التوبہ آية ۶۰
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۤءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّـفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِى الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِيْلِۗ فَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِۗ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ
طاہر القادری:
بیشک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے،
English Sahih:
Zakah expenditures are only for the poor and for the needy and for those employed for it and for bringing hearts together [for IsLam] and for freeing captives [or slaves] and for those in debt and for the cause of Allah and for the [stranded] traveler – an obligation [imposed] by Allah. And Allah is Knowing and Wise.
1 Abul A'ala Maududi
یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور اُن لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں، اور اُن کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور راہ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے
2 Ahmed Raza Khan
زکوٰة تو انہیں لوگوں کے لیے ہے محتاج اور نرے نادار اور جو اسے تحصیل کرکے لائیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے اور گردنیں چھڑانے میں اور قرضداروں کو اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کو، یہ ٹھہرایا ہوا ہے اللہ کا، اور اللہ علم و حکمت والا ہے
3 Ahmed Ali
زکوة مفلسوں اور محتاجوں اوراس کا کام کرنے والوں کا حق ہے اورجن کی دلجوئی کرنی ہے اور غلاموں کی گردن چھوڑانے میں اور قرض داروں کے قرض میں اور الله کی راہ میں اورمسافر کو یہ الله کی طرف سے مقرر کیاہوا ہے اور الله جاننے والا حکمت والا ہے
4 Ahsanul Bayan
صدقے صرف فقیروں (١) کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرضداروں کے لئے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لئے (١) فرض ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔
٦٠۔١ اس آیت میں اس طعن کا دروازہ بند کرنے کے لئے صدقات کے مستحق لوگوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ صدقات سے مراد یہاں صدقات واجبہ یعنی زکٰوۃ ہے۔ آیت کا آغاز انما سے کیا گیا ہے جو قصر کے صیغوں میں سے ہے اور الصقات میں لام تعریف جنس کے لیے ہے یعنی صدقات کی یہ جنس (زکوٰۃ) ان آٹھ قمسوں میں مقصور ہے جن کا ذکر آیت میں ہے ان کے علاوہ کسی اور مصرف پر زکوۃ کی رقم کا استعمال صحیح نہیں۔ اہل علم کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ کیا ان آٹھوں مصارف پر تقسیم کرنا ضروری ہے؟ امام شافعی کی رائے کی رو سے زکٰوۃ کی رقم آٹھوں مصارف پر خرچ کرنا ضروری ہے۔ یا ان میں سے جس مصرف یا مصارف پر امام یا زکوۃ ادا کرنے والا مناسب سمجھے حسب ضرورت خرچ کرسکتا ہے امام شافعی وغیرہ پہلی رائے کے قائل ہیں اور امام مالک اور امام ابو حنیفہ وغیرہما دوسری رائے کے۔ اور یہ دوسری رائے ہی زیادہ صحیح ہے امام شافعی کی رائے کی رو سے زکوۃ کی رقم آٹھوں مصارف پر خرچ کرنا ضروری ہے یعنی اقتضائے ضرورت اور مصالح دیکھے بغیر رقم کے آٹھ حصے کر کے آٹھوں جگہ پر کچھ کھچ رقم خرچ کی جائے۔ جبکہ دوسری رائے کے مطابق ضرورت اور مصالح کا اعتبار ضروری ہے جس مصرف پر رقم خرچ کرنے کی زیادہ ضرورت یا مصالح کسی ایک مصرف پر خرچ کرنے کے متقتضی ہوں، تو وہاں ضرورت اور مصالح کے لحاظ سے زکوۃ کی رقم خرچ کی جائے گی چاہے دوسرے مصارف پر خرچ کرنے کے لیے رقم نہ بچے اس رائے میں جو معقولیت ہے وہ پہلی رائے میں نہیں ہے۔
٦٠۔٢ ان مصارف ثمانیہ کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے۔
ا۔ فقیر اور مسکین چونکہ قریب قریب ہیں اور ایک کا اطلاق دوسر پر بھی ہوتا ہے یعنی فقیر کو مسکین اور مسکین کو فقیر کہہ لیا جاتا ہے۔ اس لئے ان کی الگ الگ تعریف میں خاصا اختلاف ہے۔ تاہم دونوں کے مفہوم میں یہ بات تو قطعی ہے کہ جو حاجت مند ہوں اور اپنی حاجات وضروریات کو پورا کرنے کے لیے مطلوبہ رقم اور وسائل سے محروم ہوں ان کو فقیر اور مسکین کہا جاتا ہے مسکین کی تعریف میں ایک حدیث آتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "مسکین وہ گھو منے پھر نے والا نہیں ہے جو ایک ایک یادو دو لقمے یا کھجور کے لیے گھر گھر پھرتا ہے بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال بھی نہ ہو جو اسے بےنیاز کر دے نہ وہ ایسی مسکنت اپنے اوپر طاری رکھے کہ لوگ غریب اور مستحق سمجھ کر اس پر صدقہ کریں اور نہ خود لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرے"(صحیح بخاری ومسلم کتاب الزکوٰۃ) حدیث میں گویا اصل مسکین شخص مذکور کو قرار دیا گیا ہے ورنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ سے مسکین کی تعریف یہ منقول ہے کہ جو گداگر ہو، گھوم پھر کر اور لوگوں کے پیچھے پڑ کر مانگتا ہو اور فقیر وہ ہے جو نادار ہونے کے باوجود سوال سے بچے اور لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرے (ابن کثیر)
٢۔ عاملین سے مراد حکومت کے وہ اہلکار جو زکٰو ۃ و صدقات کی وصولی و تقسیم اور اس کے حساب کتاب پر معمور ہوں۔
٣۔ مولفۃ القلوب ایک تو وہ کافر ہے جو کچھ اسلام کی طرف مائل ہو اور اس کی امداد کرنے پر امید ہو کہ وہ مسلمان ہو جائے گا۔ دوسرے، وہ نو مسلم افراد ہیں جن کو اسلام پر مضبوطی سے قائم رکھنے کے لیے امداد دینے کی ضرورت ہو۔ تیسرے وہ افراد بھی ہیں جن کی امداد دینے کی صورت میں یہ امید ہو کہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے سے روکیں گے اور اس طرح وہ قریب کے کمزور مسلمانوں کا تحفظ کریں۔ یہ اور اس قسم کی دیگر صورتیں تالیف قلب کی ہیں جن پر زکوۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے چاہے مذکورہ افراد مال دار ہی ہوں۔ احناف کے نزدیک یہ مصرف ختم ہوگیا ہے لیکن یہ بات صحیح نہیں حالات وظروف کے مطابق ہر دور میں اس مصرف پر زکوۃ کی رقم خرچ کرنا جائز ہے۔
٥۔ گردنیں آزاد کرانے میں۔ بعض علماء نے اس سے صرف مکاتب غلام مراد لئے ہیں اور علماء نے مکاتب وغیر مکاتب ہر قسم کے غلام مراد لئے ہیں۔ امام شوکانی نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔
٦۔ غارمین سے ایک تو وہ مقروض مراد ہیں جو اپنے اہل و عیال کے نان نفقہ اور ضروریات زندگی فراہم کرنے میں لوگوں کے زیر بار ہوگئے اور ان کے پاس نقد رقم بھی نہیں ہے اور ایسا سامان بھی نہیں ہے جسے بیچ کر وہ قرض ادا کریں سکیں۔ دوسرے وہ ذمہ داراصحاب ضمانت ہیں جنہوں نے کسی کی ضمانت دی اور پھر وہ اس کی ادائیگی کے ذمہ دار قرار پاگئے یا کسی فصل تباہ یا کاروبار خسارے کا شکار ہوگیا اور اس بنیاد پر وہ مقروض ہو گیا۔ ان سب افراد کی زکوۃ کی مد سے امداد کرنا جائز ہے۔
