آل عمران آية ۹۶
اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَـلَّذِىْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّهُدًى لِّلْعٰلَمِيْنَۚ
طاہر القادری:
بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لئے بنایا گیا وہی ہے جو مکہّ میں ہے، برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے (مرکزِ) ہدایت ہے،
English Sahih:
Indeed, the first House [of worship] established for mankind was that at Bakkah [i.e., Makkah] – blessed and a guidance for the worlds.
1 Abul A'ala Maududi
بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا تھا
2 Ahmed Raza Khan
بیشک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور سارے جہان کا راہنما
3 Ahmed Ali
بے شک لوگوں کے واسطے جو سب سے پہلا گھر مقرر ہوا یہی ہے جو مکہ میں برکت والا ہے اور جہان کے لوگوں کے لیے راہ نما ہے
4 Ahsanul Bayan
اللہ تعالٰی کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ (شریف) میں ہے (١) جو تمام دنیا کے لئے برکت اور ہدایت والا ہے۔
٩٦۔ ا یہ یہود کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے، وہ کہتے تھے کہ بیت المقدس سب سے پہلا عبادت خانہ ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں نے اپنا قبلہ کیوں بدل لیا؟ اس کے جواب میں اور اس کے جواب میں کہا گیا تمہارا یہ دعویٰ بھی غلط ہے۔ پہلا گھر جو اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر کی گیا ہے وہ ہے جو مکہ میں ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
پہلا گھر جو لوگوں (کے عبادت کرنے) کے لیے مقرر کیا گیا تھا وہی ہے جو مکے میں ہے بابرکت اور جہاں کے لیے موجبِ ہدایت
6 Muhammad Junagarhi
اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ (شریف) میں ہے جو تمام دنیا کے لئے برکت وہدایت واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا یقینا وہی ہے جو مکہ میں ہے بڑی برکت والا اور عالمین کے لیے مرکز ہدایت ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک سب سے پہلا مکان جو لوگوں کے لئے بنایا گیا ہے وہ مکّہ میں ہے مبارک ہے اور عالمین کے لئے مجسم ہدایت ہے
9 Tafsir Jalalayn
پہلا گھر جو لوگوں (کے عبادت کرنے) کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ وہی ہے جو مکہ میں ہے بابرکت اور جہاں کے لئے موجب ہدایت۔
فضائل اور تاریخ تعمیر بیت اللہ : اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکًا۔ (الآیۃ) ۔ یہ یہود کے اس اعتراض کے جواب میں ہے کہ وہ کہتے تھے کہ بیت المقدس سب سے پہلا عبادت خانہ ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں نے اپنا قبلہ کیوں بدل دیا ؟ اس کے جواب میں کہا گیا تمہارا یہ دعویٰ غلط ہے پہلا گھر جو اللہ کی عبادت کیلئے تعمیر کیا گیا وہ مکہ میں ہے۔
مذکورہ آیت میں پوری دنیا کے مکانات یہاں تک کہ تمام مساجد کے مقابلہ میں بیت اللہ (کعبہ) کے شرف اور فضیلت کا بیان ہے، اور یہ شرف اور فضیلت کئی وجہ سے ہے اول اس لیے کہ وہ دنیا کی تمام عبادت گاہوں میں سب سے پہلی عبادت گاہ ہے دوسرے یہ کہ وہ برکت والا ہے، تیسرے یہ کہ وہ پورے جہان کے لیے ہدایت اور رہنمائی کا ذریعہ ہے آیت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے من جانب اللہ بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے عبادت خانہ مکہ میں تعمیر ہوا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دنیا کے گھروں میں سب سے پہلا گھر عبادت ہی کے لیے بنایا گیا اور وہ بیت اللہ ہے اس سے پہلے نہ کوئی عبادت خانہ تھا اور نہ دولت خانہ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر، مجاہد، قتادہ، سدّی، وغیرہ صحابہ وتابعین (رض) اس کے قائل ہیں کہ زمین پر سب سے پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) نے سب سے پہلا گھر کعبہ عبادت خانہ کے طور پر تعمیر کیا، اور یہ بھی ممکن ہے کہ لوگوں کے رہنے سہنے کے گھر اور بھی بن چکے ہوں مگر عبادت خانہ کے طور پر یہ پہلا گھر بنا ہو حضرت علی (رض) سے یہی منقول ہے۔ بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں بروایت عمرو بن عاص (رض) سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دنیا میں آنے کے بعد حضرت آدم (علیہ السلام) کو یہ حکم ملا کہ وہ بیت اللہ بنائیں، حضرت آدم (علیہ السلام) نے حکم کی تعمیل فرمائی تو ان کو حکم دیا گیا کہ اس کا طواف کریں۔ اور ان سے کہا گیا کہ آپ اول الناس ہیں اور یہ گھر اول بیت وضع للناس ہے (معارف)
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم (علیہ السلام) کی یہ تعمیر حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ تک باقی تھی، طوفان نوح (علیہ السلام) میں منہدم ہوگئی، اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان ہی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کیا، پھر ایک بار کسی حادچہ میں اس کی عمارت منہدم ہوگئی تو قبیلہ جرہم کی ایک جماعت نے اس کی تعمیر کی، پھر ایک بار منہدم ہوئی تو عمالقہ نے تعمیر کی اور پھر منہدم ہوئی تو قریش نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ابتدائی دور میں تعمیر کی، جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی بذات خودشریک ہوئے اور حجر اسود کو اپنے دست مبارک سے قائم فرمایا۔ لیکن قریش نے اس تعمیر میں بناء ابراہیمی سے کسی قدر مختلف تعمیر کی سرمایہ کی کمی کی وجہ سے بیت اللہ کا ایک حصہ الگ کردیا جس کو حطیم کہا جاتا ہے اور خلیل اللہ (علیہ السلام) کی بناء میں دو دروازے تھے ایک داخل ہونے کا اور دوسرا پشت کی جانب نکلنے کا۔ قریش نے صرف مشرقی دروازے کو باقی رکھا، تیسرا تغیر یہ کیا کہ دروازہ سطح زمین سے کافی بلند کردیا کہ ہر شخص آسانی سے اندر نہ جاسکے بلکہ جس کو وہ اجازت دیں وہی جاسکے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ (رض) سے فرمایا میرا دل چاہتا ہے کہ موجودہ تعمیر کو منہدم کرکے اس کو بالکل بناء ابراہیمی پر بنا دوں۔ لیکن نومسلم ناواقف مسلمانوں میں غلط فہمی پیدا ہونے کا خطرہ ہے اسی لئے سردست اس کو اسی حال پر چھوڑ تا ہوں۔ اس ارشاد کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیا میں زیادہ دن نہیں رہے۔
لیکن حضرت عائشہ (رض) کے بھانجے حضرت عبد اللہ بن زبیر (رض) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد سنے ہوئے تھے، خلفاء راشدین کے بعد جس وقت مکہ مکرمہ میں ان کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے بیت اللہ منہدم کرکے ارشاد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور بناء ابراہیمی کے مطابق بنادیا۔ مگر عبد اللہ بن زبیر کی حکومت مکہ مکرمہ پر چند روزہ تھی، حجاج بن یوسف نے مکہ پر فوج کشی کرکے ان کو شہید کردیا، اور حکومت پر قبضہ کرکے اس کو گوارانہ کیا کہ عبد اللہ بن زبیر کا یہ کارنامہ رہتی دنیا تک ان کی مدح و ثنا کا ذریعہ بنا رہے اس لیے لوگوں میں یہ مشہور کردیا کہ عبد اللہ بن زبیر کا یہ فعل غلط تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو جس حالت پر چھوڑا تھا اسی حالت پر رکھنا چاہیے۔ اس بہانے سے بیت اللہ کو پھر منہدم کرکے اسی طرح تعمیر کردی جو زمانہ جاہلیت میں قریش نے بنائی تھی حجاج بن یوسف کے بعد آنے والے بعض مسلم بادشاہوں نے پھر حدیث مذکور کی بناء پر چاہا کہ بیت اللہ کو پھر ازسر نو حدیث رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق بنادیں۔ لیکن اس زمانہ کے امام حضرت امام مالک بن انس (رح) تعالیٰ نے یہ فتویٰ دیا کہ اب بار بار بیت اللہ کو منہدم کرنا اور بنانا آگے آنے والے بادشاہوں کے لیے بیت اللہ کو ایک کھلونا بنا دے گا۔ ہر آنے والا بادشاہ اپنی نام آوری کے لیے یہی کام کرے گا۔ لہٰذا اب جس حالت پر ہے اسی حالت پر چھوڑ دینا مناسب ہے۔ تمام امت نے اس کو قبول کیا اسی وجہ سے آج تک اسی حجاج بن یوسف کی تعمیر کیا ہوا بیت اللہ باقی ہے۔ البتہ شکست وریخت اور مرمت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا۔
ان روایات سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ کعبہ دنیا کا سب سے پہلا گھر ہے اور یا کم از کم سب سے پہلا عبادت خانہ ہے قرآن کریم میں جہاں کعبہ کی تعمیر کی نسبت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف کی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان بزرگوں نے سابقہ بنیادوں پر اسی کے مطابق تعمیر فرمائی اور کعبہ کی اصل بنیاد پہلے ہی سے موجود تھی۔
بائبل میں وادی بکہ کا ذکر موجود ہے : تمام تر تحریفات کے باوجد بائبل میں بھی ایک جگہ وادی بکہ کا ذکر کیا گیا ہے، وہ بکا کی وادی میں گزر کرتے ہوئے اسے ایک کنواں بتاتے۔ (زبور ٨٤۔ ٦) بائبل کے قدیم مترجموں نے اپنی بےاحتیاطی کی عادت کے مطابق ترجموں میں اسے بجائے علم کے اسم نکرہ قرار دے کر اس کا ترجمہ رونے کی وادی کر ڈالا، صدیوں کے بعد اب غلطی کا احساس ہوا اور اب جیوش انسائیکلوپیڈیا میں اقرار ہے کہ یہ ایک مخصوص بےآب وادی کا نام ہے۔ (جلد ٢ ص ٤٢٥)
اللہ ان کو اتنا سمجھنے کی توفیق دے کہ یہی بےآب وادی مکہ معظمہ ہے۔ (ماجدی)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ کعبہ شریف کا شرف بیان فرما رہا ہے کہ یہ پہلا گھر ہے جو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے اس مقصد کے لئے مقرر کیا ہے کہ وہ اس میں اپنے رب کی عبادت کریں اور ان کے گناہ معاف ہوں اور انہیں وہ نیکیاں حاصل ہوں جن کی وجہ سے انہیں رب کی رضا حاصل ہو، اور وہ ثواب حاصل کر کے اللہ کے عذاب سے بچ جائیں۔ اس لئے فرمایا : ﴿مُبَارَكًا ﴾ ” برکت والا ہے“ اس میں بہت سی برکتیں اور دینی و دنیوی فوائد موجود ہیں۔ جیسے دوسرے مقام ﴿ِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ﴾(الحج :28؍22) ” تاکہ وہ اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان مقررہ دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام یاد کریں جو اس نے انہیں دیئے ہیں“ ﴿وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ﴾ ” اور ہدایت ہے جہان والوں کے لئے“ ہدایت کی دو قسمیں ہیں : علمی ہدایت اور عملی ہدایت۔ عملی ہدایت تو ظاہر ہے کہ اللہ نے ایسی عبادتیں مقرر کی ہیں جو اس مقدس گھر کے ساتھ مخصوص ہیں۔ علمی ہدایت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے حق کا علم حاصل ہوتا ہے کیونکہ اس میں واضح نشانیاں موجود ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
haqeeqat yeh hai kay sabb say pehla ghar jo logon ( ki ibadat ) kay liye banaya gaya yaqeeni tor per woh hai jo makkah mein waqay hai ( aur ) bananey kay waqt hi say barkaton wala aur duniya jahan kay logon kay liye hidayat ka saman hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
ذکر بیت اللہ اور احکامات حج
