طٰہٰ آية ۱
طٰهٰ ۚ
طاہر القادری:
طا، ہا (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)،
English Sahih:
Ta, Ha.
1 Abul A'ala Maududi
طٰہٰ
2 Ahmed Raza Khan
طٰهٰ
3 Ahmed Ali
طہۤ
4 Ahsanul Bayan
طٰہٰ
5 Fateh Muhammad Jalandhry
طہٰ
6 Muhammad Junagarhi
طٰہٰ
7 Muhammad Hussain Najafi
طا۔ ھا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
طہۤ
9 Tafsir Jalalayn
طہ
آیت نمبر 1 تا 14
ترجمہ : شروع کرتا ہوں میں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے طٰہٓ اللہ کی اس سے کیا مراد ہے وہی بہتر جانتا ہے اے محمد ہم نے یہ قرآن آپ پر اس لئے نازل نہیں کیا کہ آپ مشقت میں پڑجائیں یعنی تعب میں پڑجائیں اس طرز عمل سے جو آپ نے نزول قرآن کے بعد اختیار کیا رات کی نماز (تہجد) میں طول قیام کے ذریعہ، مطلب یہ کہ (تخفیف کرکے) اپنے اوپر بار کم ڈالئے بلکہ ہم نے قرآن کو اس شخص کی نصیحت کے لئے نازل کیا ہے جو خوف خدا رکھتا ہو یہ اس ذات کی جانب سے نازل کردہ ہے جس نے زمین اور بلند آسمانوں کو پیدا فرمایا۔ تنزیلاً اپنے فعل ناصب (انزلناہ) کے عوض میں ہے عُلیٰ عُلْیَا کی جمع ہے جیسے کُبَرْ کُبْریٰ کی جمع ہے وہ رحمٰن ہے عرش پر قائم ہے ایسا قیام جو اس کی شایان شان ہے اور عرش لغت میں شاہی تخت کو کہتے ہیں اسی کی ملک ہے جو کچھ مخلوق آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان ہے اور جو چیزیں تحت الثریٰ ہیں ثریٰ نمناک مٹی ہے اور مراد ساتوں زمینیں ہیں اس لئے کہ نمناک مٹی کے نیچے ہیں اور اگر آپ ذکر و دعا جہراً کریں تو اللہ جہر سے مستغنی ہے اس لئے کہ وہ تو پوشیدہ سے پوشیدہ تر چیز کو (بخوبی) جانتا ہے یعنی آہستہ سے کہی بات کو اور ان خیالات کو (جو صرف) دل میں آئے ہیں اور (ابھی) زبان پر نہیں آئے جانتا ہے لہٰذا جہر کے ذریعہ اپنے آپ کو مشقت میں نہ ڈالئے وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ننانویں اس کے بہترین نام ہیں جن کے بارے میں حدیث وارد ہوئی ہے اور حسنیٰ احسن کا مؤنث ہے اور کیا پہنچی ہے آپ کو موسیٰ (علیہ السلام) کی خبر جبکہ اس نے آگ دیکھ کر اپنی اہلیہ بیوی سے کہا تم یہوں ٹھہرو اور مدین سے مصر جانے کے وقت کا قصہ ہے مجھے آگ دکھائی دی ہے بہت ممکن ہے کہ میں آگ کا تمہارے پاس کسی لکڑی یا رسی کے سرے میں شعلہ (لگا کر) لاؤں یا آگ کے پاس کوئی راستہ بتانے والا پاؤں یعنی کوئی ایسا رہنما جو رہنمائی کرسکے اور (موسیٰ علیہ السلام) رات کی تاریکی کی وجہ سے راستہ بھول گئے تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) نے ممکن یا شاید کا لفظ اس لئے استعمال فرمایا کہ ان کو ایفاء عہد کا پورا یقین نہیں تھا چناچہ جب موسیٰ (علیہ السلام) اس آگ کے پاس پہنچے اور وہ جھڑ بیری کا درخت تھا تو آواز دی گئی اے موسیٰ اِنِیّ کے ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ نُودِیَ کو قیل کی تاویل میں لیکر اور ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ بھی ہے اس صورت میں اَنِّی سے پہلے بامقدر ہوگئی (یعنی بِاَنِیْ اَنا یاء متکلم کی تاکید ہے بالیقین میں تیرا رب ہوں تو اپنے جوتے اتار دے کیونکہ تو مقدس پاک یا مبارک وادی طوی میں ہے طوی بدل ہے یا عطف بیان ہے تنوین اور بغیر تنوین دونوں (جائز ہے) طُوًی اگر مکان کے معنی میں ہو تو منصرف ہوگا اور غیر منصرف ہوگا جب کہ طوًی کو بُقْعۃٌ کے معنی میں لیکر مونث مانا جائے مع علمیۃ کے اور میں نے تجھ کو تیری قوم میں سے منتخب کرلیا ہے لہٰذا میری جانب سے تم کو جو وحی کی جا رہی ہے اس کو غور سے سن بےشک
میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں لہٰزا تو میری ہی عبادت کر اور نماز قائم کر نماز میں میرے ذکر کے لئے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : لتشقیٰ ای لتتعبَ معنی یہ ہیں کہ ہم نے قرآن کو اس لئے نازل نہیں کیا کہ آپ خود کو مشقت میں ڈالیں زیادتی غم کی وجہ سے قُبسٌ آگ کا شعلہ، چنگاری طُویٰ ایک وادی کا نام ہے شام میں، طٓہٰ مفسر علام نے اللہ اعلم بمرادہ بذٰلک کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ حروف مقطعات میں سے ہے اور اس کا حقیقی علم اللہ کے ساتھ خاص ہے، مفسر علام نے اِلاَّ کی تفسیر لکنّ سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہ مستثنیٰ منقطع ہے ای لکن انزلناہ تذکرۃ اس لئے کہ تذکرۃً تشقیٰ مستثنیٰ منہ کی جنس سے نہیں ہے تنزِیْلاً نزَّلْنَا فعل مقدر کا مصدر ہے جو کہ اس کا نصب ہے فعل کو حذف کرکے مصدر کو اس کے بدلے میں اس کی جگہ رکھ دیا گیا ہے اور یہ حذف واجب ہے اس لئے کہ مصدر معنی اور عمل میں فعل کی نیابت کرتا ہے یہاں بدل سے بدل اصطلاحی مراد نہیں ہے بلکہ بدل لغوی مراد ہے یعنی عوض بدل منَ اللفظ کا مطلب یہ ہے کہ تَنْزِیْلاً تلفظ اور نطق میں اپنے فعل ناصب نَزَّلْنَا محذوف کے قائم مقام ہے ممن خَلَقَ تنزِیْلاً کے متعلق ہے خلق الارض والسمٰوٰت العُلیٰ میں عطف جنس علی الجنس ہے نہ کہ جمع کا عطف مفرد پر اب خلاف اولیٰ کا اعتراض نہیں ہوسکتا ھُو کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ الرحمٰن ھُوَ مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے بھی مرفوع ہے۔
قولہ : وَھَلْ اَتَاکَ جملہ مستانفہ ہے خطاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے اور استفہام تشویق اور تقریر فی ذہن السامع کے لئے ہے اور ھل بمعنی قد ہے اِذْ رأیٰ ، حدیث موسیٰ کا ظرف ہے امکُثُوْا جمع اور مذکر کا صیغہ لایا گیا ہے حالانکہ مخاطب صرف آپ کی بیوی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ اَھَل کی رعایت سے جمع مذکر کا صیغہ لایا گیا ہے یا پھر تعظیماً جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے یا پھر خادم اور اولاد جو کہ ہمراہ تھے کی رعایت سے جمع کا صیغہ لایا گیا ہے آنَسْتُ کی تفسیر اَبْصَرْتُ سے کرکے اشارہ کردیا کہ اِیْنَاس کے معنی کسی طریقہ سے بھی محسوس کرنا ہے مگر یہاں بصر سے محسوس کرنے کے معنی مراد ہیں قَبَسٌ چنگاری، آگ کا شعلہ قَتِیٌلَۃ بتی، رسی وغیرہ ھُدًی ای ھادٍ مصدر بمعنی اسم فاعل ہے عَوْسج کانٹے دار درخت، جنگلی بیری، بعض حضرات نے عناب اور بعض نے امربیل مراد لی ہے، جس کو ہندی میں آکاش بیل بھی کہتے ہیں، فارسی میں عشق پیچاں کہتے ہیں، طب میں اس کا اصطلاحی نام افتیمون ہے، اس کی زمین میں جڑ نہیں ہوتی ہے یہ اپنی خوراک درخت سے حاصل کرتی ہے اور