٧۔ فی سبیل اللہ سے مراد جہاد ہے یعنی جنگی سامان و ضروریات اور مجاہد (چا ہے وہ مالدار ہی ہو) پر زکٰوۃ کی رقم خرچ کرنا جائز ہے۔ اور احادیث میں آتا ہے کہ حج اور عمرہ بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے اسی طرح بعض علماء کے نزدیک تبلیغ ودعوت بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے کیونکہ اس سے بھی مقصد جہاد کی طرح اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔
٨۔ ابن السبیل سے مراد مسافرہے۔ یعنی اگر کوئی مسافر، سفر میں مستحق امداد ہوگیا ہے چاہے وہ اپنے گھر یا وطن میں صاحب حیثیت ہی ہو، اس کی امداد زکٰو ۃ کی رقم سے کی جاسکتی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
صدقات (یعنی زکوٰة وخیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے میں) اور خدا کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیئے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کر دیئے گئے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لئے اور اللہ کی راه میں اور راہرو مسافروں کے لئے، فرض ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ علم وحکمت واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
صدقات (مالِ زکوٰۃ) تو اور کسی کے لئے نہیں صرف فقیروں کے لئے ہے مسکینوں کے لئے ہے اور ان کارکنوں کے لئے ہے جو اس کی وصولی کے لئے مقرر ہیں۔ اور ان کے لئے ہے جن کی (دلجوئی) مطلوب ہے۔ نیز (غلاموں اور کنیزوں کی) گردنیں (چھڑانے) کے لئے ہے اور مقروضوں (کا قرضہ ادا کرنے) کے لئے ہے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے ہے اور مسافروں (کی مدد) کے لئے ہے یہ اللہ کی طرف سے فرض ہے اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
صدقات و خیرات بس فقرائ ,مساکین اور ان کے کام کرنے والے اور جن کی تالیف هقلب کی جاتی ہے اور غلاموں کی گردن کی آزادی میں اور قرضداروں کے لئے اور راسِ خدا میں غربت زدہ مسافروں کے لئے ہیں یہ اللہ کی طرف سے فریضہ ہے اور اللہ خوب جاننے والا اور حکمت والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
صدقات (یعنی زکوٰۃ و خیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے۔ اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے) میں اور خدا کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہئے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کردیئے گئے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
آیت نمبر ٦٠ تا ٦٦
ترجمہ : صدقات (واجبہ) (مثلاً ) زکوٰة فرض صرف ان فقراء کے لئے ہیں جو اتنی مقدار بھی نہ پائیں جو اپنی حاجت میں صرف کر
سکیں (یعنی ان کے پاس مال بالکل نہ ہو) اور مساکین کے لئے ہے جو بقدر کفایت مال نہ پائیں، اور صدقات کے کارکنوں کے لئے اور صدقات (زکوٰة) وصول کرنے والوں کے لئے ہے، اور (مستحقین) پر تقسیم کرنے والوں کے لئے ہے، اور کاتبین کے لئے ہے اور (ارباب اموال کو) جمع کرنے والوں کے لئے ہے، اور ان لوگوں کے لئے ہے جن کی تالیف قلب مقصود ہے تاکہ وہ اسلام لے آئیں یا اپنے اسلام پر ثابت قدم رہیں، یا ان کے امثال اسلام لے آئیں یا مسلمانوں کا دفاع کریں، یہ (چار) قسمیں ہیں پہلی اور آخری قسم کو آج کل امام شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک نہیں دیا جائے گا، اس لئے کہ اسلام قوی ہوگیا ہے، بخلاف باقی دونوں قسموں کے صحیح مذہب کے مطابق ان کو دیا جائے گا، اور مکاتبین کو آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے لئے ہے جنہوں نے غیر معصیت کے لئے قرض لیا ہو، یا (معصیت کے لئے لیا ہو مگر) معصیت سے توبہ کرلی ہو، اور ان کے پاس قرض ادا کرنے کے لائق مال نہ ہو، اور آپس میں صلح کرانے کے لئے اگرچہ وہ مالدار ہوں، اور مجاہدین کے لئے ہے یعنی ایسے مجاہدین کے لئے جو جہاد میں مشغول ہوں اور وہ ان لوگوں میں سے ہوں جن کا مال غنیمت میں حصہ نہ ہو، اگرچہ وہ مالدار ہی کیوں نہ ہوں، اور ایسے مسافروں کے لئے ہے کہ جن کے لئے مال سے منقطع ہونے کی وجہ سے سفر جاری رکھنا دشوار ہوگیا ہو اور یہ اللہ کی طرف سے فرض کردہ حکم ہے (فریضة) فعل مقدر (فَرَضَ ) کی وجہ سے منصوب ہے، اللہ اپنی مخلوق (کی ضرورتوں) سے بخوبی واقف ہے اور اپنی صنعت میں باحکمت ہے لہٰذا مذکورہ مصارف کے علاوہ میں صرف کرنا جائز نہیں ہے اور مذکورہ اصناف کے موجود ہوتے ہوئے ان میں سے کسی کو محروم نہیں کیا جائے گا، لہٰذا امام وقت کو چاہیے کہ ان میں برابر تقسیم کرے اور امام کو اختیار ہے کہ کسی ایک صنف کو دوسری صنف پر ترجیح دے دے اور لام سے تمام افراد کے استغراق کا وجوب مستفاد ہوتا ہے، لیکن صاحب مال پر بوقت تقسیم تمام افراد کا احاطہ کرنا دشوار ہونے کی وجہ سے واجب نہیں ہے، بلکہ (اصناف ثمانیہ میں سے) ہر صنف کے تین افراد کو دینا کافی ہے اس سے کم میں کافی نہ ہوگا، جیسا کہ جمع کے صیغوں سے مستفاد ہوتا ہے، اور سنت نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ جس کو زکوٰة کا مال دیا جائے اس کا مسلمان ہونا شرط ہے، اور یہ بھی شرط ہے کہ ہاشمی اور مطّلبی سید نہ ہو، اور ان منافقین میں وہ لوگ بھی ہیں جو نکتہ چینی کر کے اور (رازوں کو) افشا کر کے نبی کو تکلیف پہنچاتے ہیں، اور جب ان کو نکتہ چینی سے آپس میں اس خیال سے منع کیا جاتا ہے مبادا ایسا نہ ہو کہ آپ کو اطلاع ہوجائے تو کہتے ہیں وہ تو کان ہیں ہر بات کو سن لیتے ہیں اور (سچ) مان لیتے ہیں اور جب ہم (بھی) ان سے قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم نے ایسی بات نہیں کہی تو ہماری بات کو بھی سچ مان لیں گے، (ان سے) کہو تمہارے بھلے کی باتیں سنتے ہیں نہ کہ تمہارے نقصان کی باتیں، اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور مومنین کی اس بات میں تصدیق کرتے ہیں جس کی اس کو خبر دیتے ہیں نہ کہ دوسروں کی، اور (للمؤمنین) میں لام زائدہ ایمان تسلیم اور ایمان تصدیق میں فرق کرنے کے لئے ہے اور تم میں سے جو ایمان لائے ہیں ان کے لئے رحمت ہے رحمة رفع کے ساتھ ہے اذن پر عطف کرتے ہوئے، اور جر کے ساتھ ہے خیر پر عطف کرتے ہوئے، اور جو لوگ اللہ کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے اے ایمان والو ! رسول کو ایذا کی اس بات کے بارے میں جو ان کی طرف سے تم کو پہنچی ہے تمہارے سامنے اللہ کی قسم کھا جاتے ہیں کہ ہم نے ایسی کوئی بات نہیں کہی، تاکہ وہ تم کو