الحج آية ۷۳
يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ ۗ اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗ ۗ وَاِنْ يَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْــًٔـا لَّا يَسْتَـنْـقِذُوْهُ مِنْهُ ۗ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ
طاہر القادری:
اے لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے سو اسے غور سے سنو: بیشک جن (بتوں) کو تم اﷲ کے سوا پوجتے ہو وہ ہرگز ایک مکھی (بھی) پیدا نہیں کرسکتے اگرچہ وہ سب اس (کام) کے لئے جمع ہو جائیں، اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز چھین کر لے جائے (تو) وہ اس چیز کو اس (مکھی) سے چھڑا (بھی) نہیں سکتے، کتنا بے بس ہے طالب (عابد) بھی اور مطلوب (معبود) بھی،
English Sahih:
O people, an example is presented, so listen to it. Indeed, those you invoke besides Allah will never create [as much as] a fly, even if they gathered together for it [i.e., that purpose]. And if the fly should steal from them a [tiny] thing, they could not recover it from him. Weak are the pursuer and pursued.
1 Abul A'ala Maududi
لوگو، ایک مثال دی جاتی ہے، غور سے سنو جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مِل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور
2 Ahmed Raza Khan
اے لوگو! ایک کہاوت فرمائی جاتی ہے اسے کان لگا کر سنو وہ جنہیں اللہ کے سوا تم پوجتے ہو ایک مکھی نہ بناسکیں گے اگرچہ سب اس پر اکٹھے ہوجائیں اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین کرلے جائے تو اس سے چھڑا نہ سکیں کتنا کمزور چاہنے والا اور وہ جس کو چاہا
3 Ahmed Ali
اے لوگو ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے کان لگا کر سنو جنہیں تم الله کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ وہ سب اس کے لیے جمع ہوجائیں اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز چھین لے تو اسے مکھی سے چھڑا نہیں سکتے عابد اور معبود دونوں ہی عاجز ہیں
4 Ahsanul Bayan
لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے گو سارے کے سارے ہی جمع ہوجائیں، (١) بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بزدل ہے طلب کرنے والا اور بڑا بزدل ہے (٢) وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے۔
٧٣۔١ یعنی یہ معبودان باطل، جن کو تم، اللہ کو چھوڑ کر، مدد کے لئے پکارتے ہو، یہ سارے کے سارے جمع ہو کر ایک نہایت حقیر سی مخلوق مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں، تو نہیں کر سکتے۔ اس کے باوجود بھی تم انہی کو حاجت روا سمجھو، تو تمہاری عقل قابل ماتم ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی رہی ہے، وہ صرف پتھر کی بےجان مورتیاں ہیں جو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتیں ہیں۔
٧٣۔٢ طالب سے مراد، خود ساختہ معبود اور مطلوب سے مراد مکھی یا بعض کے نزدیک طالب سے، پجاری اور مطلوب سے اس کا معبود مراد ہے، حدیث قدسی میں معبود ان باطل کی بےبسی کا تذکرہ ان الفاظ میں ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ اس سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو میری طرح پیدا کرنا چاہتا ہے اگر کسی میں واقع یہ قدرت ہے تو وہ ایک ذرہ یا ایک جو ہی پیدا کر کے دکھا دے ' (صحیح بخاری)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ کہ جن لوگوں کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ اس کے لئے سب مجتمع ہوجائیں۔ اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز لے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب اور مطلوب (یعنی عابد اور معبود دونوں) گئے گزرے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وه ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کر سکتے، گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بودا ہے طلب کرنے واﻻ اور بڑا بودا ہے وه جس سے طلب کیا جا رہا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے لوگو! ایک مثال دی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ اللہ کو چھوڑ کر تم جن معبودوں کو پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے۔ اگرچہ وہ سب کے سب اس کام کے لئے اکٹھے ہو جائیں۔ اور اگر ایک مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ اسے اس (مکھی) سے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب و مطلوب دونوں ہی کمزور و ناتواں ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
انسانوں تمہارے لئے ایک مثل بیان کی گئی ہے لہذا اسے غور سے سنو-یہ لوگ جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر آواز دیتے ہو یہ سب مل بھی جائیں تو ایک مکھی نہیں پیدا کرسکتے ہیں اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو یہ اس سے چھڑا بھی نہیں سکتے ہیں کہ طالب اور مطلوب دونوں ہی کمزور ہیں
9 Tafsir Jalalayn
لوگو ! ایک مثال بیان کی جاتی ہے اس کو غور سے سنو کہ جن لوگوں کو خدا کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ اس کے لئے سب مجتمع ہوجائیں اور اگر ان سے کوئی مکھی چھین کرلے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے طالب اور مطلوب (یعنی عابد اور معبود دونوں) گئے گزرے ہیں
آیت نمبر 73 تا 78
ترجمہ : اے لوگو ! یعنی مکہ والو ایک عجیب بات بیان کی جاتی ہے اس کو کان لگا کر سنو اور وہ بات یہ ہے کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو یعنی بندگی کرتے ہو غیر اللہ کی وہ بت ہیں وہ ایک مکھی کو تو پیدا کر ہی نہیں سکتے ذباب اسم جنس ہے اس کا واحد ذبابہ ہے اس کا اطلاق مذکر اور مؤنث دونوں پر ہوتا ہے گو اس تخلیق کے لئے سب کے سب جمع ہوجائیں اور اگر ان سے مکھی کچھ چھین لیجائے اس میں سے جو ان پر خوشبو اور زعفران لگی ہوئی ہے (جس میں وہ لتھڑے ہوئے ہوتے ہیں) تو اس کو وہ ان سے واپس نہیں لے سکتے ان کے عاجز ہونے کی وجہ سے، پھر کیوں بندگی کرتے ہیں (ان کی) اللہ کا شریک سمجھ کر یہ بات چونکہ عجیب ہے اسی لئے اس کو ضرب مثل سے تعبیر کیا گیا ہے ایسا طالب عابد بھی ضعیف اور مطلوب معبود بھی ضعیف ان لوگوں نے جیسی اللہ کی تعظیم کرنی چاہیے تھی ویسی نہ کی جب کہ اس کے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرایا کہ جو مکھی سے (اپنی) حفاظت نہیں کرسکتے اور نہ اس سے اپنا حق لے سکتے ہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑی قوت والا سب پر غالب ہے اللہ تعالیٰ فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے جس کو چاہتا ہے پیغام رسانی کے لئے منتخب کرلیتا ہے (یہ آیت) اس وقت نازل ہوئی جب مشرکوں نے کہا کہ کیا ہم میں سے اسی پر ذکر (قرآن) نازل کیا گیا بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان کی باتوں کو سننے والا جاننے والا ہے اس کو کہ جس کو رسول بناتا ہے جیسا کہ (فرشتوں میں سے) جبرائیل (علیہ السلام) اور میکائیل (علیہ السلام) کو (انسانوں میں سے) ابراہیم (علیہ السلام) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وغیرہ کو وہ ان کی آئندہ اور گذشتہ حالتوں کو خوب جانتا ہے یعنی جو (اعمال) آگے بھیج چکے ہیں اور جو (اعمال) پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور جو اعمال کرچکے ہیں اور جو آئندہ کریں گے اور تمام امور اللہ ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے اے لوگو رکوع کیا کرو اور سجدہ کیا کرو یعنی نماز پڑھا کرو اور اپنے رب کی بندگی کیا کرو یعنی اس کی توحید کا عقیدہ رکھو اور نیک کام کیا کرو جیسا کہ صلہ رحمی اور اچھے اخلاق امید