المزمل آية ۱
يٰۤاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ
طاہر القادری:
اے کملی کی جھرمٹ والے (حبیب!)،
English Sahih:
O you who wraps himself [in clothing]
1 Abul A'ala Maududi
اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے
2 Ahmed Raza Khan
اے جھرمٹ مارنے والے
3 Ahmed Ali
اے چادر اوڑھنے والے
4 Ahsanul Bayan
اے کپڑے میں لپٹنے والے (۱)
۱۔۱جس وقت یہ آیت نازل ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چادر اوڑھے ہوئے تھے اللہ نے آپ کی اسی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا مطلب یہ ہے کہ اب چادر چھوڑ دیں اور رات کو تھوڑا قیام کریں یعنی نماز تہجد پڑھیں کہا جاتا ہے کہ اس حکم کی بناء پر تہجد آپ کے لیے واجب تھی۔ (ابن کثیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے (محمدﷺ) جو کپڑے میں لپٹ رہے ہو
6 Muhammad Junagarhi
اے کپڑے میں لپٹنے والے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے کمبلی اوڑھنے والے (رسول(ص))۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اے میرے چادر لپیٹنے والے
9 Tafsir Jalalayn
اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کپڑے میں لپٹ رہے ہو
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، اے کپڑے میں لپٹنے والے نبی ! (مزمل) کی اصل متزمل تھی، تاء کو زاء میں ادغام کردیا گیا، یعنی اس پر وحی کے نازل ہونے کے وقت وحی کی ہیبت کے خوف سے کپڑوں میں لپٹنے والے ! رات کو قیام کر نماز پڑھ مگر کم، آدھی رات (نصفہٗ ) قلیلا سے بدل ہے اور نصف کا قلیل ہونا پوری رات کے اعتبار سے ہے، یا اس سے یعنی نصف سے، بھی کچھ کم کرلے ثلث رات تک یا اس پر (دو تہائی تک) زیادہ کرلے، او تخییر کے لئے ہے، اور قرآن خوب صاف صاف اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ ہم تم پر ایک بھاری کلام قرآن نازل کرنے والے ہیں یعنی با رعب کلام یا شدید، اس لئے کہ اس میں احکام تکلیفیہ ہیں، بلاشبہ سونے کے بعد (رات) کو اٹھنا قرآن فہمی کے لئے دل اور کان کی موافقت کی وجہ سے نہایت موثر ہے اور بات کو خوب واضح اور صاف کرنے والا ہے یقینا آپ کو دن میں بہت شغل رہتا ہے جس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاوت قرآن کی فرصت نہیں ہوتی، تو اپنے رب کا نام لے، یعنی اپنی قرأت کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ اور سب سے تعلق منقطع کر کے عبادت میں اس کی طرف پوری طرح متوجہ ہوجا، تبتیلاً ، بتل کا مصدر ہے اس کو فواصل کی رعایت سے لایا گیا ہے، یہ تبتل کا ملزوم ہے، وہ مشرق و مغرب کا پروردگار ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس کو اپنا کارساز بنا لو یعنی اپنے تمام امور اسی کو سپرد کردو اور جو کچھ کفار مکہ ایذا رسانی کی باتیں کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر صبر کریں اور وضع داری کے ساتھ اس سے الگ ہوجائو کہ جس میں جزع وفزع نہ ہو، یہ حکم جہاد کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے اور مجھے اور جھٹلانے والے آسودہ حال لوگوں کو چھوڑ دے (والمکذبین) کا عطف (درنی) کے مفعول پر ہے یا یہ مفعول معہ ہے، اور معنی یہ ہیں کہ میں ان کے لئے تمہاری طرف سے کافی ہوں اور وہ سرداران قریش ہیں، اور انہیں تھوڑے دن اور مہلت دو ، چناچہ کچھ ہی مدت کے بعد بدر میں وہ قتل کئے گئے بلاشبہ ہمارے پاس بھاری بیڑیاں ہیں، انکال، نکل نون کے کسرہ کے ساتھ، کی جمع ہے، اور دہکتی ہوئی آگ ہے، اور گلے میں پھنسنے والا کھانا ہے یعنی وہ گلے میں اٹک جاتا ہے، اور وہ زقوم ہے یا ضریع ہے یا پیپ ہے یا آگ کے کانٹے، نہ (باہر) نکلیں گے اور نہ (نیچے) اتریں گے، اور دردناک عذاب ہے جو عذاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرنے والے کے لئے ذکر کیا گیا ہے، یہ اس سے زیادہ ہے جس روز زمین اور پہاڑ ہلنے لگیں گے اور پہاڑ ریت کے ٹیلوں کی مانند ان کے جمع ہونے کے بعد اڑتے ہوئے غبار کے مانند ہوجائیں گے (مھیلا) ھال یھیل سے ہے اس کی اصل مھیول ہے، یاء پر ضمہ ثقیل ہونے کی وجہ سے ھا کی طرف