یعنی لوگوں کی عبادت قربانی طواف نماز اعتکاف وغیرہ کے لئے اللہ تعالیٰ کا گھر ہے جس کے بانی حضرت ابراہیم خلیل ہیں، جن کی تابعداری کا دعویٰ یہود و نصاریٰ مشرکین اور مسلمان سب کو ہے وہ اللہ کا گھر جو سب سے پہلے مکہ میں بنایا گیا ہے، اور بلاشبہ خلیل اللہ ہی حج کے پہلے منادی کرنے والے ہیں تو پھر ان پر تعجب اور افسوس ہے جو ملت حنیفی کا دعویٰ کریں اور اس گھر کا احترام نہ کریں حج کو یہاں نہ آئیں بلکہ اپنے قبلہ اور کعبہ الگ الگ بناتے پھریں۔ اس بیت اللہ کی بنیادوں میں ہی برکت و ہدایت ہے اور تمام جہان والوں کے لئے ہے، حضرت ابوذر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ سب سے پہلے کونسی مسجد بنائی گئی ہے ؟ آپ نے فرمایا مسجد حرام، پوچھا پھر کونسی ؟ فرمایا مسجد بیت المقدس پوچھا ان دونوں کے درمیان کتنا وقت ہے ؟ فرمایا چالیس سال پوچھا پھر کونسی ؟ آپ نے فرمایا جہاں کہیں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھ لیا کرو ساری زمین مسجد ہے (مسند) احمد و بخاری مسلم) حضرت علی فرماتے ہیں گھر تو پہلے بہت سے تھے لیکن خاص اللہ تعالیٰ کی عبادت کا گھر سب سے پہلا یہی ہے، کسی شخص نے آپ سے پوچھا کہ زمین پر پہلا گھر یہی بنا ہے تو آپ نے فرمایا نہیں ہاں برکتوں اور مقام ابراہیم اور امن والا گھر یہی پہلا ہے، بیت اللہ شریف کے بنانے کی پوری کیفیت سورة بقرہ کی آیت (وَعَهِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَهِّرَا بَيْتِىَ للطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ ) 2 ۔ البقرۃ :125) کی تفسیر میں پہلے گذر چکی ہے وہیں ملاحظہ فرما لیجئے یہاں دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں، سدی کہتے ہیں سب سے پہلے روئے زمین پر یہی گھر بنا، لیکن صحیح قول حضرت علی کا ہی ہے اور وہ حدیث جو ییہقی میں ہے جس میں ہے کہ آدم و حوا نے بحکم الہ بیت اللہ بنایا اور طواف کیا اور اللہ تعالیٰ نے کہا کہ تو سب سے پہلا انسان ہے اور یہ سب سے پہلا گھر ہے یہ حدیث ابن لہیعہ کی روایت سے ہے اور وہ ضعیف راوی ہیں، ممکن ہے یہ حضرت عبداللہ بن عمر کا اپنا قول ہو اور یرموک والے دن انہیں جو دو پورے اہل کتاب کی کتابوں کے ملے تھے انہی میں یہ بھی لکھا ہوا ہو۔ " مکہ " مکہ شریف کا مشہور نام ہے چونکہ بڑے بڑے جابر شخصوں کی گردنیں یہاں ٹوٹ جاتی تھیں ہر بڑائی والا یہاں پست ہوجاتا تھا، اس لئے اسے مکہ کہا گیا اور اس لئے بھی کہ لوگوں کی بھیڑ بھاڑ یہاں ہوتی ہے اور ہر وقت کھچا کھچ بھرا رہتا ہے اور اس لئے بھی کہ یہاں لوگ خلط ملط ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ کبھی عورتیں آگے نماز پڑھتی ہوتی ہیں اور مرد ان کے پیچھے ہوتے ہیں جو اور کہیں نہیں ہوتا، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں " فج " سے " تنعیم " تک مکہ ہے بیت اللہ سے بطحا تک بکہ ہے بیت اللہ اور مسجد کو بکہ کہا گیا ہے، بیت اللہ اور اس آس پاس کی جگہ کو بکہ اور باقی شہر کو مکہ بھی کہا گیا ہے، اس کے اور بھی بہت سے نام ہیں مثلاً بیت العتیق، بیت الحرام، بلد الامین، بلد المامون، ام رحم، ام القری، صلاح، عرش، قادس، مقدس، ناسبہ، ناسسہ، حاطمہ، راس، کو ثا البلدہ البینۃ العکبہ۔ اس میں ظاہر نشانیاں ہیں جو اس کی عظمت و شرافت کی دلیل ہیں اور جن سے ظاہر ہے کہ خلیل اللہ کی بنا یہی ہے اس میں مقام ابراہیم بھی ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت اسماعیل سے پتھر لے کر حضرت ابراہیم کعبہ کی دیواریں اونچی کر رہے تھے، یہ پہلے تو بیت اللہ شریف کی دیوار سے لگا ہوا تھا لیکن حضرت عمر (رض) نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اسے ذرا ہٹا کر مشرق رخ کردیا تھا کہ پوری طرح طواف ہو سکے اور جو لوگ طواف کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ان کے لئے پریشانی اور بھیڑ بھاڑ نہ ہو، اسی کی طرف نماز پڑھنے کا حکم ہوا ہے اور اس کے متعلق بھی پوری تفسیر آیت (وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى) 2 ۔ البقرۃ :125) کی تفسیر میں پہلے گذر چکی ہے فالحمد للہ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں آیات بینات میں سے ایک مقام ابراہیم بھی ہے باقی اور بھی ہیں، حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ خلیل اللہ کے قدموں کے نشان جو مقام ابراہیم پر تھے یہ بھی آیات بینات میں سے ہیں، کل حرم کو اور حطیم کو اور سارے ارکان حج کو بھی مکہ امن والا رہا باپ کے قاتل کو بھی یہاں پاتے تو نہ چھیڑتے ابن عباس فرماتے ہیں بیت اللہ پناہ چاہنے والے کو پناہ دیتا ہے لیکن جگہ اور کھانا پینا نہیں دیتا اور جگہ ہے آیت (اولم یروا انا جعلنا حرما امنا) الخ، کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن کی جگہ بنایا اور جگہ ہے آیت (اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ ۭ اَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَةِ اللّٰهِ يَكْفُرُوْنَ ) 29 ۔ العنکبوت :67) ہم نے انہیں خوف سے امن دیا نہ صرف انسان کے لئے امن ہے بلکہ شکار کرنا بلکہ شکار کو بھگانا اسے خوف زدہ کرنا اسے اس کے ٹھکانے یا گھونسلے سے ہٹانا اور اڑانا بھی منع ہے اس کے درخت کاٹنا یہاں کی گھاس اکھیڑنا بھی ناجائز ہے اس مضمون کی بہت سی حدیثیں پورے بسط کے ساتھ آیت وعھدنا الخ، کی تفسیر میں سورة بقرہ میں گذر چکی ہیں، مسند احمد ترمذی اور نسائی میں حدیث ہے جسے امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کے بازار حرورہ میں کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے مکہ تو اللہ تعالیٰ کو ساری زمین سے بہتر اور پیارا ہے اگر میں زبردستی تجھ سے نہ نکالا جاتا تو ہرگز تجھے نہ چھوڑتا، اور اس آیت کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ جو اس گھر میں داخل ہوا وہ جہنم سے بچ گیا، بیہقی کی ایک مرفوع حدیث میں ہے جو بیت اللہ میں داخل ہوا وہ نیکی میں آیا اور برائیوں سے دور ہوا، اور گناہ بخش دیا گیا لیکن اس کے ایک راوی عبداللہ بن تو مل قوی نہیں ہیں۔ آیت کا یہ آخری حصہ حج کی فرضیت کی دلیل ہے بعض کہتے ہیں آیت (وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِ ۭ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْي) 2 ۔ البقرۃ :196) والی آیت دلیل فرضیت ہے لیکن پہلی بات زیادہ واضح ہے، کئی ایک احادیث میں وارد ہے کہ حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے، اس کی فرضیت پر مسلمانوں کا اجماع ہے، اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ عمر بھر میں ایک مرتبہ استطاعت والے مسلمان پر حج فرض ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خطبہ میں فرمایا لوگو تم پر اللہ تعالیٰ نے حج فرض کیا ہے تم حج کرو ایک شخص نے پوچھا حضور کیا ہر سال ؟ آپ خاموش رہے اس نے تین مرتبہ یہی سوال کیا آپ نے فرمایا اگر میں ہاں کہ دیتا تو فرض ہوجاتا پھر بجا نہ لاسکتے میں جب خاموش رہوں تو تم کرید کر پوچھا نہ کرو تم سے اگلے لوگ اپنے انبیاء سے سوالوں کی بھر مار اور نبیوں پر اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے میرے حکموں کو طاقت بھر بجا لاؤ۔ اور جس چیز میں منع کروں اس سے رک جاؤ (مسند احمد) صحیح مسلم شریف کی اس حدیث شریف میں اتنی زیادتی ہے کہ یہ پوچھنے والے اقرع بن حابس تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب یہ بھی فرمایا کہ عمر میں ایک مرتبہ فرض ہے اور پھر نفل۔ ایک روایت میں ہے کہ اسی سوال کے بارے میں آیت ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْيَاۗءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ ) 5 ۔ المائدہ :101) یعنی زیادتی سوال سے بچو نازل ہوئی (مسند احمد) ایک اور روایت میں ہے اگر میں ہاں کہتا تو ہر سال حج واجب ہوتا تم بجا نہ لاسکتے تو عذاب نازل ہوتا (ابن ماجہ) ہاں حج میں تمتع کرنے کا جواز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سائل کے سوال پر ہمیشہ کے لئے جائز فرمایا تھا، ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں امہات المومنین یعنی اپنی بیویوں سے فرمایا تھا حج ہوچکا اب گھر سے نہ نکلنا، رہی استطاعت اور طاقت سو وہ کبھی تو خود انسان کو بغیر کسی ذریعہ کے ہوتی ہے کبھی کسی اور کے واسطے سے جیسے کہ کتب احکام میں اس کی تفصیل موجود ہے، ترمذی میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ حاجی کون ہے ؟ آپ نے فرمایا پراگندہ بالوں اور میلے کچیلے کپڑوں والا ایک اور نے پوچھا یا رسول اللہ کونسا حج افضل ہے، آپ نے فرمایا جس میں قربانیاں کثرت سے کی جائیں اور لبیک زیادہ پکارا جائے ایک اور شخص نے سوال کیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سبیل سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا توشہ بھتہ کھانے پینے کے لائق سامان خرچ اور سواری، اس حدیث کا ایک راوی گو ضعیف ہے مگر حدیث کی متابعت اور سند بہت سے صحابیوں سے مختلف سندوں سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت (مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا) 3 ۔ آل عمران :97) کی تفسیر میں زادو راحلہ یعنی توشہ اور سواری بتائی ہے۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں فرض حج جلدی ادا کرلیا کرو نہ معلوم کل کیا پیش آئے، ابو داؤد وغیرہ میں ہے حج کا ارادہ کرنے والے کو جلد اپنا ارادہ پورا کرلینا چاہئے۔ ابن عباس فرماتے ہیں جس کے پاس تین سو درہم ہوں وہ طاقت والا ہے، عکرمہ فرماتے ہیں مراد صحت جسمانی ہے پھر فرمایا جو کفر کرے یعنی فرضیت حج کا انکار کرے، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں جب یہ آیت اتری کہ دین اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور دین پسند کرے اس سے قبول نہ کیا جائے گا تو یہودی کہنے لگے ہم بھی مسلمان ہیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر مسلمانوں پر تو حج فرض ہے تم بھی حج کرو تو وہ صاف انکار بیٹھے جس پر یہ آیت اتری کہ اس کا انکاری کافر ہے اور اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بےپرواہ ہے، حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کھانے پینے اور سواری پر قدرت رکھتا ہو اور اتنا مال بھی اس کے پاس ہو پھر حج نہ کرے تو اس کی موت یہودیت یا نصرانیت پر ہوگی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ کے لئے لوگوں پر حج بیت اللہ ہے جو اس کے راستہ کی طاقت رکھیں اور جو کفر کرے تو اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بےپرواہ ہے، اس کے راوی پر بھی کلام ہے، حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں طاقت رکھ کر حج نہ کرنے والا یہودی ہو کر مرے گا یا نصرانی ہو کر، اس کی سند بالکل صحیح ہے (حافظ ابوبکر اسماعیلی) مسند سعید بن منصور میں ہے کہ فاروق اعظم (رض) نے فرمایا میرا مقصد ہے کہ میں لوگوں کو مختلف شہروں میں بھیجوں وہ دیکھیں جو لوگ باوجود مال رکھنے کے حج نہ کرتے ہوں ان پر جزیہ لگا دیں وہ مسلمان نہیں ہیں وہ مسلمان نہیں ہیں۔