الحشر آية ۱
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الْاَرْضِۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ
طاہر القادری:
جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (سب) اللہ کی تسبیح کرتے ہیں، اور وہی غالب ہے حکمت والا ہے،
English Sahih:
Whatever is in the heavens and whatever is on the earth exalts Allah, and He is the Exalted in Might, the Wise.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ ہی کی تسبیح کی ہے ہر اُس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے، اور وہی غالب اور حکیم ہے
2 Ahmed Raza Khan
اللہ کی پاکی بولتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں، اور وہ وہی عزت و حکمت والا ہے
3 Ahmed Ali
جو مخلوقات آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے الله کی تسبیح کرتی ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے
4 Ahsanul Bayan
آسمان اور زمین کی ہرچیز اللہ تعالٰی کی پاکی بیان کرتی ہے، اور وہ غالب با حکمت ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جو چیزیں زمین میں ہیں (سب) خدا کی تسبیح کرتی ہیں۔ اور وہ غالب حکمت والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہے، اور وه غالب باحکمت ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اللہ ہی کی تسبیح کرتی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور وہ زبردست، بڑا حکمت والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اللہ ہی کے لئے محہُ تسبیح ہے جو کچھ بھی زمین و آسمان میں ہے اور وہی صاحب هعزت اور صاحب هحکمت ہے
9 Tafsir Jalalayn
جو چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جو چیزیں زمین میں ہیں (سب) خدا کی تسبیح کرتی ہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، آسمان اور زمین میں جو شئی بھی ہے وہ اس کی تسبیح بیان کرتی ہے یعنی اس کی پاکی بیان کرتی ہے، لام زائدہ ہے اور من کے بجائے ما لانا اکثر (یعنی غیر ذوی العقول) کو غلبہ دینے کی بناء پر ہے، وہ اپنے ملک انتظام میں غالب اور حکمت والا ہے اور وہی ہے جس نے اہل کتاب کافروں کو کہ وہ بنو نضیر کے یہودی تھے، مدینہ میں ان کے گھروں سے پہلے ہی حشر میں نکالا، ان کا یہ اخراج (مدینہ) سے خیبر کی جانب تھا اور دوسرا حشر وہ تھا کہ جب حضرت عمر (رض) نے ان کو اپنے دور خلافت میں خیبر سے شام کی طرف نکالا تھا۔
نوٹ :۔ متن میں تسامح ہے، جس کو ترجمہ میں درست کردیا گیا ہے۔
اے امونو ! تمہارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ نکلیں گے اور وہ بھی یہ سمجھے ہوئے تھے کہ ان کے قلعے اللہ کے عذاب سے ان کی حفاظت کریں گے مانعتھم، ان کی خبر ہے اور حصونھم مانعتھم کا فاعل ہے اس سے خبرتام ہوگئی، مگر اللہ یعنی اس کا حکم اور اس کا عذاب ایسی جگہ سے آپڑا کہ ان کو (وہم) و گمان بھی نہ تھا، یعنی مومنوں کی جانب سے، ان کے دل میں کبھی یہ بات آئی بھی نہ تھی اور اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا (رعب) عین کے سکون اور ضمہ کے ساتھ ہے ان کے سردار کعب بن اشرف کو قتل کر کے اور وہ اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں سے اجاڑ رہے تھے (یخربون) اخرب سے تشدید اور تخفیف کے ساتھ ہے، تاکہ وہ اپنی پسندیدہ چیزوں، لکڑی وغیرہ کو منتقل کرسکیں اور ممنین کے ہاتھوں سے اجڑ وار ہے تھے، سوائے دانشمندوچ عبرت حاصل کرو اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جلا وطنی (یعنی وطن سے نکلنا) مقدر نہ کردی ہوتی تو دنیا ہی میں اللہ ان کو قتل و قید کی سزا دیتا جیسا کہ قریظہ کے یہود کے ساتھ کیا گیا، اور آخرت میں تو ان کے لئے آگ کا عذاب ہے ہی یہ اس لئے ہوا کہ انہوں نے اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالف کی اور جو بھی اللہ کی مخالفت کرے گا اللہ اس کو شدید عذاب دے گا اے مسلمانو ! تم نے جو کھجور کے درخت کاٹ ڈالے یا جنہیں تم نے کھڑے رہنے دیا یہ سب اللہ کے حکم سے تھا یعنی اللہ تعالیٰ نے تم کو اس کا اختیار دیدیا تھا اور اس لئے بھی کہ کاٹنے کی اجازت دیکر فاسقوں (یعنی یہود) کو اللہ رسوا کرے، ان کے اس اعتراض کے جواب میں کہ پھلدار درختوں کو کانٹا فساد ہے اور ان کا جو مال اللہ نے اپنے رسول کے ہاتھ لگا دیا ہے اے مسلمانو ! نہ تم نے اس پر گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ یعنی تم نے اس مال کے لئے کوئی مشقت نہیں اٹھائی لیکن اللہ جس پر چاہے اپنے رسول کو غالب کردیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے لہٰذا اس مال میں تمہارا حق نہیں اور وہ مال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان لوگوں کے لئے خاص کیا گیا ہے جن چار قسموں کا دوسری آیت میں آپ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، جس کے مطابق آپ اس مال کو تقسیم فرماتے تھے، اس طریقہ پر کہ ان میں ہر ایک کے لئے دسواں حصہ اور باقی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہے اس میں آپ جو چاہیں کریں چناچہ اس میں سے آپ نے مہاجرین کو عطا فرمایا اور قراء اصار میں سے تین (آدمیوں) کو عطا فرمایا بستی والوں جیسا کہ صفراء اور وادی القریٰ اور ینبع کا جو مال اللہ تعالیٰ نے تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگایا وہ اللہ کا ہے اس میں جس کے لئے چاہے حکم فرمائے اور رسول کا ہے اور قرابت والوں کا ہے یعنی بنی ہاشم و بنی مطلب میں سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرابت والوں کا، اور یتیموں یعنی مسلمانوں کے ان بچوں کا جن کے آباء ہلاک ہوگئے اور وہ محتاج ہیں اور مسکینوں کا یعنی مسلمانوں میں سے حاجتمندوں کا اور مسافروں کا یعنی ان مسلمان مسافروں کا جو اپنے سفر کو جاری نہ رکھ سکیں، یعنی اس مال کے مستحق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور چار فریق ہیں جیسا کہ آپ تقسیم فرماتے تھے، اس طریقہ پر کہ چاروں کے مجموعہ کے لئے دسواں حصہ اور باقی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہے تاکہ تمہارے دولتمندوں کے ہاتھوں میں ہی مال گردش کرتا نہ رہ جائے (کیلا) کی ’ بمعنی لام ہے اور لام کے بعد ان مقدر ہے (کیلا) سے مذکورہ طریقہ پر تقسیم کرنے کی علت کا بیان ہے اور رسول جو کچھ تمہیں مال فیئی وغیرہ سے دے اس کو لے اور جس سے روک رک جائو اور اللہ سے ڈرتے رہو اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے ان فقراء مہاجرین کے لئے (شاباشی ہے) جو ان کے گھروں سے اور ان کے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کے طالب ہیں اور وہ اللہ کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں (درحقیقت) یہی ہیں سچے لوگ اپنے ایمان میں اور ان کے لئے جنہوں نے اپنے گھر (یعنی مدینہ) میں اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنا لی یعنی ایمان سے الفت کرلی اور وہ انصار ہیں اپنی طرف ہجرت کر کے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور ان مہاجرین کو جو کچھ دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں تنگی محسوس نہیں کرتے یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہاجرین کو بنی نضیر سے حاصل شدہ مال میں سے جو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے خاص تھا کچھ دیدیا تھا، بلکہ اپنے اوپر ان کو ترجیح دیتے ہیں گو خود کو اس مال کی کتنی ہی حاجت کیوں نہ ہوا اور جو شخص اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا یعنی مال کی حرص سے وہی ہیں کامیاب لوگ اور وہ لوگ جو ان کے یعنی مہاجرین و انصار کے بعد قیامت تک آئیں گے کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ایمان والوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ نہ ڈال، اے ہمارے پروردگار بیشک تو شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