منتقل کردیا اور وائو ثانی، التقاء ساکنین کی وجہ سے حذف ہوگیا، اس کے زائدہ ہونے کی وجہ سے اور ضمہ کو یاء کی مناسبت کی وجہ سے کسرہ سے بدل دیا گیا، اے اہل مکہ ! ہم نے تمہارے پاس ایک ایسا رسول بھیجا ہے اور وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جو قیامت کے دن تمہارے خلاف گواہی دے گا ان گناہوں پر جو تم سے صادر ہوتے ہیں، جیسا ہم نے فرعون کے پاس ایک رسول بھیجا تھا اور وہ موسیٰ (علیہ السلام) ہیں، پھر فرعون نے اس رسول کی بات نہ مانی تو ہم نے اس کی سخت پکڑ کی سو اگر تم دنیا میں کفر کرو گے تو اس دن (کی مصیبت) سے کیسے بچو گے ؟ جو بچوں کو اپنی ہولناکی کی وجہ سے بوڑھا کر دے گا اور وہ قیامت کا دن ہے، شیبا، اشیب کی جمع ہے اور اصل میں شیب کے شین پر ضمہ ہے یاء کی مجانست کی وجہ سے کسرہ دے دیا ہے اور یوم شدید کے بارے میں کہا جاتا ہے ” یوم یشیب نواصی الاطفال “ ایسا دن کہ جس میں بچوں کے بال سفید ہوجائیں گے اور یہ مجاز ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ آیت میں حقیقت مراد ہو (اور جس دن میں) آسمان پھٹ جائے گا یعنی اس میں اس دن شگاف ہوجائیں گے بیشک اس دن کے آنے کا اس کا وعدہ ضرور پورا ہونے والا ہے بلاشبہ یہ ڈرانے والی آیتیں مخلوق کے لئے نصیحت ہیں پس جو چاہے اپنے رب کی طرف راہ اختیار کرے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : یایھا المزمل یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے۔
قولہ : المزل، ای المتلفف بثیابہ، اپنے کپڑوں میں لپٹنے والے، مفسر علام نے یہی معنی مراد لئے ہیں، کہا گیا ہے کہ مزمل بمعنی حامل النبوۃ یا بمعنی حامل القرآن ہیں، زاملۃ، اونٹنی کو کہتے ہیں اس لئے کہ وہ بہت زیادہ وزن اٹھاتی ہے، اب یایھا المزمل کا مطلب ہوگا اے حامل نبوۃ یا اے حامل قرآن ! رات کو اٹھ، یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسماء توقیفی میں سے ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے قرآن میں مزمل کا لفظ استعمال ہوا ہے لہٰذا آپ پر مزمل کا اطلاق صحیح ہے سہیلی (رح) تعالیٰ نے اس میں اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ مزمل کا اطلاق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بطور اسم درست نہیں ہے، اس لئے کہ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک وقتی حالت سے مشتق ہے، مگر یہ صحیح نہیں ہے اس لئے کہ وقتی حالت سے بھی اسم کا اطلاق درست ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کی ایک وقتی حالت سے اسم کا اطلاق فرمایا ہے حضرت علی (رض) ایک روز زمین پر لیٹے ہوئے تھے اور آپ (رض) کے پہلو پر مٹی لگی ہوئی تھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” قم یا ابا تراب “ (صاوی ملخصًا، و اضافۃ)
قولہ : قلتہ بالنظر الی الکل اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : نصف، نصف کے مساوی ہوتا ہے، ایک نصف کو دوسرے نصف سے قلیل کہنا درست نہیں ہے، حالانکہ یہاں ” اللہ قلیلا نصفہ “ کہا گیا ہے۔
جواب : جواب کا ماحصل یہ ہے کہ نصف کو قلیل، کل کے اعتبار سے کہا گیا ہے، یعنی پوری رات قیام کرنے کے مقابلہ میں نصف شب، قیام قلیل ہے۔
قولہ : نصفہٗ یہ قلیلا سے بدل ہے نہ کہ لیلا سے مطلب یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین باتوں میں اختیار دیا گیا، نصف میں، نصف سے کم میں، نصف سے زیادہ میں۔
قولہ : انا سنلقی علیک قولا ثقیلا یہ جملہ امر بالقیام اور اس کی علت کے درمیان جملہ معترضہ ہے۔
قولہ : ان ناشئۃ اللیل امر بالقیام کی علت ہے۔
قولہ : وطا بمعنی تکلیف، مشقت، دشواری، ایک قرأت میں وطاء، مواطاۃ (مفاعلۃ) سے مصدر ہے بمعنی موافقت یعنی سننے کی سمجھنے سے موافقت، کانوں کی دل کے ساتھ موافقت۔
قولہ : جی بہ رعایۃ للفواصل اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : تبتیلا، تبتل کا مصدر بلفظہ نہیں ہے، جبکہ مصدر بلفظہ تبتل، تبتلا ہونا چاہیے ؟
جواب : جواب کا ماحصل یہ ہے کہ فواصل کی رعایت کی وجہ سے مصدر دوسرے باب کا لایا گیا ہے۔