جس درخت پر چھا جاتی ہے اس کو خشک کردیتی ہے طُوًی وادٍ سے بدل یا عطف بیان ہے اس کو منصرف اور غیر منصرف دونوں پڑھنا درست ہے اگر مکان کے معنی میں ہو تو منصرف ہوگا اور اگر بُفعۃ کے معنی میں ہو تو علمیۃ اور تانیث کی وجہ سے غیر منصرف ہوگا اِنَّنِیْ اَنا اللہ مِمَّا یُوحٰی سے بدل ہے فِیْھَا ای فی الصلوٰۃ، اَللہُ مبتداء محذوف کی خبر ہے ای المنعوت بما ذُکرَ منَ النعوت الجلیلۃ اللہ (یعنی وہ ذات جو مذکورہ صفات کمالیہ سے متصف ہے وہ اللہ ہے لفظ جلالہ (اللہ) مبتداء اور لا الٰہ اِلاَّ ھو اس کی خبر بھی ہوسکتی ہے۔
تفسیر و تشریح
طہ کی مراد کے سلسلہ میں مفسرین کے درمیان شدید اختلاف ہے بعض حضرات کا قول ہے کہ یہ قرآن یا سورت کا نام ہے یا اسماء حسنیٰ میں سے ایک ہے، بعض حضرات کا قول ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسماء گرامی میں سے ایک ہے، حسن (رض) نے کہا ہے طَہٰ بروزن ھَبْ یہ امر ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یعنی آپ اپنے دونوں قدم زمین پر رکھئے، یہ اس وقت کی بات ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبادت میں بیحد مشقت اٹھاتے تھے پوری پوری رات نماز پڑھتے اور جب تھک جاتے تو ایک پیر کو دوسرے پیر پر رکھ کر نماز ادا فرماتے حتی کہ آپ کے پائے مبارک ورم کر جاتے اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آیا طَہٰ آپ دونوں قدم زمین پر رکھئے طَہْ اصل میں طَأ تھا وَطِیَ بَطَاُ سے آخری ہمزہ ھا سے بدل دیا طَہْ ہوگیا۔
ما انزلنا علیک ہم نے قرآن کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس لئے نازل نہیں کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشقت اٹھائیں، اور قیام لیل میں اس قدر تلاوت فرمائیں کہ آپ کے قدم مبارک ورم کر جائیں، دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم نے قرآن کو اس لئے نازل نہیں کیا کہ آپ ان کافروں کے کفر پر اس قدر رنج و غم کریں کہ خود کو ہلاکت کے قریب کرلیں، جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے فَلَعَلَّکَ باخِعٌ نفسک علیٰ آثارھم ان لم یومنوا بھذا الحدیث اسفًا پس اگر یہ لوگ ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے، بلکہ ہم نے اس قرآن کو نصیحت اور یاد دہانی کے لئے اتارا ہے تاکہ ہر انسان کے تحت الشعور میں توحید کا جو جذبہ پوشیدہ ہے واضح اور نمایاں ہوجائے۔ (یہاں پر شقاءٌ، عناءٌ وتعبٌ کے معنی میں ہے) ۔
علی العرش استویٰ استواء علی العرش کے متعلق صحیح اور بےغبار بات وہی ہے جو جمہور سلف صالحین سے منقول ہے کہ اس کی حقیقت و کیفیت کسی کو معلوم نہیں متشابہات میں سے ہے اتنا عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ استواء علی العرش حق ہے اس کی کیفیت اللہ جل شانہ کی شان کے مطابق و مناسب ہوگی جس کا ادراک دنیا میں کسی کو نہیں ہوسکتا۔
