یوسف آية ۱
الٓرٰۗ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنۗ
طاہر القادری:
الف، لام، را (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں،
English Sahih:
Alif, Lam, Ra. These are the verses of the clear Book.
1 Abul A'ala Maududi
ا، ل، ر یہ اُس کتاب کی آیات ہیں جو اپنا مدعا صاف صاف بیان کرتی ہے
2 Ahmed Raza Khan
یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں
3 Ahmed Ali
یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں
4 Ahsanul Bayan
یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
الٓرا۔ یہ کتاب روشن کی آیتیں ہیں
6 Muhammad Junagarhi
الرٰ، یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
الف، لام، را۔ یہ ایک واضح کتاب کی آیتیں ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
آلر-یہ کتاب مبین کی آیتیں ہیں
9 Tafsir Jalalayn
الف لام را۔ یہ کتاب روشن کی آیتیں ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آیت نمبر ١ تا ٦
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم عالا ہے، الٓمرٰ ، اس سے اپنی مراد کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے یہ آیتیں کتاب مبین حق و باطل کے درمیان امتیاز کرنے والی کتاب کی ہیں (آیات الکتاب) میں اضافت بمعنی مِنْ ہے ہم نے اس کتاب کو عربی زبان کا قرآن بنا کر نازل کیا ہے تاکہ اے اہل مکہ تم اس اس کے معانی کو (پہلے) سمجھو، ہم نے اس قرآن کی وحی آپ کی طرف کرکے آپ کو ایک بہت عمدہ قصہ سنانا چاہتے ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ آپ اس سے پہلے بالکل بیخبر تھے اور اِنْ مخففہ ہے ای واِنَّہ وہ وقت قابل ذکر ہے کہ جب یوسف (علیہ السلام) نے اپنے ابا یعقوب (علیہ السلام) سے کہا تھا اب اباجان (أبَتِ ) کی تاء کے کسرہ کے ساتھ جو کہ یاء اضافت محذوفہ پر دال ہے، اور تاء کے فتحہ کے ساتھ، جو کہ الف محذوفہ پر دال ہے جو کہ یاء سے بدلا ہوا ہے میں نے خواب میں گیارہ ستاروں کو اور شمس و قمر کو اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے (ساجدین) یاء نون کے ساتھ جمع لائی گئی ہے ستاروں کے سجدہ کے وصف سے متصف ہونے کی وجہ سے جو کہ عقلاء کی صفت ہے (یعقوب (علیہ السلام) نے) کہا اے میرے پیارے بیٹے تم اپنے اس خواب کا تذکرہ اپنے بھائیوں سے نہ کرنا، ایسا نہ ہو کہ وہ تیرے ساتھ کوئی فریب کاری کریں حسد کی وجہ سے تیری ہلاکت کی کوئی تدبیر کریں ان کے اس خواب کی تعبیر سے واقف ہونے کی وجہ سے کہ کواکب سے مراد وہ خود ہیں اور شمس سے تیری والدہ اور قمر سے مراد تیرے والد ہیں شیطان تو انسان کا کھلا دشمن ہے یعنی اس کی دشمنی ظاہر ہے، اور اس کے مطابق جو تو نے (خواب میں) دیکھا تیرا رب تجھ کو منتخب کرے گا، اور تجھ کو تعبیر رؤیا کا علم سکھائیگا اور تجھے تیرا رب نبوت کے ذریعہ بھر پور نعمتیں عطا کرے گا اور آل یعقوب یعنی اس کی اولاد کو بھی جیسا کہ اس سے پہلے نبوت کے ذریعہ تیرے باپ دادا ابراہیم و اسحاق کو نعمتیں عطا فرمائیں، بیشک تیرا رب اپنی مخلوق سے باخبر ہے اور ان کے ساتھ ان کی تدبیر کے بارے میں باحکمت ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ھذہ الآیات، اس میں تلک اسم اشارہ مونث لانے کی وجہ کی طرف اشارہ ہے۔
قولہ : المظھر للحق اس میں اشارہ ہے کہ مبین ابان سے متعدی ہے۔
قولہ : بایحائنا، اس میں اشارہ ہے کہ مَا مصدریہ ہے نہ کہ موصولہ کہ اس کے صلہ میں عائد کی ضرورت ہو۔
