النصر آية ۱
اِذَا جَاۤءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُۙ
طاہر القادری:
جب اﷲ کی مدد اور فتح آپہنچے،
English Sahih:
When the victory of Allah has come and the conquest,
1 Abul A'ala Maududi
جب اللہ کی مدد آ جائے اور فتح نصیب ہو جائے
2 Ahmed Raza Khan
جب اللہ کی مدد اور فتح آئے
3 Ahmed Ali
جب الله کی مدد اور فتح آ چکی
4 Ahsanul Bayan
جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جب خدا کی مدد آ پہنچی اور فتح (حاصل ہو گئی)
6 Muhammad Junagarhi
جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے
7 Muhammad Hussain Najafi
جب اللہ کی مدد اور اس کی فتح و فیروزی آجائے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جب خدا کی مدد اور فتح کی منزل آجائے گی
9 Tafsir Jalalayn
جب اللہ کی مدد آپہنچی اور فتح (حاصل ہوگئی)
ترجمہ :۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، جب اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اس کے دشمنوں پر اللہ کی مدد آجائے اور فتح مکہ نصیب ہوجائے اور تو لوگوں کو دیکھ لے کہ اللہ کے دین اسلام میں جوق در جوق داخل ہو رہے ہیں بعد اس کے کہ دین میں ایک ایک کر کے اخل ہو رہے تیھ اور یہ صورت حال فتح مکہ کے بعد ہوئی کہ عرب بخوشی اطراف و جوانب سے (دنیا میں داخل ہونے کے لئے) آئے، تو اپنے رب کی تسبیح وتحمید کرنے لگو اور اس سے مغفرت طلب کرو، بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے، چناچہ اس سورت کے نزول کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سبحان اللہ وبحمدہ استغفر اللہ واتوب الیہ بکثرت پڑھا کرتے تھے اور اس سے سمجھ گئے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال کا وقت آگیا ہے، اور فتح مکہ رمضان ٨ ھ میں ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ربیع الاول ١٠ ھ میں ہوئی۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اذا جآء، المجیء دراصل موجود غائب کے حاضر ہونے کو کہتے ہیں، یہاں ایسا نہیں ہے، اس لئے کہ فتح پہلے سے موجود نہیں تھی کہ وہ آگئی ہو، اس لئے یہاں جاء بمعنی حصل وحقق ہے، یا یہ کہا جائے کہ جس چیز کا موجود ہونا تقدیر الٰہی میں مقدر ہوچکا ہے گویا کہ وہ موجود ہے اور جب اس موجود ہونے کا وقت آیا تو گویا پہلے وہ غائب تھی اب حاضر ہوگئی، اس صورت میں جاء اپنے حقیقی معنی میں ہوگا، اذا شرطیہ ہے اور فسبح بحمد ربک اس کی جزاء ہے، یہ اس صورت میں ہے جب کہ سورت فتح مکہ سے پہلے نازل ہوئی ہو اور اگر سورت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی ہو تو اذابمعنی اذ ہوگا اور محذوف کے متعلق ہوگا، تقدیر عبارت یہ ہوگی، اکمل اللہ الا مر واتمم النعمۃ علی العباد اذا جاء نصر اللہ
قولہ : نصر اللہ یہ مصدر مضاف الی الفاعل ہے اور اس کا مفعول نبیہ محذوف ہے، جس کو مفسر علام نے ظاہر کردیا ہے۔
قولہ : الفتح کو فیین کے نزدیک الفتح میں الف لازم مضاف الیہ کے عوض میں ہے، ای فتحہ
قولہ : افوجاً یدخلون کے فاعل سے حال ہے، اگر رویت بصریہ مراد ہو، اور اگر رویت علمیہ مراد ہو تو مفعول ثانی ہے۔
تفسیر و تشریح
یہ سورت بالاجماع مدنی ہے اس سورت کا ایک نام سورة التودیع بھی ہے، تودیع کے معنی رخصتل کرنے کے ہیں، اس سورت میں چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے قریب ہونے کی طرف اشارہ ہے، اس لئے اس کو سورة التودیع بھی کہا گیا ہے۔
