اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ ان مویشی چوپایوں پر جو اﷲ نے انہیں عنایت فرمائے ہیں (ذبح کے وقت) اﷲ کا نام لیں، سو تمہارا معبود ایک (ہی) معبود ہے پس تم اسی کے فرمانبردار بن جاؤ، اور (اے حبیب!) عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں،
English Sahih:
And for every [religious] community We have appointed a rite [of sacrifice] that they may mention the name of Allah over what He has provided for them of [sacrificial] animals. For your god is one God, so to Him submit. And, [O Muhammad], give good tidings to the humble [before their Lord]
1 Abul A'ala Maududi
ہر امّت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے تاکہ (اُس امّت کے لوگ) اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے اُن کو بخشے ہیں (اِن مختلف طریقوں کے اندر مقصد ایک ہی ہے) پس تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے اور اُسی کے تم مطیع فرمان بنو اور اے نبیؐ، بشارت دے دے عاجزانہ رَوش اختیار کرنے والوں کو
2 Ahmed Raza Khan
اور ہر امت کے لیے ہم نے ایک قربانی مقرر فرمائی کہ اللہ کا نام لیں اس کے دیے ہوئے بے زبان چوپایوں پر تو تمہارا معبود ایک معبود ہے تو اسی کے حضور گردن رکھو اور اے محبوب خوشی سنادو ان تواضع والوں کو،
3 Ahmed Ali
اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی مقرر کر دی تھی تاکہ الله نے جو چار پائے انہیں دیے ہیں ان پر الله کا نام یاد کیا کریں پھر تم سب کا معبود تو ایک الله ہی ہے پس اس کے فرمانبردار رہو اور عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو
4 Ahsanul Bayan
اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں (١) سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جاؤ عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے!
٣٤۔١ منسک۔ نسک ینسک کا مصدر ہے معنی ہیں اللہ کے تقرب کے لیے قربانی کرنا ذبیحۃ (ذبح شدہ جانور) کو بھی نسیکۃ کہا جاتا ہے جس کی جمع نسک ہے اس کے معنی اطاعت وعبادت کے بھی ہیں کیونکہ رضائے الٰہی کے لئے جانور کی قربانی کرنا عبادت ہے۔ اسی لئے غیر اللہ کے نام پر یا ان کی خوشنودی کے لئے جانور ذبح کرنا غیر اللہ کی عبادت ہے، جہاں حج کے اعمال و ارکان ادا کئے جاتے ہیں، جیسے عرفات، مزدلفہ، منٰی اور مکہ۔ مطلق ارکان و اعمال حج کو بھی مناسک کہہ لیا جاتا ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم پہلے بھی ہر مذہب والوں کے لئے ذبح کا یا عبادت کا یہ طریقہ مقرر کرتے آئے ہیں تاکہ وہ اس کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرتے رہیں۔ اور اس میں حکمت یہ ہے کہ ہمارا نام لیں۔ یعنی بسم اللہ و اللہ اکبر کہہ کر ذبح کریں یا ہمیں یاد رکھیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے ہر اُمت کے لئے قربانی کا طریق مقرر کردیا ہے تاکہ جو مویشی چارپائے خدا نے ان کو دیئے ہیں (ان کے ذبح کرنے کے وقت) ان پر خدا کا نام لیں۔ سو تمہارا معبود ایک ہی ہے تو اسی کے فرمانبردار ہوجاؤ۔ اور عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنادو
6 Muhammad Junagarhi
اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وه ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔ سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جاؤ عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہم نے ہر قوم کیلئے قربانی کا ایک طور طریقہ مقرر کیا ہے۔ تاکہ وہ ان چوپایوں پر (ذبح کے وقت) اللہ کا نام لیں، جو اس نے انہیں عطا کئے ہیں (الغرض) تمہارا اللہ ایک ہی ہے لہٰذا تم اس کی بارگاہ میں سر جھکاؤ اور ان عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے ہر قوم کے لئے قربانی کا طریقہ مقرر کردیا ہے تاکہ جن جانوروں کا رزق ہم نے عطا کیا ہے ان پر نام خدا کا ذکر کریں پھر تمہارا خدا صرف خدائے واحد ہے تم اسی کے اطاعت گزار بنو اور ہمارے گڑگڑانے والے بندوں کو بشارت دے دو
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے ہر ایک امت کے لئے قربانی کا طریق مقرر کردیا ہے تاکہ جو مویشی چارپائے خدا نے انکو دئیے ہیں (انکے ذبح کرنے کے وقت) ان پر خدا کا نام لیں سو تمہارا ایک ہی معبود ہے تو اسی کے فرمانبردار ہوجاؤ اور عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو آیت نمبر 34 تا 38 ترجمہ : اور ہم نے ہر امت کے لئے یعنی مومن جماعت کے لئے جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں قربانی کرنا اس لئے مقرر کیا تھا کہ وہ ان مخصوص چوپایوں پر بوقت ذبح اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو عطا فرمائے تھے منسکاً سین کے فتحہ کے ساتھ مصدر ہے اور کسرہ سین کے ساتھ اسم مکان ہے، یعنی بطور قربانی ذبح کرنا، یا مقام ذبح، سو تمہارا معبود ایک ہی خدا ہے سو اسی کے تابع فرمان رہو، اور آپ اطاعت کرنے والوں یعنی تواضع اختیار کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے جو ایسے ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جو ان مصیبتوں پر کہ ان پر پڑتی ہیں صبر کرتے ہیں، اور جو نماز کی ان کے اوقات میں پابندی کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ خیرات کرتے ہیں اور بدن بدنۃٌ کی جمع ہے اور وہ اونٹ ہے اور بدنہ کو ہم نے تمہارے لئے اللہ کے شعائر یعنی اس کے دین کی علامت بنادیا اور ان جانوروں میں تمہارے لئے خیر یعنی دنیوی نفع ہے جیسا کہ سابق میں گزر چکا اور اجر آخرت بھی ہے سو تم ان پر نحر کے وقت اللہ کا نام لیا کرو، حال یہ کہ وہ تین پیروں پر کھڑے ہوں اور بایاں ہاتھ بندھا ہوا ہو پس جب وہ اپنی کسی کروٹ گرپڑیں یعنی جب وہ نحر کے بعد زمین پر گرپڑیں (اور ان کی روح پرواز کر جائے) تو وہ وقت ان میں سے کھانے کا ہے ان میں سے کھاؤ اگر تم چاہو اور ایسے قانع کو بھی کھلاؤ کہ اس کو جو کچھ دیدیا جائے اس پر قناعت کرتا ہے اور نہ وہ سوال کرتا ہے اور نہ تعرض کرتا ہے اور معتر کو بھی کھلاؤ یعنی جو سوال کرتا ہو یا تعرض کرتا ہو اور اسی طرح یعنی تسخیر مذکور کے مانند ہم نے تمہارے لئے ان جانوروں کو مسخر کردیا بایں طور کہ (اے مخاطب) تو ان کو ذبح کرے اور ان پر سواری کرے ورنہ تو (یہ) تیرے بس کی بات نہیں تھی تاکہ تم اپنے اوپر میرے انعام کا شکر یہ ادا کرو، اللہ کے پاس ان جانوروں کا گوشت اور ان کا خون نہیں پہنچتا یعنی یہ دونوں چیزیں اللہ تک نہیں پہنچائی جاتیں ہاں البتہ تمہارا تقویٰ اس تک پہنچتا ہے یعنی ایمان کے ساتھ تمہارا نیک اور اللہ کے لئے خالص عمل اس تک پہنچتا ہے اور اسی طرح ان جانوروں کو تمہارے زیر حکم کردیا تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو، اس بات پر کہ تم کو توفیق عطا کی یعنی تم کو اپنے دین کے شعائر ادا کرنے اور اپنے حج کے مناسک ادا کرنے کی توفیق فرمائی اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محسنین یعنی موحدین کو اس بات کی خوشخبری دیدو کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا دفاع کرے گا، مشرکین کی مصیبت سے اللہ تعالیٰ کسی امانت میں خیانت کرنے والے اس کی نعمت کی ناشکری کرنے والے کو پسند نہیں کرتا اور وہ مشرک ہیں معنی یہ ہیں کہ وہ ان کو سزا دے گا۔ تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد قولہ : منسکا فتحہ سین کے ساتھ مصدر ہے، قربانی کرنا، اور سین کے کسرہ کے ساتھ اسم مکان ہے یعنی قربان گاہ، منسکا منسک اور نسبک عربی زبان میں کئی معنی میں بولا جاتا ہے (1) جانور کی قربانی (2) تمام افعال حج (3) مطلقاً عبادت، یہاں تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں، مجاہد وغیرہ نے اس جگہ منسک کو قربانی کے معنی میں لیا ہے، اس پر معنی یہ ہوں گے قربانی کا حکم جو اس امت کو دیا گیا ہے کوئی نیا حکم نہیں ہے، پہلی امتوں کو بھی یہ حکم دیا گیا تھا، قتادہ نے دوسرے معنی لئے ہیں اس صورت میں آیت کی مراد یہ ہوگی کہ افعال حج جس طرح اس امت پر عائد کئے گئے ہیں پچھلی امت پر بھی حج فرض تھا، ابن عرفہ نے تیسرے معنی مراد لئے ہیں اس صورت میں آیت کی مراد یہ ہوگی کہ ہم نے اللہ کی عبادت پچھلی تمام امتوں پر فرض کی تھی۔ قولہ : ذبحاً قرباناً یہ معنی مصدری کی وضاحت ہے اور قرباناً ذبحاً مصدر کا مفعول بہ ہے او مکانہٗ یہ دوسرے معنی یعنی اسم مکان کی وضاحت ہے۔ قولہ : المطیعین المتواضعین مطیعین مخبتین کے لازم معنی کا بیان ہے اور متواضعین اصل معنی کا بیان ہے، اس لئے کہ اخبات پست زمین میں اترنے کو کہتے ہیں، قولہ : وہی الابل یہ امام شافعی (رح) کا قول ہے امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اہل اور بقر دونوں پر بدنہ کا اطلاق درست ہے اور یہی قول لغت اور شرع کے موافق ہے، قاموس میں ہے البدنۃ من الابل والبقر سنن ابی داؤد اور نسائی میں حضرت جابر (رض) سے مروی ہے فرمایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے تو اپ نے ہم کو ابل اور بقر میں سے ہر ایک بدنہ میں سات کے شریک ہونے کا حکم فرمایا اور صحیح مسلم میں حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ ہم بدنہ کو سات کی طرف سے ذبح کرتے ہیں، سوال کیا گیا اور بقر (گائے) میں، تو فرمایا وہ بھی بدنہ ہی ہے۔ (حاشیہ جلالین اختصاراً ) ۔ قولہ : صواف جمع صافٍ بمعنی قائمات وجبت بمعنی سقطت، وحب الحائط سے مشتق ہے دیوار گرگئی، مراد ٹھنڈا ہوجانا۔ قولہ : فکلوا منھا ان شئتم ان شئتم ان شئتم کا اضافہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کلوا امرو جوب کے لئے نہیں ہے بلکہ اباحت اور بیان جواز کے لئے ہے۔ قولہ : گوائل، غوائل کو محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ یدافع کا مفعول محذوف ہے۔ قولہ : علیٰ ما ھداکم میں ما مصدریہ بھی ہوسکتا ہے ای علی ھدایتہٖ إیاکم اور موصولہ بھی ہوسکتا ہے، ای علیٰ ما ھداکم الیہ علیٰ کا تعلق لتکبروا اللہ سے ہے اور تکبروا تشکروا کے معنی کو متضمن ہے تاکہ اس کا صلہ علی کے ساتھ درست ہوجائے۔ تفسیر و تشریح ولکل امۃٍ یعنی نیاز و عبادت کے طور پر جانور کی قربانی ہر آسمانی دین میں عبادت قرار دی گئی ہے اگر یہ عبادت غیر اللہ کی نیاز کے طور پر کرو گے تو مشرک ہوجاؤ گے، جس سے بہت پرہیز کرنا چاہیے، موحد کا کام یہ ہے کہ قربانی صرف اسی کے نام پر کرے جس کے نام پر کرے جس کے نام پر قربانی کرنے کا تمام شرائع میں حکم ہے اور ان لوگوں کو رضائے الٰہی کی بشارت سنا دیجئے جو صرف اسی ایک خدا کا حکم مانتے ہیں اسی کے سامنے جھکتے ہیں اسی پر ان کا دل جمتا ہے اور اسی کے جلال و جبروت سے ڈرتے رہتے ہیں، اور مصائب و شدائد کو صبر و استقلال سے برداشت کرتے ہیں اور کوئی بڑی سے بڑی مصیبت اور تکلیف ان کے قدموں کو راہ حق سے نہیں ڈگمگاتی۔ صواف تین پیروں پر کھڑا کرکے چوتھے کو باندھ کر یہ صورت صرف اونٹوں کے لئے مستحب ہے اونٹوں کو لٹا کر ذبح کرنا بھی درست ہے اور دیگر جانوروں کی لٹا کر ہی ذبح کرنا بہتر ہے، زمین پر پہلو کے بل گرنے کا مطلب ہے ان کا ٹھنڈا ہوجانا اس لئے کہ روح نکلنے سے پہلے مذبوح کا کوئی حصہ کاٹ کر کھانا درست نہیں ہے، حدیث شریف میں ہے ما قطع من البھیمۃ ھی حیۃ فھو میتۃ (ابو داؤد کتاب الصید، ترمذی شریف ابواب الصید) ان اللہ یدافع عن الذین آمنوا اس آیت کا ما قبل سے ربط یہ ہے کہ ما قبل میں ان افعال کا ذکر تھا جو حج میں کئے جاتے ہیں اور مشرکین نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حدیبیہ کے سال عمرہ سے روکدیا تھا اور جو مومنین مکہ میں تھے ان کو ایذا پہنچاتے تھے، یہ آیت مسلمانوں کی تسلی کے لئے نازل فرمائی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
ہم نے گزشتہ تمام قوموں کیلئے قربانی کو مشروع کیا ہے۔ پس تم تیزی کے ساتھ نیکیوں کی طرف بڑھوتاکہ ہم دیکھیں کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔ ہر قوم میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قربانی کے طریقے کو مقرر کرنے میں حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر قائم اور اس کے شکر کی طرف التفات ہو، اس لئے فرمایا : ﴿ لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰـهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ﴾ اگرچہ تمام شریعتیں مختلف ہیں مگر ایک اصول پر سب متفق ہیں اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی الوہیت، اللہ تعالیٰ اکیلے کا عبودیت کا مستحق ہونا اور اس کے ساتھ شرک کا ترک کردینا، اس لئے فرمایا : ﴿فَلَهُ أَسْلِمُوا ﴾ یعنی اسی کی اطاعت کرو اسی کے سامنے سرتسلیم خم کرو، اس کے سوا کسی کی اطاعت نہ کرو کیونکہ اس کی اطاعت ہی سلامتی کے گھر تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ ﴿وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ﴾ یعنی عاجزی کرنے والوں کو دنیا و آخرت کی بھلائی کی خوشخبری دو (الْمُخْبِت) سے مراد اپنے رب کے سامنے عاجزی اور فروتنی کرنے والا، اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والا اور اس کے بندوں کے ساتھ نہایت تواضع سے پیش آنے والا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney her ummat kay liye qurbani iss gharz kay liye muqarrar ki hai kay woh unn maweshiyon per Allah ka naam len jo Allah ney unhen ata farmaye hain . lehaza tumhara khuda bus aik hi khuda hai , chunacheh tum ussi ki farmanbardaari kero , aur khushkhabri suna do unn logon ko jinn kay dil Allah kay aagay jhukay huye hain ,