ہے کہ تم فلاح پاؤ گے یعنی جنت میں دائمی بقاء کے ساتھ کامیاب ہوجاؤ گے اور اللہ کے کام میں اس کے دین کے قیام کے لئے خوب کوشش کیا کرو، اپنی پوری کوشش کو اس میں صرف کرکے اور حق کا نصب مصدریۃ کی وجہ سے ہے اس نے تم کو اپنے دین کے لئے منتخب کیا ہے اور تم پر دین کے معاملہ میں کوئی تنگی نہیں رکھی اس طریقہ پر کہ ضرورت کے وقت دین کو آسان کردیا جیسا کہ قصر اور تیمم پر دین کے معاملہ میں کوئی تنگی نہیں رکھی اس طریقہ پر کہ ضرورت کے وقت دین کو آسان کردیا جیسا کہ قصر اور تیمم اور اکل میتہ اور مریض و مسافر کے لئے روزہ نہ رکھنے کی اجازت تمہارے باپ ابراہیم کی ملت کے مانند ملۃ حرف جرکاف کو حذف کرنے کی وجہ سے منصوب ہے ابراہیم ابیکم سے عطف بیان ہے اس نے یعنی اللہ نے تمہارا نام پہلے ہی سے (یعنی اس کتاب کے نزول) سے پہلے ہی مسلمان رکھا ہے اور اس میں بھی یعنی قرآن میں بھی تاکہ رسول تمہارے لئے قیامت کے دن گواہوں کہ اس نے تم کو پیغام پہنچا دیا اور تم لوگوں کے مقابلہ میں گواہ ہو کہ ان کے رسولوں نے (پیغام) ان کے پاس پہنچا دیا تم لوگ نماز کی پابندی رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ ہی کو مضبوط پکڑو یعنی اسی پر بھروسہ کرو وہ تمہارا مولیٰ یعنی مددگار اور تمہارا کارساز ہے سو کیسا اچھا کارساز ہے وہ ؟ اور تمہارے لئے کیسا اچھا ناصر ہے ؟
تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد
یایھا الناسُ ای اھل مکۃ اس آیت کا تعلق ماقبل کی آیت ویعبدون من دون اللہ (الآیۃ) سے ہے، اس آیت میں خطاب اگرچہ اہل مکہ سے ہے مگر مراد ہر وہ شخص ہے جو غیر اللہ کی بندگی کرتا ہے، ضُرِبَ مثلاً ، مثلاً سے مراد امر عجیب ہے، اور وہ امر عجیب شرک و بت پرستی کی حماقت کو ایک واضح مثال سے بیان کرنا ہے کہ یہ بت جن کو تم اپنا کارساز سمجھتے ہو یہ تو ایسے بےکس اور بےبس ہیں کہ سب مل کر بھی ایک مکھی جیسی حقیر چیز پیدا نہیں کرسکتے اور پیدا کرنا تو بڑا کام ہے تم روزانہ ان کے سامنے مٹھائی اور کھانوں کے چڑھاوے چڑھاتے ہو اور مکھیاں ان کو کھا جاتی ہیں ان سے اتنا تو ہوتا نہیں کہ مکھیوں سے اپنی چیز ہی کو بچالیں یہ تمہیں کسی آفت سے کیا بچائیں گے اسی لئے آخرت میں ان کی اس جہالت اور بےوقوفی کو ان الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے ضعف الطالب والمطلوب۔ قولہ : ولو اجتمعوا لہ یہ جملہ محل حال میں واقع ہے، ای انتفیٰ خلقھم الذباب علی کل حال ولو فی حال اجتماعھم۔
قولہ : وان یسلبھُم الذبابُ شیئاً یسلب متعدی بدو مفعول ہے مفعول اول ھُم اور ثانی شیئاً ہے ملطخون یہ لطخ سے مشتق ہے آلودہ کرنا ملنا، لتھیڑنا ملطخون دراصل طیب والز عفران کی صفت سببی ہے لہٰذا ملطخون کے بجائے ملطخین ہونا چاہیے جیسا کہ ظاہر ہے (جمل)
قولہ : عبر عنہ بضرب مثلٍ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ ضرب مثل کے نام سے جو بیان کیا گیا وہ مثل نہیں ہے تو پھر اس کو مثل کیوں کیا گیا ہے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ واقعہ عجیبہ نیز عمدہ اور عجیب و غریب مصمون کو بھی مثل سے تعبیر کردیتے ہیں۔
قولہ : ومن الناس رسلاً ، رسلاً محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ آیت میں حذف ہے ثانی کو اول پر قیاس کرتے ہوئے رُسُلا کو حذف کردیا گیا ہے۔ قولہ : حق جھادہ اصل میں جھاداً حقاً ہے یہ اضافت صفت الی الموصوف کے قبیل سے ہے۔ قولہ : ھو ای اللہ سمکم المسلمین ھو کے مرجع میں دو احتمال ہیں ایک یہ کہ اس کا مرجع ابراہیم ہوں اور دوسرا یہ کہ اس کا مرجع اللہ ہو مفسر علام نے ھو کے بعد اللہ محذوف مان کر ثانی کو راجح قرار دیدیا اور قرینہ وفی ھذا القرآن ہے اس لئے کہ قرآن میں مسلمان نام رکھنا یہ اللہ کا کام ہے نہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا۔
تفسیر و تشریح
