الشعراء آية ۱۲۳
كَذَّبَتْ عَادُ ِلْمُرْسَلِيْنَ ۖ
طاہر القادری:
(قومِ) عاد نے (بھی) پیغمبروں کو جھٹلایا،
English Sahih:
Aad denied the messengers.
1 Abul A'ala Maududi
عاد نے رسولوں کو جھٹلایا
2 Ahmed Raza Khan
عاد نے رسولوں کو جھٹلایا
3 Ahmed Ali
قوم عاد نے پیغمبروں کو جھٹلایا
4 Ahsanul Bayan
عادیوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا (١)
١٢٣۔١ عاد، ان کے جد اعلٰی کا نام تھا، جس کے نام پر قوم کا نام پڑ گیا۔ یہاں عاد قبیلہ تصور کر کےکَذَّبَتْ (صیغہ مؤنث) لایا گیا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
عاد نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
6 Muhammad Junagarhi
عادیوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا
7 Muhammad Hussain Najafi
(اسی طرح قوم) عاد نے بھی رسولوں کو جھٹلایا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اورقوم عاد نے بھی مرسلین کی تکذیب کی ہے
9 Tafsir Jalalayn
عاد نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
آیت نمبر 123 تا 140
ترجمہ : عادیوں نے بھی نبیوں کو جھٹلایا جبکہ ان سے ان کے بھائی ہود نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو ؟ میں تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں پس اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو میں اس پر تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے کیا تم ہر اونچے مقام پر عمارت بناتے ہو یعنی مسافروں کے لئے نشانی حال یہ ہے کہ تم اپنے پاس سے گزرنے والوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہو اور ان کے ساتھ تمسخر کرتے ہو (تَعْبَثُوْنَ ) جملہ ہو کر تَبْنُوْنَ کی ضمیر سے حال ہے اور زمین کے نیچے پانی کی ٹینک بناتے ہو گویا کہ دنیا میں تم کو ہمیشہ رہنا ہے مرنا نہیں ہے اور جب تم کسی پر ضرب و قتل کے ذریعہ داروگیر کرتے ہو تو بغیر نرمی کے ظالموں کے مانند دار و گیر کرتے ہو اس معاملہ میں اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو جس چیز کا میں تم کو حکم کروں اور اس سے ڈرو جس نے تمہاری مدد کی یعنی تمہارے اوپر ان چیزوں کا انعام فرمایا مویشیوں سے اور بیٹوں سے اور باغوں سے اور چشموں یعنی نہروں سے مجھے تو تمہارے بارے میں دنیا اور آخرت میں بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے اگر تم میری نافرمانی کرو گے تو ان لوگوں نے کہا ہمارے نزدیک سب برابر ہے خواہ آپ نصیحت کریں یا اصلا نصیحت نہ کریں، ہم تیرے وعظ کی وجہ سے باز نہیں آسکتے یہ بات جس سے تم ہم کو ڈراتے ہو محض پہلوں کی گھڑی ہوئی بات ہے اور ان کا کذب ہے اور ایک قرأۃ میں خا اور لام کے ضمہ کے ساتھ ہے، یعنی وہ عقیدہ جس پر ہم قائم ہیں وہ یہ کہ مر نے کے بعد زندہ ہونا نہیں ہے، گذشتہ لوگوں کی عادت اور ان کی طبیعت ہے اور ہم کو ہرگز عذاب نہیں دیا جائے گا، چناچہ ان لوگوں نے عذاب کی تکذیب کی تو ہم نے ان کو آندھی کے ذریعہ دنیا میں ہلاک کردیا، بلاشبہ اس میں نشانی ہے اور ان میں سے بہت سے لوگ ماننے والے نہیں تھے بیشک آپ کا رب ہی غالب مہربان ہے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : کَذَّبَتْ عادٌ عاد قبیلہ کے معنی میں ہونے کی وجہ سے مؤنث ہے اسی لئے فعل کو مؤنث لایا گیا ہے، عاد قوم عاد کے جد ابعد کا نام ہے اسی کی طرف یہ قوم منسوب ہے، عاد حضرت نوح (علیہ السلام) کے صاحبزادے سام کی نسل سے تھے (جمل) ۔ قولہ : اِذْ قَالَ لَھُمْ اَخُوْھُمْ ھُوْدٌ چونکہ ان کی نسل اور خاندان سے تعلق رکھتے تھے اسی وجہ سے ان کو اخوھم کہا ہے حضرت ہود (علیہ السلام) نہایت ہی حسین و جمیل اور پیشہ کے اعتبار سے تاجر تھے حضرت آدم (علیہ السلام) سے بہر زیادہ مشابہت رکھتے تھے چار سو چونسٹھ سال بقید حیات رہے (جمل) ۔ قولہ : بکل رِیْعٍ کسرہ اور فتح دونوں درست ہیں مکان مرتفع کو کہتے ہیں جیسے پہاڑ ٹیلہ وغیرہ، ابو عبید نے کہا ہے راستہ کو کہتے ہیں أتَبْنُوْنَ بِکُلِّ ریعٍ میں استفہام توبیخ کے لئے ہے اور محل توبیخ تُبْعَثُوْنَ جملہ حالیہ ہے، مطلب یہ ہے کہ اونچی جگہ پر عمارت بنانا مذموم نہیں ہے بلکہ بےفائدہ اور فضول بنانا مذموم ہے، وتتخذون کا عطف تبنونَ پر ہے اور اسی طرح واِذَا بَطَشتم کا بھی، مطلب یہ ہے کہ قوم ہود کو تین مذموم باتوں پر توبیخ کی گئی ہے۔
قولہ : فاتقوا اللہ فی ذٰلک الخ انہی تین باتوں کی طرف اشارہ ہے (1) البناء (2) الاتخاذ المذکور (3) التجبر۔ قولہ : امَدَّکُمْ بِاَنْعَامٍ وبنینَ اس میں دو صورتیں ہیں (1) جملہ ثانیہ جملہ اولیٰ کا بیان ہے۔ (2) بِاَنْعامٍ بما تعملونَ اعادہ فعل کے ساتھ بدل ہے جیسا کہ اتبِعُوْا المرسلینَ اتبعُوا من لا یسآلکم اجرًا میں اور بعض حضرات بدل کے بجائے تکرار قرار دیتے ہیں۔ قولہ : سَوَاءً عَلَیْنَا خبر مقدم ہے اور اَوْعَظْتَ بتاویل مفرد ہو کر مبتداء مؤخر ہے ای اَلْوَعْظُ وَعَدَمُہٗ سَوَاءٌ علَیْنَا نَرْعَوِی اِرْعَوَان سے بمعنی باز ماندن اِلاَّ مِن خُلُق الاولین مثلاً شیث (علیہ السلام) و نوح (علیہ السلام) اِنْ ھٰذا اِلاَّ خلُق الاوّلین یہ ماقبل کی علت ہے مطلب یہ ہے کہ ہم تمہارے وعظ و نصیحت کو اس لئے قبول نہیں کریں گے یہ گذشتہ لوگوں کی گڑھی ہوئی باتیں ہیں۔
تفسیر و تشریح
کذبت عاد المرسلین، عاد ان کے جداعلیٰ کا نام تھا جن کے نام پر قوم کا نام پڑگیا یہاں عاد کو قبیلہ تصور کرکے کذّبتْ مؤنث کا صیغہ لایا گیا ہے ہود (علیہ السلام) کو بھی عاد کا بھائی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی قوم ہی کے ایک فرد تھے۔
اَتَبْنُوْنَ بکلِّ رِیْع تعبثُوْنَ رِیعٌ، ریعۃٌ کی جمع ہے ٹیلہ، بلند جگہ، پہاڑ، گھاٹی، راستہ کو کہتے ہیں، یہ ان گزرگاہوں یا بلند مقامات پر اونچی اونچی عمارتیں تعمیر کرتے تھے لیکن ان کا مقصد ان میں رہنا نہیں ہوتا تھا بلکہ کھیل کود یا ایک دوسرے پر فخر ہوتا تھا حضرت ہود (علیہ السلام) نے منع فرمایا کہ یہ تم ایساکام کرتے ہو، جس میں وقت اور وسائل کا بھی ضیاع ہے اور اس کا مقصد بھی ایسا ہے کہ جس سے دین و دنیا کا کوئی مفاد وابستہ نہیں بلکہ اس کے بیکار محض اور عبث ہونے میں کوئی شک نہیں، اسی طرح وہ بڑی مضبوط اور عالی شان رہائشی عمارتیں تعمیر کرتے تھے جیسے وہ ہمیشہ ان ہی محلات میں رہیں گے۔
بلاضرورت عمارت بنانا مذموم ہے : اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ بغیر ضرورت کے مکان بنانا اور تعمیرات میں وسائل ضائع کرنا شرعاً برا ہے، اور یہی مطلب اس حدیث کا ہے جو امام ترمذی نے حضرت انس سے روایت کی ہے النفقۃ کُلُّھَا فی سبِیْلِ اللہِ الا النباء فلا خیر فیہ یعنی وہ عمارت جو بلا ضرورت بنائی گئی ہو اس میں کوئی بہتری اور بھلائی نہیں ان معنی کی تصدیق حضرت انس (رض) کی دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے اِنّ کلَّ بناءٍ وبالٌ علیٰ صاحبہٖ مالا یعنی اِلاَّ منہٗ (ابوداؤد) یعنی ہر تعمیر صاحب تعمیر کے لئے مصیبت ہے مگر وہ عمارت جو ضرورت کے لئے ہو وہ وبال نہیں ہے، روح المعانی میں فرمایا بغیر غرض صحیح کے بلند عمارت بنانا شریعت محمدیہ میں مذموم اور برا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
یعنی عادنامی قبیلے نے اپنے رسول ہود علیہ السلام کی تکذیب کی، ان کا ہود علیہ السلام کی تکذیب کرنا تمام رسولوں کی تکذیب ہے کیونکہ تمام رسولوں کی دعوت ایک ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aad ki qoam ney payghumberon ko jhutlaya
