Skip to main content

فَلَمَّا جَاۤءَهُمُ الْحَـقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْا لَوْلَاۤ اُوْتِىَ مِثْلَ مَاۤ اُوْتِىَ مُوْسٰى ۗ اَوَلَمْ يَكْفُرُوْا بِمَاۤ اُوْتِىَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُ ۚ قَالُوْا سِحْرٰنِ تَظَاهَرَا ۗ وَقَالُوْۤا اِنَّا بِكُلٍّ كٰفِرُوْنَ

But when
فَلَمَّا
تو جب
came to them
جَآءَهُمُ
آگیا ان کے پاس
the truth
ٱلْحَقُّ
حق
from Us
مِنْ
سے
from Us
عِندِنَا
ہمارے پاس (سے)
they said
قَالُوا۟
انہوں نے کہا
"Why not
لَوْلَآ
کیوں نہ
he was given
أُوتِىَ
وہ دیا گیا
(the) like
مِثْلَ
مانند اس کے
(of) what
مَآ
جو
was given
أُوتِىَ
دیئے گئے
(to) Musa?"
مُوسَىٰٓۚ
موسیٰ
Did not
أَوَلَمْ
کیا بھلا نہیں
they disbelieve
يَكْفُرُوا۟
وہ انکار کرچکے
in what
بِمَآ
ساتھ اس کے جو
was given
أُوتِىَ
دیئے گئے
(to) Musa
مُوسَىٰ
موسیٰ
before?
مِن
سے
before?
قَبْلُۖ
اس سے پہلے
They said
قَالُوا۟
انہوں نے کہا
"Two magic (works)
سِحْرَانِ
وہ جادو ہیں
supporting each other"
تَظَٰهَرَا
ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں
And they said
وَقَالُوٓا۟
اور انہوں نے کہا
"Indeed, we
إِنَّا
بیشک ہم
in all
بِكُلٍّ
ساتھ ہر
(are) disbelievers"
كَٰفِرُونَ
ایک کے انکاری ہیں

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

مگر جب ہمارے ہاں سے حق ان کے پاس آ گیا تو وہ کہنے لگے "کیوں نہ دیا گیا اِس کو وہی کچھ جو موسیٰؑ کو دیا گیا تھا؟" کیا یہ لوگ اُس کا انکار نہیں کر چکے ہیں جو اس سے پہلے موسیٰؑ کو دیا گیا تھا؟ انہوں نے کہا "دونوں جادوگر ہیں جو ایک دُوسرے کی مدد کرتے ہیں" اور کہا "ہم کسی کو نہیں مانتے"

English Sahih:

But when the truth came to them from Us, they said, "Why was he not given like that which was given to Moses?" Did they not disbelieve in that which was given to Moses before? They said, "[They are but] two works of magic supporting each other, and indeed we are, in both, disbelievers."

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

مگر جب ہمارے ہاں سے حق ان کے پاس آ گیا تو وہ کہنے لگے "کیوں نہ دیا گیا اِس کو وہی کچھ جو موسیٰؑ کو دیا گیا تھا؟" کیا یہ لوگ اُس کا انکار نہیں کر چکے ہیں جو اس سے پہلے موسیٰؑ کو دیا گیا تھا؟ انہوں نے کہا "دونوں جادوگر ہیں جو ایک دُوسرے کی مدد کرتے ہیں" اور کہا "ہم کسی کو نہیں مانتے"

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

پھر جب ان کے پاس حق آیا ہماری طرف سے بولے انہیں کیوں نہ دیا گیا جو موسیٰ کو دیا گیا کیا اس کے منکر نہ ہوئے تھے جو پہلے موسیٰ کو دیا گیا بولے دو جادو ہیں ایک دوسرے کی پشتی (امداد) پر، اور بولے ہم ان دونوں کے منکر ہیں

