المائدہ آية ۳۵
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَابْتَغُوْۤا اِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ وَجَاهِدُوْا فِىْ سَبِيْلِهٖ لَعَلَّـكُمْ تُفْلِحُوْنَ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ،
English Sahih:
O you who have believed, fear Allah and seek the means [of nearness] to Him and strive in His cause that you may succeed.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور اُس کی جناب میں بار یابی کا ذریعہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جدوجہد کرو، شاید کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو جائے
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو الله سے ڈرو اور الله کا قرب تلاش کرو اور الله کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ
4 Ahsanul Bayan
مسلمانو! اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب تلاش کرو (١) اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تمہارا بھلا ہو۔
٣٥۔١ وسیلہ کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو کسی مقصود کے حصول یا اس کے قرب کا ذریعہ ہو۔ ' اللہ تعالٰی کی طرف وسیلہ تلاش کرو ' کا مطلب ہوگا ایسے اعمال اختیار کرو جس سے تمہیں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو جائے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں ' و سیلہ جو قربت کے معنی میں ہے تقویٰ اور دیگر خصال خیر پر صادق آتا ہے جن کے ذریعے سے بندے اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ہیں، اسی طرح جن باتوں سے روکا گیا ہو ان کا ترک بھی قرب الٰہی کا وسیلہ ہے۔ البتہ حدیث میں اس مقام محمود کو بھی وسیلہ کہا گیا ہے جو جنت میں نبی کو عطا فرمایا جائے گا۔ اسی لئے آپ نے فرمایا جو اذان کے بعد میرے لئے یہ دعائے وسیلہ کرے گا وہ میری شفاعت کامستحق ہوگا ۔
(صحیح بخاری)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے ایمان والو! خدا سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرتے رہو اور اس کے رستے میں جہاد کرو تاکہ رستگاری پاؤ
6 Muhammad Junagarhi
مسلمانو! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب تلاش کرو اور اس کی راه میں جہاد کرو تاکہ تمہارا بھلا ہو
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو! اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔ اور اس کی راہ میں جہاد کرو۔ تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچے کا وسیلہ تلاش کرو اوراس کی راہ میں جہاد کرو کہ شاید اس طرح کامیاب ہوجاؤ
9 Tafsir Jalalayn
اے ایمان والو ! خدا سے ڈرتے رہو۔ اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرتے رہو اور اس کے راستہ میں جہاد کرو تاکہ رستگاری پاؤ۔
آیت نمبر ٣٥ تا ٤٣