خوش کردیں حالانکہ اللہ اور اس کا رسول اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ ان کو طاعت کے ذریعہ خوش کریں، اگر وہ سچے مومن ہیں دونوں کی رضا مندی کے لازم ملزوم ہونے کی وجہ سے (یرضوہ) کی ضمیر کو واحد لائے ہیں، یا اللہ کی یا رسول اللہ کی خبر محذوف ہے، کیا انہیں معلوم نہیں کہ جو اللہ اور اس کے رسول سے عداوت رکھتا ہے کہ ان کی سزا نار جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے بڑی رسوائی کی بات ہے منافق اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ان مومنین پر کوئی سورت نازل ہوجائے جو ان پر اس نفاق کو ظاہر کر دے جو ان کے دل میں ہے اور وہ اس کے باوجود استہزاء کرتے ہیں (اے نبی) کہہ دو (اور) مذاق اڑائو امر تہدید کے لئے ہے، اللہ اس نفاق کو ظاہر کرنے والا ہے جس کے ظاہر کرنے سے تم ڈرتے ہو اور اگر آپ ان سے آپ کے اور قرآن کے استہزاء کے بارے میں دریافت فرمائیں حال یہ کہ وہ آپ کے ساتھ کی تبوک کی طرف جا رہے ہوں قسمیہ بات ہے کہ وہ عذر پیش کرتے ہوئے یقینا کہہ دیں گے کہ ہم تو یوں ہی ہنسی مذاق کی باتیں کر رہے تھے، تاکہ ہنسی مذاق میں سفر کٹ جائے اور یہ (یعنی استہزاء) ہمارا مقصد نہیں تھا آپ ان سے کہو کہ کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کرتے ہو اس کے بارے میں عذر نہ بیان کرو تم نے ایمان کے بعد کفر کیا یعنی ایمان کے اظہار کے بعد تمہارا کفر ظاہر ہوگیا اگر تم میں کی ایک جماعت کو اس کے اخلاص اور توبہ کی وجہ سے معاف کردیا جائے جیسا کہ مخشی بن حمیر کو تو ایک جماعت کو ہم ضرور سزا دیں گے اس لئے کہ وہ مجرم ہیں تعذب تا اور نون کے ساتھ ہے اور ن (نعفُ ) یاء کے ساتھ مبنی للمفعول ہے اور نون کے ساتھ مبنی للقاعل ہے، (یعنی) نفاق اور استہزاء پر مصر ہیں۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : اِنَّمَا الصّدقات للفقراء والمساکین، اِنَّمَا کلمہء حصر ہے، یہاں قصر موصوف علی الصفت کے لئے استعمال ہوا ہے یعنی صدقات (زکوٰة) کا مصرف صرف مذکورین ہیں ان کے علاوہ اور کوئی نہیں، لِلْفقراء میں لام سے متعلق بڑی قیل وقال ہوئی ہے، بعض نے کہا کہ لام تملیک کے لئے ہے جیسا کہ امام شافعی (رح) تعالیٰ کا یہی مسلک ہے، اور بعض نے کہا کہ اختصاص و استحقاق کے لئے ہے اس کے قائل امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ ہیں، (بحر) الفقراء والمساکین، دونوں لفظوں کی تعبیر و تفسیر میں متعدد اقوال نقل ہوئے ہیں۔
حنفیہ نے کہا ہے کہ \&\& فقیر \&\& وہ نادار ہے جو سوال نہ کرے اور \&\& مسکین \&\& وہ نادار ہے جو سوال کرے، اور ابن عباس (رض) ، حسن بصری، جابر بن زید، مجاہد، زہری سے بھی یہی منقول ہے، امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کا قول ان حضرات کے قول کے مطابق ہے (جصاص) لفظ فقیر اور مسکین کی تشریح و تعبیر میں خواہ کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو مسئلہ زکوٰة پر کوئی اثر نہیں پڑے گا زکوٰة دونوں کو دینا جائز ہوگا، البتہ وصیت کے مسئلہ میں فرق پڑے گا، اگر فقراء کے لئے وصیت کی ہے تو وہی مستحق ہوں گے اور اگر مساکین کے لئے کی ہے تو صرف وہ مستحق ہوں گے۔
مصارف ثمانیہ کے بارے میں ایک ازہری عالم کی مفید بحث :
زکوٰة کے مصارف آٹھ ہیں :
(1) فقیر وہ شخص ہے کہ جو اتنے مال کا مالک نہ ہو جو اس کی ضرورت کے لئے کافی ہو، بایں طور کہ اپنی ضرورت کی مقدار سے نصف سے کافی کم کا مالک ہو، مثلاً اس کی ضرورت دس درہم کی ہے مگر اس کے پاس صرف دو یا تین درہم ہیں۔
(2) المسکین، مسکین وہ شخص ہے کہ جس کے پاس مال تو ہو مگر بقدر ضرورت نہ ہو، مثلاً اس کو دس درہم کی حاجت ہے مگر اس کے پاس سات درہم ہیں۔
(3) العاملین علیھا، یعنی زکوٰة وصولی کے سلسلہ کے کارندے مثلاً کاتب، حاسب وغیرہ۔
(4) المؤلفة قلوبھم، وہ نو مسلم جن کا اسلام ابھی راسخ نہیں ہوا ہے یا وہ لوگ کہ جن کو تالیف قلوب کے طور پر دینے سے دیگر حضرات کے اسلام کی توقع کی جاسکتی ہو۔
(5) الرقاب، مکاتبین کو آزاد کرانے میں۔
(6) الغارم، وہ شخص کہ جس نے جائز مقصد کے لئے قرض لیا اور اب وہ ادائیگی پر قادر نہیں ہے یا اصلاح ذات البین کی وجہ سے مقروض ہوگیا اگرچہ وہ غنی ہو۔
(7) اھل السبیل وہ مالدار کہ جو جہاد میں شرکت کے خواہشمند ہیں۔
(8) ابن السبیل، مباح سفر کا مسافر جو اپنے شہر سے دور ہو ایسا شخص بھی زکوٰة کا مستحق ہے تاکہ وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچ سکے۔
(اعراب القرآن للدر ویش ملخصاً )
تفسیر وتشریح
مؤلفة القلوب، سے مراد ایسے غیر مسلم ہیں جن کے مسلمان ہوجانے کی امید ہو یا ان کے شر و فساد سے بچنا مقصود ہو، اور ایسے مسلمان جو ضعیف الایمان ہوں اور اس طریقہ سے ان کے ایمان کے قوی ہونے کی امید ہو، غرض یہ کہ انسان کا ہر وہ گروہ جس کی طرف سے اسلامی حکومت کو کوئی خطرہ درپیش ہو۔
مورخ ابن حبیب نے سولہ شخصوں کے نام کی ایک فہرست دی ہے جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مؤلفة القلوب قرار دے کر ان میں سے چودہ کو سو سو (١٠٠، ١٠٠) اونٹ اور باقی کو پچاس پچاس اونٹ عطا کئے تھے، اس فہرست کا آغاز ابو سفیان بن حرب اموی اور معاویہ بن ابی سفیان کے نام سے ہوتا ہے (کتاب المخبر ص ٤٧٣، بحوالہ ماجدی) اکثریت کا قول ہے کہ یہ حکم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے لئے مخصوص تھا، اور اس رائے میں حنفیہ کے ساتھ مالکیہ اور امام ثوری اور امام اسحاق بن راہویہ اور امام شعبی اور عکرمہ تابعی بھی ہیں۔ (بیضاوی، ماجدی)
علماء محققین کی رائے دربارہ مؤلفة القلوب : بعض علماء محققین نے کہا ہے کہ تعامل صحابہ سے یہ حکم منسوخ نہیں ہوا تھا بلکہ محض بہ سبب عدم ضرورت وقتی رفع حکم تھا اور استغناء اور حکم کا اجر اہر دور میں امام المسلمین کی رائے اور مصلحت کے تابع رہے گا۔
والصحیح اِنَّ ھذا الحکم غیر منسوخ وان للامام ان یتالّف قوماً علی ھذا الوصف ویدفع الیھم، ھم المؤلفة لانّہ لا دلیل علی نسخہ البتة۔
(کبیر، ماجدی)