سورة حشر انسٹھویں سورت ہے، اس کا دوسرا نام سورة النضیر ہے، یہ بالاتفاق مدنی سورت ہے۔
قولہ : بنو نضیر یہ قبیلہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی ذریت میں سے تھا۔
قولہ : لاول الحشر لام بمعنی فی ہے ای فی اول الحشر اور لام بمعنی عند بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ لدلوک الشمس میں ہے اس وقت لام توقیت کے لئے ہوگا، اول الحشر یہ اضافت صفت الی الموصوف کے قبیل سے ہے، ای الحشر الاول
قولہ : الی خیبر صحیح من خیبر ہے۔
قولہ : تم بہ الخبر، انھم، میں ھم ان کا اسم ہے مانع اسم فاعل ھم اس کا مفعول حصونھم اس کا فاعل، اس مفاعل اپنے فاعل اور مفعول سے مل کر انکی خبر جیسے ان زیدا قائم ابوہ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حصونھم مبتداء مئوخر اور مانعتھم خبر مقدم، مبتداء اپنی خبر مقدم سے مل کر ان کی خبر ہو۔
قولہ : حصون، حصن کی جمع ہے بمعنی قلعے۔
قولہ : من اخرب اس کا تعلق تخفیف سے ہے، مطلب یہ کہ یخربون کو تخفیف کے ساتھ پڑھیں تو اخرب سے ہوگا اور اگر تشدید کے ساتھ پڑھیں یخربون تو (تفعیل) سے ہوگا۔
قولہ : لولا ان کتب اللہ علیھم ان مصدریہ ہے، ان مع اپنے مابعد کے مصدر کی تاویل میں ہو کر مبتداء محلا مرفوع ہے اس کی خبر وجوبا محذوف ہے اور وہ موجود ہے ای لو لاکتاب اللہ علیھم موجود لعذبھم، لعذبھم لولا کا جواب ہے۔
قولہ : الجلآء ای الخروج من الوطن مع الاھل والولد، جلا وطنی کہتے ہیں مع اہل و عیال کے وطن چھوڑ کر چلے جانا، بخلاف خروج کے کہ وہ تنہا اور مع اہل و عیال دونوں طریقوں سے ہوسکتا ہے۔
قولہ : اللینۃ یہ لین سے مشتق ہے عمدہ کھجور کو کہتے ہیں (ای النخلۃ الکریمۃ) اس کی جمع الیان آتی ہے۔
قولہ : ولیخزی الفاسقین وائو عاطفہ ہے معطوف علیہ محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے اذان فی قطعھا الیعجز المومنین ویخزی المنافقین
قولہ : للفقراء المھاجرین ایک تو یہ ہے کہ للفقراء کا تعلق فعل محذوف سے کیا جائے جیسا کہ علامہ تجلی کی رائہ ہے عالمہ محلی نے اعجبوا فعل محذوف مانا ہے، تقدیر عبارت یہ ہوگی اعجبوا للفقراء الماجرین الذین اخرجوا (الآیۃ) اور یہ اظہار تعجب علی سبیل المدح ہے، یعنی تعجب ہے کہ مہاجرین نے حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا کہ اپنا گھر بار عزیز و اقارب، مال و دولت، غرضیکہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں اپن اسب کچھ تیگا دیا اور بےیارو مددگار غریب الوطن ہو کر دیار غیر میں مقیم ہوگئے، للفقراء کو فعل محذوف سے متعلق کرن کا فائدہ یہ ہوگا کہ ذی القربی کے لئے فقر شرط نہ ہوگا، بلکہ مال غنیمت (فی) میں ذوی القربی کا حق ہوگا خواہ وہ محتاج اور حاجتمندوں ہوں نہ ہوں، یہی مسلک امام شافعی رحمتہ اللہ تعالیٰ کا ہے مفسر علامہ چونکہ شافعی المسلک ہیں اس لئے اسی کے پیش نظر اعجبوا فعل محذوف مانا ہے تاکہ للفقراء کو ذی القربی سے بدل قرار نہ دینا پڑے، دوسری صورت یہ کہ للفقراء کو ذی القربیٰ سے بدل قرار دیا جائے جیسا کہ امام اعظم ابوحنیفہ للفقراء کو ذی القربی اور اس کے مابعد سے بدل الکل قرار دیتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ فقر اور حاجت مع ذوالقربی تمام مذکورین کے لئے شرط ہے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ذوالقربی میں جو نادار اور غریب ہوں گے تو وہ مال فئی (غنیمت) میں حصہ دار ہوں گے ورنہ نہیں۔
قولہ : والذین تبواء و الدار مدح انصار کے لئے کلام مستانف ہے یا اس کا عطف للفقراء پر بھی کرسکتے ہیں، الذین مذکورہ دونوں صورتوں میں یا تو مبتداء ہوگا یا پھر اس کا عطف للفقراء پر ہوگا، اس صورت میں الذین محل جر میں ہوگا کہ الذین مبتداء ہو تو یحبون من ھاجر الیھم جملہ ہو کر اس کی خبر ہوگی۔
قولہ : القوہ یہ اشارہ ہے کہ الایمان فعل محذوف کی وجہ سے منصوب ہے۔
تفسیر و تشریح
ربط :۔
سابقہ سورت میں منافقین کی یہود کے ساتھ دوستی کی مذمت کا بیان تھا، اس سورت میں یہود پر دنیا میں جلا وطنی کی سزا اور آخرت میں شدید عذاب کا ذکر ہے۔
شان نزول :
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ نے سیاسی اقدام کے طور پر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ قبائل یہود کے ساتھ جن میں بنو نضیر اور بنو قریظہ اور بنو قینقاع بھی شامل تھے، تحریری معاہدہ صلح فرمایا جس کی رو سے یہود اور مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے حلیف ہوگئے، یہ معاہدہ مندرجہ ذیل چودہ دفعات پر مشتمل تھا، جو ہجرت مدینہ کے پانچ ماہ بعد ہوا تھا : (١) قصاص اور خون بہا کے جو طریے قدیم زمانہ سے چلے آرہے ہیں وہ عدل اور انصاف کے ساتھ بدستور قائم رہیں گے۔ (٢) ہر گورہ کو اپنی جماعت کا عدل و انصاف کے ساتھ فدیہ دینا ہوگا۔ (٣) ظلم اور اثم اور عدوان اور فساد کے مقابلہ میں سب سے متفق رہیں یگ۔ (٤) کوئی مسلمان کسی مسلمان کو کسی کافر کے مقابلہ میں قتل کرنے کا مجاز نہ ہوگا اور نہ کسی مسلمانوں کے مقابلہ میں کسی کافر کی کسی قسم کی مد کی اجازت ہوگی۔ (٥) ایک ادنیٰ مسلمان کو پناہ دینے کا وہی حق ہوگا جو ایک بڑے رتبہ کے مسلمان کو ہوگا۔ (٦) جو یہود مسلمان کے تابع ہو کر رہیں گے ان کی حفاظت مسلمانوں کے ذمہ ہوگی (٧) کسی کافر اور مشرک کو یہ حق نہ ہوگا کہ سلمانوں کے مقابلہ میں قریش کے کسی کی جان یا مال کو پناہ دے سکے یا قریش اور مسلمانوں کے درمیان حائل ہو۔ (٨) بوقت جنگ یہود کو مسلمانوں کا ساتھ جان و مال سے ساتھ دینا ہوگا، مسلمانوں کے خلاف مدد کی اجازت نہ ہوگی۔ (٩) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی دشمن اگر مدینہ پر حملہ کرے تو یہود پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد لازم ہوگی۔ ١٠۔ جو قبائل اس عہد میں شریک ہیں اگر ان میں سے کوئی قبیلہ علیحدگی اختیار کرنا چاہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجازت ضروری ہوگی۔ (١١) کسی فتنہ پرداز کی مدد یا اس کو ٹھکانہ دینے کی اجازت نہ ہوگی اور جو شخص کسی بدعتی کی مدد کرے گا اس پر اللہ کی لعنت اور غضب ہے، قیامت تک اس کا کوئی عمل قبول نہ ہوگا۔ 12 مسلمان اگر کسی سے مصلح کریں گے تو یہود کو بھی اس صلح میں شریک ہونا ضروری ہوگا۔ 13 جو کسی مسلمان کو قتل کرے اور شہادت موجود ہو تو قصاص لیا جائے گا، الا یہ کہ مقتول کا ولی دیت وغیرہ پر راضی ہوجائے۔ 14 جب کبھی نزاع یا کسی میں اختلاف رونما ہوگا تو اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رجوع کیا جائے گا۔ (البدایہ والنھایہ ملخصاً )