ترجمہ : اے ایمان والو اللہ سے یعنی اس کے عذاب سے ڈرو بایں طور کہ اس کی اطاعت کرو، اور اس کی اطاعت کے ذریعہ اس کا قرب تلاش کرو جو تم کو اس کا مقرب بنا دے اور اس کی راہ میں ان کے دین کو سربلند کرنے کیلئے جدوجہد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ، خوب سمجھ لو ان لوگوں کیلئے جنہوں نے کفر کی روش اختیار کی اگر ان کے قبضہ میں زمین کی ساری دولت ہو اور اتنی ہی اور۔ اس سب کو قیامت کے دن کے عذاب کے عوض میں دینا چاہیں تو بھی ان سے قبول نہ ہوگی اور انہیں دردناک سزا مل کر رہے گی، وہ چاہیں گے کہ آگ سے نکل بھاگیں مگر نہ نکل سکیں گے اور ان کیلئے دائمی عذاب ہوگا، اور چور خواہ مرد ہو یا عورت الف لام (السارق اور السارقۃ) دونوں میں موصولہ مبتداء مشابہ بالشرط ہے اور اسی وجہ سے اس کی خبر پر فاء داخل ہے اور وہ فاقطعوا ایدیھما ہے، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو یعنی ہر ایک کے داہنے ہاتھ کو گٹے سے کاٹ دو ، اور سنت نے بیان کیا ہے کہ وہ مقدار کہ جس کے عوض (ہاتھ) کاٹا جائیگا چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ ہے اور اگر وہ دوبارہ چوری کرے تو اس کا بایاں پیر ٹخنے سے کاٹا جائیگا، پھر بایاں ہاتھ پھر دایاں پیر، اور اس کے بعد تعزیری سزا دی جائے گی، یہ ان کے کرتوتوں کا بدلہ ہے، اور اللہ کی جانب سے ان کیلئے بطور سزا کے ہے، اور اللہ اپنے حکم میں غالب اپنی مخلوق کے بارے میں با حکمت ہے جزاءً مصدریت کی وجہ سے منصوب ہے پھر جس نے گناہ کے بعد توبہ کرلی یعنی سرقہ سے باز آگیا، اور اپنے عمل کی اصلاح کرلی تو اللہ اس کی توبہ کو قبول کرے گا اللہ معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے، (فلاتحدوھم) کے بجائے اِنَّ اللہ غفور رحیم، سے تعبیر کرنے کا وہی مطلب ہے جو ماسبق میں بیان ہوا، لہٰذا (سارق کے) توبہ کرلینے سے نہ تو حق ولعباد میں سے قطع یدساقط ہوگا اور نہ (مسروقہ) مال کی واپسی کا حق، البتہ سنت سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اگر مسروق منہ نے قاضی کی عدالت میں مقدمہ پیش ہونے سے پہلے معاف کردیا، تو قطع ساقط ہوجائیگا اور یہی امام شافعی (رح) تعالیٰ کا مذہب ہے، کیا تم نہیں جانتے ؟ استفہام تقریر کیلئے ہے، کہ اللہ زمین و آسمان کی سلطنت کا مالک ہے، جس کو عذاب دینا چاہے عذاب دے گا اور جس کو معاف کرنا چاہے گا معاف کرے گا اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور ان میں تعذیب اور مغفرت بھی داخل ہیں، اے رسول آپ کے لئے ان لوگوں کا طرز عمل باعث رنج نہ ہو کہ جو لوگ کفر کے بارے میں بڑی تیزگامی رکھاتے ہیں یعنی بڑی تیزی سے اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور جب بھی موقع پاتے ہیں کفر کا اظہار کرتے ہیں خواہ وہ ان لوگوں میں سے ہوں مِن بیانیہ ہے، جنہوں نے اپنے زبان سے کہا ہم ایمان لائے ہیں (بافواھھم) قالوا سے متعلق ہے، حالانکہ وہ دل سے ایمان نہیں لائے اور منافق ہیں، یا ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے یہودی مذہب اختیار کرلیا ہے، اور وہ ایسے لوگ ہیں کہ جو قبولیت کے کان سے جھوٹی بات سننے کے عادی ہیں جن کو ان کے حبار نے گھڑ لیا ہے، اور یہود میں سے ان لوگوں کے لئے آپ کی جاسوسی کرتے ہیں جو آپ کے پاس نہیں آتے اور وہ اہل خیبر ہیں، ان میں دو شادی شدہ لوگوں نے زنا کیا تھا مگر ان لوگوں نے ان کے رجم کئے جانے کو ناپسند کیا، چناچہ ان لوگوں نے بنی قریظہ کو آپ کی خدمت میں ان کا حکم معلوم کرنے کے لئے بھیجا، اور تورات میں مذکور حکم میں رد و بدل کرتے ہیں مثلاً آیت رجم میں، اس کا صحیح مفہوم متعین ہونے کے بعد، وہ مفہوم کہ جس کو اللہ نے متعین فرمایا ہے یعنی اس میں تبدیلی کردیتے ہیں، اور جن لوگوں کو بھیجا ان سے کہتے ہیں کہ اگر اس محرف حکم یعنی کوڑے مارنے کا محمد فتوی دیں