فاضل گیلانی کی تحقیق : انہی مصارف میں ایک مد ان لوگوں کی بھی ہے جو محض مالی کمزوریوں کی وجہ سے اسلامی حکومت اور اسلام کی مخالفت کرتے ہیں، جیسا کہ اس زمانہ میں سیا سی شورش پسندوں کے ایک گروہ کی یہی حالت ہے، ان لوگوں کو خاموش کرنے کے لئے بھی صدقات کے مصارف میں قرآن نے مؤلفة القلوب کی ایک مد رکھی ہے، اگرچہ عام طور پر فقہاء کہتے ہیں کہ مصرف صرف ابتداء اسلام کی حد تک محدود تھا، اور اب ساقط ہوگیا، دلیل میں حضرت عمر (رض) کا اثر پیش کرتے ہیں کہ آپ نے مؤلفة القلوب کے بعض افراد کو دینے سے اس بنا پر انکار کردیا تھا کہ اب اسلام اتنا قوی ہوچکا ہے کہ ان لوگوں کی ضرورت نہیں رہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کے بعد عُیَیْنہ بن حصن اور اقرع بن حابس حضرت ابوبکر (رض) کے پاس آئے انہوں نے آپ سے ایک زمین طلب کی آپ نے عطیہ کا فرمان لکھ دیا انہوں نے چاہا کہ مزید پختگی کے لئے اعیان صحابہ سے بھی دستخط کرا لیں چناچہ گواہیاں ہوگئیں مگر جب یہ لوگ گواہی کے لئے حضرت عمر کے پاس پہنچے تو انہوں نے فرمان پڑھ کر ان کے روبروا پھاڑ دیا اور ان سے کہہ دیا کہ بےتم لوگوں کی تالیف قلوب کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو دیا کرتے تھے مگر اب اللہ نے اسلام کو تم جیسے لوگوں سے بےنیاز کردیا ہے اس پر وہ لوگ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس شکایت لے کر گئے اور طعنہ بھی دیا کہ خلیفہ آپ ہیں یا عمر ؟ لیکن نہ ابوبکر ہی نے اس پر کوئی نوٹس لیا نہ دوسرے صحابہ نے عمر (رض) کی رائے سے اختلاف کیا حالانکہ قصہ صرف اس قدر ہے کہ چند خاص لوگوں کو دینے سے حضرت عمر (رض) نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا تھا کہ، اِنَّ اللہ اَعذّ الاسلام فذھَبَا۔ اب اللہ نے اسلام کو عزت عطا فرما دی لہٰذا تم دونوں جائو (کچھ ملیگا) لیکن اس کا یہ مطلب قرار نہیں دیا جاسکتا کہ ہر شخص کے لئے حضرت عمر نے اس مد کو ساقط کردیا غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن نے جس مصرف کو منصوص کیا ہے اس کو اولاً حضرت عمر (رض) منسوخ ہی کیسے کرسکتے ہیں ؟ نیز ایک ایسی خبر واحد سے قرآن کے ایک قانون پر خط نسخ نہیں پھیرا جاسکتا، بلکہ اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ امام اور حکومت وقت کی صواب دید پر موقوف ہے، جس وقت لوگوں کے لئے اس کی ضرورت سمجھے دے اور جن کے لئے ضرورت نہ سمجھے نہ دے۔ (اسلام معاشیات بحوالہ ماجدی)
فقیہ ابن عربی نے دونوں قول نقل کر کے ترجیح دوسرے ہی قول کو دی ہے، اور کہا ہے کہ اسلام جس طرح اس دور میں قوی اور معزز ہوگیا تھا اب پھر ضعیف ہوگیا ہے۔
مقروضوں کے ساتھ اسلام کی ہمدردی : دنیا میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے مقروضوں کے ساتھ عملی ہمدردی کا سبق دیا ہے اور اس گروہ کو بھی فقراء اور حاجت مند سمجھ کر زکوٰة کا مستحق قرار دیا ہے۔ مقروض دنیا کا وہ مظلوم ہے جس کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک تو بڑی بات ہے اس وقت تک دنیا کی حکومتوں نے ان کو ستانے والوں اور ان پر تشدد کے پہاڑ توڑنے والے قرض خواہوں کو صرف مالی نہیں بلکہ قانونی امداد و تعاون کو اپنا فریضہ قرار دے رکھا ہے ہر حکومت کی پولیس فورس اور فوجی وعسکری قوت اس کے لئے تیار رہتی ہے کہ مقروضوں کے ذمہ قرض خواہوں کا جو قرض ہے صرف اصل ہی نہیں بلکہ سود و رشوت کے ساتھ اس سے وصول کرایا جائے، خواہ مقروض کی ساری جائداد اور گھر کا سارا اثاثہ ہی کیوں نہ نیلام ہوجائے یہ ایک واقعہ ہے۔
وفی الرقاب، فکّ رقاب کہتے ہیں مکاتب کی گردن چھڑانے (آزاد کرنے میں مدد کرنا) اگر مولیٰ نے اپنے غلام سے کہہ دیا کہ تو اگر اتنی رقم لا کر دے دے تو تو آزاد ہے اس غلام کو مکاتب کہتے ہیں ایسے غلام کو مال زکوٰة دے کر مدد کی جاسکتی ہے اس پر علماء متفق ہیں اور اعتاق کا مطلب ہوتا ہے غلام خرید کر آزاد کرنا، زکوٰة کے مال کو اس صورت میں خرچ کرنے میں اختلاف ہے، حضرت علی (رض) سعید بن جبیر، لیث، ثوری، ابراہیم نخعی، حنفیہ، شافعیہ ناجائز کہتے ہیں اور ابن عباس (رض) ، حسن بصری، امام مالک، امام احمد جائز کہتے ہیں۔
وفی سبیل اللہ، لفظی معنی کے اعتبار سے اس مد میں ہر وہ خرچ آجاتا ہے جو اللہ کی رضا جوئی کے لئے ہو لیکن مفسرین نے احادیث نبوی اور آثار صحابہ کی روشنی میں خرچ کی اس مد کو عموماً مجاہدین تک محدود رکھا ہے۔
اراد بھا الغزاة فلھم سھم من الصدقة (معالم) فمنھم الغزاة الذی لا حق لھم فی الدیوان (ابن کثیر) اور بعض حضرات نے اس میں دینی طالب علموں کو بھی شامل کیا ہے، قیل المراد طلبة العلم واقتصر علیہ فی الفتاویٰ ظھیریہ۔
مصارف ثمانیہ میں سے ہر صنف کو دینا ضروری ہے یا بعض کو دینا بھی کافی ہوسکتا ہے ؟
امام شافعی (رح) تعالیٰ کا مسلک : ایک مرتبہ زیادی بن حارث آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صدقہ میں سے کچھ مجھے بھی عنایت فرما دیجئے، آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے صدقات میں کسی نبی کا حکم پسند نہیں کیا ہے بلکہ اس نے خود ہی آٹھ مصرف بتلا دئیے ہیں اگر تم ان آٹھویں میں سے ایک بھی ہو تو صدقہ کے مستحق ہو گے ورنہ نہیں، علماء کا اس بات میں اختلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مصارف ثمانیہ قرآن میں بیان فرمائے ہیں، ان میں سے ہر ایک کو زکوٰة دی جائے یا ان میں سے بعض کو دینا بھی کافی ہوسکتا ہے ؟ زیاد بن حارث کی مذکورہ حدیث کی بنا پر امام شافعی اور ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ ان آٹھوں میں سے ایک بھی ہو تو صدقہ کے مستحق ہو گے ورنہ نہیں، علماء کا اس بات میں اختلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مصارف ثمانیہ قرآن میں بیان فرمائے ہیں، ان میں سے ہر ایک کو زکوٰة دی جائے یا ان میں سے بعض کو دینا بھی کافی ہوسکتا ہے ؟ زیاد بن حارث کی مذکورہ حدیث کی بنا پر امام شافعی اور ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ ان آٹھوں قسموں پر صدقہ تقسیم کرنا چاہیے یہ حدیث ابو دائود میں ہے اور اس کی سند میں ایک راوی عبد الرحمن بن زیاد بن انعم افریقی کو اکثر علماء نے ضعیف قرار دیا ہے۔
مصارف صدقات میں امام ابوحنیفہ و امام مالک رحمھما اللہ تعالیٰ کا مسلک : مذکورہ حدیث کی سند میں چونکہ عبد الرحمن بن زیاد ضعیف ہے اس لئے ان حضرات نے فرمایا کہ مذکورہ آٹھ اصناف میں سے سب کو دینا ضروری نہیں ہے اگر ایک کو بھی دے دیا جائے تو کافی ہوگا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا مقصد زکوٰة کے اصناف ثمانیہ بیان کرنے سے مصرف زکوٰة کو بیان کرنا ہے نہ کہ تعداد کو۔
زکوٰة و صدقہ واجبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل کے لئے جائز نہیں : صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل کے لئے حلال نہیں ہے، ظاہر روایت کے اعتبار سے یہ مذہب امام ابوحنیفہ کا ہے البتہ نفلی صدقہ کو آل محمد کے حق میں جائز قرار دیا ہے، یہ امام ابوحنیفہ اور امام مالک (رح) تعالیٰ کے نزدیک ہے۔
سادات میں کون لوگ شامل ہیں ؟ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک فقط ہاشم بن عبد مناف کی اولاد آل محمد ہے، اور امام شافعی (رح) تعالیٰ اور ایک روایت میں امام احمد (رح) تعالیٰ کے نزدیک بنی مطلب بھی آل محمد میں شامل ہیں۔