قولہ : ھو ملزوم التبتل اس کا مقصد بھی سوال مذکور کا جواب ہے، مگر پہلا جواب باعتبار لفظ کے ہے اور یہ باعتبار معنی کے، اس کا خلاصہ یہ ہے تبتیل جو کہ بتل کا مصدر ہے، بول کر مراد اس سے تبتل ہے، تبتل بتل کا ملزوم ہے یعنی لازم بول کر ملزوم مراد لیا گیا ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، جیسے تکرم تکریما، و تعلم تعلیما۔
قولہ : ھو رب المشرق و المغرب، ھو کا اضافہ کر کے اشارہ کردیا کہ رب المشرق مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے اور ربک سے بدل ہونے کی وجہ سے مجرور بھی جائز ہے۔
قولہ : ضریع، نوع من الشوک لا تر عاہ دابۃ لخبثہ ایک قسم کی کانٹے دار گھاس ہے جسے کوئی جانور نہیں کھاتا، سوائے اونٹ کے اور اونٹ بھی اسی وقت تک کھاتا ہے جب تک وہ ہری رہتی ہے، اردو میں اس کو اونٹ کٹارا کہا جاتا ہے۔ (ترویح الارواح)
قولہ : زیادۃ علی ما ذکر لمن کذب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ما قبل میں ان لدینا انکالا الخ تک جہنم کے جس عذاب کا ذکر فرمایا ہے اب عذابا الیما کہہ کر مبہم طریقہ پر اس کے علاوہ درد ناک عذاب کا ذکر فرمایا جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرنے والوں کے لئے ہوگا۔
قولہ : یوم ترجف یہ فعل محذوف کا ظرف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ای استقر بھم عندنا ما ذکر یوم ترجف۔
قولہ : مفعول تتقون، یوما حذف مضاف کے ساتھ تقون کا مفعول ہے ای تتقون عذاب یوم یا حذف جار کی وجہ سے بھی منصوب ہوسکتا ہے، اصل میں بیوم تھا ای بیوم یجعل الولدان شیبا۔
قولہ : ویجوز ان یکون المراد فی الایۃ الحقیقۃ یعنی یوما یجعل الولدان شیبا سے مجازاً درازی مدت بھی مراد ہوسکتی ہے اور حقیقی معنی بھی مراد ہوسکتے ہیں یعنی حقیقۃً بچے بوڑھے ہوجائیں گے۔
تفسیر و تشریح
یایھا المزمل، جس وقت یہ آیات نازل ہوئیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چادر اوڑھ کرلیٹے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے مشفقانہ خطاب فرمایا، مطلب یہ کہ اب چادر چھوڑ دیں اور رات کو تھوڑا قیام کریں، یعنی تہجد کی نماز پڑھیں، کہا گیا ہے کہ اسی حکم کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تہجد فرض کیا گیا ہے، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ تہجد کی نماز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر واجب تھی، ایک سال بعد جب سورت کا آخری حصہ نازل ہوا تو تہجد کی فرضیت منسوخ کردی گئی، غار حرا میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب جبرئیل امین (علیہ السلام) نازل ہوئے اور سورة اقرأ کی ابتدائی آیتیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنائیں، تو فرشتے کے نزول وحی کی شدت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چونکہ پہلی مرتبہ سابقہ پڑا تھا، اس لئے طبعی طور پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر خوف طاری ہوا جس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سردی محسوس ہوئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت خدیجہ (رض) کے پاس تشریف لے گئے سردی کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا زملونی، زملونی یعنی مجھے کپڑے اڑھا دو ، اس کے بعد کچھ مدت تک نزول وحی کا سلسلہ بند رہا، اس زمانہ کو فترت کا زمانہ کہا جاتا ہے، فتری وحی کے زمانہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک روز میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میں نے آواز سنی تو میں نے نظر آسمان کی طرف اٹھائی، دیکھتا کیا ہوں کہ وہی فرشتہ جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا آسمان اور زمین کے درمیان ایک معلق کرسی پر بیٹھا ہوا ہے اس کو دیکھ کر مجھ پر پھر وہی رعب وہیبت کی کیفیت طاری ہوگئی جو پہلی ملاقات کے وقت طاری ہوچکی تھی میں واپس گھر چلا آیا اور گھر والوں سے میں نے کہا مجھے ڈھانپ دو ، اس پر یایھا المدثر نازل ہوئی، اس حدیث میں آیت یایھا المدثر کے نزول کا ذکر ہے، ہوسکتا ہے اسی حالت کو بیان کرنے کے لئے یایھا المزمل کا خطاب بھی آیا ہو، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یایھا المزمل کے لقب کا واقعہ الگ ہو۔