تو قبول کرلینا اور اگر (محرف کے مطابق) فتوی نہ دیں بلکہ اس کے خلاف فتویٰ دیں تو اس کو قبول کرنے سے اجتناب کرنا، اور اللہ جسے فتنے گمراہی میں مبتلا کرنے کا ارادہ نہیں ہے اور اگر اللہ تعالیٰ (پاک کرنے کا) ارادہ کرتے تو ضرور پاک ہوجاتے ان کے لئے دنیا میں رسوائی کے جزیہ کے ساتھ بڑی ذلت ہے اور ان کیلئے آخرت میں بڑا عذاب ہے، اور یہ لوگ کان لگا کر جھوٹ کے سننے والے اور حرام مال کے کھانے والے ہیں مثلاً رشوت کے ذریعہ، اگر یہ لوگ آپ سے اپنا فیصلہ کرانے کیلئے آپ کے پاس آئیں، (اگر چاہو) تو ان کے درمیان فیصلہ کردو یا انکار کردو، یہ اختیار اللہ تعالیٰ کے قول ” واَن احکم بَیْنَھم “ کے ذریعہ منسوخ ہے، لہٰذا اگر وہ فیصلہ ہمارے پاس لائیں تو اس کا فیصلہ کرنا واجب ہے امام شافعی (رح) تعالیٰ کے اقوال میں سے یہ صحیح تر ہے، اور اگر کسی مسلمان کے ساتھ ہمارے پاس مقدمہ لائیں تو بالاتفاق فیصلہ کرنا واجب ہے، اور اگر تم انکار کردو تو وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اور اگر آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو انصاف کے ساتھ صحیح صحیح فیصلہ کریں، بلاشبہ اللہ تعالیٰ فیصلہ میں انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں یعنی ان کو اجر عطا فرمائیں گے، اور یہ لوگ آپ کو کیسے حکم بناتے ہیں حالانکہ ان کے پاس تورات ہے اس میں رجم کا خدائی حکم موجود ہے استفہام تعجب کے لئے ہے یعنی اس سے ان کا مقصد معرفت حق نہیں ہے بلکہ ان کیلئے آسانی تلاش کرنا ہے، پھر یہ لوگ آپ کے رجم کے فیصلے کے بعد جو ان کی کتاب کے مطابق ہے اعراض کرتے ہیں، در حقیقت یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ثَبَتَ ۔ سوال : لَوْ ثَبَتَ أنّ لَھُمْ میں ثَبَتَ مقدر ماننے کا کیا فائدہ ہے ؟
جواب : لَوْ حرف شرط چونکہ فعل پر ہی داخل ہوتا ہے اگر ثَبَتَ فعل مقدر نہ مانا جائئے تو، لَوْ کا حرف پر داخل ہونا لازم آئے گا۔
قولہ : اَلْ ، الف لام موصولہ ہیں معنی میں اَلَّذِیْ سَرَقَ وَالَّتِیْ سَرَقَتْ کے ہے اسم موصول مبتداء متضمن بمعنی شرط ہے اس لئے اس کی خبر فاقطعوا پر متضمن بمعنی جزاء ہونے کی وجہ سے فاء داخل ہے۔
قولہ : نَصْبٌ عَلَی الْمَصْدَرِیَّۃِ ، بمعنی جزاءًا مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، ای یُجْزَوْنَ جزاءً ۔
قولہ : فی التَعْبِیْرَ بھذا یعنی فَمَنْ تاب من بعد ظلمہ کے جواب میں فَلَا تحدّوا نہیں فرمایا بلکہ فاِن اللہ یتوب علیہ فرمایا، اس میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کی وجہ سے حقوق العباد کو معاد نہ فرمائیں گے، یعنی آخرت کی سزا تو معاف فرما سکتے ہیں جو کہ حقوق اللہ ہے مگر دنیا کی سزا جو کہ قطع ید اور مسروقہ مال کی واپسی ہے معاف نہ فرمائیں گے، اور ان اللہ غفورٌ رحیم کی تعبیر میں بھی یہی مقصد ہے۔
قولہ : لا یَحْزُنْکَ صُنْع، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حزن و ملال کا تعلق ذات سے نہیں بلکہ فعل سے ہوتا ہے اسی مقصد کے لئے مفسر علام نے صنع کا اضافہ کیا ہے۔
قولہ : سَمّٰعُوْنَ ، یہ مبتداء محذوف کی خبر ہے، ای ھم سمّٰعون۔ قولہ : مِن بعد مَوَاضعِہٖ ، ای من بعد تحقیق مواضعِہٖ الَّتی وضع اللہ، یعنی کلمہ کا مفہوم منجانب اللہ متعین ہونے کے باوجود کلمہ کو اس کے حقیقی مفہوم سے ہٹا دیتے تھے۔
قولہ : اَلسُّحْت، حرام یہ سَحَتَہٗ ، سے ماخوذ ہے اس وقت بولتے ہیں جب کسی چیز کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے حرام مال چونکہ مسحوت البرکت ہوتا ہے اسی لئے اس کو سُحُت کہا جاتا ہے، اکّالون للسحت، وہ بڑے حرام خور ہیں۔
تفسیر و تشریح
یٰآیُّھَا الَّذِیْن آمنوا اتقوا اللہ وابتغوا اِلَیْہ الوسیلۃ، وسیلہ، وسْلٌ مصدر سے مشتق ہے جس کے معنی ملنے اور جڑنے کے ہیں، سین اور صاد دونوں سے تقریباً ایک ہی معنی میں آتا ہے فرق اتنا ہے کہ صاد سے مطلقاً ملنے اور جڑنے کے معنی میں ہے اور سین سے رغبت و محبت کے ساتھ ملنے اور جڑنے کے معنی میں۔ وسیلہ کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو کسی مقصود کے حصول یا اس کے قرب کا ذریعہ ہو، اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرو، کا مطلب ہوگا ایسے اعمال اختیار کرو جن سے تمہیں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوجائے، علامہ شوکانی فرماتے ہیں ” انَّ الوَسِیْلَۃَ التی ھِیَ القربۃ تصدق علی التقوی وعلیٰ غیرھا من خصال الخیر التی یتقرب العبادبھا الی ربھم “ یہاں وسیلہ کے وہ معنی مراد نہیں ہیں جو عام لوگ مراد لیتے ہیں جس کی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں ہے، البتہ حدیث میں اس مقام محمود کو بھی وسیلہ کہا گیا ہے جو جنت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمایا جائیگا، اسی لئے آپ نے فرمایا جو اذان کے بعد میرے لئے وسیلہ کی دعا
کریگا وہ میری شفاعت کا مستحق ہوگا۔ (صحیح بخاری کتاب الاذان)
دعاء وسیلہ : دعاء وسیلہ جو اذان کے بعد پڑھی جاتی ہے یہ ہے، اللّٰھمَّ ربّ ھذہ الدعوۃ التامۃ والصلوٰۃ والقائمۃ، اٰتِ محمداً نِ الوسیلۃ والفضیلۃ وَابْعثہ مقامًا محمودًا نِ الذی وَعَدْتَہٗ ۔
10 Tafsir as-Saadi
اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ایمان کے تقاضے کے مطابق تقویٰ اختیار کریں اور اللہ تعالیٰ کی نارضی اور اس کے غضب سے بچیں اور وہ اس طرح کہ بندہ مومن مقدور بھر ان امور سے اجتناب کرے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث بنتے ہیں۔ قلب، زبان اور جوارح کے ظاہری اور باطنی گناہوں سے بچے اور ان گناہوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے، تاکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے نجات حاصل کرسکے۔
﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ ”اور ڈھونڈو اس کی طرف وسیلہ“ یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب، اس کے پاس مرتبہ اور اس کی محبت طلب کرو۔ یہ چیز فرائض قلبی مثلاً محبت الٰہی، اس کے خوف، اس پر امید، اس کی طرف انابت اور اس پر توکل، فرائض بدنی مثلاً زکوٰۃ اور حج وغیرہ اور قلب و بدن سے مرکب فرائض مثلاً نماز، ذکر اور تلاوت اور لوگوں سے اپنے اخلاق، مال، علم، جاہ اور بدن کے ذریے سے بھلائی سے پیش آنے اور ان کی خیر خواہی کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ پس یہ تمام اعمال تقرب الٰہی کا ذریعہ ہیں۔ بندہ اعمال کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرنے لگتا ہے تو اللہ اس کے کان بن جاتا ہے جن کے ذریعے سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہے جس کے ذریعے سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہے جس کے ذریعے سے وہ پکڑتا ہے، اس کے پاؤں بن جاتا ہے جس کے ذریعے سے وہ چلتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی دعائیں قبول کرتا ہے۔
