پھر ہم نے ان رسولوں کے نقوشِ قدم پر (دوسرے) رسولوں کو بھیجا اور ہم نے ان کے پیچھے عیسٰی ابنِ مریم (علیہما السلام) کو بھیجا اور ہم نے انہیں انجیل عطا کی اور ہم نے اُن لوگوں کے دلوں میں جو اُن کی (یعنی عیسٰی علیہ السلام کی صحیح) پیروی کر رہے تھے شفقت اور رحمت پیدا کر دی۔ اور رہبانیت (یعنی عبادتِ الٰہی کے لئے ترکِ دنیا اور لذّتوں سے کنارہ کشی) کی بدعت انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی، اسے ہم نے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر (انہوں نے رہبانیت کی یہ بدعت) محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے (شروع کی تھی) پھر اس کی عملی نگہداشت کا جو حق تھا وہ اس کی ویسی نگہداشت نہ کرسکے (یعنی اسے اسی جذبہ اور پابندی سے جاری نہ رکھ سکی)، سو ہم نے اُن لوگوں کو جو ان میں سے ایمان لائے (اور بدعتِ رہبانیت کو رضائے الٰہی کے لئے جاری رکھے ہوئے) تھے، اُن کا اجر و ثواب عطا کر دیا اور ان میں سے اکثر لوگ (جو اس کے تارک ہوگئے اور بدل گئے) بہت نافرمان ہیں،
English Sahih:
Then We sent following their footsteps [i.e., traditions] Our messengers and followed [them] with Jesus, the son of Mary, and gave him the Gospel. And We placed in the hearts of those who followed him compassion and mercy and monasticism, which they innovated; We did not prescribe it for them except [that they did so] seeking the approval of Allah. But they did not observe it with due observance. So We gave the ones who believed among them their reward, but many of them are defiantly disobedient.
1 Abul A'ala Maududi
اُن کے بعد ہم نے پے در پے اپنے رسول بھیجے، اور ان سب کے بعد عیسیٰؑ ابن مریم کو مبعوث کیا اور اُس کو انجیل عطا کی اور جن لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی اُن کے دلوں میں ہم نے ترس اور رحم ڈال دیا اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کرلی، ہم نے اُسے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے آپ ہی یہ بدعت نکالی اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا اُن میں سے جو لوگ ایمان لائے ہوئے تھے اُن کا اجر ہم نے ان کو عطا کیا، مگر ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں
2 Ahmed Raza Khan
پھر ہم نے ان کے پیچھے اسی راہ پر اپنے اور رسول بھیجے اور ان کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اور اسے انجیل عطا فرمائی اور اس کے پیروں کے دل میں نرمی اور رحمت رکھی اور راہب بننا تو یہ بات انہوں نے دین میں اپنی طرف سے نکالی ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت انہوں نے ا لله کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے ایمان والوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا، اور ان میں سے بہتیرے فاسق ہیں،
3 Ahmed Ali
پھر اس کے بعد ہم نے اپنے اور رسول بھیجے اور عیسیٰ ابن مریم کو بعد میں بھیجا اور اسے ہم نے انجیل دی اور اس کے ماننے والوں کے دلوں میں ہم نے نرمی اور مہربانی رکھ دی اور ترک دنیا جو انہوں نے خود ایجاد کی ہم نے وہ ان پرفرض نہیں کی تھی مگر انہوں نے رضائے الہیٰ حاصل کرنے کے لیے ایسا کیا پس اسے نباہ نہ سکے جیسے نباہنا چاہیئے تھا تو ہم نے انہیں جو ان میں سے ایمان لائے ان کا اجر دے دیا اور بہت سے تو ان میں بدکار ہی ہیں
