الحجر آية ۱
الٓرٰ ۗ تِلْكَ اٰيٰتُ الْـكِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِيْنٍ
طاہر القادری:
الف، لام، را (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، یہ (برگزیدہ) کتاب اور روشن قرآن کی آیتیں ہیں،
English Sahih:
Alif, Lam, Ra. These are the verses of the Book and a clear Quran [i.e., recitation].
1 Abul A'ala Maududi
ا ل ر یہ آیات ہیں کتاب الٰہی اور قرآن مبین کی
2 Ahmed Raza Khan
یہ آیتیں ہیں کتاب اور روشن قرآن کی-
3 Ahmed Ali
یہ آیتیں کتاب کی ہیں اور قرآن واضح کی
4 Ahsanul Bayan
ا لر، یہ کتاب الٰہی کی آیتیں ہیں اور کھلی اور روشن قرآن کی (١)۔
١۔١ کتاب اور قرآن مبین سے مراد قرآن کریم ہی ہے، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ جس طرح (ڛ قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ) 5۔ المائدہ;15) میں نور اور کتاب دونوں سے مراد قرآن کریم کی تکریم اور شان کے لئے ہے۔ یعنی قرآن کامل اور نہایت عظمت وشان والا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
آلرا۔ یہ خدا کی کتاب اور قرآن روشن کی آیتیں ہیں
6 Muhammad Junagarhi
الرٰ، یہ کتاب الٰہی کی آیتیں ہیں اور کھلے اور روشن قرآن کی
7 Muhammad Hussain Najafi
الف، لام، را۔ یہ کتاب (الٰہی) یعنی روشن قرآن کی آیتیں ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
الرۤ - یہ کتابِ خدا اور قرآنِ مبین کی آیات ہیں
9 Tafsir Jalalayn
الرا یہ (خدا کی) کتاب اور قرآن روشن کی آیتیں ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آیت نمبر 1 تا 15
ترجمہ : الرٰ ، اس سے اپنی مراد کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، یہ آیات قرآن کی آیتیں ہیں، اور اضافت بمعنی من ہے اور قرآن مبین کی (آیتیں ہیں) جو حق کو باطل سے ممتاز کرنے والا ہے یہ زیادتی صفت کے ساتھ عطف ہے بعید نہیں کہ کافر لوگ قیامت کے دن جب اپنے حال کو اور مسلمانوں کے حال کو دیکھیں تو تمنا کریں کاش ہم سر تسلیم خم کردیتے (ربما) تشدید اور تخفیف کے ساتھ ہے، رُب تکثیر کیلئے ہے بایں صورت کہ ان کی جانب سے اس کی کثرت سے تمنا ہو اور کہا گیا ہے کہ (رُب) تقلیل کیلئے ہے امر واقعہ یہ ہے کہ (قیامت کی) ہولناکیاں ان کی مدہوش کئے ہوں گے جس کی وجہ سے ان کو ہوش ہی نہ ہوگا کہ وہ اس کی تمنا کریں، الایہ کہ بہت قلیل وقت کیلئے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کافروں کو چھوڑو کہ اپنی دنیا میں کھائیں (پئیں) اور مزے کریں اور درازی عمر کی امید ان کو ایمان وغیرہ سے غفلت میں ڈالے رہے، اپنے عمل کا انجام انھیں عنقریب معلوم ہوجائیگا اور یہ حکم قتال سے پہلے کا ہے، اور ہم نے کسی بستی کو یعنی بستی والوں کو ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس کیلئے مقررہ نوشتہ تھا (یعنی) اس کی ہلاکت کا وقت مقرر تھا من زائدہ، اور قریہ سے اہل قریہ مراد ہیں، کوئی (متنفس) اپنی موت کے وقت مقررہ سے نہ آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ اس سے پیچھے ہٹ سکتا ہے، من زائدہ ہے کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے ہیں کہ اے وہ شخص کہ جس پر بزعم خود ذکر (یعنی) قرآن نازل کیا گیا ہے بلاشبہ تو دیوانہ ہے اگر تو اپنے اس دعوے میں کہ تو نبی ہے اور یہ کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے سچا ہے تو ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں لاتا اور ہم فرشتوں کو حق کے ساتھ ہی اتارتے ہیں (یعنی) عذاب کے ساتھ اور جب فرشتے عذاب لے کر اترتے ہیں تو پھر ان کو مہلت نہیں دی جاتی ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے (نحن) ان کے اسم کی تاکید ہے یا ضمر فصل ہے اور ہم ہی تبدیل و تحریف اور زیادتی و نقصان سے حفاظت کرنے والے ہیں اور ہم نے آپ سے پہلے گذشتہ قوموں میں (بھی برابر) رسول بھیجے اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان کے پاس رسول آیا ہو اور اس نے تیری قوم کے تیرا مذاق اڑانے کے مانند مذاق نہ اڑایا ہو اور یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہے اور اسی طرح یعنی ان لوگوں کے دلوں میں تکذیب (استہزاء) ڈالنے کے مانند مجرموں یعنی کفار مکہ کے دلوں میں ڈال دیتے ہیں (جس کی وجہ سے) یہ لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (رسالت) کی تصدیق نہیں کرتے اور یہ دستور پہلے ہی سے چلا آتا ہے یعنی ان کی تکذیب کی وجہ سے ان کو سزا دینے کا اللہ کا دستور پہلے ہی سے چلا آتا ہے، اور یہ بھی (تکذیب میں) ان جیسے ہیں اور اگر ہم ان کے لئے آسمان کا دروازہ کھول بھی دیں اور یہ اس دروازہ سے چڑھ بھی جائیں تب بھی یہ یہی کہیں گے کہ ہماری تو نظر بندی کردی گئی بلکہ ہمارے اوپر جادو کردیا گیا یعنی یہ (آسمان پر چڑھنا) ہمارے خیال میں ڈال دیا گیا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ھذہ الاٰیات۔ سوال : تلک کی تفسیر ھذہ سے کرنے کا کیا فائدہ ہے ؟ جواب : قرب حسی کو بیان کرنا مقصود ہے۔
سوال : تو پھر ھذہ ہی کیوں نہ استعمال کیا گیا۔
جواب : تلک سے علور تبی کو بیان کرنا مقصود ہے، تلک کو ھذہ کے معنی میں لینے سے دونوں فائدے حاصل ہوگئے علورتبی اور قرب حسی اگر تلک کی جگہ ھذہ استعمال ہوتا تو صرف قرب حسی ہی کا فائدہ حاصل ہوتا۔
قولہ : اضافت بمعنی من ای آیات من الکتاب۔ قولہ : مظھر الحق۔
سوال : مفسر علام عام طور پر مبین کی تفسیر بین سے کرتے ہیں اور یہ قرین قیاس بھی ہے اسلئے کہ متعدی بمعنی لازم لینا مقصود ہوتا ہے مگر یہاں مبین سے متعدی معنی ہی مراد ہیں نہ کہ لازم اسی لئے مفسر علام نے مبین کی تفسیر مظھر سے کی ہے۔
قولہ : عطف بزیادۃ الصفۃ۔ سوال : اس اضافہ کا کیا فائدہ ہے ؟ جواب : یہ ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : یہ ہے کہ قرآن کا عطف کتاب پر ہو رہا ہے اور دونوں کا مصداق ایک ہی ہے لہٰذا یہ عطف الشئ علی نفسہ کے قبیل سے ہوگیا حالانکہ عطف مغایرت کو چاہتا ہے۔
جواب : کتاب جو کہ معطوف علیہ ہے مطلق ہے اور قرآن صفت مبین کے ساتھ مقید ہے لہٰذا یہ عطف مقید علی المطلق کے قبیل سے ہے اور دونوں میں مغایرت ظاہر ہے لہٰذا کوئی اعتراض نہیں، مفسر علام نے عطف بزیادۃ الصفۃ سے اسی سوال کا جواب دیا ہے۔
قولہ : یتاخرون عنہ یہ بھی ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : ہے کہ یستاخرون باب استفعال ہے جو طلب پر دلالت کرتا ہے حالانکہ یہاں طلب کے معنی مقصود نہیں ہیں ؟
جواب : استفعال بمعنی تفعل ہے۔ ،
