الحاقہ آية ۱
اَلْحَـاۤقَّةُ ۙ
طاہر القادری:
یقیناً واقع ہونے والی گھڑی،
English Sahih:
The Inevitable Reality –
1 Abul A'ala Maududi
ہونی شدنی!
2 Ahmed Raza Khan
وہ حق ہونے والی
3 Ahmed Ali
قیامت
4 Ahsanul Bayan
ثابت ہونے والی (١)
١۔١ یہ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اس میں امر الٰہی ثابت ہوگا اور خود یہ بھی بہر صورت وقوع پذیر ہونے والی ہے، اس لئے اسے الْحَاَقَّۃُ سے تعبیر فرمایا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
سچ مچ ہونے والی
6 Muhammad Junagarhi
ﺛابت ہونے والی
7 Muhammad Hussain Najafi
برحق واقع ہو نے والی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یقینا پیش آنے والی قیامت
9 Tafsir Jalalayn
سچ مچ ہونیوالی
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، برپا ہونے والی، قیامت، کہ جس میں وہ چیز ثابت ہوگی جس کا انکار کیا گیا ہے، یعنی بعث اور حساب اور جزاء یا ان (مذکورہ) چیزوں کو ظاہر کرنے والی، کیسی کچھ ہے وہ برپا ہونے والی ؟ یہ اس کی عظمت شان کا بیان ہے (ما الحاقۃ) مبتداو خبر ہے اور مبتدا خبر سے مل کر اول حاقہ کی خبر ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا خبر کہ کیسی کچھ ہے وہ برپا ہونے والی چیز ؟ یہ بھی اس کی عظمت شان کی زیادتی کا بیان ہے (ما اولی (یعنی ما ادراک) میں ما مبتداء ہے اور اس کا مابعد (یعنی ادراک) اس کی خبر ہے ثمود اور عاد نے کھڑکھڑا دینے والی قیامت کو جھٹلایا قیامت کو قارعہ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ قلوب کو اپنی ہولناکیوں کی وجہ سے کھڑاکھڑا دینے والی ہے سو ثمود تو ایک زور دار آواز سے ہلاک کردیئے گئے، یعنی ایسی آواز سے جو بےحد شدید تھی، اور عاد تو وہ ایک شدید آواز والی تیز و تند ہوا سے جو قوم عاد پر چلی اور ان کی قوت و شدت کے باوجود ہلاک کردیئے گئے، جس کو ان پر اللہ نے سلسل سات راتوں اور آٹھ دنوں تک قہر کے ساتھ مسلط کردیا اس کی ابتداء چہار شنبہ کی صبح سے ہوئی جب کہ ماہ شوال کے ختم ہونے میں آٹھ روز باقی تھے، اور یہ واقعہ موسم سرما کے آخر میں پیش آیا (تسلسل میں) داغنے والے کے فعل کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، مرض پر عمل کی (داغنے کا عمل) کے بار بار کرنے کی وجہ سے تاآنکہ مادہ مرض ختم ہوجائے تو تم، لوگوں کو دیکھتے کہ وہ زمین پر ہلاک ہو کر گری ہوئی کھوکھلی کھجور کے تنے ہیں سو کیا تم کو ان میں سے کوئی بچا ہوا نظر آتا ہے ؟ باقیۃ، نفس مقدر کی صفت ہے یا، ت، مبالغہ کے لئے یعنی باقیۃ بمعنی باق، نہیں، اور فرعون نے اور اس کے متبعین نے، اور ایک قرأت میں قبلہٗ کے بجائے قبلہ ہے قاف کے فتحہ اور باء کے سکون کے ساتھ، یعنی وہ لوگ جو کافر امتوں میں سے پہلے گزر چکے ہیں، اور الٹی ہوئی بستی کے خطاکاروں نے اور وہ قوم لوط کی بستی والے تھے نے بھی خطائیں کیں اور اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی یعنی لوط (علیہ السلام) وغیرہ کی، تو ہم نے انہیں (بھی) زبردست گرفت میں لے لیا رابیۃ شدت میں دوسروں سے بڑھی ہوئی، جب پانی میں طغیانی آگئی یعنی طوفان کے زمانہ میں جب پانی ہر چیز پر چڑھ گیا، تو ہم نے تم کو یعنی تمہارے آباء کو، جب تم ان کی پشتوں میں تھے، کشتی میں جس کو نوح (علیہ السلام) نے بنایا