4 Ahsanul Bayan
ان کے بعد پھر بھی ہم اپنے رسولوں کو پے درپے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا فرمائی اور ان کے ماننے والوں کے دلوں میں شفقت اور رحم پیدا کر دیا (۱) ہاں رہبانیت (ترک دنیا) تو ان لوگوں نے از خود ایجاد کر لی تھی (۲) ہم نے ان پر اسے واجب نہ (۳) کیا تھا سو اللہ کی رضا جوئی کے۔(٤) سوا انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی (٥) پھر بھی ہم نے ان میں سے جو ایمان لائے انہیں اس کا اجر دیا تھا (٦) اور ان میں زیادہ تر نافرمان لوگ ہیں۔
٢٧۔١ رَأْفَةً، کے معنی نرمی اور رحمت کے معنی شفقت کے ہیں ۔ پیروکاروں سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری ہیں، یعنی ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے پیار اور محبت کے جذبات پیدا کر دئیے۔ جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ایک دوسرے کے لیے رحیم و شفیق تھے۔ رحماء بینہم۔ یہود، آپس میں اس طرح ایک دوسرے کی ہمدر اور غم خوار نہیں، جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار تھے۔ ٢٧۔٢ رَهْبَانِيَّةً رھب (خوف) سے ہے یا رھبان (درویش) کی طرف منسوب ہے اس صورت میں رے پر پیش رہے گا، یا اسے رہبنہ کی طرف منسوب مانا جائے تو اس صورت میں رے پر زبر ہوگا۔ رہبانیت کا مفہوم ترک دنیا ہے یعنی دنیا اور علائق دنیا سے منقطع ہو کر کسی جنگل، صحرا میں جاکر اللہ کی عبادت کرنا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ایسے بادشاہ ہوئے جنہوں نے تورات اور انجیل میں تبدیلی کردی، جسے ایک جماعت نے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے بادشاہوں کے ڈر سے پہاڑوں اور غاروں میں پناہ حاصل کرلی۔ یہ اس کا آغاز تھا، جسکی بنیاد اضطرار پر تھی۔ لیکن انکے بعد آنے والے بہت سے لوگوں نے اپنے بزرگوں کی اندھی تقلید میں اس شہر بدری کو عبادت کا ایک طریقہ بنا لیا اور اپنے آپ کو گرجاؤں اور معبودوں میں محبوس کر لیا اور اسکے لیے علائق دنیا سے انقطاع کو ضروری قرار دے لیا۔ اسی کو اللہ نے ابتداع (خود گھڑنے) سے تعبیر فرمایا ہے۔ (۳) یہ پچھلی بات کی تاکید ہے کہ یہ رہبانیت ان کی اپنی ایجاد تھی، اللہ نے اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ ٢٧۔٤ یعنی ہم نے تو ان پر صرف اپنی رضا جوئی فرض کی تھی۔ دوسرا ترجمہ اس کا ہے کہ انہوں نے یہ کام اللہ کی رضا تلاش کرنے کے لئے کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالٰی نے وضاحت فرمادی کہ اللہ کی رضا، دین میں اپنی طرف سے بدعات ایجاد کرنے سے حاصل نہیں ہوسکتی، چاہے وہ کتنی ہی خوش نما ہو۔ اللہ کی رضا تو اس کی اطاعت سے ہی حاصل ہوگی۔ (٥) یعنی گو انہوں نے مقصد اللہ کی رضا جوئی بتلایا، لیکن اس کی انہوں نے پوری رعایت نہیں کی، ورنہ وہ ابتداع (بدعت ایجاد کرنے) کے بجائے اتباع کا راستہ اختیار کرتے۔ (٦) یہ وہ لوگ ہیں جو دین عیسیٰ پر قائم رہے تھے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