قولہ : انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون یہ مشرکین کے ردو انکار کا جواب ہے جو مشرکین نے بھی ” انک لمجنون “ کہہ کر نزول ذکر کا تاکید کے ساتھ انکار کیا تھا لہٰذا اللہ تعالیٰ نے نزول ذکر کا اثبات بھی تاکید کے ساتھ انا نحن نزلنا الذکر الخ کہہ کر فرمایا۔
قولہ : تاکید اور فصل یعنی نحن اسم ناکی تاکید ہے یا یہ کہ فصل ہے نحن کو فصل قرار دینے کی صورت میں یہ سوال ہوگا کہ فصل دو اسموں کے درمیان ہوتا ہے نہ کہ اسم اور فعل کے درمیان جیسا کہ یہاں ہے اور دوسرا سوال یہ ہوگا کہ فصل ضمیر غائب سے ہوتا ہے نہ کہ اس کے علاوہ سے البتہ جرجانی (رح) تعالیٰ نے اسم اور فعل کے درمیان بھی فصل کو جائز کہا ہے غالبا مفسر علام نے جرجانی (رح) تعالیٰ کے مسلک پر عمل کیا ہے۔
قولہ : کان، کان کا اضافہ اس سوال کا جواب ہے کہ ما حالیہ اس مضارع پر داخل ہوتا ہے جو حال کے معنی میں ہو یا اس ماضی پر داخل ہوتا ہے جو قریب الی الحال ہو مفسر علام نے کان مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ ما حالیہ ماضی قریب الی الحال پر داخل ہے۔
قولہ : ندخلہ، ای الاستھزاءَ ، ہٗ ضمیر کا مرجع استہزاء ہے۔
تفسیر و تشریح
سورت کا نام : اس سورت کا نام حجر ہے جو کہ آیت 80 کے فقرہ کذب اصحٰب الحجر المرسلین سے ماخوذ ہے۔
مقام حجر کا مختصر تعارف : حجر یہ قوم ثمود کا مرکز تھا اس کے کھنڈر مدینہ سے شمال مغرب میں موجود شہر العلا سے چند میل کے فاصلہ پر واقع ہیں، مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے یہ شہر شاہ راہ عام پر پڑتا ہے اور قافلے اس وادی سے ہو کر گذرتے ہیں 9 ھ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک جاتے ہوئے اس علاقہ سے گذرے تھے مگر آپ نے اس معذب بستی سے جلدی سے گذرنے کا حکم فرمایا تھا دولت عثمانیہ کے زمانہ میں یہ حجاز ریلوے کا اسٹیشن تھا۔ آٹھویں صدی ہجری میں ابن بطوطہ حج کو جاتے ہوئے یہاں پہنچا تھا، وہ لکھتا ہے کہ یہاں سرخ رنگ کے پہاڑوں میں قوم ثمود کی تراشی ہوئی عمارتیں موجود ہیں جو انہوں نے پہاڑوں کو تراش کر ان کے اندر بنائی تھیں ان کے نقش و نگار اس وقت تک ایسے تازہ ہیں جیسا آج یہ بنائے گئے ہوں، ان مکانات میں اب گلی سڑی ہڈیاں پڑی ہوئی ملتی ہیں۔ الرٰ ، اس کی حقیقی مراد تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، یہ آیتیں ہیں ایک کامل کتاب کی، کتاب مبین سے مراد قرآن کریم ہی ہے قرآن کی تنوین نفحیم کیلئے یعنی یہ قرآن کامل اور نہایت عظمت و شان والا ہے۔
ربما یود۔۔۔ مسلمین، کفار و مشرکین یہ آرزو کس وقت کریں گے ؟ موت کے وقت جب فرشتے انھیں جہنم کی آگ دکھاتے ہیں، یا جہنم میں داخل ہونے کے بعد، یا میدان حشر میں جہاں حساب کتاب ہو رہا ہوگا اور کافر مسلمانوں کو جنت میں اور کافروں کو دوزخ میں جاتا ہوا دیکھیں گے، اس وقت کافر آرزو کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے ” ربما “ اکثر تو تکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی قلت کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے رُب بغیر ما کے فعل پر داخل نہیں ہوتا۔