زکوٰة کے علاوہ دیگر صدقات غیر مسلم کو بھی دئیے جاسکتے ہیں : زکوٰة کے علاوہ عام صدقات غیر مسلموں کو بھی دئیے جاسکتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے \&\& تصدقوا علی اھل الادیان کلھا \&\& یعنی ہر مذہب والے پر صدقہ کرو، لیکن صدقہ زکوٰة کے بارے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ (رض) کو یمن بھیجنے کے وقت یہ ہدایت فرمائی تھی کہ زکوٰة مالدار مسلمانوں سے لی جائے اور غریب مسلمانوں کو دی جائے اس سے صاف ظاہر ہے کہ زکوٰة کے مستحق صرف مسلمان ہی ہیں۔
ایک مفید بحث : قرآن مجید میں تیسرا مصرف العاملین علیھا، بیان فرمایا ہے یہاں عاملین سے وہ لوگ مراد ہیں کہ جو اسلامی حکومت کی طرف سے صدقات، زکوٰة اور عشر وغیرہ لوگوں سے وصول کر کے بیت المال میں جمع کرنے کی خدمت پر مامور ہوتے ہیں یہ لوگ چونکہ اپنے تمام اوقات اس خدمت میں مشغول کرتے ہیں اس لئے ان کی ضروریات کی ذمہ داری اسلامی حکومت پر عائد ہے قرآن کریم کی اس آیت نے مصارف زکوٰة میں ان کا حصہ رکھ کر یہ متعین کردیا کہ ان کا حق الخدمت اسی مذکورة سے دیا جائے گا۔
اس میں اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صدقات کی وصولی کا فریضہ براہ راست نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو \&\& خُذْ مِنْ اَمْوالِھِمْ صدقةً \&\& کہہ کر سپرد فرمایا ہے، اس آیت کی رو سے مسلمانوں کے امیر پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں سے صدقات وصول کرے، اور یہ بات ظاہر ہے کہ امیر بذات خود بغیر معاونین کے یہ کام انجام نہیں دے سکتا لہٰذا اس کو معاونین اور مددگاروں کی ضرورت ہوگی ان ہی معاونین کو والعاملین عَلَیْھا کے الفاظ سے تعبیر فرمایا، اسی حکم کی تعمیل میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سے صحابہ کو صدقات وصول کرنے کے لئے مختلف خطوں میں بھیجا تھا، اور مذکورہ ہدایت کے مطا بق زکوٰة ہی کی حاصل شدہ رقم میں سے ان کو حق الخدمت دیا ہے، حالانکہ ان حضرات میں وہ صحابہ بھی شامل ہیں جو اغنیاء تھے۔ حدیث شریف میں ہے کہ صدقہ کسی غنی کے لئے حلال نہیں بجز پانچ شخصوں کے (١) ایک وہ جو جہاد کے لئے نکلا ہو اور وہاں اس کے پاس بقدر ضرورت مال نہیں اگرچہ اس کے گھر مال موجود ہو (٢) دوسرے عامل صدقہ جو صدقہ وصول کرنے کی خدمت انجام دیتا ہو، (٣) وہ شخص کہ اگرچہ اس کے پاس مال ہے مگر موجودہ مال سے زیادہ کا قرضہ ہے (٤) وہ شخص جو صدقہ کا مال کسی غریب مسکین سے خرید لے، (٥) وہ مالدار شخص جس کو کسی غریب شخص نے صدقہ سے حاصل شدہ مال بطور ہدیہ دے دیا ہو۔
عاملین صدقہ کو جو رقم دی جاتی ہے وہ صدقہ کے طور پر نہیں بلکہ معاوضہ خدمت کے طور پر دی جاتی ہے اسی لئے مالدار ہونے کے باوجود عاملین کے لئے اس کا لینا جائز ہے اس مد کے علاوہ اگر صدقہ کا مال دوسرے کسی کام کے معاوضہ میں دیا گیا تو وہ جائز نہ ہوگا، مصارف ثمانیہ میں عاملین ہی کی صرف ایک مد ہے جس میں حق الخدمت دینا جائز ہے۔
دو سوال اور ان کے جواب : اب یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں، اول یہ کہ مال زکوٰة کو معاوضہ خدمت کے طور پر کیسے دیا گیا ؟ دوسرے یہ کہ مالدار کے لئے یہ مال حلال کیسے ہوا ؟ ان دونوں سوالوں کا ایک ہی جواب ہے وہ یہ کہ عاملین حضرات فقراء کے وکیل کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ وکیل کا قبضہ مؤکل کا قبضہ ہوتا ہے، جب عاملین نے زکوٰة کی رقم فقراء کے وکیل ہونے کی حیثیت سے وصول کرلی تو زکوٰة دینے والوں کی زکوٰة ادا ہوگئی، اب یہ پوری رقم ان فقراء کی ملک ہے جن کی طرف سے بطور وکیل انہوں نے وصول کی ہے، اب جو رقم حق الخدمت کے طور پر دی جاتی ہے وہ مالداروں کی طرف سے نہیں بلکہ فقراء کی طرف سے ہے اور فقراء کو اس میں ہر طرح کا تصرف کرنے کا اختیار ہے۔
ایک اہم سوال : اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ فقراء نے تو ان کو وکیل و مختار بنایا نہیں، یہ ان کے وکیل کیسے بن گئے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی حکومت کا سربراہ جس کو امیر کہا جاتا ہے وہ قدرتی طور پر من جانب اللہ پورے ملک کے فقراء کا وکیل ہوتا ہے کیونکہ ان سب کی ضرورت کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے امیر الملک جن کو صدقات کی وصولی پر عامل بنا دے وہ سب ان کے نائب اور وکیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ عاملین کو جو کچھ حق الخدمت کے طور پر دیا گیا ہے وہ درحقیقت زکوٰة نہیں بلکہ زکوٰة جن فقراء کا حق ان کی طرف سے معاوضہ خدمت دیا گیا ہے۔
فائدہ جلیلہ : تفصیل مذکور سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آجکل جو اسلامی مدارس اور مکاتب وانجمنوں کے مہتمم حضرات یا ان کی طرف سے بھیجے ہوئے سفراء صدقات وزکوٰة وغیرہ مدارس وانجمنوں کے لئے وصول کرتے ہیں ان کا وہ حکم نہیں ہے جو عاملین صدقہ کا ہے لہٰذا سفراء حضرات کی تنخواہ مال زکوٰة سے دینا جائز نہیں ہے وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ فقراء کے وکیل نہیں ہیں بلکہ اصحاب زکوٰة مالداروں کے وکیل ہیں ان کی طرف سے مال زکوٰة، زکوٰة کے مصرف میں لگانے کا اختیار دیا گیا ہے، اسی لئے ان کا قبضہ ہوجانے کے بعد بھی زکوٰة اس وقت تک ادا نہیں ہوتی جب تک وہ اپنے مصرف میں صرف نہ ہوجائے سفراء کا حقیقةً فقراء کا وکیل نہ ہونا تو ظاہر ہے کہ ان کو کسی فقیر نے وکیل بنایا ہی نہیں ہے اور امیر المومنین کی طرف سے ولایت عامہ جو عاملین کو حاصل ہوتی ہے وہ بھی ان کو حاصل نہیں ہے لہٰذا بجز اس کے کوئی صورت نہیں کہ ان کو اصحاب زکوٰة مالداروں کا وکیل قرار دیا جائے، اور جب تک وکیل کا قبضہ رہے وہ ایسا ہی ہوگا جیسا کہ خود مؤکل کا لہٰذا مصرف زکوٰة میں خرچ نہ ہونے تک زکوٰة ادا نہ ہوگی۔
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تعالیٰ نے صدقات واجبہ کی تقسیم کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ ﴾’’صدقات و خیرات“ یعنی زکوٰۃِ واجب۔۔۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ مستحب صدقات ہر ایک شخص کو دیئے جاسکتے ہیں، ان صدقات کو خرچ کرنے کے لئے کسی کو مختص نہیں کیا گیا۔ جب کہ صدقات واجبہ صرف ان لوگوں پر خرچ کئے جائیں جن کا قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے صدقات کے مصرف کو صرف انہی لوگوں میں محدود رکھا ہے۔ ان کی آٹھ اصناف ہیں۔