پھر ان کے پیچھے انہی کے قدموں پر (اور) پیغمبر بھیجے اور ان کے پیچھے مریمؑ کے بیٹے عیسیٰ کو بھیجا اور ان کو انجیل عنایت کی۔ اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ان کے دلوں میں شفقت اور مہربانی ڈال دی۔ اور لذات سے کنارہ کشی کی تو انہوں نے خود ایک نئی بات نکال لی ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا مگر (انہوں نے اپنے خیال میں) خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے (آپ ہی ایسا کرلیا تھا) پھر جیسا اس کو نباہنا چاہیئے تھا نباہ بھی نہ سکے۔ پس جو لوگ ان میں سے ایمان لائے ان کو ہم نے ان کا اجر دیا اور ان میں بہت سے نافرمان ہیں
6 Muhammad Junagarhi
ان کے بعد پھر بھی ہم اپنے رسولوں کو پے در پے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا فرمائی اور ان کے ماننے والوں کے دلوں میں شفقت اور رحم پیدا کردیا ہاں رہبانیت (ترک دنیا) تو ان لوگوں نے ازخود ایجاد کرلی تھی ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا سوائے اللہ کی رضاجوئی کے۔ سو انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی، پھر بھی ہم نے ان میں سے جو ایمان ﻻئے تھے۔ انہیں ان کا اجر دیا اور ان میں زیاده تر لوگ نافرمان ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
پھر ہم نے انہی کے نقشِ قدم پر اپنے اور رسول(ع) بھیجے اور انہی کے پیچھے عیسیٰ (ع) بن مریم (ع) کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا کی اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ہم نے ان کے دلوں میں شفقت اور رحمت رکھ دی اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کی ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا۔ ہاں البتہ انہوں نے اسے خدا کی خوشنودی کی خاطر اسے اختیار کیا تھا پھر انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی تو جو لوگ ان میں ایمان لائے ہم نے ان کو ان کا اجر عطا کیا اور ان میں سے اکثر لوگ فاسق (نافرمان) ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پھر ہم نے ان ہی کے نقش قدم پر دوسرے رسول بھیجے اور ان کے پیچھے عیسٰی علیھ السّلام بن مریم علیھ السّلام کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا کردی اور ان کا اتباع کرنے والوں کے دلوں میں مہربانی اور محبت قرار دے دی اور جس رہبانیت کو ان لوگوں نے ازخود ایجاد کرلیا تھا اور اس سے رضائے خدا کے طلبگار تھے اسے ہم نے ان کے اوپر فرض نہیں قرار دیا تھا اور انہوں نے خود بھی اس کی مکمل پاسداری نہیں کی تو ہم نے ان میں سے واقعا ایمان لانے والوں کو اجر عطا کردیا اور ان میں سے بہت سے تو بالکل فاسق اور بدکردار تھے
9 Tafsir Jalalayn
پھر ان کے پیچھے انہی کے قدموں پر (اور) پیغمبر بھیجے اور ان کے پیچھے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو بھیجا اور ان کو انجیل عنایت کی اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ان کے دلوں میں شفقت اور مہربانی ڈال دی اور لذات سے کنارہ کشی تو انہوں نے خود ایک نئی بات نکال لی تھی ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا مگر (انہوں نے اپنے خیال میں) خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے (آپ ہی ایسا کرلیا تھا) پھر جیسا اس کو نباہنا چاہیے تھا نباہ بھی نہ سکے پس جو لوگ ان میں سے ایمان لائے ان کو ہم نے انکا اجر دیا اور ان میں بہت سے نافرمان ہیں ترجمہ : بیشک ہم نے نوح اور ابراہیم (علیہم السلام) کو پیغمبر بنا کر بھیجا اور ہم نے ان دونوں کی ذریت میں نبوت اور کتاب جاری رکھی یعنی چاروں کتابیں، تورات، انجیل اور زبور اور قرآن، یہ سب ابراہمی (علیہ السلام) کی ذریت میں ہیں ان میں سے کچھ تو، راہ یافتہ ہوئے اور ان میں اکثر نافرمان رہے پھر بھی ان کے پیچھے پے در پے ہم رسولوں کو بھیجتے رہے اور ان کے پیچھے عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا کی اور ان کے ماننے والوں کے دلوں میں شفقت و رحمت پیدا کی اور رہبانیت، وہ عورتوں کو تزک کردینا ہے او خلوت خانے بنانا ہے تو انہوں نے از خود ایجاد کرلی ہم نے اسے ان پر واجب نہیں کیا تھا یعنی ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا لیکن ان لوگوں نے رہبانیت کو اللہ کی رضا جوئی کے لئے اتخیار کیا سو انہوں نے اسکی پوری رعایت نہیں کی جب کہ ان میں سے اکثر نے اس کو ترک کردیا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے دین کے منکر ہوگئے اور اپنے بادشاہوں کے دین کو اختیار کرلیا اور بہت سے حضرت عییٰ کے دین پر قائم رہ، پھر ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے، سو ان میں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے ہم نے ان کو اجر عطا کیا اور زیادہ تر ان میں نافرمان رہے اے وہ لوگو ! جو عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور عبسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئو اللہ تعالیٰ تم کو اپنی رحمت سے تمہارے دو نبیوں پر ایمان لانے کی وجہ سے دو حصے (اجر) عطا فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ تم کو ایسا نور عطا کرے گا کہ جس کو لیکر تم پل صراط پر چلو گے اور وہ تم کو بخش دے گا اور وہ غفور رحیم ہے تاکہ جان لیں یعنی تم کو اس کے ذریعہ بتادیا کہ اہل کتاب یعنی تورات والے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے، ان مخففہ عن الثقیلہ ہے اور اس کا اسم ضمیر شان ہے اور معنییہ ہیں کہ وہ اللہ کے فضل میں سے کسی شئی پر بھی قادر نہیں ہیں ان کے گمان کے برخلاف کہ وہ اللہ کے محبوب ہیں اور اس کی رضامندی والے ہیں اور بلاشبہ فضل، اللہ کے قبضہ میں ہے جس کو چاہے عطاء کرے ان (اہل کتاب) میں سے ایمان لانے والوں کو دوہرا اجر عطا کیا، جیسا کہ ماقبل میں گذر چکا ہے اللہ بڑے فضل والا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تہسیل و تفسیری فوائد قولہ : ولقد ارسلنا نوحا و ابراہیم (الآیۃ) وائو عاطفہ ہے، معطوف علیہ لقد ارسلنا رسلنا ہے، لام جواب قسم کے لئے ہے اور قسم یعنی اقسم محذوف ہے، اعتناء اور تعظیم کی زیادتی کے لئیقسم کو مکرر لایا گیا ہے۔ سوال : حضرت نوح اور ابراہیم (علیہ السلام) ہی کو کیوں خاص کیا گیا ؟ جواب : مذکورہ دونوں حضرات کا بطور خاص اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ تمام انبیاء ان ہی کی ذریت میں سے ہیں، حضرت نوح (علیہ السلام) ابوالثانی ہیں اور حضرت ابراہیم ابوالعرب والروم و بنی اسرائیل ہیں۔ (صاوی) قولہ : وجعلنا فی ذریتھما مفعول ثانی مقدم کے محل میں سے النبوۃ مفعول اول ہے۔ قولہ : الکتب اس سے اشارہ ہے کہ الکتاب میں الف لام جنس کا ہے۔ قولہ : ورھبانیۃ رھبانیۃ اکثر کے نزدیک باب اشتغمال کے قاعدہ سے منصوب ہے، تقدیر عبارت یہ ہے ابتدعوا الرھبانیۃ ابتدعوھا اور بعض حضرات نے رافۃ پر عطف کی وجہ سے منصوب کہا ہے، اور ابتدعوھا رھبانیۃ کی صفت ہے۔ قولہ : لکن فعلوھا، الا کی تفسیر لکن سے کر کے اشارہ کردیا کہ یہ مستثنیٰ منقطع ہے اور کہا گیا ہے کہ مستثنیٰ متصل ہے، تقدیر عبارت یہ ہے کہ ماکتبنا ھا علیھم لشیء من الاشیاء الا لابتغاء مرضات اللہ اس صورت میں عموم احوال سے استثناء ہوگا اور کتب بمعنی قضیٰ ہے۔ قولہ : رھبانیۃ، رھبانیۃ کے معنی عبادت و ریاضت میں حد سے زیادہ مبالغہ کرنا اور لوگوں سے کنارہ کشی کر کے گوشہ تنہائی اختیار کرلینا ہے، راہ کے ضمہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اس صورت میں رھبان کی طرف نسبت ہوگی جو کہ راھب کی جمع ہے جیسا کہ رکبان راکب کی جمع ہے۔ قولہ : ای اعلمکم بذلک لیعلم اس میں اشرہ ہے کہ لئلا میں لازائدہ ہے تاکید کے لئے۔ قولہ : واللہ ذوالفضل العظیم، اللہ مبتداء اور ذوالفضل اس کی خبر اور العظیم، الفضل کی صفت ہے۔ تفسیر و تشریح ربط آیات : سابقہ آیات میں اس عالم کی ہدایت اور اس میں عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے انبیاء و رسل اور ان کے ساتھ کتاب و میزان نازل کرنے کا عمومی ذکر تھا، مذکورۃ الصدر آیات میں ان میں سے خاص خاص انبیاء و رسل کا ذکر ہے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کا کہ وہ آدم ثانی ہیں اور طوفان کے بعد کے انسان ان کی نسل سے ہیں، دوسرے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر ہے جو ابو الانبیاء ہیں اس کے بعد ایک مختصر جملے وقفینا علی آثارھم برسلنا میں پورے سلسلہ انبیاء و رسل کا ذکر فرمایا، آخر میں خصوصیت کے ساتھ بنی اسرائیل کے آخری نبی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کر کے حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی شریعت کا ذکر فرمایا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں کی خاص صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ و رحمۃ یعنی جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلام والسلام یا انجیل کا اتباع کیا ہم نے ان کے دلوں میں رافت اور رحمت پیدا کردی یعنی یہ لوگ آپس میں مہربان اور رحیم ہیں مگر جب ایک ساتھ بولے جاتے ہیں تو رافت سے مراد رقیق القلبی ہوتی ہے جو کسی کو تکلیف و مصیبت میں دیکھ کر ایک شخص کے دل میں پیدا ہو اور رحمت سے مراد وہ جذبہ ہوتا ہے جس کے تحت وہ اس کی مدد کی کوشش کرے، حضرت عیسیٰ چونکہ نہایت رقیق القلب اور خلق خدا کے لئے رحیم و شفیق تھے اس لئے ان کی سیرت کا یہ اثر ان کے پیروئوں میں سرایت کر گیا وہ اللہ کے بندوں پر ترس کھاتے تھے اور ہمدردی کے ساتھ ان کی خدمت کرتے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) کی صفات جو سورة فتح میں بیان فرمائی ہیں جن میں ایک صفت رحماء بینھم بھی ہے، مگر وہاں اس صفت سے پہلے صحابہ کرام (رض) کی ایک اور خاص صفت اشداء علی الکفار بھی بیان فرمائی ہے، فرق کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں کفار سے جہاد و قتال کے احکام نہ تھے، اس لئے کفار کے مقابلہ میں شدت ظاہر کرنے کا وہاں کوئی محل نہ تھا۔ (معارف ملخصاً ) رہبانیت کا مفہوم : اس کا تلفظ راء کے فتحہ اور ضمہ دونوں کے ساتھ ہے اس کا مادہ رھب ہے، جس کے معنی خوف کے ہیں، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد جب بنی اسرائیل میں فسق و فجور عام ہوگیا، خصوصاً سبادشاہوں اور رئوساء نے انجیل میں ترمیم کر کے اس سے کھلی بغات شروع کردی، ان میں جو علماء و صلحاء تھے انہوں نے اس بدعملی سے روکا تو ان کو قتل کردیا گیا جو کچھ بچ گئے انہوں دیکھا کہ اب نہ مقابلہ کی طاقت ہے اور نہ بچنے