اور تم میں سے (دینی) بزرگی والے اور (دنیوی) کشائش والے (اب) اس بات کی قَسم نہ کھائیں کہ وہ (اس بہتان کے جرم میں شریک) رشتہ داروں اور محتاجوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو (مالی امداد نہ) دیں گے انہیں چاہئے کہ (ان کا قصور) معاف کر دیں اور (ان کی غلطی سے) درگزر کریں، کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے، اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے،
English Sahih:
And let not those of virtue among you and wealth swear not to give [aid] to their relatives and the needy and the emigrants for the cause of Allah, and let them pardon and overlook. Would you not like that Allah should forgive you? And Allah is Forgiving and Merciful.
1 Abul A'ala Maududi
تم میں سے جو لوگ صاحب فضل اور صاحب مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار، مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے انہیں معاف کر دینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے؟ اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفور اور رحیم ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور قسم نہ کھائیں وہ جو تم میں فضیلت والے اور گنجائش والے ہیں قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے کی، اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزریں، کیا تم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے
3 Ahmed Ali
اور تم میں سے بزرگی اور کشائش والے اس بات پر قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں اور مسکینوں اور الله کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دیا کریں گے اور انہیں معاف کرنا اور درگذر کرنا چاہیے کیا تم نہیں چاہتے کہ الله تمہیں معاف کر دے اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے
4 Ahsanul Bayan
تم میں سے جو برزگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہ کھالینی چاہیئے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالٰی تمہارے قصور معاف فرما دے؟ (١) اللہ قصوروں کو معاف فرمانے والا ہے۔
٢٢۔١ حضرت مسطح، جو واقعہ افک میں ملوث ہوگئے تھے، فقرائے مہاجرین میں سے تھے، رشتے میں حضرت ابو بکر صدیق کے خالہ زاد تھے، اسی لئے ابو بکر ان کے کفیل اور معاش کے ذمے دار تھے، جب یہ بھی حضرت عائشہ ' کے خلاف مہم میں شریک ہوگئے تو ابو بکر صدیق کو سخت صدمہ پہنچا، جو ایک فطری عمل تھا چنانچہ نزول براءت کے بعد غصہ میں انہوں نے قسم کھا لی کہ وہ آئندہ مسطح کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ ابو بکر صدیق کی یہ قسم، جو اگرچہ انسانی فطرت کے مطابق ہی تھی، تاہم مقام صدیق تم اس سے بلند تر کردار کا متقاضی تھا، اللہ تعالٰی کو پسند نہیں آئی اور یہ آیت نازل فرمائی، جس میں بڑے پیار سے ان کی اس عاجلانہ بشری اقدام پر انہیں متنبہ فرمایا کہ تم سے بھی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں اور تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالٰی تمہاری غلطیاں معاف فرماتا رہے۔ تو پھر تم بھی دوسروں کے ساتھ اسی طرح معافی اور درگزر کا معاملہ کیوں نہیں کرتے؟ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالٰی تمہاری غلطیاں معاف فرما دے؟ یہاں انداز بیان اتنا موثر تھا کہ اسے سنتے ہی ابو بکر صدیق بےساختہ پکار اٹھے ' کیوں نہیں اے ہمارے رب! ہم ضرور یہ چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف فرما دے ' اس کے بعد انہوں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کر کے حسب سابق مسطح کی مالی سر پرستی شروع فرما دی (فتح القدیر)، ابن کثیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو لوگ تم میں صاحب فضل (اور صاحب) وسعت ہیں، وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں اور محتاجوں اور وطن چھوڑ جانے والوں کو کچھ خرچ پات نہیں دیں گے۔ ان کو چاہیئے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ خدا تم کو بخش دے؟ اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے
6 Muhammad Junagarhi
تم میں سے جو بزرگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہ کھا لینی چاہیئے، بلکہ معاف کردینا اور درگزر کرلینا چاہیئے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف فرما دے؟ اللہ قصوروں کو معاف فرمانے واﻻ مہربان ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جو لوگ تم میں سے مال و دولت اور وسعت والے ہیں وہ قسم نہ کھائیں کہ وہ قرابتداروں، مسکینوں اور راہِ خدا میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہیں دیں گے۔ چاہئے کہ یہ لوگ معاف کر دیں اور درگزر کریں۔ کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں بخش دے؟ اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور خبردار تم میں سے کوئی شخص بھی جسے خدا نے فضل اور وسعت عطا کی ہے یہ قسم نہ کھالے کہ قرابتداروں اور مسکینوں اور راسِ خدا میں ہجرت کرنے والوں کے ساتھ کوئی سلوک نہ کرے گا. ہر ایک کو معاف کرنا چاہئے اور درگزر کرنا چاہئے کیا تم یہ نہیں چاہتے ہو کہ خدا تمہارے گناہوں کو بخش دے اور اللہ بیشک بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور جو لوگ تم میں صاحب فضل (اور صاحب) وسعت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں اور محتاجوں اور وطن چھوڑ جانے والوں کو کچھ خرچ پات نہیں دیں گے ان کو چاہیے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ خدا تم کو بخش دے ؟ اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے
10 Tafsir as-Saadi
﴿ وَلَا يَأْتَلِ ﴾ یعنی قسم نہ اٹھائیں ﴿ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللّٰـهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ﴾ ” جو تم میں سے بزرگی اور کشادگی والے ہیں، رشتے داروں مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے سے اور چاہیے کہ معاف کردیں اور درگزر سے کام لیں۔“ واقعہ افک میں ملوث ہونے والوں میں مسطح بن اثاثہ بھی شامل تھے جو ابوبکر صدیق کے رشتہ دار تھے، وہ اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والے اور انتہائی نادار تھے۔ مسطح بن اثاثہ کی بہتان طرازی کی وجہ سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قسم کھا لی کہ وہ ان کی مالی مدد نہیں کریں گے ( جو کہ اس سے وہ کیا کرتے تھے)اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اس قسم سے روکا جو انفاق فی سبیل اللہ کے منقطع کرنے کو متضمن تھی اور انہیں عفو اور درگزر کرنے کی ترغیب دی اور اللہ نے ان سے وعدہ کیا کہ اگر وہ ان تقصیر کاروں کو بخش دیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا۔ پس فرمایا : ﴿ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللّٰـهُ لَكُمْ وَاللّٰـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ یعنی جب تم اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ عفو اور درگزر کا معاملہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بھی عفو اور درگزر کا معاملہ کرے گا۔ جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت کریمہ سنی تو انہوں نے کہا :” کیوں نہیں اللہ کی قسم ! میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے۔“ چنانچہ انہوں نے دوبارہ حضرت مسطح رضی اللہ عنہ کی مالی مدد شروع کردی۔ [صحیح البخاری،التفسیر،باب ﴿إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ﴾، ح:4757 وصحیح مسلم،التوبة ،باب فی حدیث الافک۔۔۔،ح:277] یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ قریبی رشتہ داروں پر خرچ کرنا چاہیے اور بندے کی معصیت کی بنا پر یہ مالی مدد ترک نہیں کرنی چاہیے، نیز جرم کا ارتکاب کرنے والے سے خواہ کتنا ہی بڑا جرم سر زد کیوں نہ ہوا ہو، اللہ تعالیٰ نے عفو اور درگزر کی ترغیب دی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur tum mein say jo log ehal-e-khair hain aur maali wusat rakhtay hain , woh aesi qasam naa khayen kay woh rishta daaron , miskeeno aur Allah kay raastay mein hijrat kernay walon ko kuch nahi den gay , aur unhen chahiye kay moaafi aur darguzar say kaam len . kiya tumhen yeh pasand nahi hai kay Allah tumhari khatayen bakhsh dey-? aur Allah boht bakhshney wala , bara meharban hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
دولت مند افراد سے خطاب تم میں سے جو کشادہ روزی والے، صاحب مقدرت ہیں۔ صدقہ اور احسان کرنے والے ہیں انہیں اس بات کی قسم نہ کھانی چاہئے کہ وہ اپنے قرابت داروں، مسکینوں، مہاجروں کو کچھ دیں گے ہی نہیں۔ اس طرح انہیں متوجہ فرما کر پھر اور نرم کرنے کے لئے فرمایا کہ ان کی طرف سے کوئی قصور بھی سرزد ہوگیا ہو تو انہیں معاف کردینا چاہئے۔ ان سے کوئی ایذاء یا برائی پہنچی ہو تو ان سے درگزر کرلینا چاہئے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حکم وکرم اور لطف رحم ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو بھلائی کا ہی حکم دیتا ہے۔ یہ آیت حضرت صدیق (رض) کے بارے میں اتری ہے جب کہ آپ نے حضرت مسطح بن اثاثہ (رض) کے ساتھ کسی قسم کا سلوک کرنے کی قسم کھالی تھی کیونکہ بہتان صدیقہ میں یہ بھی شامل تھے۔ جیسے کہ پہلے کی آیتوں کی تفسیر میں یہ واقعہ گزر چکا ہے تو جب حقیقت اللہ تعالیٰ نے ظاہر کردی، ام المومنین بری ہوگئیں، مسلمانوں کے دل روشن ہوگئے، مومنوں کی توبہ قبول ہوگئی، تہمت رکھنے والوں میں سے بعض کو حد شرعی لگ چکی۔ تو اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیق کو حضرت مسطح کی طرف متوجہ فرمایا جو آپ کی خالہ صاحبہ کے فرزند تھے اور مسکین شخص تھے۔ حضرت صدیق ہی ان کی پرورش کرتے رہتے تھے، یہ مہاجر تھے لیکن اس بارے میں اتفاقیہ زبان کھل گئی تھی۔ انہیں تہمت کی حد لگائی گئی تھی۔ حضرت صدیق (رض) کی سخاوت مشہور تھی۔ کیا اپنے کیا غیر سب کے ساتھ آپ کا حسن سلوک عام تھا۔ آیت کے یہ خصوصی الفاظ حضرت صدیق (رض) کے کان میں پڑے کہ کیا تم بخشش الہی کے طالب نہیں ہو ؟ آپ کی زبان سے بےساختہ نکل گیا کہ ہاں قسم ہے اللہ کی ہماری تو عین چاہت ہے کہ اللہ ہمیں بخشے اور اسی وقت سے مسطح کو جو کچھ دیا کرتے تھے، جاری کردیا۔ گویا ان آیتوں میں ہمیں تلقین ہوئی کہ جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ ہماری تقصیریں معاف ہوجائیں۔ ہمیں چاہئے کہ دوسروں کی تقصیروں سے بھی درگزر کرلیا کریں۔ یہ بھی خیال میں رہے کہ جس طرح آپ نے پہلے یہ فرمایا تھا کہ واللہ میں اس کے ساتھ کبھی بھی سلوک نہ کروں گا۔ اب عہد کیا کہ واللہ میں اس سے کبھی بھی اس کا مقررہ روزینہ نہ روکوں گا۔ سچ ہے صدیق صدیق ہی تھے (رض) ۔