وما تحت الثریٰ ثریٰ نمناک مٹی کو کہتے ہیں، مخلوقات کا علم تو صرف ثریٰ پر ختم ہوجاتا ہے اس ثریٰ کے نیچے کیا ہے اس کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں، نئی تحقیق اور ریسرچ اور نئے نئے آلات اور سائنس کی انتہائی ترقی کے باوجود اب سے چند سال پہلے زمین کو برما کر اس پار سے اس پار نکل جانے کوشش مدتوں تک جاری رہی ان سب تحقیقات اور انتھک کوششوں کا نتیجہ اخبارات میں سب کے سامنے آچکا ہے کہ صرف چھ میل کی گہرائی تک یہ آلات کام کرسکے، آگے ایک ایسا حجری غلاف ثابت ہوا جہاں کھدائی کے تمام آلات اور سائنس جدید کے سب افکار عاجز ہوگئے، انسان صرف چھ میل تک کا علم حاصل کرسکا جب کہ زمین کا قطر استوائی 7926 میل اور بعض کے نزدیک 7927 میل ہے، اور قطبی قطر 7900 میل ہے (فلکیات جدیدہ، ص 73) اسلئے اس اقرار کے سوا چارہ نہیں کہ علم ماتحت الثریٰ حق تعالیٰ ہی کی مخصوص صفت ہے۔ (معارف القرآن)
یعلم السر واخفیٰ اس سے پہلی آیت میں عموم قدرت و تصرف کا بیان تھا اس آیت میں علم الٰہی کی وسعت کا تذکرہ ہے یعنی جو بات زور سے پکار کر کہی جائے وہ اس علام الغیوب سے کیونکر پوشیدہ رہ سکتی ہے جس کو ہر کھلی چھپی بلکہ پوشیدہ سے بھی پوشیدہ باتوں کی خبر تنہائی میں آہستہ کہی جائے اور جو دل میں گزرے مگر ابھی زبان پر نہ آئی ہو اور ابھی دل میں بھی نہیں گزری آئندہ گزرنے والی ہو حق تعالیٰ کا علم ان سب کو محیط ہے اسی لئے بلا ضرورت بہت زور سے چلا کر بہت زور سے ذکر کرنے کو بھی علماء شریعت نے منع فرمایا ہے۔
آیات بالا میں حق تعالیٰ کی جو صفات بیان ہوئی ہیں یعنی اس کا خالق الکل، مالک علی الاطلاق اور صاحب علم محیط ہونا اس کا متقضٰی یہ ہے کہ صفت الوہیت بھی تنہا اسی کا خاصہ ہو اسی مضمون کو آئندہ آنے والی آیت اللہ لاَ الٰہَ اِلاَّ ھو میں بیان فرمایا ہے۔
وھل اتاک حدیث موسیٰ یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بہت بسط و تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے تاکہ سامعین سمجھ جائیں کہ نبی کریم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف وحی بھیجنا کوئی انوکھی یا انہونی بات نہیں ہے جس طرح پیشتر موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی مل چکی ہے آپ کو بھی ملی ہے، جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی وحی توحید وغیرہ کی تعلیم پر مشتمل تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وحی میں بھی انہی اصولوں پر زور دیا گیا ہے، حضرت موسیٰ نے تبلیغ حق میں صعوبتیں اور تکالیف برداشت کیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی برداشت کرنی پڑیں گی اور جس طرح آخر کار ان کو کامیابی اور غلبہ نصیب ہوا اور دشمن مقہور و مخذول ہوئے، آپ بھی یقیناً غالب و منصور ہوں گے اور آپ کے دشمن تباہ و ذلیل کیے جائیں گے، چونکہ سورت کا آغاز انزال قرآن کے ذکر سے کیا گیا تھا اس کے مناسب نبوت موسوی کے آغاز کا قصہ بیان فرماتے ہیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ کے مختلف اجزاء ہیں مگر یہاں قصہ کا صرف وہ جز بیان کیا گیا ہے جو مدین سے مصر واپسی کے وقت پیش آیا تھا۔
