آل عمران آية ۱۰۲
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْـتُمْ مُّسْلِمُوْنَ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہاری موت صرف اسی حال پر آئے کہ تم مسلمان ہو،
English Sahih:
O you who have believed, fear Allah as He should be feared and do not die except as Muslims [in submission to Him].
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز نہ مرنا مگر مسلمان،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو الله سے ڈرتے رہو جیسا اس سے ڈرنا چاہیئے اور نہ مرد مگر ایسے حال میں کہ تم مسملمان ہو
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو! اللہ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہیے (١) دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا
١٠٢۔١ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے احکام و فرائض پورے طور پر بجا لائے جائیں اور منہیات کے قریب نہ جایا جائے بعض کہتے ہیں کہ اس آیت سے صحابہ کرام پریشان ہوئے تو اللہ تعالٰی نے دوسری آیت نازل فرما دی اللہ سے اپنی طاقت کے مطابق ڈرو جس طرح اپنی طاقت سے ڈرنے کا حق ہے (فتح القدیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئیے اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! خدا سے اس طرح ڈرو جیساکہ ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز نہ مرو مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان ہو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو اللہ سے اس طرح ڈرو جو ڈرنے کا حق ہے اور خبردار اس وقت تک نہ مرنا جب تک مسلمان نہ ہوجاؤ
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا
آیت نمبر ١٠٢ تا ١٠٩
ترجمہ : اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا کہ اسے سے ڈرنے کا حق ہے بایں طور کہ اس کی اطاعت کی جائے اس کی نافرمانی نہ کی جائے اس کا شکر ادا کیا جائے ناشکری نہ کی جائے اور اس کو یاد رکھا جائے بھلایا نہ جائے تو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی کس کو قدرت ہے۔ تو اس حکم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے قول فاتقوا اللہ ما استطعتم سے منسوخ کردیا۔ اور تم جان نہ دینا بجز اس حال کے کہ تم مسلم موحد ہو اور اللہ کی رسی یعنی اس کے دین کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رہو اور اسلام کے بعد باہم نااتفافی نہ کرو اور اے اوس اور خزرج کے لوگو ! اپنے اوپر اللہ کے انعام کو یاد کرو جب کہ تم اسلام سے پہلے ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے قلوب میں اسلام کی وجہ سے الفت ڈال دی تو تم اس کے انعام کی بدولت دین میں اور نصرت میں بھائی بھائی بن گئے اور تم دوزخ کے کنارے پر تھے اور تمہارے دوزخ میں گرنے میں صرف اتنی دیر تھی کہ تم کفر کی حالت میں مرو تو تم کو دوزخ سے ایمن کے ذریعہ بچا لیا اسی طرح جیسا کہ تمہارے لیے مذکورہ احکام بیان کیے اللہ تمہارے لیے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم راہ یاب ہوجاؤ اور ضروری ہے کہ تم میں ایک ایسی جماعت رہے جو خیر یعنی اسلام کی دعوت دیا کرے اور نیک کام کا حکم کیا کرے اور برائی سے روکا کرے یہی دعوت دینے والے حکم کرنے والے (برائی) سے روکنے والے لوگ کامیاب ہیں اور (مِنْکُم) میں مِنْ تبعیضیہ ہے اس لیے کہ مذکورہ حکم فرض کفایہ ہے امت کے ہر فرد پر لازم نہیں ہے اور نہ ہر شخص کے لائق ہے جیسا کہ مثلاً جاہل کے۔ اور کہا گیا ہے کہ مِنْ ، زائدہ ہے یعنی تاکہ تم ایک مات ہوجاؤ اور ان لوگوں کی طرف مت ہوجانا کہ جنہوں نے بعد اس کے کہ ان کے پاس شواہد پہنچ چکے اپنے دین میں تفریق کرلی اور وہ یہود و نصاریٰ ہیں انہیں کو عذاب عظیم ہونا ہے روز قیامت کچھ چہرے سفید (روشن) ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے پھر جن کے چہرے سیاہ ہوں گے اور وہ کافر ہوں گے تو ان کو جہنم میں ڈالا جائے گا۔ اور بطور توبیخ ان سے کہا جائے گا کیا تم ہی نے کفر کیا ؟ یوم اَلَست میں ایمان لانے کے بعد سو اپنے کفر کی پاداش میں عذاب چکھو۔ اور جن کے چہرے سفید (روشن) ہوں گے اور وہ مومن ہوں گے تو وہ اللہ کی رحمت جنت میں ہوں گے اور اسی میں ہمیشہ رہیں گے یہ اللہ کی آیتیں ہیں جن کو اے محمد ہم تم کو ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سناتے ہیں اور اللہ مخلوقات پر ظلم نہیں چاہتا کہ بغیر جرم کے ان سے مواخذہ کرے۔ اور ملک اور خلق اور مملوک ہونے کے اعتبار سے سب جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے اللہ ہی کیلئے ہے۔ اور اللہ ہی کی طرف تمام امور لوٹائے جائیں گے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : بانْ یُطَاعَ فَلَا یُعْصٰی (الخ) یہ کما حقہ تقویٰ کا بیان اور اس کی صورت کی وضاحت ہے۔
قولہ : مُوَحّدُونَ ۔ سوال : مُسْلِمُوْنَ ، کی تفسیر مُوَحِّدُوْنَ ، سے کرنے میں کیا مصلحت ہے ؟ جواب : مرتے وقت چونکہ سوائے توحید کے جو قلبی ارادہ کا نام ہے دوسری کوئی عمل نیکی نہیں ہوسکتی مثلاً نہ نماز پڑھی جاسکتی ہے اور نہ روزہ رکھ جاسکتا ہے اور نہ حج کیا جاسکتا ہے علی ہذا القیاس اسی مصلحت و حکمت کے پیش نظر مُسْلِمُوْنَ کی تفسیر مُوَحِّدُوْنَ سے کی ہے عمل توحید آخر وقت میں بھی ہوسکتا ہے۔
قولہ : اِعْتَصِمُوْا، اعتصام سے ہے جمع مذکر حاضر، تم مضبوط پکڑ لو۔
قولہ : الاوس والخزرج حارثہ یا ثعلبہ کے بیٹے دونوں حقیقی بھائی تھے، ان کی والدہ کا نام قیلہ تھا۔ یہ دراصل یمن کے ایک شہر مآرب کے باشندے تھے جو کہ ایک بہت سرسبز و شاداب علاقہ تھا جو یمن کے دار السلطنت صنعاء سے تین منزل کے فاصلہ پر واقع تھا مشہور سدّمآرب یہیں واقع تھا، جس کی وجہ سے اہل مآرب بڑی خوش حالی و فراخی کی زندگی گزارتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی نافرمانیوں کے نتیجے میں اسی بند (ڈیم) کے ذریعہ ان کو اور ان کی معیشت کو تباہ کردیا۔ اس بند کے ٹوٹنے کی وجہ سے یہ اطراف میں منتشر ہوگئے ان میں سے کچھ مدینہ آکر آباد ہوگئے اور کچھ شام وغیرہ کی طرف نکل گئے۔ یہ واقعہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے بقل پیش آیا۔
قولہ : یومَ اخذ المیثاق، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : یہود و نصاریٰ کو مخاطب کرکے کہا جا رہا ہے ” کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ “ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اول ایمان لائے اس کے بعد وہ کافر ہوئے، حالانکہ وہ سرے سے ایمان نہیں لائے تھے۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ ایمان سے مراد یوم میثاق کا ایمان ہے جو کہ ” اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ “ کے جواب میں بلیٰ کہہ کر لائے تھے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔
اللغۃ والبلاغۃ
قولہ : شَفَا، گڑھے کا کنارہ، اس میں تذکیر و تانیث مساوی ہیں، شَفا دراصل مذکر ہے مگر آیت میں اس کی طرف مونث کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس لیے کہ اس نے اپنے مضاف الیہ حفرۃ سے تانیث کا اکتساب کرلیا ہے، اور کبھی اس کا عکس بھی ہوتا ہے۔ (اعراب القرآن للدرویش) ۔
استعارۃ تمثیلیہ۔ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ ، میں استعارہ تمثیلیہ ہے، دین یا قرآن کو مضبوط رسی سے تشبیہ دی ہے، جس طرح انسان مضبوط رسی کو تھامنے کے بعد گرنے سے مامون و محفوظ رہتا ہے، اسی طرح دین صحیح اور قرآن کو تھامنے سے اخروی ہلاکت سے محفوظ و مامون رہتا ہے۔ اور رسی کو پکڑنے سے مراد ہے قرآن اور دین پر اعتماد اور بھروسہ کرنا، یہ استعارہ ترشیحیہ ہے، اس لیے کہ استعارہ ترشیحیہ مشبہ بہ کے لئے اس کے مناسب کو ثابت کرنے کو کہتے ہیں، رسی کے لیے مناسب ہے کہ اس کو تھاما جائے اسی طرح قرآن کے لئے مناسب ہے کہ اس پر اعتماد کیا جائے۔ صنعت طباق، اَعْداءا واخوانًا، میں صنعت طباق ہے اور اسی کی صنعت مقابلہ بھی کہتے ہیں
یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیْنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ، اس میں بھی صنعت طباق ہے امر اور نہی مقابل ہیں اسی طرح المعروف والمنکر مقابل ہیں۔ (اعراب القرآن)
استعارہ مکنیہ تبعیہ ” فَذْوْقُوا الْعَذَابَ “ اس میں عذاب کو کسی کڑوی چیز سے تشبیہ دی گئی ہے عذاب مشبہ ہے اور تلخ چیز مشبہ بہ ہے یہ استعارہ مکینہ ہو اور مشبہ بہ کے لازم ” ذوق “ کو باقی رکھا یہ استعارہ تبعیہ کے طور پر ہے۔
تفسیر و تشریح
یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ اس کا مطلب ہے کہ اسلام کے احکام و فرائض پورے طور پر بجا لائے جائیں اور منہیات کے قریب نہ جایا جائے۔ سعید بن جبیر سے ابن ابی حاتم نے روایت کیا کہ جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ پریشان ہوئے اور اس پر عمل کرنا دشوار معلوم ہوا۔ حتیٰ کہ ان کے پیر ورم کرگئے اور پیشانیاں زخمی ہوگئیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے تخفیف کرتے ہوئے ” فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ “ نازل فرمائی۔ جس سے حق تقاتہٖ ، منسوخ ہوگئی۔ لیکن اگر اسے ناسخ کے بجائے مبین (وضاحت کرنے والی) قرار دیا جائے تو زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ نسخ وہیں ماننا چاہیے کہ جہاں دونوں آیتوں میں جمع و تطبیق ممکن نہ ہو، اور یہاں تطبیق ممکن ہے، معنی یہ ہوں گے ” اتقوا اللہ حق تقاتہٖ مَا استطعتم “ اللہ سے اس طرح ڈور کہ جس طرح اپنی طاقت کے مطابق اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ (فتح القدیر)
حَقَّ تُقَاتِہٖ کیا ہے ؟: اس کی تفسیر حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) نے یہ فرمائی ہے جو مرفوعاً خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی منقول ہے، حَقَّ تُقَاتِہٖ ھُوَ اَنْ یُطَاعَ فَلَا یُعْصٰی وَیُذکر فلایُنْسیٰ ویُسکر ولا یُکفر۔ حق تقویٰ یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت ہر کام میں کی جائے، کوئی کام اطاعت کے خلاف نہ ہو اور اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے کبھی فراموش نہ کیا جائے اور ہمیشہ اس کا شکر ادا کریں کبھی ناشکری نہ کریں۔ حضرت ابن عباس اور طاؤس نے فرمایا کہ درحقیقت حق تقاتہٖ کی ہی تفسیر و تشریح ہے اتقوا اللہ مَا استطعتم اور مطلب یہ ہے کہ معاصی اور گناہوں سے بچنے میں اپنی پوری توانائی اور طاقت صرف کر دے تو حق تقویٰ ادا ہوگیا، اگر کوئی شخص اپنی پوری توانائی صرف کرنے کے بعد کسی ناجائز کام میں مبتلا ہو ہی گیا ہے تو وہ حقوق تقویٰ کے خلاف نہیں۔
وَلَاتَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ، یعنی مرتے دم تک اللہ کی فرماں برداری اور وفاداری پر قائم رہو۔
10 Tafsir as-Saadi
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو حکم دیا ہے کہ اس سے ایسے ڈریں جیسے ڈرنے کا حق ہے، پھر اس تقویٰ پر قائم اور ثابت قدم رہیں اور موت تک استقامت ہو۔ کیونکہ انسان جس طرح کی زندگی گزارتا ہے، اسے ویسی ہی موت نصیب ہوتی ہے۔ جو شخص صحت، نشاط اور طاقت کی حالت میں اللہ کے تقویٰ اور اس کی اطاعت پر قائم رہتا ہے اور ہمیشہ اس کی طرف متوجہ رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے موت کے وقت استقامت عطا فرماتا ہے اور اسے حسن خاتمہ سے نوازتا ہے۔ اللہ سے کما حقہ تقویٰ رکھنے کی وضاحت جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں کی ہے : (ھو انْ یُّطَاعَ فَلاَ یُعْصٰی، وَیُذْکَر فَلایُنْسْیٰ ویُشکر فلایُکْفر) ” اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی فرماں برداری کی جائے، نافرمانی نہ کی جائے، اسے یاد کیا جائے، فراموش نہ کیا جائے، اس کا شکر کیا جائے، ناشکری نہ کی جائے۔“ اس آیت میں وضاحت ہے تقویٰ کے سلسلے میں اللہ کا کیا حق ہے۔ اس بارے میں بندے کا جو فرض ہے۔ وہ اللہ کے اس فرمان میں بیان ہوا ہے : ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (التغابن :64؍16) ” جہاں تک تمہارا بس چلے، اللہ سے ڈرتے رہو“ دل اور جسم کے متعلق تقویٰ کی تفصیلات بہت زیادہ ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ جس جس کام کا حکم دے اسے انجام دینا اور جس جس کام سے منع کرے، اس سے باز رہنا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کام کا حکم دیا ہے جو تقویٰ اختیار کرنے میں مدد دیتا ہے، وہ ہے متحد رہنا، اللہ کے دین پر مضبوطی سے کاربند رہنا، تمام مومنوں کا یک آواز ہونا، مل جل کر رہنا اور اختلاف نہ کرنا۔ دین پر متحد رہنے سے اور باہمی الفت و مودت سے ان کا دین بھی درست رہے گا اور دنیا بھی درست رہے گی۔ اتحاد کی وجہ سے وہ کام کرسکیں گے اور انہیں وہ تمام فوائد حاصل ہوں گے جن کا دار و مدار اتفاق و اتحاد پر ہے۔ یہ فوائد اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں۔ علاوہ ازیں نیکی اور تقویٰ میں تعاون بھی ممکن ہوجائے گا۔ اس کے برعکس اختلاف اور تفرقہ کی وجہ سے ان کا نظام درہم برہم ہوجائے گا، باہمی رابطے ٹوٹ جائیں گے اور ہر شخص اپنے ذاتی فائدے کے لئے بھاگ دوڑ کرے گا، اگرچہ اس سے اجتماعی طور پر نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک نعمت ذکر فرمائی اور حکم دیا کہ اسے یاد رکھیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! dil mein Allah ka wesa hi khof rakho jaisa khof rakhna uss ka haq hai , aur khabrdar ! tumhen kissi aur halat mein moat naa aaye , balkay issi halat mein aaye kay tum musalman ho .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ کی رسی قرآن حکیم ہے
اللہ تعالیٰ سے پورا پورا ڈرنا یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے نافرمانی نہ کی جائے اس کا ذکر کیا جائے اور اس کی یاد نہ بھلائی جائے اس کا شکر کیا جائے کفر نہ کیا جائے، بعض روایتوں میں یہ تفسیر مرفوع بھی مروی ہے لیکن ٹھیک بات یہی ہے کہ یہ موقوف ہے یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا قول ہے واللہ اعلم۔ حضرت انس کا فرمان ہے کہ انسان اللہ عزوجل سے ڈرنے کا حق نہیں بجا لاسکتا جب تک اپنی زبان کو محفوظ نہ رکھے، اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ یہ آیت (فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِيْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَيْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ ۭ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) 64 ۔ التغابن :16) کی آیت سے منسوخ ہے اس دوسری آیت میں فرما دیا ہے کہ اپنی طاقت کے مطابق اس سے ڈرتے رہا کرو، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں منسوخ نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہو اس کے کاموں میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خیال نہ کرو عدل پر جم جاؤ یہاں تک کہ خود اپنے نفس پر عدل کے احکام جاری کرو اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد کے بارے میں بھی عدل و انصاف برتا کرو۔ پھر فرمایا کہ اسلام پر ہی مرنا یعنی تمام زندگی اس پر قائم رہنا تاکہ موت بھی اسی پر آئے، اس رب کریم کا اصول یہی ہے کہ انسان اپنی زندگی جیسی رکھے ویسی ہی اسے موت آتی ہے اور جیسی موت مرے اسی پر قیامت کے دن اٹھایا جاتا ہے واللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کی ناپسند موت سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھے آمین۔ مسند احمد میں ہے کہ لوگ بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے تھے اور حضرت ابن عباس بھی وہاں تھے ان کے ہاتھ میں لکڑی تھی بیان فرمانے لگی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا کہ اگر زقوم کا ایک قطرہ بھی دنیا میں گرا دیا جائے تو دنیا والوں کی ہر کھانے والی چیز خراب ہوجائے کوئی چیز کھا پی نہ سکیں پھر خیال کرو کہ ان جہنمیوں کا کیا حال ہوگا جن کا کھانا پینا ہی یہ زقوم ہوگا اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جو شخص جہنم سے الگ ہوتا اور جنت میں جانا چاہتا ہو اسے چاہئے کہ مرتے دم تک اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھے اور لوگوں سے وہ برتاؤ کرے جسے وہ خود اپنے لئے چاہتا ہو (مسند احمد) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی آپ کے انتقال کے تین روز پہلے سنا کہ دیکھو موت کے وقت اللہ تعالیٰ سے نیک گمان رکھنا (مسلم) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میرا بندہ میرے ساتھ جیسا گمان رکھے میں اس کے گمان کے پاس ہی ہوں اگر اس کا میرے ساتھ حسن ظن ہے تو میں اس کے ساتھ اچھائی کروں گا اور اگر وہ میرے ساتھ بدگمانی کرے گا تو میں اس سے اسی طرح پیش آؤں گا (مسند احمد) اس حدیث کا اگلا حصہ بخاری مسلم میں بھی ہے، مسند بزار میں ہے کہ ایک بیمار انصاری کی بیمار پرسی کے لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے گئے اور سلام کر کے فرمانے لگے کہ کیسے مزاج ہیں ؟ اس نے کہا الحمد للہ اچھا ہوں رب کی رحمت کا امیدوار ہوں اور اس نے عذابوں سے ڈر رہا ہوں، آپ نے فرمایا سنو ایسے وقت جس دل میں خوف و طمع دونوں ہوں اللہ اس کی امید کی چیز اسے دیتا ہے اور ڈر خوف کی چیز سے بچاتا ہے، مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت حکیم بن حزام (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کی اور کہا کہ میں کھڑے کھڑے ہی کروں، اس کا مطلب امام نسائی نے تو سنن نسائی میں باب باندھ کر یہ بیان کیا ہے کہ سجدے میں اس طرح جان چاہئے، اور یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ میں مسلمان ہوئے بغیر نہ مروں، اور یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ جہاد پیٹھ دکھاتا ہوا نہ مارا جاؤں۔ پھر فرمایا باہم اتفاق رکھو اختلاف سے بچو۔ حبل اللہ سے مراد عہد الہ ہے، جیسے الا یحبل من اللہ الخ، میں " حبل " سے مراد قرآن ہے، ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ قرآن اللہ کریم کی مضبوطی رسی ہے اور اس کی سیدھی راہ ہے، اور روایت میں ہے کہ کتاب اللہ اللہ تعالیٰ کی آسمان سے زمین کی طرف لٹکائی ہوئی رسی ہے، اور حدیث میں ہے کہ یہ قرآن اللہ سبحانہ کی مضبوط رسی ہے یہ ظاہر نور ہے، یہ سراسر شفا دینے والا اور نفع بخش ہے اس پر عمل کرنے والے کے لئے یہ بچاؤ ہے اس کی تابعداری کرنے والے کے لئے یہ نجات ہے۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں ان راستوں میں تو شیاطین چل پھر رہے ہیں تم اللہ کے راستے پر آجاؤ تم اللہ کی رسی کو مضبوط تھام لو وہ رسی قرآن کریم ہے۔ اختلاف نہ کرو پھوٹ نہ ڈالو جدائی نہ کرو، علیحدگی سے بچو، صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں تین باتوں سے اللہ رحیم خوش ہوتا ہے اور تین باتوں سے ناخوش ہوتا ہے ایک تو یہ کہ اسی کے عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو دوسرے اللہ کی رسی کو اتفاق سے پکڑو، تفرقہ نہ ڈالو، تیسرے مسلمان بادشاہوں کی خیر خواہی کرو، فضول بکواس، زیادتی سوال اور بربادی مال یہ تینوں چیزیں رب کی ناراضگی کا سبب ہیں، بہت سی روایتیں ایسی بھی ہیں جن میں سے کہ اتفاق کے وقت وہ خطا سے بچ جائیں گے اور بہت سی احادیث میں نااتفاقی سے ڈرایا بھی ہے، ان ہدایات کے باوجود امت میں اختلافات ہوئے اور تہتر فرقے ہوگئے جن میں سے ایک نجات پا کر جنتی ہوگا اور جہنم کے عذابوں سے بچ رہے گا اور یہ وہ لوگ ہیں جو اس پر قائم ہوں جس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب تھے۔ پھر اپنی نعمت یاد دلائی، جاہلیت کے زمانے میں اوس و خزرج کے درمیان بڑی لڑائیاں اور سخت عداوت تھی آپس میں برابر جنگ جاری رہتی تھی جب دونوں قبیلے اسلام لائے تو اللہ کریم کے فضل سے بالکل ایک ہوگئے سب حسد بغض جاتا رہا اور آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے مددگار اور اللہ تعالیٰ کے دین میں ایک دوسرے کے ساتھ متفق ہوگئے، جیسے اور جگہ ہے آیت ( ۭهُوَ الَّذِيْٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ 62ۙ وَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ ) 8 ۔ الانفال :62) وہ اللہ جس نے تیری تائید کی اپنی مدد کے ساتھ اور مومنوں کے ساتھ اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی۔ اپنا دوسرا احسان ذکر کرتا ہے کہ تم آگ کے کنارے پہنچ چکے تھے اور تمہارا کفر تمہیں اس میں دھکیل دیتا لیکن ہم نے تمہیں اسلام کی توفیق عطا فرما کر اس سے بھی الگ کرلیا، حنین کی فتح کے بعد جب مال غنیمت تقسیم کرتے ہوئے مصلحت دینی کے مطابقحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض لوگوں کو زیادہ مال دیا تو کسی شخص نے کچھ ایسے ہی نامناسب الفاظ زبان سے نکال دئیے جس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جماعت انصار کو جمع کر کے ایک خطبہ پڑھا اس میں یہ بھی فرمایا تھا کہ اے جماعت انصار کیا تم گمراہ نہ تھے ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہیں ہدایت دی ؟ کیا تم متفرق نہ تھے پھر رب دو عالم نے میری وجہ سے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی کیا تم فقیر نہ تھے اللہ تعالیٰ نے تمہیں میری وجہ سے غنی کردیا ؟ ہر ہر سوال کے جواب میں یہ پاکباز، جماعت یہ اللہ والا گروہ کہتا جاتا تھا کہ ہم پر اللہ تعالیٰ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احسان اور بھی بہت سے ہیں اور بہت بڑے بڑے ہیں، حضرت محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ جب اوس و خزرج جیسے صدیوں کے آپس کے دشنوں کو یوں بھائی بھائی بنا ہوا دیکھا تو یہودیوں کی آنکھوں میں کانٹا کھٹکنے لگا انہوں نے آدمی مقرر کئے کہ وہ ان کی محفلوں اور مجلس میں جایا کریں اور اگلی لڑائیاں اور پرانی عداوتیں انہیں یاد دلائیں ان کے مقتولوں کی یاد تازہ کرائیں اور اس طرح انہیں بھڑکائیں۔ چناچہ ان کا یہ داؤ ایک مرتبہ چل بھی گیا اور دونوں قبیلوں میں پرانی آگ بھڑک اٹھی یہاں تک کہ تلواریں کھچ گئیں ٹھیک دو جماعتیں ہوگئیں اور وہی جاہلیت کے نعرے لگنے لگے ہتھیار سجنے لگے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے اور یہ ٹھہر گیا کہ حرہ کے میدان میں جا کر ان سے دل کھول کر لڑیں اور مردانگی کے جوہر دکھائیں پیاسی زمین کو اپنے خون سے سیراب کریں لیکنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پتہ چل گیا آپ فوراً موقع پر تشریف لائے اور دونوں گروہ کو ٹھکڈا کیا اور فرمانے لگے پھر جاہلیت کے نعرے تم لگانے لگے میری موجودگی میں ہی تم نے پھر جنگ وجدال شروع کردیا ؟ پھر آپ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی سب نادم ہوئے اور اپنی دو گھڑی پہلے کی حرکت پر افسوس کرنے لگے اور آپس میں نئے سرے سے معانقہ مصافحہ کیا اور پھر بھائیوں کی طرح گلے مل گئے ہتھیار ڈال دئیے اور صلح صفائی ہوگئی، حضرت عکرمہ (رح) فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب حضرت صدیقہ (رض) پر منافقوں نے تہمت لگائی تھی اور آپ کی برات نازل ہوئی تھی تب ایک دوسرے کے مقابلہ میں تن گئے تھے، فاللہ اعلم