تھا، چڑھا لیا اور نوح (علیہ السلام) کو اور جو کشتی میں ان کے ساتھ سوار تھے بچا لیا، اور باقی غرق ہوگئے، تاکہ ہم اس فعل کو جو کہ مومنین کو نجات دینا اور کافروں کو ہلاک کرنا ہے تمہارے لئے نصیحت بنادیں اور تاکہ یاد رکھنے والے کان جب اس کو سنیں تو یاد رکھیں پس جب صور میں مخلوق کے درمیان فیصلے کے لئے ایک پھونک پھونکی جائے گی اور یہ نفحہ ٔ ثانیہ ہوگا اور زمین اور پہاڑ اٹھا لئے جائیں گے اور ایک ہی چاٹ میں ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے پس اس دن واقع ہونے والی واقع ہوجائے گی (یعنی) قیامت برپا ہوجائے گی، اور آسمان پھٹ پڑے گا اور اس دن وہ بالکل بودا ہوجائے گا، اور فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے (یعنی) آسمان کے کناروں پر اور اس دن تیرے رب کے عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے یعنی ملائکہ مذکورین (آٹھ ہوں گے) یا ملائکہ کی آٹھ صفیں ہوں گی اس دن تم سب حساب کیلئے پیش کئے جائو گے اور تمہارا کوئی راز پوشیدہ نہیں رہے گا یخفی تا اور یاء کے ساتھ ہے سو جس شخص کا اعمال نامہ اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ اس سے خوش ہو کر اپنے اہل سے مخاطب ہو کر کہے گا لو میرا اعمال نامہ پڑھو ھائوم اور اقراء وا نے کتابیۃ میں تنازع کیا، مجھے تو یقین تھا کہ مجھے میرا حساب ملنا ہے پس وہ ایک پسندیدہ عیش میں اور بلند وبالا جنت میں ہوگا، جس کے پھل قریب ہوں گے جن کو کھڑے ہونے والا اور بیٹھنے والا اور لیٹنے والا حاصل کرسکے گا، اور اس سے کہا جائے گا، مزے سے کھائو، پیو اپنے ان اعمال کے بدلے میں جو تم نے گزشتہ زمانہ میں دنیا میں کئے، لیکن جسے اس کے اعمال کی کتاب اس کے بائیں ہاتھ میں دی جائے گی تو وہ کہے گا : کاش مجھے میری کتاب دی ہی نہ جاتی ! یا تنبیہ کے لئے ہے اور کاش میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیسا ہے کاش دنیا ہی میں موت میرا کام تمام کردیتی یعنی موت میری حیات کو (اس طرح) منقطع کردیتی کہ دوبارہ نہ اٹھایا جاتا، میرے مال نے بھی مجھے کچھ فائدہ نہ دیا اور میرا جاہ یعنی قوت اور حجت بھی جاتا رہا کتابیہ اور حسابیہ اور مالیہ اور سلطانیہ میں ھا سکوت کے ساتھ ہے حالت وقف اور وصل میں، مصحف امام اور نقل کے اتباع میں باقی رہتی ہے اور ان میں سے بعض نے حالت وصل میں حذف کیا ہے (حکم ہوگا) اسے پکڑ لو یہ جہنم کے نگرانوں کو خطاب ہے پھر اس کو طوق پہنا دو یعنی اس کے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ طوق میں جکڑ دو پھر دوزخ کی جلتی ہوئی آگ میں اس کو داخل کردو، پھر سے ایسی زنجیروں میں کہ جس کی درازی فرشتوں کے ہاتھ سے ستر ہاتھ ہے یعنی آگ میں داخل کرنے کے بعد اس کو جکڑ دو ، اور فاء ظرف مقدم سے فعل کے تعلق کو مانع ہے، بیشک یہ اللہ عظمت والے پر ایمان نہ رکھتا تھا اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا تھا، پس آج اس کا نہ کوئی عزیز ہے کہ یہ اس سے فائدہ اٹھائے اور نہ پیپ کے سوا کوئی کھانا، یعنی اہل دوزخ کا پیپ یا جہنم کا درخت (تھوہڑ) جسے گنہگاروں کافروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : الحاقۃ، القیامۃ وہ ساعت جس کا وقوع واجب و لازم ہے، یہ حق الشی سے اسم فاعل ہے۔
قولہ : الحاقۃ، القیامۃ موصوف محذوف کی صفت ہے جیسا کہ مفسر علام نے اشارہ کیا ہے۔
