجَــنَّةِ ۭ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِيْ كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ 16) 46 ۔ الأحقاف :16) ، قسم اللہ کی یہ لوگ جن کا ذکر اس آیت میں ہے حضرت عثمان ہیں اور ان کے ساتھی تین مرتبہ یہی فرمایا۔ راوی یوسف کہتے ہیں میں نے محمد بن حاطب سے پوچھا سچ کہو تمہیں اللہ کی قسم تم نے خود حضرت علی کی زبانی یہ سنا ہے ؟ فرمایا ہاں قسم اللہ کی میں نے خود حضرت علی سے یہ سنا ہے۔