قولہ : مخففۃ ای اِنَّہٗ اس میں اشارہ ہے کہ انْ مخففہ عن المثقلہ اور اِنْ کا اسم ضمیر شان محذوف ہے ای اِنہٗ ، اور لَمَنَ الغٰفلین میں لام فارقہ ہے۔
قولہ : دلالۃ علی الفٍ محذوفۃ، اسلئے کہ اس کی اصل یا اَبَتَا تھی الف حذف کردیا گیا فتحہ باقی رہ گیا تاکہ حذف الف پر دلالت کرے
قولہ : فی المنام، اس اضافہ میں اشارہ ہے کہ رأیتُ رؤیا سے بدل ہے نہ کہ رؤیت سے۔
قولہ : تاکیدٌ، رأیتُھُمْ رأیتُ کی تاکید ہے لہٰذا بےفائدہ تکرار کا اعتراض ختم ہوگیا۔
قولہ : یحتالوا، کا اضافہ اس بات کا جواب ہے کہ کیدًا متعدی بنفسہ ہوتا ہے حالانکہ یہاں متعدی باللام لایا گیا ہے جواب کا حاصل یہ ہے کیدٌ کا احتیال کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے متعدی بالام لانا درست ہے۔
تفسیر و تشریح
آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد : آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی ہوتی ہے اور یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے کہ جب وہ کتاب اس قوم کی زبان میں ہو جو اس کے اولین مکاطب ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر آسمانی کتاب اسی قوم کی زبان میں نازل ہوئی جس قوم کی ہدایت کیلئے وہ نازل کی گئی، قرآن کریم کے اولین مخاطب چونکہ عرب تھے اس لئے قرآن عربی زبان میں نازل ہوا، علاوہ ازیں اپنی فصاحت و بلاغت اور اعجاز اور ادائے مافی الضمیر کے اعتبار سے دنیا کی بہترین زبان ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس اشرف کتب کو اشرف اللغات (عربی) اشرف الرسل (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اشرف الملائکہ (جبرائیل) کے ذریعہ نازل فرمایا۔
شان نزول : شان نزول کے سلسلہ میں جو روایت ملتی ہے ایک ان میں سے وہ ہے جس کو ابن مردویہ اور ابو نعیم اور بیہقی نے
جابر بن عبد اللہ سے روایت کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک یہودی بستانی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ اے محمد آپ مجھے ان ستاروں کے بارے میں بتلائیے جن کو یوسف (علیہ السلام) نے خواب میں اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت خاموش رہے اس کے بعد حضرت جبرائیل نازل ہوئے ان گیارہ ستاروں کے نام بتائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس یہودی بستانی کو بلایا اور اس سے کہا اگر میں ان کے نام بتادوں تو کیا ایمان لائیگا اس نے کہا ہاں، تو آپ نے ستاروں (بھائیوں) کے نام بتائیے۔ (١) الذیال (٢) الوثاب (٣) الطارق (٤) فلیق (٥) الصبح (٦) القابس (٧) الضروح (٨) الخرثان (٩) الکتفان (١٠) العمودان (١١) ذوالفرع۔ یہودی نے کہا صدقت یا محمد اور وہ اسلام نہیں لایا، مگر اس روایت کی سند میں کئی راوی متکلم فیہ ہیں اور ابن جوزی نے کہا یہ روایت موضوع ہے (اعراب القرآن للدرویش) بعض روایتوں میں ناموں کا اختلاف بھی ہے حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی مرحوم نے قصص القرآن میں سورة یوسف کا شان نزول اس طرح تحریر فرمایا ہے، لکھتے ہیں کہ سورة یوسف کے شان نزول کے سلسلہ میں حدیثی روایات اور مفسرین کے اقوال کا حاصل یہ ہے کہ کفار مکہ نے ایک مرتبہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق گفتگو کی اور اپنی درماندگی اور پریشانی اور عاجزی کا اظہار کیا، اس پر یہود نے ان سے کہا اس مدعی نبوت کو زچ کرنے اور جھوٹا ثابت کرنے کے لئے تم ان سے یہ سوال کرو کہ یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد شام سے مصر کیوں منتقل ہوئی ؟ اور یوسف (علیہ السلام) سے متعلق جو واقعات ہیں ان کی تفصیل کیا ہے ؟ اگر یہ نبی نہیں ہے تو ہرگز نہ بتاسکے گا۔