یایھا الناس ای اھل مکۃ یہ توحید کے مقابلہ میں شرک کی شناعت و قباحت ظاہر کرنے کے لئے مثال بیان فرمائی ہے جس کو کان لگا کر سننا اور سمجھنے کے لئے غور و فکر کرنا چاہیے تاکہ ایسی ذلیل اور رکیک حرکت سے باز رہو، اور مثلاً سے یہاں مثل سائر مراد نہیں ہے بلکہ عمدہ اور عجیب و غریب مضمون بیان کرنا مراد ہے، مکھی جو کہ بہت ہی ادنیٰ اور حقیر جانور ہے جن چیزوں میں اتنی بھی قدرت نہیں کہ انفرادی طور پر تو کیا سب مل کر بھی اتنی قدرت نہیں رکھتے کہ ایک مکھی پیدا کرسکیں یا مکھی ان کے چڑھاوے وغیرہ میں سے کچھ لیجائے تو اس سے واپس لے سکیں ان کو خالق السموات والارضین کے ساتھ معبودیت اور خدائی کی کرسی پر بٹھا دینا کس قدر بےحیائی اور حماقت اور شرمناک گستاخی ہے، سچ تو یہ ہے کہ مکھی بھی کمزور اور مکھی سے زیادہ ان کے بت کمزور اور بتوں سے زیادہ ان کا پوجنے والا کمزور جس نے ایسی حقیر اور کمزور چیز کو اپنا معبود اور حاجت روا بنا لیا۔
سورة حج کا سجدہ تلاوت : یایھا الذین آمنوا (الآیہ) سورة حج میں ایک آیت تو پہلے گزر چکی ہے جس پر سجدہ تلاوت کرنا بالاتفاق واجب ہے اس آیت پر جو یہاں مذکور ہے سجدہ تلاوت کے وجوب میں ائمہ کا اختلاف ہے، امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، سفیان ثوری رحمہم اللہ کے نزدیک اس آیت پر سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے، کیونکہ اس آیت میں سجدہ کا ذکر رکوع وغیرہ کے ساتھ آیا ہے جس سے نماز کا سجدہ ہونا ظاہر ہے، جیسے واسجدی وارکعی مع الراکعین میں سب کا اتفاق ہے کہ سجدۂ نماز مراد ہے اسی طرح آیت مذکورہ پر بھی سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے، امام شافعی (رح) ، امام احمد (رح) وغیرہ کے نزدیک اس آیت پر بھی سجدہ تلاوت واجب ہے ان حضرات کی دلیل ایک حدیث ہے جس میں یہ ارشاد ہے کہ سورة حج کو دوسری سورتوں پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس میں دو سجدہ تلاوت ہیں، امام اعظم (رح) کے نزدیک اس روایت کے ثبوت میں کلام ہے۔
وجاھدُوا فی اللہ حق جھادہٖ جہاد اور مجاہدہ کسی مقصد کی تحصیل میں اپنی پوری کوشش اور طاقت صرف کرنے کو کہتے ہیں اس میں کفار کے ساتھ قتال میں اپنی امکانی طاقت صرف کرنا بھی شامل ہے اور دیگر دینی امور میں محنت و مشقت برداشت کرنا اور امکانی طاقت وقوۃ صرف کرنا بھی داخل ہے، اسی طرح خواہشات نفسانی کے مقابلہ میں کوشش کرنا بھی جہاد میں شامل ہے، امام بگوی وغیرہ نے اس قول کی تائید میں ایک حدیث بھی حضرت جابر بن عبد اللہ سے نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام کی ایک جماعت جو جہاد کفار کے لئے گئی ہوئی تھی واپس آئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قدِمْتُم خیر مقدم مِن الجھاد الاصغر الی الجھاد الأکبر قال (ای الروای) مجاھدۃ العبد بھواہ رواہ البیھقی وقال ھٰذا اسناد فیہ ضعف یعنی تم لوگ خوب واپس آئے چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف یعنی اپنے نفس کی خواہشات بےجا کے مقابلہ کا جہاد اب بھی جاری ہے، اس روایت کو بیہقی نے روایت کیا ہے مگر کہا ہے کہ اس کی اسناد ضعیف ہے۔
وما جعل علیکم فی الدین من حرج یعنی اللہ تعالیٰ نے دین کے معاملہ میں تمہارے اوپر کوئی نہیں تنگی رکھی، بعض حضرات نے دین میں تنگی نہ ہونے کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اس دین میں ایسا کوئی گناہ نہیں کہ جو توبہ سے معاف نہ ہوسکے اور عذاب آخرت سے خلاصی کی کوئی صورت نہ نکل سکے، بخلاف پچھلی امتوں کے کہ ان میں بعض گناہ ایسے بھی تھے کہ جو توبہ کرنے سے معاف نہیں ہوتے تھے۔
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ تنگی سے مراد وہ سخت اور شدید احکام ہیں جو بنی اسرائیل پر عائد کئے گئے تھے جن کو قرآن کریم میں اِصرَّ اور اغلال سے تعبیر کیا گیا ہے اس امت پر کوئی ایسا حکم فرض نہیں کیا گیا، بعض حضرات نے فرمایا کہ تنگی سے مراد وہ تنگی ہے کہ انسان جس کو برداشت نہ کرسکے اس دین میں کوئی حکم ایسا نہیں کہ جو فی نفسہٖ ناقابل برداشت ہو، باقی رہی