قولہ : ما الحاقۃ استفہام کے طریقہ پر بیان کرنے کا مقصد اس کی عظمت شان کو ظاہر کرنا ہے۔
قولہ : الحاقۃ ما الحاقۃ، الحاقۃ مبتداء اول ہے اور ما مبتداء ثانی اور ثانی الحاقۃ مبتدا ثانی کی خبر ہے مبتداء ثانی اپنی خبر سے مل کر مبتداء اول کی خبر ہے۔
سوال : خبر جب جملہ ہوتی ہے تو عائد کا ہونا ضروری ہوتا ہے ؟
جواب : اگر مبتداء کا بلفظہ اعادہ کردیا جائے تو یہ عائد کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔
قولہ : وما ادراک، ما مبتداء ہے اور اس کا ما بعد یعنی ادراک اپنے مفعول کا اور ما الحاقۃ باء مبتداء خبر جملہ ہو کر مفعول ثانی ہے۔
قولہ : لانھا تقرع القلوب یہ قیامت کو القارعہ کہنے کی وجہ تسمیہ کا بیان ہے۔
قولہ : حسوما اس کے دو معنی ہیں (١) جڑ سے کاٹ ڈالنا (٢) لگاتار، مسلسل، یہ معنی داغنے کے تسلسل کے اعتبار سے ہوں گے، یعنی جس طرح داغنے والا مادہ مرض ختم ہونے تک داغتا رہتا ہے، اسی طرح وہ ہوا مسلسل چلتی رہی، حاسم داغنے والا۔
قولہ : ال کی، کوی یکوی (ض) کیا، داغنا المکواۃ داغنے کا آلہ، اس کو اردو میں کا ویاں کہتے ہیں۔
قولہ : الموتفکات اسم فاعل جمع مونث، واحد موتفکۃ (افتعال) ابتفاک مصدر ہے مادہ افک الٹی ہونے والی، پلٹنے والی، مراد حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستیاں ہیں جو بحر مردار کے ساحل پر آباد تھیں، اور ان کی تخت گاہ (پایہ تخت) سذوم یا سندوم یا سدوم تھا۔ (لغات القرآن)
قولہ : ذات الخطاء اس اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ الخاطئہ اسم فاعل نسبت کے لئے ہے جیسا کہ لابن (دودھ بیچنے والا) تامر (تمر بیچنے والا) اس لئے کہ فعل خطا کار نہیں ہوتا بلکہ صاحب فعل خطاکار ہوتا ہے۔
قولہ : رابیۃ واحد مؤ نث، بمعنی زائدہ، ربو سے ماخوذ ہے جس کے معنی بڑھنے اور زائد ہونے کے ہیں اسی سے ربوۃ ٹیلے کو کہتے ہیں۔
قولہ : ھذہ الفعلۃ یہ نجعلھا کی ضمیر کے مرجع کا بیان ہے فعلۃ ای صنعۃ اور بعض حضرات نے ھا ضمیر کا مرجع سفینۃ کو قرار دیا ہے۔
قولہ : کتابیہ یہ اصل میں کتابی ہے، اس پر ھاء سکتہ داخل ہوگئی، تاکہ یاء کا فتحہ ظاہر ہوجائے۔
قولہ : تنازع فیہ ھاوم اور واقرء وا، کتابیۃ میں دونوں فعلوں نے نزاع کیا، فعل ثانی کو عمل دے دیا اور اول کے لئے ضمیر لے آئے، مگر فضلہ ہونے کی وجہ سے حذف کردیا۔
قولہ : مرضیۃ، راضیۃ کی تفسیر مرضیۃ سے کر کے اشارہ کردیا کہ اسم فاعل بمعنی اسم مفعول ہے۔
قولہ : ولم تمنع الفاء اپنے مدخول اسلکوہ فعل کے تعلق کو ظرف مقدم یعنی فی سلسلۃ سے مانع نہیں ہے، اہتمام و تخصیص کے پیش نظر ظرف کو مقدم کردیا گیا ہے، اصل میں فاسلکوہ فی سلسلۃ ذرعھا سبعون ذراعا ہے جیسا کہ ثم الجحیم صلوۃ میں جحیم کو اختصاصاً مقدم کردیا گیا ہے۔
تفسیر و تشریح
الحاقۃ ما الحاقۃ اس سورت میں قیامت کی ہولناک مناظر کا بیان ہے اور کفار و مومنین کی جزاء و سزا کا ذکر ہے الحاقۃ قیامت کے ناموں میں سے ایک ہے، قرآن کریم میں قیامت کے بہت سے نام آئے ہیں، تین نام اس سورت میں آئے ہیں الحاقہ، القارعہ، الواقعہ، حاقہ کے معنی ثابت شدہ اور ثابت کرنے والی، کے ہی، قیامت خود بھی ثابت اور برحق ہے اور امر الٰہی کو ثابت کرنے والی بھی، یہاں سوال کی صورت میں الحاقہ کو ذکر کرنے کا مقصد اس کی ہولناکی اور حیرت انگیزی بیان کرنا ہے، قارعہ کے معنی