(١، ٢) فقراء و مساکین، اس مقام پر یہ دو الگ اقسام ہیں جن میں تفاوت ہے، فقیر مسکین سے زیادہ ضرورت مند ہوتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان اصناف کے ذکر کی ابتداء ”فقیر“ سے کی ہے اور ابتداء کا طریقہ یہی ہے کہ پہلے سب سے اہم چیز کا، پھر اس سے کم تر مگر دوسروں سے اہم تر کا بیان ہوتا ہے۔ فقیر کی یہ تفسیر بیان کی گئی ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو یا جس سے کفایت ہوسکتی ہو اس کے پاس اس کے نصف سے بھی کم ہو۔ مسکین اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے پاس کفایت سے نصف یا اس سے کچھ زیادہ موجود ہو مگر اس کے پاس پوری کفایت موجود نہ ہو، کیونکہ اگر اس کے پاس پوری کفایت موجود ہو تو وہ غنی ہوتا۔ پس فقراء اور مساکین کو اتنی زکوٰۃ دی جائے جس سے ان کا فقر و فاقہ اور مسکنت زائل ہوجائے۔
(٣) وہ لوگ جو صدقات کی وصولی وغیرہ کے کام پر مامور ہوں اور یہ وہ لوگ ہیں جو صدقات کے ضمن میں کسی ذمہ داری میں مشغول ہوں، ان کی وصولی کرنے والے، صدقات کے مویشیوں کے چرانے والے، ان کے نقل و حمل کا انتظام کرنے والے اور صدقات کا حساب کتاب لکھنے والے سب ” عاملین“ کے زمرے میں آتے ہیں۔۔۔ لہٰذا ان کو ان کا کام کا معاوضہ صدقات میں سے دیا جائے اور یہ ان کے کام کی اجرت ہے۔
(٤) وہ لوگ جن کی تالیف قلب مطلوب ہو۔ ﴿مُؤَلَّفَة ُ قُلُوبِ ﴾ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی اپنی قوم میں اطاعت کی جاتی ہے، جس کے اسلام قبول کرنے کی امید ہو یا جس کے شرکا خوف ہو، یا جس کو عطا کرنے سے اس کی قوت ایمان میں اضافہ ہوتا ہو یا اس جیسے کسی اور شخص کے اسلام قبول کرنے کی توقع ہو یا کسی ایسے شخص سے صدقات وصول ہونے کی توقع ہو جو صدقات ادا نہ کرتا ہو۔ اس صورت میں ﴿وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ﴾ کو صدقات میں سے دیا جاسکتا ہے جس میں کوئی مصلحت اور ان کی تالیف قلب مطلوب ہو۔
(٥) گردنیں چھڑانے میں، اس سے مراد وہ غلام ہیں جنہوں نے اپنے آقاؤں سے مکاتبت کے ذریعے سے آزادی خرید رکھی ہو اور وہ غلامی سے اپنی گردن چھڑانے کے لئے جدوجہد کر رہے ہوں۔ پس زکوٰۃ کی مد سے ان کی مدد کی جاسکتی ہے اور وہ مسلمان جو کفار کی قید میں ہیں ان کو آزاد کرانے کے لئے بھی زکوٰۃ کا مال خرچ کیا جاسکتا ہے، بلکہ یہ مسلمان قیدی بدرجہ اولیٰ اس مد کے مستحق ہیں اور مستقلاً کسی غلام کو آزاد کرنے پر خرچ کرنا بھی جائز ہے، کیونکہ یہ بھی (وفی الرقاب) کے زمرے میں آتے ہیں۔
(٦) قرض داروں کی مدد کرنے میں۔۔۔ قرض داروں کی دو قسمیں ہیں۔
(اول) وہ قرض دار جنہوں نے لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے قرض اٹھایا ہو۔ اس کی صورت یہ ہے کہ دو گروہوں کے درمیان کوئی فتنہ یا فساد پھیل جائے تو وہ آدمی ان دونوں کے درمیان پڑ کر ان کے مابین صلح کروا کر ان میں سے کسی ایک کی طرف سے یا سب کی طرف سے مالی تاوان ادا کر دے۔ اس قسم کے قرض دار پر زکوٰۃ کی مد میں سے خرچ کیا جاسکتا ہے، تاکہ اس کے لئے زیادہ نشاط انگیز اور اس کے عزم کے لئے زیادہ قوت کا باعث ہو۔ وہ اگرچہ مال دار بھی ہو، تب بھی اسے زکوٰۃ کی مد میں سے عطا کیا جاسکتا ہے۔
(ثانی) دوسری قسم کا قرض دار وہ ہے جس نے کسی ذاتی ضرورت کی بنا پر قرض لیا مگر وہ عسرت کی وجہ سے قرض واپس نہ کرسکا۔ تو اسے صدقات میں سے اتنا مال عطا کیا جائے جس سے اس کے ذمہ سے قرض ادا ہوجائے۔
(٧)اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے۔ یہ وہ مجاہدین ہیں جو رضا کارانہ جہاد میں شریک ہوتے ہیں جن کا نام باقاعدہ فوج میں درج نہیں۔ ان کو زکوٰۃ کی مد سے اتنا مال عطا کیا جاسکتا ہے جو جہاد میں اس کی سواری، اسلحہ اور اس کے اہل و عیال کی کفالت کے لئے کافی ہوتا کہ وہ اطمینان قلب کے ساتھ پوری طرح سے جہاد میں شریک ہو سکے۔
بہت سے فقہاء یہ کہتے ہیں کہ اگر روزی کمانے پر قدرت رکھنے والا شخص اپنے آپ کو طلب علم کے لئے وقف کر دے تو اسے بھی زکوٰۃ میں سے مال دیا جائے۔ کیونکہ حصول علم بھی جہاد سبیل اللہ کے زمرے میں آتا ہے، نیز بعض فقہا کہتے ہیں کہ کسی فقیر کو فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے زکوٰۃ میں سے مال عطا کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ قول محل نظر ہے۔
[لیکن ان کی بنیاد سنن ابی داؤد وغیرہ کی ایک روایت ہے جس کی رو سے حج و عمرہ پر زکوٰۃ کی رقم صرف کرنے کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے لیکن اس میں عمرہ کے ذکر کو شاذ قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو، اور اء الغلیل 3؍ 372) علاوہ ازیں صحابہ میں سے حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم اور ائمہ میں سے امام احمد و امام اسحاق رحمتہ اللہ علیہم وغیرہ بھی اس کے قائل ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیے، راقم کی کتاب ” زکوٰۃ، عشر اور صدقتہ الفطر۔“ ص 103۔104مطبوعہ دار السلام (ص۔ ی)]
(٨) مسافر،اور یہاں مسافر سے مراد وہ غریب الوطن ہے جو اپنے وطن سے دور پردیس میں منقطع ہو کر رہ گیا ہو۔ اسے زکوٰۃ کی مد میں سے اتنا مال عطا کیا جاسکتا ہے جو اسے اپنے وطن پہنچانے کے لئے کافی ہو۔
یہ آٹھ قسم کے لوگ ہیں صرف انہی کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ﴿ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّـهِ﴾ ” اللہ کی طرف سے مقرر کردیئے گئے ہیں۔“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کو فرض اور مقرر کیا ہے اور فریضہ زکوٰۃ اس کے علم اور اس کی حکمت کے تابع ہے۔ واضح رہے کہ صدقات کے یہ آٹھ مصارف دو امور کی طرف راجع ہیں۔
(1) وہ شخص جسے اس کی حاجت اور فائدے کے لئے زکوۃ دی جاتی ہے’ مثلاً فقیر اور مسکین وغیرہ۔
(2) وہ شخص جسے اس لئے زکوٰۃ دی جاتی ہے کہ مسلمانوں کو اس کی ضرورت و حاجت ہوتی ہے اور اسلام کو اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مال داروں کے مال میں سے یہ حصہ عوام و خواص، اسلام اور مسلمانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے مقرر کیا ہے۔ مگر مال دار لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ صحیح معنوں میں شرعی طریقے سے ادا کریں، تو مسلمانوں میں کوئی فقیر نہ رہے اور اسی طرح زکوٰۃ سے اتنا مال جمع ہوسکتا ہے جس سے سرحدوں کی حفاظت، کفار کے ساتھ جہاد اور دیگر تمام دینی مصالح کا انتظام ہوسکتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
sadqaat to darasal haq hai faqeeron ka , miskeeno ka , aur unn ehalkaaron ka jo sadqaat ki wasooli per muqarrar hotay hain , aur unn ka jinn ki dildari maqsood hai . neez unhen ghulamon ko azad kernay mein , aur qarz daaron kay qarzay ada kernay mein , aur Allah kay raastay mein , aur musfiron ki madad mein , kharch kiya jaye . yeh aik fareeza hai Allah ki taraf say ! aur Allah ilm ka bhi malik hai , hikmat ka bhi malik .
