الشعراء آية ۱۹۲
وَاِنَّهٗ لَـتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۗ
طاہر القادری:
اور بیشک یہ (قرآن) سارے جہانوں کے رب کا نازل کردہ ہے،
English Sahih:
And indeed, it [i.e., the Quran] is the revelation of the Lord of the worlds.
1 Abul A'ala Maududi
یہ رب العالمین کی نازل کردہ چیز ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے،
3 Ahmed Ali
اور یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے
4 Ahsanul Bayan
اور بیشک و شبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور یہ قرآن (خدائے) پروردگار عالم کا اُتارا ہوا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور بیشک و شبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور بےشک یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور یہ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل ہونے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور یہ (قرآن خدائے) پروردگار عالم کا اتارا ہوا ہے
آیت نمبر 192 تا 227
ترجمہ : بلاشبہ یہ یعنی قرآن رب العالمین کا نازل فرمودہ ہے اس کو روح الامین یعنی جبرائیل آپ کے قلب پر لیکر اترے ہیں صاف عربی زبان میں تاکہ آپ ڈرانے والوں میں ہوجائیں اور ایک قرأۃ میں نَزَّلَ تشدید اور روح کے نصب کے ساتھ ہے اور فاعل اللہ ہے اور بلاشبہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل شدہ قرآن کی خبر پہلے لوگوں کی کتابوں مثلاً تورات و انجیل میں ہے کیا ان کے لئے قرآن کی صداقت کی یہ نشانی کافی نہیں کہ اس کو بنی اسرائیل کے علماء بھی جانتے ہیں ؟ جیسا کہ عبد اللہ بن سلام اور ان کے وہ ساتھی جو ایمان لائے، وہ اس کی حقانیت کی خبر دیتے ہیں اور یَکُنْ یا کے ساتھ اور آیۃً کے نصب کے ساتھ اور تا کے ساتھ اور آیۃً کے رفع کے ساتھ اور اگر بالفرض ہم اس قرآن کو کسی عجمی شخص پر نازل کرتے اور وہ اس قرآن کو کفار مکہ کو پڑھا کر سناتا تب یہ لوگ اس کے اتباع سے تکبر کرتے ہوئے اس پر ایمان نہ لاتے اعجَمِینَ اعجم کی جمع ہے اسی طرح یعنی جس طرح عجمی کی قرأۃ کی وجہ قرآن کی تکذیب ہم نے (ان کے قلوب میں) داخل کردی مجرمین یعنی کفار مکہ کے قلوب میں نبی کی قرأۃ کی وجہ سے (بھی) تکذیب داخل کردی، یہ لوگ اس قرآن پر ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں پھر وہ عذاب ان پر اچانک آجائے اور ان کو اس کی خبر بھی نہ ہو، پھر کہیں گے کہ کیا ہم کو مہلت دی جائے گی ؟ تاکہ ہم ایمان لے آئیں تو ان کو جواب دیا جائے گا کہ نہیں، ان لوگوں نے سوال کیا یہ عذاب کب آئے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں ؟ اچھا یہ بتاؤ اگر ہم نے ان کو کئی سال بھی فائدہ اٹھانے دیا پھر اس کے بعد ان پر وہ عذاب آجائے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا تو وہ سالہا سال کی سود مندی ان سے عذاب کے دفع کرنے میں یا اس کے ہلکا کرنے میں کیا کام آئے گی ؟ اور ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس کے لئے ڈرانے والے ایسے انبیاء موجود تھے جو ان کو نصحیت کے طور پر ڈراتے تھے اور ڈرانے کے بعد ان کو ہلاک کرنے میں ہم ظالم نہیں تھے اور مشرکین کے قول کو رد کرنے کے لئے (یہ آیت) نازل ہوئی (یعنی) اس قرآن کو شیاطین نہیں لائے، اور نہ وہ اس کے قابل کہ اس کو لیکر نازل ہوں اور نہ ان میں اس کی مجال (بلکہ) بلاشبہ وہ تو فرشتوں کے کلام کو سننے سے بھی محروم کر دئیے گئے ہیں یعنی شعلوں کے ذریعہ روک دئیے گئے ہیں پس تو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارو نہ تو تو سزا پانے والوں میں ہوجائے گا اگر تو نے وہ کام کرلیا جس کی طرف تجھ کو