قرآن مجید کی آخری سورت اور آخری آیات :
صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ سورة نصر قرآن مجید کی آخری سورت ہے۔ (قرطبی، معارف)
مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد کوئی مکمل سورت نازل نہیں ہوئی، بعض آیات کا جو اس کے بعد نازل ہونا بعض روایات سے ثابت ہے وہ اس کے منافی نہیں۔
حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ یہ سورت حجتہ الوداع میں نازل ہوئی، اس کے بعد آیت ” الیوم اکملت لکم دینکم “ نازل ہوئی، ان دونوں کے نزول کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیا میں صرف اسی روز بقید حیات رہے، ان دونوں کے بعد آیت ” کلالہ “ (الآیۃ) نازل ہوئی جس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر کے کل پچاس دن رہ گئے تھے، اس کے بعد آیت ” لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم “ (الآیۃ) نازل ہوئی، جس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر شریف کے کل 35/روز باقی تھے، اس کے بعد آیت ” اتقوا یوماً ترجعون فیہ الی اللہ “ نازل ہوئی جس کے بعد صرف اکیس روز باقی تھے اور مقاتل کی روایت کے مطابق اس کے صرف سات روز کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی۔ (معارف، قرطبی)
اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اس سورت میں فتح سے فتح مکہ مراد ہے، البتہ اس میں اختلاف ہے کہ یہ سورت فتح مکہ سے پہلے نازل ہوئی یا بعد میں ؟ لفظ اذا جاء سے بظاہر قبل فتح مکہ نازل ہونا معلوم ہوتا ہے، روح المعانی میں بحر محیط سے ایک روایت بھی اس کے موافق نقل کی ہے، جس میں اس سورت کا نزول غزوہ خیبر سے لوٹنے کے وقت بیان کیا گیا ہے اور خیبر کی فتح مکہ سے یقینا مقدم ہے نیز روح المعانی میں بسند عبد بن حمید حضرت قتادہ (رض) کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سورت کے بعد دو سال زندہ رہے، اس کا حاصل بھی یہی ہے کہ اس کا نزول فتح مکہ سے پہلے ہوا، کیونکہ فتح مکہ سے وفات تک کی مدت دو سال سے کم ہے، فتح مکہ ٨ ھ رمضان المبارک میں ہوئی، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ربیع الاول ١٠ ھ میں ہوئی اور جن روایات میں اس کا فتح مکہ یا حجتہ الوداع میں نازل ہونا بیان کیا گیا ہے ان کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اس موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سورت پڑھی ہو جس سے لوگوں کو یہ خیال ہوگیا کہ یہ سورت ابھی نازل ہوئی ہے۔ (معارف)
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے قریب آجانے کی طرف اشارہ :
متعدد احادیث مرفوعہ اور آثار صحابہ (رض) میں ہے کہ اس سورت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے وقت کا قریب آجانے کی طرف اشارہ ہے اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور دنیا میں قیام کا وقت پورا ہوگیا ہے، لہٰذا اب تسبیح و استغفار میں لگ جایئے، مقاتل کی روایت میں ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) کے مجمع میں اس کی تلاوت فرمائی، اس مجمع میں حضرت ابوبکر (رض) و عمر (رض) اور سعد بن ابی وقاص (رض) وغیرہ موجود تھے، سب اس کو سن کر خوش ہوئے کہ اس میں فتح مکہ کی خوشخبری ہے، مگر حضرت عباس (رض) رونے لگے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ رونے کا کیا سبب ہے تو حضرت عباس (رض) نے عرض کیا کہ اس میں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی خبر مضمر ہے جس کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تصدیق فرمائی۔