قبیلہ بنو نضیر مدینہ طیبہ سے دو میل کے فاصلہ پر رہتا تھا اسی دوران عمرو بن امیہ ضمری کے ہاتھ سے قبیلہ بنی عامر کے دن کافروں کی قتل کا ایک واقعہ پیش آیا، بنو عامر سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاہدہ تھا۔
بیر معونہ اور عمرو بن امیہ ضمری کا واقعہ :
بیر معونہ کا واقعہ جو کہ تاریخ اسلام میں بڑا درد ناک واقعہ ہے اس کا مختصر حال اس طرح ہے کہ حادثہ رجیع کے چند روز بعد ہی ماہ صفر ٤ ھ میں ابوالبراء، عامر بن مالک بن جعفر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی بستی میں تبلیغ اسلام کے لئے صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت بھیجنے کی درخواست کی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ستر صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت ان کے ساتھ کردی بعد میں معلوم ہوا کہ یہ محض ایک سازش تھی جو کہ مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئے تیار کی گئی تھی، چناچہ وہ اس میں کامیاب ہوگئے ان قراء کی جماعت میں سے صرف عمر و بن امیہ ضمری کسی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے، اتفاق یہ ہوا کہ مدینہ طیبہ آنے کے وقت راستہ میں ان کو دو کافر ملے عمرو بن امیہ ضمری (رض) چونکہ اپنے انہتر ساتھیوں کا بےرحمانہ قتل اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے ان کا غم و غصہ کتنا ہوگا ہر شخص سمجھ سکتا ہے، اس لے انہوں نے یہ ٹھان لیا کہ ان سے اپنے انہتر مقتول ساتھیوں کا بدلہ لینا چاہیے، چناچہ عمرو بن امیہ ضمری نے موقع پا کر ان دونوں کافروں کو قتل کردیا، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ دونوں آدمی بنی عامر کے تھے جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاہدہ صلح تھا، جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی غلطی کا علم ہوا تو آپ نے معاہدہ اور اصول شرعیہ کے مابق ان دونوں کی دیت (خون بہا) ادا کرنے کا فیصلہ فرمایا اور اسکے لئے مسلمانوں سے چندہ کیا اس سلسلہ میں بنو نضیر کے پاس بھی جانا ہوا۔ (ابن کثیر، معارف)
یہود کا تاریخی پس منظر :
عرب کے یہودیوں کی کوئی مستند تاریخ دنیا میں موجود نہیں ہے، جو کچھ بھی ہے محض ان ہی کی زبانی روایات ہیں، درحقیقت جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جب 70 ء میں رومیوں نے فلطسطین میں یہودیوں کا قتل عام کیا اور 132 میں ان کو سر زمین فلسطین سے نکال دیا اس دور میں بہت سے یہودی قبائل بھاگ کر حجاز میں پناہ گزیں ہوگئے یہاں آ کر انہوں نے جہاں جہاں چشمے اور سرسبز مقامات دیکھے وہاں آباد ہوگئے اور پھر رفتہ رفتہ اپنے جوڑ توڑ اور سازشی فطرت کے ذریعہ ان مقامات پر پورا قبضہ جما لای، ایلہ، مقنا، تبوک، تیما اور وادی القریٰ ، فدک اور خیبر پر ان کا تسلط اسی دور میں قائم ہوا اور بنی قریظہ، بنی نظیر اور بنی قینقاع بھی اسی دور میں آ کر یثرب پر قابض ہوگئے، یہ لوگ جب مدینہ میں آ کر آباد ہوئے تو اس وقت دوسرے عرب قبائل بھی آباد تھے جن کو انہوں نے دبا لیا، اور عملاً اس علاقہ کے مالک بن بیٹھے، اس کے تقریباً تین صدی بعد 45 ء میں یمن کے اس سیلاب عظیم کا واقعہ پیش آیا جس کا ذکر سورة سبا کے دوسرے رکوع میں گذر چکا ہے اس سیلاب کی وجہ سے قوم سبا کے مختلف قبیلے یمن سے نکل کر عرب کے اطراف میں پھیل گئے ان میں سے غسانی شام میں اور بنی خزاعہ مکہ اور جدہ کے درمیان اور اوس اور خزرج یثرب میں جا کر آباد ہوگئے، یثرب پر چونکہ یہودی چھائے ہوئے تھے ان ہی کا مکمل کنٹرول تھا، اس لئے انہوں نے اول اول اوس و خزرج کی دال نہ گلنے دی، جس کی وجہ سے یہ دونوں قبیلے چار و لاچار بنجر اور سنگلاخ زمینوں پر بس گئے، آخر کار ان کے سرداروں میں سے ایک شخص اپنے غسانی بھائیوں سے مدد لینے کے لئے شام گیا اور وہاں سے ایک لشکر لا کر ان یہودیوں کا زور توڑ دیا، اس طرح اوس اور خزرج نے یثرب پر پورا تسلط حاصل کرلیا، یہودیوں کے دو بڑے قبیلے بنو نضیر اور بنو قریظہ یثرب کے باہر جا کر بسنے پر مجبور ہوگئے، تیسرے قبیلے بنو قینقاع سے چونکہ مذکورہ دونوں یہودی قبیلوں کی ان بن تھی، اس لئے وہ شہر کے اندر ہی مقیم رہا، مگر یہاں رہنے کے لئے ان کو قبیلہ خزرج کی پناہ لینی پڑی اور اس کے مقابلہ میں بنی نضیر اور بنی قریظہ نے قبیلہ اوس کی پناہ لی، ذیل کے قنشے سے ظاہر ہوجائے گا کہ یہودیوں کی بستیاں کہاں کہاں تھیں ؟
یہود اور ان کی عہد شکنی :
غزوہ احد تک تو یہ لوگ بظاہر اس صلح نامہ کے پابند رہے مگر احد کے بعد انہوں نے غداری کی اور خفیہ خیانت شروع کردی، اس غداری اور خیانت کی ابتداء اس سے ہوئی کہ بن ونضیر کا ایک سردار کعب بن اشرف غزوہ احد کے بعد اپنے ساتھ چالیس یہودیوں کا ایک قافلہ لے کر مکہ معظمہ پہنچا، ادھر ابوسفیان اپنے چالیس آدمیوں کو لیکر حرم بیت اللہ میں داخل ہوا اور بیت اللہ کا پردہ پکڑ کر یہ معاہدہ کیا کہ ہم ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں گے۔
کعب بن اشرف اس معاہدہ کے بعد جب مدینہ طیبہ واپس آیا تو جبرائیل امین نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سارا واقعہ اور معاہدہ کی تفصیل بتادی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کعب بن اشرف کے قتل کا حکم جاری فرما دیا، چناچہ محمد بن مسلمہ انصاری نے اس کے قتل کی ذمہ داری اپنے ذمہ لی۔
کعب بن اشرف کا قتل اور اس کے اسباب :
مدینہ منورہ میں جب فتح بدر کی بشارت پہنچی تو کعب بن اشرف یہودی کو بےحد صدمہ ہوا اور یہ کہا کہ اگر یہ خبر صحیح ہے کہ مکہ کے بڑے سردار اور اشراف مارے گئے تو پھر زمین کا بطن اس کی ظہر سے بہتر ہے یعنی جینے سے مرجانا بہتر ہے تاکہ آنکھیں اس ذلت اور رسوائی کو نہ دیکھیں۔
لیکن جب خبر کی تصدیق ہوگئی تو مقتولین بدر کی تعزیت کے لئے ایک وفد لیکر مکہ روانہ ہوا اور مقتولین بدر کے مرثئے لکھے جن کو پڑھ پڑھ کر خود بھی روتا تھا اور دوسروں کو بھی رلاتا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں لوگوں کو جوش دلا کر آمادہ قتال کر تھا تھا، آخر ایک روز قریش کو حرم مکہ میں لے جا کر اور غلام کبہ پکڑ کر مسلمانوں سے قتال کرنے کا حلف اٹھایا، اس کے بعد جب مدینہ واپس آیا تو مسلمان عورتوں کے متعلق عشقیہ اشعار کہنے شروع کئے، کعب بن اشرف بڑا شاعر تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجو میں اشعار کہتا تھا اور کفار مکہ کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ کے لئے ہمیشہ بھڑکاتا رہتا تھا اور مسلمانوں کو بھی طرح طرح کی ایذائیں دیتا رہتا تھا، جب صبر و تحمل کی حد ہوگئی اور پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور وہ کسی طرح باز نہ آیا تو آخر کار مجبور ہو کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو قتل کرنے کا حکم دیدیا۔ (ابو دائود، ترمذی، فتح الباری)
ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ کعب بن اشرف نے اپ کو دعوت کے بہانے سے بلایا اور کچھ آدمی متعین کردیئے کہ جب آپ تشریف لائیں تو قتلکر ڈالیں، آپ آ کر بیٹھے ہی تھے کہ جبرائیل امین نے آ کر آپ جو ان کے ارادہ سے مطلع کردیا آپ فوراً وہاں سے جبرائیل امین کے پروں کے سایہ میں باہر تشریف لے آئے اور واپسی کے بعد اسکے قتل کا حکم دیا۔ (فتح الباری : ج ٨ ص ٢٥٩)
صحیح بخاری میں حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کعب بن اشرف کو قتل کرنے کے لئے کون تیار ہے ؟ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو بہت ایذا پہنچائی ہے، یہ سنتے ہی محمد بن مسلمہ (رض) کھڑے ہوگئے اور عرض کیا یا رسول اللہ کیا آپ اس کا قتل چاہتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! محمد بن مسلمہ نے عرض کیا یا رسول اللہ پھر مجھے کچھ کہنے کی اجازت دیجیے جن کو سن کر بظاہر وہ خوش ہوجائے، آپ نے فرمایا اجازت ہے۔
محمد بن مسلمہ ایک وز کعب بن اشرف سے ملنے گئے اور اثنئا گفتگلو میں یہ کہہ دیا کہ یہ شخص (یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم سے صدقہ اور زکوۃ مانگتا ہے اور اس شخص نے ہم کو مشقت میں ڈال دیا ہے، میں اسوقت آپ کے پاس قرض لینے کے لئے ایا ہوں، کعب بن اشرف نے کہا ابھی کیا ہے ؟ آگے چل کر دیکھنا، خدا کی قسم تم ان سے اکتا جائو گے، محمد بن مسلمہ نے کہا اب تو ہم اس کے پیرو ہوچکے ہیں ان کا چھوڑنا ہم پسند نہیں کرتے انجام کے منتظر ہیں، اس وقت ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ کچھ غلہ ہم کو بطور قرض دیدیں، کعب نے ہا بہتر ہے مگر میرے پاس کوئی چیز رہن رکھ دو ، انہوں نے کہا کہ آپ کیا چیز رہن رکھوانا چاہتے ہیں ؟ کعب نے کہا اپنی عورتوں کو رہن رکھ دو ، انہوں نے کہا اپنی عورتوں کو رہن کیسے رکھ سکتے ہیں، اول تو غیرت و حمیت گوارہ نہیں کرتی، پھر یہ کہ آپ نہایت حسین و جمیل ہیں، کعب نے کہا آپ اپنے لڑکوں کو رہن رکھ دو ، انہوں نے ہا یہ تو ساری عمر کی عار ہے، لوگ ہماری اولاد کو طعنہ دیں گے کہ تم وہی ہو جو دو سیر اور تین سیر غلہ کے عوض رہن رکھے گئے تھے ہاں ہم اپنا ہتھیار آپ کے پاس رہن رکھ سکتے ہیں۔
حسب وعدہ یہ لوگ رات کو ہتھیار لیکر پہنچے اور جا کر کعب کو آواز دی، کعب نے اپنے قلعہ سے اترنے کا ارادہ کیا، بیوی نے کہا اس وقت کہاں جاتے ہوڈ کعب نے کہا محمد بن مسلمہ ابونائلہ میرا دودھ شریک بھائی ہے کوئی غیر نہیں تم فکر نہ کرو، بیوی نے کہا مجھے اس آواز سے خون ٹپکتا ہوا نظر آتا ہے کعب نے کہا اگر شریف آدمی رات کے وقت نیزہ مارنے کے لئے بھی بلایا جائے تو اس کو ضرور جانا چاہیے، اس دوران محمد بن مسلمہ نے اپنے ساتھیوں کو یہ سمجھا دیا کہ جب کعب آئے گا تو میں اس کے بال سونگھوں گا، جب دیکھو کہ میں نے اس کے بالوں کو مضبوط پکڑ لیا ہے تو فوراً اس کا سر اتار لینا چناچہ جب کعب نیچے آیا تو سرتاپا خوشبو سے معطر تھا، محمد بن مسلمہ نے کہا، آج جیسی خوشبو تو میں نے کبھی سونگھی ہی نہیں، کعب نے کہا میرے پاس عرب کی سب سے زیادہ حسین و جمیل اور سب سے زیادہ معطر عورت ہے، محمد بن مسلمہ نے آگے بڑھ کر خود بھی سر کو سونگھا اور اپنے رفقاء کو بھی سونگھایا، کچھ دیر کے بعد پھر محمد بن مسلمہ نے کہا آپ دوبارہ اپنا سر سونگھنے کی اجازت دیں گے ؟ کعب نے کہا شوق سے محمد، بن مسلمہ اٹھے اور سرسونگھنے میں مغشول ہوگئے جب سر کے بال مضبوط پکڑ لئے تو ساتھیوں کو اشارہ کیا، فوراً ہی سب نے اس کا سر قلم کردیا اور آناً فاناً اس کا کام تمام کردیا۔ (فتح الباری : ج ٨، ص ٢٦٠)
اور اخیر شب میں رسول اللہ کی خدمت میں پہنچے، آپ نے دیکھتے ہی یہ ارشاد فرمایا افلحت الوجوہ ’ یہ چہرے کامیاب ہوئے “ ان لوگوں نے جواباً عرض کیا، ووجھک یا رسول اللہ ” اے اللہ کے رسول آپ کا چہرہ مبارک بھی “ اس کے بعد کعب بن اشرف کا سر آپ کے سامنے ڈال دیا، آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا، جب یہود کو اسکا علم ہوا تو یکلخت مرعوب اور خوف زدہ ہوگئے اور جب صبح ہوئی تو یہود کی ایک جماعت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : کہ ہمارا سردار اس طرح مارا گیا، آپ نے فرمایا وہ مسلمانوں کو طرح طرح سے ایذائیں پہنچاتا تھا، اور لوگوں کو ہمارے قتال پر آمادہ کرتا تھا، یہود دم بخود رہ گئے اور کوئی جواب نہ دے سکے، بعدازاں آپ نے ان سے ایک عہد نامہ لکھوایا کہ یہود میں سے آئندہ کوئی اس قسم کی حرکت نہ کرے گا۔ (طبقات ابن سعد)
کعب بن اشرف اور اس کی دریدہ دہنی اور قتل کے اسباب :
(١) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان اقدس میں دریدہ دہنی اور سب و شتم اور گستاخانہ کلمات کا زبان سے نکلنا (٢) آپ کی ہجو میں اشعار کہنا (٣) غزلیات اور عشقیہ اشعار میں مسلمان عورتوں کا بطور تشبیب ذکر کرنا (٤) غدر اور نقض عہد (٥) لوگوں کو آپ کے مقابلہ کے لئے ابھارنا (٦) دعوت کے بہانہ سے آپ کی قتل کی سازش کرنا۔ (٧) دین اسلام پر طعن کرنا۔
بنو نضیر کی جلا وطنی کے وقت مسلمانوں کی روا داری :
آج کے بڑے حکمران اور بڑی حکومتیں جو انسانی حقوق کے تحفظ پر بڑے بڑے لکچر دیتے ہیں اور حقوق انسانی کے تحفظ کے نام سے بڑی بڑی عالمی اور ملکی اور علاقائی انجمنیں بنا رکھی ہیں اور تحفظ حقوق انسانی کے چودھری کہلاتے ہیں، ذرا اس واقعہ پر نظر ڈالیں کہ بنو نضیر کی ملسل سازشیں، خیانتیں، قتل رسول کے منصوبے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آتے رہے، اگر آج کل کے کسی حکمراں اور کسی سربراہ مملکت کے سامنے آئے ہوتے تو ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ؟ آج کل تو زندہ لوگوں پر پیٹرول چھڑک کر میدان صاف کردینا کسی بڑے اقتدار و حکومت کا بھی محتاج نہیں، کچھ غنڈے شریر ہوجاتے ہیں اور یہ سب کچھ کر ڈالتے ہیں۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بدترین دشمن کے ساتھ بےمثال روا داری :
یہ حکوتم خدا کی اور اس کے رسول کی ہے جب غداریوں اور سازشیں انتہا کو پہنچ گئیں تو اس وقت بھی ان کے قتل عام کا ارادہ نہیں فرمایا، ان کے ملا و اسباب چھین لینے کا کوئی تصور نہیں تھا بلکہ اپنا سب مال لے کر صرف شہر خالی کردینے کا فیصلہ فرمایا اور اس کے لئے بھی ان کو دس روز کی مہلت دی تاکہ آسانی کے ساتھ اپن سامان لیکر اطمینان سے کسی دوسرے مقام پر منتقل ہوجائیں، جب اس حکم کی بھی خلاف ورزی کی تو فوجی اقدام کی ضرورت پیش آئی۔
یہود کی شرارت اور بد عہدی :
