الکافرون آية ۱
قُلْ يٰۤاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَۙ
طاہر القادری:
آپ فرما دیجئے: اے کافرو!،
English Sahih:
Say, "O disbelievers,
1 Abul A'ala Maududi
کہہ دو کہ اے کافرو
2 Ahmed Raza Khan
تم فرماؤ اے کافرو،
3 Ahmed Ali
کہہ دو اے کافرو
4 Ahsanul Bayan
آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو (١)
١۔١ الکفرون میں الف لام جنس کے لیے ہے لیکن بطور خاص صرف ان کافروں سے خطاب ہے جن کی بابت اللہ کو علم تھا کہ ان کا خاتمہ کفر و شرک پر ہوگا۔ کیونکہ اس سورت کے نزول کے بعد کئی مشرک مسلمان ہوئے اور انہوں نے اللہ کی عبادت کی (فتح القدیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے پیغمبر ان منکران اسلام سے) کہہ دو کہ اے کافرو!
6 Muhammad Junagarhi
آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو!
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) آپ(ص) کہہ دیجئے اے کافرو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو
9 Tafsir Jalalayn
(اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان منکران اسلام سے کہہ دو کہ اے کافرو !
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجیے، اے کافرو ! نہ میں فی الحال ان بتوں کی بندگی کرتا ہوں جن کی تم بندگی کرتے ہو اور نہ فی الحال تم بندگی کرتے ہو اس کی جس کی میں بندگی کرتا ہوں اور وہ اللہ وحدہ ہے، اور نہ میں آئندہ بندگی کرنے والا ہوں جن کی تم بندگی کرتے اور نہ تم آئندہ بندگی کرنے والے ہو اس کی جس کی میں بندگی کرتا ہوں اللہ کو ان کے بارے میں علم تھا کہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں، اور ما کا اللہ پر اطلاق بطور مقابلہ ہے، تمہارے لئے تمہارا دین شرک ہے اور میرے لئے میرا دین اسلام ہے اور یہ حکم، جہاد کا حکم دیئے جانے سے پہلے کا ہے، اور قراء سبعۃ نے یاء اضافت کو قوفاً اور وصلاً حذف کردیا اور یعقوب نے دونوں حالتوں میں باقی رکھا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ایھا الکافرون اس کے مخاطب مخصوص کافر ہیں جن کے بارے میں اللہ کو علم تھا کہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
قولہ : فی الحال لفظ فی الحال حقیقی صورت حال پر دلالت کرنے کے لئے ہے، یعنی واقعہ یہی ہے کہ نہ میں تمہارے معبودوں کی بندگی کرتا ہوں اور نہ تم میرے معبود کی بندگی کرتے ہو۔
قولہ : فی الاستقبال، فی الاستقبال کا اضافہ ایک سوال مقدر کے جواب کے لئے ہے۔
سوال : آیت میں اعبد کی تکرار ہے جو کہ پسندیدہ نہیں ہے ؟
جواب : تکرار نہیں ہے، اس لئے کہ اول میں حال اور دوسرے میں استقبال مراد ہے۔
قولہ : علم اللہ منھم انھم لایومنون اس عبارت کے اضافہ کا مقصد بھی ایک سوال کا جواب دینا ہے۔
سوال : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین مکہ کے ایمان سے کیوں ناامید ہوگئے، حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تو ان کی ہدایت ہی کے لئے ہوئی تھی ؟ نیز آپ تو ان کے ایمان پر بہت زیادہ حریص تھے۔
جواب : ایمان نہ لانے کی اطلاع کچھ مخصوص کافروں کے بارے میں ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی بتلا دیا تھا کہ فلاں فلاں ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
قولہ : واطلاق ما، علی اللہ علی وجہ المقابلۃ یہ بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : سوال یہ ہے کہ ما، کا اطلاق غیر ذوی العقول پر ہوتا ہے نہ کہ ذوی العقول پر حالانکہ یہاں ما، کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے لئے ہوا ہے جو کہ خلاف ضابطہ ہے ؟
جواب : یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے، بلکہ بعض نحویین کے نزدیک ما، کا اطلاق ذوی العقول پر بھی درست ہے، لہٰذا اس صورت میں جواب کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے اور جن لوگوں کے یہاں ما، کا اطلاق ذوی العقول پر درست نہیں ہے تو ان کی طرف سے یہ جواب ہوگا کہ یہ مشاکلت کے طور پر استعمال ہوا ہے، چونکہ سابق میں بتوں کے لئے ما کا استعمال کیا گیا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے لئے بھی ما کا استعمال کیا گیا اور مشاکلت کی رعایت رکھنا فصاحت کے مقتضی کے عین مطابق ہے۔