تھوڑی بہت مشقت تو وہ دنیا کے ہر کام میں ہوتی ہے۔
لیکون الرسول شھیداً علیکم (الآیۃ) یعنی آپ محشر میں گواہی دیں گے کہ میں نے اللہ کے احکام اس امت کو پہنچا دئیے تھے اور امت محمدیہ اس کو اقرار کرے گی مگر دوسرے انبیاء جب یہ کہیں گے تو ان کی امتیں مکر جائیں گی اس وقت امت محمدیہ شہادت دے گی کہ بیشک تمام انبیاء نے اپنی اپنی قوم کو اللہ کے احکام پہنچا دئے تھے، دوسری امتوں کی طرف سے ان پر یہ جرح ہوگی، کہ ہمارے زمانہ میں تو تمہارا (یعنی امت محمدیہ) کا وجوہ بھی نہیں تھا تو یہ ہمارے معاملہ میں گواہ کیسے بن سکتے ہیں امت محمدیہ کا ان کی جرح کا جواب یہ ہوگا کہ بیشک ہم موجود نہیں تھے مگر ہم نے یہ بات اپنے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے جن کی صداقت میں کوئی شک و شبہ نہیں اس لئے ہم یہ گواہی دے سکتے ہیں تو ان کی شہادت قبول کی جائے گی، یہ مضمون اس حدیث کا ہے جس کو بخاری وغیرہ نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت کیا ہے۔ (معارف)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے بتوں کی عبادت کی قباحت، ان کی عبادت کرنے والوں میں عقل کی کمی اور ان سب کی کمزوری کو بیان کرنے کے لئے ایک مثال بیان کی ہے۔ فرمایا : ﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ ﴾ ” اے لوگو !“ یہ خطاب مومنین اور کفار دونوں کے لئے ہے۔ اس سے اہل ایمان کے علم و بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے اور کفار کے خلاف حجت قائم ہوتی ہے۔ ﴿ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ﴾ یعنی اس بیان کردہ مثال کو غور سے سنو اور اس کے مطالب کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ یہ تمہارے دلوں کو غافل اور تمہارے کانوں کو اس سے اعراض کرنے والا نہ پائے، بلکہ اپنے کانوں اور دلوں سے خوب غور سے سنو۔
وہ مثال یہ ہے۔ ﴿ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ ﴾ ” بے شک وہ لوگ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔“ یہ آیت کریمہ ان تمام ہستیوں کو شامل ہے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے۔ ﴿ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا ﴾ ” وہ مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے“ جو حقیر ترین اور خسیس ترین مخلوق ہے۔ پس وہ اس نہایت کمزور سی مخلوق کو پیدا کرنے پر قادر نہیں ہیں، اس لئے بڑی مخلوق تو وہ کیا پیدا کرسکتے ہیں؟ ﴿ وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ﴾ ”اگرچہ وہ سب اکٹھے کیوں نہ ہوجائیں۔“ بلکہ اس سے بھی بلیغ تر بات یہ ہے کہ ﴿ إِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ﴾ ” اگر مکھی ان سے کچھ چھین کرلے جائے تو وہ اس سے وہ بھی نہیں چھڑا سکتے۔“ یہ عجز اور بے بسی کی انتہاء ہے۔
﴿ضَعُفَ الطَّالِبُ ﴾ ” کمزور ہے طالب۔“ یعنی وہ جس کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہے ﴿ وَالْمَطْلُوبُ ﴾ ” اور وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے۔“ یعنی مکھی، پس دونوں ہی کمزور ہیں اور ان دونوں سے بھی کمزور تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کو رب العالمین کے مقام پر فائز کر رکھا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
logo ! aik misal biyan ki jarahi hai abb ussay kaan laga ker suno ! tum log Allah ko chorr ker jinn jinn ko dua kay liye pukartay ho , woh aik makkhi bhi peda nahi ker-saktay , chahye iss kaam kay liye sabb kay sabb ikatthay hojayen , aur agar makkhi unn say koi cheez cheen ker lay jaye to woh uss say churra bhi nahi saktay . aisa dua maangney wala bhi boda aur jiss say dua maangi jarahi hai woh bhi !