کھڑکھڑا دینے والی کے ہیں، قیامت کے لئے قارعہ کا لفظ اس لئے بولا گیا ہے کہ وہ تمام مخلوق کو مضطرب کرنے والی اور زمین و آسمان کو منتشر کرنے والی ہوگی، طاغیہ یہ طغیان سے مشتق ہے جس کے معنی حد سے نکلنے کے ہیں مراد ایسی آواز ہے کہ دنیا کی تمام آوازوں سے بڑھی ہوئی ہو، قوم ثمود سخت آواز کے عذاب سے ہلاک کی گئی تھی صر صر اس تیز و تند ہوا کو کہتے ہیں کہ جس میں پالا بھی ہو بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آندھی بدھ کے روز صبح سے شروع ہو کر، دوسرے بدھ کی شام تک رہی، اس طرح آٹھ دن سات راتیں ہوئی، حسوما، حاسم کی جمع ہے جس کے معنی قطع کرنے، جڑ سے اکھاڑ پھینکنے والے کے ہیں اور فاسد مادہ کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے داغنے کا عمل چونکہ بار بار کیا جاتا ہے، اسی مناسبت سے حسوما کے معنی مسلسل اور پے در پے کے کردیئے جاتے ہیں، نفخۃ واحدۃ مطلب یہ ہے کہ یکبارگی، اور اچانک صور کی آواز شروع ہوجائے گی اور یہ آواز مسلسل رہے گی یہاں تک کہ اس آواز سے سب مرجائیں گے، قرآن و سنت کی نصوص سے قیامت میں صور کے دو نفخے ہونا ثابت ہے پہلے نفخہ کو صعق کہا جاتا ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں فصعق من فی السموات و من فی الارض کہا گیا ہے، دوسرے نفخہ کو نفخہ بعث کہا گیا ہے، بعض روایتوں میں جو دو نفخوں سے پہلے ایک تیسرے نفخہ کا ذکر ہے جس کو نفخہ فزع کہا گیا ہے، تو مجموعہ روایات و نصوص میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلا نفخہ ہی ہے اس کو ابتداء نفخہ فزع کہا گیا ہے اور انتہا میں وہی نفخہ صعق ہوجائے گا۔ (معارف، مظہری)
10 Tafsir as-Saadi
﴿ لْحَاقَّةُ ﴾ یہ قیامت کے ناموں میں سے ہے، کیونکہ یہ ثابت اور واجب ہے اور مخلوق پر نازل ہوگی، اس میں تمام امور کے حقائق اور سینوں کے بھید ظاہر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان“ ﴿ لْحَاقَّةُ مَا الْحَاقَّةُ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحَاقَّةُ ﴾ کے تکرار کے ذریعے سے اس کی عظمت شان اور تفخیم بیان فرمائی ہے۔ اس کی شان بہت عظیم ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے احوال کے نمونے کا ذکر فرمایا جو دنیا میں موجود ہے جس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ وہ سخت عقوبتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے سرکش قوموں پر نازل فرمائیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ كَذَّبَتْ ثَمُودُ ﴾ثمود ایک مشہور قبیلہ ہے جو حجر کے علاقے میں آباد تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف اپنے رسول حضرت صالح علیہ السلام کو مبعوث کیا جو ان کو شرک سے روکتے تھے اور ان کو توحید کا حکم دیتے تھے، پس انہوں نے حضرت صالح کی دعوت کو ٹھکرا دیا ، ان کو جھٹلایا اور قیامت کے روز کو جھٹلایا جس کے بارے میں حضرت صالح علیہ السلام نے خبر دی تھی اور وہ یہی کھڑکھڑانے والی ہے جو مخلوق کو اپنی ہولناکیوں سے ہلاک کرڈالے گی۔ اسی طرح عاد اولیٰ کو ہلاک کرڈالا جو حضرموت کے باشندے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف اپنے رسول ہود علیہ السلام کو بھیجا جو انہیں اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دیتے تھے تو انہوں نے حضرت ہود علیہ السلام کی تکذیب کی اور قیامت کے متعلق حضرت ہود علیہ السلام نے جو خبر دی تھی اس کا انکار کیا ۔