جب موت قریب ہو تو تسبیح و استغفار کرنی چاہیے :
حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہے کہ اس سورت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کوئی نماز پڑھتے تو یہ دعاء کرتے : سبحانک ربنا و بحمد اللھم اغفرلی (بخاری)
10 Tafsir as-Saadi
اس سورۃ کریمہ میں ایک خوش خبری ہے، اس خوش خبری کے حاصل ہوجانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک حکم ہے ، نیز اس میں اس خوش خبری پر مترتب ہونے والے احوال کی طرف اشارہ اور اس پر تنبیہ ہے ۔خوش خبری اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نصرت ،فتح مکہ اور لوگوں کے اللہ کے دین میں فوج درفوج داخل ہونے کی ہے ان میں سے بہت لوگ آپ کے دشمن تھے ،اس کے بعد وہی لوگ آپ کے اعوان وانصار ہوں گے اور جس چیز کے بارے میں خوش خبری دی گئی تھی وہ حرف بحرف پوری ہوئی۔ رہافتح ونصرت کے بعد حکم توا للہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ اس فتح ونصرت پر اس کاشکر ادا کریں اس کی حمدوثنا کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کریں اور اس سے استغفار کریں۔ رہا اشارہ تو اس میں دو اشارے ہیں۔ اول: دین اسلام دائمی فتح ونصرت سے بہرہ مند رہے گا، اس کے رسول کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے ساتھ تسبیح اور استغفار پر اس نصرت میں اضافہ ہوگا، کیونکہ تسبیح واستغفار ،شکر ہی شمار ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ﴾( ابراہیم: ۱۴؍۷) ”اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا ۔“ اور یہ چیز خلفائے راشدین کے زمانے میں اور ان کے بعد بھی امت کو حاصل ہوئی ۔اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمیشہ ہم رکاب رہی یہاں تک کہ اسلام اس مقام پر پہنچ گیا جہاں تمام ادیان میں سے کوئی دین نہیں پہنچ سکا۔ حتیٰ کہ امت سے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی مخالفت میں افعال صادر ہونے لگے۔ پس اللہ تعالیٰ نے تفرق کلمہ اور تشتت امر کے ذریعے سے انہیں آزمایا۔ پس پھرجو ہونا تھا ہوا۔ بایں ہمہ اس امت پر اور اس دین پر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور اس کالطف وکرم ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور نہ خیال کی وہاں تک رسائی ہی ہے۔
دوم: رہا دوسرا اشارہ تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کی اجل قریب آگئی ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی عمر مبارک، فضیلت والی عمر ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے اور اس نے مقرر فرمادیا ہے کہ فضیلت والے امور کا اختتام، استغفار کے ساتھ ہو، مثلا :نماز اور حج وغیرہ۔ پس اللہ تعالیٰ کا اس حال میں آپ کو حمدواستغفار کا حکم دینا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کی وفات کا وقت قریب آگیا ہے۔ اب آپ کو اپنے رب کی ملاقات کے لیے مستعد اور تیار رہنا چاہیےاور آپ کو اپنی عمر کا اختتام اس افضل ترین چیز پر کرنا چاہیے جو آپ موجود پاتے ہیں۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ۔ چنانچہ آپ قرآن کی (اس آیت کی )تاویل کرتے ہوئے، اپنی نماز کے اندر رکوع وسجود میں نہایت کثرت سے یہ پڑھا کرتے تھے﴿سبحانک اللھم ربنا وبحمدک اللھم اغفرلی﴾”اے اللہ !اے ہمارے رب ! ہم تیری حمد وثنا کے ساتھ تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں، اے اللہ! مجھے بخش دے۔“
11 Mufti Taqi Usmani
jab Allah ki madad aur fatah aajaye
12 Tafsir Ibn Kathir
گناہوں کی بخشش مانگو اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرو :
حضرت عبداللہ بن عباس (رض) ما فرماتے ہیں کہ بڑی عمر والے مجاہدین کے ساتھ ساتھ حضرت عمر فاروق (رض) مجھے بھی شامل کرلیا کرتے تھے تو شاید کسی کے دل میں اس کی کچھ ناراضگی پیدا ہوگئی اس نے کہا کہ یہ ہمارے ساتھ نہ آیا کریں ان جتنے تو ہمارے بچے ہیں خلیقۃ المسلمین (رض) نے فرمایا کہ تم انہیں خوب جانتے ہو ایک دن سب کو بلایا اور مجھے بھی یاد فرمایا میں سمجھ گیا کہ آج انہیں کچھ بتانا چاہتے ہیں جب ہم سب جا پہنچے تو امیرا لمومنین (رض) نے ہم سے پوچھا کہ سورة اذا جآء کی نسبت تمہیں کیا علم ہے بعض نے کہا اس میں ہمیں اللہ کی حمدو ثناء بیان کرنے اور گناہوں کی بخشش چاہنے کا حکم کیا گیا ہے کہ جب مدد اللہ آجائے اور ہماری فتح ہو تو ہم یہ کریں اور بعض بالکل خاموش رہے تو آپ نے میری طرف توجہ فرمائی اور کہا کیا تم بھی یہی کہتے ہو میں نے کہا نہیں فرمایا پھر اور کیا کہتے ہو میں نے کہا یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتقال کا پیغام ہے آپ کو معلوم کرایا جا رہا ہے کہ اب آپ کی دنیوی زندگی ختم ہونے کو ہے آپ تسبیح حمد اور استفغار میں مشغول ہوجائیے حضرت فاروق نے فرمایا یہی میں بھی جانتا ہوں بخاری جب یہ سورت اتری تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ اب اسی سال میرا انتقال ہوجائیگا مجھے میرے انتقال کی خبر دی گئی ہے مسند احمد مجاہد ابو العالیہ ضحاک وغیرہ بھی یہی تفسیر بیان کرتے ہیں ایک روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ شریف میں تھے فرمانے لگے اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ کی مدد آگئی اور فتح بھی یمن والے آگئے پوچھا گیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یمن والے کیسے ہیں فرمایا وہ نرم دل لوگ ہیں سلجھی ہوئی طبیعت والے ہیں ایمان تو اہل یمن کا ہے اور سمجھ بھی اہل یمن کی ہے اور حکمت بھی اہل یمن والوں کی ہے ابن جریر ابن عباس کا بیان ہے کہ جب یہ سوت اتری چونکہ اس میں آپ کے انتقال کی خبر تھی تو آپ نے اپنے کاموں میں اور کمر کس لی اور تقریبا وہی فرمایا جو اوپر گزرا طبرانی حضرت ابن عباس (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ سورتوں میں پوری سورت نازل ہونے کے اعتبار سے سب سے آخری سورت یہی ہے طبرانی اور حدیث میں ہے کہ جب یہ سورت اتری آپ نے اس کی تلاوت کی اور فرمایا لوگ ایک کنارہ ہیں میں اور میرے اصحاب ایک کنارہ میں ہیں سنو فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں البتہ جہاد اور نیت ہے مروان کو جب یہ حدیث حضرت ابو سعید خدری نے سنائی