النمل آية ۱
طٰسٓ ۚ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَكِتَابٍ مُّبِيْنٍۙ
طاہر القادری:
طا، سین (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، یہ قرآن اور روشن کتاب کی آیتیں ہیں،
English Sahih:
Ta, Seen. These are the verses of the Quran [i.e., recitation] and a clear Book.
1 Abul A'ala Maududi
ط س یہ آیات ہیں قرآن اور کتاب مبین کی
2 Ahmed Raza Khan
یہ آیتیں ہیں قرآن اور روشن کتاب کی
3 Ahmed Ali
طسۤ یہ آیتیں قرآن کی اور کتاب روشن کی ہیں
4 Ahsanul Bayan
طس، یہ آیتیں ہیں قرآن کی (یعنی واضح) اور روشن کتاب کی۔
نَمْل،چیو نٹی کو کہتے ہیں۔ اس سورت میں چیونٹیوں کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اس کو سورہ نمل کہا جاتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ٰطٰسٓ۔ یہ قرآن اور روشن کتاب کی آیتیں ہیں
6 Muhammad Junagarhi
طٰس، یہ آیتیں ہیں قرآن کی (یعنی واضح) اور روشن کتاب کی
7 Muhammad Hussain Najafi
طا۔ سین۔ یہ قرآن واضح کتاب کی آیتیں ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
طسۤ یہ قرآن اور روشن کتاب کی آیتیں ہیں
9 Tafsir Jalalayn
طس، یہ قرآن اور کتاب روشن کی آیتیں ہیں
آیت نمبر 1 تا 14
ترجمہ : طس اس کی مراد اللہ ہی بہتر جانتا ہے یہ آیتیں ہیں قرآن کی اور کتاب مبین کی یعنی حق کو باطل سے ممتاز کرنے والی کتاب کی، زیادتی صفت کے ساتھ (القرآن) پر عطف ہے، وہ ہدایت ہے یعنی گمراہی سے ہدایت کرنے والی ہے اور مومنین یعنی اس کی تصدیق کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری ہے، وہ (مومن) جو نماز قائم کرتے ہیں یعنی نماز کو اس کے طریقہ کے مطابق ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں (یعنی) دلیل کے ساتھ اس پر یقین رکھتے ہیں، اور (ھم) مبتداء اور اس کی خبر (یوقنون) کے درمیان (بالآخرۃ) کے فصل کی وجہ سے ھم کا اعادہ کیا گیا ہے جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کیلئے ان کے اعمال قبیحہ کو مزین کردیا ہے، خواہش نفس کی آمیزش کی وجہ سے حتی کہ وہ برے اعمال کو بھی اچھے سمجھتے ہیں سو وہ بھٹکتے پھرتے ہیں (یعنی) وہ ان اعمال میں متحیر ہیں ہمارے نزدیک قبیح ہونے کی وجہ سے یہی ہیں وہ لوگ جن کے لئے بڑا عذاب ہے یعنی دنیا میں سخت عذاب ہے (وہ) قتل و قید ہے اور وہ لوگ آخرت میں بھی سخت خسارہ میں ہیں ان کے دائمی عذاب کی طرف لوٹنے کی وجہ سے یقیناً آپ کو حکمت والے علم والے کی طرف سے قرآن مشقتوں کے ساتھ دیا جا رہا ہے اس وقت کو یاد کیجئے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے اہل (یعنی) بیوی سے مدین سے مصر واپسی کے وقت کہا تھا، میں نے دور سے آگ ریکھی ہے وہاں سے یا تو راستہ کی کوئی خبر لیکر آیا (اور حضرت موسیٰ علیہ السلام) راستہ بھول گئے تھے یا کوئی جلتا ہوا شعلہ ہی لے آؤں (بِشِھَابٍ قَبَس) اضافت بیانیہ کے ساتھ، اور ترک اضافت کے ساتھ بھی ہے، یعنی لکڑی یا رسی کے سرے میں آگ کا شعلہ تاکہ تم تاپو اور طا افتعال کی تا سے بدلی ہوئی ہے اور (تَصْطَلُوْنَ ) صَلِیَ بالنار کسرۂ لام اور فتحہ لام سے مشتق ہے، سردی سے بچاؤ حاصل کیا جب