احمد علی Ahmed Ali

پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آ پہنچا تو کہنے لگے کیوں نہیں دیا گیا جیسا موسی کو دیا گیا تھا کیا انہوں نے اس چیز کا انکار نہیں کیا تھا جو موسیٰ کو اس سے پہلے دی گئی تھی کہنے لگے دونوں جادو گر آپس میں موافق ہیں اور کہا ہم کسی کو بھی نہیں مانتے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آپہنچا تو کہتے ہیں کہ یہ وہ کیوں نہیں دیا گیا جیسے دیئے گئے تھے موسیٰ (علیہ السلام) (١) اچھا تو کیا موسیٰ (علیہ السلام) کو جو کچھ دیا گیا تھا اس کے ساتھ لوگوں نے کفر نہیں کیا تھا (٢) صاف کہا تھا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں جو ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور ہم تو ان سب کے منکر ہیں۔

٤٨۔١ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سے معجزات، جیسے لاٹھی کا سانپ بن جانا اور ہاتھ کا چمکنا وغیرہ
٤٨۔٢ یعنی مطلوبہ معجزات، اگر دکھا بھی دیئے جائیں تو کیا فائدہ، جنہیں ایمان نہیں لانا، وہ ہر طرح کی نشانیاں دیکھنے کے باوجود ایمان سے محروم ہی رہیں گے۔ کیا موسیٰ علیہ السلام کے مذکورہ معجزات دیکھ کر فرعونی مسلمان ہوگئے تھے، انہوں نے کفر نہیں کیا؟ یا یکفُروا کی ضمیر قریش مکہ کی طرف ہے یعنی کیا انہوں نے نبوت محمدیہ سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کفر نہیں کیا۔
٤٨۔٣ پہلے مفہوم کے اعتبار سے دونوں سے مراد حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام ہوں گے اور دوسرے مفہوم اس سے قرآن اور تورات مراد ہونگے یعنی دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور ہم سب کے یعنی موسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ہیں۔ (فتح القدیر)

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

پھر جب اُن کے پاس ہماری طرف سے حق آپہنچا تو کہنے لگے کہ جیسی (نشانیاں) موسٰی کو ملی تھیں ویسی اس کو کیوں نہیں ملیں۔ کیا جو (نشانیاں) پہلے موسٰی کو دی گئی تھیں اُنہوں نے اُن سے کفر نہیں کیا۔ کہنے لگے کہ دونوں جادوگر ہیں ایک دوسرے کے موافق۔ اور بولے کہ ہم سب سے منکر ہیں

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آپہنچا تو کہتے ہیں کہ یہ وه کیوں نہیں دیا گیا جیسے دیئے گئے تھے موسیٰ (علیہ السلام) اچھا تو کیا موسیٰ (علیہ السلام) کو جو کچھ دیا گیا تھا اس کے ساتھ لوگوں نے کفر نہیں کیا تھا، صاف کہا تھا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں جو ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور ہم تو ان سب کے منکر ہیں

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

جب ہماری طرف سے ان کے پاس حق آگیا (آخری برحق رسول آگیا) تو کہنے لگے اس (رسول) کو وہ کچھ کیوں نہ دیا گیا جو موسیٰ کو دیا گیا تھا کیا انہوں نے اس کا انکار نہیں کیا تھا؟ وہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں جادوگر ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور کہتے تھے کہ ہم ہر ایک کے منکر ہیں۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

پھر اس کے بعد جب ہماری طرف سے حق آگیا تو کہنے لگے کہ انہیں وہ سب کیوں نہیں دیا گیا ہے جو موسٰی کو دیا گیا تھا تو کیا ان لوگوں نے اس سے پہلے موسٰی کا انکار نہیں کیا اور اب تو کہتے ہیں کہ توریت اور قرآن جادو ہے جو ایک دوسرے کی تائید کرتے ہیں اور ہم دونوں ہی کا انکار کرنے والے ہیں

طاہر القادری Tahir ul Qadri

پھر جب ان کے پاس ہمارے حضور سے حق آپہنچا (تو) وہ کہنے لگے کہ اس (رسول) کو ان (نشانیوں) جیسی (نشانیاں) کیوں نہیں دی گئیں جو موسٰی (علیہ السلام) کو دی گئیں تھیں؟ کیا انہوں نے ان (نشانیوں) کا انکار نہیں کیا تھا جو اس سے پہلے موسٰی (علیہ السلام) کو دی گئی تھیں؟ وہ کہنے لگے کہ دونوں (قرآن اور تورات) جادو ہیں (جو) ایک دوسرے کی تائید و موافقت کرتے ہیں، اور انہوں نے کہا کہ ہم (ان) سب کے منکر ہیں،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

