الضحیٰ آية ۱
وَالضُّحٰىۙ
طاہر القادری:
قَسم ہے چاشت کے وقت کی (جب آفتاب بلند ہو کر اپنا نور پھیلاتا ہے)۔ (یا:- اے حبیبِ مکرّم!) قَسم ہے چاشت (کی طرح آپ کے چہرۂ انور) کی (جس کی تابانی نے تاریک روحوں کو روشن کر دیا)۔ (یا:- قَسم ہے وقتِ چاشت (کی طرح آپ کے آفتابِ رِسالت کے بلند ہونے) کی (جس کے نور نے گمراہی کے اندھیروں کو اجالے سے بدل دیا)،
English Sahih:
By the morning brightness .
1 Abul A'ala Maududi
قسم ہے روز روشن کی
2 Ahmed Raza Khan
چاشت کی قسم
3 Ahmed Ali
دن کی روشنی کی قسم ہے
4 Ahsanul Bayan
قسم ہے چاشت کے وقت کی (١)
١۔١ چاشت اس وقت کو کہتے ہیں، جب سورج بلند ہوتا ہے۔ یہاں مراد پورا دن ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
آفتاب کی روشنی کی قسم
6 Muhammad Junagarhi
قسم ہے چاشت کے وقت کی
7 Muhammad Hussain Najafi
قَسم ہے روزِ روشن کی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
قسم ہے ایک پہر چڑھے دن کی
9 Tafsir Jalalayn
آفتاب کی روشنی کی قسم
ترجمہ :۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، قسم ہے شروع دن کی یا پورے دن کی اور قسم ہے رات کی جب وہ اپنی تاریکی کے ساتھ چھا جائے یا پرسکون ہوجائے (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) تمہارے رب نے تم کو ہرگز نہیں چھوڑا اور نہ وہ آپ سے ناراض ہوا یہ سورت اس وقت نازل ہوئی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پندرہ روز تک وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا تو کفار نے کہا تھا کہ : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو اس کے رب نے چھوڑ دیا اور اس سے نارضا ہوگیا اور یقینا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے آخرت دنیا سے بہتر ہے اس لئے کہ آخرت میں (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے) عظمتیں ہیں اور عنقریب یقینا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آخرت میں خیر سے اور بےانتہا انعامات سے نوازے گا، کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے خوش ہوجائیں گے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تب تو میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گا جب تک میرا ایک امتی بھی دوزخ میں رہے گا، یہاں تک جواب قسم دو منفی انعاموں کے بعد دو مثبت انعاموں پر ختم ہوگیا، کیا اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یتیم نہیں پایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد کے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت یا اس کے بعد فوت ہوجانے کی وجہ سے اور پھر ٹھکانہ فراہم کیا ؟ استفہام تقریر کے لئے ہے یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یتیم پایا اس طریقہ پر کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو طالب کے ساتھ ملا دیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس شریعت سے بیخبر پایا جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب ہیں تو اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس کی طرف رہنمائی فرمائی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نادار پایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مستغنی کردیا اس مال غنیمت وغیرہ کے ذریعہ جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قناعت کی اور حدیث میں ہے غ نا مال و متاع کی کثرت سے نہیں ہے بلکہ غنا تو دل کا غنا ہوتا ہے، لہٰذا تم بھی یتیم پر اس کا مال وغیرہ لے کر سختی نہ کرنا اور نہ سائل کو فقر کی وجہ سے جھڑکنا اور اپنے اوپر اپنے رب کی نبوت وغیرہ نعمتوں کو ظاہر کرتے رہنا بیان کرتے رہنا اور بعض افعال سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (طرف لوٹنے والی) ضمیریں فواصل کی رعایت کی وجہ سے حذف کردی گئی ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ضحیٰ دن چڑھے، چاشت کا وقت، ضحیٰ مذکر و مئونث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔
قولہ : سجی (نصر) سے ماضی واحد مذکر غائب، اس نے سکون پایا، وہ چھا گیا۔
قولہ : وما قلی یہ اصل میں قلک تھا، مفعول بہ کو ماقبل پر قیاس کرتے ہوئے حذف کردیا۔
قولہ : قلی (ض ن) ماضی واحد مذکر غائب سخت نفرت کرنا۔
قولہ : جزیل بہت زیادہ، کثیر۔
قولہ : تم جواب القسم بمثبتین بعد المنفقین جواب قسم ماودع سے شروع ہو کر فترضی پر ختم ہوا ہے، اس میں چار چیزوں کا بیان ہے اول دو یعنی ماودع اور وما قلی منفی ہیں اور اس کے بعد ولاخرۃ خیر لک من الاولی اور لسوف یعطیک ربک فترضیٰ اس میں دو چیزوں کا بیان ہے یعنی خیر آخرت اور اعطاء رب اور یہ دونوں مثبت ہیں۔
قولہ : فاما الیتیم فلاتقھر، الیتیم فلا تقھر کی وجہ سے منصوب (مفعول بہ مقدم) ہے۔
قولہ : وحذف ضمیرہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی بعض الافعال رعایۃ للفواصل اور وہ تین افعال ہیں، (١) ینی فاوی اصل میں فائوک تھا (٢) فھدی ای فھداک (٣) فاغنی ای فاغنک تھا، مذکورہ تینوں افعال میں سے ضمیر مفعولی کو فواصل کی رعایت کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے۔
تفسیر و تشریح
شان نزول :
اس سورت کے سبب نزول کے متعلق بخاری و مسلم میں حضرت جندب بن عبد اللہ (رض) کی روایت سے آیا ہے اور ترمذی نے حضرت جندب سے روایت کیا ہے کہ ایک مرتبہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک انگلی زخمی ہوگئی اس سے خون جاری ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
ھل انت الا اصبع دمیت وفی سبیل اللہ مالقیت
” یعنی تو ایک انگلی ہی تو ہے جو خون آلود ہوگئی اور جو تکلیف تجھے پہنچی وہ اللہ کی راہ میں ہے “ (اس لئے کیا غم ہے ؟ ) حضرت جندب (رض) نے یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ اس واقعہ کے بعد (کچھ روز) جبرئیل امین (علیہ الصلوۃ والسلام) جی لے کر نہیں آئے تو مشرکین مکہ نے یہ طعنہ دینا شروع کردیا کہ محمد (ﷺ) کو ان کے خدا نے چھوڑ دیا اور ناراض ہوگیا، اس پر یہ سورت نازل ہوئی، حضرت جندب (رض) کی روایت جو بخاری میں ہے اس میں ایک دورات تہجد کے لئے نہ اٹھنے کا ذکر ہے، وحی کی تاخیر کا ذکر نہیں اور ترمذی میں تہجد میں ایک دورات نہ اٹھنے کا ذکر نہیں صرف وحی میں تاخیر کا ذکر ہے، ظاہر ہے کہ ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہوسکتا ہے کہ دونوں باتیں پیش آئی ہوں، راوی نے کبھی ایک کو بیان کیا اور کبھی دوسرے کو اور جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طنہ دیا وہ ابولہب کی بیوی ام جمیل تھی، جیسا کہ دوسری روایت میں اس کی صراحت موجود ہے اور تاخیر وحی کے واقعات متعدد مرتبہ پیش آئے ہیں ایک شروع نزول قرآن کے وقت پیش آیا جس کو مانہ فترت وجحی کہا جاتا ہے، یہ سب سے زیادہ طویل تھا ایک واقعہ تاخیر وحی کا اس وقت پیش آیا جب کہ مشرکین اور یہود نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روح کی حقیقت کے متعلق سوال کیا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعد میں جواب دینے کا وعدہ فرمایا تھا، مگر انشاء اللہ نہ کہنے کی وجہ سے کچھ روز تک سلسلہ وحی بند رہا اس پر مشرکین نے یہ طعنہ دینا شروع کردیا کہ محمد (ﷺ) کا خدا ان سے نارضا ہوگیا اور ان کو چھوڑ دیا اسی طرح کا یہ واقعہ ہے جو سورة ضحیٰ کے نزول کا سبب ہوا یہ ضروری نہیں کہ یہ سب واقعات ایک ہی زمانہ میں پیش آئے ہوں، بلکہ آگے پیچھے بھی ہوسکتے ہیں۔ (معارف)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی عنایت پر دن کی قسم کھائی ہے ، جب چاشت کے وقت اس کی روشنی پھیل جائے اور رات کی قسم کھائی ہے ، جب وہ ٹھہر جائے اور اس کی تاریکی چھا جائے۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! ) qasam hai charrhtay din ki roshni ki ,