[مطلب یہ ہے کہ اللہ کا محبوب انسان اپنے تمام اعضاء کو اس طرح استعمال کرتا ہے جس طرح اللہ پسند کرتا ہے، یہ مطلب نہیں کہ وہ اللہ کا جزء بن جاتا یا اللہ اس میں حلول کرجاتا ہے جیسا کہ بعض مشرکین میں اس قسم کے عقیدے پائے جاتے ہیں۔ (ص۔ ی) ]
پھر اللہ کے قریب کرنے والی عبادات میں سے جہاد فی سبیل اللہ کا خصوصی طور پر بیان کیا اور یہ جہاد نام ہے، کافروں کے ساتھ لڑائی میں اپنی پوری طاقت صرف کرنے کا، مال، جان، رائے، زبان کے ذریعے سے اور اللہ کے دین کی مدد میں اپنی مقدور بھر سعی و کوشش کرنے کا اس لئے کہ عبادت کی یہ قسم تمام طاعات میں سب سے زیادہ جلیل القدر اور قربات میں سب سے افضل ہے، نیز یہ کہ جو اس کی ادائیگی کا اہتمام کرلیتا ہے، وہ دیگر فرائض و عبادات بہ طریق اولیٰ بجا لاتا ہے۔ ﴿لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ ” تاکہ تم فلاح پاؤ۔“ اگر تم نے گناہوں کو ترک کر کے تقویٰ اختیار کیا، نیکیوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کا وسیلہ تلاش کرلیا اور اس کی رضا کی خاطر اس کے راستے میں جہاد کیا، تو امید کی جاسکتی ہے کہ تم فلاح پالو گے۔ فلاح اپنے ہر مطلوب و مرغوب کے حصول میں کامیابی اور مرہوب سے نجات کا نام ہے۔ پس اس کی حقیقت ابدی سعادت اور دائمی نعمت ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! Allah say daro , aur uss tak phonchney kay liye waseela talash kero , aur uss kay raastay mein jihad kero . umeed hai kay tumhen falah hasil hogi .
12 Tafsir Ibn Kathir
تقویٰ قربت الٰہی کی بنیاد ہے
تقوے کا حکم ہو رہا ہے اور وہ بھی اطاعت سے ملا ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے منع کردہ کاموں سے جو شخص رکا رہے، اس کی طرف قربت یعنی نزدیکی تلاش کرے۔ وسیلے کے یہی معنی حضرت ابن عباس سے منقول ہیں۔ حضرت مجاہد، حضرت وائل، حضرت حسن، حضرت ابن زید اور بہت سے مفسرین سے بھی مروی ہے۔ قتادہ فرماتے ہیں اللہ کی اطاعت اور اس کی مرضی کے اعمال کرنے سے اس سے قریب ہوتے جاؤ۔ ابن زید نے یہ آیت بھی پڑھی (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِـيْلَةَ اَيُّهُمْ اَقْرَبُ وَيَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَيَخَافُوْنَ عَذَابَهٗ ۭ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا) 17 ۔ الاسراء :57) جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ تو خود ہی اپنے رب کی نزدیکی کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ ان ائمہ نے وسیلے کے جو معنی اس آیت میں کئے ہیں اس پر سب مفسرین کا اجماع ہے، اس میں کسی ایک کو بھی اختلاف نہیں۔ امام جریر نے اس پر ایک عربی شعر بھی وارد کیا ہے، جس میں وسیلہ معنی قربت اور نزدیک کے مستعمل ہوا ہے۔ وسیلے کے معنی اس چیز کے ہیں جس سے مقصود کے حاصل کرنے کی طرف پہنچا جائے اور وسیلہ جنت کی اس اعلیٰ اور بہترین منزل کا نام ہے جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جگہ ہے۔ عرش سے بہت زیادہ قریب یہی درجہ ہے۔ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے " جو شخص اذان سن کر دعا (اللھم رب ھذہ الدعوۃ التامتہ) الخ، پڑھے اس کیلئے میری شفاعت حلال ہوجاتی ہے "۔ مسلم کی حدیث میں ہے " جب تم اذان سنو تو جو مؤذن کہہ رہا ہو، وہی تم بھی کہو، پھر مجھ پر درود بھیجو، ایک درود کے بدلے تم پر اللہ تعالیٰ دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ پھر میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو، وہ جنت کا ایک درجہ ہے، جسے صرف ایک ہی بندہ پائے گا، مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں۔ پس جس نے میرے لئے وسیلہ طلب کیا، اس کیلئے میری شفاعت واجب ہوگئی "۔ مسند احمد میں ہے " جب تم مجھ پر درود پڑھو تو میرے لئے وسیلہ مانگو، پوچھا گیا کہ وسیلہ کیا ہے ؟ فرمایا جنت کا سب سے بلند درجہ جسے صرف ایک شخص ہی پائے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ شخص میں ہوں "۔ طبرانی میں ہے " تم اللہ سے دعا کرو کہ اللہ مجھے وسیلہ عطا فرمائے جو شخص دنیا میں میرے لئے یہ دعا کرے گا، میں اس پر گواہ یا اس کا سفارشی قیامت کے دن بن جاؤں گا "۔ اور حدیث میں ہے " وسیلے سے بڑا درجہ جنت میں کوئی نہیں۔ لہذا تم اللہ تعالیٰ سے میرے لئے وسیلے کے ملنے کی دعا کرو "۔ ایک غریب اور منکر حدیث میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ وسیلے میں آپ کے ساتھ اور کون ہوں گے ؟ تو آپ نے حضرت فاطمہ اور حسن حسین کا نام لیا۔ ایک اور بہت غریب روایت میں ہے کہ حضرت علی نے کوفہ کے منبر پر فرمایا کہ جنت میں دو موتی ہیں، ایک سفید ایک زرد، زرد تو عرش تلے ہے اور مقام محمود سفید موتی کا ہے، جس میں ستر ہزار بالا خانے ہیں، جن میں سے ہر ہر گھر تین میل کا ہے۔ اس کے دریچے دروازہ تخت وغیرہ سب کے سب گویا ایک ہی جڑ سے ہیں۔ اسی کا نام وسیلہ ہے، یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی اہل بیت کیلئے ہے۔ تقویٰ کا یعنی ممنوعات سے رکنے کا اور حکم احکام کے بجا لانے کا حکم دے کر پھر فرمایا کہ " اس کی راہ میں جہاد کرو، مشرکین و کفار کو جو اس کے دشمن ہیں اس کے دین سے الگ ہیں، اس کی سیدھی راہ سے بھٹک گئے ہیں، انہیں قتل کرو۔ ایسے مجاہدین بامراد ہیں، فلاح و صلاح سعادت و شرافت انہی کیلئے ہیں، جنت کے بلند بالا خانے اور اللہ کی بیشمار نعمتیں انہی کیلئے ہیں، یہ اس جنت میں پہنچائے جائیں گے، جہاں موت و فوت نہیں، جہاں کمی اور نقصان نہیں، جہاں ہمیشگی کی جوانی اور ابدی صحت اور دوامی عیش و عشرت ہے "۔ اپنے دوستوں کا نیک انجام بیان فرما کر اب اپنے دشمنوں کا برا نتیجہ ظاہر فرماتا ہے کہ " ایسے سخت اور بڑے عذاب انہیں ہو رہے ہوں گے کہک اگر اس وقت روئے زمین کے مالک ہوں بلکہ اتنا ہی اور بھی ہو تو ان عذابوں سے بچنے کیلئے بطور بدلے کے سب دے ڈالیں لیکن اگر ایسا ہو بھی جائے تو بھی ان سے اب فدیہ قبول نہیں بلکہ جو عذاب ان پر ہیں، وہ دائمی اور ابدی اور دوامی ہیں "۔ جیسے اور جگہ ہے کہ " جہنمی جب جہنم میں سے نکلنا چاہئیں گے تو پھر دوبارہ اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے۔ بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں کے ساتھ اوپر آجائیں گے کہ داروغے انہیں لوہے کے ہتھوڑے مار مار کر پھر قعر جہنم میں گرا دیں گے۔ غرض ان دائمی عذابوں سے چھٹکارا محال ہے "۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں " ایک جہنمی کو لایا جائے گا پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ اے ابن آدم کہو تمہاری جگہ کیسی ہے ؟ وہ کہے گا بدترین اور سخت ترین۔ اس سے پوچھا جائے گا کہ اس سے چھوٹنے کیلئے تو کیا کچھ خرچ کردینے پر راضی ہے ؟ وہ کہے گا ساری زمین بھر کا سونا دے کر بھی میں یہاں سے چھوٹوں تو بھی سستا چھوٹا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا جھوٹا ہے میں نے تو تجھ سے اس سے بہت ہی کم مانگا تھا لیکن تو نے کچھ بھی نہ کیا۔ پھر حکم دیا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا " (مسلم) ایک مرتبہ حضرت جابر نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان بیان کیا کہ ایک قوم جہنم میں سے نکال کر جنت میں پہنچائی جائے گی۔ اس پر ان کے شاگرد حضرت یزید فقیر نے پوچھا کہ پھر اس آیت قرآنی کا کیا مطلب ہے ؟ کہ آت (يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَمَا هُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنْهَا ۡ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيْمٌ) 5 ۔ المائدہ :37) یعنی وہ جہنم سے آزاد ہونا چاہیں گے لیکن وہ آزاد ہونے والے نہیں تو آپ نے فرمایا اس سے پہلے کی آیت (ان الذین کفروا) الخ، پڑھو جس سے صاف ہوجاتا ہے کہ یہ کافر لوگ ہیں یہ کبھی نہ نکلیں گے (مسند وغیرہ) دوسری روایت میں ہے کہ یزید کا خیال یہی تھا کہ جہنم میں سے کوئی بھی نہ نکلے گا اس لئے یہ سن کر انہوں نے حضرت جابر سے کہا کہ مجھے اور لوگوں پر تو افسوس نہیں ہاں آپ صحابیوں پر افسوس ہے کہ آپ بھی قرآن کے الٹ کہتے ہیں اس وقت مجھے بھی غصہ آگیا تھا اس پر ان کے ساتھیوں نے مجھے ڈانٹا لیکن حضرت جابر بہت ہی حلیم الطبع تھے انہوں نے سب کو روک دیا اور سمجھے سمجھایا کہ قرآن میں جن کا جہنم سے نہ نکلنے کا ذکر ہے وہ کفار ہیں۔ تم نے قرآن نہیں پڑھا ؟ میں نے کہا ہاں مجھے سارا قرآن یاد ہے ؟ کہاں پھر کیا یہ آیت قرآن میں نہیں ہے ؟ آیت (وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) 17 ۔ الاسراء :79) اس میں مقام محمود کا ذکر ہے یہی مقام شفاعت ہے۔ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو جہنم میں ان کی خطاؤں کی وجہ سے ڈالے گا اور جب تک چاہے انہیں جہنم میں ہی رکھے گا پھر جب چاہے گا انہیں اس سے آزاد کر دے گا۔ حضرت یزید فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سے میرا خیال ٹھیک ہوگیا۔ حضرت طلق بن حبیب کہتے ہیں میں بھی منکر شفاعت تھا یہاں تک کہ حضرت جابر سے ملا اور اپنے دعوے کے ثبوت میں جن جن آیتوں میں جہنم کے ہمیشہ رہنے والوں کا ذکر ہے سب پڑھ ڈالیں تو آپ نے سن کر فرمایا ! اے طلق کیا تم اپنے تئیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم میں مجھ سے افضل جانتے ہو ؟ سنو جتنی آیتیں تم نے پڑھی ہیں وہ سب اہل جہنم کے بارے میں ہیں یعنی مشرکوں کیلئے۔ لیکن وہ لوگ نکلیں گے یہ وہ لوگ ہیں جو مشرک نہ تھے لیکن گہنگار تھے گناہوں کے بدلے سزا بھگت لی پھر جہنم سے نکال دیئے گئے۔ حضرت جابر نے یہ سب فرما کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے دونوں کانوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ دونوں بہرے ہوجائیں اگر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ نہ سنا ہو کہ جہنم میں داخل ہونے بعد بھی لوگ اس میں سے نکالے جائیں گے اور وہ جہنم سے آزاد کردیئے جائیں گے قرآن کی یہ آیتیں جس طرح تم پڑھتے ہو ہم بھی پڑھتے ہی ہیں۔