پس اللہ تعالیٰ نے فوری عذاب کے ذریعے سے دونوں قوموں کو ہلاک کر ڈالا ﴿فَأَمَّا ثَمُودُ فَأُهْلِكُوا بِالطَّاغِيَةِ ﴾ ” پس ثمود تو کڑک سے ہلاک کردیے گئے ۔“اور وہ ایک زبردست اور انتہائی کرخت چنگھاڑ تھی جس نے ان کے دلوں کو پارہ پارہ کردیا اور ان کی روحیں پرواز کرگئیں اور وہ مردہ پڑے رہ گئے کہ ان کی رہائش گاہوں اور ان کی لاشوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔
11 Mufti Taqi Usmani
woh haqeeqat jo ho ker rahey gi !
12 Tafsir Ibn Kathir
حاقہ
قیامت کا ایک نام ہے اور اس نام کی وجہ یہ ہے کہ وعدے وعید کی عملی تعبیر اور حقیقت کا دن وہی ہے، اسی لئے اس دن کی ہولناکی بیان کرتے ہوئے فرمایا تم اس حاقہ کی صحیح کیفیت سے بیخبر ہو، پھر ان لوگوں کا ذکر فرمایا جن لوگوں نے اسے جھٹلایا اور خمیازہ اٹھایا تھا تو فرمایا ثمودیوں کو دیکھو ایک طرف سے فرشتے کے دہاڑے اور کلیجوں کو پاش پاش کردینے والی آواز آتی ہے تو دوسری جانب سے زمین میں غضبناک بھونچال آتا ہے اور سب تہ وبالا ہوجاتے ہیں، پس بقول حضرت قتادہ (طاغیہ) کے معنی چنگھاڑ کے ہیں، اور مجاہد فرماتے ہیں اسے مراد گناہ ہیں یعنی وہ اپنے گناہوں کے باعث برباد کردیئے گئے، ربیع بن انس اور ابن زید کا قول ہے کہ اس سے مراد ان کی سرکشی ہے۔ ابن زید نے اس کی شہادت میں یہ آیت پڑھی ( كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىهَآ 11۽) 91 ۔ الشمس :11) یعنی ثمودیوں نے اپنی سرکشی کے باعث جھٹلایا، یعنی اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں اور قوم عاد کی ٹھنڈی ہواؤں کے تیز جھونکوں سے دل چھید دیئے اور وہ نیست و نابود کردیئے گئے، یہ آندھیاں جو خیر و برکت سے خالی ہیں اور فرشتوں کے ہاتھوں سے نکلتی تھیں برابر پے درے پے لگاتار سات راتیں اور آٹھ دن تک چلتی رہیں، ان دنوں میں ان کے لئے سوائے نحوست و بربادی کے اور کوئی بھلائی نہ تھی اور جیسے اور جگہ ہے آیت ( فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا صَرْصَرًا فِيْٓ اَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيْقَهُمْ عَذَابَ الْخِــزْيِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۭ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَخْزٰى وَهُمْ لَا يُنْصَرُوْنَ 16) 41 ۔ فصلت :16) حضرت ربیع فرماتے ہیں جمعہ کے دن سے یہ شروع ہوئی تھیں بعض کہتے ہیں بدھ کے دن، ان ہواؤں کو عرب اعجاز اس لئے بھی کہتے ہیں کہ قرآن نے فرمایا ہے قوم عاد کی حالت اعجاز یعنی کھجوروں کے کھوکھلے تنوں جیسی ہوگئی، دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ عموماً یہ ہوائیں جاڑوں کے آخر میں چلا کرتی ہیں اور عجز کہتے ہیں آخر کو، اور یہ وجہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ قوم عاد کی ایک بڑھیا ایک غار میں گھس گئی تھی جو ان ہواؤں سے آٹھویں روز وہیں تباہ ہوگئی اور بڑھیا کو عربی میں عجوز کہتے ہیں، واللہ اعلم، (خاویہ) کے معنی ہیں خراب، گلا، سڑا، کھوکھلا، مطلب یہ ہے کہ ہواؤں نے انہیں اٹھا اٹھا کر الٹا ان کے سر پھٹ گئے سروں کا چورا چورا ہوگیا اور باقی جسم ایسا رہ گیا جیسے کھجور کے درختوں کا پتوں والا سرا کاٹ کر صرف تنا