بلایا ہے اور آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے، اور وہ بنو ہاشم اور بنو مطلب ہیں اور ان کو کھلم کھلا ڈرایا، روایت کیا اس کو بخاری اور مسلم نے اور مومنین یعنی موحدین میں سے جس نے آپ کی پیروی اختیار کرلی ہے تو آپ ان کے ساتھ فروتنی سے پیش آئیے اور اگر تیرے اہل خاندان تیری نافرمانی کریں تو ان سے کہہ دیجئے کہ میں تمہارے اعمال یعنی غیر اللہ کی بندگی سے بری ہوں اور پورا بھروسہ غالب مہربان اللہ پر رکھئے وَتَوَکَّلْ واؤ اور فاء (دونوں) کے ساتھ ہے یعنی اپنے تمام کام اسی کو سونپ دیجئے، جو کہ آپ کے نماز کے لئے کھڑا ہونے کو اور ارکان صلوٰۃ میں آپ کی نشست و برخاست کو (یعنی) قیام و قعود و رکوع و سجود کی حالت کو سجدہ کرنے والوں میں یعنی نماز پڑھنے والوں میں دیکھتا ہے بیشک وہی سننے والا اور جاننے والا ہے اے کفار مکہ کیا میں تم کو بتاؤں کہ شیاطین کس شخص پر اترتے ہیں ؟ اصل میں دو تاؤں میں سے ایک تا کو حذف کرکے (سن لو) شیاطین ہر جھوٹے گنگہارفاجر جیسا کہ کاہنوں میں سے مسیلمہ کذاب وغیرہ، اور شیاطین سنی ہوئی بات کو یعنی جس کو ملائکہ سے سن لیتے ہیں کاہنوں پر القاء کردیتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہیں اس سنی ہوئی بات میں بہت سا جھوٹ ملا دیتے ہیں اور یہ شیاطین کو آسمان پر جانے سے روکے جانے سے پہلے تھا اور شاعروں کی پیروی ان کے شعر میں گمراہ لوگ کرتے ہیں تو وہ شعر پڑھتے ہیں اور شعراء سے نقل کرتے ہیں سو یہی ہیں مذموم (قابل مذمت) کیا آپ نہیں جانتے کہ یہی لوگ کلام اور اس کی اصناف کی ہر وادی میں بھٹکتے رہتے ہیں (یعنی) متحیر پھرتے رہتے ہیں، چناچہ مدح اور ہجو میں حد سے تجاوز کر جاتے ہیں اور یہ بات کہتے ہیں جو کرتے نہیں یعنی جھوٹ بولتے ہیں سوائے ان شاعروں کے جو ایمان لائے اور اعمال صالحہ کئے اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا یعنی شعر نے ان کو ذکر سے غافل نہیں کیا اور کافروں سے ان کی ہجو کرکے اپنی مظلومی کے بعد انتقام لیا ان کافروں کے فی الجملہ مومنین کی ہجو کرنے کی وجہ سے لہٰذا یہ لوگ قابل مذمت نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو پسند نہیں فرماتا مگر مظلوم کو اجازت ہے سو جس نے تمہارے اوپر ظلم کیا تو تم بھی اس کے اوپر اتنا ہی ظلم کرسکتے ہو، اور عنقریب ظلم کرنے والے ان شعراء وغیرہ کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ موت کے بعد کس کروٹ الٹتے ہیں (یعنی کس ٹھکانہ میں)
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
بِلسان عربیٍ ، بہٖ کی ضمیر سے اعادہ جار کے ساتھ بدل ہے، اور المنذرینَ کے متعلق بھی ہوسکتا ہے یعنی تاکہ آپ ان رسولوں میں سے ہوجائیں جو عربی زبان میں ڈرایا اور خوشخبری دیا کرتے تھے، جیسا کہ ہود (علیہ السلام) و صالح (علیہ السلام) و شعیب (علیہ السلام) اور اسماعیل علیہ السلام۔ قولہ : ای ذکر القرآن اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک شبہ کا جواب ہے، شبہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول اِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الاَوَّلِیْنَ سے معلوم ہوتا کہ قرآن بنفس نفیس سابقہ کتابوں میں موجود ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن سابقہ کتب میں بنفس نفیس موجود نہیں ہے بلکہ قرآن کا ذکر اور اس کی صفت کتب سابقہ میں موجود ہے۔
قولہ : کعبد اللہ بن سلام واصحابہٖ عبد اللہ بن سلام کے ساتھی جو کہ یہودی سے مسلمان ہوئے تھے عبد اللہ بن سلام کے علاوہ چار تھے (1) اسَدٌ (2) اُسَیْد (3) ثعلبۃ (4) ابن یامین یہ پانچوں حضرت علماء یہود میں سے تھے بعد میں اسلام لائے اور بہت خوب لائے