مدین میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی صاحبزادی جس کا نام صفورا یا صفوریا ہے اور بعض حضرات نے صفوریہ بھی بتایا ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نکاح ہوگیا تھا، کئی سال وہاں مقیم رہنے کے اور خدمت کی مدت پوری کرنے کے بعد جو کہ آٹھ سال یا دس سال تھی (غالب یہی ہے کہ ابعد الاجلین پوری کی ہوگی) اپنی والدہ اور دیگر اہل خانہ کی زیارت اور ملاقات کے لئے مصر جانے کی حضرت شعیب (علیہ السلام) سے اجازت چاہی حضرت شعیب (علیہ السلام) نے بخوشی اجازت دیدی اور سامان نیز کچھ بکریاں بھی ہمراہ کردیں، حاملہ بیوی ساتھ ہے رات اندھیری ہے سردی کا شباب ہے، بکریوں کا بھی ساتھ ہے، اس حالت میں راستہ بھول جاتے ہیں بکریاں منتشر ہوجاتی ہیں، بیوی کو دردزہ شروع ہوجاتا ہے، سردی کی وجہ سے پریشان ہیں، سردی سے نچاؤ کے لئے آگ نہیں کہ تاپ سکیں چقماق رگڑ نے پر بھی آگ نہ نکلی، ان مصائب کی تاریکیوں میں دفعتاً ایک آگ نظر آئی وہ درحقیقت دنیوی آگ نہ تھی بلکہ اللہ کا نور جلال تھا، مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ظاہری آگ سمجھ کر اپنی اہلیہ سے کہا کہ تم یہاں ٹھہرو میرے ساتھ آنے کی ضرورت نہیں ہے میں رسی وغیرہ میں لگا کر آگ کا شعلہ لاتا ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں کوئی راستہ بتانے والا مل جائے، جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس پاک اور مقدس وادی طویٰ میں پہنچے تو عجیب و غریب نظارہ دیکھا ایک درخت میں زور شور سے آگ لگ رہی ہے اور آگ جس قدر زیادہ بھڑکتی ہے، درخت اسی قدر زیادہ سرسبز ہو کر لہلہاتا ہے اور جوں جوں درخت کی سرسبزی و شادابی جل کر گرے تو اٹھا لائیں لیکن موسیٰ (علیہ السلام) جس قدر آگ کے قریب جانے کا قصد کیا کہ درخت کی کوئی شاخ جل کر گرے تو اٹھا لائیں لیکن موسیٰ (علیہ السلام) جس قدر آگ کے قریب جاتے ہیں آگ دور بھاگتی چلی جاتی ہے اور جب گھبرا کر پیچھے ہٹتے ہیں تو وہ تعاقب کرتی ہے اسی حیرت اور دہشت کی حالت میں آواز آئی اِنی انَا اللہُ الخ امام احمد نے وہب سے نقل کیا ہے کہ موسیٰ نے جب یا موسیٰ (علیہ السلام) سنا تو کئی بار لبیک کہا اور عرض کیا کہ میں تیری آواز سنتا ہوں اور آہٹ پاتا ہوں مگر یہ نہیں دیکھتا کہ تو کہاں ہے ؟ آواز آئی میں تیرے اوپر ہوں، تیرے ساتھ ہوں، تیرے سامنے ہوں، تیرے پیچھے ہوں اور تیری جان سے زیادہ تجھ سے قریب ہوں، کہتے کہ موسیٰ (علیہ السلام) ہر جہت سے اور اپنے ایک ایک بال سے اللہ کا کلام سنتے تھے۔ (فوائد عثمانی)
فاخلع نعلیک ادب اور احترام کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جوتے اتار دو بلاشبہ تم ایک مقدس اور پاکیزہ مقام پر ہو، اور جوتے اتار کر برہنہ پا ہونے میں عاجزی اور انکساری کا ظہور بھی ہے، یا اس لئے کہ مردار کی کھال کے تھے جیسا کہ بعض روایات میں ہے اور حضرت علی اور حسن بصری اور ابن جریج سے اول ہی منقول ہے اور جوتا اتارنے کی مصلحت یہ بتائی گئی ہے کہ آپ کے قدم اس مبارک وادی کی مٹی سے مس کرکے برکت حاصل کریں، اور وادی کی پاکیزگی کے اثرات کو پیرزیادہ جذب کرسکیں۔
انک بالواد المقدس طوی حق تعالیٰ نے زمین کے خاص خاص حصوں کو اپنی حکمت سے خاص امتیازات اور شرف بخشا ہے، جیسے بیت اللہ، مسجد اقصیٰ ، مسجد نبوی اور وادی طویٰ یہ وادی کوہ طور کے دامن میں واقع ہے، طُوْی ایک وادی کا نام ہے اسے بعض حضرات نے منصرف اور بعض نے غیر منصرف پڑھا ہے۔