12 Tafsir Ibn Kathir
ہود (علیہ السلام) اور ان کی قوم
حضرت ہود (علیہ السلام) کا قصہ بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے عادیوں کو جو احقاف کے رہنے والے تھے اللہ کی طرف بلایا۔ احقاف ملک یمن میں حضرموت کے پاس ریتلی پہاڑیوں کے قریب ہے ان کا زمانہ نوح (علیہ السلام) کے بعد کا ہے۔ سورة اعراف میں بھی ان کا ذکر گزر چکا ہے کہ انہیں قوم نوح کا جانشین بنایا گیا اور انہیں بہت کچھ کشادگی اور وسعت دی گئی۔ ڈیل ڈول دیا بڑی قوت طاقت دی پورے مال اولاد کھیت باغات پھل اور اناج دیا۔ بکثرت دولت اور زر بہت سی نہریں اور چشمے جابجادئیے۔ الغرض ہر طرح کی آسائش اور آسانی مہیا کی لیکن رب کی تمام نعمتوں کی ناقدری کرنے والے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والوں نے اپنے نبی کو جھٹلایا۔ یہ انہی میں سے تھے نبی نے انہیں سمجھایا بجھایا ڈرایا دھمکایا اپنا رسول ہونا ظاہر فرمایا۔ اپنی اطاعت اور اللہ کی عبادت و وحدانیت کی دعوت دی جیسے کہ نوح (علیہ السلام) نے دی تھی۔ اپنا بےلاگ ہونا طالب دنیا نہ ہونا بیان فرمایا۔ اپنے خواص کا بھی ذکر کیا یہ جو فخر وریا کے طور پر اپنے مال برباد کرتے تھے اور اونچے اونچے مشہور ٹیلوں پر اپنی قوت کے اور مال کے اظہار کے لئے بلند وبالا علامتیں بناتے تھے اس فعل عبث سے انہیں ان کے نبی حضرت ہود (علیہ السلام) نے روکا کیونکہ اس میں بیکار دولت کا کھونا وقت کا برباد کرنا اور مشقت اٹھانا ہے جس سے دین دنیا کا کوئی فائدہ نہ مقصود ہوتا ہے نہ متصور۔ بڑے بڑے پختہ اور بلند برج اور مینار بناتے تھے جس کے بارے میں ان کے نبی نے نصیحت کی کہ کیا تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ یہیں ہمیشہ رہوگے محبت دنیا نے تمہیں آخرت بھلادی ہے لیکن یاد رکھو تمہاری یہ چاہت بےسود ہے۔ دنیا زائل ہونے والی ہے تم خود فنا ہونے والے ہو۔ ایک قرأت میں کانکم خالدون ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ جب مسلمانوں نے غوطہ میں محلات اور باغات کی تعمیر اعلی پیمانے پر ضروت سے زیادہ شروع کردی تو حضرت ابو درداء (رض) نے مسجد میں کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے دمشق کے رہنے والو سنو ! لوگ سب جمع ہوگئے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا کہ تمہیں شرم نہیں آتی تم خیال نہیں کرتے کہ تم نے وہ جمع کرنا شروع کردیا جسے تم کھا نہیں سکتے۔ تم نے وہ مکانات بنانے شروع کردئیے جو تمہارے رہنے سہنے کے کام نہیں آتے تم نے وہ دور دراز کی آرزوئیں کرنی شروع کردیں جو پوری ہونی محال ہیں۔ کیا تم بھول گئے تم سے اگلے لوگوں نے بھی جمع جتھا کر کے سنبھال سنبھال کر رکھا تھا۔ بڑے اونچے اونچے پختہ اور مضبوط محلات تعمیر کئے تھے بڑی بڑی آرزوئیں باندھی تھیں لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دھوکے میں رہ گئے ان کی پونجی برباد ہوگئی ان کے مکانات اور بستیاں اجڑگئیں۔ عادیوں کو دیکھو کہ عدن سے لے کر عمان تک ان کے گھوڑے اور اونٹ تھے لیکن آج وہ کہاں ہیں ؟ ہے کوئی ایسا بیوقوف کہ قوم عاد کی میراث کو دو درہموں کے بدلے بھی خریدے انکے مال ومکانات کا بیان فرما کر ان کی قوت وطاقت کا بیان فرمایا کہ بڑے سرکش، بتکبر اور سخت لوگ تھے۔ نبی علیہ صلوات اللہ نے انہیں اللہ سے ڈرنے اور اپنی اطاعت کرنے کا حکم دیا کہ عبادت رب کی کرو اطاعت اس کے رسول کی کرو پھر وہ نعمتیں یاد دلائیں جو اللہ نے ان پر انعام کی تھیں جنہیں وہ خود جانتے تھے۔ مثلا چوپائے جانور اور اولاد باغات اور دریا پھر اپنا اندیشہ ظاہر کیا کہ اگر تم نے میری تکذیب کی اور میری مخالفت پر جمے رہے تو تم پر عذاب اللہ برس پڑے گا لالچ اور ڈر دونوں دکھائے مگر بےسود رہیں۔