تفسیر و تشریح
اس سورت کے فائل اور خواص :
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طواف کی دو رکعتوں اور فجر اور مغرب کی سنتوں میں ” قل یایھا الکافرون “ اور سورة اخلاص پڑھتے تھے، اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض صحابہ (رض) سے فرمایا کہ رات کو سوتے وقت یہ سورت پڑھ کر سوئو گے تو شرک سے بری قرار پائو گے۔ (مسند احمد، ترمذی)
حضرت جبیر بن مطعم (رض) فرمتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ جب تم سفر میں جائو تو وہاں تم اپنے سب رفقاء سے زیادہ خوش حال، با مراد ہو اور تمہارا سامان زیادہ ہوجائے ؟ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیشک میں ایسا چاہتا ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آخر قرآن کی پانچ سورتیں یعنی قل یایھا الکافرون سے آخر تک پڑھا کرو اور ہر سورت بسم اللہ سے شروع کرو اور بسم اللہ ہی پر ختم کرو، حضرت جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ اس وقت میرا حال یہ تھا کہ سفر میں اپنے دوسرے ساتھیوں کے بالمقابل قلیل الزاد اور خستہ حال ہوتا تھا، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس تعلیم پر عمل کیا، میں سب سے بہتر حال میں رہنے لگا۔ (مظھری، معارف)
حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچھونے کاٹ لیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانی اور نمک منگایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پانی اور نمک کاٹنے کی جگہ لگاتے جاتے تھے اور قل یایھا الکافرون، اور قل اعوذ برب الفلق، اور قل اعوذ برب الناس پڑھیت جاتے تھے۔ (مظھری معارف)
شان نزول :
ابن احساق کی روایت ابن عباس (رض) سے یہ ہے کہ ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، اسود بن عبدالمطلب اور امیہ بن خلف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا کہ آئو ہم اپٓس میں اس پر صلح کریں کہ ایک سال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے بتوں کی عبادت کریں اور ایک سال ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معبود کی عبادت کریں۔ (قرطبی)
اور طبرانی کی روایت حضرت ابن عباس (رض) سے یہ ہے کہ کفار نے اول تو باہمی مصالحت کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ صورت پیش کی کہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنا ملا دیتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سارے مکہ میں سب سے زیادہ مال دار ہوجائیں اور جس عورت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نکاح کردیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اتنا کریں کہ ہمارے معبودوں کو برا نہ کہا کریں اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بھی نہیں مانتے تو ایسا کریں کہ ایک سال ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معبود کی عبادت کیا کریں اور ایک سال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے معبودوں کی عبادت کیا کریں۔ (مظھری)
ابوصالح کی روایت حضرت ابن عباس (رض) سے یہ ہے کہ کفار مکہ نے باہمی مصالحت کے لئے یہ صورت پیش کی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے بتوں میں سے بعض کو صرف ہاتھ لگا دیں تو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کرنے لگیں گے، اس پر جبرئیل امین سورة کافروں لے کر نازل ہوئے جس میں کفار کے اعمال سے برأاور خالص اللہ کی عبادت کا حکم ہے، شان نزول میں جو متعدد واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ سب ہی واقعات پیش آئے ہوں اور ان سب کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی ہو، جس کا حاصل ایسی مصالحت سے روکنا ہے۔
تنبیہ : کافر، کا لفظ کوئی گالی نہیں ہے جو اس آیت کے مخاطبوں کو دی گئی ہی، بلکہ عربی زبان میں کافر کے معنی انکار کرنے والے اور نہ ماننے والے کے ہیں اور اس کے مقابل مومن کا لفظ مان لینے اور تسلیم کرلینے والے کے لئے بولا جاتا ہے۔