وہاں پہنچے تو آواز دی گئی بابرکت ہے وہ جو اس آگ میں ہے یعنی موسیٰ اور وہ بھی جو اس کے پاس ہے یعنی ملائکہ یا اس کے برعکس اور بارک متعدی بنفسہٖ ہے اور متعدی بالحرف بھی، اور فی کے بعد (لفظ) مکان محذوف ہے اور اللہ رب العالمین پاک ہے (یہ جملہ) بھی ان جملوں کے ہے جن کے ذریعہ ندادی گئی، اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ جملہ عیوب سے پاک ہے اے موسیٰ بات یہ ہے کہ میں اللہ ہوں زبردست حکمت والا اور تم اپنا عصا ڈالو چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عصا ڈال دیا سو جب موسیٰ نے اس کو اس طرح حرکت کرتے دیکھا گویا کہ وہ سپولیا ہے یعنی پتلا سانپ ہے تو وہ (موسیٰ ) پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پلٹ کر بھی نہ دیکھا ارشاد ہوا اے موسیٰ اس سے ڈرو نہیں ہمارے حضور پیغمبر سانپ وغیرہ سے ڈرا نہیں کرتے ہاں مگر جس نے اپنے اوپر ظلم کیا پھر برائی کے بعد برائی کی جگہ نیکی کرے یعنی توبہ کرے تو میں مغفرت والا رحمت والا ہوں تو بہ کو قبول کروں گا اور اس کی مغفرت کر دوں گا اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں یعنی (اپنی) قمیص کے گریبان میں داخل کیجئے اپنے گندمی رنگ کے برخلاف وہ بلا کسی مرض کے چمکدار ہو کر نکلے گا یعنی برص وغیرہ کے بغیر اس میں ایسی چمک ہوگی کہ آنکھوں کو خیرہ کر دے گا (یہ دو معجزے) ان نو معجزوں میں سے ہیں جن کو لیکر فرعون اور اس کی قوم کے پاس بھیجا جا رہا ہے وہ بلاشبہ حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہیں جب ان لوگوں کے پاس ہمارے آنکھیں کھولنے والے واضح اور روشن معجزے پہنچے تو وہ لوگ کہنے لگے یہ صریح یعنی کھلا ہوا جادو ہے اور ان کا انکار کردیا یعنی اقرار نہیں کیا حالانکہ ان کے دل یقین کرچکے تھے یعنی ان کو اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور یہ بما جاء بھا موسیٰ سے انکار ایمان سے ظلم اور تکبر کے طور پر تھا بما جاء موسیٰ کا تعلق الجحد سے ہے پس آپ دیکھ لیجئے ان مفسدوں کا کیسا انجام ہوا جیسا کہ آپ ان کی ہلاکت سے واقف ہیں۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : عَطْفٌ بزیادۃِ صفۃٍاس عبارت سے مفسر علام کا مقصد ایک سوال کا جواب دینا ہے سوال یہ ہے کتاب کا عطف القرآن پر عطف الشئ علی نفسہٖ کے قبیل سے ہے اسلئے کہ دونوں ہم معنی ہیں لہٰذا اس عطف کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
جواب : جب معطوف کسی صفت زائد پر مشتمل ہو تو عطف فائدہ سے خالی نہیں ہوتا یہاں معطوف یعنی کتاب صفت مبین کے ساتھ متصف ہے یہ عطف بلا فائدہ نہ ہوا۔ قولہ : یُوْتُوْنَ ایتاءٌ سے مضارع جمع مذکر غائب معروف ہے وہ دیتے ہیں۔ قولہ : وَھُمْ بالآخرۃِ ھُمْ یُؤقِنُونَ ، ھم مبتداء یوُقِنُونَ اس کی خبر بالآخرۃ یوقنونَ کا متعلق مقدم مبتداء اور خبر کے درمیان جار مجرور کا فصل ہونے کی وجہ سے ھم کا اعادہ کیا گیا ہے تاکہ خبر کا مبتداء کے ساتھ صورۃً اتصال ہوجائے، مفسر علام نے واُعِیْدَھم الخ کا اضافہ اسی مقصد کے لئے کیا ہے۔