بنی عامر کے دو آدمیوں کی دیت کے سلسلہ میں آپ اپنے چند رفقاء کے ہمراہ یہود کی بستی بنو نضیر تشریف لے گئے، بنو نضیر نے آپ کے تشریف لے جانے پر بظاہر دیت میں شرکت کے بارے میں آمادگی کا اظہار کیا اور آپ کو ایک قلعہ کی دیوار کے سایہ میں بٹھا دیا اور لوگوں کو جمع کرنے بہانے ادھر ادھر چلے گئے اور جدا ہو کر اپٓس میں یہ مشورہ کیا کہ یہ بہت اچھا موقع ہے کہ کوئی شخص قلع پر چڑھ کر اوپر سے پتھر دھکیل دے تاکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے تینوں ساتھی کچل جائیں۔
چناچہ ایک شخص عمر بن محاسن بن کعب فوراً اوپر چڑھا کہ پتھر آپ پر گرا دے ابھی وہ گرانے نہ پایا تھا کہ آپ کو خدا نے بذریعہ وحی یہودیوں کے اس منصوبے کی اطلاع دے دی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوراً وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور صحابہ کرام (رض) کو ہمراہ لیکر مدینہ کے لئے روانہ ہوگئے، یہودیوں نے آپ کو واپس بلانا چاہا، آپ نے فرمایا کہ تم نے ہمارے قتل کا منصوبہ تیار کیا اب ہم کو تمہار اعتبار نہیں رہا اور بنو نضیر اس الزام کا انکار بھی نہ کرسکے، اب ان کے ساتھ کسی قسم کی رعایت کا سوال ہی نہیں رہا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو یہ الٹی میٹم بھیج دیا کہ تم یہاں سے دس دن کے اندر جلا وطن ہوجائو، دس دن کے بعد اگر تمہاری بستی میں کوئی شخص پایا گیا تو اس کی گردن مار دی جائے گی، بنو نضیر نے حکم ماننے سے انکار کردیا اور لڑائی کے لئے مستعد ہوگئے، دوسری طرف عبداللہ بن ابی منافق نے یہودیوں کو پیغام بھیج دیا کہ میں دو ہزار آدمیوں سے تمہاری مدد کروں گا اور بنی قریظہ اور بنی غطفان بھی تمہاری مدد کے لئے آئیں گے، اسی جھوٹے بھرو سے اور اعتماد پر انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ال ٹی میٹم کا یہ جواب دیا کہ ہم یہاں سے نہیں نکلیں گے، آپ سے جو کچھ ہو سکے کرلیجیے، اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ربیع الاول ٤ ھ میں ان کا محاصرہ کرلیا جو پندرہ دن جاری رہا، اس محاصرہ کا یہ نتیجہ ہوا کہ بنو نضیر نے عبداللہ بن ابی کے ذریعہ آپ کو پیغام بھیجا کہ اگر ہماری جان بخشی کی جائے تو ہم جلا وطنی کو تیار ہیں، آپ نے حکم دیا کہ سوائے ہتھیاروں کے دیگر تمام مال و اسباب جو اونٹوں پر بار ہوسکتا ہو لیکن یہاں سے نکل جائو، چناچہ بنو نضیر ہتھیاروں کے علاوہ دیگر مال اونٹوں پر لاد کرلے گئے حتی کہ در اور مکان کی کڑیاں اور الماریاں وغیرہ سب لے گئے اور مکانوں کو ویران و مسمار کر گئے، غرضیکہ کوئی چیز قابل استعمال نہیں چھوڑی حی کہ مٹکے تک توڑ گئے، یہاں سے روانہ ہو کر کچھ تو خیبر میں مقیم ہوگئے اور کچھ شام میں جا کر آباد ہوگئے، یہودیوں میں یامین بن عمیر اور سعید بن وہب دو شخص مسلمان ہوئے اس لئے ان کے مال و اسباب اور اسلحہ وغیرہ سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا، اسی غزوہ کے بارے میں سورة حشر نازل ہوئی۔ (تاریخ الاسلام، اکبر شاہ خان نجیب آبادی مخلصاً )
لاول الحشر ” حشر “ کے معنی منتشر افراد کو جمع کرنا یا منتشر افراد کو جمع کر کے نکال دینا اور لاول الحشر کے معنی ہیں پہلے حشر کے ساتھ یا پہلے حشر کے موقع پر اب رہا یہ سوال کہ یہاں اول حشر سے کیا مراد ہے ؟ تو اس میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ایک گروہ کے نزدیک اس سے بنی نضیر کا مدینہ سے اخراج مراد ہے اور اس کو پہلا حشر اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ دوسرا حشر حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں ہوا جب یہود و نصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے نکالا گیا، دوسرے گروہ کے نزدیک اس سے مسلمانوں کی فوج کا اجتماع مراد ہے جو بنی نضیر سے جنگ کرنے کے لئے جمع ہوا تھا، اس صورت میں لاول الحشر کے یہ معنی ہیں کہ ابھی مسلمان ان سے لڑنے کے لئے جمع ہی ہوئے تھے اور کشت و خون کی نوبت نہ آئی کہ اللہ کی قدرت سے وہ جلا وطنیکے لئے تیار ہوگئے۔
10 Tafsir as-Saadi
اس سورۃ مبارکہ کو ”سورۃ بنی نضیر “کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے ۔بنو نضیر یہودیوں کا ایک بڑا قبیلہ تھا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت مدینہ کے مضافات میں آباد تھا۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو انہوں نے جملہ یہود کے ساتھ آپ کی نبوت کا انکار کردیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے ان قبائل کے ساتھ معاہدہ کرلیا جو مدینہ منورہ میں آپ کے پڑوس میں آباد تھے ۔غزوہ بدر کے تقریبا چھ ماہ بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اور ان سے گفتگو کی وہ (معاہدے کے مطابق) ان کلابیوں کی دیت کے بارے میں آپ کی مدد کریں جن کو عمرو بن امیہ ضمری نے قتل کیا تھا۔ انہوں نے کہا :”اے ابوالقاسم! ہم آپ کی مدد کریں گے آپ یہاں بیٹھیں یہاں تک کہ ہم آپ کے لیے دیت اکٹھی کردیں ،چنانچہ وہ تنہائی میں ایک دوسرے سے ملے اور شیطان نے ان کے لیے اس بدبختی کو آسان بنادیا جو ان کے لیے لکھ دی گئی تھی ،چنانچہ انہوں نے آپ کے قتل کی سازش کی اور آپ کے بارے میں کہنے لگے:” تم میں سے کون ہے جو اس چکی کو اٹھا کر چھت پر جائے اور اسے آپ کے سر پر دے مارے جس سے آپ کا سر کچلا جائے؟ “
ان میں سے بدبخت ترین شخص عمرو بن جحاش نے کہا :”یہ کام میں کروں گا۔“ سلام بن مشکم نے ان سے کہا :”یہ کام نہ کرو، اللہ کی قسم !تمہارے ارادے سے اسے ضرور آگاہ کردیا جائے گا اور یہ اس معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہےجو ہمارے اور اس کے درمیان ہوا ہے۔“ انہوں نے جو سازش کی تھی اس کے بارے میں آپ پر فورا وحی نازل ہوگئی آپ جلدی سے وہاں سے اٹھ گئے اور مدینہ کارخ کیا اور آپ کے صحابہ بھی (جو ساتھ گئے تھے) آپ سے مل گئے اور عرض کیا :”آپ وہاں سے اٹھ آئے ہیں اور ہمیں خبر بھی نہ ہوئی۔“ آپ نے انہیں اس سازش کے بارے میں آگاہ فرمایا جو یہودیوں نے آپ کے خلاف کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو پیغام بھیجوایا کہ ”مدینہ سے نکل جاؤ اور اس میں مت رہو، میں تمہیں دس دن کی مہلت دیتا ہوں، اس کے بعد میں نے جس کسی کو مدینہ میں پایا ،اس کی گردن مار دوں گا۔ “بنونضیر مدینہ منورہ میں کچھ دن ٹھہرے اور (وہاں سے نکلنے کی )تیاری کرتے رہے، عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق نے ان کو پیغام بھجوایا :”اپنے گھروں سے مت نکلو ،میرے ساتھ دو ہزار آدمی ہیں جو تمہارے ساتھ تمہارے قلعے میں داخل ہوں گے اور تمہاری خاطر اپنی جان دیں گے اور بنو قریظہ اور بنو غطفان میں سے تمہارے حلیف بھی تمہاری مدد کریں گے۔ “بنو نضیر کا سردار حی بن اخطب ،عبداللہ بن ابی کے کہنے میں آگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا :”ہم اپنے گھروں سے نہیں نکلیں گے جو چاہو کرلو۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور یہود کی طرف روانہ ہوگئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جھنڈا اٹھا رکھا تھا ۔یہودی اپنے قلعوں میں مقیم ہو کر پتھر اور تیر پھینکنے لگے ،بنوقریظہ ان سے الگ ہوگئے، عبداللہ بن ابی اور بنوغطفان میں سے ان کے حلیفوں نے بھی ان سے خیانت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کرلیا ،ان کے کھجوروں کے باغات کاٹ کر نذر آتش کردیے ۔بنونضیر نے پیغام بھیجا کہ ہم مدینہ سے نکل جائیں گے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر یہ شرط عائد کی کہ وہ اپنی اولاد کو لے کر نکل جائیں اور اسلحہ کے سوا وہ سب کچھ لے جائیں جو ان کے اونٹ اٹھاسکتے ہیں ۔اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مال اور اسلحہ کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