کی کوئی صورت، لہٰذا ان لوگوں نے اپنے دین کی حفاظت کی خاطر یہ صورت نکالی کہ اپنے اوپر یہ بات لازم کرلی کہ اب دنیا کی سب جائز لذتیں اور آرام بھی چھوڑ دیں، نکاح نہ کریں، کھانے پینے کی چیزیں جمع کرنے کی فکر نہ کریں اور رہنے کے لئے مکان کا انتظام نہ کریں، لوگوں سے دور کسی جنگل یا پہاڑ میں زندگی بسر کریں، تاکہ دین کے احکام پر آزادی کے ساتھ عمل کرسکیں ان کا یہ عمل چونکہ خدا کے خوف سے تھا اس لئے ایسے لوگوں کو راہب یا رہبان کہا جانے لگا، ان کی طرف نسبت کر کے ان کے طریقہ کو رہبانیت سے تعبیر کرنے لگے۔ ان کا یہ طریقہ کوئی شرعی طریقہ نہیں تھا بلکہ یہ طریقہ حالات سے مجبور ہو کر اپنے دین کی حفاظت کے لئے اختیار کیا گیا تھا اس لئے اصالتہ کوئی مذموم چیز نہ تھی، مگر جب ایک چیز کو اپنے اوپر لازم کرلیا تو اس کو نبھانا چاہیے تھا، مگر ان لوگوں نے اس کی رعایت نہیں کی بلکہ اس میں کوتاہی اور اس کی خلاف ورزی شروع کردی، قرآن مجید میں اس آیت میں ان کی اسی بات پر نکیر فرمائی۔ حضرت عبدا للہ بن مسعود (رض) کی ایک طویل حدیث اس پر شاہد ہے، ابن کثیر نے بروایت ابن ابی حاتم اور ابن جریر، ایک طویل حدیث نقل کی ہے، جس میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے، جن میں سے صرف تین فرقوں کو عذاب سے نجات ملی جنہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ظالم و جابر بادشاہوں اور دولت و قوت والے فاسقوں و فاجروں کو ان کے فسق و فجو سے روکا، ان کے مقابلہ میں حق کا کلمہ بند کیا اور دین عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف دعوت دی، ان میں سے پہلے فرقے نے قوت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا مگر ان کے مقابلہ میں مغلوب ہوئے اور قتل کردیئے گئے، پھر ان کی جگہ ایک دوسری جماعت کھڑی ہوئی جن کو مقابلہ کی اتنی بھی طاقت نہیں تھی، مگر کلمہ حق پہنچانے کے لئے اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر ان کو حق کی دعوت دی، ان سب کو بھی قتل کردیا گیا، بعض کو آروں سے چیرا گیا، بعض کو زندہ آگ میں جلایا گیا، مگر انہوں نے اللہ کی رضا کے لئے ان سب مصائب پر صبر کیا، یہ بھی نجات پا گئے، پھر ایک تیسری جماعت ان کی جگہ کھڑی ہوئی جن میں نہ مقابلہ کرنے کی قوت تھی نہ ان کے ساتھ رہ کر خود اپنے دین پر عمل کرنے کی صورت بنتی تھی اس لئے ان لوگوں نے جنگلوں اور پہاڑوں کا راستہ لیا اور راہب بن گئے یہی وہ لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ نے اس آیت میں کیا ہے ورھبانیۃ ابتدعوھا ماکتبناھا علیھم الا ابتغاء رضوان اللہ اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں : ایک یہ کہ ہم نے ان پر اس رہبانیت کو فرض نہیں کیا تھا بلکہ جو چیز ان پر فرض کی تھی وہ یہ تھی کہ وہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں اور دوسرا مطلب یہ کہ رہبانیت ہماری فرض کی ہوئی نہ تھی بلکہ اللہ کی رضا جوئی کے لئے خود انہوں نے اسے اپنے اوپر فرض کرلیا تھا۔ دونوں صورتوں میں یہ آیت اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ رہبانیت ایک غیر اسلامی چیز ہے اور یہ کبھی دین حق میں شامل نہیں رہی، یہی وجہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لارہبانیۃ فی الاسلام اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں (مسند احمد) ایک اور حدیث میں ہے رہبانیۃ ھذہ الامۃ الجھاد فی سبیل اللہ ہے ترک دنیا نہیں، یہ امت فتنوں سے ڈر کر جنگلوں اور پہاڑوں کی طرف نہیں بھاگتی بلکہ راہ خدا میں جہاد کر کے ان کا مقابلہ کرتی ہے، بخاری اور مسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ صحابہ (رض) میں سے ایک صاحب نے کہا میں کبھی شادی نہ کروں گا اور عورت سے کوئی واسطہ نہیں رکھوں گا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی یہ باتیں سنیں تو فرمایا اما واللہ انی لاخشاکم للہ و اتقاکم لہ لکنی اصوم وافطر واصلی وارقد واتزروج النساء فمن رغب عن سنتی فلیس منی خدا کی قسم میں تم سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہوں اور اس سے تقویٰ کرتا ہوں مگر میرا طریقہ یہ ہے کہ روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا، راتوں کی نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عروتوں سے ناکح بھی کرتا ہوں جس کو میرا طریقہ پسند نہ ہو اس سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔ رہبانیت مطلقا مذموم و ناجائز ہے اس میں کچھ تفصیل ہے ؟ صحیح بات یہ ہے کہ رہبانیت کا عام اطلاق ترک لذات، ترک مباحات کے لئے ہوتا ہے، اس کے چند درجے ہیں ایک یہ کہ کسی مباح و حلال چیز کو اعتقاد ایا عملاً حرام قرار دے، یہ تو دین کی تحریف و تغیر ہے، اس معنی کے اعتبار سے رہبانیت قطعاً حرام ہے اور قرآنی آیت یایھا الذین آمنوا لاتحرموا طیبات ما احل اللہ لکم میں اسی کی ممانعت ہے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ کسی مباح کو اعتقاد احرامقرار نہیں دیتا مگر کسی دنیوی یا دینی ضرورت کی وجہ سے اس کو چھوڑنے کی پابندی کرتا ہے دنیوی ضرورت جیسے بیماری کے خطرہ سے کسی مباح چیز سے پرہیز کرے اور دینی ضرورت یہ ہے کہ یہ محسوس کرے کہ اگر میں نے اس مباح کو اختیار کیا تو انجام کار کسی گناہ میں مبتلا ہوجائوں گا، جیسے جھوٹ غیبتوغیرہ سے بچنے کے لئے کوئی شخص لوگوں سے اختلاط ہی چھوڑ دے یا کسی نفسانی رذیلہ کے علاج کے لئے چند روز بعض مباحات کو ترک کر دے اور اس ترک کی پابندی کو بطور علاج و دوا کے اس وقت تک کرے جب تک وہ رذیلہ دور نہ ہوجائے جیسے کہ صوفیاء کرام مبتدی کو کم کھانے اور کم سونے کم اختلاط کی تاکید کرتے ہیں کہ یہ ایک مجاہدہ ہے نفس کو اعتدال پر لانے کا جب نفس پر قابو ہوجانا ہے تو یہ پرہیز چھوڑ دیا جاتا ہے، درحقیقت یہ رہبانیت نہیں تقویٰ ہے جو مطلوب ہے، اور اسلاف اور صحابہ کرام وتابعین عظام اور ائمہ دین سے ثابت ہے، تیسرا درجہ یہ ہے کہ کسی مباح کو تو حرامقرار نہیں دیتا مگر اس کا استعمال جس طرح سنت سے ثابت ہے اس طرح کے اسعتمال کو بھی چھوڑنا ثواب اور افضل جان کر اس سے پرہیز کرتا ہے، یہ ایک قسم کا غلو ہے جس سے احادیث کثیرہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے اور جس حدیث میں لارہبانیۃ فی الاسلام آیا ہے اس سے ایسا ہی ترک مباحات مراد ہے کہ اس کے ترک کو افضل وثواب سمجھے۔ (معارف)
10 Tafsir as-Saadi