کفار سے صلح کی بعض مسائل :
سورة کافرون میں کفار کی پیش کی ہوئی مصالحت کی چند صورتوں کو بالکلیہ رد کرنے کے بعد اعلان برأت کیا گیا، مگر خود قرآن کریم میں یہ ارشاد بھی موجود ہے : فان جنحوا للسلم فاجنح لھا یعنی کفار اگر صلح کی طرف جھکیں تو آپ بھی جھک جایئے (معاہدہ صلح کرلیجیے) اور مدینہ طیبہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے تشریف لے گئے تو یہود مدینہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاہد ہصلح مشہور و معروف ہے، اس لئے بعض مفسرین نے سورة کافرون کو منسوخ کہہ دیا ہے اور منسوخ کہنے کی بڑی وجہ ” لکم دینکم ولی دین ‘ کو قرار دیا ہے، کیونکہ یہ احکام بظاہر جہاد کے منافی ہیں، مگر صحیح یہ ہے کہ یہاں ’ دلکم دینکم ولی دین ‘ کا مطلب یہ نہیں کہ کفار کو کفر کی اجازت یا کفر پر برقرار رکھنے کی ضماتن دے دی گئی، بلکہ اس کا حاصل وہی ہے جو ’ دلنا اعمالنا ولکم اعمالکم ‘ کا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھگتو گے، اس لئے راجح اور صحیح جمہور کے نزدیک یہ ہے کہ یہ سورت منسوح نہیں جس قسم کی مصالحت سورة کافرون کے نزول کا سبب بنی وہ جیسے اس وقت حرام تھی آج بھی حرام ہے اور سج صورت کی اجازت آیت مذکورہ میں آئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاہدہ یہود سے عملاً ظاہر ہوئی، وہ جیسے اس وقت جائز تھی آج بھی جائز ہے، بات صرف محل اور موقع کو سمجھنے اور شرئاط صلح کو دیکھنے کی ہے جس کا فیصلہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیث میں فرمایا ہے، جس میں کفار سے معاہدہ کو جائز قرار دینے کے ساتھ ایک استثناء کا ارشاد ہے وہ یہ ہے الا صلحاً احل حراماً او حرم حلالاً یعنی ہر صلح جائز ہے بجز اس صلح کے جس کی رو سے اللہ کی حرام کی ہوئی کسی چیز کو حلال یا حرام کی ہوئی کس چیز کو حرام قرار دیا گیا ہو اب غور کیجیے کہ کفار مکہ نے صلح کی جو صورتیں پیش کی تھیں، ان سب میں کم از کم کفر اور اسلام کی حدود میں التباس یقینی ہے اور عض صورتوں میں تو شرک تک کا ارتکاب لازم آتا ہے، ایسی صلح سے سورة کافرون نے اعلان برأت کیا ہے اور دوسری جگہ جس صلح کو جائز قرار دیا اور معاہدہ یہود سے اس کی عملی صورت معلوم ہوئی۔ اس میں کوئی چیز ایسی نہیں جس میں اصول اسلام کا خلاف کیا گیا ہو یا کفر و اسلام کی حدود اپٓس میں ملتبس ہوئی ہوں، اسلام سے زیادہ کوئی مذہب روا داری، حسن سلوک، صلح و سالمیت کا داعی نہیں، مگر صلح اپنے انسانی حقوق میں ہوتی ہے، خدا کے قانون اور اصول دین میں کسی صلح و مصالحت کی کوئی گنجائش نہیں۔ (واللہ اعلم، معارف)
10 Tafsir as-Saadi
...
11 Mufti Taqi Usmani
tum keh do kay : aey haq ka inkar kernay walo !
12 Tafsir Ibn Kathir
مشرکین الگ اور موحدین الگ :
اس سورة مبارکہ میں مشرکین کے عمل سے بیزاری کا اعلان ہے اور اللہ کی عبادت کے اخلاص کا حکم ہے گو یہاں خطاب مکہ کے کفار قریش سے ہے لیکن دراصل روئے زمین کے تمام کافر مراد ہیں اس کی شان نزول یہ ہے کہ ان کافروں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سے کہا تھا کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں تو اگلے سال ہم بھی اللہ کی عبادت کریں گے اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ ان کے دین سے اپنی پوری بیزاری کا اعلان فرما دیں کہ میں تمہارے ان بتوں کو اور جن جن کو تم اللہ کا شریک مان رہے ہو ہرگز نہ پوجوں گا گو تم بھی میرے معبود برحق اللہ وحدہ لا شریک لہ کو نہ پوجو پس ما یہاں پر معنی میں من کے ہے پھر دوبارہ یہی فرمایا کہ میں تم جیسی عبادت نہ کروں گا تمہارے مذہب پر میں کاربند نہیں ہوسکتا نہ میں تمہارے پیچھے لگ سکتا ہوں بلکہ میں تو صرف اپنے رب کی عبادت کروں گا اور وہ بھی اس طریقے پر جو اسے پسند ہو اور جیسے وہ چاہے اسی لیے فرمایا کہ نہ تم میرے رب کے احکام کے آگے سر جھکاؤ گے نہ اس کی عبادت اس کے فرمان کے مطابق بجا لاؤ گے بلکہ تم نے تو