بنو نضیر کے اموال خالص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہارت اور مسلمانوں کے مصالح کے لیے تھے۔ آپ نے اس مال میں سے خمس نہیں نکالا تھا کیونکہ یہ مال اللہ تعالیٰ نے آپ کو دلوایا تھا ۔مسلمانوں نے گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ ان پر چڑھائی نہیں کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کو خیبر کی طرف جلاوطن کردیا ،ان میں ان کا سردار حی بن اخطب بھی شامل تھا اور ان کی اراضی اور گھروں پر قبضہ کرلیا،نیز ان کے اسلحہ کو بھی قبضہ میں لے لیا ،اسلحہ میں پچاس زرہیں، پچاس خود اور تین سو چالیس تلواریں ہاتھ لگیں۔ یہ ہے بنونضیر کے قصے کا ماحصل جیسا کہ اہل سیرت نے اسے بیان کیا ہے۔
اللہ تبارک وتعالی نے اس خبر کے ساتھ اس سورۃ مبارکہ کا افتتاح کیا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اپنے رب کی حمد وثنا کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کررہی ہے اور اس وصف سے اس کو منزہ قرار دے رہی ہے جو اس کے جلال کے لائق نہیں اور وہ اس کی عبادت کررہی ہے اور اس کی عظمت کے سامنے سرنگوں ہے کیونکہ وہ غلبے والا ہے اور ہر چیز پر غالب ہے۔ کوئی چیز اس سے بچ سکتی ہے نہ کوئی ہستی اس کی نافرمانی کرسکتی ہے ۔وہ اپنی تخلیق اور امر میں حکمت رکھنے والا ہے ،وہ کوئی چیز عبث پیدا کرتا ہے نہ کوئی ایسا امر مشروع کرتا ہے جس میں کوئی مصلحت نہ ہو اور نہ کوئی ایسا فعل سرانجام دیتا ہے جو اس کی حکمت کے تقاضے کے مطابق نہ ہو۔ یہ اس کی حکمت ہے کہ جب اہل کتاب میں سے بنو نضیر نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدعہدی کی تو اس نے ان کے مقابلے میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے گھروں اور وطن سے نکال دیا، جن وہ محبت کرتے تھے ،ان کا اپنے گھروں اور وطن سے نکالا جانا اولین جلا وطنی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں خیبر کی طرف مقدر ٹھہرائی۔
یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اس جلاوطنی کے علاوہ بھی ان کو جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ وہ جلاوطنی ہے جو خیبر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں واقع ہوئی ،پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے (اپنے عہد خلافت میں) بقیہ تمام یہودیوں کو خیبر سے نکال دیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aasmano aur zameen mein jo bhi koi cheez hai , uss ney Allah ki tasbeeh ki hai , aur wohi hai jo iqtidar ka bhi malik hai , hikmat ka bhi malik .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح تقدیس تمجید تکبیر توحید میں مشغول ہے، جیسے اور جگہ فرمان ہے (وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ ۭ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا 44) 17 ۔ الإسراء :44) یعنی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور ثناء خوانی کرتی ہے، وہ غلبہ والا اور بلند جناب والا اور عالی سرکار والا ہے اور اپنے تمام احکام و فرمان میں حکمت والا ہے۔ جس نے اہل کتاب کے کافروں یعنی قبیلہ بنو نضیر کے یہودیوں کو ان کے گھروں سے نکالا، اس کا مختصر قصہ یہ ہے کہ مدینہ میں آ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان یہودیوں سے صلح کرلی تھی کہ نہ آپ ان سے لڑیں نہ یہ آپ سے لڑیں، لیکن ان لوگوں نے اس عہد کو توڑ دیا جن کی وجہ سے اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان پر غالب کیا اور آپ نے انہیں یہاں سے نکال دیا، مسلمانوں کو کبھی اس کا خیال تک نہ تھا، خود یہ یہود بھی سمجھ رہے تھے کہ ان مضبوط قلعوں کے ہوتے ہوئے کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، لیکن جب اللہ کی پکڑ آئی یہ سب چیزیں یونہی رکھی کی رکھی رہ گئیں اور اچانک اس طرح گرفت میں آگئے کہ حیران رہ گئے اور آپ نے انہیں مدینہ سے نکلوا دیا، بعض تو شام کی زراعتی زمینوں میں چلے گئے جو حشر و نشر کی جگہ ہے اور بعض خیبر کی طرف جا نکلے، ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ اپنے اونٹوں پر لاد کر جو لے جا سکو اپنے ساتھ لے جاؤ، اس لئے انہوں نے اپنے گھروں کو توڑ پھوڑ کر جو چیزیں لے جاسکتے تھے اپنے ساتھ اٹھالیں، جو رہ گئیں وہ مسلمانوں کے ہاتھ لگیں، اس واقعہ کو بیان کر کے فرماتا ہے کہ اللہ کے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین کا انجام دیکھو اور اس سے عبرت حاصل کرو کہ کس طرح ان پر عذاب الٰہی اچانک آپڑا اور دنیا میں بھی تباہ و برباد کئے گئے اور آخرت میں بھی ذلیل و رسوا ہوگئے اور درد ناک عذاب میں جا پڑا۔ ابو داؤد میں ہے کہ ابن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو جو قبیلہ اوس و خزرج میں سے تھے کفار قریش نے خط لکھا یہ خط انہیںحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے میدان بدر سے واپس لوٹنے سے پہلے مل گیا تھا اس میں تحریر تھا کہ تم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے شہر میں ٹھہرایا ہے پس یا تو تم اس سے لڑائی کرو اور اسے نکال کر باہر کرو یا ہم تمہیں نکال دیں گے اور اپنے تمام لشکروں کو لے کر تم پر حملہ کریں گے اور تمہارے تمام لڑنے والوں کو ہم تہ تیغ کردیں گے اور تمہاری عورتوں لڑکیوں کو لونڈیاں بنالیں گے اللہ کی قسم یہ ہو کر ہی رہے گا اب تم سوچ سمجھ لو، عبداللہ بن ابی اور اس کے بت پرست ساتھیوں نے اس خط کو پا کر آپس میں مشورہ کیا اور خفیہ طور پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑائی کرنے کی تجویز بالاتفاق منظور کرلی، جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبریں معلوم ہوئیں تو آپ خود ان کے پاس گئے اور ان سے فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ قریشیوں کا خط کام کر گیا اور تم لوگ اپنی موت کے سامان اپنے ہاتھوں کرنے لگے ہو تم اپنی اولادوں اور اپنے بھائیوں کو اپنے ہاتھوں ذبح کرنا چاہتے ہو میں تمہیں پھر ایک مرتبہ موقعہ دیتا ہوں کہ سوچ سمجھ لو اور اپنے اس بد ارادے سے باز