قولہ : یَکُنْ بالتحتانیۃ ونصبِ آیۃً ، آیۃً ، یکن کی خبر مقسم ہے اس کا اسم اَنْ یَعْلَمَہٗ ہے اور آیۃٌ کے رفع کے ساتھ تکن کا اسم ہے اور لَھُمْ خبر مقدم ہے اور اَنْ یعلمہٗ اسم سے بدل ہے اگر تکن تامہ ہو تو آیۃً اس کا فاعل ہوگا اور اَنْ یعلمہٗ اس سے بدل ہوگا۔
قولہ : جمع اعجم یعنی اعجمین اَعْجَمْ کی جمع ہے سوال، اَفْعَل فُعْلاءُ کی جمع واؤ نون اور یا نون کے ساتھ نہیں آتی لہٰذا اَعْجَمِیْن اَعْجَمْ کی جمع صحیح نہیں ہے، جواب اصل میں اعجمِیٍّ ہے یائے نسبتی کو تخفیف کے لئے حذف کردیا گیا ہے لہٰذا اَعجَمیٌّ کی اعجمین جمع لانا درست ہے۔
قولہ : کذٰلکَ یہ سلکناہ کا معمول ہے اور سلکناہٗ میں ہٗ ضمیر کا مرجع قرآن ہے حذف مضاف کے ساتھ، ای سلکنا تکذیبَہٗ ۔ قولہ : اَفَرَاَیْتَ کا عطف فیقولوا پر ہے، درمیان میں جملہ معترضہ ہے۔ قولہ : اِلاَّ لھَا مُّنذِرونَ یہ جملہ ہو کر قریۃ کی صفت ہے اور قریۃ سے حاصل بھی ہوسکتا ہے۔ قولہ : من قریۃ میں مِن مفعول پر زائدہ ہے اور یہ سابق میں نفی ہونے کی وجہ سے جائز ہے۔
سوال : الاّ کے بعد سے واؤ کو کیوں ترک کردیا ؟ حالانکہ وَم۔ ا اَھْلَکْنَا من القریۃِ الاَّ ولھَا کتابٌ معلومٌ میں واؤ موجود ہے۔
جواب : اصل ترک واؤ ہے اس لئے کہ جملہ قریۃ کی صفت ہے اور موصوف صفت کے درمیان واؤ نہ ہونا اصل ہے اور اگر کہیں واؤ لایا جاتا ہے تو وصل صفت بالموصوف کی تاکید کے لئے لایا جاتا ہے جیسا کہ سبعۃ وثامنھم کلبھم (جمل)
لَھَا محذوف سے متعلق ہو کر خبر مقدم ہے اور منذرون مبتداء مؤخر ہے مبتداء خبر مقدم سے مل کر جملہ ہو کر یا تو قَرْیَۃ کی صفت یا حال ہے خبر ہونے کی صورت میں تقدیر عبارت یہ ہے قد اَنْذَرَ اَھْلَھَا منذرونَ حال ہونے کی صورت میں تقدیر عبارت یہ ہے اِلاَّ کائناً لھا منذرون۔ قولہ : ذِکرٰی یا تو منذرون کی ضمیر سے حال ہے ای منذرون ذَوَیْ ذِکریٰ یا مذکرین ذکریٰ اور اگر اپنے ظاہر پر باقی رکھا جائے تو مبالغہ حمل ہوگا جیسے ریدٌ عدلٌ یا ذکریٰ منصوب ہے مصدریت کی بنا پر اس صورت میں منذرون مدکرون کے معنی میں ہوگا تقدیر عبارت یہ ہوگی مذکرون ذکریٰ ای تذکرۃً ذکریٰ منذرون کی علت یعنی مفعول لہ بھی ہوسکتا ہے ای تنذِرُھم لاجل تذْکیرھِمْ العواقِبَ اور ذکریٰ مبتداء محذوف کی خبر بھی ہوسکتا ہے ای ھذہٖ ذکریٰ اس صورت میں جملہ معترضہ ہوگا۔
قولہ : ردًّا لِقَوْلِ المشرکین قول کا مقولہ محذوف ہے اور یہ ہے اِنَ الشیٰطین یُلْقُوْنَ القرآنَ الیہِ ۔ قولہ : شُھُبٌ شِھابٌ کی جمع ہے بمعنی آگ کی چمک، ٹوٹا ہوا تارہ، قولہ : فتکون مِنَ المعذبین شرط محذوف کی جزاء مقدم ہے جیسا کہ شارح نے اِنْ فَعَلْتَ ذٰلکَ سے اشارہ کردیا ہے۔ قولہ : بالواؤ والفاء یعنی توکل میں دو قرأتیں ہیں واؤ کے ساتھ اور فاء کے ساتھ واو کے ساتھ ہونے کی صورت میں اَنْذِرْ پر عطف ہوگا اور فاء کی صورت میں جواب شرط یعنی فَقُلْ اِنِّیْ بَرِئٌ سے بدل ہوگا۔
قولہ : تَقَلُّبَکَ یَرَاکَ کے کاف پر معطوف ہے۔ قولہ : وفی الساجدینَ میں فی بمعنی مع ہے۔ قولہ : عَلیٰ مَنْ تَنَزَّلُ کے متعلق ہے اگر اُنَبّئُکُمْ متعدی بسہ مفعول ہو تو جملہ تَنَزَّلُ الشیاطین قائم مقام دو مفعولوں کے ہوگا یعنی ثانی اور ثالث کے اور اول مفعول ضمیر کُمْ ہے اور اگر متعدی بدو مفعول ہو تو جملہ مفعول ثانی کے قائم مقام ہوگا۔ قولہ : مثل مسیلمۃ کا مثال میں پیش کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا اس لئے کہ اول تو مسیلمہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا جبکہ شیاطین کی آسمانوں پر آمد ورفت بند کردی گئی تھی لہٰذا اس کو شیطانوں کا آسمانی خبروں کا دینا صحیح نہیں ہے دوسری بات یہ ہے مسیلمہ کاہنوں میں سے نہیں تھا وہ مفتری اور کذاب تھا لہٰذا مفسر علام کا من الکھنۃ کہنا درست معلوم نہیں ہوتا وغیرہ جیسا کہ سطیح یہ کاہن تھا کاہن آئندہ کی خبر دینے والے کو کہتے ہیں اور عرّاف امور ماضیہ کی خبر دینے والے کو کہتے ہیں (جمل) ۔ قولہ : ای کفار مکۃَ میں ای ندائیہ بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ ظاہر ہے اور تفسیریہ بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں مُفَسَّرْ اُنَبِّئُکُمْ میں کُمْ ضمیر ہوگی۔ قولہ : یَھِیْمُوْنَ اَنَّ کی خبر ہے اور فی کُلِّ وادٍ اس سے متعلق ہے۔ قولہ : اِلاَّ الذین آمَنُوْا الخ یہ مَذْھُوْمُوْنَ محذوف سابق سے استثناء ہے۔
تفسیر وتشریح
اِنہ۔۔۔۔ العالمین یہاں سے اللہ تعالیٰ قرآن کی اور اس کے نازل کرنے والے کی اور جس پر نازل کیا گیا ہے مدح فرما رہے ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ کفار مکہ نے قرآن کے وحی الٰہی اور منزل من اللہ ہونے کا انکار کیا اور اسی بنا پر رسالت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دعوت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات بیان کرکے یہ واضح کیا کہ یہ قرآن یقیناً وحی الٰہی ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسکے سچے رسول ہیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ پیغمبر جو نہ پڑھ سکتا ہے اور نہ لکھ سکتا ہے گزشتہ انبیاء اور قوموں کے واقعات کس طرح بیان کرسکتا تھا ؟ اس لئے یہ قرآن یقیناً رب العالمین ہی کی طرف سے نازل کردہ ہے جسے ایک امانتدار فرشتہ یعنی جبرائیل (علیہ السلام) لے کر آئے۔
بلِسان عربی مبین اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن وہی ہے جو عربی زبان میں ہو قرآن کا ترجمہ خواہ کسی زبان میں ہو قرآن نہیں کہلائے گا لیکن اِنّہٗ لفی زبر الاولینَ سے بظاہر اس کے خلاف معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ یہ بات ظاہر ہے کہ کسب سابقہ عربی زبان میں نہیں تھیں لہٰذا قرآن کے سابقہ کتابوں میں ہونے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ قرآن کے معانی اور مضامنین سابقہ کتب میں موجود تھے ؟ دونوں باتوں میں بظاہر متضاد معلوم ہوتا ہے، اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ صرف مضامین قرآن کو بھی بعض اوقات تو سُّعاً قرآن کہہ دیا جاتا ہے اسلئے کہ اصل مقصود کسی کتاب کا اس کے مضامین ہی ہوتے ہیں (معارف)
دوسرا جواب یہ ہے اِنَّہٗ لَفِیْ زُرُرِ الاَوَّلِیْنَ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی خبر اور اس کی صفت اور اس کے نزول کی خوشخبری کتب سابقہ میں موجود ہے (جمل) لہٰذا معلوم ہوا کہ قرآن الفاظ اور معانی دونوں کے مجموعہ کا نام ہے اسی وجہ سے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ نماز میں الفاظ قرآن کی قرأۃ کے بجائے ان کا ترجمہ خواہ کسی بھی زبان میں ہو بدون اضطرار کے کافی نہیں، بعض ائمہ سے جو اس میں توسع کا قول منقول ہے ان سے بھی اپنے اس قول سے رجوع ثابت ہے۔
ترجمہ قرآن کو قرآن کہنا جائز نہیں : اسی طرح قرآن کا صرف ترجمہ بغیر عربی متن کے لکھا جائے تو اس کو قرآن کہنا درست نہیں ہے مثلاً اردو کا قرآن یا فارسی یا انگریزی کا قرآن کہہ دیتے ہیں یہ جائز نہیں، اور نہ محض قرآن کے ترجمہ کو قرآن کے نام سے شائع کرنا جائز ہے۔