12 Tafsir Ibn Kathir
کم عقل پجاری
اللہ کے ماسوا جن کے عبادت کی جاتی ہے ان کی کمزوری اور ان کے پجاریوں کی کم عقلی بیان ہو رہی ہے کہ اے لوگو یہ جاہل جس جس کی بھی اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں، رب کے ساتھ یہ جو شرک کرتے ہیں، ان کی ایک مثال نہایت عمدہ اور بالکل واقعہ کے مطابق بیان ہو رہی ہے ذرا توجہ سے سنو۔ کہ ان کے تمام کے تمام بت، بزرگ وغیرہ جنہیں یہ اللہ کا شریک ٹھہرا رہے ہیں، جمع ہوجائیں اور ایک مکھی بنانا چاہیں تو سارے عاجز آجائیں گے اور ایک مکھی بھی پیدا نہ کرسکیں گے۔ مسند احمد کی حدیث قدسی میں فرمان الٰہی ہے اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو میری طرح کسی کو بنانا چاہتا ہے۔ اگر واقعہ میں کسی کو یہ قدرت حاصل ہے تو ایک ذرہ، ایک مکھی یا ایک دانہ اناج کا ہی خود بنادیں۔ بخاری ومسلم میں الفاظ یوں ہیں کہ وہ ایک ذرہ یا ایک جو ہی بنادیں۔ اچھا اور بھی ان کے معبودان باطل کی کمزوری اور ناتوانی سنو کہ یہ ایک مکھی کا مقابلہ بھی نہیں کرسکتے وہ ان کا حق ان کی چیز ان سے چھینے چلی جارہی ہے، یہ بےبس ہیں، یہ بھی تو نہیں کرسکتے کہ اس سے اپنی چیز ہی واپس لے لیں بھلا مکھی جیسی حقیر اور کمزور مخلوق سے بھی جو اپنا حق نہ لے سکے اس سے بھی زیادہ کمزور، بودا ضعیف ناتوان بےبس اور گرا پڑا کوئی اور ہوسکتا ہے ؟ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں طالب سے مراد بت اور مطلوب سے مراد مکھی ہے۔ امام ابن جریر (رح) بھی اسی کو پسند کرتے ہیں اور ظاہر لفظوں سے بھی یہی ظاہر ہے دوسرا مطلب یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ طالب سے مراد عابد اور مطلوب سے مراد اللہ کے سوا اور معبود۔ اللہ کی قدروعظمت ہی ان کے دلوں میں نہیں رچی اگر ایسا ہوتا تو اتنے بڑے توانا اللہ کے ساتھ ایسی ذلیل مخلوق کو کیوں شریک کرلیتے۔ جو مکھی اڑانے کی بھی قدرت نہیں رکھتی جیسے مشرکین قریش کے بت تھے۔ اللہ اپنی قدرت وقوت میں یکتا ہے تمام چیزیں بےنمونہ سب سے پہلی پیدائش میں اس نے پیدا کردی ہیں کسی ایک سے بھی مدد لیے بغیر پھر سب کو ہلاک کرکے دوبارہ اس سے بھی زیادہ آسانی سے پیدا کرنے پر قادر ہے۔ وہ بڑی مضبوط پکڑ والا، ابتدا اور اعادہ کرنے والا، رزق دینے والا، اور بےانداز قوت رکھنے والا ہے، سب کچھ اس کے سامنے پست ہے، کوئی اس کے ارادے کو بدلنے والا، اس کے فرمان کو ٹالنے والا اس کی عظمت اور سلطنت کا مقابلہ کرنے والا نہیں، وہ واحد قہار ہے۔