رہنے دیا ہو، بخاری مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں صبا کے ساتھ میری مدد کی گئی یعنی مشرقی ہوا کے ساتھ اور عادی ہلاک کئے گئے دبور سے یعنی مغربی ہوا سے، ابن ابی حاتم میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں عادیوں کو ہلاک کرنے کے لئے ہواؤں کے خزانے میں سے صرف انگوٹھی کے برابر جگہ کشادہ کی گئی تھی جس سے ہوائیں نکلیں اور پہلے وہ گاؤں اور دیہات والوں پر آئی ان تمام مردوں عورتوں کو چھوٹے بڑوں کو ان کے مالوں اور جانوروں سمیت لے کر آسمان و زمین کے درمیان معلق کردیا، شہریوں کو بوجہ بہت بلندی اور کافی اونچائی کے یہ معلوم ہونے لگا کہ یہ سیاہ رنگ بادل چڑھا ہوا ہے خوش ہونے لگے کہ گرمی کے باعث جو ہماری بری حالت ہو رہی ہے اب پانی برس جائے گا اتنے میں ہواؤں کو حکم ہوا اور اس نے ان تمام کو ان شہریوں پر پھینک دیا یہ اور وہ سب ہلاک ہوگئے، حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس ہوا کے پر اور دم تھی۔ پھر فرماتا ہے بتاؤ کہ ان میں سے یا ان کی نسل میں سے کسی ایک کا نشان بھی تم دیکھ رہے ہو ؟ یعنی سب کے سب تباو و برباد کردیئے گئے کوئی نام لینے والا پانی دینے والا بھی باقی نہ رہا۔ پھر فرمایا فرعون اور اس سے اگلے خطا کار، اور رسول کے نافرمان کا یہی انجام ہوا، (قَبلَہ) کی دوسری قرأت (قِبَلَہ) بھی ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ فرعون اور اس کے پاس اور ساتھ کے لوگ یعنی فرعونی، قبطی، کفار، (مؤتفکات) سے مراد بھی پیغمبروں کی جھٹلانے والی اگلی امتیں ہیں، (خاطہ) سے مطلب معصیت اور خطائیں ہیں، پس فرمایا ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے زمانے کے رسول کی تکذیب کی، جیسے اور جگہ ہے آیت (اِنْ كُلٌّ اِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ 14 ) 38 ۔ ص :14) یعنی ان سب سنے رسولوں کی تکذیب کی اور ان پر عذاب نازل ہوئے اور یہ بھی یاد رہے کہ ایک پیغمبر کا انکار گویا تمام انبیاء کا انکار ہے جیسے قرآن نے فرمایا آیت ( كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِۨ الْمُرْسَلِيْنَ\010\05ښ) 26 ۔ الشعراء :105) اور فرمایا آیت ( كَذَّبَتْ عَادُۨ الْمُرْسَلِيْنَ\012\03ښ) 26 ۔ الشعراء :123) اور فرمایا آیت ( كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِيْنَ\014\01ښ) 26 ۔ الشعراء :141) یعنی قوم نوح نے عادیوں نے ثمودیوں نے رسولوں کو جھٹلایا، حالانکہ سب کے پاس یعنی ہر ہر امت کے پاس ایک ہی رسول آیا تھا، یہی مطلب یہاں بھی ہے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامبر کی نافرماین کی، پس اللہ نے انہیں سخت تر مہلک بڑی درد ناک المناک پکڑ میں پکڑ لیا۔ بعد ازاں اپنا احسان جتاتا ہے کہ دیکھو جب نوح (علیہ السلام) کی دعا کی وجہ سے زمین پر طوفان آیا اور پانی حد سے گذر گیا چاروں طرف ریل پیل ہوگئی نجات کی کوئی جگہ نہ رہی اس وقت ہم نے تمہیں کشتی میں چڑھا لیا، حضرت ابن عباس (رض) ما فرماتے ہیں کہ جب قوم نوح نے اپنے نبی کو جھٹلایا اور ان کی مخالفت اور ایزاء رسانی شروع کی اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے لگے اس وقت حضرت نوح (علیہ السلام) نے تنگ آ کر ان کی ہلاکت کی دعا کی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیا اور