بیشک جو لوگ اپنے رب کی خشیّت سے مضطرب اور لرزاں رہتے ہیں،
English Sahih:
Indeed, they who are apprehensive from fear of their Lord.
1 Abul A'ala Maududi
جو اپنے رب کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
بیشک وہ جو اپنے رب کے ڈر سے سہمے ہوئے ہیں
3 Ahmed Ali
بے شک جو اپنے رب کی ہیبت سے ڈرنے والے ہیں
4 Ahsanul Bayan
یقیناً جو لوگ اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو اپنے پروردگار کے خوف سے ڈرتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً جو لوگ اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
بےشک جو لوگ اپنے پروردگار کی ہیبت سے ڈرتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک جو لوگ خوف پروردگار سے لرزاں رہتے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
جو لوگ اپنے پروردگار کے خوف سے ڈرتے ہیں
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب ان لوگوں کا ذکر فرمایا جنہوں نے برائی اور امن کو جمع کیا اور سمجھتے رہے کہ دنیا میں ان پر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر بھی فرمایا جنہوں نے بھلائی اور خوف کو یکجا کیا‘ چنانچہ فرمایا : ﴿ إِنَّ الَّذِينَ هُم مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ﴾ ” بے شک جو لوگ اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے ہیں۔“ یعنی ان کے دل اپنے رب کے خوف سے لرزاں ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے عدل کیا تو ان کے پاس کوئی نیکی باقی نہیں رہے گی اور انہیں اپنے بارے میں سوء ظن ہے کہ انہوں نے اللہ کے حق کو ادا نہیں کیا اور ایمان کے زوال کا خوف رہتا ہے، انہیں اپنے رب کے بارے میں معرفت حاصل ہے کہ وہ کس اجلال و اکرام کا مستحق ہے ان کا یہ خوف انہیں گناہوں اور واجبات میں کوتاہی سے باز رکھتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
haqeeqat yeh hai kay jo log apney perwerdigar kay roab say daray rehtay hain ,
12 Tafsir Ibn Kathir
مؤمن کی تعریف فرمان ہے کہ احسان اور ایمان کے ساتھ ہی ساتھ نیک اعمال اور پھر اللہ کی ہیبت سے تھرتھرانا اور کانپتے رہنا یہ ان کی صفت ہے۔ یہ ان کی صفت ہے حسن (رح) فرماتے ہیں کہ مومن نیکی اور خوف الٰہی کا مجموعہ ہوتا ہے۔ منافق برائی کے ساتھ نڈر اور بےخوف ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شرعی اور فطری آیات اور نشانیوں پر یقین رکھتے ہیں جیسے حضرت مریم (علیہا السلام) کا وصف بیان ہوا ہے کہ وہ اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کا یقین رکھتی تھیں اللہ کی قدرت قضا اور شرع کا انہیں کامل یقین تھا۔ اللہ کے ہر امر کو وہ محبوب رکھتے ہیں اللہ کے منع کردہ ہر کام کو وہ ناپسند رکھتے ہیں، ہر خبر کو وہ سچ مانتے ہیں وہ موحد ہوتے ہیں شرک سے بیزار رہتے ہیں، اللہ کو واحد اور بےنیاز جانتے ہیں اسے بےاولاد اور بیوی کے بغیر مانتے ہیں، بینظیر اور بےکفو سمجھتے ہیں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اللہ کے نام پر خیراتیں کرتے ہیں لیکن خوف زدہ رہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو قبول نہ ہوئی ہو۔ حضرت عائشہ (رض) نے حضور اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ کیا یہ وہ لوگ ہیں جن سے زنا، چوری، اور شراب خواری ہوجاتی ہے ؟ لیکن ان کے دل میں خوف الٰہی ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اے صدیق کی لڑکی یہ نہیں بلکہ یہ وہ ہیں جو نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، صدقے کرتے ہیں، لیکن قبول نہ ہونے سے ڈرتے ہیں، یہی ہیں جو نیکیوں میں سبقت کرتے ہیں (ترمذی) اس آیت کی دوسری قرأت یاتون ما اتوا بھی ہے یعنی کرتے ہیں جو کرتے ہیں لیکن دل ان کے ڈرتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت عائشہ (رض) کے پاس ابو عاصم گئے۔ آپ نے مرحبا کہا اور کہا برابر آتے کیوں نہیں ہو ؟ جواب دیا اس لئے کہ کہیں آپ کو تکلیف نہ ہو لیکن آج میں ایک آیت کے الفاظ کی تحقیق کے لئے حاضر ہوا ہوں آیت ( وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ 60ۙ ) 23 ۔ المؤمنون :60) ہیں ؟ آپ نے فرمایا کیا ہونا تمہارے لئے مناسب ہے میں نے کہا آخر کے الفاظ اگر ہوں تو گویا میں نے ساری دنیا پالی۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ خوشی مجھے ہوگی آپ نے فرمایا پھر تم خوش ہوجاؤ۔ واللہ میں نے اسی طرح انہی الفاظ کو پڑھتے ہوئے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنا ہے۔ اس کا ایک راوی اسماعیل بن مسلم مکی ضعیف ہے۔ ساتوں مشہور قرأتوں اور جمہور کی قرأت میں وہی ہے جو موجودہ قرآن میں ہے اور معنی کی رو سے بھی زیادہ ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ انہیں سابق قرار دیا ہے اور اگر دوسری قرأت کو لیں تو یہ سابق نہیں بلکہ ہیں واللہ اعلم۔