﴿ثُمَّ قَفَّیْنَا﴾ پھر ہم نے بھیجے ﴿عَلٰٓی اٰثَارِہِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّیْنَا بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ﴾ ”ان کے پیچھے لگاتار اپنے رسول اورہم نے ان سب کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا۔“ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خاص طور پر اس لیے ذکر کیا ہے کیونکہ سیاق آیات نصارٰی کے بارے میں ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اتباع کا دعوٰی کرتے ہیں۔ ﴿وَاٰتَیْنٰہُ الْاِنْجِیْلَ﴾ ”اور ہم نے ان کو انجیل دی۔“ جو اللہ تعالیٰ کی فضیلت والی کتابوں میں سے ہے۔ ﴿وَجَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ رَاْفَۃً وَّرَحْمَۃً﴾ ا”ور ڈال دی ہم نے ان کے پیروکاروں کے دلوں میں شفقت اور مہربانی۔“جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ﴾ (المائدۃ:5؍82)”آپ پائیں گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور مودت و محبت کے اعتبار سے آپ مومنوں کے سب سے زیادہ قریب ان لوگوں کو پائیں گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصرانی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں عالم بھی ہیں اور راہب بھی اور (اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ) وہ تکبر نہیں کرتے۔“ اسی لیے جب نصرانی عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر قائم تھے تو دوسروں کی نسبت زیادہ نرم دل تھے۔ ﴿وَرَہْبَانِیَّۃَ ابْتَدَعُوْہَا﴾ ”اور رہبانیت کو انہوں نے ازخود ایجاد کرلیا۔“ رہبانیت سے مراد عبادت ہے۔پس انہوں نے اپنی طرف سے ایک عبادت ایجاد کرلی اور اپنے لیے اسے وظیفہ بنا لیا اور انہوں نے مختلف لوازم کا التزام کیا جن کو اللہ تعالیٰ نے ان پر فرض نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے خود اپنی طرف سے اپنے آپ پر لازم ٹھہرایا تھا اس سے ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا تھا۔ مگر بایں ہمہ ﴿فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَایَــتِہَا﴾ یعنی وہ اس پر قائم رہ سکے نہ اس کے حقوق ہی ادا کرسکے، پس وہ دو اعتبار سے قصور کے مرتکب ہوئے۔ اول : اس عبادت کو ایجاد کرنے کے اعتبار سے۔ ثانی : اس اعتبار سے کہ انہوں نے اپنے آپ پر جس چیز کو فرض کیا تھا اس پر قائم نہ رہ سکے، یہ حال ان کے غالب احوال میں سے تھا اور ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو اللہ تعالیٰ کے حکم پر استقامت کے ساتھ قائم تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَاٰتَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْہُمْ اَجْرَہُمْ﴾ یعنی وہ لوگ جو حضرت عیسیٰ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لائے اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو اس کے ایمان کے مطابق اجر عطا کیا ہے ﴿وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ﴾ ”اور ان میں سے زیادہ تر لوگ نافرمان ہیں۔“
11 Mufti Taqi Usmani
phir hum ney unn kay peechay unhi kay naqsh-e-qadam per apney aur payghumber bhejay , aur unn kay peechay essa ibn-e-maryam ko bheja , aur unhen injeel ata ki , aur jinn logon ney unn ki perwi ki , unn kay dilon mein hum ney shafqat aur reham dili peda kerdi . aur jahan tak rahbaniyat ka talluq hai , woh unhon ney khud ejaad kerli thi , hum ney uss ko unn kay zimmay wajib nahi kiya tha , lekin unhon ney Allah ki khushnoodi hasil kerni chahi , phir uss ki wesi riyat naa ker-sakay jaisay uss ka haq tha . gharz unn mein say jo emaan laye thay , unn ko hum ney unn ka ajar diya , aur unn mein say boht log nafarman hi rahey .