الصف آية ۱
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الْاَرْضِۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ
طاہر القادری:
جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (سب) اللہ کی تسبیح کرتے ہیں، اور وہ بڑی عزت و غلبہ والا بڑی حکمت والا ہے،
English Sahih:
Whatever is in the heavens and whatever is on the earth exalts Allah, and He is the Exalted in Might, the Wise.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اُس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے، اور وہ غالب اور حکیم ہے
2 Ahmed Raza Khan
اللہ کی پاکی بولتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اور وہی عزت و حکمت والا ہے،
3 Ahmed Ali
جو مخلوقات آسمانو ں میں اور جو زمین میں ہے الله کی تسبیح کرتی ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے
4 Ahsanul Bayan
زمین و آسمان کی ہر ہرچیز اللہ تعالٰی کی پاکی بیان کرتی ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو چیز آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے سب خدا کی تنزیہ کرتی ہے اور وہ غالب حکمت والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
زمین وآسمان کی ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہے اور وہی غالب حکمت واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے اللہ کی تسبیح کرتی ہے اور وہ (سب پر) غالب ہے (اور) بڑا حکمت والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
زمین و آسمان کا ہر ذرہ اللہ کی تسبیح میں مشغول ہے اور وہی صاحبِ عزت اور صاحب هحکمت ہے
9 Tafsir Jalalayn
جو چیز آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے سب خدا کی تسبیح کرتی ہے اور وہ غالب حکمت والا ہے۔
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، زمین و آسمان میں ہر چیز اللہ کی پاکی بیان کرتی ہے یعنی اس کی تنزیہ کرتی ہے (للہ) میں لام زائدہ ہے اور من کے بجائے، ما اکثر کو غلبہ دینے کے اعتبار سے لایا گیا ہے وہ اپنے ملک میں غالب ہے اور اپنی صنعت میں حکیم ہے اے ایمان والو ! طلب جہاد میں تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ؟ جب کہ تم احد میں شکست کھا گئے اس کا کہنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سخت ناپسند ہے مقتا تمیز ہے (ان تقولوا) کبر کا فاعل ہے، کہ تم وہ بات کہو جو تم کرتے نہیں ہو، بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے (یعنی) مدد اور اکرام کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ جہاد کرتے ہیں (صفا) حال ہے بمعنی صافین گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی باہم پیوستہ ایک عمارت ہیں اور اس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! تم مجھے کیوں سات رہے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ موسیٰ آدز ہے یعنی پھولے ہوئے خصیوں والا ہے، حالانکہ ایسی بات نہیں تھی اور ان کی تکذیب کی حالانکہ تم کو (بخوبی) معلم ہے کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں قد تحقیق کے لئے ہے جملہ حالیہ ہے اور رسول محترم ہوتا ہے چناچہ جب وہ ان کو ایذا پہنچا کر جادہ حق سے ہٹ گئے تو اللہ نے ان کے قلوب کو ہدایت سے پھیر دیا اس کے مطابق جو ازل میں مقدر کردیا تھا اور اللہ تعالیٰ نافرمان قوم کو جو اس کے علم میں کافر سے ہدایت نہیں دیتا اس وقت کو یاد کرو جب عیسیٰ ابن مریم نے فرمایا اے نبی اسرائیل ! (یہاں) یا قوم نہیں فرمایا اس لئے کہ حضرت عیسیٰ کی ان میں قرابت داری نہیں تھی میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی خوشخبری سنانے والا ہوں جن کا نام احمد ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا پھر جب احمد ان کافروں کے پاس کھلی دلیلیں اور نشانیاں لے کر آئے تو کہنے لگے یہ چیز جس کو یہ لیکر آئے ہیں کھلا جادو ہے اور ایک قرأت میں ساحر ہے یعنی اس کے لانے والا جادوگر ہے اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا ؟ جس نے اللہ کی طرف شرک کی اور ولد کی نسبت کر کے بہتان لگایا اور اسکی آیات کو سحر سے متصف کیا حالانکہ وہ اسلام کی جانب بلایا جاتا ہے اللہ ظالم کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو یعنی اس کی شریعت اور براہین کو اپنے مونہوں باتوں سے بجھا دیں کہ یہ تو سحر ہے اور شعر ہے اور کہانت ہے، (لیطفو وا) ان مقدرہ کی وجہ سے منصوب ہے اور لام زائدہ ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے نور کو ظاہر کرنے والا ہے اور ایک قرأت میں (متم نورہ) اضافت کے ساتھ ہے اگرچہ کافر اس کو ناپسند کریں وہ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت دی اور دین حق دیکر بھیجا تاکہ دیگر تمام مذاہب پر یعنی تمام مخالف دینوں پر غالب کرے اگرچہ مشرک اس کو ناپسند کریں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : مکیۃ او مدنیۃ عکرمہ رحمتہ اللہ تعالیٰ قتادہ (رح) تعالیٰ اور حسن (رح) تعالیٰ کیق ول کے مطابق مکی ہے، جمہور کے قول کے مطابق مدنی ہے۔
قولہ :۔ مقتاتمییز یعنی فاعل سے منقول ہو کر تمیز ہے یعنی مقتا اصل میں فاعل ہے تقدیر عابرت یہ ہے کہ کبرت مقت قولکم، المقت اشد البغض، ناپسندیدہ
قولہ :۔ مرصوص رص سے اسم مفعول، مضبوط، سیسہ پلائی ہوئی، رص، دو چیزوں کو ملا کر جوڑنا، چمٹانا، رصاص، رانگ، سیسہ
قولہ :۔ ینصرویکرم یہ یحب کے لازم معنی کا بیان ہے، مقصد اس تفسیر سے ایک اعتراض کا جواب دینا ہے۔
اعتراض : محبۃ کے معنی میلان قلب کے ہیں یہ معنی اللہ تعالیٰ کے حق میں محال ہیں اس لئے کہ میلان قلب کے لئے قلب لازم ہے اور قلب کے لئے جسم لازم ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ جسم سے منزہ اور پاک ہیں۔
جواب : جواب کا ماحصل یہ ہے کہ محبۃ کے لازم معنی مراد ہیں یعنی میلان قلب اور رقت قلب کے لئے نصرت اور اکرام لازم ہے جو یہاں مراد ہے، لہٰذا یہاں لازم معنی مراد ہیں۔
قولہ :۔ صفا یہ یقاتلون کی ضمیر سے حال ہے، صافین کا مفعول، انفسھم محذوف ہے، ای صافین انفسھم
قولہ :۔ لانہ لم یکن لہ فیھم قرابۃ قرابت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قرابت اور نسب کا تعلق اب (والد) سے ہوتا ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا کوئی اب نہیں تھا۔
قولہ :۔ مصدقاً یہ رسول ٌ بمعنی مرسل کی ضمیر سے حال ہے اور اسی طرح مبشراً بھی۔
قولہ :۔ بانی من بعدی جملہ ہو کر رسول کی صفت ہے۔
قولہ :۔ المجی یہ جاء سے اسم مفعول ہے مجیء دراصل مجیوء تھا بروزن مضروب یاء کا ضمہ جیم کو دے دیا، دو ساکن یاء اور وائو جمع ہوئے وائو کو حذف کردیا اور جیم کو یاء کی مناسبت سے کسرہ دے دیا، مجیء ہوگیا۔
قولہ :۔ لا احد اس سے اشارہ ہے کہ ومن اظلم میں من استفہام انکاری بمعنی نفی ہے۔
قولہ :۔ ووصف آیاتہ وصف کا عطف نسبۃ الشرک پر ہونے کی وجہ سے مجرور ہے۔
قولہ :۔ وھو یدعی الا الاسلام جملہ حالیہ ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے غلبے کا بیان ہے، نیز اس حقیقت کا بیان ہے کہ تمام اشیا ء اس کے سامنے سرافگندہ ہیں اور آسمانوں اور زمین کے تمام رہنے والے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتے ہیں ،اس کی عبادت کرتے ہیں اور اس سے اپنی حوائج طلب کرتے ہیں۔ ﴿ وَہُوَ الْعَزِیْزُ﴾ ”اور وہ غالب ہے۔“ یعنی اپنے غلبے اور تسلط کے ذریعے سے تمام اشیاء پر قاہر ہے۔ ﴿الْحَکِیْمُ﴾ وہ پنے خلق وامر میں حکمت والا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aasmano aur zameen mein jo bhi koi cheez hai , uss ney Allah ki tasbeeh ki hai , aur wohi hai jo iqtidar ka bhi malik hai , hikmat ka bhi malik .