پہلے بیان ہوا کہ اگر نبیوں کے بھیجنے سے پہلے ہی ہم ان پر عذاب بھیج دیتے تو ان کی یہ بات رہ جاتی کہ اگر رسول ہمارے پاس آتے تو ہم ضرور ان کی مانتے اس لیے ہم نے رسول بھیجے۔ بالخصوص رسول اکرم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آخر الزمان رسول بنا کر بھیجا۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انکے پاس پہنچے تو انہوں نے آنکھیں پھیر لیں منہ موڑلیا اور تکبر عناد کیساتھ ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ کہنے لگے جیسے حضرت موسیٰ کو بہت معجزات دئے گئے تھے جیسے لکڑی اور ہاتھ طوفان ٹڈیاں جوئیں مینڈک خون اور اناج کی پھلوں کی کمی وغیرہ جن سے دشمنان الٰہی تنگ آئے اور دریا کو چیرنا اور ابر کا سایہ کرنا اور من وسلویٰ کا اتارنا وغیرہ جو زبردست اور بڑے بڑے معجزے تھے انہیں کیوں نہیں دئیے گئے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ لوگ جس واقعہ کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں اور جس جیسے معجزے طلب کر رہے ہیں یہ خود انہی معجزوں کو کلیم اللہ کے ہاتھ ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی کون سا ایمان لائے تھے ؟ جو ان کے ایمان کی تمناکرے ؟ انہوں نے تو یہ معجزے دیکھ کر صاف کہا تھا یہ دونوں بھائی ہمیں اپنے بڑوں کی تابعداری سے ہٹانا چاہتے ہیں اور اپنی بڑائی ہم سے منوانا چاہتے ہیں ہم تو ہرگز انہیں مان کر نہیں دیں گے دونوں نبیوں کو جھٹلاتے رہے آخر انجام ہلاک کردئیے گئے تو فرمایا کہ ان بڑے جو حضرت موسیٰ کے زمانہ میں تھے انہوں نے خود موسیٰ کیساتھ کفر کیا اور ان معجزوں کو دیکھ کر صاف کہہ دیا تھا کہ یہ دونوں بھائی آپس میں متفق ہو کر ہمیں زیر کرنے اور خود بڑا بننے کے لئے آئے ہیں تو ہم تو ان دونوں میں سے کسی کی بھی نہیں ماننے کے۔ یہاں گو ذکر صرف موسیٰ (علیہ السلام) کا ہے لیکن چونکہ حضرت ہارون انکے ساتھ ایسے گھل مل گئے تھے کہ گویا دونوں ایک تھے تو ایک کے ذکر کے کو دوسرے کے ذکر کے لئے کافی سمجھا، جیسے کسی شاعر کا قول ہے کہ جب میں کسی جگہ کا ارادہ کرتا ہوں تو میں نہیں جانتا کہ وہاں مجھے نفع ملے گا یا نقصان ہوگا ؟ تو یہاں بھی شاعر نے خیر کا لفظ تو کہا مگر شرط کا لفظ بیان نہیں کیونکہ خیر وشر دونوں کی ملازمت مقاربت اور مصاحبت ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہودیوں نے قریش سے کہا کہ تم یہ اعتراض حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کرو انہوں نے کیا اور جواب پاکر خاموش رہے ایک قول یہ بھی ہے کہ دونوں جادوگروں سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کی مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں لیکن اس تیسرے قول میں تو بہت ہی بعد ہے اور دوسرے قول سے بھی پہلا قول مضبوط اور عمدہ ہے اور بہت قوی ہے واللہ اعلم۔ یہ مطلب ساحران کی قرأت پر ہے اور جن کی قرأت سحران ہے وہ کہتے ہیں مراد تورات اور انجیل ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب۔ لیکن اس قرأت پر بھی ظاہری تورات و قرآن کے معنی ٹھیک ہیں کیونکہ اس کے بعد ہی فرمان اللہ ہے کہ تم ہی ان دونوں سے زیادہ ہدایت کوئی کتاب اللہ کے ہاں سے لاؤ جس کی میں تابعداری کروں۔ تورات اور قرآن کو اکثر ایک ہی جگہ میں بیان فرمایا گیا ہے۔ جیسے فرمایا آیت (قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِيْ جَاۗءَ بِهٖ مُوْسٰي نُوْرًا وَّهُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَهٗ قَرَاطِيْسَ تُبْدُوْنَهَا وَتُخْفُوْنَ كَثِيْرًا ۚ وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنْتُمْ وَلَآ اٰبَاۗؤُكُمْ ۭ قُلِ اللّٰهُ ۙ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِيْ خَوْضِهِمْ يَلْعَبُوْنَ 91؀) 6 ۔ الانعام ;91) پس یہاں تورات کے نور و ہدایت ہونے کا ذکر فرما کر پھر فرمایا آیت ( وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ\015\05ۙ ) 6 ۔ الانعام ;155) اور اس کتاب کو بھی ہم نے ہی بابرکت بناکر اتارا ہے۔ اور سورت کے آخر میں فرمایا ( ثُمَّ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَي الَّذِيْٓ اَحْسَنَ وَتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُوْنَ\015\04 ) 6 ۔ الانعام ;154) پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور فرمان ہے ( وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ\015\05ۙ ) 6 ۔ الانعام ;155) اس ہماری اتاری ہوئی مبارک کتاب کی تم پیروی کرو اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے جنات کا قول قرآن میں ہے کہ انہوں نے کہا ہم نے وہ کتاب سنی جو موسیٰ کے بعد اتاری گئی ہے جو اپنے سے پہلے کی اور الہامی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے۔ ورقہ بن نوفل کا مقولہ حدیث کی کتابوں میں مروی ہے کہ انہوں نے کہا تھا یہ وہی اللہ کے راز داں بھی دی ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد آپ کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ جس شخص نے غائر نظر سے علم دین کا مطالعہ کیا ہے اس پر یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ آسمانی کتابوں میں سب سے زیادہ عظمت و شرافت والی عزت و کرامت والی کتاب تو یہی قرآن مجید فرقان حمید ہے جو اللہ تعالیٰ حمید و مجید نے اپنے رؤف ورحیم نبی آخر الزمان پر نازل فرمائی اس کے بعد تورات شریف کا درجہ ہے جس میں ہدایت ونور تھا جس کے مطابق انیباء اور انکے ماتحت حکم احکام جاری کرتے رہے۔ انجیل تو صرف توراۃ کو تمام کرنے والی اور بعض حرام کو حلال کرنے والی تھی اس لیے فرمایا کہ ان دونوں کتابوں سے بہتر کتاب اگر تم اللہ کے ہاں سے لاؤ تو میں اس کی تابعداری کرونگا۔ پھر فرمایا کہ جو آپ کہتے ہیں وہ بھی اگر یہ نہ کریں اور نہ آپ کی تابعداری کریں تو جان لے کہ دراصل انہیں دلیل برہان کی کوئی حاجت ہی نہیں۔ یہ صرف جھگڑالو ہیں اور خواہش پرست ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ خواہش کے پابند لوگوں سے جو اللہ کی ہدایت سے خالی ہوں بڑھ کر کوئی ظالم نہیں۔ اس میں انہماک کرکے جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں وہ آخر تک راہ راست سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ہم نے ان کے لیے تفصیلی قول بیان کردیا واضح کردیا صاف کردیا اگلی پچھلی باتیں بیان کردیں قریشوں کے سامنے سب کچھ ظاہر کردیا۔ بعض مراد اس سے رفاعہ لیتے ہیں اور ان کے ساتھ کے اور نو آدمی۔ یہ رفاعہ حضرت صفیہ بن حی کے ماموں ہیں جنہوں نے تمیمیہ بن وہب کو طلاق دی تھی جن کا دوسرا نکاح عبدالرحمن بن زبیر سے ہوا تھا۔