اَوَلَمْ یِکُنْ لَھُمْ آیَۃً اَنْ ۔۔۔۔ اسرائیل، کفار مکہ مذہبی معاملات میں یہود کی طرف رجوع کرتے تھے چناچہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعوئے نبوت فرمایا تو مشرکین مکہ کی ایک جماعت تحقیق کے لئے مدینہ علماء یہود کے پاس گئی تھی علماء یہود نے علامت کے طور پر تین سوال سکھائے تھے کہ اگر ان کا جواب دیدیں تو نبی ہیں ورنہ نہیں، حضرت سلمان فارسی (رض) کو بھی ایک یہودی عالم نے آخری نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تین علامتیں بتائی تھیں اول یہ کہ وہ صدقہ قبول نہیں کرے گا، ہدیہ قبول کرے گا، اور یہ کہ اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی چناچہ حضرت سلمان فارسی نبی آخر الزماں کی تلاش میں مدینہ تشریف لائے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر مذکورہ تینوں علامتوں کی تصدیق کرنے کے بعد ایمان لائے، عناد اور دشمنی کی وجہ سے اگرچہ یہودی علماء آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبوت کا اگرچہ کھلم کھلا اعلان و اقرار نہیں کرتے تھے مگر نجی مجلسوں میں اور دل میں آپ کی نبوت کے معترف تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یعرفونہ کما یعرفون ابناءھم۔
مشرکین مکہ جب اپنے دیگر مذہبی معاملات میں علماء یہود پر اعتماد کرتے ہیں تو آپ کی نبوت و رسالت کے بارے میں کیوں اعتماد نہیں کرتے ؟ حالانکہ بڑے علماء یہود جو ایمان لا چکے تھے وہ صراحت اور وضاحت کے ساتھ کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے آخری نبی ہیں یہ وہی نبی ہیں جن کی خوشخبری توریت و انجیل میں دی گئی ہے، مطلب یہ ہے کہ کیا یہ بات کہ علماء بنی اسرائیل قرآن کی صداقت اور حقانیت کی شہادت دے رہے ہیں مشرکین مکہ کے ایمان لانے اور قرآن کو آسمانی کتاب باور کرنے کے لئے کافی نہیں ہے ؟ مگر ضد اور عناد کی وجہ سے قبول نہیں کرتے۔
وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتکَ الاَقْرَبینَ پیغمبروں کی دعوت صرف رشتہ داروں کے لئے نہیں بلکہ پوری قوم کے لئے ہوتی ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو پوری نسل انسانی کے لئے ہادی اور رہبر بن کر آئے تھے، قریبی رشتہ داروں کو دعوت ایمان، دعوت عام کے منافی نہیں بلکہ اس کا ایک حصہ یا ایک ترجیحی پہلو ہے جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی سب سے پہلے اپنے والد آزر کو توحید کی دعوت دی تھی، چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس حکم کے نازل ہونے کے بعد صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور یاصباہ کہہ کر آواز دی، یہ کلمہ اس وقت بولا جاتا تھا جب دشمن اچانک حملہ کر دے، یہ کلمہ سن کر لوگ جمع ہوگئے آپ نے قریش کے مختلف قبیلوں کے نام لے لے کر فرمایا یَا معشرَ قریش اِشْتَرُوْا اَنْفُسَکُمْ لاَ اَغْنِی عنکُمْ من اللہ شیئاً یا بنی عبد المطلِب لا اَغْنِی عنک منَ اللہِ شیئاً یا صفیہ عمۃ رسول اللہ لا اغنی عنک شیئاً یا فاطمہ بنت رسول اللہ سلینی ماشئتِ من مالی لا اغْنی عنک من اللہ شیئاً (خازن بحوالہ جمل) اور آپ نے فرمایا بتاؤ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کی پشت پر دشمن کا لشکر موجود ہے جو تم پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے تو کیا تم سچ مانو گے ؟ سب نے کہا ہاں یقیناً ہم تصدیق کریں گے، اس کے بعد آپ نے فرمایا ” اللہ نے مجھے نذیر بنا کر بھیجا ہے میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈراتا ہوں “ اس پر ابو لہب نے کہا تبًّا لکَ اَم۔ ا دَعَوْتَنَا اِلاَّ لھٰذَا تیرے لئے ہلاکت ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لئے بلایا تھا ؟ اس کے جواب میں سورة تبت نازل ہوئی۔
اِلَّذِیْ ۔۔۔۔ السجدین یعنی آپ جب تنہا تہجد وغیرہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اس وقت بھی وہ آپ کو دیکھتا ہے اور جب آپ لوگوں کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اس وقت بھی دیکھتا ہے۔