ذرھم۔۔۔۔ (الآیۃ) یہ کافروں کیلئے تہدید و توبیخ ہے، یعنی اگر یہ کافر کفر و شرک سے باز نہیں آئے تو انھیں اپنی حالت پر چھوڑ دیجئے، یہ دنیوی لذتوں سے محظوظ ہوں اور خوب داد عیش دیں، عنقریب انھیں اپنے کفر و شرک کا انجام معلوم ہوجائیگا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ کھانے پینے کو مقصد اصلی اور مسغلہ بنا لینا اور دنیوی عیش و عشرت کے سامان میں موت سے بےفکر ہو کر طویل منصوبہ سازی کرتے رہنا کفار ہی کا شیوہ ہوسکتا ہے جن کا آخرت اور اس کے حساب و کتاب اور جزاء وسزا پر ایمان نہیں، مومن بھی کھاتا پیتا ہے، اور معاش کا بقدر ضرورت سامان بھی کرتا ہے اور آئندہ کاروبار کے منصوبے بھی بناتا ہے مگر موت اور فکر آخرت سے خالی ہو کر یہ کام نہیں کرتا۔
ما تسبق۔۔۔ یستاخرون، جس بستی کو بھی ہم نافرمانی کی وجہ سے ہلاک کرتے ہیں، تو فورا ہلاک نہیں کر ڈالتے، بلکہ ہم ایک وقت مقرر کئے ہوئے ہیں اس وقت تک اس بستی والوں کو مہلت دی جاتی ہے لیکن جب وہ مقررہ وقت آجاتا ہے تو انھیں ہلاک کردیا جاتا ہے پھر وہ اس سے آگے پیچھے نہیں ہوتے۔
قرآن اور حفاظت قرآن : انا نحن نزلنا۔۔۔ لحافظون، اس آیت میں پیشین گوئی کردی گئی ہے کہ قرآن کریم قیامت تک اپنی اصلی شکل میں محفوظ رہے گا، دنیا کی کوئی طاقت اسے مٹانے یا اس میں تحریف و ترمیم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی، ہم نے مقدمہ میں حفاظت قرآن کے زیر عنوان گفتگو کی ہے وہاں آپ نے غالباً پڑھ لیا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اس پیشین گوئی کو عملی طور پر کس طرح سچا کرکے دکھایا، اور ہر دور میں اس کی کس طرح حفاظت کی، چناچہ آج یہ بات پورے وثوق اور دعوے کے ساتھ بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ قرآن کریم ہمارے پاس اسی شکل میں موجود ہے جس شکل میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسکی تعلیم دی تھی، اور اس میں آجتک کسی ایک نقطہ یا شوشے کا بھی فرق نہیں ہوسکا، معاندین اسلام نے ماضی میں بھی قرآن میں تحریف و ترمیم کی کوشش کی ہیں اور آج بھی یہ کوششیں جاری ہیں مگر مایوسی اور ناکامی کے علاوہ ان کے کچھ ہاتھ نہیں لگا۔
حفاظت قرآن غیروں کی نظر میں : قرآن محفوظ ہونے کا عقیدہ صرف مسلمانوں ہی کا نہیں بلکہ منصب مزاج غیر مسلموں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے اور اس سے انکار کی جرأت نہیں کی، لیکن جب نگاہوں پر تعصب کا پردہ پڑجائے تو ایک شفاف چشمہ بھی گدلا نظر آنے لگتا ہے حفاظت قرآن کا وعدۂ الٰہی جس حیرت انگیز طریقہ پر پورا ہو کر رہا اسے دیکھ کر بڑے بڑے متعصب و مغرور مخالفوں کے سر نیچے ہوگئے ” میور “ کہتا ہے۔ ” جہاں تک ہماری معلومات ہیں دنیا بھر میں ایک بھی ایسی کتاب نہیں کہ جو قرآن کی طرح بارہ صدیوں تک ہر قسم کی تحریف سے پاک رہی ہو “۔
ایک اور یوروپین لکھتا ہے۔ ” ہم ایسے ہی یقین سے قرآن کو بعینہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ سمجھتے ہیں جیسے مسلمان اسے خدا کا کلام سمجھتے ہیں “۔
حفاظت قرآن کے سلسلہ میں مامون رشید کے دربار کا ایک واقعہ : قرطبی نے اس جگہ سند متصل کے ساتھ ایک واقعہ امیر المومنین مامون کے دربار کا نقل کیا ہے کہ مامون گا ہے بگا ہے علمی مسائل پر بحث و مباحثے اور ندا کرے کرایا کرتا تھا، ایسے ہی ایک مباحثہ میں ایک یہودی بھی ایک مرتبہ آگیا، جب مجلس ختم ہوگئی تو مامون نے بلا کر دریافت کیا، کیا تم اسرائیلی ہو ؟ اس نے کہا ہاں، مامون نے امتحانا کہا اگر تم مسلمان ہوجاؤ تو ہم تمہارے ساتھ بہت اچھا سلوک کریں گے۔
