Skip to main content

اَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ يَمْشُوْنَ فِىْ مَسٰكِنِهِمْ ۗ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ ۗ اَفَلَا يَسْمَعُوْنَ

Does it not
أَوَلَمْ
کیا بھلا نہیں
guide
يَهْدِ
رہنمائی کی
[for] them
لَهُمْ
ان کی
(that) how many
كَمْ
کتنی ہی
We have destroyed before them
أَهْلَكْنَا مِن
ہلاک کیا ہم نے
before them
قَبْلِهِم
ان سے پہلے
of
مِّنَ
میں سے
the generations
ٱلْقُرُونِ
بستیوں
they walk about
يَمْشُونَ
وہ چلتے ہیں۔ وہ چلتے پھرتے ہیں
in
فِى
میں
their dwellings
مَسَٰكِنِهِمْۚ
انہی کے گھروں
Indeed
إِنَّ
بیشک
in
فِى
اس میں
that
ذَٰلِكَ
البتہ
surely, are Signs
لَءَايَٰتٍۖ
نشانیاں ہیں
Then do not
أَفَلَا
کیا بھلا
they hear?
يَسْمَعُونَ
وہ سنتے نہیں ہیں

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اور کیا اِن لوگوں کو (اِن تاریخی واقعات میں) کوئی ہدایت نہیں ملی کہ ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کے رہنے کی جگہوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں؟ اس میں بڑی نشانیاں ہیں، کیا یہ سنتے نہیں ہیں؟

English Sahih:

Has it not become clear to them how many generations We destroyed before them, [as] they walk among their dwellings? Indeed in that are signs; then do they not hear?

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اور کیا اِن لوگوں کو (اِن تاریخی واقعات میں) کوئی ہدایت نہیں ملی کہ ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کے رہنے کی جگہوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں؟ اس میں بڑی نشانیاں ہیں، کیا یہ سنتے نہیں ہیں؟

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور کیا انہیں اس پر ہدایت نہ ہوئی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی سنگتیں (قومیں) ہلاک کردیں کہ آج یہ ان کے گھروں میں چل پھر رہے ہیں بیشک اس میں ضرور نشانیاں ہیں تو کیا سنتے نہیں

احمد علی Ahmed Ali

کیا انھیں اس سے بھی رہنمائی نہ ہوئی کہ ان سے پہلے ہم نے کتنی جماعتیں ہلاک کر دی ہیں جن کے گھروں میں یہ چلتے پھرتے ہیں بے شک اس میں بڑی نشانیاں ہیں پھر کیا وہ سنتے بھی نہیں

أحسن البيان Ahsanul Bayan

کیا اس بات نے بھی انہیں کوئی ہدایت نہیں دی کہ ہم نے پہلے بہت سی امتوں کو ہلاک کر دیا جن کے مکانوں میں یہ چل پھر رہے ہیں (١) اس میں تو بڑی بڑی نشانیاں ہیں، کیا پھر بھی یہ نہیں سنتے؟

٢٦۔١ یعنی پچھلی امتیں جو جھٹلانے اور عدم ایمان کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، کیا یہ نہیں دیکھتے کہ آج ان کا وجود دنیا میں نہیں، البتہ ان کے مکانات ہیں جن کے یہ وارث بنے ہوئے ہیں۔ مطلب اس سے اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ تمہارا حشر بھی یہی ہو سکتا ہے، اگر ایمان نہ لائے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

کیا اُن کو اس (امر) سے ہدایت نہ ہوئی کہ ہم نے اُن سے پہلے بہت سی اُمتوں کو جن کے مقامات سکونت میں یہ چلتے پھرتے ہیں ہلاک کر دیا۔ بیشک اس میں نشانیاں ہیں۔ تو یہ سنتے کیوں نہیں

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

کیا اس بات نے بھی انہیں ہدایت نہیں دی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی امتوں کو ہلاک کر دیا جن کے مکانوں میں یہ چل پھر رہے ہیں۔ اس میں تو (بڑی) بڑی نشانیاں ہیں۔ کیا پھر بھی یہ نہیں سنتے؟