اس آیت میں قیام لیل یعنی تہجد کی نماز کو صرف فرض ہی نہیں کیا گیا، بلکہ اس میں کم از کم ایک چوتھائی رات مشغول رہنا بھی فرض قرر دیا گیا ہے، امام بغوی (رح) تعالیٰ روایات حدیث کی بنا پر فرماتے ہیں کہ اس حکم کی تعمیل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) رات کے اکثر حصہ کو نماز تہجد میں صرف فرماتے تھے حتیٰ کہ ان کے قدم ورم کر جاتے، ایک سال بعد اس سورت کا آخری حصہ فاقرء و اما تیسر منہ نازل ہوا جس سے اس طویل قیام کی پابندی منسوخ کردی گئی، اور اختیار دے دیا گیا کہ جتنی دیر کسی کے لئے آسان ہو سکے اتنا وقت صرف کرنا کافی ہے۔ (معارف)
10 Tafsir as-Saadi
﴿الْمُزَّمِّلُ﴾ کا معنی بھی ﴿ الْمُدَّثِّرُ﴾ کی طرح کپڑوں میں لپٹنے والا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رسالت کے ذریعے سے اکرام بخشا اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کو آپ کی طرف بھیج کر وحی نازل کرنے کی ابتدا کی تو اس وقت آپ اس وصف سے موصوف ہوئے ۔ آپ نے ایک معاملہ دیکھا کہ اس جیسا معاملہ آپ نے کبھی نہیں دیکھا تھا اور اس پر رسولوں کے سوا کوئی بھی ثابت قدم نہیں رہ سکتا۔ آپ کے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا: ” پڑھیے“ ! آپ نے فرمایا :”میں پڑھ نہیں سکتا“ جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو خوب بھینچا جس سے آپ کو تکلیف ہوئی، جبرائیل آپ کو بار بار پڑھنے کی مشق کرواتے رہے تو بالآ خر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا ، یہ وحی وتنزیل کا پہلا موقع اور ایک نیا تجربہ تھا ، اس سے آپ پر گھبراہٹ طاری ہوگئی ، آپ اپنے گھروالوں کے پاس تشریف لائے تو آپ پر کپکی طاری تھی ۔ آپ نے فرمایا : ”مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اوڑھا دو۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثبات سے بہرہ ور کیا اور آپ پر پے درپے وحی نازل ہوئی حتیٰ کہ آپ اس مقام پر پہنچ گئے جہاں کوئی رسول نہیں پہنچ سکا۔ (سبحان اللہ تعالیٰ!) وحی کی ابتدا اور اس کی انتہا کے مابین کتنا بڑا تفاوت ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس وصف کے ساتھ مخاطب فرمایا جو آپ میں ابتدا کے وقت پایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں آپ کو ان عبادات کا حکم دیا جو آپ سے متعلق تھیں، پھر آپ کو اپنی قوم کی اذیت رسانی پر صبر کرنے کا حکم دیا، پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ اس کے حکم کو کھلم کھلا بیان کردیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت کا اعلان کردیں ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو افضل ترین عبادت نماز کو مؤکد ترین اور بہترین اوقات پر ادا کرنے کا حکم دیا اور وہ ہے تہجد کی نماز۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey chadar mein lipatney walay !
12 Tafsir Ibn Kathir
رسول اللہ کو قیام اللیل اور ترتیل قرآن کا حکم
اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیتا ہے کہ راتوں کے وقت کپڑے لپیٹ کر سو رہنے کو چھوڑیں اور تہجد کی نماز کے قیام کو اختیار کرلیں، جیسے فرمان ہے آیت ( تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا ۡ وَّمِـمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ 16) 32 ۔ السجدة :16) ، ان کے پہلو بستروں سے الگ ہوتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور لالچ سے پکارتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے میں سے دیتے رہتے ہیں، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری عمر اس حکم کی بجا آوری کرتے رہے تہجد کی نماز صرف آپ پر واجب تھی یعنی امت پر واجب نہیں ہے، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا 79) 17 ۔ الإسراء :79) ، راتوں کو تہجد پڑھا کر یہ حکم صرف تجھے ہے تیرا رب تجھے مقام محمود میں پہچانے والا ہے، یہاں اس حکم کے ساتھ ہی مقدار بھی بیان فرما دی کہ آدھی رات یا کچھ کم و بیش مزمل کے معنی سونے والے اور کپڑا لپیٹنے والے کے ہیں، اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اے قرآن کے مفہوم کو اچھی طرح اخذ کرنے والے تو آدھی رات تک تہجد میں مشغول رہا کر، یا کچھ بڑھا گھٹا دیا کر اور قرآن شریف کو آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کر تاکہ خوب سمجھتا جائے، اس حکم کے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عامل تھے، حضرت صدیقہ کا بیان ہے کہ آپ قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے جس سے بڑی دیر میں سورت ختم ہوتی تھی گویا چھوٹی سی سورت بڑی سے بڑی ہوجاتی تھی، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت انس (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرأت کا وصف پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوب مد کر کے پڑھا کرتے تھے پھر آیت (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم) پڑھ کر سنائی جس میں لفظ اللہ پر لفظ رحمٰن پر لفظ رحیم پر مد کیا، ابن جریج میں ہے کہ ہر ہر آیت پر آپ پورا پورا وقف کرتے تھے، جیسے آیت (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم) پڑھ کر وقف کرتے آیت (الحمد للہ رب العلمین) پڑھ کر وقف کرتے آیت (الرحمٰن الرحیم) پڑھ کر وقف کرتے آیت (مالک یوم الدین) پڑھ کر ٹھہرتے۔ یہ حدیث مسند احمد ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ قرآن کے قاری سے قیامت والے دن کہا جائے گا کہ پڑھتا جا اور چڑھتا جا اور ترتیل سے پڑھ جیسے دنیا میں ترتیل سے پڑھا کرتا تھا تیرا درجہ وہ ہے جہاں تیری آخری آیت ختم ہو، یہ حدیث ابو داؤد و ترمذی اور نسائی میں بھی ہے اور امام ترمذی (رح) اسے حسن صحیح کہتے ہیں، ہم نے اس تفسیر کے شروع میں وہ احادیث وارد کردی ہیں، جو ترتیل کے مستحب ہونے اور اچھی آواز سے قرآن پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں، جیسے وہ حدیث جس میں ہے قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو، اور ہم میں سے وہ ہیں جو خوش آوازی سے قرآن نہ پڑھے اور حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) کی نسبت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمانا کہ اسے آل داؤد کی خوش آوازی عطا کی گئی ہے اور حضرت ابو موسیٰ کا فرمانا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ سن رہے ہیں تو میں اور اچھے گلے سے زیادہ عمدگی کے ساتھ پڑھتا، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا فرمان کہ ریت کی طرح قرآن کو نہ پھیلاؤ اور شعروں کی طرح قرآن کو بےادبی سے نہ پڑھو اس کی عجائب پر غور کرو اور دلوں میں اثر لیتے جاؤ اور اس میں دوڑ نہ لگاؤ کہ جلد سورت ختم ہو (بغوی) ایک شخص آ کر حضرت ابن مسعود سے کہتا ہے میں نے مفصل کی تمام سورتیں آج کی رات ایک ہی رکعت میں پڑھ ڈالیں آپ نے فرمایا پھر تو تو نے شعروں کی طرح جلدی جلدی پڑھا ہوگا مجھے برابر برابر کی سورتیں خوب یاد ہیں جنہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ملا کر پڑھا کرتے تھے پھر مفصل کی سورتوں میں سے بیس سورتوں کے نام لئے کہ ان میں سے دو دو سورتیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے۔ پھر فرماتا ہے ہم تجھ پر عنقریب بھاری بوجھل بات اتاریں گے، یعنی عمل میں ثقیل ہوگی اور اترتے وقت بوجہ اپنی عظمت کے گراں قدر ہوگی، حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی اتری اس وقت آپ کا گھٹنا میرے گھٹنے پر تھا وحی کا اتنا بوجھ پڑا کہ میں تو ڈرنے لگا کہ میری ران کہیں ٹوٹ نہ جائے، مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ وحی کا احساس بھی آپ کو ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا میں ایسی آواز سنتا ہوں جیسے کسی زنجیر کے بجنے کی آواز ہو میں چپکا ہوجاتا ہوں جب بھی وحی نازل ہوتی ہے مجھ پر اتنا بوجھ پڑتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ میری جان نکل جائے گی، صحیح بخاری شریف کے شروع میں ہے حضرت حارث بن ہشام پوچھتے ہیں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے ؟ آپ نے فرمایا کبھی تو گھنٹی کی آواز کی طرح ہوتی ہے جو مجھ پر بہت بھاری پڑتی ہے اور وہ گن گناہٹ کی آواز ختم ہوجاتی ہے تو میں اس میں جو کچھ کہا گیا وہ مجھے خوب محفوظ ہوجاتا ہے اور کبھی فرشتہ انسانی صورت میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور میں یاد کرلیتا ہوں، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں میں نے دیکھا ہے کہ سخت جاڑے والے دن میں بھی جب آپ پر وحی اتر چکتی تو آپ کی پیشانی مبارک سے پسینے کے قطرے ٹپکتے، مسند احمد میں ہے کہ کبھی اونٹنی پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوار ہوتے اور اسی طاقت میں وحی آتی تو اونٹنی جھک جاتی، ابن جریر میں یہ بھی ہے کہ پھر جب تک وحی ختم نہ ہو لے اونٹنی سے قدم نہ اٹھایا جاتا نہ اس کی گردن اونچی ہوتی۔ مطلب یہ ہے کہ خود وحی کا اترنا بھی اہم اور بجھل تھا پھر احکام کا بجا لانا اور ان کا عامل ہونا بھی اہم اور بوجھل تھا۔ یہی قول حضرت امام ابن جریر کا ہے، حضرت عبدالرحمٰن سے منقول ہے کہ جس طرح دنیا میں یہ ثقیل کام ہے اسی طرح آخرت میں اجر بھی بڑا بھاری ملے گا۔ پھر فرماتا ہے رات کا اٹھنا نفس کو زیر کرنے کے لئے اور زبان کو درست کرنے کے لئے اکسیر ہے، نشاء کے معنی حبشی زبان میں قیام کرنے کے ہیں، رات بھر میں جب اٹھے اسے ناشئتہ اللیل کہتے ہیں، تہجد کی نماز کی خوبی یہ ہے کہ دل اور زبان ایک ہوجاتا ہے اور تلاوت کے جو الفاظ زبان سے نکلتے ہیں دل میں گڑ جاتے ہیں اور بنسبت دن کے رات کی تنہائی میں معنی خوب ذہن نشین ہوتا جاتا ہے کیونکہ دن بھیڑ بھاڑ کا، شورغل کا، کمائی دھندے کا وقت ہوتا ہے۔ حضرت انس نے آیت (اقوم قیلاً ) کو اصوب قیلا پڑھا تو لوگوں نے کہا ہم تو اقوم پڑھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا (اصوب اقوم اھیاء) اور ان جیسے سب الفاظ ہم معنی ہیں۔ پھر فرماتا ہے دن میں تجھے بہت فراغت ہے، نیند کرسکتے ہو، سو بیٹھ سکتے ہو، راحت حاصل کرسکتے ہو، نوافل بکثرت ادا کرسکتے ہو، اسے دنیوی کام کاج پورے کرسکتے ہو۔ پھر رات کو آخرت کے کام کے لئے خاص کرلو، اس بنا پر یہ حکم اس وقت تھا جب رات کی نماز فرض تھی پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر احسان کیا اور بطور تخفیف کے اس میں کمی کردی اور فرمایا تھوڑی سی رات کا قیام کرو، اس فرمان کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم نے آیت (ان ربک) سے (فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْه 20 ) 73 ۔ المزمل :20) تک پڑھا اور آیت ( وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا 79) 17 ۔ الإسراء :79) ، کی بھی تلاوت کی۔ آپ کا یہ قول ہے بھی ٹھیک، مسند احمد میں ہے کہ حضرت سعید بن ہشام نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور مدینہ کی طرف چلے تاکہ وہاں کے اپنے مکانات بیچ ڈالیں اور ان کی قیمت سے ہتھیار وغیرہ خرید کر جہاد میں جائیں اور رومیوں سے لڑتے رہیں یہاں تک کہ یا تو روم فتح ہو یا شہادت ملے مدینہ شریف میں اپنی قوم والوں سے ملے اور اپنا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے کہا سنو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات میں آپ ہی کی قوم میں سے چھ شخصوں نے بھی ارادہ کیا تھا کہ عورتوں کو طلاق دے دیں مکانات وغیرہ بیچ ڈالیں اور راہ اللہ کھڑے ہوجائیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا کیا جس طرح میں کرتا ہوں کیا اس طرح کرنے میں تمہارے لئے اچھائی نہیں ہے ؟ خبردار ایسا نہ کرنا اپنے اس ارادے سے باز آجاؤ یہ حدیث سن کر حضرت سعید نے بھی اپنا ارادہ ترک کیا اور وہیں اسی جماعت سے کہا کہ تم گواہ رہنا میں نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا اب حضرت سعید چلے گئے پھر جب اس جماعت سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ یہاں سے جانے کے بعد میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) ما کے پاس گیا اور ان سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وتر پڑھنے کی کیفیت دریافت تو انہوں نے کہا اس مسئلے کو سب سے زیادہ بہتری طور پر حضرت عائشہ (رض) بتاسکتی ہیں تم وہیں جاؤ اور ام المومنین ہی سے دریافت کرو اور ام المومنین سے جو سنو وہ ذرا مجھ سے کہہ جانا۔ میں حضرت حکیم بن افلح کے پاس گیا اور ان سے میں نے کہا تم مجھے ام المومنین کی خدمت میں لے چلو۔ انہوں نے فرمایا میں وہاں نہیں جاؤں گا اس لئے کہ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ آپس میں لڑنے والی جماعتوں یعنی حضرت علی اور ان کے مقابلین کے بارے میں آپ دخل نہ دیجئے لیکن انہوں نے نہ مانا اور دخل دیا۔ میں نے انہیں قسم دی اور کہا کہ نہیں آپ مجھے ضرور وہاں لے چلئے خیر بمشکل تمام وہ راضی ہوئے اور میں ان کے ساتھ گیا۔ ام المومنین صاحبہ نے حضرت حکیم کی آواز پہچان لی اور کہا کیا حکیم ہے ؟ جواب دیا گیا کہ ہاں حضور میں حکیم بن افلح ہوں پوچھا تمہارے ساتھ کون ہیں ؟ کہا سعید بن ہشام پوچھا ہشام کون ؟ عامر کے لڑکے ؟ کہا ہاں عامر کے لڑکے، تو حضرت عائشہ نے حضرت عامر کے لئے دعاء رحمت کی اور فرمایا عامر بہت اچھا آدمی تھا اللہ اس پر رحم کرے میں نے کہا ام المومنین مجھے بتایئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق کیا تھے ؟ آپ نے فرمایا کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا کیوں نہیں ؟ فرمایا بس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلق قرآن تھا اب میں نے اجازت مانگنے کا قصد کیا لیکن فوراً ہی یاد آگیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رات کی نماز کا حال بھی دریافت کرلوں، اس سوال کے جواب میں ام المومنین نے فرمایا کیا تم نے سورة مزمل نہیں پڑھی ؟ میں نے کہا ہاں پڑھی ہے، فرمایا سنو اس سورت کے اول حصے میں قیام الیل فرض ہوا اور سال بھر تک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب تہجد کی نماز بطور فرضیت کے ادا کرتے رہے یہاں تک کہ قدموں پر ورم آگیا بارہ ماہ کے بعد اس سورت کے خاتمہ کی آیتیں اتریں اور اللہ تعالیٰ نے تخفیف کردی فرضیت اٹھ گئی اور عملی صورت باقی رہ گئی، میں نے پھر اٹھنے کا ارادہ کیا لیکن خیال آیا کہ وتر کا مسئلہ بھی دریافت کرلوں تو میں نے کہا ام المومنین حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وتر پڑھنے کی کیفیت سے بھی آگاہ فرمایئے، آپ نے فرمایا ہاں سنو ہم آپ کی مسواک وضو کا پانی وغیرہ تیار ایک طرف رکھ دیا کرتے تھے جب بھی اللہ چاہتا اور آپ کی آنکھ کھلتی اٹھتے مسواک کرتے وضو کرتے اور آٹھ رکعت پڑھتے بیچ میں تشہد میں بالکل نہ بیٹھتے آٹھویں رکعت پوری کر کے آپ التحیات میں بیٹھتے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر کرتے دعا کرتے اور زور سے سلام پھیرتے کہ ہم بھی سن لیں پھر بیٹھے بیٹھے ہی دو رکعت اور ادا کرتے (اور ایک وتر پڑھتے) بیٹا یہ سب مل کر گیارہ رکعت ہوئیں، اب جبکہ آپ عمر رسیدہ ہوئے اور بدن بھاری ہوگیا تو آپ نے سات وتر پڑھے پھر سلام پھیرنے کے بعد بیٹھ کردو رکعت ادا کیں بس بیٹا یہ نو رکعت ہوئیں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت مبارک تھی کہ جب کسی نماز کو پڑھتے تو پھر اس پر مداومت کرتے ہاں اگر کسی شغل یا نیند یا دکھ تکلیف اور بیماری کی وجہ سے رات کو نماز نہ پڑھ سکتے تو دن کو بارہ رکعت ادا فرما لیا کرتے میں نہیں جانتی کہ کسی ایک رات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پورا قرآن صبح تک پڑھا ہو اور نہ رمضان کے سوا کسی اور مہینے کے پورے روزے رکھے، اب میں ام المومنین سے رخصت ہو کر ابن عباس کے پاس آیا اور وہاں کے تمام سوال جواب دوہرائے آپ نے سب کی تصدیق کی اور فرمایا اگر میری بھی آمد و رفت ام المومنین کے پاس ہوتی تو جا کر خود اپنے کانوں سن آتا، یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی ہے، ابن جریر میں ہے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بوریا رکھ دیا کرتی جس پر آپ تہجد کی نماز پڑھتے لوگوں نے کہیں یہ خبر سن لی اور رات کی نماز میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتداء کرنے کے لئے وہ بھی آگئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غضبناک