قولہ : یَعْمَھُوْنَ عَمْہٌ سے مشتق ہے جس کے معنی حیرت اور تردد کے ہیں۔ قولہ : لِقُبْحِھَا عندناَ اس عبارت سے یہ شبہ دور کرنا ہے کہ کافروں کے اپنے افعال میں متحیر اور متردد ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ جبکہ وہ سوچ سمجھ کر اپنے اختیار تمیزی کے ساتھ کفر اور اعمال کفریہ کو اختیار کرتے ہیں۔
جواب : ہمارے نزدیک متحیر ہیں نہ کہ اپنے نزدیک مطلب یہ ہے کہ تزئین شیطان اور اخبار رحمٰن میں تعارض کی وجہ سے متحیر ہیں اور ان کے اندر اتنی بصیرت نہیں کہ حسن اور قبیح کے درمیان فرق کرسکیں اور وہ اس میں بھی متحیر رہتے ہیں کہ کفر اور اعمال کفریہ پر ہی قائم و دائم رہیں یا ترک کردیں، مگر یہ تفسیر خلجان اور شبہ سے خالی نہیں ہے اس لئے کہ جب کفار اپنے اعمال کو حسن سمجھتے ہیں تو پھر ان کے متحیر ہونے کے کوئی معنی نہیں ہیں اس لئے بہتر تفسیر وہ ہے جو دیگر حضرات نے کی ہے وہ یہ کہ یَعْمَھُوْنَ یَسْتَمِرُّوْنَ ویداوِمُوْنَ علَیْھَا کے معنی میں ہے (کما ذکرہ ابو سعود) اور ابن عباس (رض) اور قتادہ نے یَعْمَھُوْنَ کی تفسیر یَلْعبُوْنَ سے کی ہے (جمل ملخصاً ) ۔
قولہ : لِمَصِیْرِھم یہ اَخْسرُوْنَ کی علت ہے، اَخْسَرُ اسم تفضیل مبالغہ کے لئے ہے نہ کہ تشریک کے لئے اس لئے کہ مومنوں کے لئے خسران نہیں ہے وَھُمْ فی الآخرۃِ ھُمُ الاَخْسَرُوْنَ کا اعراب وہی ہے جو ھم بالآخرۃِ ھم یوقنونَ کا ہے، بعض حضرات نے کہا ہے کہ مفضل علیہ خود کفار ہی ہیں مگر زمان و مکان کے اختلاف کے ساتھ یعنی کفار دنیا کے اعتبار سے آخرت میں زیادہ خسارہ میں ہوں گے۔
قولہ : لَتُلَقّٰی تجھے تلقین کیا جاتا ہے، تجھے سکھلایا جاتا ہے، واحد مذکر حاضر مضارع مجہول، اصل میں تُتَلَقّٰی تھا ایک تا کو حذف کردیا گیا ہے، یہ متعدی بدو مفعول ہے پہلا مفعول قائم مقام فاعل ہے اور دوسرا مفعول القرآن ہے۔ قولہ : بِشِدَّۃٍ اس لئے کہ اس میں تکالیف شاقہ ہیں یعنی نزول کے وقت بھی مشقت ہوتی ہے اور عمل کے وقت بھی۔ قولہ : بِشِدَّۃٍ اس لئے کہ اس میں تکالیف شاقہ ہیں یعنی نزول کے وقت بھی مشقت ہوتی ہے اور عمل کے وقت بھی۔
قولہ : بالاِضافۃِ پیش نظر نسخہ جلالین میں ترک اضافت کے ساتھ ہے لہٰذا اس صورت میں قبَسٍ بمعنی مقبوس شھابٍ سے بدل ہے یا نعت ہے اور اگر اضافت کے ساتھ ہو جیسا کہ موجودہ نسخہ میں ہے تو یہ اضافت بیانیہ ہوگی۔ قولہ : شُعلۃِ نارٍ یہ مضاف اور مضاف الیہ دونوں کی تفسیر ہے یعنی شہاب بمعنی شعلہ اور قبس بمعنی نارٍ ۔ قولہ : فتیلۃ بتی، بٹی ہوئی چیز۔ قولہ : نُودِیَ اس کا نائب فاعل موسیٰ (علیہ السلام) ہیں، اس صورت میں اَنْ تفسیر یہ ہے اس لئے کہ ماقبل میں نودِیَ بمعنی قیل موجود ہے، مطلب یہ ہے اَن تفسیر یہ مراد لینے کے لئے ضروری ہے کہ ماقبل میں قول یا قول سے مشتق کوئی صیغہ ہو یا قول کے معنی دینے والا کوئی صیغہ ہو، چناچہ اَن تفسیریہ سے پہلے اگرچہ قول یا اس کے مشتقات میں سے کوئی نہیں ہے مگر نودِیَ جو کہ قول کے ہم معنی ہے موجود ہے، لہٰذا یہ اَن تفسیریہ ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ مخففہ عن الثقیلہ ہو اور اس کا اسم ضمیر شان ہو اور بورک اس کی خبر ہو، اور اَنْ مصدریہ بھی ہوسکتا ہے حذف حرف جر کے ساتھ ای بأن اور مدخول اَن مصدر کے معنی میں ہو، ای نودِیَ بِبَرکَۃ مَنْ فی النَّارِ بَارَکَ متعدی بنفسہٖ بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے بارک اللہ یہ متعدی بنفسہٖ کی مثال ہے یا بارک الرجلَ آدمی کے لئے برکت کی دعا کی اور حرف یعنی لام وفی وعلیٰ کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے متعدی بالحرف کی مثالیں بَارَکَ اللہ لَکَ ، بارَکَ اللہُ فِیکَ ، بَارَکَ اللہ علَیْکَ ۔
قولہ : مِن جملۃِ ما نُوْدِیَ مطلب یہ ہے کہ جس چیز کی نداء دی گئی اس میں جملہ تنزیہیہ بھی ہے یعنی سبحان اللہ رب العالمین۔ قولہ : تَھْتَزُّ یہ رآھا کی ضمیر مفعولی سے حال ہے وَلیّٰ مُدْبرًا لمّا کا جواب ہے۔ قولہ : اِلاَّ لکنّ مَن ظَلَمَ مفسر علام نے الاَّ کی تفسیر لکنّ سے کرکے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ مستثنیٰ منقطع ہے مطلب یہ ہے کہ مَنْ ظَلَمَ سے مراد غیر مرسلین ہیں۔ قولہ : مَنْ ظَلَمَ مبتداء ہے اور فاِنّی غفور رّحیم اس کی خبر ہے۔ قولہ : مُبْصِرَۃً آیات سے حال ہے اور آیات کی جانب مبصرۃ کی اسناد مجازی ہے اس لئے کہ آیات دیکھنے والی نہیں ہوتیں بلکہ ان کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے جیسا کہ نھرٌ جارٍ میں اسناد مجازی ہے بعض مفسرین نے فرمایا کہ مبصرۃ اسم فاعل بمعنی اسم مفعول ہے جیسے دافِقٌ بمعنی مَدْفوقٌ۔
قولہ : اِسْتَیْقَھَتْھَا اَنْفُسُھُمْ یہ جَحَدُوْا کے واؤ سے بتقدیر قد حال ہے۔ قولہ : ای تَیَقّنُوا اس سے اشارہ کردیا ہے کہ اِسْتَیْقَنَتْھَا میں سین زائدہ ہے۔ قولہ : ظلمًا وعُلُوًّا اس کا تعلق جَحَدُوْا سے ہے یعنی ظلمًا وعلُوًا انکار کی علت ہے۔ قولہ : کَیْفَ کانَ عاقبۃ المفسدین کَیْفَ ، کانَ کی خبر مقدم ہے اور عاقبۃ المفسدین اسم مؤخر ہے اور پورا جملہ اُنْظُر بمعنی تفکر سے متعلق ہونے کی وجہ سے محل نصب میں ہے۔
تفسیر و تشریح
طٰسٓ اس کی حقیقی مراد تو اللہ ہی کو معلوم ہے، اس صورت میں چونکہ چیونٹیوں کا ایک واقعہ مذکور ہے اور چیونٹی کو عربی میں
نملٌ کہتے ہیں اس لئے اس سورت کا نام سورة نمل رکھا گیا ہے اس سورة کا دوسرا نام سورة سلیمان بھی ہے۔ (روح المعانی)
زینا لھم اعمالھم یہ گناہوں کی نحوست اور وبال ہی ہے کہ برائیں اچھی معلوم ہونے لگتی ہیں، آخرت پر عدم ایمان اس کا بنیادی سبب ہے زَیَّاَّر میں نسبت باری تعالیٰ کی طرف کی گئ ہے یہ اس لئے ہے کہ کوئی بھی کام باری تعالیٰ کی مشئیت اور اس کے ارادہ کے بغیر نہیں ہوسکتا مگر مشیئت اور ارادہ کے لئے رضا مندی ضروری نہیں ہے جیسا کہ کڑوی دوا انسان اپنے ارادہ سے تو پیتا ہے مگر رضا اور خوش دلی سے نہیں، تاہم اللہ تعالیٰ کا دستور یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نیک اور بد دونوں راستے واضح فرما دئیے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَھَدَیْنَاہٗ النَّجْدَیْن البتہ انسان اپنے ارادہ اور اختیار سے جو راستہ بھی اختیار کرتا ہے خواہ نیک ہو یا بد اللہ تعالیٰ اس کے لئے وہی راستہ آسان فرما دیتے ہیں۔