12 Tafsir Ibn Kathir
ایفائے عہد ایمان کی علامت ہے اور صف اتحاد کی علامت
پہلی آیت کی تفسیر کئی بار گذر چکی ہے اب پھر اس کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ پھر ان لوگوں کا ذکر ہوتا ہے جو کہیں اور نہ کریں، وعدہ کریں اور وفا نہ کریں، بعض علمائ، سلف نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ وعدہ کا پورا کرنا مطلقاً واجب ہے جس سے وعدہ کیا ہے خواہ وہ تاکید کرے یا نہ کرے، ان کی دلیل بخاری و مسلم کی یہ حدیث بھی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا منافق کی تین عادتیں ہوتی ہیں (1) جب وعدہ کرے خلاف کرے (2) جب بات کرے جھوٹ بولے (3) جب امانت دیا جائے خیانت کے، دوسری صحیح حدیث میں ہے چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چار میں سے ایک ہو اس میں ایک خصلت نفاق کی ہے جب تک اسے نہ چھوڑے۔ ان میں ایک عادت وعدہ خلافی کی ہے، شرح صحیح بخاری کی ابتدا میں ہم نے ان دونوں احادیث کی پوری شرح کردی ہے۔ فالحمد اللہ۔ اسی لئے یہاں بھی اس کی تاکید میں فرمایا گیا اللہ تعلیٰ کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو، مسند احمد اور ابو داؤد میں حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا کھیل کود کے لئے جانے لگا تو میری والدہ نے مجھے آواز دے کر کہا ادھر آ کچھ دوں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کچھ دینا بھی چاہتی ہو ؟ میری والدہ نے کہا ہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھجوریں دوں گی آپ نے فرمایا پھر تو خیر ورنہ یاد رکھو کچھ نہ دینے کا ارادہ ہوتا اور یوں کہتیں تو تم پر ایک جھوٹ لکھا جاتا، حضرت امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ جب وعدے کے ساتھ وعدہ پورا کرنے کی تاکید کا تعلق ہو تو اس وعدے کو فوا کرنا واجب ہوجاتا ہے، مثلاً کسی شخص نے کسی سے کہہ دیا کہ تو نکاح کرلے اور اتنا اتنا ہر روز میں تجھے دیتا رہوں گا اس نے نکاح کرلیا تو جب نکاح باقی ہے اس شخص پر واجب ہے کہ اسے اپنے وعدے کے مطابق دیتا رہے اس لئے کہ اس میں آدمی کے حق کا تعلق ثابت ہوگیا جس پر اس سے باز پرس سختی کے ساتھ ہوسکتی ہے۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ایفاء عہد مطلق واجب ہی نہیں، اس آیت کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ جب لوگوں نے جہاد کی فرضیت کی خواہش کی اور فرض ہوگیا تو اب بعض لوگ دیکھنے لگے جس پر یہ آیت اتری، جیسے اور جگہ ہے۔ الخ یعنی کیا تو نے انہیں نہ دیکھا جن سے کہا گیا تم اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز و زکوٰۃ کا خیال رکھو، پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں ایسے لوگ بھی نکل آئے جو لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرتے ہیں بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ کہنے لگے پروردگار تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا ؟ کیوں ہمیں ایک وقت مقرر تک اس حکم کو موخر نہ کیا جو قریب ہی تو ہے۔ تو کہہ دے کہ اسباب دنیا تو بہت ہی کم ہیں ہاں پرہیزگاروں کے لئے آخرت بہترین چیز ہے۔ تم پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا تم کہیں بھی ہو تمہیں موت ڈھونڈ نکالے گی گو تم مضبوط محلوں میں ہو، اور جگہ ہے الخ، یعنی مسلمان کہتے ہیں کیوں کوئی سورت نہیں اتاری جاتی ؟ پھر جب کوئی محکمہ سورت اتاری جاتی ہے اور اس میں لڑائی کا ذکر ہوتا ہے تو دیکھے گا کہ بیمار دل والے تیری طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے وہ دیکھتا ہے جس پر موت کی بیہوشی ہو، اسی طرح کی یہ آیت بھی ہے، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ بعض مومنوں نے جہاد کی فرضیت سے پہلے کا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اللہ تعالیٰ ہمیں وہ عمل بتاتا جو اسے سب سے زیادہ پسند ہوتا تاکہ ہم اس پر عامل ہوتے پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر کی کہ سب سے زیادہ پسندیدہ عمل میرے نزدیک ایمان ہے جو شک شبہ سے پاک ہو اور بےایمانوں سے جہاد کرنا ہے تو بعض مسلمانوں پر یہ گراں گزرا جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ وہ باتیں زبان سے کیوں نکالتے ہو جنہیں کرتے نہیں، امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں، حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں کہ مسلمانوں نے کہا اگر ہمیں معلوم ہوجاتا کہ کس عمل کو اللہ تعالیٰ بہت پسند فرماتا ہے تو ہم ضرور وہ عمل بجا لاتے اس پر اللہ عزوجل نے وہ عمل بتایا کہ میری راہ میں صفیں باندھ کر مضبوطی کے ساتھ جم کر جہاد کرنے والوں کو میں بہت پسند فرماتا ہوں پھر احد والے دن ان کی آزمائش ہوگئی اور لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے جس پر یہ فرمان الیشان اترا کہ کیوں وہ کہتے ہو جو کہ نہیں دکھاتے ؟ بعض حضرات فرماتے ہیں یہ ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو کہیں ہم نے جہاد کیا اور حالانکہ جہاد نہ کیا ہو منہ سے کہیں کہ ہم زخمی ہوئے اور زخمی نہ ہوئے ہوں کہیں کہ ہم پر مار پڑی اور مار نہ پڑی ہو منہ سے کہیں کہ ہم قید کئے گئے اور قید نہ کئے گئے ہوں، ابن زید فرماتے ہیں اس سے مراد منافق ہیں کہ مسلمانوں کی مدد کا وعدہ کرتے لیکن وقت پر پورا نہ کرتے، زید بن اسلم جہاد مراد لیتے ہیں، حضرت مجاہد فرماتے ہیں ان کہنے والوں میں حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری (رض) بھی تھے جب آیت اتری اور معلوم ہوا کہ جہاد سب سے زیادہ عمدہ عمل ہے تو آپ نے عہد کرلیا کہ میں تو اب سے لے کر مرتے دم تک اللہ کی راہ میں اپنے آپ کو وقف کرچکا چناچہ اسی پر قائم بھی رہے یہاں تک کہ فی سبیل اللہ شہید ہوگئے، حضرت ابو موسیٰ (رض) نے بصرہ کے قاریوں کو ایک مرتبہ بلوایا تو تین سو قاری ان کے پاس آئے جن میں سے ہر ایک قاری قرآن تھا۔ پھر فرمایا تم اہل بصرہ کے قاری اور ان میں سے بہترین لوگ ہو سنو ہم ایک سورت پڑھتے تھے جو مسبحات کی سورتوں کے مشابہ تھی پھر ہم اسے بھلا دیئے گئے ہاں مجھے اس میں سے اتنا یاد رہ گیا۔ (آیت) یعنی اے ایمان والو وہ کیوں کہو جو نہ کرو پھر وہ لکھا جائے اور تمہاری گردونوں میں بطور گواہ کے لٹکا دیا جائے پھر قیامت کے دن اس کی بابت باز پرس ہو۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کے محبوب وہ لوگ ہیں جو صفیں باندھ کر دشمنان اللہ کے مقابلے میں ڈٹ جاتے ہیں تاکہ اللہ کا بول بالا ہو اسلام کی حفاظت ہو اور دین کا غلبہ ہو، مسند میں ہے تین قسم کے لوگوں کی تین حالتیں ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ تبارک و تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور ہنس دیتا ہے رات کو اٹھ کر تہجد پڑھنے والے نماز کے لئے صفیں باندھنے والے، میدان جنگ میں صف بندی کرنے والے، ابن ابی حاتم میں ہے حضرت مطرف فرماتے ہیں مجھے یہ روایت حضرت ابوذر (رض) ایک حدیث پہنچی تھی میرے جی میں تھا کہ خود حضرت ابوذر سے مل کر یہ حدیث آمنے سامنے سن لوں چناچہ ایک مرتبہ جا کر آپ سے ملاقات کی اور واقعہ بیان کیا آپ نے خوشنودی کا اظہار فرما کر کہا وہ حدیث کیا ہے ؟ میں نے کہا یہ کہ اللہ تعالیٰ تین شخصوں کو دشمن جانتا ہے اور تین کو دوست رکھتا ہے فرمایا ہاں میں نے اپنے خلیل حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھوٹ نہیں بول سکتا فی الواقع آپ نے ہم سے یہ حدیث بیان فرمائی ہے، میں نے پوچھا وہ تین کون ہیں ؟ جنہیں اللہ تعالیٰ محبوب جانتا ہے فرمایا ایک تو وہ جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے خالص خوشنودی اللہ کی نیت سے نکلے دشمن سے جب مقابلہ ہو تو دلیرانہ جہاد کرے تم اس کی تصدیق خود کتاب اللہ میں بھی دیکھ سکتے ہو پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی اور پھر پوری حدیث بیان کی، ابن ابی حاتم میں یہ حدیث اسی طرح ان ہی الفاظ میں اتنی ہی آئی ہے ہاں ترمذی اور نسائی میں پوری حدیث ہے اور ہم نے بھی اسے دوسری جگہ مکمل وارد کیا ہے، فالحمد اللہ۔ حضرت کعب احبار سے ابن ابی حاتم میں منقول ہے اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرماتا ہے آپ میرے بندے متوکل اور پسندیدہ ہیں بدخلق بد زبان بازاروں میں شور و غل کرنے والے نہیں برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے بلکہ درگذر کر کے معاف کردیتے ہیں۔ آپ کی جائے پیدائش مکہ ہے، جائے ہجرت طابہ ہے، ملک آپ کا شام ہے، امت آپ کی بکثرت حمد اللہ کرنے والی ہے، ہر حال میں اور ہر منزل میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کرتے رہتے ہیں۔ صبح کے وقت ذکر اللہ میں ان کی پست آوازیں برابر سنائی دیتی ہیں جیسے شہد کی مکھیوں کی بھن بھناہٹ اپنے ناخن اور مچھیں کترتے ہیں اور اپنے تہمد اپنی آدھی پنڈلیوں تک باندھتے ہیں ان کی صفیں میدان جہاد میں ایسی ہوتی ہیں جیسی نماز میں، پھر حضرت کعب نے اسی آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا سورج کی نگہبانی کرنے والے جہاں وقت نماز آجائے نماز ادا کرلینے والے گو سواری پر ہوں، حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں جب تک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ بنوا لیتے دشمن سے لڑائی شروع نہیں کرتے تھے، پس صف بندی کی تعلیم مسلمانوں کو اللہ کی دی ہوئی ہے ایک دوسرے سے ملے کھڑے رہیں، ثابت قدم رہیں اور ٹلیں نہیں تم نہیں دیکھتے کہ عمارت کا بنانے والا نہیں چاہتا کہ اس کی عمارت میں کہیں اونچ نیچ ہو ٹیڑھی ترچھی ہو یا سوراخ رہ جائیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کے امر میں اختلاف ہو میدان جنگ میں اور بوقت نماز مسلمانوں کی صف بندی خود اس نے کی ہے پس تم اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو جو احکام بجا لائے گا یہ اس کے لئے عصمت اور بچاؤ ثابت ہے۔ ابو بحریہ فرماتے ہیں مسلمان گھوڑوں پر سوار ہو کر لڑنا پسند نہیں کرتے تھے انہیں تو یہ اچھا معلوم ہوتا تھا کہ زمین پر پیدل صفیں بنا کر آمنے سامنے کا مقابلہ کریں، آپ فرماتے ہیں جب تم مجھے دیکھو کہ میں نے صف میں سے ادھر ادھر توجہ کی تو تم جو چاہو ملامت کرنا اور برا بھلا کہنا۔