کفار نے یہود کی ہدایت کے مطابق ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ دونوں سوال کئے اور آپ نے وحی کے ذریعہ ان کو سب کچھ بتادیا جو سورة یوسف میں موجود ہے۔ (قصص القرآن)
حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ السلام کا نسب نامہ : یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (علیہم السلام) اس طرح یوسف (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پڑپوتے ہیں ان کی والدہ کا نام راحیل بنت لیّان یا لایان ہے بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی والدہ کا انتقال ان کے چھوٹے بھائی بن یامین کی ولادت کے وقت مدت نفاس ہی میں ہوگیا تھا ان کے بعد حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خالہ لیا بنت لیان سے نکاح کرلیا تھا بن یامین حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حقیقی بھائی تھے اور باقی بھائی علاقی (باپ شریک) تھے جن کے نام اوپر مذکور ہوئے۔
قرآن عزیز میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا ذکر : حضرت یوسف (علیہ السلام) کا نام قرآن کریم میں ٣٦ مرتبہ آیا ہے جن میں سے ٢٤ مرتبہ صرف سورة یوسف میں آیا ہے اور بقیہ مرتبہ دیگر سورتوں میں، اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ اپنے دادا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح ان کے نام کی بھی قرآن کی ایک سورت (سورۂ یوسف) نازل ہوئی۔ قرآن عزیز نے یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ میں جس قدر نوعیت کے اعتبار سے عجیب دل کش اور زمانۂ عروج وزوال کی زندہ یادگار ہے، یہ ایک فرد کے ذریعہ قوموں کے بننے اور بگڑنے، گرنے اور ابھرنے کی ایسی بولتی ہوئی تصویر ہے جو کسی تشریح و توضیح کی محتاج نہیں۔
تاریخی و جغرافیائی حالات : اس قصہ کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ مختصراً اس کے متعلق کچھ تاریخی و جغرافیائی معلومات بھی ناظرین کے پیش نظر رہیں، حضرت یوسف (علیہ السلام) حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے اور اسحاق (علیہ السلام) کے پوتے اور حضرت ابراہیم کے پڑپوتے تھے، فلسطین میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی جائے قیام حبرون کی وادی میں تھی، حضرت اسحاق اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مسکن بھی یہی تھا، اس کے علاوہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی کچھ زمین سکّم (موجودہ نابلس) میں بھی تھی، بائبل کے علماء کی تحقیق اگر درست مان لی جائے تو یوسف کی پیدائش ١٩٠٦ ق م کے لگ بھگ ہوئی اور ١٨٩٠ ق م میں خواب کا واقعہ پیش آیا جس سے اس قصہ کی ابتداء ہوتی ہے۔
حضرت یوسف (علیہ السلام) کا خواب اور واقعہ کی ابتداء : اِذْ قال یوسف لابیہِ یٰآبَتِ اِنِّیْ رأیتُ اَحَدَ عَشَرَ کو کبًا والشمس والقمر رأیتُھُمْ لی ساجدین حضرت یعقوب اپنی اولاد میں حضرت یوسف (علیہ السلام) سے بیحد محبت کرتے تھے یہ بات برادران یوسف کے لئے بےحد شاق اور ناقابل برداشت تھی اور وہ ہر وقت اس فکر میں لگے رہتے تھے کہ حضرت یعقوب علیہ الصلوٰۃ
والسلام کے دل سے اس کی محبت نکال ڈالیں یا پھر یوسف ہی کو راستہ سے ہٹا دیں تاکہ قصہ ہی پاک ہوجائے۔