واذکر اذ۔۔۔۔ لاھلہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے اپنی اہلیہ کو ساتھ لیکر واپس مصر آرہے تھے، تاریک رات میں راستہ بھول گئے تھے اور سردی کا موسم تھا سردی سے بچاؤ کے لئے آگ کی ضرورت تھی، دور سے آپ کو کوہ طور پر آگ کے شعلے نظر آئے تو آپ اس خیال سے کہ آگ کے پاس اگر کوئی شخص ہوا تو اس سے راستہ معلوم کرلوں گا ورنہ آگ تو، لے ہی آؤں گا تاکہ اس کے ذریعہ سردی سے بچاؤ حاصل کیا جاسکے چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) آگ کے شعلو (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب پہنچے تو ایک سرسبز درخت سے شعلے بلند ہوتے نظر آئے یہ شعلے حقیقت میں آگ نہیں تھے یہ اللہ کا نور تھا۔
فلما جاءھا۔۔۔۔ النار، چناچہ جب موسیٰ (علیہ السلام) آگ کے پاس پہنچے تو ندا آئی کہ مبارک ہے وہ جو آگ میں ہے اور وہ جو اس کے آس پاس ہے، نودِیَ کا نائب فاعل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں پکارنے والے حق تعالیٰ شانہ بھی ہوسکتے ہیں اور ملائکہ بھی، بورِکَ بمعنی تبارکَ ہے مَنْ فی النار میں مَنْ سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی ہوسکتے ہیں جیسا کہ مفسر علام کی رائے ہے اور وہ درخت بھی مراد ہوسکتا ہے جس پر آگ نظر آئی تھی نور الٰہی اور ذات حق شانہ تعالیٰ بھی ہوسکتی ہے (خلاصۃ التفاسیر) نار سے نور مراد ہے ابن کثیر نے حضرت ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ درخت پر آگ نہیں تھی بلکہ نور تھا جس کی چمک بڑھتی جاتی تھی، اگر مَنْ فی النار سے حق تعالیٰ شانہ یا اس کا نور یا درخت مراد ہو تو حَولَہٗ سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ملائکہ مراد ہوں گے اور اگر مَنْ فی النَّار سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مراد ہوں تو مَنْ حَوْلَہٗ سے ملائکہ مراد ہوں گے اور یہی روایت اولیٰ معلوم ہوتی ہے، اور موسیٰ (علیہ السلام) کا داخل نور ہونا یا تو باعتبار کمال قرب تھا یا فنائے صادق (معالم، بحوالہ خلاصۃ التفاسیر) مذکورہ توجیہات میں سے بعض سے خدا کے لئے جسم اور صفت حادث سے متصف ہونے کا یا حلول کا شبہ پیدا ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا سبحٰن اللہ رب العٰلمینَ اللہ تعالیٰ تمام تحتیلات و ممکنات و حوادثات سے منزہ اور پاک ہے، آواز سننے کی جو کیفیت تفسیر بحر محیط میں ابو حیان نے اور روح المعانی میں آلوسی (رح) نے نقل کی ہے وہ یہ ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے آواز اس طرح سنی کہ ہر جانب سے یکساں آرہی تھی جس کی کوئی جہت متعین نہیں ہوسکتی تھی، اور سننا بھی ایک عجیب انداز سے ہوا کہ صرف کان نہیں بلکہ جس کے تمام اعضاء سن رہے تھے جو ایک معجزہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
وَاَلْقِ عَصَاکَ (الآیۃ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر عالم الغیب نہیں ہوتے ورنہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی ہاتھ کی لاٹھی سے نہ ڈرتے، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ طبعی خوف نبوت کے منافی نہیں ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان کی لاٹھی سانپ بن کر جھوم رہی ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگے اور مڑ کر بھی نہ دیکھا، یہ خوف طبعی تھا جانٌّ ہلکے سانپ کو کہتے ہیں کہیں پر جان کہا گیا ہے اور کہیں پر ثعبانٌ، ثعبان بڑے سانپ (اژد ہے) کو کہتے ہیں، دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے اس لئے ابتداءٍ جانّ اور انتہاءً ثعبان ہوگیا تھا، یا جسم و جثہ کے اعتبار سے ثعبان تھا مگر سرعت حرکت کے اعتبار سے جانٌّ تھا۔
اِلاَّ مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوْءٍ فَاِنِّی غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ اس سے پہلی آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ عصاء کا ذکر تھا جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ڈر کے مارے پیٹھ پھیر کر بھاگنے کا ذکر ہے اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دوسرے معجزے یدبیضاء کا ذکر ہے درمیان میں اس استثناء کا ذکر کس لئے کیا ہے ؟ اور یہ استثناء منقطع ہے یا متصل ؟ اس میں حضرات مفسرین کے اقوال مختلف ہیں بعض حضرات نے استثناء کو منقطع قرار دیا ہے اس صورت میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ پہلی آیت میں انبیاء کرام پر خوف نہ ہونے کا ذکر تھا برسبیل تذکرہ ان لوگوں کا بھی ذکر آگیا جن پر خوف طاری ہونا چاہیے، یعنی وہ لوگ جن سے کوئی خطا سرزد ہوئی پھر توبہ کرکے نیک اعمال اختیار کرلئے ایسے حضرات کی اگرچہ اللہ تعالیٰ خطا معاف کردیتے ہیں مگر معافی کے بعد بھی گناہ کے بعض آثار باقی رہنے کا احتمال ہے اس سے یہ حضرات ہمیشہ خائف رہتے ہیں، اور اگر اس استثناء کو متصل قرار دیں تو معنی آیت کے یہ ہوں گے کہ اللہ کے رسول ڈرا نہیں کرتے بجز ان کے کہ جن سے کوئی خطا (یعنی کوئی لغزش سرزد ہوگئی ہو) پھر اس سے بھی توبہ کرلی ہو تو اس توبہ سے یہ لغزش معاف ہوجاتی ہے اور صحیح تر بات یہ ہے کہ انبیاء سے جو لغزش سرزد ہوئی ہے، وہ درحقیقت گناہ ہی نہیں ہے نہ کبیرہ نہ صغیرہ البتہ صورت گناہ کی تھی ورنہ درحقیقت خطائے اجتہادی تھی، اس مضمون میں اس طرف بھی اشارہ پایا گیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے جو قبطی کو قتل کرنے کی لغزش ہوگئی تھی وہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دی مگر اس کا یہ اثر رہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر خوف طاری ہوگیا اگر یہ لغزش نہ ہوئی ہوتی تو یہ وقتی خوف بھی نہ ہوتا۔ (قرطبی بحوالہ معارف)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو قرآن کی عظمت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے اور ایک ایسی دلیل بیان کرتا ہے جو اس کی تعظیم پر دلالت کرتی ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ تِلْكَ آيَاتُ الْقُرْآنِ وَكِتَابٍ مُّبِينٍ ﴾ ” یہ قرآن اور کتاب واضح کی آیات ہیں۔“ یعنی یہ سب سے بڑی نشانی، سب سے قوی ثبوت اور سب سے واضح دلائل ہیں۔ نیز جلیل ترین مطالب، کو بیان کرنے والی، سب سے افضل مقاصد، بہترین اعمال اور پاکیزہ ترین اخلاق پر سب سے واضح دلیل ہے۔ یہ آیات ہیں جو سچی خبروں، بہترین احکام، تمام گندے اعمال اور مذموم اخلاق کی نہی پر دلالت کرتی ہیں۔ یہ آیات اپنے واضح اور ظاہر ہونے کے اعتبار سے روشن بصیرت کے لئے ایسے ہی ہیں جیسے چشم بینا کے لئے سورج۔ یہ ایسی آیات ہیں جو ایمان پر دلالت کرتی ہیں اور ایمان تک پہنچنے کی دعوت دیتی ہیں۔ ماضی اور مستقبل کے واقعات کی خبر دیتی ہیں۔ یہ ایسی آیات ہیں جو رعب عظیم کے اسمائے حسنیٰ، صفات عالیہ اور افعال کاملہ کے ذریعے سے اس کی معرفت کی دعوت دیتی ہیں۔ یہ ایسی آیات ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور اس کے اولیاء کی پہچان کروائی اور ان کے اوصاف بیان کئے گویا کہ ہم ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ مگر اس کے باوجود بہت سے لوگوں نے ان آیات سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا، تمام معاندین حق نے ان کی راہنمائی کو قبول نہ کیا، تاکہ یہ آیات الٰہی ان لوگوں سے محفوظ رہیں جن میں کوئی بھلائی اور کوئی صلاح نہیں ہے جن کے دل طہارت سے بے بہرہ ہیں۔ ان آیات سے صرف وہی لوگ راہنمائی حاصل کرتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ مختص کیا ہے، جن کا باطن پاک صاف اور جن کے قلوب نور ایمان سے منور ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
Tua-Seen . yeh Quran ki aur aik aesi kitab ki aayaten hein jo haqeeqat khol denay wali hai ,
12 Tafsir Ibn Kathir
حروف مقطعہ جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان پر پوری بحث سورة بقرہ کے شروع میں ہم کرچکے ہیں۔ یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ قرآن کریم جو کھلی ہوئی واضح روشن اور ظاہر کتاب ہے۔ یہ اسکی آیتیں ہیں جو مومنوں کے لئے ہدایت و بشارت ہیں۔ کیونکہ وہی اس پر ایمان لاتے ہیں اس کی اتباع کرتے ہیں اسے سچا جانتے ہیں اس میں حکم احکام ہیں ان پر عمل کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو نمازیں صحیح طور پر پڑھتے ہیں فرضوں میں کمی نہیں کرتے اسی طرح فرض زکوٰۃ بھی، دار آخرت پر کامل یقین رکھتے ہیں موت کے بعد کی زندگی اور جزا سزا کو بھی مانتے ہیں۔ جنت ودوزخ کو حق جانتے ہیں۔ چناچہ اور روایت میں بھی ہے کہ ایمانداروں کے لئے تو یہ قرآن ہدایت اور شفا ہے اور بےایمانوں کے کان تو بہرے ہیں ان میں روئی دئیے ہوئے ہیں۔ اس سے خوشخبری پرہیزگاروں کو ہے اور بدکرداروں کو اس میں ڈراوا ہے۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ جو اسے جھٹلائیں اور قیامت کے آنے کو نہ مانیں ہم بھی انہیں چھوڑ دیتے ہیں ان کی برائیاں انہیں اچھی لگنے لگتی ہیں۔ اسی میں وہ بڑھتے اور پھولتے پھلتے رہتے ہیں اور اپنی سرکشی اور گمراہی میں بڑھتے رہتے ہیں۔ انکی نگاہیں اور دل الٹ جاتے ہیں انہیں دنیا اور آخرت میں بدترین سزائیں ہونگی اور قیامت کے دن تمام اہل محشر میں سب سے زیادہ خسارے میں یہی رہیں گے بیشک آپ اے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے ہی قرآن لے رہے ہیں۔ ہم حکیم ہیں امرو نہی کی حکمت کو بخوبی جانتے ہیں علیم ہیں چھوٹے بڑے تمام کاموں سے بخوبی خبردار ہیں۔ پس قرآن کی تمام خبریں بالکل صدق و صداقت والی ہیں اور اس کے حکم احکام سب کے سب سراسر عدل والے ہیں جیسے فرمان ہے آیت ( وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ۭلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ\011\05 ) 6 ۔ الانعام :115)