اس نے جواب دیا کہ میں اپنے آباء و اجداد کے دین کو نہیں چھوڑ سکتا، پھر اسی شخص نے ایک سال بعد مسلمان ہو کردو بار میں مجلس مذاکرہ میں فقہ اسلامی کے موضوع پر بہترین تقریر اور عمدہ تحقیقات پیش کیں، مجلس ختم ہونے کے بعد مامون نے اس کو بلا کر کہا کہ تم وہی شخص ہو جو سال گذشتہ آئے تھے اس نے کہا ہاں وہی ہوں، مامون نے دریافت کیا اس وقت تم نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا تھا پھر اب مسلمان ہونیکا سبب کیا ہوا ؟
اس نے جواب دیا کہ سال گذشتہ جب یہاں سے واپس گیا تو میں نے موجودہ مذاہب کی تحقیق کرنے کا ارادہ کیا، میں ایک خطاط اور خوش نویس آدمی ہوں، کتابیں لکھ کر فروخت کرتا ہوں، اچھی قیمت سے فروخت ہوجاتی ہیں، میں نے آزمائش اور امتحان کے طور پر تورات کے تین نسخے کتابت کئے جن میں میں نے بہت سی جگہ اپنی طرف سے حذف و اضافہ کردیا اور میں وہ نسخے لے کر کنیسہ میں پہنچا، یہودیوں نے بڑی رغبت سے ان کو خرید لیا، پھر اسی طرح انجیل کے تین نسخے حذف و اضافہ کے ساتھ کتابت کئے اور نصاریٰ کے پاس لے گیا وہاں بھی عیسائیوں نے بڑی قدرومنزلت کے ساتھ یہ نسخے مجھ سے خرید لئے، پھر یہی کام میں نے قرآن کے ساتھ کیا، اس کے بھی تین نسخے عمدہ کتابت کئے جن میں اپنی طرف سے کمی بیشی کردی پھر ان کو لے کر میں فروخت کیلئے نکلا تو جس مسلمان کے پاس لے کر گیا اس نے دیکھا کہ صحیح بھی ہیں یا نہیں جب کمی بیشی نظر آئی تو اس نے مجھے وہ نسخے واپس کر دئیے۔
اس واقعہ سے میں نے سبق لیا کہ یہ کتاب محفوظ ہے اور اللہ ہی نے اس کی حفاظت کی ہوئی ہے، اسی وجہ سے میں مسلمان ہوگیا۔ واقعات بتلاتے ہیں کہ ہر زمانہ میں ایک بڑی تعداد علماء کی ایسی رہی ہے کہ جس نے قرآن کریم کے علوم اور مطالب کی حفاظت کی ہے، کاتبوں نے رسم الخط کی، قاریوں نے طرز ادا اور تلفظ کی، حافظوں نے اس کے الفاظ اور عبارت کی وہ حفاظت کی کہ نزول کے وقت سے لے کر آج تک کوئی لمحہ اور کوئی ساعت نہیں بتلائی جاسکتی کہ جس میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد حفاظ قرآن کی موجود نہ رہی ہو آٹھ دس سال کا بچہ جسے اپنی مادری زبان میں دو تین جز کارسالہ یاد کرنا دشوار ہے وہ ایک اجنبی زبان کی اتنی ضخیم کتاب کس طرح فرفرسنا دیتا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب کی تعظیم اور مدح بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ﴾ ’’یہ کتاب کی آیات ہیں۔‘‘ یعنی یہ آیات بہترین معانی اور افضل ترین مطالب پر دلالت کرتی ہیں﴿وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ﴾ ’’اور قرآن روشن کی۔‘‘ جو بہترین الفاظ اور اپنے مقصد پر قوی دلائل کے ذریعے سے حقائق کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے اور یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ مخلوق اس کی اطاعت کرے، اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دے اور فرحت و سرور کے ساتھ اس کو قبول کرے۔
11 Mufti Taqi Usmani
Alif-Laam-Raa . yeh ( Allah ki ) kitab aur roshan Quran ki aayaten hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
سورتوں کے اول جو حروف مقطعہ آئے ہیں ان کا بیان پہلے گزر چکا ہے۔ آیت میں قرآن کی آیتوں کے واضح اور ہر شخص کی سمجھ میں آنے کے قابل ہونے کا بیان فرمایا ہے۔