آؤ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد نے ان پر اثر کیا اور وہ لوگ اپنی اپنی جگہ چلے گئے لیکن قریش نے بدر سے فارغ ہو کر انہیں پھر ایک خط لکھا اور اسی طرح دھمکایا انہیں ان کی قوت ان کی تعداد اور ان کے مضبوط قلعے یاد دلائے مگر یہ پھر اکڑ میں آگئے اور بنو نضیر نے صاف طور پر بد عہدی پر کمر باندھ لی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس قاصد بھیجا کہ آپ تیس آدمی لے کر آیئے ہم میں سے بھی تیس ذی علم آدمی آتے ہیں، ہمارے تمہارے درمیان کی جگہ پر یہ ساٹھ آدمی ملیں اور آپس میں بات چیت ہو اگر یہ لوگ آپ کو سچا مان لیں اور ایمان لے آئیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔ اس بد عہدی کی وجہ سے دوسرے دن صبح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا لشکر لے جا کر ان کا محاصرہ کرلیا اور ان سے فرمایا کہ اب اگر تم نئے سرے سے امن وامان کا عہد و پیمان کرو تو خیر ورنہ تمہیں امن نہیں انہوں نے صاف انکار کردیا اور لڑنے مرنے پر تیار ہوگئے، چناچہ دن بھر لڑائی ہوتی رہی، دوسری صبح کو آپ بنو قریظہ کی طرف لشکر لے کر بڑھے اور بنو نضیر کو یونہی چھوڑا ان سے بھی یہی فرمایا کہ تم نئے سرے سے عہد و پیمان کرو انہوں نے منظور کرلیا اور معاہدہ ہوگیا، آپ وہاں سے فارغ ہو کر پھر بنو نضیر کے پاس آئے لڑائی شروع ہوئی، آخر یہ ہارے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں حکم دیا کہ تم مدینہ خالی کردو جو اسباب لے جانا چاہو اور اونٹوں پر لاد کرلے جاؤ چناچہ انہوں نے گھر بار کا اسباب یہاں تک کہ دروازے اور لکڑیاں بھی اونٹوں پر لادیں اور جلا وطن ہوگئے، ان کے کھجوروں کے درخت خاصتہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہوگئے اللہ تعالیٰ نے یہ آپ کو ہی دلوا دیئے، جیسے آیت ( وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّــطُ رُسُلَهٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ) 59 ۔ الحشر :6) میں ہے، لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اکثر حصہ مہاجرین کو دے دیا وہاں انصاریوں میں سے صرف دو ہی حاجت مندوں کو حصہ دیا باقی سب مہاجرین میں تقسیم کردیا۔ تقسیم کے بعد جو باقی رہ گیا تھا یہی وہ مال تھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صدقہ تھا اور جو بنو فاطمہ کے ہاتھ لگا۔ غزوہ بنو نضیر کا مختصر قصہ اور سبب یہ ہے کہ مشرکوں نے دھوکہ بازی سے صحابہ کرام کو بیئر معونہ میں شہید کردیا ان کی تعداد ستر تھی ان میں سے ایک حضرت عمرو بن امیہ ضمری (رض) بچ کر بھاگ نکلے مدینہ شریف کی طرف آئے آتے آتے موقعہ پا کر انہوں نے قبیلہ بنو عامر کے دو شخصوں کو قتل کردیا حالانکہ یہ قبیلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معاہدہ کرچکا تھا اور آپ نے انہیں امن وامان دے رکھا تھا لیکن اس کی خبر حضرت عمر و کو نہ تھی، جب یہ مدینے پہنچے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا تم نے انہیں قتل کر ڈالا اب مھے ان کے وارثوں کو دیت یعنی جرمانہ قتل ادا کرنا پڑے گا، بنو نضیر اور بنو عامر میں بھی حلف و عقد اور آپس میں مصالحت تھی اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی طرف چلے تاکہ کچھ یہ دیں کچھ آپ دیں اور بنو عامر کو راضی کرلیا جائے۔ قبیلہ بنو نضیر کی گڑھی مدینہ کے مشرق کی جانب کئی میل کے فاصلے پر تھی جب آپ یہاں پہنچے تو انہوں نے کہاں ہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں موجود ہیں ابھی ابھی جمع کر کے اپنے حصے کے مطابق آپ کی خدمت میں حاضر کرتے ہیں ادھر آپ سے ہٹ کر یہ لوگ آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اس سے بہتر موقعہ کب ہاتھ لگے گا۔ اس وقت آپ قبضے میں ہیں آؤ کام تمام کر ڈالو، چناچہ یہ مشورہ ہوا کہ جس دیوار سے آپ لگے بیٹھے ہیں اس گھر پر کوئی چڑھ جائے اور وہاں سے بڑا سا پتھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پھینک دے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دب جائیں، عمرو بن مجاش بن کعب اس کام پر مقرر ہوا اس نے آپ کی جان لینے کا بیڑا اٹھایا اور چھت پر چڑھ گیا چاہتا تھا کہ پتھر لڑھکا دے اتنے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا اور حکم دیا کہ آپ یہاں سے اٹھ کھڑے ہوں چناچہ آپ فوراً ہٹ گئے اور یہ بدباطن اپنے برے ارادے میں ناکام رہے۔ آپ کے ساتھ اس وقت چند صحابہ تھے مثلاً حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، حضرت عمر فاروق (رض) ، حضرت علی (رض) وغیرہ آپ یہاں سے فوراً مدینہ شریف کی طرف چل پڑے، ادھر جو صحابہ آپ کے ساتھ نہ تھے اور مدینہ میں آپ کے منتظر تھے انہیں دیر لگنے کے باعث خیال ہوا اور وہ آپ کو ڈھونڈنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے لیکن ایک شخص سے معلوم ہوا کہ آپ مدینہ شریف پہنچ گئے ہیں چناچہ یہ لوگ وہیں آئے پوچھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا واقعہ ہے ؟ آپ نے سارا قصہ کہہ سنایا اور حکم دیا کہ جہاد کی تیاری کرو مجاہدین نے کمریں باندھ لیں اور اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے۔ یہودیوں نے لشکروں کو دیکھ کر اپنے قلعہ کے پھاٹک بند کردیئے اور پناہ گزین ہوگئے آپ نے محاصرہ کرلیا پھر حکم دیا کہ ان کے کھجور کے درخت جو آس پاس ہیں وہ کاٹ دیئے جائیں اور جلا دیئے جائیں، اب تو یہود چیخنے لگے کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ آپ تو زمین میں فساد کرنے سے اوروں کو روکتے تھے اور فسادیوں کو برا کہتے تھے پھر یہ کیا ہونے لگا ؟ پس ادھر تو درخت کٹنے کا غم، ادھر جو کمک آنے والی تھی اس کی طرف سے مایوسی ان دونوں چیزوں نے ان یہودیوں کی کمر توڑ دی۔ کمک کا واقعہ یہ ہے کہ بنو عوف بن خزرج کا قبیلہ جس میں عبداللہ بن ابی بن سلول اور ودیعہ بن مالک، ابن ابو قوقل اور سوید اور داعس وغیرہ تھے ان لوگوں نے بنو نضیر کو کہلوا بھیجا تھا کہ تم مقابلے پر جمے رہو اور قلعہ خالی نہ کرو ہم تمہاری مدد پر ہیں تمہارا دشمن ہمارا دشمن ہے ہم تمہارے ساتھ مل کر اس سے لڑیں گے اور اگر تم نکلے تو ہم بھی نکلیں گے، لیکن اب تک ان کا یہ وعدہ پورا نہ ہوا اور انہوں نے یہودیوں کی کوئی مدد نہ کی، ادھر ان کے دل مرعوب ہوگئے تو انہوں نے درخواست کی کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری جان بخشی کیجئے ہم مدینہ چھوڑ جاتے ہیں لیکن ہم اپنا جو مال اونٹوں پر لاد کرلے جاسکیں وہ ہمیں دے دیا جائے آپ نے ان پر رحم کھا کر ان کی یہ درخواست منظور فرمالی اور یہ لوگ یہاں سے چلے گئے جاتے وقت اپنے دروازوں تک کو اکھیڑ کرلے گئے گھروں کو گرا گئے اور شام اور خیبر میں جا کر آباد ہوگئے، ان کے باقی کے اہل خاص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہوگئے کہ آپ جس طرح چاہیں انہیں خرچ کریں چناچہ آپ نے مہاجرین اولین کو یہ مال تقسیم کردیا، ہاں انصار میں سے صرف دو شخصوں کو یعنی سہل بن حنیف اور ابو دجانہ سماک بن خرشہ کو دیا اس لئے کہ یہ دونوں حضرات مساکین تھے، بنو نضیر میں سے صرف دو شخص مسلمان ہوئے جن کے مال انہی کے پاس رہے ایک تو یامین بن عمیر جو عمرو بن حجاش کے چچا کے لڑکے کا لڑکا تھا یہ عمرو وہ ہے جس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پتھر پھینکنے کا بیڑا اٹھایا تھا، دوسرے ابو سعد بن وہب ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت یامین سے فرمایا کہ اے یامین تیرے اس چچا زاد بھائی نے دیکھ تو میرے ساتھ کس قدر برا برتاؤ برتا اور مجھے نقصان پہنچانے کی کس بےباکی سے کوشش کی ؟ حضرت یامین نے ایک شخص کو کچھ دینا کر کے عمرو کو قتل کرا دیا، سورة حشر اسی واقعہ بنو نضیر کے بارے میں اتری ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جسے اس میں شک ہو کہ محشر کی زمین شام کا ملک ہے وہ اس آیت کو پڑھ لے، ان یہودیوں سے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم یہاں سے نکل جاؤ تو انہوں نے کہا ہم کہاں جائیں ؟ آپ نے فرمایا محشر کی زمین کی طرف، حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کو جلا وطن کیا تو فرمایا یہ اول حشر ہے اور ہم بھی اس کے پیچھے ہی پیچھے ہیں (ابن جریر) بنو نضیر کے ان قلعوں کا محاصرہ صرف چھ روز رہا تھا، محاصرین کو قلعہ کی مضبوطی یہودیوں کی زیادتی یکجہتی منافقین کی سازشیں اور خفیہ چالیں وغیرہ دیکھ کر ہرگز یہ یقین نہ تھا کہ اس قدر جلد یہ قلعہ خالی کردیں گے ادھر خود یہود بھی اپنے قلعہ کی مضبوطی پر نازاں تھے اور جانتے تھے کہ وہ ہر طرح محفوظ ہیں، لیکن امر اللہ ایسی جگہ سے آگیا جو ان کے خیال میں بھی نہ تھی، یہی دستور اللہ کا ہے کہ مکار اپنی مکاری میں ہی رہتے ہیں اور بیخبر ان پر عذاب الٰہی آجاتا ہے، ان کے دلوں میں رعب چھا گیا بھلا رعب کیوں نہ چھاتا محاصرہ کرنے والے وہ تھے جنہیں اللہ کی طرف سے رعب دیا گیا تھا کہ دشمن مہینہ بھر کی راہ پر ہو اور وہیں اس کا دل دہلنے لگا تھا صلوات اللہ وسلامہ علیہ۔ یہودی اپنے ہاتھوں اپنے گھروں کو برباد کرنے لگے چھتوں کی لکڑی اور دروازے لے جانے کے لئے توڑنے پھوڑنے شروع کردیئے مقاتل فرماتے ہیں مسلمانوں نے بھی ان کے گھر توڑے اس طرح کہ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے ان کے جو جو مکانات وغیرہ قبضے میں آتے گئے میدان کشادہ کرنے کے لئے انہیں ڈھاتے گئے، اسی طرح خود یہود بھی اپنے مکانوں کو آگے سے تو محفوظ کرتے جاتے تھے اور پیچھے سے نقب لگا کر نکلنے کے راستے بناتے جاتے تھے، پھر فرماتا ہے، اے آنکھوں والو ! عبرت حاصل کرو اور اس اللہ سے ڈرو جس کی لاٹھی میں آواز نہیں۔ اگر ان یہودیوں کے مقدر میں جلا وطنی نہ ہوتی تو انہیں اس سے بھی سخت عذاب دیا جاتا، یہ قتل ہوتے اور قید کر لئے جاتے وغیرہ وغیرہ، پھر آخرت کے بدترین عذاب بھی ان کے لئے تیار ہیں۔ بنو نضیر کی یہ لڑائی جنگ بدر کے چھ ماہ بعد ہوئی، مال جو اونٹوں پر لد جائیں انہیں لے جانے کی اجازت تھی مگر ہتھیار لے جانے کی اجازت نہ تھی، یہ اس قبیلے کے لوگ تھے جنہیں اس سے پہلے کبھی جلا وطنی ہوئی ہی نہ تھی بقول حضرت عروہ بن زبیر شروع سورت سے فاسقین تک آیتیں اسی واقعہ کے بیان میں نازل ہوئی ہیں۔ جلاء کے معنی قتل و فنا کے بھی کئے گئے ہیں، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں جلا وطنی کے وقت تین تین میں ایک ایک اونٹ اور ایک ایک مشک دی تھی، اس فیصلہ کے بعد بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محمد بن مسلمہ (رض) کو ان کے پاس بھیجا تھا اور انہیں اجازت دی تھی کہ تین دن میں اپنا سامان ٹھیک کر کے چلے آئیں، اس دنیوی عذاب کے ساتھ ہی اخروی عذاب کا بھی بیان ہو رہا ہے کہ وہاں بھی ان کے لئے حتمی اور لازمی طور پر جہنم کی آگ ہے۔ ان کی اس درگت کی اصلی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلاف کیا اور ایک اعتبار سے تمام نبیوں کو جھٹلایا اس لئے کہ ہر نبی نے آپ کی بابت پیش گوئی کی تھی، یہ لوگ آپ کو پوری طرح جانتے تھے بلکہ اولاد کو ان کا باپ جس قدر پہچانتا ہے اس سے بھی زیادہ یہ لوگ نبی آخری الزماں کو جانتے تھے لیکن تاہم سرکشی اور حسد کی وجہ سے مانے نہیں، بلکہ مقابلے پر تل گئے اور یہ ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے مخالفوں پر سخت عذاب نازل فرماتا ہے۔ لینہ کہتے ہیں اچھی کھجوروں کے درختوں کو عجوہ اور برفی جو کھجور کی قسمیں ہیں بقول بعض وہ لینہ میں داخل نہیں اور بعض کہتے ہیں صرف عجوہ نہیں اور بعض کہتے ہیں ہر قسم کی کھجوریں اس میں داخل ہیں جن میں بویرہ بھی داخل ہے، یہودیوں نے جو بطور طعنہ کے کہا تھا کہ کھجوروں کے درخت کٹوا کر اپنے قول کے خلاف فعل کر کے زمین میں فساد کیوں پھیلاتے ہیں ؟ یہ اس کا جواب ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ حکم رب سے اور اجازت اللہ سے دشمنان اللہ کو ذلیل و ناکام کرنے اور انہیں پست و بدنصیب کرنے کے لئے ہو رہا ہے جو درخت باقی رکھے جائیں وہ اجازت سے اور جو کاٹے جاتے ہیں وہ بھی مصلحت کے ساتھ، یہ بھی مروی ہے کہ بعض مہاجرین نے بعض کو ان درختوں کے کاٹنے سے منع کیا تھا کہ آخر کار تو یہ مسلمانوں کو بطور مال غنیمت ملنے والے ہیں پھر انہیں کیوں کاٹا جائے ؟ جس پر یہ آیت اتری کہ روکنے والے بھی حق بجانب ہیں اور کاٹنے والے بھی برحق ہیں ان کی نیت مسلمانوں کے نفع کی ہے اور ان کی نیت کافروں کو غیظ و غضب میں لانے اور انہیں ان کی شرارت کا مزہ چکھانے کی ہے، اور یہ بھی ارادہ ہے کہ اس سے جل کر وہ غصے میں پھر کر میدان میں آئیں تو پھر دو دو ہاتھ ہوجائیں اور اعداء دین کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے، صحابہ نے یہ فعل کر تو لیا پھر ڈرے کہ ایسا نہ ہو کاٹنے میں یا باقی چھوڑنے میں اللہ کی طرف سے کوئی مواخذہ ہو تو انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا اور یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی دونوں باتوں پر اجر ہے کاٹنے پر بھی اور چھوڑنے پر بھی، بعض روایتوں میں ہے کٹوائے بھی تھے اور جلوائے بھی تھے۔ بنو قریظہ کے یہودیوں پر اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احسان کیا اور ان کو مدینہ شریف میں ہی رہنے دیا لیکن بالآخر جب یہ بھی مقابلے پر آئے اور منہ کی کھائی تو ان کے لڑنے والے مرد تو قتل کئے گئے اور عورتیں، بچے اور مال مسلمانوں میں تقسیم کردیئے گئے ہاں جو لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور ایمان لائے وہ بچ رہے، پھر مدینہ سے تمام یہودیوں کو نکال دیا بنو قینقاع کو بھی جن میں سے حضرت عبداللہ بن سلام (رض) تھے اور بنو حارثہ کو بھی اور کل یہودیوں کو جلا وطن کیا۔ ان تمام واقعات کو عرب شاعروں نے اپنے اشعار میں بھی نہایت خوبی سے ادا کیا ہے، جو سیرۃ ابن اسحاق میں مروی ہیں یہ واقعہ بقول ابن اسحاق کے احد اور بیر معونہ کے بعد کا ہے اور بقول عروہ بدر کے چھ مہینے بعد کا ہے واللہ اعلم۔