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

کیا اس بات سے بھی اللہ نے انہیں ہدایت نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کر دیا ہے جن کے مکانات میں یہ (آج) چل پھر رہے ہیں۔ بے شک اس میں (عبرت کیلئے) بڑی نشانیاں ہیں کیا یہ لوگ سنتے نہیں ہیں۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

تو کیا ان کی ہدایت کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کردیا ہے جن کی بستیوں میں یہ چل پھررہے ہیں اور اس میں ہماری بہت سی نشانیاں ہیں تو کیا یہ سنتے نہیں ہیں

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور کیا انہیں (اس امر سے) ہدایت نہیں ہوئی کہ ہم نے اِن سے پہلے کتنی ہی امّتوں کو ہلاک کر ڈالا تھا جن کی رہائش گاہوں میں (اب) یہ لوگ چَلتے پِھرتے ہیں۔ بیشک اس میں نشانیاں ہیں، تو کیا وہ سنتے نہیں ہیں،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

دریائے نیل کے نام عمر بن خطاب (رض) کا خط
کیا یہ اس کے ملاحظہ کے بعد بھی راہ راست پر نہیں چلتے کہ ان سے پہلے کے گمراہوں کو ہم نے تہہ وبالا کردیا ہے۔ آج ان کے نشانات مٹ گئے۔ انہوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا اللہ کی باتوں سے بےپرواہی کی۔ اب یہ جھٹلانے والے بھی ان ہی کے مکانوں میں رہتے سہتے ہیں۔ ان کی ویرانی ان کے اگلے مالکوں کی ہلاکت ان کے سامنے ہے۔ لیکن تاہم یہ عبرت حاصل نہیں کرتے۔ اسی بات کو قرآن حکیم نے کئی جگہ بیان فرمایا ہے کہ یہ غیر آباد کھنڈر یہ اجڑے ہوئے محلات تو تمہاری آنکھوں کو اور تمہارے کانوں کو کھولنے کے لئے اپنے اندر بہت سی نشانیاں رکھتے ہیں۔ دیکھ لو کہ اللہ کی باتیں نہ ماننے کا رسولوں کی تحقیر کرنے کا کتنا بد انجام ہوا ؟ کیا تمہارے کان ان کی خبروں سے ناآشنا ہیں۔ پھر جناب باری تعالیٰ اپنے لطف وکرم کو احسان و انعام کو بیان فرما رہا ہے کہ آسمان سے پانی اتارتا ہے پہاڑوں سے اونچی جگہوں سے سمٹ کرندی نالوں اور دریاؤں کے ذریعہ ادھر ادھر پھیل جاتا ہے۔ بنجر غیر آباد زمین میں اس سے ہریالی ہی ہریالی ہوجاتی ہے۔ خشکی تری سے موت زیست سے بدل جاتی ہے۔ گو مفسرین کا قول یہ بھی ہے کہ جزر مصر کی زمین ہے لیکن یہ ٹھیک ہے۔ ہاں مصر میں بھی ایسی زمین ہو تو ہو آیت میں مراد تمام وہ حصے ہیں جو سوکھ گئے ہوں جو پانی کے محتاج ہوں سخت ہوگئے ہوں زمین یبوست (خشکی) کے مارے پھٹنے لگی ہو۔ بیشک مصر کی زمین بھی ایسی ہے دریائے نیل سے وہ سیراب کی جاتی ہے۔ حبش کی بارشوں کا پانی اپنے ساتھ سرخ رنگ کی مٹی کو بھی گھسیٹتا جاتا ہے اور مصر کی زمین جو شور اور ریتلی ہے وہ اس پانی اور اس مٹی سے کھیتی کے قابل بن جاتی ہے اور ہر سال پر فصل کا غلہ تازہ پانی سے انہیں میسر آتا ہے جو ادھر ادھر کا ہوتا ہے۔ اس حکیم و کریم منان ورحیم کی یہ سب مہربانیاں ہیں۔ اسی کی ذات قابل تعریف ہے روایت ہے کہ جب مصر فتح ہوا تو مصر والے بوائی کے مہینے میں حضرت عمرو بن عاص (رض) کے پاس آئے اور کہنے لگے ہماری قدیمی عادت ہے کہ اس مہینے میں کسی کو دریائے نیل کی بھینٹ چڑھاتے ہیں اور اگر نہ چڑھائیں تو دریا میں پانی نہیں آتا۔ ہم ایسا کرتے ہیں کہ اس مہینے کی بارہویں تاریخ کو ایک باکرہ لڑکی کو جو اپنے ماں باپ کی اکلوتی ہو اس کے والدین کو دے دلاکر رضامند کرلیتے ہیں اور اسے بہت عمدہ کپڑے اور بہت قیمتی زیور پہنا کر بنا سنوار کر اس نیل میں ڈال دیتے ہیں تو اسکا بہاؤ چڑھتا ہے ورنہ پانی چڑھتا ہی نہیں۔ سپہ سلار اسلام حضرت عمرو بن عاص فاتح مصر نے جواب دیا کہ یہ ایک جاہلانہ اور احمقانہ رسم ہے۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا اسلام تو ایسی عادتوں کو مٹانے کے لیے آیا ہے تم اب ایسا نہیں کرسکتے۔ وہ باز رہے لیکن دریائے نیل کا پانی نہ چڑھا مہنیہ پورا نکل گیا لیکن دریا خشک رہا۔ لوگ تنگ آکر ارادہ کرنے لگے کہ مصر کو چھوڑ دیں۔ یہاں کی بود وباش ترک کردیں اب فاتح مصر کو خیال گذرتا ہے اور دربار خلافت کو اس سے مطلع فرماتے ہیں۔ اسی وقت خلیفۃ المسلمین امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب (رض) کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ آپ نے جو کیا اچھا کیا اب میں اپنے اس خط میں ایک پرچہ دریائے نیل کے نام بھیج رہا ہوں تم اسے لے کر نیل کے دریا میں ڈال دو ۔ حضرت عمرو بن عاص (رض) نے اس پرچے کو نکال کر پڑھا تو اس میں تحریر تھا کہ یہ خط اللہ کے بندے امیر المومنین عمر (رض) کی طرف سے اہل مصر کے دریائے نیل کی طرف۔ بعد حمد وصلوۃ کے مطلب یہ ہے کہ اگر تو اپنی طرف سے اور اپنی مرضی سے چل رہا ہے تب تو خیر نہ چل اگر اللہ تعالیٰ واحد وقہار تجھے جاری رکھتا ہے تو ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہیں کہ وہ تجھے رواں کردے۔ یہ پرچہ لے کر حضرت امیر عسکر نے دریائے نیل میں ڈال دیا۔ ابھی ایک رات بھی گذرنے نہیں پائی تھی جو دریائے نیل میں سولہ ہاتھ گہرا پانی چلنے لگا اور اسی وقت مصر کی خشک سالی تر سالی سے گرانی ارزانی سے بدل گئی۔ خط کے ساتھ ہی خطہ کا خطہ سرسبز ہوگیا اور دریا پوری روانی سے بہتا رہا۔ اس کے بعد سے ہر سال جو جان چڑھائی جاتی تھی وہ بچ گئی اور مصر سے اس ناپاک رسم کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوا۔ (کتاب السنہ للحافظ ابو القاسم اللالکائی) اسی آیت کے مضمون کی آیت یہ بھی ہے ( فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖٓ 24؀ۙ ) 80 ۔ عبس ;24) یعنی انسان اپنی غذا کو دیکھے کہ ہم نے بارش اتاری اور زمین پھاڑ کر اناج اور پھل پیدا کئے اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ یہ لوگ اسے نہیں دیکھتے ؟ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں جرز وہ زمین ہے جس پر بارش ناکافی برستی ہے پھر نالوں اور نہروں کے پانی سے وہ سیراب ہوتی ہے۔ مجاہد (رح) فرماتے ہیں یہ زمین یمن میں ہے حسن فرماتے ہیں ایسی بستیاں یمن اور شام میں ہیں۔ ابن زید وغیرہ کا قول ہے یہ وہ زمین ہے جس میں پیداوار نہ ہو اور غبار آلود ہو۔ اسی کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے ( وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَةُ ښ اَحْيَيْنٰهَا وَاَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَاْكُلُوْنَ 33؀) 36 ۔ يس ;33) ان کے لئے مردہ زمین بھی اک نشانی ہے جسے ہم زندہ کردیتے ہیں۔