اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تمہارے درمیان جو لکھنے والا ہو اسے چاہئے کہ انصاف کے ساتھ لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اﷲ نے لکھنا سکھایا ہے، پس وہ لکھ دے (یعنی شرع اور ملکی دستور کے مطابق وثیقہ نویسی کا حق پوری دیانت سے ادا کرے)، اور مضمون وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق (یعنی قرض) ہو اور اسے چاہئے کہ اﷲ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور اس (زرِ قرض) میں سے (لکھواتے وقت) کچھ بھی کمی نہ کرے، پھر اگر وہ شخص جس کے ذمہ حق واجب ہوا ہے ناسمجھ یا ناتواں ہو یا خود مضمون لکھوانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس کے کارندے کو چاہئے کہ وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے، اور اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، پھر اگر دونوں مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں (یہ) ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرتے ہو (یعنی قابلِ اعتماد سمجھتے ہو) تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے، اور گواہوں کو جب بھی (گواہی کے لئے) بلایا جائے وہ انکار نہ کریں، اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اپنی میعاد تک لکھ رکھنے میں اکتایا نہ کرو، یہ تمہارا دستاویز تیار کر لینا اﷲ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف ہے اور گواہی کے لئے مضبوط تر اور یہ اس کے بھی قریب تر ہے کہ تم شک میں مبتلا نہ ہو سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں، اور جب بھی آپس میں خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو، اور نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے اور نہ گواہ کو، اور اگر تم نے ایسا کیا تو یہ تمہاری حکم شکنی ہوگی، اور اﷲ سے ڈرتے رہو، اور اﷲ تمہیں (معاملات کی) تعلیم دیتا ہے اور اﷲ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے،
English Sahih:
O you who have believed, when you contract a debt for a specified term, write it down. And let a scribe write [it] between you in justice. Let no scribe refuse to write as Allah has taught him. So let him write and let the one who has the obligation [i.e., the debtor] dictate. And let him fear Allah, his Lord, and not leave anything out of it. But if the one who has the obligation is of limited understanding or weak or unable to dictate himself, then let his guardian dictate in justice. And bring to witness two witnesses from among your men. And if there are not two men [available], then a man and two women from those whom you accept as witnesses – so that if one of them [i.e., the women] errs, then the other can remind her. And let not the witnesses refuse when they are called upon. And do not be [too] weary to write it, whether it is small or large, for its [specified] term. That is more just in the sight of Allah and stronger as evidence and more likely to prevent doubt between you, except when it is an immediate transaction which you conduct among yourselves. For [then] there is no blame upon you if you do not write it. And take witnesses when you conclude a contract. Let no scribe be harmed or any witness. For if you do so, indeed, it is [grave] disobedience in you. And fear Allah. And Allah teaches you. And Allah is Knowing of all things.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی مقرر مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو، تو اسے لکھ لیا کرو فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو، اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے وہ لکھے اور املا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے (یعنی قرض لینے والا)، اور اُسے اللہ، اپنے رب سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو، املا نہ کرا سکتا ہو، تواس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کرائے پھر اپنے مردوں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرا لو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے، تو دوسری اسے یاد دلا دے یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہییں، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے، تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، میعاد کی تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے، اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے ایسا کرو گے، تو گناہ کا ارتکاب کرو گے اللہ کے غضب سے بچو وہ تم کو صحیح طریق عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! جب تم ایک مقرر مدت تک کسی دین کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو اور چاہئے کہ تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا ٹھیک ٹھیک لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اللہ نے سکھایا ہے تو اسے لکھ دینا چاہئے اور جس بات پر حق آتا ہے وہ لکھا تا جائے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور حق میں سے کچھ رکھ نہ چھوڑے پھر جس پر حق آتا ہے اگر بے عقل یا ناتواں ہو یا لکھا نہ سکے تو اس کا ولی انصاف سے لکھائے، اور دو گواہ کرلو اپنے مردوں میں سے پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ایسے گواہ جن کو پسند کرو کہ کہیں ان میں ایک عورت بھولے تو اس کو دوسری یاد دلادے، اور گواہ جب بلائے جائیں تو آنے سے انکار نہ کریں اور اسے بھاری نہ جانو کہ دین چھوٹا ہو یا بڑا اس کی میعاد تک لکھت کرلو یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے اس میں گواہی خوب ٹھیک رہے گی اور یہ اس سے قریب ہے کہ تمہیں شبہ نہ پڑے مگر یہ کہ کوئی سردست کا سودا دست بدست ہو تو اس کے نہ لکھنے کا تم پر گناہ نہیں اور جب خرید و فروخت کرو تو گواہ کرلو اور نہ کسی لکھنے والے کو ضَرر دیا جائے، نہ گواہ کو (یا، نہ لکھنے والا ضَرر دے نہ گواہ) اور جو تم ایسا کرو تو یہ تمہارا فسق ہوگا، اور اللہ سے ڈرو اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے، اور اللہ سب کچھ جانتا ہے،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو! جب تم کسی وقت مقرر تک آپس میں ادھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو اور چاہیئے کہ تمہارے درمیان لکھنے والے انصاف سے لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اس کو الله نے سکھایا ہے سو اسے چاہیئے کہ لکھ دے اور وہ شخص بتلاتا جائے کہ جس پر قرض ہے اور الله سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور اس میں کچھ کم کر کے نہ لکھائے پھر اگر وہ شخص کہ جس پر قرض ہے بے وقوف ہے یا کمزور ہے یا وہ بتلا نہیں سکتا تو اس کا کارکن ٹھیک طور پر لکھوا دے اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ کر لیا کرو پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دوعورتیں ان لوگوں میں سے جنہیں تم گواہو ں میں سے پسند کرتے ہوتاکہ اگر ایک ان میں سے بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے اور جب گواہوں کو بلایا جائے تو انکار نہ کریں اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کی معیاد تک لکھنے میں سستی نہ کرو یہ لکھ لینا الله کے نزدیک انصاف کو زیادہ قائم رکھنے والا ہے اور شہادت کا زیادہ درست رکھنے والا ہے اور زیادہ قریب ہے اس بات کے کہ تم کسی شبہ میں نہ پڑو مگر یہ کہ سوداگری ہاتھوں ہاتھ ہو جسے آپس میں لیتے دیتے ہو پھر تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اسے نہ لکھو اور جب آپس میں سودا کرو تو گواہ بنا لو اور لکھنے والے اور گواہ بنانے والے کو تکلیف نہ دی جائے اور اگر تم نے تکلیف دی تو تمہیں گناہ ہوگا اور الله سے ڈرو اور الله تمہیں سکھاتا ہے اور الله ہر چیز کا جاننے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرہ پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو (١) اور لکھنے والے کو چاہیے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے، کاتب کو چاہیے کہ لکھنے سے انکار نہ کرے جیسے اللہ تعالٰی نے اسے سکھایا ہے پس اسے بھی لکھ دینا چاہیے جس کے ذمہ حق ہو (٢) وہ لکھوائے اور اپنے اللہ تعالٰی سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور حق میں سے کچھ گھٹائے نہیں، جس شخص کے ذمہ حق ہے وہ اگر نادان ہو یا کمزور ہو یا لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوائے اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو۔ اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں پسند کر لو (٤) تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے (٥) اور گواہوں کو چاہیے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو، اللہ تعالٰی کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی ہے شک وشبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے (٦) ہاں یہ اور بات ہے کہ معاملہ نقد تجارت کی شکل میں ہو جو آپس میں تم لین دین کر رہے ہو تم پر اس کے نہ لکھنے میں کوئی گناہ نہیں۔ خرید و فروخت کے وقت بھی گواہ مقرر کر لیا کرو (٧) اور (یاد رکھو کہ) نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو (٨) اور تم یہ کرو تو یہ تمہاری کھلی نافرمانی ہے، اللہ سے ڈرو اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ تعالٰی ہرچیز کو خوب جاننے والا ہے۔
٢٨٢۔١ جب سودی نظام کی سختی سے ممانعت اور صدقات و خیرات کی تاکید بیان کی گئی تو پھر ایسے معاشرے میں (قرضوں) کی بہت ضرورت پڑتی ہے کیونکہ سود تو ویسے ہی حرام ہے اور ہر شخص صدقہ و خیرات کی استطاعت نہیں رکھتا اسی طرح ہر شخص صدقہ لینا پسند بھی نہیں کرتا پھر اپنی ضروریات و حاجات پوری کرنے کے لئے قرض ہی باقی رہ جاتا ہے۔ اسی لئے احادیث میں قرض دینے کا بڑا ثواب بیان کیا گیا ہے تاہم قرض جس طرح ایک ناگزیر ضرورت ہے اور جھگڑوں کا باعث بھی ہے اس لئے اس آیت میں جسے آیتہ الدین کہا جاتا ہے اور جو قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے اللہ تعالٰی نے قرض کے سلسلے میں ضروری ہدایات دی ہیں تاکہ یہ ناگزیر ضرورت لڑائی جھگڑے کا باعث نہ بنیں اس کے لئے ایک حکم یہ دیا گیا ہے کہ مدت کا تعین کر لو دوسرا یہ کہ اسے لکھ لو تیسرا یہ کہ اس پر دو مسلمان مرد کو یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لو۔ ٢٨٢۔٢ اس سے مراد ہے یعنی وہ اللہ سے ڈرتا ہوا رقم کی صحیح تعداد لکھوائے اس میں کمی نہ کرے آگے کہا جا رہا ہے کہ یہ مقروض اگر کم عقل یا کمزور بچہ یا مجنون ہے تو اس کے ولی کو چاہیے کہ انصاف کے ساتھ لکھوالے تاکہ صاحب حق (قرض دینے والے) کو نقصان نہ ہو۔ ٢٨٢۔٣ یعنی جن کی دیانتداری اور عدالت پر مطمئن ہو۔ علاوہ ازیں قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے نیز مرد کے بغیر صرف اکیلی عورت کی گواہی بھی جائز نہیں سوائے ان معاملات کے جن پر عورت کے علاوہ کوئی اور مطلع نہیں ہو سکتا اس امر میں اختلاف ہے کہ مدعی کی ایک قسم کے ساتھ دو عورتوں کی گواہی پر فیصلہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جس طرح ایک مرد گواہ کے ساتھ فیصلہ کرنا جائز ہے جب کہ دوسرے گواہ کی جگہ مدعی قسم کھا لے۔ فقہائے احناف کے نزدیک ایسا کرنا جائز نہیں جب کہ محدثین اس کے قائل ہیں کیونکہ حدیث سے ایک گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلہ کرنا ثابت ہے اور دو عورتیں جب ایک مرد گواہ کے برابر ہیں تو دو عورتوں اور قسم کے ساتھ فیصلہ کرنا بھی جائز ہوگا (فتح القدیر) ٢٨٢۔٤ یہ ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کو مقرر کرنے کی علت و حکمت ہے۔ یعنی عورت عقل اور یاداشت میں مرد سے کمزور ہے (جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں بھی عورت کو ناقص العقل کہا گیا ہے) اس میں عورت کی شرم ساری اور فروتری کا اظہار نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض لوگ باور کراتے ہیں بلکہ ایک فطرتی کمزوری کا بیان ہے جو اللہ تعالٰی کی حکمت ومشیت پر مبنی ہے۔ مکابرۃً کوئی اس کو تسلیم نہ کرے تو اور بات ہے۔ لیکن حقائق و واقعات کے اعتبار سے یہ ناقابل تردید ہے۔ ٢٨٢۔٥ یہ لکھنے کے فوائد ہیں کہ اس سے انصاف کے تقاضے پورے ہونگے، گواہی بھی درست رہے گی (کہ گواہ اگر فوت ہو جائے) یا غائب ہو جائے تو اس صورت میں تحریر کام آئے گی، اور شک وشبہ سے بھی فریقین محفوظ رہیں گے۔ شک پڑنے کی صورت میں تحریر دیکھ کر شک دور کیا جا سکتا ہے۔ ٢٨٢۔٦ یہ وہ خریدو فروخت ہے جس میں ادھار ہو یا سودا طے ہو جانے کے بعد بھی انحراف کا خطرہ ہو ورنہ اس سے پہلے نقد سودے کو لکھنے سے مستشنٰی کر دیا گیا ہے بعض نے بیع سے مکان دکان، باغ یاحیوانات کی بیع مراد لی ہے۔ ٢٨٢۔٧ ان کو نقصان پہنچانا یہ ہے کہ دور دراز کے علاقے میں ان کو بلایا جائے کہ جس سے ان کی مصروفیات میں حرج یا کاروبار میں نقصان ہو یا ان کو جھوٹی بات لکھنے یا اس کی گواہی دینے پر مجبور کیا جائے۔ ٢٨۔٨ یعنی جن باتوں کی تاکید کی گئی ہے ان پر عمل کرو اور جن چیزوں سے روکا گیا ہے ان سے اجتناب کرو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لئے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لکھنے والا تم میں (کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ) انصاف سے لکھے نیز لکھنے والا جیسا اسے خدا نے سکھایا ہے لکھنے سے انکار بھی نہ کرے اور دستاویز لکھ دے۔ اور جو شخص قرض لے وہی (دستاویز کا) مضمون بول کر لکھوائے اور خدا سے کہ اس کا مالک ہے خوف کرے اور زر قرض میں سے کچھ کم نہ لکھوائے۔ اور اگر قرض لینے والا بےعقل یا ضعیف ہو یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتا ہو تو جو اس کا ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے۔ اور اپنے میں سے دو مردوں کو (ایسے معاملے کے) گواہ کرلیا کرو۔ اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو (کافی ہیں) کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلادے گی۔ اور جب گواہ (گواہی کے لئے طلب کئے جائیں تو انکار نہ کریں۔ اور قرض تھوڑا ہو یا بہت اس (کی دستاویز) کے لکھنے میں کاہلی نہ کرنا۔ یہ بات خدا کے نزدیک نہایت قرین انصاف ہے اور شہادت کے لئے بھی یہ بہت درست طریقہ ہے۔ اس سے تمہیں کسی طرح کا شک وہ شبہ بھی نہیں پڑے گا۔ ہاں اگر سودا دست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو تو اگر (ایسے معاملے کی) دستاویز نہ لکھوتو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ اور جب خرید وفروخت کیا کرو تو بھی گواہ کرلیا کرو۔ اور کاتب دستاویز اور گواہ (معاملہ کرنے والوں کا) کسی طرح نقصان نہ کریں۔ اگر تم (لوگ) ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے۔ اور خدا سے ڈرو اور (دیکھو کہ) وہ تم کو (کیسی مفید باتیں) سکھاتا ہے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرر پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور لکھنے والے کو چاہئے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے، کاتب کو چاہئے کہ لکھنے سے انکار نہ کرے جیسے اللہ تعالیٰ نے اسے سکھایا ہے، پس اسے بھی لکھ دینا چاہئے اور جس کے ذمہ حق ہو وہ لکھوائے اور اپنے اللہ تعالیٰ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور حق میں سے کچھ گھٹائے نہیں، ہاں جس شخص کے ذمہ حق ہے وہ اگر نادان ہو یا کمزور ہو یا لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوا دے اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گوہوں میں سے پسند کر لو تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے اور گواہوں کو چاہئے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی اور شق و شبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ معاملہ نقد تجارت کی شکل میں ہو جو آپس میں تم لین دین کر رہے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے میں کوئی گناہ نہیں۔ خرید و فروخت کے وقت بھی گواہ مقرر کر لیا کرو اور ﴿یاد رکھو کہ﴾ نہ تو لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو اور اگر تم یہ کرو تو یہ تمہاری کھلی نافرمانی ہے، اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک آپس میں قرضہ کا لین دین کرو۔ تو اسے لکھ لیا کرو۔ اور چاہیے کہ کوئی لکھنے والا عدل و انصاف کے ساتھ تمہارے باہمی قول و قرار کو لکھے۔ اور جس طرح اللہ نے لکھنے والے کو (لکھنا پڑھنا) سکھایا ہے وہ لکھنے سے انکار نہ کرے (بلکہ) اسے چاہیے کہ لکھ دے۔ اور جس (مقروض) کے ذمہ (قرضہ کی ادائیگی) کا حق عائد ہوتا ہے اسے چاہیے کہ تحریر کا مضمون لکھوا دے اور اس (کاتب) کو چاہیے کہ اپنے پروردگار سے ڈرے اور اس میں کمی نہ کرے یااور اگر وہ شخص (مقروض) جس پر حق عائد ہو رہا ہے کم عقل ہو یا کمزور اور معذور ہو یا خود نہ لکھا سکتا ہو۔ تو پھر اس کا سرپرست (وکیل یا ولی) عدل و انصاف سے (تمسک کا مضمون) لکھوائے اور اپنے آدمیوں میں سے دو گواہوں کی گواہی کرالو۔ تاکہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھولے تو دوسرا اسے یاد دلائے اور جب گواہوں کو (گواہی کے لئے) بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں۔ اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا جس کی میعاد مقرر ہے۔ اس کے لکھنے میں سہل انگیزی نہ کرو۔ یہ (لکھا پڑھی) اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ کاروائی ہے اور گواہی کے لئے تو زیادہ مضبوطی ہے۔ اور اس طرح زیادہ امکان ہے کہ تم شک و شبہ میں نہ پڑو۔ مگر جب نقدا نقد خرید و فروخت ہو کہ جو تم آپس میں ہاتھوں ہاتھ کرتے ہو تو اس صورت میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ اسے نہ لکھو اور جب (اس طرح) خرید و فروخت کرو تو گواہ کر لیا کرو۔ اور (زبردستی کرکے) کاتب اور گواہ کو ضرر و زیاں نہ پہنچایا جائے اور اگر ایسا کروگے تو یہ تمہاری نافرمانی ہوگی (گناہ ہوگا) خدا (کی نافرمانی) سے ڈرو اللہ تمہیں (یہی) سکھاتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو جب بھی آپس میں ایک مقررہ مدّت کے لئے قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو اورتمہارے درمیان کوئی بھی کاتب لکھے لیکن انصاف کے ساتھ لکھے اور کاتب کو نہ چاہئے کہ خدا کی تعلیم کے مطابق لکھنے سے انکار کرے . اسے لکھ دینا چاہئے اور جس کے ذمہ قرض ہے اس کو چاہئے کہ وہ املا کرے اور اس خدا سے ڈرتا رہے جو اس کا پالنے والاہے اور کسی طرح کی کمی نہ کرے . اب اگرجس کے ذمہ قرض ہے وہ نادان کمزور یامضمون بتانے کے قابل نہیں ہے تو اس کا ولی مضمون تیار کرے---- اور اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ بناؤ اور دو مذِد نہ ہوں تو ایک مذِد اور دو عورتیں تاکہ ایک بہکنے لگے تو دوسری یاد دلادے اور گواہوں کو چاہئے کہ گواہی کے لئے بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور خبردار لکھا پڑھی سے ناگواری کا اظہار نہ کرنا چاہے قرض چھوٹا ہو یا بڑا مّدت معین ہونی چاہئے .یہی پروردگار کے نزدیک عدالت کے مطابق اورگواہی کے لئے زیادہ مستحکم طریقہ ہے او ر اس امر سے قریب تر ہے کہ آپس میںشک و شبہ نہ پیدا ہو---- ہاں اگر تجارت نقد ہے جس سے تم لوگ آپس میں اموال کی الٹ پھیر کرتے ہو تو نہ لکھنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے اور اگر تجارت میں بھی گواہ بناؤ تو کاتب یا گواہ کو حق نہیں کہ اپنے طرزِ عمل سے لوگوں کو نقصان پہنچائے اور نہ لوگوں کو یہ حق ہے اوراگرتم نے ایسا کیا تویہ اطاعت خدا سے نافرمانی
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لکھنے والا تم میں (کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ) انصاف سے لکھے نیز لکھنے والا جیسا اسے خدا نے سکھایا ہے لکھنے سے انکار بھی نہ کرے اور دستاویز لکھ دے اور جو شخص قرض لے وہی (دستاویز کا) مضمون بول کر لکھوائے اور خدا سے کہ اس کا مالک ہے خوف کرے اور زر قرض میں سے کچھ کم نہ لکھوائے اور اگر قرض لینے والا بےعقل یا ضعیف ہو یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتاہو تو جو اس کو ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے اور اپنے میں سے دو مردوں کو (ایسے معاملے کے) گواہ کرلیا کرو۔ اور اگر دو مرد نہ ہو تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو (کافی ہیں) کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلادے گی اور جب گواہ (گواہی کے لئے) طلب کئے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض تھوڑا ہو یا بہت اس (کی دستاویز) کے لکھنے لکھانے میں کاہلی نہ کرنا یہ بات خدا کے نزدیک نہایت قرین انصاف ہے اور شہادت کے لیے بھی یہ بہت درست طریقہ ہے اس سے تمہیں کسی طرح کا شک وشبہہ بھی نہیں پڑے گا ہاں اگر سودا دست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو تو اگر (ایسے معاملے کی) دستاویز نہ لکھو تو تم پر کچھ گناہ نہیں اور جب خریدوفروخت کیا کرو تو بھی گواہ کرلیا کرو اور کاتب دستاویز اور گواہ (معاملہ کرنے والوں) کسی طرح کا نقصان نہ کریں۔ اگر تم (لوگ) ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے اور خدا سے ڈرو اور (دیکھو کہ) وہ تم کو (کیسی مفید باتیں) سکھاتا ہے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے آیت نمبر ٢٨٢ تا ٢٨٣ ترجمہ : اے ایمان والو ! جب تم ادھار کا مثلا بیع سلم کا اور قرض کا معاملہ ایک مدت معلومہ کے لیے کرنے لگو تو اس کو دستاویز کے طور پر نزاع دفع کرنے کیلئے لکھ لیا کرو اور تمہارے درمیان قرض (کی تحریر) لکھنے والے کو چاہیے کہ حق (و انصاف) سے لکھے مال اور مدت میں نہ زیادتی کرے اور نہ کمی۔ اور لکھنے والے کو لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے۔ جب اس سے لکھنے کے لیے کہا جائے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو لکھنا سکھلایا ہے۔ یعنی کتابت کے ذریعہ اس کو فضیلت بخشی ہے لہٰذا لکھنے میں بخیلی نہ کرے۔ اور کاف، یابَ سے متعلق ہے پس چاہیے کہ وہ لکھ دے۔ یہ تاکید ہے۔ اور جس پر حق ہے (یعنی) مقروض کو چاہیے کہ کاتب کو لکھائے۔ اس لیے کہ وہی مشہور علیہ ہے تو اقرار کرے تاکہ معلوم ہو کہ اس پر کیا واجب ہے ؟ اور کاتب کر لکھانے میں اپنے رب اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور حق میں سے کچھ بھی کم نہ کرے پس اگر مدیون کم عقل فضول خرچ ہو یا صغر سنی یا کبر سنی کی وجہ سے (جسمانی طور) پر ضعیف ہو۔ یا گونگا ہو یا زبان نہ جاننے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے لکھانے پر قادر نہ ہو تو اس کے کارندے کو چاہیے کہ ٹھیک ٹھیک لکھائے (کارندہ) خواہ والد ہو، یا وصی ہو، یا منیجر ہو، یا مترجم ہو، اور قرض پر بالغ، مسلمان آزاد مردوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لینا چاہیے۔ اور اگر دو مرد گواہ میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ ہوجائیں، ایسے گواہ جن کو تم ان کے دین اور عدالت کی وجہ سے پسند کرتے ہو اور عورتوں کے دو عدد ہونے میں مصلحت یہ ہے کہ اگر ان میں سے ایک شہادت بھول جائے ان کی عقل اور یادداشت کے ناقص ہونے کی وجہ سے تو ان میں سے ایک یعنی یاد رکھنے والی دوسری یعنی بھولنے والی کو یاد دلا دے (فَتُذکِّر) تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے حقیقت میں اذکار لام علت کے داخلہ کا محل ہے، ای لِتُذکّرَ اِنْ ضلَّتْ ، اگر بھول جائے تو یاد دلادے، اور لام علت ضلال پر اس لیے داخل ہوا ہے کہ وہی سبب تذکیر ہے اور ایک قراءت میں، اِنْ شرطیہ کسرہ اور تذکر رفع کے ساتھ جملہ مستانفہ اور جواب شرط ہے اور جب گواہ بننے یا گواہی دینے کے لیے گواہوں کو بلایا جائے، ” ما “ زائدہ ہے، تو انکار نہ کرنا چاہیے معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ادائیگی کی میعاد کی تعیین کے ساتھ لکھانے میں تساہل نہیں برتنا چاہیے، یعنی جس پر تم نے حق کی شہادت دی ہے، اس کے کثرت سے واقع ہونے کی وجہ سے اکتانا نہیں چاہیے (الی اجلہ) تکتبوا کی ضمیر سے حال ہے۔ یہ لکھ لینا اللہ کے نزدیک زیادہ قربین عدل ہے اور شہادت کو قائم کرنے پر زیادہ معاون ہے اس لیے کہ یہ تحریر شہادت کی یاد دلاتی ہے اور زیادہ قریب ہے اس کے کہ تم حق کی مقدار اور مدت کے بارے میں شک میں نہ پڑو (اور) اگر لین دین دست بدست (نقد) ہو جس کا تم لین دین کرتے رہتے ہو (یعنی مبیع اور ثمن پر) دست بدست قبضہ کرتے ہو اور اس کی کوئی مدت نہیں ہوتی (یعنی ادھار نہیں ہوتا) اور (تجارۃً حاضرۃً ) ایک قراءت میں نصب کے ساتھ ہے اس صورت میں ” تکون “ ناقصہ ہوگا اور اس کا اسم، تجارۃ (کی طرف لوٹنے والی) ضمیر ہوگی تو تمہارے لیے اس صورت میں کوئی مضائقہ نہیں کہ نہ لکھو، اور تجارت سے مراد سامان تجارت ہے (تب بھی تم اس پر) گواہ کرلیا کرو جب خریدو فروخت کرو اس لیے کہ یہ بات اختلاف کو زیادہ ختم کرنے والی ہے، اور (شہادت کا یہ حکم اور ماقبل میں کتابت کا حکم) استحبابی ہے۔ اور کاتب و گواہ کو نقصان نہ پہنچایا جائے یعنی صاحب حق اور جس پر حق ہے نقصان نہ پہنچائیں۔ (تحریر) میں تحریف کرکے یا گواہ کو اور کاتب کو گواہی اور کتابت سے روک کر اور نہ صاحب حق کاتب اور گواہ کو تکلیف پہنچائے ان کو ایسی بات کے لیے مجبور کرکے جو شہادت اور کتابت کے لائق نہیں اور اگر تم ممنوعہ حکم کا ارتکاب کروگے تو یہ تمہارے حق میں ایک گناہ ہے جو تم کو لاحق ہوگا۔ یعنی طاعت سے خروج ہے، اس کی امر و نہی کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو اور اللہ تم کو تمہارے معاملات کی مصلحتیں سکھاتا ہے اور (وَیعلمکم، اتقوا کی ضمیر سے) حال مقدرہ ہے۔ یا کلام مستانفہ ہے اور اللہ ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے اور اگر تم حالت سفر میں ہو یعنی مسافر ہو اور ادھار لینے دینے کی نوبت آجائے اور کسی لکھنے والے کو نہ پاؤ تو رہن رکھنے کی چیزیں ہی قبضہ میں دیدی جائیں کہ جن کے ذریعہ تم معاملہ مضبوط کرلو، اور ایک قراءت میں ” رُھُنٌ“ ہے اور حدیث میں حالت حضر اور کاتب دستیاب ہونے کی صورت میں بھی رہن کو بیان کیا گیا ہے، اس لیے کہ مذکورہ دونوں قیدیں اس لیے ہیں کہ حالت سفر میں مضبوطی کی ضرورت زیادہ شدید ہوتی ہے۔ اور مقبوضۃ کے لفظ سے یہ بات مستفاد ہوتی ہے کہ رہن میں قبضہ شرط ہے، اور یہ کہ خود مرتہن یا اس کا وکیل قبضہ کرلے تو کافی ہے اور اگر آپس میں ایک دوسرے پر دائن اور مدیون کو اپنے حق کے بارے میں اعتبار ہو تو رہن نہ رکھے۔ تو جس پر اعتبار کیا گیا ہے (یعنی مدیون) تو اس کو چاہیے کہ اس کا دین ادا کرے اور اللہ سے جو کہ اس کا رب ہے اداء دین کے بارے میں ڈرتا رہے اور جب تم کو ادائے شہادت کیلئے بلایا جائے تو تم شہادت کو نہ چھپاؤ اور جو کوئی اسے چھپائے گا تو اس کا قلب گنہگار ہوگا اور قلب کا مخصوص طور پر ذکر اس لیے کیا ہے کہ وہی محل شہادت ہے اور اسلئے بھی کہ جب قلب گنہگار ہوگا تو اس کی اتباع میں دیگر اعضاء بھی گنہگار ہوں گے تو گنہگاروں کے مانند ان کے ساتھ سزا کا معاملہ کیا جائے گا۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے واقف ہے تمہارے اعمال میں سے اس سے کوئی عمل پوشیدہ نہیں تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : تَدَایَنْتُمْ (تَدَایُنٌ) تَفَاعُلٌ، ماضی جمع مذکر حاضر : تم نے قرض کا لین دین کیا۔ قولہ : تعامَلْتُمْ اس کا اضافہ تَدَایَنْتُمْ ، کے بیان معنیٰ کے لیے ہے۔ اس لیے کہ تَدَایُنٌ، کے دو معنیٰ آتے ہیں آپس میں قرض کا معاملہ کرنا۔ اور بدلہ دینا (کما یقال، کما تُدِیْنُ تُدَانُ ) یہاں پہلے معنیٰ مراد ہیں دوسری وجہ یہ ہے کہ دَیْنٌ، تَدَایَنْتُمْ کے لیے تاسین ہو نہ کہ تاکید، اگر تَدَایَنْتُمْ کو دَیْنٌ کے معنی میں لیا جائے تو آگے بِدَیْنٍ کا لفظ تَدَایَنْتُمْ کی تاکید ہوگا حالانکہ تاکید سے تاسیس بہتر ہے اسی لئے تَدَایَنْتُمْ کا تَعَاملتم کے معنیٰ میں لیا گیا ہے۔ قولہ : اِستینافٌ۔ یعنی فَتُذَکِّر جملہ مستانفہ ہے بایں معنیٰ کہ اِنْ شرطیہ اس میں عامل نہیں ہے۔ قولہ : کانَ ، کانَ محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ صغیراً اور کبیراً ، کان محذوف کی خبر ہیں۔ قولہ : تَقَعُ ، کان کی تفسیر تَقَعُ سے کرکے اشارہ کردیا کہ کان تامہ ہے تجارۃ حاضرۃ اس کا اسم، اور ایک قراءت میں نصب کے ساتھ ہے۔ اس صورت میں تکون ناقصہ ہوگا۔ تقدیر عبارت یہ ہوگی ” اِلَآ ان تکون التِّجَارَۃُ تِجَارَۃً حَاضرۃً “۔ قولہ : حَالٌ مقدرۃ اَوْ مُسْتَانِفٌ۔ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یُعَلِّمُکمُ اللہُ ۔ کا عطف واتقوا اللہ پر درست نہیں ہے اس لیے کہ یہ جملہ خبریہ کا جملہ انشائیہ پر عطف ہوگا جو کہ درست نہیں ہے جواب : واؤ عاطفہ نہیں ہے بلکہ حالیہ یا استینافیہ ہے۔ قولہ : تَسْتَوْثِقُوْنَ بھا، اس جملہ کو محذوف ماننے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ فرھانٌ مقبوضۃٌ، موصوف صفت سے مل کر مبتداء ہے اور تَسْتَوْثِقُوْنَ جملہ ہو کر اس کی خبر ہے۔ اللغۃ والبلاغۃ تَدَایَنْتُمْ ، آپس میں لین دین کا معاملہ کرنا، یقول تَدَایَنْتُ الرُّجُلَ ، ای عَامَلْتُہٗ ، یُمْلِلُ ، مِنْ الِامْلَال، لکھنا، املا کرانا، الاِمْلال اور الاملاء، دونوں کے ایک ہی معنیٰ ہیں، فَرِھٰنٌ، راء کے کسرہ کے ساتھ مصدر ہے یا رَھْنٌ، کی جمع ہے بعض قراءتوں میں رُھُنٌ بضمتین، جمع کا صیغہ ہے۔ عَلیٰ سَفَرٍ ، اس میں استعارہ تبعیہ ہے، اس میں مخاطب کو سوار سے اور سفر کو سواری کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ استعارہ تبعیہ وہ ہے کہ جس میں لفظ مستعار، فعل، یا حرف، یا اسم مشتق ہو جیسے فلان رکب علیٰ کتفَیْ غریمہٖ فلاں شخص اپنے قرض دار کے کندھوں پر سوار ہوگیا۔ یعنی اپنے قرضدار کے بری طرح پیچھے پڑگیا۔ تفسیر و تشریح ربط : سب سابقہ آیات میں سودی نظام کی سختی سے ممانعت اور صدقہ و خیرات کی تاکید بیان کی گئی تو اب آپسی قرض کے لین دین کے احکام و مسائل کی ہدایات فرمائیں اس لیے کہ جب سودی لین دین کو حرام قرار دیدیا گیا اور ہر شخص صدقہ و خیرات کی استطاعت نہیں رکھتا، اس کے علاوہ بعض لوگ صدقہ و خیرات لینا پسند بھی نہیں کرتے، تو ایسی صورت میں ضروریات پوری کرنے کے لئے طریقہ قرض ہی کا باقی رہ جاتا ہے، اسی لیے احادیث میں قرض دینے کا بڑا اجر وثواب بیان فرمایا گیا ہے، تاہم قرض جس طرح ایک ناگزیر ضرورت ہے اس میں بےاحتیاطی یا تساہل جھگڑوں کا سبب بھی ہوسکتی اسی لیے اس آیت میں جسے آیت دَیْن کہتے ہیں اور جو قرآن کی طویل ترین آیت ہے اللہ تعالیٰ نے قرض کے سلسلہ میں ضروری ہدایات ارشاد فرمائی ہیں۔ ادھار معاملہ کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ مبیع (چیز) نقد وصول کی اور قیمت کے لیے مدت طے کرلی دوسرے یہ کہ مبیع کی قیمت اسی وقت نقد دیدی اور مبیع وصول کرنے کے لیے وقت مقرر کردیا، اس کا اصطلاح میں بیع سلم کہتے ہیں یہ حدیث کی رو سے جائز ہے اگرچہ یہ معدوم کی بیع ہے۔ (تفصیلات کتب فقہ میں دیکھئے) اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی، مفسرین نے اس سے یہ اشارہ سمجھا ہے کہ قرضہ کے معاملات میں مدت بالکل صاف اور غیر مبہم ہونی چاہیے، گول مول اور مبہم نہ رہے۔ مثلاً یہ کہ جاڑوں میں یا گرمیوں میں یا کھیتی کٹنے کے وقت دیدیں گے، اس لیے کہ ان مواعید میں تقدیم و تاخیر ہوتی ہے، اور ابیام کی وجہ سے نزاع کا اندیشہ ہے۔ مدت ماہ و تاریخ کے ساتھ متعین ہونی چاہیے۔ اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ ، یعنی جب تم آپس میں ادھار لین دین کا معاملہ کیا کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اس آیت میں ایک اصول اور ضابطہ بیان کیا گیا ہے کہ ادھار لیتے دیتے وقت تحریر لکھ لیا کرو۔ عمومًا دوستوں اور عزیزوں کے درمیان قرض کے معاملات میں تحریر (دستاویز) لکھنے اور گواہ مقرر کرنے کو معیوب اور بےاعتمادی کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ ہے کہ قرض اور تجارتی قرار دادوں کو تحریر میں لانا چاہیے اور اس میں شہادت بھی ثبت کرلینی چاہیے، تاکہ آئندہ کوئی نزاع پیدا نہ ہو۔ اس آیت میں دوسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ ادھار کا معاملہ جب کیا جائے تو اس کی میعاد ضرور مقرر کرلی جائے۔ غیر معین مدت کے لئے ادھار لین دین جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس سے جھگڑے، فساد کے دروازے کھلتے ہیں۔ اسی وجہ سے فقہاء نے کہا ہے کہ میعاد بھی ایسی ہونی چاہیے کہ جس میں کوئی ابہام و اجمال نہ ہو۔ وَلْیَکْتُبْ بَیْنَکُمْ کَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ، چونکہ لکھنا اس زمانہ میں عام نہ تھا بمشکل ہی کوئی لکھنے والا دستیاب ہوتا تھا، آج بھی اس ترقی یافتہ دور میں دنیا کی بیشتر آبادی ناخواندہ ہے تو یہ ممکن تھا کہ لکھنے والا کچھ کا کچھ لکھ دے جس کی وجہ سے کسی کو نقصان اور کسی کا فائدہ ہوجائے اس لیے ارشاد فرمایا کہ لکھنے والے کو چاہیے کہ عدل و انصاف سے صحیح صحیح لکھے، اور دستاویز لکھنے کا ماحصل چونکہ اپنے ذمہ حق کا اقرار کرنا ہے لہٰذا لکھنے کا انتظام اسی کو کرنا چاہیے جس کے ذمہ حق واجب الاداء ہے، لکھنے والے اور لکھوانے والے کو دل میں خوف خدا رکھ کر لکھنا لکھانا چاہیے۔ (وَلْیَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ ) میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ فَاِنْ کَانَ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ سَفِیْھًا اَوْ ضعِیْفًا (الآیۃ) بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس شخص پر حق عائد ہوتا ہے اور خفیف العقل ہو یا سٹھیایا ہوا بوڑھا ہو یا نابالغ بچہ یا گونگا، یا کوئی دوسری زبان بولنے والا ہو جس کی زبان کاتب نہیں سمجھتا، اس لئے دستاویز لکھوانے پر اس کی قدرت نہ ہو تو ان کی طرف سے ان کا ولی لکھائے یا کوئی وکیل اور کا رمختار لکھائے یہاں ولی دونوں معنی میں ہوسکتا ہے۔ ضابطہ شہادت کے چند اہم اصول : سابقہ آیت میں تحریر و دستاویز لکھنے اور لکھانے کا بیان تھا، اس آیت میں بتایا گیا کہ صرف تحریر و دستاویز کو کافی نہ سمجھیں بلکہ اس پر گواہ بھی بنالیں تاکہ بوقت نزاع عدالت میں ان گناہوں کی گواہی پر فیصلہ کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف تحریر حجۃ شرعیہ نہیں ہے، جب تک کہ اس ہر شہادت شرعیہ موجود نہ ہو، آج کل کی عدالتیں بھی محض تحریر پر زبانی شہادت کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتیں۔ شہادت کے لیے دو عادل مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کا ہونا ضروری ہے، اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰھُمَافَتُذََکِّرَ اِحْدٰھُمَا الْاُخْرَیٰ ، یہ ایک مرد کے بجائے دو عورتوں کو گواہ بنانے کا حکمت بیان ہے، یعنی دو عورتوں کو بمنزلہ ایک مرد کے رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ عورت عام طور پر مرد کے مقابلہ میں ضعیف الخلقت اور قلیل الفہم ہوتی ہے اس لیے اگر ایک عورت معاملہ کا کچھ بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے، رہا یہ شبہ کی عورت کو مرد کے مقابلہ میں ضعیف کیوں تسلیم کیا گیا ہے اور نسیان کا احتمال مرد کی شہادت میں کیوں نہیں رکھا گیا ؟ تو یہ سوالات ذہن و اخلاق کی دنیا میں ایسے ہی ہیں جیسے جسمانی ساخت و مادیات کی دنیا میں یہ دریافت کیا جائے کہ حمل ورضاعت کا تعلق صرف عورت ہی سے کیوں رکھا گیا ؟ اور مرد کو باوجود اس کی قوت اور برداشت کے کیوں ناقابل سمجھا گیا ؟ خالق کائنات جو کائنات کے ہر ایک ذرہ سے واقف ہے اس کے پیش نظر بھی ذہنیات اور اخلاقیات کی باریک سے باریک حقیقتیں ہیں۔ مغرب کے ماہر نسائیات ہیولاکایلس Hoolock Ellis نے یہاں تک لکھ دیا کہ عورت کے لیے دھوکا اور فریب بمنزلہ امر طبعی کے ہوتا ہے۔ (ملاحظہ ھو تفسیر ماجدی، انگریزی) ہاں اگر تجارتی لین دین دست بدست ہو اور اس کو نہ لکھا جائے تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں، مطلب یہ ہے کہ روزمرہ کی خریدو فروخت کی تحریر ضروری نہیں ہے پھر بھی اگر لکھ لیا جائے تو بہتر ہے جس طرح آج کل کیش میمودینے کا رواج ہے۔ وَلَایُضَارَّ کَاتِبٌ وَّلَاشَھِیْدٌ، اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ کسی شخص کو دستاویز لکھنے اور گواہ بننے پر مجبور نہ کیا جائے، اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اگر کاتب اپنی کتابت کی اجرت طلب کرے یا گواہ اپنی آمدورفت کا خرچہ طلب کرے تو اس کا حق ہے۔ اسلام نے اپنے نظام عدالت میں جس طرح گواہ کو گواہی دینے پر مجبور کیا ہے اور گواہی چھپانے کو سخت گناہ قرار دیا ہے اسی طرح اس کا انتظام بھی کیا ہے کہ لوگ گواہی سے بچنے پر مجبور نہ ہوں۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ آیت (آیت دَیْن) ” قرض کے مسائل والی آیت“ کے نام سے معروف ہے۔ یہ قرآن مجید کی سب سے طویل آیت ہے۔ اس میں بڑے عظیم مسائل بیان ہوئے ہیں جو بے شمار عظیم فوائد پر مشتمل ہیں۔ (1) اس سے قرض کی تمام صورتوں مثلاً سلم وغیرہ کا جواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرض کا ذکر کیا ہے جو مومنوں میں رائج تھا، اس کے مسائل بیان کئے ہیں، جس سے ان کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ ( 2۔3) بیع سلم میں مدت ضروری ہے اور وہ مدت متعین ہونی چاہئے اس لئے نہ تو نقد بیع سلم درست ہے، نہ اس صورت میں جب کہ اس کی مدت مقرر نہ ہو۔ (4) تمام قرض وغیرہ کے معاملات لکھنا شرعاً مطلوب ہے۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ یہ واجب ہے یا مستحب۔ اس کی مشروعیت میں یہ حکمت ہے کہ لوگوں کو اس کی سخت ضرورت ہے اور نہ لکھنے کی صورت میں غلطی، بھول، اختلاف اور جھگڑا واقع ہونے کا اندیشہ ہے۔ (5) کاتب کو حکم ہے کہ وہ لکھے۔ (6) کاتب کو عادل (قابل اعتماد) ہونا چاہئے۔ تاکہ اس کی تحریر پر اعتبار کیا جا سکے۔ فاسق کے نہ قول کا اعتبار ہے نہ لکھنے کا۔ (7) کاتب پر فرض ہے کہ فریقین کے درمیان انصاف سے کام لے۔ وہ رشتہ داری، دوستی وغیرہ کی وجہ سے کسی ایک فریق کی طرف مائل نہ ہو۔ (8) کاتب کا ایسی تحریریں لکھنے کے طریق کار سے، اور فریقین کے لئے جو کچھ واجب ہے اور جس چیز سے تحریر قابل اعتماد بنتی ہے ان سب امور سے باخبر ہونا ضروری ہے۔ ان مسائل کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے۔ ﴿وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ﴾” اور لکھنے والے کو چاہئے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے۔“ (9) جب کوئی ایسی تحریر موجود ہو، جس کی کتابت معروف عادل (قابل اعتماد) آدمی کے ہاتھ کی ہو، تو اس پر عمل کیا جائے گا۔ اگرچہ لکھنے والا اور گواہ فوت ہوچکے ہوں۔ (10) اللہ نے فرمایا: ﴿ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَن يَكْتُبَ﴾ ” کاتب کو چاہئے کہ لکھنے سے انکار نہ کرے“ یعنی جس پر اللہ نے یہ احسان کیا ہے کہ اسے لکھنے کا علم عطا فرمایا ہے، اسے بھی اللہ کے ان بندوں پر احسان کرنا چاہئے جو اس سے لکھوانے کے محتاج ہیں۔ لہٰذا ان کو لکھ کردینے سے انکار نہ کرے۔ (11) کاتب کو حکم ہے کہ صرف وہی چیز لکھے، جس کو وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق ہے۔ (12) فریقین میں سے لکھوانے کا ذمہ داری اس کی ہے جس کے ذمہ قرض ہے۔ (13) اسے حکم ہے کہ پورا حق بیان کرے، اس میں کچھ نہ چھپائے۔ (14) انسان کا اپنے بارے میں اقرار شرعاً معتبر ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مقروض کو حکم دیا ہے کہ وہ کاتب کو لکھوائے، جب وہ اس کے اقرار کے مطابق لکھے گا تو اس کا مضمون اور اس کے نتائج بھی معتبر ہوں گے۔ اگرچہ بعد میں غلطی لگ جانے کا یا بھول جانے کا دعویٰ کرے۔ (15) قول اس کا معتبر ہوگا جس کے ذمے کوئی حق ہے کہ بیع شدہ چیز کی مقدار، صفت، قلت، کثرت اور مقررہ مدت کیا ہے۔ جس کا حق ہے (قرض خواہ) اس کا قول معتبر نہیں ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے جو حکم دیا ہے کہ جتنا حق ہے، اس سے کم نہ لکھوائے، اس کی وجہ یہی ہے کہ مقدار اور وصف میں اس کا قول معتبر ہے۔ (16) جس کے ذمہ حق ہے اس پر حرام ہے کہ مقدار میں، عمدگی اور ظاہری اچھائی میں، یا مدت وغیرہ میں کمی کرے۔ (17) جو شخص کسی عذر مثلاً کم سنی، کم عقلی، گونگا ہونا وغیرہ کی وجہ سے خود نہ لکھوا سکے تو لکھوانے اور اقرار کا کام اس کا سرپرست اس کا نائب ہونے کی حیثیت سے کرے گا۔ (18) جو عدل اس پر واجب ہے جس کے ذمے حق ہے، وہی عدل اس کے سرپرست پر واجب ہے۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا ﴿بِالْعَدْلِ﴾ ” عدل کے ساتھ“ (19) سرپرست کا عادل ہونا شرط ہے۔ کیونکہ عدل کے ساتھ لکھوانا فاسق سے نہیں ہوسکتا۔ (20) مالی معاملات میں سرپرستی کا ثبوت۔ (21) حق بچے، کم عقل، مجنون اور کمزور کے ذمے واجب ہوتا ہے اس کے سرپرست کے ذمے نہیں ہوتا۔ (22) بچے، کم عقل، مجنون وغیرہ کا اقرار اور تصرف صحیح نہیں کیونکہ اللہ نے لکھوانے کی ذمہ داری ولی (سرپرست) پر ڈالی ہے۔ ان معذور افراد کے ذمہ نہیں۔ اس میں ان پر لطف و رحمت ہے اور ان کے مال کا ضائع ہونے سے بچاؤ ہے۔ (23) مذکورہ افراد کے مال میں ولی (سرپرست) کا تصرف (قانوناً) درست ہے۔ (24) انسان کے لئے ایسے معاملات کا جاننا مشروع ہے جس سے قرض کا لین دین کرنے والوں کا ایک دوسرے پر اعتماد رہتا ہے۔ لہٰذا اصل مقصود معاملے کا قابل اعتبار رکھنا اور انصاف ہے اور جس عمل کے بغیر مشروع کام پر عمل نہ کیا جا سکے، وہ عمل بھی مشروع ہوتا ہے۔ (25) کتابت سیکھنا فرض کفایہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرض وغیرہ کے معاملات لکھنے کا حکم دیا ہے اور یہ کام کتابت سیکھے بغیر نہیں ہوسکتا۔ (26) لین دین کے معاہدوں پر گواہ بنانا مشرع ہے اور یہ مشروعیت مندوب کے درجے میں ہے۔ کیونکہ اس حکم کا مقصد حقوق کی حفاظت کا طریقہ بتانا ہے اور اس میں آخر کار مکلف افراد ہی کا فائدہ ہے۔ ہاں اگر تصرف کرنے والا یتیم کا سرپرست ہو یا کسی وقف کا نگران ہو یا اسی قسم کا کوئی معاملہ ہو جس کی حفاظت واجب ہو۔ تب حق کو محفوظ رکھنے والی یہ گواہی واجب ہوجائے گی۔ (27) مالی معاملات میں گواہوں کی کم از کم مطلوب تعداد یہ کہ دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ہوں اور حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک گواہ کی موجودگی میں مدعی کی ایک قسم سے بھی فیصلہ ہوسکتا ہے۔ (28) بچوں کی گواہی معتبر نہیں۔ کیونکہ (رجل) ” مرد“ کے لفظ سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔ (29) مال وغیرہ کے معاملات میں صرف عورتوں کی گواہی قبول نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مرد کے ساتھ ہی گواہ کے طور پر قبول کیا ہے۔ البتہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو عورتوں کو ایک مرد کے قائم مقام اس حکمت کی وجہ سے قرار دیا ہے جو آیت میں مذکور ہے اور یہ حکمت مرد کی موجودگی اور غیر موجودگی دونوں صورتوں میں موجود ہے۔ واللہ اعلم (30) بالغ غلام کی گواہی بھی بالغ آزاد لوگوں کی طرح مقبول ہے کیونکہ اللہ کے اس فرمان میں عموم ہے ﴿وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ﴾” اور اپنے مردوں میں سے دو مرد گواہ رکھ لو۔“ اور بالغ غلام ” ہمارے مردوں“ میں شامل ہے۔ (31) غیر مسلم مرد ہوں یا عورتیں، ان کی گواہی قبول نہیں۔ کیونکہ وہ ہم میں شامل نہیں۔ علاوہ ازیں گواہی کا دارو مدار ” عدل“ (نیک قابل اعتماد) ہونے پر ہے۔ اور غیر مسلم ” عدل‘،نہیں۔ (32) اس سے مرد کا عورت سے افضل ہونا ظاہر ہوتا ہے اور ایک مرد کو دو عورتوں کے مقابلے میں رکھا گیا ہے کیونکہ مرد کا حافظہ مضبوط ہوتا ہے، عورت کا کمزور۔ (33) جو شخص گواہی بھول جائے اور اسے یاد دلانے پر یاد آجائے، تو اس کی گواہی قبول ہے کیونکہ ارشاد ہے﴿ فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ ۚ ﴾” ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے“ (34) اس سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ جب گواہ کو واجب حقوق سے تعلق رکھنے والی گواہی بھول جانے کا خطرہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ اسے لکھ لے۔ کیونکہ جس عمل کے بغیر واجب ادا نہ ہوسکے، وہ بھی واجب ہوتا ہے۔ (35) جب گواہ کو گواہی دینے کے لئے بلایا جائے تو اگر اسے کوئی عذر لاحق نہ ہو تو اسے گواہی دینا واجب ہے۔ اس سے انکار کرنا ناجائز ہے۔ کیونکہ ارشاد ہے: ﴿وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا ﴾” اور گواہوں کو چاہئے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں۔“ (36) جس شخص میں ایسی صفات موجود نہ ہوں جن کی بنیاد پر گواہی قبول کی جاتی ہے، تو اس پر گواہی کے لئے حاضر ہونا واجب نہیں، کیونکہ اس میں کوئی فائدہ نہیں اور وہ گواہوں میں شامل بھی نہیں۔ (37) قرض چھوٹے ہوں یا بڑے سب لکھنے چاہئیں۔ مدت اور شروط و قیود لکھنا بھی ضروری ہیں۔ ارشاد﴿ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْتَابُوا﴾” اللہ کے نزدیک یہ بات زیادہ انصاف والی ہے اور گواہی کو درست رکھنے والی اور شک و شبہ سے زیادہ بچانے والی ہے“ یعنی اس میں انصاف پایا جاتا ہے جس سے بندوں کے اور سب کے معاملات درست رہتے ہیں اور تحریری شہادت زیادہ پختہ، زیادہ کامل، شک و شبہ سے زیادہ دور رکھنے والی اور جھگڑے سے بچانے والی ہے۔ (39) اس سے یہ بھی مسئلہ نکلتا ہے کہ جسے گواہی میں شک ہوجائے، اسے گواہی دینے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اس کے لئے یقین ضروری ہے۔ (40) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا ﴾ اگر تجارت دست بدست اور نقد ہو تو نہ لکھنے کی اجازت ہے۔ کیونکہ اس میں تحریر کی ضرورت اتنی شدید نہیں۔ (41) نقد لین دین میں تحریر نہ کرنا تو جائز ہے۔ تاہم اس میں گواہ بنانا مشروع ہے کیونکہ فرمایا﴿ وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ﴾” خرید و فروخت کے وقت گواہ مقرر کرلیا کرو۔“ (42) کاتب کو تنگ کرنا منع ہے۔ مثلاً اسے اس وقت طلب کیا جائے جب وہ کسی اور کام میں مشغول ہو، یا جس وقت اسے حاضر ہونے میں مشقت ہو۔ (43) گواہ کو بھی تنگ کرنا منع ہے مثلاً اسے اس وقت گواہ بننے کے لئے یا گواہی دینے کے لئے بلایا جائے جب وہ بیمار ہو، یا ایسے کام میں مشغول ہو، جسے چھوڑ کر آنے میں پریشانی اور مشقت ہو۔ یہ اس صورت میں ہے جب﴿ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ﴾ ” نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو“ میں لفظ (یضار) کو مجہول قرار دیا جائے اور اگر اسے فعل معروف سمجھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ گواہ اور کاتب کے لئے صاحب حق کو تنگ کرنے کے لئے گواہی یا کتابت سے انکار کرنا، یا بہت زیادہ اجرت طلب کرنا منع ہے، اس صورت میں انہیں فائدہ نمبر 44 اور نمبر 45 شمار کیا جاسکتا ہے۔ (46) ان حرام کاموں کا ارتکاب فسق ہے کیونکہ ارشاد ہے﴿ وَإِن تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ﴾” اگر تم یہ کرو تو یہ تماری کھلی نافرمانی ہے۔“ (47) فسق، ایمان، نفاق، عداوت، محبت وغیرہ جیسے اوصاف کسی بھی انسان میں کم یا زیادہ مقدار میں ہوسکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ایک آدمی میں فسق وغیرہ کا مادہ موجود ہو اور اسی طرح ایمان یا کفر کا مادہ موجود ہو۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا ﴿فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ﴾” یہ تمہارے اندر نافرمانی ہے“ یہ نہیں فرمایا : (فَاَنْتُمْ فَاسِقُوْن) ” تم فاسق ہو“ (48) یہ نکتہ پہلے بیان ہونا چاہئے تھا کیونکہ وہاں اس کی مناسب جگہ تھی۔ وہ یہ ہے کہ گواہ عادل (نیک اور قابل اعتماد) ہونا چاہئے کیونکہ ارشاد ہے ﴿مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ ﴾” جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کرو۔“ (49) عدالت (قابل اعتماد ہونا)، اس میں ہر زمانے اور ہر مقام کا عرف معتبر ہے۔ جو شخص لوگوں کے نزدیک قابل اعتبار ہو اس کی گواہی قبول کی جائے گی۔ (50) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کا عادل یا فاسق ہونا معلوم نہ ہو۔ اس کی گواہی بھی قبول نہیں، حتیٰ کہ اس کے نیک ہونے کی تصدیق ہوجائے۔ موجودہ حالات میں ناقص سمجھ کے مطابق یہ مسائل اخذ کئے گئے ہیں۔ اللہ کے کلام میں اور بہت سی حکمتیں اور اسرار ہیں۔ اللہ جسے چاہتا ہے ان کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! jab tum kissi moyyan miyaad kay liye udhaar ka koi moamla kero to ussay likh liya kero , aur tum mein say jo shaks likhna janta ho insaf kay sath tehreer likhay , aur jo shaks likhna janta ho , likhney say inkar naa keray . jab Allah ney ussay yeh ilm diya hai to ussay likhna chahiye . aur tehreer woh shaks likhwaye jiss kay zimmay haq wajib horaha ho , aur ussay chahiye kay woh Allah say daray jo uss ka perwerdigar hai aur uss ( haq ) mein koi kami naa keray . haan agar woh shaks jiss kay zimmay haq wajib horaha hai nasamajh ya kamzor ho ya ( kissi aur wajeh say ) tehreer naa likhwa sakta ho to uss ka sarparast insaf kay sath likhwaye . aur apney mein say do mardon ko gawah bana lo , haan agar do mard mojood naa hon to aik mard aur do aurten unn gawahon mein say hojayen jinhen tum pasand kertay ho , takay agar unn do aurton mein say aik bhool jaye to doosri ussay yaad diladay . aur jab gawahon ko ( gawahi denay kay liye ) bulaya jaye to woh inkar naa keren . aur jo moamla apni miyaad say wabasta ho , chahye woh chota ho ya bara , ussay likhney say uktao nahi . yeh baat Allah kay nazdeek ziyada qareen-e-insaf aur gawahi ko durust rakhney ka behtar zariya hai , aur iss baat ki qareebi zamanat hai kay tum aaenda shak mein nahi parro gay . haan agar tumharay darmiyan koi naqad lain dain ka soda ho to uss ko naa likhney mein tumharay liye kuch harj nahi hai . aur jab kharid-o-farokht kero to gawah bana liya kero . aur naa likhney walay ko koi takleef phonchai jaye , naa gawah ko . aur agar aisa kero gay to yeh tumhari taraf say nafarmani hogi . aur Allah ka khof dil mein rakho . Allah tumhen taleem deta hai , aur Allah her cheez ka ilm rakhta hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