اپنی طرف سے طریقے مقرر کرلیے ہیں جیسے اور جگہ ہے ان یتبعون الا الظن الخ یہ لوگ صرف وہم و گمان اور خواہش نفسانی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت پہنچ چکی ہے پس جناب نبی اللہ احم دمجتبیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر طرح اپنا دامن ان سے چھڑا لیا اور صاف طور پر ان کے معبودوں سے اور ان کی عبادت کے طریقوں سے علیحدگی اور ناپسندیدگی کا اعلان فرما دیا ظاہر ہے کہ ہر عابد کا معبود ہوگا اور طریقہ عبادت ہوگا پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت صر فاللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور طریقہ عبادت ان کا وہ ہے جو سرور رسل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تعلیم فرمایا ہے اسی لیے کلمہ اخلاص لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا راستہ وہی ہے جس کے بتانے والے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہویں جو اللہ کے پیغمبر ہیں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مشرکین کے معبود بھی اللہ کے سوا غیر ہیں اور طریقہ عبادت بھی اللہ کا بتلایا ہوا نہیں اسی لیے فرمایا کہ متہارا دین تمہارے لیے میرا میرے لیے جیسے اور جگہ ہے وان کذبوک فقل لی عملی ولکم عملکم انتم بریون مما اعمل وانا بری مما تعملون یعنی اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے متہارا عمل ہے تم میرے اعمال سے الگ ہو اور میں تمہارے کاموں سے بیزار ہوں اور جگرہ فرمایا لنا اعمالنا ولکم اعمالکم ہمارے عمل ہمارے ساتھ اور تمہارے تمہارے ساتھ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے تمہارے لیے متہارا دین ہے یعنی کفر اور میرے لیے میرا دن ہے یعنی اسلام یہ لفظ اصل میں دینی تھا لیکن چونکہ اور آیتوں کا وقف نون پر ہے اس لیے اس میں بھی " یا " کو حذف کردیا جیسے فھوا یھدین میں اور یسقین میں بعض مفسرین نے کہا ہے مطلب یہ ہے کہ میں اب تو تمہارے معبودوں کی پرستش کرتا نہیں اور آگے کے لیے بھی تمہیں ناامید کردیتا ہوں کہ عمر بھر میں کبھی بھی یہ کفر مجھ سے نہ ہو سکے گا اسی طرح نہ تم اب میرے اللہ کو پوجتے ہو نہ آئندہ اس کی عبادت کرو گے اس سے مراد وہ کفار ہیں جن کا ایمان نہ لانا اللہ کو معلوم تھا جیسے قرآن میں اور جگہ ہے ولیزیدن کثیرا منھم ما انزل الیک من ربک طغیانا وکفرا یعنی تیری طرف جو اترتا ہے اس سے ان میں سے اکثر تو سرکشی اور کفر میں بڑھ جاتے ہیں ابن جرری نے بعض عربی دان حضرات سے نقل کیا ہے کہ وہ مرتبہ اس جملے کا لانا صرف تاکید کے لیے ہے جیسے فان مع العسر یسرا ان معالعسر یسرا میں اور جیسے لترون الجحیم ثم لترونھا عین الیقین پس ان دونوں جملوں کو دو مرتبہ لانے کی حکمت میں یہ تین قول ہوئے ایک تو یہ کہ پہلے جملے سے مراد معبود دوسرے سے مراد طریق عبادت دوسرے یہ کہ پہلے جملے سے مراد حال دوسرے سے مراد استقبال یعنی آئندہ تیسرے یہ کہ پہلے جملے کی تاکید دوسرے جملے سے ہے لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں ایک چوتھی توجیہ بھی ہے جسے حضرت امام ابن تیمیہ اپنی بعض تصنیفات میں قوت دیتے ہیں وہ یہ کہ پہلے تو جملہ فعلیہ ہے اور دوبارہ جملہ اسمیہ ہے تو مراد یہ ہوئی کہ نہ تو میں غیر اللہ کی عبادت کرتا ہو نہ مجھ سے کبھی بھی کوئی امید رکھ سکتا ہے یعنی واقعہ کی بھی نفی ہے اور شرعی طور پر ممکن ہونے کا بھی انکار ہے یہ قول بھی ہت اچھا ہے واللہ اعلم حضرت امام ابو عبداللہ شافعی کر (رح) نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ کفر ایک ہی ملت ہے اس لیے یہود نصرانی کا اور نصرانی یہود کا وارث ہوسکتا ہے جبکہ ان دونوں میں سنب یا سبب ورثے کا پایا جائے اس لیے کہ اسلام کے سوا کفر کی جتنی راہیں ہیں وہ سب باطل ہونے میں ایک ہی ہیں حضرت امام احمد (رح) اور ان کے موافقین کا مذہب اس کے برخلاف ہے کہ نہ یہودی نصرانی کا وارث ہوسکتا ہے نہ نصرانی یہود کا کیونکہ حدیث ہے دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے سورة کافرون کی تفسیر ختم ہوئی فالحمد اللہ احسانہ۔