مشہور طوفان نوح نازل فرمایا جس سے سوائے ان لوگوں کے جو حضرت نوح کی کشتی میں تھے روئے زمین پر کوئی نہ بچا پس سب لوگ حضرت نوح (علیہ السلام) کی نسل اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولاد میں سے ہیں، حضرت علی (رض) فرماتے ہیں پانی کا ایک ایک قطرہ بہ اجازت اللہ پانی کے داروغہ فرشتہ کے ناپ تول سے برستا ہے اسی طرح ہوا کا ہلکا سا جھونکا بھی بےناپے تولے نہیں چلتا لیکن ہاں عادیوں پر جو ہوائیں چلیں اور قوم نوح پر جو طوفان آیا وہ تو بیحد، بیشمار اور بغیر ناپ تول کے تھا اللہ کی اجازت سے پانی اور ہوا نے وہ زور باندھا کہ نگہبان فرشتوں کی کچھ نہ چلی اسی لئے قرآن میں آیت ( اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاۗءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ 11 ۙ ) 69 ۔ الحاقة :11) اور آیت ( وَاَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِيْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ ۙ ) 69 ۔ الحاقة :6) کے الفاظ ہیں اسی لئے اس اہم احسان کو اللہ تعالیٰ یاد دلا رہا ہے کہ ایسے پُر خطر موقعہ پر ہم نے تمہیں چلتی کشتی پر سوار کرا دیا تاکہ یہ کشتی تمہارے لئے نمونہ بن جائے چناچہ آج بھی ویسی ہی کشتیوں پر سوار ہو کر سمندر کے لمبے چوڑے سفر طے کر رہے ہو، جیسے اور جگہ ہے آیت (وَجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَالْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَ 12 ۙ ) 43 ۔ الزخرف :12) ، یعنی تمہاری سواری کے لئے کشتیاں اور چوپائے جانور بنائے تاکہ تم ان پر سواری کرو اور سوار ہو کر اپنے رب کی نعمت یاد کرو اور جگہ فرمایا آیت ( وَاٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّــتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ 41ۙ ) 36 ۔ يس :41) یعنی ان کے لئے ایک نشان قدرت یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری کشتی میں چڑھا لیا اور بھی ہم نے اس جیسی ان کی سواریاں پیدا کردیں۔ حضرت قتادہ نے اوپر کی اس آیت کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ وہی کشتی نوح باقی رہی یہاں تک کہ اس امت کے اگلوں نے بھی اسے دیکھا، لیکن زیادہ ظاہر مطلب پہلا ہی ہے، پھر فرمایا یہ اس لئے بھی کہ یاد رکھنے اور سننے والا کان اسے یاد کرے اور محفوظ رکھ لے اور اس نعمت کو نہ بھولے، یعنی صحیح سمجھ اور سچی سماعت والے عقل سلیم اور فہم مستقیم رکھنے والے جو اللہ کی باتوں اور اس کی نعمتوں سے بےپرواہی اور لا ابالی نہیں برتتے ان کی پندو نصیحت کا ایک ذریعہ یہ بھی بن گیا، ابن ابی حاتم میں ہے حضرت مکحول فرماتے ہیں جب یہ الفاظ اترے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ وہ علی (کرم اللہ وجہ) کو ایسا ہی بنا دے، چناچہ حضرت علی فرمایا کرتے تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی چیز سن کر پھر میں نے فراموش نہیں کی، یہ روایت ابن جریر میں بھی ہے لیکن مرسل ہے۔ ابن ابی حاتم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی سے فرمایا مجھے حکم کیا گیا ہے کہ میں تجھے نزدیک کروں دور نہ کروں اور تجھے تعلیم دوں اور تو بھی یاد رکھے اور یہی تجھے بھی چاہئے اس پر یہ آیت اتری، یہ روایت دوسری سند سے بھی ابن جریر میں مروی ہے لیکن وہ بھی صحیح نہیں۔