12 Tafsir Ibn Kathir
مسند احمد میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار ہوگئے اور ایک یا دو راتوں تک آپ تہجد کی نماز کے لیے نہ اٹھ سکے تو ایک عورت کہنے لگی کہ تجھے تیرے شیطان نے چھوڑ دیا اس پر یہ اگلی آیتیں نازل ہوئیں (بخاری مسلم وغیرہ) حضرت جندب فرماتے ہیں کہ جبرائیل کے آنے میں کچھ دیر ہوئی تو مشرکین کہنے لگے کہ یہ تو چھوڑ دئیے گئے تو اللہ تعالیٰ نے والضحٰی سے ماقلفی تک کی آیتیں اتاریں، اور روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگلی پر پتھر مارا گیا تھا جس سے خون نکلا اور جس پر آپ نے فرمایا :
ھل انت الا اصبع دمیت وفی سبیل اللہ ما لقیت
یعنی تو صرف ایک انگلی ہے اور راہ اللہ میں تجھے یہ زخم لگا ہے۔
طبعیت کچھ ناساز ہوجانے کی وجہ سے دو تین رات آپ بیدار نہ ہوئے جس پر اس عورت نے وہ ناشائستہ الفاظ نکالے اور یہ آیتیں نازل ہوئیں کہا گیا ہے کہ یہ عورت ابو لہب کی بیوی ام جمیل تھی اس پر اللہ کی مار، آپ کی انگلی کا زخمی ہونا، اور اس موزوں کلام کا بےساختہ زبان مبارک سے ادا ہونا تو بخاری و مسلم میں بھی ثابت ہے لیکن ترک قیام کا سبب اسے بتانا اور اس پر ان آیتوں کا نازل ہونا یہ غریب ہے، ابن جریر میں ہے کہ حضرت خدیجہ (رض) نے کہا تھا کہ آپ کا رب آپ سے نہیں ناراض نہ ہوگیا ہو ؟ اس پر یہ آیتیں اتریں۔ اور روایت میں ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) کے آنے میں دیر ہوئی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت گھبرائے اس پر حضرت خضرت خدیجہ نے یہ سبب بیان کیا اور اس پر یہ آیتیں اتریں، یہ دونوں آیتیں مرسل ہیں اور حضرت خدیجہ کا نام تو اس میں محفوظ نہیں معلوم ہوتا ہاں یہ ممکن ہے کہ ام المومنین نے افسوس اور رنج کے ساتھ یہ فرمایا، واللہ اعلم، ابن اسحاق اور بعض سلف نے فرمایا ہے کہ جب حضرت جبرائیل اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہوئے تھے اور بہت ہی قریب ہوگئے تھے اس وقت اسی سورت کی وحی نازل فرمائی تھی۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ وحی کے رک جانے کی بنا پر مشرکین کے اس ناپاک قول کی تردید میں یہ آیتیں اتریں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نیدھوپ پڑھنے کے وقت دن کی روشنی، اور رات کے سکون اور اندھیرے کی قسم کھائی جو قدرت اور خلق خالق کی صاف دلیل ہے۔ جیسے اور جگہ ہے۔ ( وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى ۙ ) 92 ۔ اللیل :1) اور جگہ ہے ( فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ۚ 96) 6 ۔ الانعام :96) ، مطلب یہ ہے کہ اپنی اس قدرت کا یہاں بھی بیان کیا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ تیرے رب نے نہ تو تجھے چھوڑا نہ تجھ سے دشمنی کی، تیرے لیے آخرت اس دنیا سے بہت بہتر ہے۔ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا میں سب سے زیادہ زاہد تھے۔ اور سب سے زیادہ تارک دنیا تھے، آپ کی سیرت کا مطالعہ کرنے والے پر یہ بات ہرگز مخفی نہیں رہ سکتی۔ مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بورئیے پر سوئے، جسم مبارک پر بورئیے کے نشان پڑگئے۔ جب بیدار ہوئے تو میں آپ کی کروٹ پر ہاتھ پھیر نے لگا اور کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں کیوں اجازت نہیں دیتے کہ اس بورئیے پر کچھ بچھا دیا کریں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے دنیا سے کیا واسطہ ؟ میں کہاں دنیا کہاں ؟ میری اور دنیا کی مثال تو اس راہرو سوار کی طرح ہے جو کسی درخت تلے ذرا سی دیر ٹھہر جائے پھر اسے چھوڑ کر چل دے۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور حسن ہے پھر فرمایا تیرا رب تجھے آخرت میں تیری امت کے بارے میں اس قدر نعمتیں دے گا کہ خوش ہوجائے ان کی بڑی تکریم ہوگی اور آپ کو خاص کر کے حوض کوثر عطا فرمایا جائے گا۔ جس کے کا نرے کھوکھوکھلے موتیوں کے خیمے ہوں گے جس کی مٹی خالص مشک کی ہوگی، یہ حدیثیں عنقریب آرہی ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ایک روایت میں ہے کہ جو خزانے آپ کی امت کو ملنے والے تھے وہ ایک ایک کرکے آپ کو بتا دئیے گئے۔ آپ بہت خوش ہوئے اس پر یہ آیت اتری۔ جب ایک ہزار محل آپ کو دئیے گئے ہر ہر محل میں پاک بیویاں اور بہترین غلام ہیں۔ ابن عباس تک اس کی سند صحیح ہے اور بہ ظاہر ایسی بات بغیر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنے روایے نہیں ہوسکتی۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضامندی میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کے اہل بیت میں سے کوئی دوزخ میں نہ جائے۔ حسن فرماتے ہیں اس سے مراد شفاعت ہے۔ ابن ابی شیبہ میں ہے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہم وہ لوگ ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے آخرت دنیا پر پسند کرلی ہے، پھر آپ نے آیت ولسوف کی تلاوت فرمائی۔ کہ آپ کی یتیمی کی حالت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کا بچاؤ کیا۔ اور آپ کی حفاظت کی اور پرورش کی اور مقام و مرتبہ عنایت فرمایا۔ آپ کے والد کا انتقال تو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی ہوچکا تھا یعض کہتے ہیں ولادت کے بعد ہوا چھ سال کی عمر میں والدہ صاحبہ کا بھی انتقال ہوگیا۔ اب آپ دادا کی کفالت میں تھے لیکن جب آٹھ سال کی آپ کی عمر ہوئی تو دادا کا سایہ بھی اٹھ گیا۔ اب آپ اپنے چچا ابو طالب کی پرورش میں آئے، ابو طالب دل و جان سے آپ کی نگرانی اور امداد میں رہے۔ آپ کی پوری عزت و توقیر کرتے اور قوم کی مخالفت کے چڑھتے طوفان کو روکتے رہتے تھے اور اپنی جان کو بطور ڈھال کے پیش کردیا کرتے تھے۔ کیونکہ چالیس سال کی عمر میں آپ کو نبوت مل چکی تھی اور قریش سخت تر مخالفت بلکہ دشمن جان ہوگئے تھے ابو طالب باوجود بت پرست مشرک ہونے کے آپ کا ساتھ دیتا تھا۔ اور مخالفین سے لڑتا بھڑتا رہتا تھا۔ یہ تھی منجانب اللہ حسن تدبیر کہ آپ کی یتیمی کے ایام اسی طرح گذرے اور مخالفین سے آپ کی خدمت اس طرح لی، یہاں تک کہ ہجرت سے کچھ پہلے ابو طالب بھی فوت ہوگئے، اب سفہاء و جہلا قریش اٹھ کھڑے ہوئے تو پروردگار عالم نے آپ کو مدینہ تشریف کی طرف ہجرت کرنے کی رخصت عطا فرمائی اور اوس و خزرج جیسی قوموں کو آپ کا انصاد بنادیا۔ ان بزرگون نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو جگہ دی۔ مدد کی، حفاظت کی اور مخالفین سے سینہ سپر ہو کر مردانہ وار لڑائیاں کیں۔ اللہ ان سب سے خوش رہے۔ یہ سب کا سب اللہ کی حفاظت اور اس کی عنایت احسان اور اکرام سے تھا۔ پھر فرمایا کہ راہ بھولا پاکر صحیح راستہ دکھا دیا جیسے اور جگہ ہے ما کنت تدری ما الکتاب ولا الایمان الخ یعنی اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے تمہاری طرف روح کی وحی کی۔ تم یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ایمان کیا ہے ؟ تمہیں نہ کتاب کی خبر تھی بلکہ ہم نے اسے نور بنا کر جسے چاہا ہدایت کردی۔ بعض کہتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بچپن میں مکہ کی گلیوں میں گم ہوگئے تھے اس وقت اللہ نیلوٹا دیا۔ بعض کہتے ہیں شام کی طرف اپنے چچا کے ساتھ جاتے ہوئے رات کو شیطان نے آپ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ کر راہ سے ہٹا کر جنگل میں ڈال دیا۔ پس جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور پھونک مار کر شیطان کو تو حبشہ میں ڈال دیا اور سواری کو راہ لگا دیا۔ بگوی نے یہ دونوں قول نقل کئے ہیں پھر فرماتا ہے کہ بال بچوں والے ہوتے ہوئے تنگ دست پاکر ہم نے آپ کو غنی کردیا، پس فقیر صابر اور غنی شاکر ہونے کے درجات آپ کو مل گئے۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں یہ سب حال نبوت سے پہلے کے ہیں بخاوی و مسلم وغیرہ میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تونگری مال و اسباب کی زیادتی سے نہیں بلکہ حقیقی تونگری وہ ہے جس کا دل بےپرواہ ہو۔ صحیح مسلم شریف میں ہے اس نے فلاح پالی جسے اسلام نصیب ہوا اور جو کافی ہوا، اتنا رزت بھی ملا اللہ کے دئیے ہوئے پر قناعت کی توفیق بھی ملی، پھر فرمایا ہے کہ یتیم کو حقیر جان کر نہ ڈانٹ ڈپٹ کر بلکہ اس کے ساتھ احسان و سلوک کر اور اپنی یتیمی کو نہ بھول، قتادہ فرماتے ہیں یتیم کے لیے ایسا ہوجانا چاہیے جیسے سگا باپ اولاد پر مہربان ہوتا ہے، سائل کو نہ جھڑک جس طرح تم بےراہ تھے اور اللہ نے ہدایت دی تو اب جو تم سے علمی باتیں پوچھے صحیح راستہ دریافت کرے تو تم اسے ڈانٹ ڈپٹ نہ کرو، غریب مسکین ضعیف بندوں پر تکبر تجبر نہ کرو، انہیں ڈانٹو ڈپٹو نہیں برا بھلا نہ کہو سخت سست نہ بولو، اگر مسکین کو کچھ نہ کرو، تو بھی بھلا اچھا جواب دے۔ نرمی اور رحم کا سلوک کر، پھر فرمایا کہ اپنے رب کی نعمتیں بیان کرتے رہو۔ یعنی جس طرح تمہاری فقیری کو ہم نے تونگری سے بدل دیا، تم بھی ہماری ان نعمتوں کو بیان کرتے رہو، اسی لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعاؤں میں یہ بھی تھا واجعلنا شاکرین لنعمتک مثنین بھا علیک قابیلھا واتمھا علینا یعنی اللہ ہمیں اپنی نعمتوں کی شکر گذاری کرنے والا ان کی وجہ سے تیری ثنا بیان کرنے والا ان کا اقرار کرنے والا کردے اور ان نعمتوں کو ہم پورا کر دے۔ ابو نضرہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا یہ خیال تھا کہ تنعمتوں کی شکر گذاری میں یہ بھی داخل ہے کہ ان کا بیان ہو، مسند احمد کی حدیث میں ہے جس نے تھوڑے پر شکر نہ ادا کیا اس نے زیادہ پر بھی شکر نہیں کیا۔ جس نے لوگوں کی شکر گذاری نہ کی اس نے اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کیا۔ نعمتوں کا بیان بھی شکر ہے اور ان کا بیان نہ کرنا بھی ناشکری ہے، جماعت کے ساتھ رہنا رحمت کا سبب ہے اور تفرقہ عذاب کا باعث ہے، اس کی اسناد ضعیف ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت انس سے مروی ہے کہ مہاجرین نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! انصار سارا کا سارا اجر لے گئے فرمایا نہیں جب تک کہ تم ان کے لیے دعا کیا کرو اور ان کی تعریف کرتے رہو، ابو داؤد میں ہے اس نے اللہ کا شکر ادا نہ کیا جس نے بندوں کا شکر ادا نہ کیا۔ ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ جسے کوئی نعمت ملی اور اس نے اسے بیان کیا تو وہ شکر گذار ہے اور جس نے اسے چھپا یا اس نے ناشکری کی۔ اور روایت میں ہے کہ جسے کوئی عطیہ دیا جائے اسے چاہیے کہ اگر ہو سکے تو بدلہ اتار دے اگر نہ ہو سکے تو اس کی ثنا بیان کرے جس نے ثنا کی وہ شکر گذا ہوا اور جس نے اس نعمت کا اظہار نہ کیا اس نے ناشکری کی۔ (ابو داؤد) مجاہد فرماتے ہیں یہاں نعمت سے مراد نبوت ہے، ایک روایت میں ہے کہ قرآن مراد ہے، حضرت علی فرماتے ہیں طلب یہ ہے کہ جو بھلائی کی باتیں آپ کو معلوم ہیں وہ اپنے بھائیوں سے بھی بیان کرو، محمد بن اسحاق کہتے ہیں جو نعمت و کرامت نبوت کی تمہیں ملی ہے اسے بیان کرو اس کا ذکر کرو اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دو ۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے والوں میں سے جن پر آپ کو اطمینان ہوتا در پردہ سب سے پہلے پہل دعوت دینی شروع کی اور آپ کر نماز فرض ہوئی جو آپ نے ادا کی۔ سورة الضحیٰ کی تفسیر ختم ہوئی اللہ کے احسان پر اس کا شکر ہے۔