ان بھائیوں کے حاسدانہ تخیل پر تازیانہ یہ ہوا کہ یوسف (علیہ السلام) نے ایک خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے اور سورج، چاند ان کے سامنے سجدہ ریز ہیں، یعقوب (علیہ السلام) نے جب یہ خواب سنا تو سختی کے ساتھ یوسف (علیہ السلام) کو منع کردیا کہ اپنا یہ خواب کسی سے بیان نہ کریں ایسا نہ ہو کہ تیرے بھائی تیرے ساتھ برائی سے پیش آئیں اور تیرے خواب کی تعبیر بہت صاف ہے، جس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ خواب دیکھا تھا اس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) کی عمر باختلاف روایات ١٤، ١٣ یا ١٧ سال تھی۔
خواب کا مطلب : خواب کا صاف مطلب یہ تھا کہ سورج سے مراد حضرت یعقوب اور چاند سے مراد ان کی بیوی یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) کی سوتیلی والدہ اور گیارہ ستاروں سے گیارہ بھائی بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شمس سے مراد والدہ اور قمر سے والد مراد ہیں حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا گیارہ ستاروں سے مراد یوسف (علیہ السلام) کے گیارہ بھائی اور چاند سورج سے مراد ان کے ماں باپ ہیں، والدہ راحیل کا اگرچہ انتقال ہوچکا تھا مگر اس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خالہ لیّا حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے نکاح میں تھیں خالہ اور سوتیلی ماں چونکہ حقیقی ماں کے قائم مقام ہوتی ہے اسلئے خالہ کو والدہ سے تعبیر کیا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ قرآن کی آیات کتاب مبین کی آیات ہیں، یعنی جس کے الفاظ اور معانی واضح ہیں۔ اس کے واضح اور بین ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو عربی زبان میں نازل کیا جو سب سے زیادہ فضیلت کی حامل اور سب سے زیادہ واضح زبان ہے (الْمُبِين) سے مراد یہ ہے کہ یہ کتاب مقدس ان تمام حقائق نافعہ کو بیان کرتی ہے جن کے لوگ حاجت مند ہیں اور یہ سب ایضاح وتبیین ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
Alif-Laam-Raa . yeh uss kitab ki aayaten hain jo haq wazeh kernay wali hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
تعارف قرآن بزبان اللہ الرحمن
سورة بقرہ کی تفسیر کے شروع میں حروف مقطعات کی بحث گزر چکی ہے۔ اس کتاب یعنی قرآن شریف کی یہ آیتیں بہت واضح کھلی ہوئی اور خوب صاف ہیں۔ مبہم چیزوں کی حقیقت کھول دیتی ہیں یہاں پر تلک معنی میں ھذہ کے ہے۔ چونکہ عربی زبان نہایت کامل اور مقصد کو پوری طرح واضح کردینے والی اور وسعت و کثرت والی ہے، اس لے یہ پاکیزہ تر کتاب اس بہترین زبان میں افضل تر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، رسول کے سردار فرشتے کی سفارت میں، تمام روئے زمین کے بہتر مقام میں، وقتوں میں بہترین وقت میں نازل ہو کر ہر ایک طرح کے کمال کو پہنچی تاکہ تم ہر طرح سوچ سمجھ سکو اور اسے جان لو ہم بہترین قصہ بیان فرماتے ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر کوئی واقعہ بیان فرماتے ؟ اس پر یہ آیت اتری اور روایت میں ہے کہ ایک زمانے تک قرآن کریم نازل ہوتا گیا اور آپ صحابہ کے سامنے تلاوت فرماتے رہے پھر انہوں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی واقعہ بھی بیان ہوجاتا تو ؟ اس پر یہ آیتیں اتریں پھر کچھ وقت کے بعد کہا کاش کہ آپ کوئی بات بیان فرماتے اس پر یہ ( اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ڰ تَــقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۚ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِاللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ يَهْدِيْ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ 23) 39 ۔ الزمر :23) اتری۔ اور بات بیان ہوئی۔ روش کلام کا ایک ہی انداز دیکھ کر صحابہ نے کہا یا رسول اللہ بات سے اوپر کی اور قرآن سے نیچے کی کوئی چیز ہوتی یعنی واقعہ، اس پر یہ آیتیں اتریں، پھر انہوں نے حدیث کی خواہش کی اس پر ( آیت اللہ نزل الخ، ) اتری۔ پس قصے کے ارادے پر بہترین قصہ اور بات کے ارادے پر بہترین بات نازل ہوئی۔ اس جگہ جہاں کہ قرآن کریم کی تعریف ہو رہی ہے۔ اور یہ بیان ہے کہ یہ قرآن اور سب کتابوں سے بےنیاز کردینے والا ہے۔ مناسب ہے کہ ہم مسند احمد کی اس حدیث کو بھی بیان کردیں جس میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب کو کسی اہل کتاب سے ایک کتاب ہاتھ لگ گئی تھی اسے لے کر آپ حاضر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوئے اور آپ کے سامنے سنانے لگے آپ سخت غضب ناک ہوگئے اور فرمانے لگے اے خطاب کے لڑکے کیا تم اس میں مشغول ہو کر بہک جانا چاہتے ہو اسکی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں اس کو نہایت روشن اور واضح طور پر لے کر آیا ہوں۔ تم ان اہل کتاب سے کوئی بات نہ پوچھو ممکن ہے کہ وہ صحیح جواب دیں اور تم سے جھٹلا دو ۔ اور ہوسکتا ہے کہ وہ غلط جواب دیں اور تم اسے سچا سمجھ لو۔ سنو اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر آج خود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی سوائے میری تابعداری کے کوئی چارہ نہ تھا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ بنو قریضہ قبیلہ کے میرے ایک دوست نے تورات میں سے چند جامع باتیں مجھے لکھ دی ہیں۔ تو کیا میں انہیں آپ کو سناؤ ؟ آپ کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ حضرت عبداللہ بن ثابت نے کہا کہ اے عمر کیا تم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے کو نہیں دیکھ رہے ؟ اب حضرت عمر کی نگاہ پڑی تو آپ کہنے لگے ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہونے پر دل سے رضامند ہیں۔ اب آپ کے چہرہ سے غصہ دور ہوا اور فرمایا اس ذات پاک کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے کہ اگر تم میں خود حضرت موسیٰ ہوتے پھر تم مجھے چھوڑ کر ان کی اتباع میں لگ جاتے تو تم سب گمراہ ہوجاتے امتوں میں سے میرا حصہ تم ہو اور نبیوں میں سے تمہارا حصہ میں ہوں۔ ابو یعلی میں ہے کہ سوس کا رہنے والا قبیلہ عبدالقیس کا ایک شخص جناب فاروق اعظم (رض) کے پاس آیا آپ نے اس سے پوچھا کہ تیرا نام فلاں فلاں ہے ؟ اس نے کہا ہاں پوچھا تو سوس میں مقیم ہے ؟ اس نے کہا ہاں تو آپ کے ہاتھ میں جو خوشہ تھا اسے مارا۔ اس نے کہا امیر المومنین میرا کیا قصور ہے ؟ آپ نے فرمایا بیٹھ جا۔ میں بتاتا ہوں پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر اسی سورت کی ( آیتیں لمن الغافلین) تک پڑھیں تین مرتبہ ان آیتوں کی تلاوت کی اور تین مرتبہ اسے مارا۔ اس نے پھر پوچھا کہ امیرالمومنین میرا قصور کیا ہے آپ نے فرمایا تو نے دانیال کی ایک کتاب لکھی ہے۔ اس نے کہا پھر جو آپ فرمائیں۔ میں کرنے کو تیار ہوں، آپ نے فرمایا جا اور گرم پانی اور سفید روئی سے اسے بالکل مٹا دے۔ خبردار آج کے بعد سے اسے خود پڑھنا نہ کسی اور کو پڑھانا۔ اب اگر میں اس کے خلاف سنا کہ تو نے خود اسے پڑھا یا کسی کو پڑھایا تو ایسی سخت سزا کروں گا کہ عبرت بنے۔ پھر فرمایا بیٹھ جا، ایک بات سنتا جا۔ میں نے جاکر اہل کتاب کی ایک کتاب لکھی پھر اسے چمڑے میں لئے ہوئےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ آپ نے مجھ سے پوچھا تیرے ہاتھ میں یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا ایک کتاب ہے کہ ہم علم میں بڑھ جائیں۔ اس پر آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ غصے کی وجہ سے آپ کے رخسار پر سرخی نمودار ہوگئی پھر منادی کی گئی کہ نماز جمع کرنے والی ہے۔ اسی وقت انصار نے ہتھیار نکال لیے کہ کسی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ناراض کردیا ہے اور منبر نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چاروں طرف وہ لوگ ہتھیار بند بیٹھ گئے۔ اب آپ نے فرمایا لوگو میں جامع کلمات دیا گیا ہوں اور کلمات کے خاتم دیا گیا ہوں اور پھر میرے لیے بہت ہی اختصار کیا گیا ہے میں اللہ کے دین کی باتیں بہت سفید اور نمایاں لایا ہوں۔ خبردار تم بہک نہ جانا۔ گہرائی میں اترنے والے کہیں تمہیں بہکا نہ دیں۔ یہ سن کر حضرت عمر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے میں تو یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر آپ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہونے پر دل سے راضی ہوں۔ اب جو (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر سے اترے اس کے ایک روای عبدالرحمن بن اسحاق کو محدثین ضعیف کہتے ہیں۔ امام بخاری ان کی حدیث کو صحیح نہیں لکھتے۔ میں کہتا ہوں اس کا ایک شاہد اور سند حافظ ابوبکر احمد بن ابراہیم اسماعیلی لائے ہیں کہ خلافت فاروقی کے زمانے میں آپ نے محصن کے چند آدمی بلائے ان میں دو شخص وہ تھے جنہوں نے یہودیوں سے چند باتیں منتخب کر کے لکھ لی تھیں۔ وہ اس مجموعے کو بھی اپنے ساتھ لائے تاکہ حضرت سے دریافت کرلیں اگر آپ نے اجازت دی تو ہم اس میں اسی جیسی اور باتیں بھی بڑھا لیں گے ورنہ اسے بھی پھینک دیں گے۔ یہاں آکر انہوں نے کہا کہ امیرالمومنین یہودیوں سے ہم بعض ایسی باتیں سنتے ہیں کہ جن سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں تو کیا وہ باتیں ان سے لے لیں یا بالکل ہی نہ لیں ؟ آپ نے فرمایا شاید تم نے ان کی کچھ باتیں لکھ رکھیں ہیں ؟ سنو میں اس میں فیصلہ کن واقعہ سناؤ۔ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں خیبر گیا۔ وہاں کے ایک یہودی کی باتیں مجھ بہت پسند آئیں۔ میں نے اس سے درخواست کی اور اس نے وہ باتیں مجھے لکھ دیں۔ میں نے واپس آکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا آپ نے فرمایا جاؤ وہ لے کر آؤ میں خوشی خوشی چلا گیا شاید حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میرا یہ کام پسند آگیا۔ لاکر میں نے اس کو پڑھنا شروع کیا۔ اب جو ذرا سی دیر کے بعد میں نے نظر اٹھائی تو دیکھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو سخت ناراض ہیں۔ میری زبان سے تو ایک حرف بھی نہ نکلا اور مارے خوف کے میر رواں رواں کھڑا ہوگیا۔ میری یہ حالت دیکھ کر اب آپ نے ان تحریروں کو اٹھا لیا اور ان کا ایک ایک حرف مٹانا شروع کیا اور زبان مبارک سے ارشاد فرماتے جاتے تھے کہ دیکھو خبردار ان کی نہ ماننا۔ یہ تو گمراہی کے گڑھے میں جا پڑے ہیں اور یہ تو دوسروں کو بھی بہکا رہے ہیں۔ چناچہ آپ نے اس ساری تحریر کا ایک حرف بھی باقی نہ رکھا۔ یہ سنا کر حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اگر تم نے بھی ان کی باتیں لکھی ہوئی ہوتیں تو میں تمہیں ایسی سزا کرتا جو اوروں کے لیے عبرت ہوجائے۔ انہوں نے کہا واللہ ہم ہرگز ایک حرف بھی نہ لکھیں گے۔ باہر آتے ہی جنگل میں جاکر انہوں نے اپنی وہ تختیاں گڑھا کھود کر دفن کردیں۔ مراسیل ابی داؤد میں بھی حضرت عمر (رض) سے ایسی ہی روایت ہے واللہ اعلم۔