Skip to main content

وَاِذَا قَرَأْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا ۙ

And when
وَإِذَا
اور جب
you recite
قَرَأْتَ
پڑھتے ہو تم
the Quran
ٱلْقُرْءَانَ
قرآن کو
We place
جَعَلْنَا
ہم ڈال دیتے ہیں
between you
بَيْنَكَ
تیرے درمیان
and between
وَبَيْنَ
اور درمیان
those who
ٱلَّذِينَ
ان لوگوں کے
(do) not
لَا
جو نہیں
believe
يُؤْمِنُونَ
ایمان رکھتے
in the Hereafter
بِٱلْءَاخِرَةِ
آخرت
a barrier
حِجَابًا
ایک پردہ
hidden
مَّسْتُورًا
چھپا ہوا

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیتے ہیں

English Sahih:

And when you recite the Quran, We put between you and those who do not believe in the Hereafter a concealed partition.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیتے ہیں

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور اے محبوب! تم نے قرآن پڑھا ہم نے تم پر اور ان میں کہ آخرت پر ایمان ہیں لاتے ایک چھپا ہوا پردہ کردیا

احمد علی Ahmed Ali

اورجب تو قرآن پڑھتا ہے ہم تیرے اور ان لوگو ں کے درمیان جو آخرت کو نہیں مانتے ایک چھپا ہو ا پردہ کر دیتے ہیں

أحسن البيان Ahsanul Bayan

تو جب قرآن پڑھتا ہے ہم تیرے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے ایک پوشیدہ حجاب ڈال دیتے ہیں۔ (١)

٤٥۔١ مَسْتُور بمعنی سَاترٍ(مانع اور حائل) ہے مستور عن الابصار (آنکھوں سے اوجھل) پس وہ اسے دیکھتے ہیں۔ اس کے باوجود، ان کے اور ہدایت کے درمیان حجاب ہے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور جب قرآن پڑھا کرتے ہو تو ہم تم میں اور ان لوگوں میں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے حجاب پر حجاب کر دیتے ہیں

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

تو جب قرآن پڑھتا ہے ہم تیرے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے ایک پوشیده حجاب ڈال دیتے ہیں

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

(اے پیغمبر(ص)!) جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ایک پوشیدہ پردہ ڈال دیتے ہیں۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے درمیان حجاب قائم کردیتے ہیں

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور جب آپ قرآن پڑھتے ہیں (تو) ہم آپ کے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ایک پوشیدہ پردہ حائل کر دیتے ہیں،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

کفار کا ایک نفسیاتی تجزیہ
فرماتا ہے کہ قرآن کی تلاوت کے وقت ان کے دلوں پر پردے پڑجاتے ہیں، کوئی اثر ان کے دلوں تک نہیں پہنچتا۔ وہ حجاب انہیں چھپا لیتا ہے۔ یہاں مستور ساتر کے معنی میں ہے جیسے میمون اور مشئوم معنی میں یا من اور شائم کے ہیں۔ وہ پردے گو بظاہر نظر نہ آئیں لیکن ہدایت میں اور ان میں وہ حد فاصل ہوجاتے ہیں۔ مسند ابو یعلی موصلی میں ہے کہ سورة تبت یدا کے اترنے پر عورت ام جمیل شور مچاتی دھاری دار پتھر ہاتھ میں لئے یہ کہتی ہوئی آئی کہ اس مذمم کو ہم ماننے والے نہیں ہمیں اس کا دین ناپسند ہے، ہم اس کے فرمان کے مخالف ہیں۔ اس وقت رسول الکریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے ہوئے تھے، حضرت ابوبکر (رض) آپ کے پاس تھے، کہنے لگے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ آرہی ہے اور آپ کو دیکھ لے گی۔ آپ نے فرمایا بےفکر رہو یہ مجھے نہیں دیکھ سکتی اور آپ نے اس سے بچنے کے لئے تلاوت قرآن شروع کردی۔ یہی آیت تلاوت فرمائی وہ آئی اور حضرت صدیق اکبر (رض) سے پوچھنے لگی کہ میں نے سنا ہے۔ تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری ہجو کی ہے، آپ نے فرمایا، نہیں، رب کعبہ کی قسم تیری ہجو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں کی، وہ یہ کہتی ہوئی لوٹی کہ تمام قریش جانتے ہیں کہ میں ان کے سردار کی لڑکی ہوں۔ اکنہ کنان کی جمع ہے اس پردے نے ان کے دلوں کو ڈھک رکھا ہے جس سے یہ قرآن سمجھ نہیں سکتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے، جس سے وہ قرآن اس طرح سن نہیں سکتے کہ انہیں فائدہ پہنچے اور جب تو قرآن میں اللہ کی وحدانیت کا ذکر پڑھتا ہے تو یہ بےطرح بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ نفور جمع ہے نافر کی جیسے قاعد کی جمع عقود آتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ مصدر بغیر فعل ہو واللہ اعلم۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ اللہ واحد کے ذکر سے بےایمانوں کے دل اچاٹ ہوجاتے ہیں۔ مسلمانوں کا لا الہ الا اللہ کا مشرکوں پر بہت گراں گزرتا تھا ابلیس اور اس کا لشکر اس سے بہت چڑتا تھا۔ اس کے دبانے کی پوری کوشش کرتا تھا لیکن اللہ کا ارادہ ان کے برخلاف اسے بلند کرنے اور عزت دینے اور پھیلانے کا تھا۔ یہی وہ کلمہ ہے کہ اس کا قائل فلاح پاتا ہے اس کا عامل مدد دیا جاتا ہے دیکھ لو اس جزیرے کے حالات تمہارے سامنے ہیں کہ یہاں سے وہاں تک یہ پاک کلمہ پھیل گیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد شیطانوں کا بھاگنا ہے گو بات یہ ٹھیک ہے۔ اللہ کے ذکر سے، اذان سے، تلاوت قرآن سے، شیطان بھاگتا ہے لیکن اس آیت کی تفسیر کرنا غرابت سے خالی نہیں۔