وانا اخترتُکَ جب موسیٰ (علیہ السلام) کی عمر چالیس سال تھی تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت اور رسالت کے لئے منتخب فرما لیا اور حکم دیا کہ جو وحی تمہاری جانب کی جا رہی ہے اس کو غور سے سنو، سب سے پہلا حکم تو یہ ہے کہ میری ہی بندگی کرو، میرے سوائے کوئی بندگی کے لائق نہیں، نماز اگرچہ بندگی میں داخل ہے مگر نماز کی اہمیت کے پیش نظر مستقل طور پر بھی نماز کا حکم دیا، اور یہ بھی بتادیا کہ نماز کا مقصد میری یادگاری ہے نماز سے غافل ہونا گویا کہ خدا کی یاد سے غافل ہونا ہے لِذِکری کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب بھی میں تجھے یاد آجاؤں نماز پڑھ لیا کر یعنی اگر کسی وقت غفلت ذہول، یا نیند کا غلبہ ہو تو اس کیفیت سے نکلتے ہی اور میری یاد آتے ہی نماز پڑھ لیا کر، جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو نماز سے سو جائے یا بھول جائے تو اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب بھی یاد آئے تو پڑھ لے۔ (بکاری شریف کتاب المواقیت)
10 Tafsir as-Saadi
﴿طٰهٰ ﴾ اس کا شمار من جملہ حروف مقطعات سے ہے جن کے ساتھ بہت سی سورتوں کی ابتداء ہوتی ہے اور واضح رہے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كا اسم گرامی نہیں ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
tua-haa .
12 Tafsir Ibn Kathir
علم قرآن سب سے بڑی دولت ہے۔
سورة بقرہ کی تفسیر کے شروع میں سورتوں کے اول حروف مقطعات کی تفسیر پوری طرح بیان ہوچکی ہے جسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ گو یہ بھی مروی ہے کہ مراد طہ سے اے شخص ہے کہتے ہیں کہ یہ نبطی کلمہ ہے۔ کوئی کہتا ہے معرب ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں ایک پاؤں زمین پر ٹکاتے اور دوسرا اٹھا لیتے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری یعنی طہ یعنی زمین پر دونوں پاؤں ٹکا دیا کر۔ ہم نے یہ قرآن تجھ پر اس لئے نہیں اتارا کہ تجھے مشقت و تکلیف میں ڈال دیں۔ کہتے ہیں کہ جب قرآن پر عمل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور آپ کے صحابہ نے شروع کردیا تو مشرکین کہنے لگے کہ یہ لوگ تو اچھی خاصی مصیبت میں پڑگئے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ یہ پاک قرآن تمہیں مشقت میں ڈالنے کو نہیں اترا بلکہ یہ نیکوں کے لئے عبرت ہے یہ الہامی علم ہے جسے یہ ملا اسے بہت بڑی دولت مل گئی۔ چناچہ بخاری مسلم میں ہے کہ جس کے ساتھ اللہ کا ارادہ بھلائی کا ہوجاتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے حافظ ابو القاسم طبرانی (رح) ایک مرفوع صحیح حدیث لائے ہیں کہ قیامت کے دن جب کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلے فرمانے کے لئے اپنی کرسی پر اجلاس فرمائے گا تو علماء سے فرمائے گا کہ میں نے اپنا علم اور اپنی حکمت تمہیں اسی لئے عطا فرمائی تھی کہ تمہارے تمام گناہوں کو بخش دوں اور کچھ پرواہ نہ کروں کہ تم نے کیا کیا ہے ؟ پہلے لوگ اللہ کی عبادت کے وقت اپنے آپ کو رسیوں میں لٹکا لیا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے یہ مشقت اپنے اس کلام پاک کے ذریعہ آسان کردی اور فرما دیا کہ یہ قرآن تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا جیسے فرمان ہے جس قدر آسانی سے پڑھا جائے پڑھ لیا کرو یہ قرآن شقاوت اور بدبختی کی چیز نہیں بلکہ رحمت و نور اور دلیل جنت ہے۔ یہ قرآن نیک لوگوں کے لئے جن کے دلوں میں خوف الٰہی ہے تذکرہ وعظ و ہدایت و رحمت ہے۔ اسے سن کر اللہ کے نیک انجام بندے حلال حرام سے واقف ہوجاتے ہیں اور اپنے دونوں جہان سنوار لیتے ہیں۔ یہ قرآن تیرے رب کا کلام ہے اسی کی طرف سے نازل شدہ ہے جو ہر چیز کا خالق مالک رازق قادر ہے۔ جس نے زمین کو نیچی اور کثیف بنایا ہے اور جس نے آسمان کو اونچا اور لطیف بنایا ہے۔ ترمذی وغیرہ کی صحیح حدیث میں ہے کہ ہر آسمان کی موٹائی پانچ سو سال کی راہ ہے اور ہر آسمان سے دوسرے آسمان تک کا فاصلہ بھی پانچ سو سال کا ہے حضرت عباس والی حدیث میں امام ابن ابی حاتم نے اسی آیت کی تفسیر میں وارد کی ہے۔ وہ رحمان اپنے عرش پر مستوی ہے اس کی پوری تفسیر سورة اعراف میں گزر چکی ہے یہاں وارد کرنے کی ضرورت نہیں سلامتی والا طریقہ یہی ہے کہ آیات و احادیث صفات کو بطریق سلف صالحین ان کے ظاہری الفاظ کے مطابق ہی مانا جائے بغیر کیفیت طلبی کے اور بغیر تحریف و تشبیہ اور تعطیل و تمثیل کے۔ تمام چیزیں اللہ کی ہی ملک ہیں اسی کے قبضے اور ارادے اور چاہت تلے ہیں وہی سب کا خالق مالک الہ اور رب ہے کسی کو اس کے ساتھ کسی طرح کی شرکت نہیں۔ ساتویں زمین کے نیچے بھی جو کچھ ہے سب اسی کا ہے۔ کعب کہتے ہیں اس زمین کے نیچے پانی ہے پانی کے نیچے پھر زمین ہے پھر اس کے نیچے پانی ہے اسی طرح مسلسل پھر اس کے نیچے ایک پتھر ہے اس کے نیچے ایک فرشتہ ہے اس کے نیچے ایک مچھلی ہے جس کے دونوں بازو عرش تک ہیں اس کے نیچے ہوا خلا اور ظلمت ہے یہیں تک انسان کا علم ہے باقی اللہ جانے۔ حدیث میں ہے ہر دو زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے سب سے اوپر کی زمین مچھلی کی پشت پر ہے جس کے دونوں بازوں آسمان سے ملے ہوئے ہیں یہ مچھلی ایک پتھر پر ہے وہ پتھر فرشتے کے ہاتھ میں ہے دوسری زمین ہواؤں کا خزانہ ہے۔ تیسری میں جہنم کے پتھر ہیں چوتھی میں جہنم کی گندھک پانچویں میں جہنم کے سانپ ہیں چھٹی میں جہنمی بچھو ہیں ساتویں میں دوزخ ہے وہیں ابلیس جکڑا ہوا ہے ایک ہاتھ آگے ہے ایک پیچھے ہے جب اللہ چاہتا ہے اسے چھوڑ دیتا ہے یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور اس کا فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہونا بھی غور طلب ہے۔ مسند ابو یعلی میں ہے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں ہم غزوہ تبوک سے لوٹ رہے تھے گرمی سخت تڑاخے کی پڑ رہی تھی دو دو چار چار آدمی منتشر ہو کر چل رہے تھے میں لشکر کے شروع میں تھا اچانک ایک شخص آیا اور سلام کر کے پوچھنے لگا تم میں سے محمد کون ہیں ؟ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ میں اس کیساتھ ہوگیا میرے ساتھی آگے بڑھ گئے۔ جب لشکر کے درمیان کا حصہ آیا تو اس میں حضور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے میں نے اسے بتلایا کہ یہ ہیں حضور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سرخ رنگ کی اونٹنی پر سوار ہیں سر پر بوجہ دھوپ کے کپڑا ڈالے ہوئے ہیں وہ آپ کی سواری کے پاس گیا اور نکیل تھام کر عرض کرنے لگا کہ آپ ہی محمد ہیں ؟ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ آپ نے جواب دیا کہ ہاں اس نے کہا میں چند باتیں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں جنہیں زمین والوں میں سے بجز ایک دو آدمیوں کے اور کوئی نہیں جانتا۔ آپ نے فرمایا تمہیں جو کچھ پوچھنا ہو پوچھ لو۔ اس نے کہا بتائیے انبیاء اللہ سوتے بھی ہیں ؟ آپ نے فرمایا ان کی آنکھیں سو جاتی ہیں لیکن دل جاگتا رہتا ہے۔ اس نے کہا بجا ارشاد ہوا ہے۔ اب یہ فرمائیے کہ کیا وجہ ہے کہ بچہ کبھی تو باپ کی شباہت پر ہوتا ہے کبھی ماں کی ؟ آپ نے فرمایا سنو مرد کا پانی سفید اور غلیظ ہے اور عورت کا پانی پتلا ہے جو پانی غالب آگیا اسی پر شبیہ جاتی ہے اس نے کہا بجا ارشاد فرمایا۔ اچھا یہ بھی فرمائیے کہ بچے کے کون سے اعضاء مرد کے پانی سے بنتے ہیں اور کون سے عورت کے پانی سے ؟ فرمایا مرد کے پانی سے ہڈیاں رگ اور پٹھے اور عورت کے پانی سے گوشت خون اور بال اس نے کہا یہ بھی صحیح جواب ملا۔ اچھا یہ بتایئے کہ اس زمین کے نیچے کیا ہے ؟ فرمایا ایک مخلوق ہے۔ کہا ان کے نیچے کیا ہے ؟ فرمایا زمین کہا اس کے نیچے کیا ہے ؟ فرمایا پانی۔ کہا پانی کے نیچے کیا ہے ؟ فرمایا اندھیرا۔ کہا اس کے نیچے ؟ فرمایا ہوا۔ کہا ہوا کے نیچے ؟ فرمایا تر مٹی، کہا اس کے نیچے ؟ آپ کے آنسو نکل آئے اور ارشاد فرمایا کہ مخلوق کا علم تو یہیں تک پہنچ کر ختم ہوگیا۔ اب خالق کو ہی اس کے آگے کا علم ہے۔ اے سوال کرنے والے اس کی بابت تو جس سے سوال کر رہا ہے وہ تجھ سے زیادہ جاننے والا نہیں۔ اس نے آپ کی صداقت کی گواہی دی آپ نے فرمایا اسے پہچانا بھی ؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول کو ہی پورا علم ہے آپ نے فرمایا یہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تھے۔ یہ حدیث بھی بہت ہی غریب ہے اور اس میں جو واقعہ ہے بڑا ہی عجیب ہے اس کے راویوں میں قاسم بن عبدالرحمٰن کا تفرد ہے جنہیں امام یحییٰ بن معین (رح) کہتے ہیں کہ یہ کسی چیز کے برابر نہیں۔ امام ابو حاتم رازی بھی انہیں ضعیف کہتے ہیں۔ امام ابن عدی فرماتے ہیں یہ معروف شخص نہیں اور اس حدیث میں غلط ملط کردیا ہے اللہ ہی جانتا ہے کہ جان بوجھ کر ایسا کیا ہے یا ایسی ہی کسی سے لی ہے۔ اللہ وہ ہے جو ظاہر و باطن اونچی نیچی چھوٹی بڑی سب کچھ جانتا ہے جیسے فرمان ہے کہ اعلان کر دے کہ اس قرآن کو اس نے نازل فرمایا ہے جو آسمان و زمین کے اسرار عمل کو اس کے علم سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ تمام گزشتہ موجودہ اور آئندہ مخلوق کا علم اس کے پاس ایسا ہی ہے جیسا ایک شخص کا علم۔ سب کی پیدائش اور مار کر جلانا بھی اس کے نزدیک ایک شخص کی پیدائش اور اس کی موت کے بعد کی دوسری بار کی زندگی کے مثل ہے۔ تیرے دل کے خیالات کو اور جو خیالات نہیں آتے ان کو بھی وہ جانتا ہے۔ تجھے زیادہ سے زیادہ آج کے پوشیدہ اعمال کی خبر ہے اور اسے تو تم کل کیا چھپاؤ گے ان کا بھی علم ہے۔ ارادے ہی نہیں بلکہ وسوسے بھی اس پر ظاہر ہیں۔ کئے ہوئے عمل اور جو کرے گا وہ عمل اس پر ظاہر ہیں۔ وہی معبود برحق ہے اعلیٰ صفتیں اور بہترین نام اسی کے ہیں۔ سورة اعراف کی تفسیر کے آخر میں اسماء حسنی کے متعلق حدیثیں گزر چکی ہیں۔