تو یہ کہنے لگا جھوٹ کہتا ہے اس وقت مروان کیساتھ اس کے تخت پر حضرت رافع بن خدیج اور حضرت زید بن ثابت بھی بیٹھے تھے تو حضرت ابو سعید فرمانے لگے ان دونوں کو بھی اس حدیث کی خبر ہے یہ بھی اس حدیث کو بیان کرسکتے ہیں لیکن ایک کو تو اپنی سرداری چھن جانے کا خوف ہے اور دوسرے کو زکوٰۃ کی وصولی کے عہدے سے سبکدوش ہوجانے کا ڈر ہے مروان نے یہ سن کر کوڑا اٹھا کر حضرت ابو سعید کو مارنا چاہا ان دونوں بزرگوں نے جب یہ دیکھا تو کہنے لگے مروان سن حضرت ابو سعید نے سچ بیان فرمایا مسند احمد یہ حدیث ثابت ہے حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن فرمایا ہجرت نہیں رہی ہاں جہاد اور نیت ہے جب تمہیں چلنے کو کہا جائے اٹھ کھڑے ہوجایا کرو صحیح بخاری اور صحیح مسلم شریف میں یہ حدیث موجود ہے ہاں یہ بھی یاد رہے کہ جن بعض صحابہ نے حضرت فاروق اعظم (رض) کے سامنے اس سورت کا یہ مطلب بیان کیا کہ جب ہم پر اللہ تعالیٰ شہر اور قلعے فتح کر دے اور ہماری مدد فرمائے تو ہمیں حکم مل رہا ہے کہ ہم اس کی تعریفیں بیان کریں اس کا شکر کریں اور اس کی پاکیزگی بیان کریں نماز ادا کریں اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کریں یہ مطلب بھی بالکل صحیح ہے اور یہ تفسیر بھی نہایت پیاری ہے دیکھو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ والے دن ضحی کے وقت آٹھ رکعت نماز ادا کی گو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ ضحی کی نماز تھی لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ ضحی کی نماز آپ ہمیشہ نہیں پڑھتے تھے پھر اس دن جبکہ شغل اور کام بہت زیادہ تھا مسافرت تھی یہ کیسے پڑھی ؟ آپ کی اقامت فتح کے موقعہ پر مکہ شریف میں رمضان شریف کے آخر تک انیس دن رہی آپ فرض نماز کو بھی قصر کرتے رہے روزہ بھی نہیں رکھا اور تمام لشکر جو تقریبا دس ہزار تھا اسی طرح کرتا رہا ان حقائق سے یہ بات صاف ثابت ہوجاتی ہے کہ یہ نماز فتح کے شکریہ کی نماز تھی اسی لیے سردار لشکر امام وقت پر مستحب ہے کہ جب کوئی شہر فتح ہو تو داخل ہوتے ہی دو رکعت نماز ادا کرے حضرت سعد بن ابی وقاص نے فتح مدائن والے دن ایسا ہی کیا تھا ان آٹھ رکعات کو دو دو رکعت کر کے ادا کرے گو بعض کا یہ قول بھی ہے کہ آٹھوں ایک ہی سلام سے پڑھ لے لیکن ابو داؤد کی حدیث صراحتا مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس نماز میں ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا ہے دوسری تفسیر بھی صحیح ہے جو ابن عباس وغیرہ نے کی ہے کہ اس میں آپ کو آپ کے وصال کی خبر دی گئی کہ جب آپ اپنی بستی مکہ فتح کرلیں جہاں سے ان کفار نے آپ کو نکل جانے پر مجبور کیا تھا اور آپ اپنی آنکھوں اپنی محنت کا پھل دیکھ لیں کہ فوجوں کی فوجیں آپ کے جھنڈے تلے آجائیں جوق در جوق لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوجائیں تو ہماری طرف آنے کی اور ہم سے ملاقات کی تیاریوں میں لگ جاؤ سمجھ لو کہ جو کام ہمیں تم سے لینا تھا پورا ہوچکا اب آخرت کی طرف نگاہیں ڈالو جہاں آپ کے لیے بہت بہتری ہے اور اس دنیا سے بہت زیادہ بھلائی آپ کے لیے وہاں ہے وہیں آپ کی مہمانی تیار ہے اور مجھ جیسا میزبان ہے تم ان نشانات کو دیکھ کر بکثرت میری حمدو ثناء کرو اور توبہ استغفار میں لگ جاؤ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رکوع سجدے میں بہ کثرت سبحانک اللھم وبحمدک اللھم اغفرلی پڑھا کرتے تھے آپ قرآن کی اس آیت فسبح الخ پر عمل کرتے تھے اور روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی آخری عمر میں ان کلمات کا اکثر ورد کرتے تھے سبحان اللہ وبحمدہ استغفر اللہ واتوب الیہ اللہ کی ذات پاک ہے اسی کے لیے سب تعریفیں مختص ہیں میں اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف جھکتا ہوں اور فرمایا کرتے تھے کہ میرے رب نے مجھے حکم دے رکھا ہے کہ جب میں یہ علامت دیکھ لوں کہ مکہ فتح ہوگیا اور دین اسلام میں فوجیں کی فوجیں داخل ہونے لگیں تو میں ان کلمات کو بہ کثرت کہوں چناچہ بحمد اللہ میں اسے دیکھ چکا لہذا اب اس وظیفے میں مشغول ہوں (مسند احمد) ابن جریر میں حضرت ام سلمہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی آخری عمر میں بیٹھتے اٹھتے چلتے پھرتے آتے جاتے سبحان اللہ وبحمدہ پڑھا کرتے میں نے ایک مرتبہ پوچھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی کیا وجہ ہے تو آپ نے اس سورت کی تلاوت کی اور فرمایا مجھے حکم الٰہی یہی ہے کسی مجلس میں بیٹھیں پھر وہ مجلس برخاست ہو تو کیا پڑھنا چاہیے اسے ہم اپنی ایک مستقل تصنیف میں لکھ چکے ہیں مسند احمد میں ہے کہ جب یہ سورت اتری تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے اکثر اپنی نماز میں تلاوت کرتے اور رکوع میں تین مرتبہ یہ پڑھتے سبحانک اللھم ربنا وبحمدک اللھم اغفرلی انک انت التواب الرحیم فتح سے مراد یہاں فتح مکہ ہے اس پر اتفاق ہے عموما عرب قبائل اسی کے منتظر تھے کہ اگر یہ اپنی قوم پر غالب آجائیں اور مکہ ان کے زیر نگیں آجائے تو پھر ان کے نبی ہونے میں ذرا سا بھی شبہ نہیں اب جبکہ اللہ نے اپنے حبیب کے ہاتھوں مکہ فتح کرا دیا تو یہ سب اسلام میں آگئے اس کے بعد دو سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ سارا عرب مسلمان ہوگیا اور ہر ایک قبیلے میں اسلام اپنا راج کرنے لگا فالحملد اللہ صحیح بخاری شریف میں بھی حضرت عمر بن سلمہ کا یہ مقولہ موجود ہے کہ مکہ فتح ہوتے ہی ہر قبیلے نے اسلام کی طرف سبقت کی ان سب کو اسی بات کا انتظار تھا اور کہتے تھے کہ انہیں اور ان کی قوم کو چھوڑو دیکھو اگر یہ نبی برحق ہیں تو اپنی قوم پر غالب آجائیں گے اور مکہ پر ان کا جھنڈا نصب ہوجائیگا، " ہم نے غزوہ فتح مکہ کا پورا پورا واقعہ تفصیل کے ساتھ اپنی سیرت کی کتاب میں لکھا ہے جو صاحب تفصیلات دیکھنا چاہیں وہ اس کتاب کو دیکھ لیں " فالحمد اللہ مسند احمد میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کے پڑوسی جب اپنے کسی سفر سے واپس آئے تو حضرت جابر ان سے ملاقات کرنے کے لیے گئے انہوں نے لوگوں کی پھوٹ اور ان کے اختلاف کا حال بیان کیا اور ان کی نو ایجاد بدعتوں کا تذکرہ کیا تو صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور روتے ہوئے فرمانے لگے کہ میں نے اللہ کے حبیب شافع روز جزاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فداہ ابی وامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ لوگوں کی فوجوں کی فوجیں اللہ کے دین میں داخل ہوئیں لیکن عنقریب جماعتوں کی جماعتیں ان میں سے نکلنے بھی لگ جائیں گی اس سورت کی تفسیر ختم ہوئی فالحمدللہ علی احسانہ۔