12 Tafsir Ibn Kathir
زکوۃ اور صدقات کا مصرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں بلکہ اللہ کے حکم کے تحت ہے ؟
اوپر کی آیت میں ان جاہل منافقوں کا ذکر تھا جو ذات رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تقسیم صدقات میں اعتراض کر بیٹھتے تھے۔ اب یہاں اس آیت میں بیان فرما دیا کہ تقسیم زکوٰۃ پیغمبر کی مرضی پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے بتائے ہوئے مصارف میں ہی لگتی ہے۔ ہم نے خود اس کی تقسیم کردی ہے کسی اور کے سپرد نہیں کی ابو داؤد میں ہے زیاد بن حارث صدائی (رض) فرماتے ہیں میں نے سرکار نبوت میں حاضر ہو کر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ایک شخص نے آن کر آپ سے سوال کیا کہ مجھے صدقے میں سے کچھ دلوائیے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نبی غیر نبی کسی کے حکم پر تقسیم زکوٰۃ کے بارے میں راضی نہیں ہوا یہاں تک کہ خود اس نے تقسیم کردی ہے آٹھ مصرف مقرر کردیئے ہیں اگر تو ان میں سے کسی میں ہے تو میں تجھے دے سکتا ہوں۔ امام شافعی وغیرہ تو فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کے مال کی تقسیم ان آٹھوں قسم کے تمام لوگوں پر کرنی واجب ہے اور امام مالک وغیرہ کا قول ہے کہ واجب نہیں بلکہ ان میں سے کسی ایک کو ہی دے دینا کافی ہے گو اور قسم کے لوگ بھی ہوں۔ عام اہل علم کا قول بھی یہی ہے آیت میں بیان مصرف ہے نہ کہ ان سب کو دینے کا وجوب کا ذکر۔ ان اقوال کی دلیلوں اور مناظروں کی جگہ یہ کتاب نہیں واللہ اعلم۔ فقیروں کو سب سے پہلے اس لئے بیان فرمایا کہ ان کی حاجت بہت سخت ہے۔ گو امام ابوحنیفہ کے نزدیک مسکین فقیر سے بھی برے حال والا ہے حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جس کے ہاتھ تلے مال نہ ہو اسی کو فقیر نہیں کہتے بلکہ فقیر وہ بھی ہے جو محتاج ہو گرا پڑا ہو گو کچھ کھاتا کماتا بھی ہو۔ ابن علیہ کہتے ہیں اس روایت میں اخلق کا لفظ ہے اخلق کہتے ہیں ہمارے نزدیک تجارت کو لیکن جمہور اس کے برخلاف ہیں۔ اور بہت سے حضرات فرماتے ہیں فقیر وہ ہے جو سوال سے بچنے والا ہو اور مسکین وہ ہے جو سائل ہو لوگوں کے پیچھے لگنے والا اور گھروں اور گلیوں میں گھومنے والا۔ قتادہ کہتے ہیں فقیر وہ ہے جو بیماری والا ہو اور مسکین وہ ہے جو صحیح سالم جسم والا ہو۔ ابراہیم کہتے ہیں مراد اس سے مہاجر فقراء ہیں سفیان ثوری کہتے ہیں یعنی دیہاتیوں کو اس میں سے کچھ نہ ملے۔ عکرمہ کہتے ہیں مسلمانوں فقراء کو مساکین نہ کہو۔ مسکین تو صرف اہل کتاب کے لوگ ہیں۔ اب وہ حدیثیں سنئے جو ان آٹھوں قسموں کے متعلق ہیں۔
فقراء۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں صدقہ مال دار اور تندرست توانا پر حلال نہیں۔ کچھ شخصوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صدقے کا مال مانگا آپ نے بغور نیچے سے اوپر تک انہیں ہٹا کٹا قوی تندرست دیکھ کر فرمایا گر تم چاہو تو تمہیں دے دوں مگر امیر شخص کا اور قوی طاقت اور کماؤ شخص کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔ مساکین، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں مسکین یہی گھوم گھوم کر ایک لقمہ دو لقمے ایک کھجور دو کھجور لے کر ٹل جانے والے ہی نہیں۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ پھر مساکین کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا جو بےپرواہی کے برابر نہ پائے نہ اپنی ایسی حالت رکھے کہ کوئی دیکھ کر پہچان لے اور کچھ دے دے نہ کسی سے خود کوئی سوال کرے۔ صدقہ وصول کرنے والے یہ تحصیل دار ہیں انہیں اجرت اسی مال سے ملے گی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت دار جن پر صدقہ حرام ہے اس عہدے پر نہیں آسکتے۔ عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث اور فضل بن عباس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہ درخواست لے کر گئے کہ ہمیں صدقہ وصولی کا عامل بنا دیجئے۔ آپ نے جواب دیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صدقہ حرام ہے یہ تو لوگوں کا میل کچیل ہے۔ جنکے دل بہلائے جاتے ہیں۔ ان کی کئی قسمیں ہیں بعض کو تو اس لئے دیا جاتا ہے کہ وہ اسلام قبول کرلیں جیسے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفوان بن امیہ کو غنیمت حنین کا مال دیا تھا حالانکہ وہ اس وقت کفر کی حالت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلا تھا اس کا اپنا بیان ہے کہ آپ کی اس داد و دہش نے میرے دل میں آپ کی سب سے زیادہ محبت پیدا کردی حالانکہ پہلے سب سے بڑا دشمن آپ کا میں ہی تھا۔ بعض کو اس لئے دیا جاتا ہے کہ ان کا اسلام مضبوط ہوجائے اور ان کا دل اسلام پر لگ جائے۔ جیسے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنین والے دن مکہ کے آزاد کردہ لوگوں کے سرداروں کو سو سو اونٹ عطا فرمائے اور ارشاد فرمایا کہ میں ایک کو دیتا ہوں دوسرے کو جو اس سے زیادہ میرا محبوب ہے نہیں دیتا اس لئے کہ ایسا نہ ہو کہ یہ اوندھے منہ جہنم میں گرپڑے۔ ایک مرتبہ حضرت علی (رض) نے یمن سے کچا سونا مٹی سمیت آپ کی خدمت میں بھیجا تو آپ نے صرف چار شخصوں میں ہی تقسیم فرمایا۔ اقرع بن حابس، عینیہ بن بدر، عقلمہ بن علاچہ اور زید خیر اور فرمایا میں ان کی دلجوئی کے لئے انہیں دے رہا ہوں۔ بعض کو اس لئے بھی دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آس پاس والوں سے صدقہ پہنچائے یا آس پاس کے دشمنوں کی نگہداشت رکھے اور انہیں اسلامیوں پر حملہ کرنے کا موقعہ نہ دے ان سب کی تفصیل کی جگہ احکام و فروع کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر واللہ اعلم۔ حضرت عمر رضٰ اللہ عنہ اور عمار شعبی اور ایک جماعت کا قول ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد اب یہ مصرف باقی نہیں رہا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت دے دی ہے مسلمان ملکوں کے مالک بن گئے ہیں اور بہت سے بندگان اللہ ان کے ماتحت ہیں۔ لیکن اور بزرگوں کا قول ہے کہ اب بھی مولفتہ القلوب کو زکوٰۃ دینی جائز ہے۔ فتح مکہ اور فتح ہوازن کے بعد بھی حضور علیہ الصلوۃ والتسلیم نے ان لوگوں کو مال دیا۔ دوسرے یہ کہ اب بھی ایسی ضرورتیں پیش آ جایا کرتی ہیں۔ آزادگی گردن کے بارے میں بہت سے بزرگ فرماتے ہیں کہ مراد اس سے وہ غلام ہیں جنہوں نے رقم مقرر کر کے اپنے مالکوں سے اپنی آزادگی کی شرط کرلی ہے انہیں مال زکوٰۃ سے رقم دی جائے کہ وہ ادا کر کے آزاد ہوجائیں اور بزرگ فرماتے ہیں کہ وہ غلام جس نے یہ شرط نہ لکھوائی ہو اسے بھی مال زکوٰۃ سے خرید کر آزاد کرنے میں کوئی ڈر خوف نہیں۔ غرض مکاتب غلام اور محض غلام دونوں کی آزادگی زکوٰۃ کا ایک مصرف ہے احادیث میں بھی اس کی بہت کچھ فضیلت وارد ہوئی ہے یہاں تک کہ فرمایا ہے کہ آزاد کردہ غلام کے ہر ہر عضو کے بدلے آزاد کرنے والے کا ہر ہر عضو جہنم سے آزاد ہوجاتا ہے یہاں تک کہ شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ بھی۔ اس لئے کہ ہر نیکی کی جزا اسی جیسی ہوتی ہے قرآن فرماتا ہے تمہیں وہی جزا دی جائے گی وہ تم نے کیا ہوگا۔ حدیث میں ہے تین قسم کے لوگوں کی مدد اللہ کے ذمے حق ہے وہ غازی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہو وہ مکاتب غلام اور قرض دار جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہو وہ نکاح کرنے والا جس کا ارادہ بدکاری سے محفوظ رہنے کا ہو کسی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دور کر دے آپ نے فرمایا نسمہ آزاد کر اور گردن خلاصی کر۔ اس نے کہا کہ یہ دونوں ایک ہی چیز نہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں نسمہ کی آزادگی یہ ہے کہ تو اکیلا ہی کسی غلام کو آزاد کر دے۔ اور گردن خلاصی یہ ہے کہ تو بھی اس میں جو تجھ سے ہو سکے مدد کرے۔ قرض دار کی بھی کئی قسمیں ہیں ایک شخص دوسرے کا بوجھ اپنے اوپر لے لے کسی کے قرض کا اپنا ضامن بن جائے پھر اس کا مال ختم ہوجائے یا وہ خود قرض دار بن جائے یا کسی نے برائی پر قرض اٹھایا ہو اور اب وہ توبہ کرلے پس انہیں بھی مال زکوٰۃ دیا جائے گا کہ یہ قرض ادا کردیں۔ اس مسئلے کی اصل قبیصہ بن مخارق ہلالی کی یہ روایت ہے کہ میں نے دوسرے کا حوالہ اپنی طرف لیا تھا پھر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا تم ٹھہرو ہمارے پاس مال صدقہ آئے گا ہم اس میں سے تمہیں دیں گے پھر فرمایا قبیصہ سن تین قسم کے لوگوں کو ہی سوال حلال ہے ایک تو وہ جو ضامن پڑے پس اس رقم کے پورا ہونے تک اسے سوال جائز ہے پھر سوال نہ کرے۔ دوسرا وہ جس کا مال کسی آفت ناگہانی سے ضائع ہوجائے اسے بھی سوال کرنا درست ہے یہاں تک کہ ضرورت پوری ہوجائے۔ تیسرا وہ شخص جس پر فاقہ گذرنے لگے اور اس کی قسم کے تین ذی ہوش لوگ اس کی شہادت کے لئے کھڑے ہوجائیں کہ ہاں بیشک فلاں شخص پر فاقے گذرنے لگے ہیں اسے بھی مانگ لینا جائز ہے تاوقتیکہ اس کا سہارا ہوجائے اور سامان زندگی مہیا ہوجائے۔ اس کے سوا اوروں کو سوال کرنا حرام ہے اگر وہ مانگ کر کچھ لے کر کھائیں گے تو حرام کھائیں گے (مسلم شریف) ایک شخص نے زمانہ نبوی میں ایک باغ خریدا قدرت الہٰی سے آسمانی آفت سے باغ کا پھل مارا گیا اس سے وہ بہت قرض دار ہوگیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا کہ تمہیں جو ملے لے لو اس کے سوا تمہارے لئے اور کچھ نہیں۔ (مسلم) آپ فرماتے ہیں کہ ایک قرض دار کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بلا کر اپنے سامنے کھڑا کر کے پوچھے گا کہ تو نے قرض کیوں لیا اور کیوں رقم ضائع کردی ؟ جس سے لوگوں کے حقوق برباد ہوئے وہ جواب دے گا کہ اللہ تجھے خوب علم ہے میں نے نہ اس کی رقم کھائی نہ پی نہ اڑائی بلکہ میرے ہاں مثلاً چوری ہوگئی یا آگ لگ گئی یا کوئی اور آفت آگئی اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرا بندہ سچا ہے آج تیرے قرض کے ادا کرنے کا سب سے زیادہ مستحق میں ہی ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ کوئی چیز منگوا کر اس کی نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دے گا جس سے نیکیاں برائیوں سے بڑھ جائیں گی اور اللہ تبارک و تعالیٰ اسے اپنے فضل و رحمت سے جنت میں لے جائے گا (مسند احمد) ۔ راہ الہٰی میں وہ مجاہدین غازی داخل ہیں جن کا دفتر میں کوئی حق نہیں ہوتا۔ حج بھی راہ الٰہی میں داخل ہے۔ مسافر جو سفر میں بےسروسامان رہ گیا ہو اسے بھی مال زکوٰۃ سے اپنی رقم دی جائے جس سے وہ اپنے شہر سے سفر کو جانے کا قصد رکھتے ہوں لیکن مال نہ ہو تو اسے بھی سفر خرچ مال زکوٰۃ سے دینا جائز ہے جو اسے آمد و رفت کے لئے کافی ہو۔ آیت کے اس لفظ کی دلیل کے علاوہ ابو داؤد وغیرہ کی یہ حدیث بھی اس کی دلیل ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مالدار پر زکوٰۃ حرام ہے بجز پانچ قسم کے مالداروں کے ایک تو وہ جو زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر ہو دوسرا وہ جو مال زکوٰۃ کی کسی چیز کو اپنے مال سے خرید لے تیسرا قرض دار چوتھا راہ الٰہی کا غازی مجاہد، پانچواں وہ جسے کوئی مسکین بطور تحفے کے اپنی کوئی چیز جو زکوٰۃ میں اسے ملی ہو دے اور روایت ہے کہ زکوٰۃ مالدار کے لئے حلال نہیں مگر فی سبیل اللہ جو ہو یا سفر میں ہو اور جسے اس کا کوئی مسکین پڑوسی بطور تحفے ہدیئے کے دے یا اپنے ہاں بلا لے۔ زکوٰۃ کے ان آٹھوں مصارف کو بیان فرما کر پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے فرض ہے یعنی مقدر ہے اللہ کی تقدیر اس کی تقسیم اور اس کا فرض کرنا۔ اللہ تعالیٰ ظاہر باطن کا عالم ہے اپنے بندوں کی مصلحتوں سے واقف ہے۔ وہ اپنے قول فعل شریعت اور حکم میں حکمت والا ہے بجز اس کے کوئی بھی لائق عبادت نہیں نہ اس کے سوا کوئی کسی کا پالنے والا ہے۔