شعر کی تعریف : والشعراء۔۔۔۔ الغاوٗونَ شعر لغت میں ہر اس کلام کو کہا جاتا ہے جس میں محض خیالی غیر حقیقی مضامین بیان کئے گئے ہوں جس میں کوئی بحر، وزن، ردیف، اور قافیہ کچھ شرط نہیں، فن منطق میں بھی ایسے ہی مضامین کو ادلہ شعر یہ اور قضایا شعریہ کہا جاتا ہے، اصطلاحی شعر و غزل میں بھی چونکہ عموماً خیالات ہی کا غلبہ ہوتا ہے اس لئے اصطلاح شعراء میں کلام موزوں و مقفیٰ کو شعر کہنے لگے ہیں۔ (معارف)
جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ، حسان بن ثابت، اور کعب بن مالک جو شعراء صحابہ میں مشہور ہیں روتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ ذوالجلال نے یہ آیت نازل فرمائی ہے اور ہم بھی شعر کہتے ہیں، آپ نے فرمایا آیت کے آخری حصہ کو پڑھو، مقصد یہ تھا کہ تمہارے اشعار بیہودہ اور غلط مقصد کے لئے نہیں ہوتے لہٰذا تم اس استثناء میں داخل ہو جو آیت کے آخری حصہ میں مذکور ہے، اس لئے مفسرین نے فرمایا کہ ابتدائی آیت میں مشرکین شعراء مراد ہیں، مشرکین مکہ محفل مشاعرہ قائم کرتے جس میں اسلام کا تمسخر کرتے مسلمانوں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجو کرتے اور سامعین خوب داد دیتے اور ہجو کے اشعار کو یاد کرلیتے اور خون شہرت دیتے آیت میں یہی شعراء اور ان کی اتباع کرنے والے مراد ہیں۔
لطیفہ : ایک رئیس کے دربار میں چند شعراء انعام و اکرام کی غرض سے حاضر ہوئے ایک شخص جو کہ شاعر نہیں تھا وہ بھی طفیلی بن کر شعراء کے ساتھ چلا گیا شاعروں نے اپنے اپنے انداز سے رئیس کی بہت تعریف کی جب شعراء اپنا اپنا کلام سنا چکے اور انعام و اکرام حاصل کرچکے تو رئیس نے اس طفیلی سے بھی اشعار پڑھنے کے لئے کہا طفیلی چونکہ شاعر تو تھا نہیں اشعار کیا سناتا ؟ برجستہ جواب دیا کہ شعراء تو یہ حضرات ہیں میں یتبعھُمُ الغَاوٗون میں سے ہوں اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے الشعراء یتبعھُمْ الغاوٗون رئیس بہت ہنسا اور اس کو بھی خوب انعام دیا، آیت میں اگرچہ مشرکین شعراء مراد ہیں مگر چونکہ شاعروں کی اکثریت ایسی ہوتی ہے کہ وہ مدح و ذم میں اصل و ضابطہ کے بجائے ذاتی پسند و ناپسند کے مطابق اظہار رائے کرتے ہیں، علاوہ ازیں اس قدر غلو اور مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ کذب بیانی اور دروغ گوئی کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ ایمان اور عقیدہ کی حدود کا بھی خیال نہیں رکھتے فرزدق نے سلیمان بن عبد الملک کی مجلس میں چند اشعار پڑھے جن میں ایک شعر یہ بھی تھا :
فبِتنَ کأنّھُنَّ مُصرَّعَات وبتُّ افضُّ اغلاق الختام
دو شیزاؤں نے اس طرح رات گزاری گویا کہ وہ پچھاڑی ہوئی ہیں اور میں نے اس طرح رات گزاری کہ میں سربند مہروں کو توڑ رہا ہوں، سلیمان نے کہا تیرے اوپر واجب ہوگئی، فرزدق نے کہا حد میرے اوپر سے ساقط ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا وانھم یقولون مالا یفعلون چناچہ اس کو معاف کردیا۔
شاعروں کی گپ کا نمونہ :
اے رشک مسیحا تیری رفتار کے قرباں ٹھوکر سے میری لاش کئی بار جلادی
اے بادصبا ہم تجھے کیا باد کریں گے اس گل کی خبر تو نے کبھی ہم کو نہ لادی
ایک شاعر اپنے ممدوح کے حقہ کی تعریف کرتا ہوا کہتا ہے :
حقہ نہیں عصاء ہے یہ موسیٰ کے ہاتھ میں بےجان بولتا ہے یہ مسیحا کے ہاتھ میں
مبالغہ کے چند اور نمونہ ملاحظہ فرمائیے :
رونے پہ چشم تر مری باندھے اگر کمر کیسی زمیں، فلک پہ ہو پانی کمر کمر
گھوڑے کی برق رفتاری کے لئے :
یک جست میں جو خوف نہ رکھتا خدا سے وہ جاتا نکل احاطۂ علم خدا سے وہ
کسی شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے رن ایک طرف، چرخ کہن کانپ رہا ہے
ہر شیر نیستان زمن کانپ رہا ہے رستم کا بدن زیر کفن کانپ رہا ہے
شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو
جبرئیل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو
اس قوم کے شاعر چونکہ شاعرانہ تخیلات کی تلاش میں خیالی دنیا میں ادھر ادھر بھٹکتے رہتے ہیں اسی لئے ان کے بارے میں کہا گیا ہے فی کل وادٍ یھیمون تخیلات کی وادی میں سرمارتے پھرتے ہیں۔
مذکورہ آیت سے جو شعر و شاعری کی سخت مذمت اور ان کا عند اللہ مبغوض ہونا معلوم ہوتا ہے وہ مطلق نہیں ہے بلکہ جس شعر میں خدا تعالیٰ کی نافرمانی یا اللہ کی یاد سے غفلت یا جھوٹ ناحق کسی انسان کی مذمت و توہین ہو فحش کلام اور فواحش کے لئے محرک ہو وہ مذموم اور مکروہ ہے اور ایسا شاعر قابل مذمت ہے، اور جن شعراء کے اشعار ان معاصی اور مکروہات سے پاک ہوں ان کو اللہ تعالیٰ نے الا الذینَ آمنُوا وعملوا الصّٰلِحٰتِ کے ذریعہ مستثنیٰ فرما دیا ہے، بلکہ بعض اشعار تو حکیمانہ مضامین اور وعظ و نصیحت پر مشتمل ہونے کی وجہ سے طاعت اور ثواب میں داخل ہیں جیسا کہ حضرت ابی بن کعب کی روایت ہے اِنّ بعض الشعر لحکمۃ (بخاری) اس کی مزید تائید مندرجہ ذیل روایات سے بھی ہوتی ہے عمر بن الشرید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے امیہ بن ابہی صلت کے سو قافیہ تک اشعار سنے (معارف) مطرف فرماتے ہیں کہ میں نے کوفہ سے بصرہ تک حضرت عمر بن حصین (رض) کے ساتھ سفر کیا اور ہر منزل پر وہ شعر سناتے تھے، امام بخاری فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) شعر کہا کرتی تھیں، ابو یعلی نے ابن عمر سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ شعر ایک کلام ہے اگر اس کا مضمون اچھا اور مفید ہے تو شعر اچھا ہے اور اگر مضمون برا ہے یا گناہ ہے تو برا ہے دار قطنی نے روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شعر کے بارے میں سوال کیا، آپ نے فرمایا ھو کلام، فحسنہٗ حسَنٌ وقبیحہٗ قبیحٌ بلکہ اگر اشعار خدا اور اس کے رسول کی محبت بڑھانے والے اور موت و آخرت کو یاد دلانے والے یا بغرض نصرت و انتقام مؤمنین و ابطال باطل و احقاق حق ہوں تو مستحب ہیں، حضرت حسان (رض) آپ کی جانب سے مشرکین مکہ کی ہجو کا جواب دیا کرتے تھے آپ نے حضرت حسان کے لئے کفار کی ہجو کا جواب دینے پر دعا فرمائی اَجب عنی اَللّٰھُمَّ اَیدہٗ بروح القُدُس اے حسان ہماری طرف سے کفار کو جواب دو اے اللہ تو جبرائیل کے ذریعہ حسان کی مدد فرما۔ (خلاصۃ التفاسیر تائب لکھنؤی)
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شرید سے جو آپ کے پیچھے سوار تھے فرمایا کہ امیہ بن ابی صلت کے کچھ اشعار یاد ہوں تو سناؤ، شرید فرماتے ہیں میں نے پڑھا آپ نے فرمایا اور پڑھو میں نے پڑھا پھر فرمایا اور پڑھو یہاں تک کہ میں نے سو اشعار پڑھے، آپ ہر بار فرماتے اور پڑھو، اور آپ نے یہ بھی فرمایا گویا کہ وہ اپنے شعر سے اسلام ظاہر کرتا ہے یا گویا کہ اسلام لانا چاہتا ہے، اور ایسے ہی آپ نے فرمایا گویا کہ وہ اپنے شعر سے اسلام ظاہر کرتا ہے یا گویا کہ اسلام لانا چاہتا ہے، اور ایسے ہی آپ نے فرمایا شعراء کے کلام میں راست ترین لبید کا یہ شعر ہے۔
اَلاَ کُلُّ شئٍ ماسوی اللہ باطلاً (رواہ مسلم) خلاصۃ التفاسیر تائب۔
تمت
10 Tafsir as-Saadi