ہو کر باہر نکلے چونکہ شفقت و رحمت آپ کو امت پر تھی اور ساتھ ہی ڈر تھا کہ ایسا نہ ہو یا نماز فرض ہوجائے آپ ان سے فرمانے لگے کہ لوگو ان ہی اعمال کی تکلیف اٹھاؤ جن کی تم میں طاقت ہو اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہ تھکے گا البتہ تم عمل کرنے سے تھک جاؤ گے سب سے بہتر عمل وہ ہے جس پر دوام ہو سکے ادھر قرآن کریم میں یہ آیتیں اتریں اور صحابہ نے قیام الیل شروع کیا یہاں تک کہ رسیاں باندھنے لگے کہ نیند نہ آجائے آٹھ مہینے اسی طرح گذر گئے ان کی اس کوشش کو جو وہ اللہ کی رضامندی کی طلب میں کر رہے تھے دیکھ کر اللہ نے بھی ان پر رحم کیا اور اسے فرض عشاء کی طرف لوٹا دیا اور قیام الیل چھوڑ دیا، یہ روایت ابن ابی حاتم میں بھی ہے لیکن اس کا راوی موسیٰ بن عبیدہ زبیدی ضعیف ہے اصل حدیث بغیر سورة مزمل کے نازل ہونے کے ذکر کی صحیح میں بھی ہے اور اس حدیث کے الفاظ کے تسلسل سے تو یہ پایا جاتا ہے کہ یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی حالانکہ دراصل یہ سورت مکہ شریف میں اتری ہے، اسی طرح اس روایت میں ہے کہ آٹھ مہینے کے بعد اس کی آخری آیتیں نازل ہوئیں یہ قول بھی غریب ہے، صحیح وہی ہے جو بحوالہ مسند پہلے گذر چکا کہ سال بھر کے بعد آخری آیتیں نازل ہوئیں۔ حضرت ابن عباس سے بھی ابن ابی حاتم میں منقول ہے کہ سورة مزمل کی ابتدائی آیتوں کے اترنے کے بعد صحابہ کرام مثل رمضان شریف کے قیام کے قیام کرتے رہے اور اس سورت کی اول آخر کی آیتوں کے اترنے میں تقریباً سال بھر کا فاصلہ تھا۔ حضرت ابو اسامہ سے بھی ابن جریر میں اسی طرح مروی ہے، حضرت ابو عبدالرحمٰن فرماتے ہیں کہ ابتدائی آیتوں کے اترنے کے بعد صحابہ کرام نے سال بھر تک قیام کیا یہاں تک کہ ان کے قدم اور پنڈلیوں پر ورم آگیا پھر آیت (فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْه 20 ) 73 ۔ المزمل :20) ، نازل ہوئی اور لوگوں نے راحت پائی، حسن بصری اور سدی کا بھی یہی قول ہے۔ ابن ابی حاتم میں بہ روایت حضرت عائشہ سولہ مہینے کا فاصلہ مروی ہے، حضرت قتادہ فرماتے ہیں ایک سال یا دو سال تک قیام کرتے رہے پنڈلیاں اور قدم سوج گئے پھر آخری سورت کی آیتیں اتریں اور تخفیف ہوگئی۔ حضرت سعید بن جبیر (رح) دس سال کا فاصلہ بتاتے ہیں (ابن جریر) حضرت ابن عباس (رض) ما فرماتے ہیں کہ پہلی آیت کے حکم کے مطابق ایمانداروں نے قیام الیل شروع کیا لیکن بڑی مشقت پڑتی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے رحم کیا اور آیت (عَلِمَ اَنْ سَيَكُوْنُ مِنْكُمْ مَّرْضٰى 20 ) 73 ۔ المزمل :20) سے (ما تیسر منہ) تک آیتیں نازل فرما کر وسعت کردی اور تنگی نہ رکھی فلہ الحمد پھر فرمان ہے اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہ اور کرتا رہ اور اس کی عبادت کے لئے فارغ ہوجا، یعنی امور دنیا سے فارغ ہو کر دل جمعی اور اطمینان کے ساتھ بہ کثرت اس کا ذکر کر، اس کی طرف مائل اور سراسر راغب ہوجا، جیسے اور جگہ ہے آیت ( فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ ۙ ) 94 ۔ الشرح :7) ، یعنی جب اپنے شغل سے فارغ ہو تو ہماری عبادت محنت سے بجا لاؤ، اخلاص فارغ البالی کوشش محنت دل لگی اور یکسوئی سے اللہ کیطرف جھک جاؤ، ایک حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبل سے منع فرمایا یعنی بال بچے اور دنیا کو چھوڑ دینے سے۔ یہاں مطلب یہ ہے کہ علائق دنیوی سے کٹ کر اللہ کی عبادت میں توجہ اور انہماک کا وقت بھی ضرور نکالا کرو۔ وہ مالک ہے وہ متصرف ہے مشرق مغرب سب اس کے قبضہ میں ہے اس کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں، تو جس طرح صرف اسی اللہ کی عبادت کرتا ہے اسی طرح صرف اسی پر بھروسہ بھی رکھ، جیسے اور آیت میں ہے آیت (فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ\012\03 ) 11 ۔ ھود :123) اسی کی عبادت کر اور اسی پر بھروسہ کر، یہی مضمون آیت (ایاک نعبد وایاک نستعین) میں بھی ہے، اس معنی کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں کہ عبادت، اطاعت، توکل اور بھروسہ کے لائق ایک اس کی پاک ذات ہے۔