حفظ قرآن اور لین دین میں گواہ اور لکھنے کی تاکید یہ آیت قرآن کریم کی تمام آیتوں سے بڑی ہے، حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ قرآن کی سب سے بڑی آیت یہی آیت الدین ہے، یہ آیت جب نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سب سے پہلے انکار کرنے والے حضرت آدم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم کو پیدا کیا، ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور قیامت تک کی ان کی تمام اولاد نکالی، آپ نے اپنی اولاد کو دیکھا، ایک شخص کو خوب تروتازہ اور نورانی دیکھ کر پوچھا کہ الٰہی ان کا کیا نام ہے ؟ جناب باری نے فرمایا یہ تمہارے داؤد ہیں، پوچھا اللہ ان کی عمر کیا ہے ؟ فرمایا ساٹھ سال، کہا اے اللہ اس کی عمر کچھ اور بڑھا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں، ہاں اگر تم اپنی عمر میں سے انہیں کچھ دینا چاہو تو دے دو ، کہا اے اللہ میری عمر میں سے چالیس سال اسے دئیے جائیں، چناچہ دے دئیے گئے، حضرت آدم کی اصلی عمر ایک ہزار سال کی تھی، اس لین دین کو لکھا گیا اور فرشتوں کو اس پر گواہ کیا گیا حضرت آدم کی موت جب آئی، کہنے لگے اے اللہ میری عمر میں سے تو ابھی چالیس سال باقی ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ تم نے اپنے لڑکے حضرت داؤد کو دے دئیے ہیں، تو حضرت آدم نے انکار کیا جس پر وہ لکھا ہوا دکھایا گیا اور فرشتوں کی گواہی گزری، دوسری روایت میں ہے کہ حضرت آدم کی عمر پھر اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار پوری کی اور حضرت داؤد کی ایک سو سال کی (مسند احمد) لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اس کے راوی علی بن زین بن جدعان کی حدیثیں منکر ہوتی ہیں، مستدرک حاکم میں بھی یہ روایت ہے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایماندار بندوں کو ارشاد فرمایا ہے کہ وہ ادھار کے معاملات لکھ لیا کریں تاکہ رقم اور معیاد خوب یاد رہے، گواہ کو بھی غلطی نہ ہو، اس سے ایک وقت مقررہ کیلئے ادھار دینے کا جواز بھی ثابت ہوا، حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے کہ معیاد مقرر کرکے قرض کے لین دین کی اجازت اس آیت سے بخوبی ثابت ہوتی ہے، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ مدینے والوں کا ادھار لین دین دیکھ کر آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ناپ تول یا وزن مقرر کرلیا کرو، بھاؤ تاؤ چکا لیا کرو اور مدت کا بھی فیصلہ کرلیا کرو۔ قرآن حکیم کہتا ہے کہ لکھ لیا کرو اور حدیث شریف میں ہے کہ ہم ان پڑھ امت ہیں، نہ لکھنا جانیں نہ حساب، ان دونوں میں تطبیق اس طرح ہے کہ دینی مسائل اور شرعی امور کے لکھنے کی تو مطلق ضرورت ہی نہیں خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بیحد آسان اور بالکل سہل کردیا گیا۔ قرآن کا حفظ اور احادیث کا حفظ قدرتاً لوگوں پر سہل ہے، لیکن دنیوی چھوٹی بڑی لین دین کی باتیں اور وہ معاملات جو ادھار سدھار ہوں، ان کی بابت بیشک لکھ لینے کا حکم ہوا اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ حکم بھی وجوباً نہیں پس نہ لکھنا دینی امور کا ہے اور لکھ لینا دنیوی کام کا ہے۔ بعض لوگ اس کے وجوب کی طرف بھی گئے ہیں، ابن جریج فرماتے ہیں جو ادھار دے وہ لکھ لے اور جو بیچے وہ گواہ کرلے، ابو سلیمان مرعشی جنہوں نے حضرت کعب کی صحبت بہت اٹھائی تھی انہوں نے ایک دن اپنے پاس والوں سے کہا اس مظلوم کو بھی جانتے ہو جو اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے اور اس کی دعا قبول نہیں ہوتی لوگوں نے کہا یہ کس طرح ؟ فرمایا یہ وہ شخص ہے جو ایک مدت کیلئے ادھار دیتا ہے اور نہ گواہ رکھتا ہے نہ لکھت پڑھت کرتا ہے پھر مدت گزرنے پر تقاضا کرتا ہے اور دوسرا شخص انکار کرجاتا ہے، اب یہ اللہ سے دعا کرتا ہے لیکن پروردگار قبول نہیں کرتا اس لئے کہ اس نے کام اس کے فرمان کیخلاف کیا ہے اور اپنے رب کا نافرمان ہوا ہے، حضرت ابو سعید شعبی ربیع بن انس حسن ابن جریج ابن زید وغیرہ کا قول ہے کہ پہلے تو یہ واجب تھا پھر وجوب منسوخ ہوگیا اور فرمایا گیا کہ اگر ایک دوسرے پر اطمینان ہو تو جسے امانت دی گئی ہے اسے چاہئے کہ ادا کردے، اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے، گو یہ واقعہ اگلی امت کا ہے لیکن تاہم ان کی شریعت ہماری شریعت ہے۔ جب تک ہماری شریعت پر اسے انکار نہ ہو اس واقعہ میں جسے اب ہم بیان کرتے ہیں لکھت پڑھت کے نہ ہونے اور گواہ مقرر نہ کئے جانے پر شارع (علیہ السلام) نے انکار نہیں کیا، دیکھئے مسند میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بنی اسرائیل کے ایک شخص نے دوسرے شخص سے ایک ہزار دینار ادھار مانگے، اس نے کہا گواہ لاؤ، جواب دیا کہ اللہ کی گواہی کافی ہے، کہا ضمانت لاؤ، جواب دیا اللہ کی ضمانت کافی ہے، کہا تو نے سچ کہا، ادائیگی کی معیاد مقرر ہوگئی اور اس نے اسے ایک ہزار دینار گن دئیے، اس نے تری کا سفر کیا اور اپنے کام سے فارغ ہوا، جب معیاد پوری ہونے کو آئی تو یہ سمندر کے قریب آیا کہ کوئی جہاز کشتی ملے تو اس میں بیٹھ جاؤں اور رقم ادا کر آؤں، لیکن کوئی جہاز نہ ملا، جب دیکھا کہ وقت پر نہیں پہنچ سکتا تو اس نے ایک لکڑی لی، اسے بیچ سے کھوکھلی کرلی اور اس میں ایک ہزار دینار رکھ دئیے اور ایک پرچہ بھی رکھ دیا، پھر منہ کو بند کردیا اور اللہ سے دعا کی کہ پروردگار تجھے خوب علم ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لئے اس نے مجھ سے ضمانت طلب کی، میں نے تجھے ضامن کیا اور وہ اس پر خوش ہوگیا، گواہ مانگا، میں نے گواہ بھی تجھی کو رکھا، وہ اس پر بھی خوش ہوگیا، اب جبکہ اپنا قرض ادا کر آؤں لیکن کوئی کشتی نہیں ملی، اب میں اس رقم کو تجھے سونپتا ہوں اور سمندر میں ڈال دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یہ رقم اسے پہنچا دے، پھر اس لکڑی کو سمندر میں ڈال دیا اور خود چلا گیا لیکن پھر بھی کشتی کی تلاش میں رہا کہ مل جائے تو جاؤں، یہاں تو یہ ہوا، وہاں جس شخص نے اسے قرض دیا تھا، جب اس نے دیکھا کہ وقت پورا ہوا اور آج اسے آجانا چاہئے تھا، تو وہ بھی دریا کنارے آن کھڑا ہوا کہ وہ آئے گا اور میری رقم مجھے دے دے گا یا کسی کے ہاتھ بھجوائے گا، مگر جب شام ہونے کو آئی اور کوئی کشتی اس کی طرف سے نہیں آئی تو یہ واپس لوٹا، کنارے پر ایک لکڑی دیکھی تو یہ سمجھ کر کہ خالی ہاتھ تو جا ہی رہا ہوں، اس لکڑی کو بھی لے چلوں، پھاڑ کر سکھا لوں گا جلانے کے کام آئے گی، گھر پہنچ کر جب اسے چیرتا ہے تو کھنا کھن بجتی ہوئی اشرفیاں نکلتی ہیں، گنتا ہے تو پوری ایک ہزار ہیں، وہیں پرچہ پر نظر پڑتی ہے، اسے بھی اٹھا کر پڑھ لیتا ہے، پھر ایک دن وہی شخص آتا ہے اور ایک ہزار دینار پیش کرکے کہتا ہے یہ لیجئے آپ کی رقم، معاف کیجئے گا میں نے ہرچند کوشش کی کہ وعدہ خلافی نہ ہو لیکن کشتی کے نہ ملنے کی وجہ سے مجبور ہوگیا اور دیر لگ گئی، آج کشتی ملی، آپ کی رقم لے کر حاضر ہوا، اس نے پوچھا کیا میری رقم آپ نے بھجوائی بھی ہے ؟ اس نے کہا میں کہ چکا ہوں کہ مجھے کشتی نہ ملی تھی، اس نے کہا آپ اپنی رقم لے کر خوش ہو کر چلے جاؤ، آپ نے جو رقم لکڑی میں ڈال کر اسے توکل علی اللہ ڈالی تھی، اسے اللہ نے مجھ تک پہنچا دیا اور میں نے اپنی رقم پوری وصول پالی۔ اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے، صحیح بخاری شریف میں سات جگہ یہ حدیث آئی ہے۔ پھر فرمان ہے کہ لکھنے والا عدل و حق کے ساتھ لکھے، کتابت میں کسی فریق پر ظلم نہ کرے، ادھر ادھر کچھ کمی بیشی نہ کرے بلکہ لین دین والے دونوں متفق ہو کر جو لکھوائیں وہی لکھے، لکھا پڑھا شخص معاملہ کو لکھنے سے انکار نہ کرے، جب اسے لکھنے کو کہا جائے لکھ دے، جس طرح اللہ کا یہ احسان اس پر ہے کہ اس نے اسے لکھنا سکھایا اسی طرح جو لکھنا نہ جانتے ہوں ان پر یہ احسان کرے اور ان کے معاملہ کو لکھ دیا کرے۔ حدیث میں ہے یہ بھی صدقہ ہے کہ کسی کام کرنے والے کا ہاتھ بٹا دو ، کسی گرے پڑے کا کام کردو، اور حدیث میں ہے جو علم کو جان کر پھر اسے چھپائے، قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی، حضرت مجاہد اور حضرت عطا فرماتے ہیں کاتب پر لکھ دینا اس آیت کی رو سے واجب ہے۔ جس کے ذمہ حق ہو وہ لکھوائے اور اللہ سے ڈرے، نہ کمی بیشی کرے نہ خیانت کرے۔ اگر یہ شخص بےسمجھ ہے اسراف وغیرہ کی وجہ سے روک دیا گیا ہے یا کمزور ہے یعنی بچہ ہے یا حواس درست نہیں یا جہالت اور کندذہنی کی وجہ سے لکھوانا بھی نہیں جانتا تو جو اس کا والی اور بڑا ہو، وہ لکھوائے۔ پھر فرمایا کتابت کے ساتھ شہادت بھی ہونی چاہئے تاکہ معاملہ خوب مضبوط اور بالکل صاف ہوجائے۔ دو عورتوں کو ایک عورت کے قائم مقام کرنا عورت کے نقصان کے سبب ہے، جیسے صحیح مسلم شریف میں حدیث ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے عورتوں صدقہ کرو اور بکثرت استغفار کرتی رہو، میں نے دیکھا ہے کہ جہنم میں تم بہت زیادہ تعداد میں جاؤ گی، ایک عورت نے پوچھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم لعنت زیادہ بھیجا کرتی ہو اور اپنے خاوندوں کی ناشکری کرتی ہو، میں نے نہیں دیکھا کہ باوجود عقل دین کی کمی کے، مردوں کی عقل مارنے والی تم سے زیادہ کوئی ہو، اس نے پھر پوچھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں دین کی عقل کی کمی کیسے ہے ؟ فرمایا عقل کی کمی تو اس سے ظاہر ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے اور دین کی کمی یہ ہے کہ ایام حیض میں نہ نماز ہے نہ روزہ۔ گواہوں کی نسبت فرمایا کہ یہ شرط ہے کہ وہ عدالت والے ہوں۔ امام شافعی کا مذہب ہے کہ جہاں کہیں قرآن شریف میں گواہ کا ذکر ہے وہاں عدالت کی شرط ضروری ہے، گو وہاں لفظوں میں نہ ہو اور جن لوگوں نے ان کی گواہی رد کردی ہے جن کا عادل ہونا معلوم نہ ہو ان کی دلیل بھی یہی آیت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گواہ عادل اور پسندیدہ ہونا چاہئے۔ دو عورتیں مقرر ہونے کی حکمت بھی بیان کردی گئی ہے کہ اگر ایک گواہی کو بھول جائے تو دوسری یاد دلا دے کی فتذکر کی دوسری قرأت فتذکر بھی ہے، جو لوگ کہتے ہیں کہ اس کی شہادت اس کے ساتھ مل کر شہادت مرد کے کر دے گی انہوں نے مکلف کیا ہے، صحیح بات پہلی ہی ہے واللہ اعلم۔ گواہوں کو چاہئے کہ جب وہ بلائے جائیں انکار نہ کریں یعنی جب ان سے کہا جائے کہ آؤ اس معاملہ پر گواہ رہو تو انہیں انکار نہ کرنا چاہئے جیسے کاتب کی بابت بھی یہی فرمایا گیا ہے، یہاں سے یہ بھی فائدہ حاصل کیا گیا ہے کہ گواہ رہنا بھی فرض کفایہ ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ جمہور کا مذہب یہی ہے اور یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ جب گواہ گواہی دینے کیلئے طلب کیا جائے یعنی جب اس سے واقعہ پوچھا جائے تو وہ خاموش نہ رہے، چناچہ حضرت ابو مجلز مجاہد وغیرہ فرماتے ہیں کہ جب گواہ بننے کیلئے بلائے جاؤ تو تمہیں اختیار ہے خواہ گواہ بننا پسند کرو یا نہ کرو یا نہ جاؤ لیکن جب گواہ ہو چکو پھر گواہی دینے کیلئے جب بلایا جائے تو ضرور جانا پڑے گا، صحیح مسلم اور سنن کی حدیث میں ہے اچھے گواہ وہ ہیں جو بےپوچھے ہی گواہی دے دیا کریں، بخاری و مسلم کی دوسری حدیث میں جو آیا ہے کہ بدترین گواہ وہ ہیں جن سے گواہی طلب نہ کی جائے اور وہ گواہی دینے بیٹھ جائیں اور وہ حدیث جس میں ہے کہ پھر ایسے لوگ آئیں گے جن کی قسمیں گواہیوں پر اور گواہیاں قسموں پر پیش پیش رہیں گی، اور روایت میں آیا ہے کہ ان سے گواہی نہ لی جائے گی تاہم وہ گواہی دیں گے تو یاد رہے (مذمت جھوٹی گواہی دینے والوں کی اور تعریف سچی گواہی دینے والوں کی ہے) اور یہی ان مختلف احادیث میں تطبیق ہے، حضرت ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں آیت دونوں حالتوں پر شامل ہے، یعنی گواہی دینے کیلئے بھی اور گواہ رہنے کیلئے بھی انکار نہ کرنا چاہئے۔ پھر فرمایا چھوٹا معاملہ ہو یا بڑا لکھنے سے کسمساؤ نہیں بلکہ مدت وغیرہ بھی لکھ لیا کرو۔ ہمارا یہ حکم پورے عدل والا اور بغیر شک و شبہ فیصلہ ہوسکتا ہے۔ پھر فرمایا جبکہ نقد خریدو فروخت ہو رہی ہو تو چونکہ باقی کچھ نہیں رہتا اس لئے اگر نہ لکھا جائے تو کسی جھگڑے کا احتمال نہیں، لہذا کتابت کی شرط تو ہٹا دی گئی، اب رہی شہادت تو سعید بن مسیب تو فرماتے ہیں کہ ادھار ہو یا نہ ہو، ہر حال میں اپنے حق پر گواہ کرلیا کرو، دیگر بزرگوں سے مروی ہے کہ ( آیت فان امن الخ، ) فرما کر اس حکم کو بھی ہٹا دیا، یہ بھی ذہن نشین رہے کہ جمہور کے نزدیک یہ حکم واجب نہیں بلکہ استحباب کے طور پر اچھائی کیلئے ہے اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے جس سے صاف ثابت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خریدو فروخت کی جبکہ اور کوئی گواہ شاہد نہ تھا، چناچہ مسند احمد میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک اعرابی سے ایک گھوڑا خریدا اور اعرابی آپ کے پیچھے پیچھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دولت خانہ کی طرف رقم لینے کیلئے چلا، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ذرا جلد نکل آئے اور وہ آہستہ آہستہ آ رہا تھا، لوگوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ گھوڑا بک گیا ہے، انہوں نے قیمت لگانی شروع کی یہاں تک کہ جتنے داموں اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ بیچا تھا اس سے زیادہ دام لگ گئے، اعرابی کی نیت پلٹی اور اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آواز دے کر کہا حضرت یا تو گھوڑا اسی وقت نقد دے کرلے لو یا میں اور کے ہاتھ بیچ دیتا ہوں، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سن کر رکے اور فرمانے لگے تو تو اسے میرے ہاتھ بیچ چکا ہے پھر یہ کیا کہہ رہا ہے ؟ اس نے کہا اللہ کی قسم میں نے تو نہیں بیچا، حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا غلط کہتا ہے، میرے تیرے درمیان معاملہ طے ہوچکا ہے، اب لوگ ادھر ادھر سے بیچ میں بولنے لگے، اس گنوار نے کہا اچھا تو گواہ لائیے کہ میں نے آپ کے ہاتھ بیچ دیا، مسلمانوں نے ہرچند کہا کہ بدبخت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اللہ کے پیغمبر ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے تو حق ہی نکلتا ہے، لیکن وہ یہی کہے چلا جائے کہ لاؤ گواہ پیش کرو، اتنے میں حضرت خزیمہ آگئے اور اعرابی کے اس قول کو سن کر فرمانے لگے میں گواہی دیتا ہوں کہ تو نے بیچ دیا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ تو فروخت کرچکا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو کیسے شہادت دے رہا ہے، حضرت خزیمہ نے فرمایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق اور سچائی کی بنیاد پر یہ شہادت دی۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آج سے حضرت خزیمہ کی گواہی دو گواہوں کے برابر ہے۔ پس اس حدیث سے خریدو فروخت پر گواہی دو گواہوں کی ضروری نہ رہی، لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ تجارت پر بھی دو گواہ ہوں، کیونکہ ابن مردویہ اور حاکم میں ہے کہ تین شخص ہیں جو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں کی جاتی، ایک تو وہ کہ جس کے گھر بداخلاق عورت ہو اور وہ اسے طلاق نہ دے، دوسرا وہ شخص جو کسی یتیم کا مال اس کی بلوغت کے پہلے اسے سونپ دے، تیسرا وہ شخص جو کسی کو مال قرض دے اور گواہ نہ رکھے، امام حاکم اسے شرط و بخاری و مسلم پر صحیح بتلاتے ہیں، بخاری مسلم اس لئے نہیں لائے کہ شعبہ کے شاگرد اس روایت کو حضرت ابو موسیٰ اشعری پر موقوف بتاتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ کاتب کا چاہئے کہ جو لکھا گیا وہی لکھے اور گواہ کو چاہئے کہ واقعہ کیخلاف گواہی نہ دے اور نہ گواہی کو چھپائے، حسن قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے ابن عباس یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ ان دونوں کو ضرر نہ پہنچایا جائے مثلاً انہیں بلانے کیلئے گئے، وہ کسی اپنے کام میں مشغول ہوں تو یہ کہنے لگے کہ تم پر یہ فرض ہے۔ اپنا حرج کرو اور چلو، یہ حق انہیں ہیں۔ اور بہت سے بزرگوں سے بھی یہی مروی ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ میں جس سے روکوں اس کا کرنا اور جو کام کرنے کو کہوں اس سے رک جانا بہ بدکاری ہے جس کا وبال تم سے چھٹے گا نہیں۔ پھر فرمایا اللہ سے ڈرو اس کا لحاظ رکھو، اس کی فرمانبرداری کرو، اس کے روکے ہوئے کاموں سے رک جاؤ، اللہ تعالیٰ تمہیں سمجھا رہا ہے جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ) 8 ۔ الانفال :29) اے ایمان والو اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو وہ تمہیں دلیل دے دے گا، اور جگہ ہے ایمان لو ! اللہ سے ڈرتے رہو اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھو وہ تمہیں دوہری رحمتیں دے گا اور تمہیں نور عطا فرمائے گا جس کی روشنی میں تم چلتے رہو گے۔ پھر فرمایا تمام کاموں کا انجام اور حقیقت سے ان کی مصلحتوں اور دوراندیشیوں سے اللہ آگاہ ہے اس سے کوئی چیز مخفی نہیں، اس کا علم تمام کائنات کو گھیرے ہوئے ہے اور ہر چیز کا اسے حقیقی علم ہے۔