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیاء کرام کا ان کی قوموں کے ساتھ قصہ بیان فرمایا اور انبیاء کرام نے کیسے ان کو توحید کی دعوت دی اور کیسے انہوں نے ان کی دعوت کو ٹھکرایا اور پھر کیسے اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو ہلاک کیا اور ان کا انجام برا ہوا۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس رسول کریم، عظمت شان کے حامل نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کتاب کا ذکر فرمایا جس کے ساتھ آپ مبعوث ہوئے جس میں عقل مندوں کے لئے ہدایت ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ ” اور یہ (قرآن) رب العالمین کا اتارا ہوا ہے۔“ پس وہ ہستی جس نے اس عظیم کتاب کو نازل فرمایا، زمین و آسمان کو پیدا کرنے والی اور تمام عالم علوی اور سفلی کی مربی ہے۔ جس طرح اس نے بندوں کی ان کے جسمانی اور دنیاوی مصالح میں تربیت کی، اسی طرح اس نے ان کے دین و دنیا کے مصالح میں بھی راہنمائی فرما کر ان کی تربیت کی۔ سب سے عظیم چیز جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی تربیت کی ہے وہ اس کتاب کریم قرآن مجید کا نازل فرمانا ہے جو بے انتہا بھلائی اور بے پایاں نیکی پر مشتمل ہے۔ یہ دین و دنیا کے مصالح اور اخلاق فاضلہ کا متضمن ہے جن سے دوسری کتابیں تہی دامن ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ میں اس کتاب کی تعظیم اور اس کے مہتم بالشان ہونے پر دلیل ہے نیز اس امر کی دلیل ہے کہ یہ عظیم کتاب کسی اور ہستی کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہے اور اس کے نازل کرنے کا مقصد تمہارا فائدہ اور تمہاری ہدایت ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
beyshak yeh Quran Rabb-ul-Aalameen ka nazil kiya huwa hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
مبارک کتاب
سورت کی ابتدا میں قرآن کریم کا ذکر آیا تھا وہی ذکر پھر تفصیلاً بیان ہو رہا ہے کہ یہ مبارک کتاب قرآن کریم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور نبی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی ہے۔ روح الامین سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں جن کے واسطے سے یہ وحی سرور رسل (علیہ السلام) پر اتری ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت ( قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ 97) 2 ۔ البقرة :97) یعنی اس قرآن کو بحکم الٰہی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے تیرے دل پر نازل فرمایا ہے۔ یہ قرآن اگلی تمام الہامی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے۔ یہ فرشتہ ہمارے ہاں ایسا مکرم ہے کہ اس کا دشمن ہمارا دشمن ہے حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں جس سے روح الامین بولے اسے زمین نہیں کھاتی۔ اس بزرگ بامرتبہ فرشتے نے جو فرشتوں کا سردار ہے تیرے دل پر اس پاک اور بہتر کلام اللہ کو نازل فرمایا ہے جو ہر طرح کے میل کچیل سے کمی زیادتی سے نقصان اور کجی سے پاک ہے۔ تاکہ تو اللہ کے مخالفین کو گہنگاروں کو اللہ کی سزا سے بچاؤ کرنے کی رہبری کرسکے۔ اور تابع فرمان لوگوں کو اللہ کی مغفرت ورضوان کی خوشخبری پہنچاسکے۔ یہ کھلی فصیح عربی زبان میں ہے۔ تاکہ ہر شخص سمجھ سکے پڑھ سکے۔ کسی کا عذر باقی نہ رہے اور ہر ایک پر قرآن کریم اللہ کی حجت بن جائے ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) کے سامنے نہایت فصاحت سے ابر کے اوصاف بیان کئے جسے سن کر صحابہ کہہ اٹھے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ تو کمال درجے کے فصیح وبلیغ زبان بولتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بھلا میری زبان ایسی پاکیزہ کیوں نہ ہوگی، قرآن بھی تو میری زبان میں اترا ہے فرمان ہے آیت ( بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ\019\05ۭ ) 26 ۔ الشعراء :195) امام سفیان ثوری (رح) فرماتے ہیں وحی عربی میں اتری ہے یہ اور بات ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کے لئے ان کی زبان میں ترجمہ کردیا۔ قیامت کے دن سریانی زبان ہوگی ہاں جنتیوں کی زبان عربی ہوگی ( ابن ابی حاتم)