12 Tafsir Ibn Kathir
قربانی ہر امت پر فرض قرار دی گئی فرمان ہے کہ کل امتوں میں ہر مذہب میں ہر گروہ کو ہم نے قربانی کا حکم دیا تھا۔ ان کے لئے ایک دن عید کا مقرر تھا۔ وہ بھی اللہ کے نام ذبیحہ کرتے تھے۔ سب کے سب مکہ شریف میں اپنی قربانیاں بھیجتے تھے۔ تاکہ قربانی کے چوپائے جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت اللہ کا نام ذکر کریں۔حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دو مینڈھے چت کبرے بڑے بڑے سینگوں والے لائے گئے آپ نے انہیں لٹا کر ان کی گردن پر پاؤں رکھ کر بسم اللہ واللہ اکبر پڑھ کر ذبح کیا۔ مسند احمد میں ہے کہ صحابہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ آپ نے جواب دیا تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت۔ پوچھا ہمیں اس میں کیا ملتا ہے ؟ فرمایا ہر بال کے بدلے ایک نیکی۔ دریافت کیا اور " اون " کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا ان کے روئیں کے بدلے ایک نیکی۔ اسے امام ابن جریر رحمتہ اللہ بھی لائے ہیں۔ تم سب کا اللہ ایک ہے گو شریعت کے بعض احکام ادل بدل ہوتے رہے لیکن توحید میں، اللہ کی یگانگت میں، کسی رسول کو کسی نیک امت کو اختلاف نہیں ہوا۔ سب اللہ کی توحید، اسی کی عبادت کی طرف تمام جہان کو بلاتے رہے۔ سب پر اول وحی یہی نازل ہوتی رہی۔ پس تم سب اس کی طرف جھک جاؤ، اس کے ہو کر رہو، اس کے احکام کی پابندی کرو، اس کی اطاعت میں استحکام کرو۔ جو لوگ مطمئن ہیں، جو متواضع ہیں، جو تقوے والے ہیں، جو ظلم سے بیزار ہیں، مظلومی کی حالت میں بدلہ لینے کے خوگر نہیں، مرضی مولا، رضائے رب پر راضی ہیں انہیں خوشخبریاں سنادیں، وہ مبارکباد کے قابل ہیں۔ جو ذکر الٰہی سنتے ہیں دل نرم، اور خوف الٰہی سے پر کرکے رب کی طرف جھک جاتے ہیں، کٹھن کاموں پر صبر کرتے ہیں، مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں۔ امام حسن بصری (رح) فرماتے ہیں واللہ اگر تم نے صبر و برداشت کی عادت نہ ڈالی تو تم برباد کردیئے جاؤگے ولامقیمی کی قرأت اضافت کے ساتھ تو جمہور کی ہے۔ لیکن ابن سمیفع نے والمقیمین پڑھا ہے اور الصلوۃ کا زبر پڑھا ہے۔ امام حسن نے پڑھا تو ہے نون کے حذف اور اضافت کے ساتھ لیکن الصلوۃ کا زبر پڑھا ہے اور فرماتے ہیں کہ نون کا حذف یہاں پر بوجہ تخفیف کے ہے کیونکہ اگر بوجہ اضافت مانا جائے تو اس کا زبر لازم ہے۔ اور ہوسکتا ہے کہ بوجہ قرب کے ہو۔ مطلب یہ ہے کہ فریضہ الٰہی کے پابند ہیں اور اللہ کا حق ادا کرنے والے ہیں اور اللہ کا دیا ہوا دیتے رہتے ہیں، اپنے گھرانے کے لوگوں کو، فقیروں محتاجوں کو اور تمام مخلوق کو جو بھی ضرورت مند ہوں سب کے ساتھ سلوک واحسان سے پیش آتے ہیں۔ اللہ کی حدود کی حفاظت کرتے ہیں منافقوں کی طرح نہیں کہ ایک کام کریں تو ایک کو چھوڑیں۔ سورة براۃ میں بھی یہی صفتیں بیان فرمائی ہیں اور وہیں پوری تفسیر بھی بحمد اللہ ہم کر آئے ہیں