الاحزاب آية ۲۸
يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا
طاہر القادری:
اے نبیِ (مکرَّم!) اپنی اَزواج سے فرما دیں کہ اگر تم دنیا اور اس کی زینت و آرائش کی خواہش مند ہو تو آؤ میں تمہیں مال و متاع دے دوں اور تمہیں حسنِ سلوک کے ساتھ رخصت کر دوں،
English Sahih:
O Prophet, say to your wives, "If you should desire the worldly life and its adornment, then come, I will provide for you and give you a gracious release.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، اپنی بیویوں سے کہو، اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں
2 Ahmed Raza Khan
اے غیب بتانے والے (نبی)! اپنی بیبیوں سے فرمادے اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں مال دُوں اور اچھی طرح چھوڑ دُوں
3 Ahmed Ali
اے نبی اپنی بیویوں سے کہہ دو اگر تمہیں دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش منظور ہے تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا کر اچھی طرح سے رخصت کر دوں
4 Ahsanul Bayan
اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اے پیغمبر اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت وآرائش کی خواستگار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح سے رخصت کردوں
6 Muhammad Junagarhi
اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دﻻ دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں
7 Muhammad Hussain Najafi
اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہا گر تم دنیاوی زندگی اور اس کی زیب و زینت چاہتی ہو تو آؤ کہ تمہیں کچھ مال و متاع دے کر اچھے طریقے سے رخصت کروں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پیغمبر آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ زندگانی دنیا اور اس کی زینت کی طلبگار ہو تو آؤ میں تمہیں متاغِ دنیا دے کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں
9 Tafsir Jalalayn
اے پیغمبر اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت و آرائش کی خواستگار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح رخصت کردوں
آیت نمبر 28 تا 34
ترجمہ : اے نبی آپ اپنی ازواج سے کہہ دیجئے اگر تم دنیوی زندگی (کا عیش) اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تم کو کچھ یعنی متعۂ طلاق دیدوں اور اگر تمام اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو چاہتی ہو یعنی جنت کو تو یقین جانو کہ تم میں نیک کام کرنے والیوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے ارادۂ آخرت پر زبردست اجر یعنی جنت تیار کررکھی ہے، چناچہ ان سب نے آخرت کو دنیا پر ترجیح دی، اے نبی کی بیبیو ! جو بھی تم میں سے کھلی ہوئی بیہودگی کا ارتکاب کرے گی مُبَیِّنَۃً میں ی کے فتحہ اور اس کے کسرہ کے ساتھ یعنی ظاہر کی ہوئی یا کھلی ہوئی تو اس کو دوہرا عذاب دیا جائے گا اور ایک قراءت میں یُضَعَّف تشدید کے ساتھ ہے، اور ایک قراءت میں نون مع التشدید اور العذاب کے نصب کے ساتھ (یعنی) غیر ازواج کے عذاب کا دوگنا، یعنی دو مثل اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت آسان ہے اور تم میں سے جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گی اور عمل صالح کرے گی تو ہم اس کو دوہرا اجر دیں گے، یعنی دوسری عورتوں کی بہ نسبت دوہرا اجر اور ایک قراءت میں نعمل اور نؤتِھا میں یا تحتانیہ کے ساتھ ہے، اور ہم نے اس کے لئے جنت میں مزید برآں بہترین روزی تیار کردکھی ہے، اے نبی کی بیبیو ! تم عام عورتوں کی طرح (معمولی) نہیں ہو اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تو بلا شبہ تم بڑے درجوں والی ہو، تو مردوں سے گفتگو میں نرم لہجہ مت اختیار کرو، کہ جس کے قلب میں مرض نفاق ہو وہ طمع کرنے لگے، اور تم نرمی اور نزاکت کے بغیر قاعدے کے مطابق کلام کرو اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو قَرِنَ میں کسرہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ ہے، یہ قرار سے مشتق ہے، اس کی اصل اِقْردْنَ راء کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ قَررْتَ فتحۂ راء اور کسرۂ راء سے مشتق ہے، راء کی حرکت قاف کی طرف منتقل ہوگئی اور مع ہمزہ وصل کے حذف ہوگئی اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق تم اپنی زینت کا اظہار مت کرو، یعنی زمانۂ ماقبل اسلام میں عورتوں کے مردوں کے لئے اظہار محاسن کے مانند، اور زمانہ اسلام کے بعد کا اظہار، آیت وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَا ظَھَرَ بِنْھَا میں مذکور ہے اور نماز کی پابندی رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتی رہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتی رہو اے اہل بیت یعنی نبی کی بیبیو ! اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ تم سے گناہ کی آلودگی دور کرے اور تم کو خوب پاک صاف رکھے اور تم ان آیات اور حکمت سنت کو یاد رکھو جن کا تمہارے گھروں میں تذکرہ رہتا ہے یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء پر لطف کرنے والا اور اپنی مخلوق سے باخبر ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : یٰاَ یُّھَا النبیُ قل لَاِزْوَجِکَ ازواج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر مسلمان عورتوں کے اسلامی موقف کو بیان کرنے کے لئے یہ کلام مستانف ہے۔
قولہ : فتَعَالَیْنَ تم آؤ تَعَالِیٌ سے امر جمع مؤنث حاضر مبنی برسکون ہے نون نسوۃ فاعل ہے، یہ کلمہ اپنے کثرت استعمال کی وجہ سے
اَقْبِلْ (سنو) کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے۔
قولہ : اُمَتِّعْکُنّ واُسَرِّ حْکُنَّ عام قراءت میں یہ دونوں صیغے جزم کے ساتھ ہیں، مجزوم ہونے کی دو وجہ ہوسکتی ہیں، اول یہ کہ جواب شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہو اور کنتُنَّ شرط ہو اور جواب شرط اور جواب شرط کے دومیان جملہ معترضہ ہو، دوسری وجہ یہ ہے کہ فَتَعَالَیْنَ جواب شرط اور اُمَتِّعکُنَّ جواب امر ہو۔
قولہ : مِنْ کُنَّ مِن بیانیہ ہے اس لئے کہ تمام ازواج محسنات ہیں، دوسری ترکیب اول سے بہتر ہے۔ (اعراب القرآن للدرویش)
قولہ : اِنِ اتَّقَیْنَّ اِنْ حرف شرط اِتَّقَیْنَّ شرط محلاً مجزوم، جواب شرط محذوف جیسا کہ شارح (رح) تعالیٰ نے فَاِنَّکُنَّ اعظم سے اشارہ کردیا اور بعض مفسرین نے فَلَا تَخْضِعْنَ بالقول کو جواب شرط قرار دیا ہے، ای اِنِ اتَّقَیْنَّ فلا تَکَلَّمْنَ کلاماً لَیّنًا خاضِعًا الرجالِ ککلامِ المربِیَاتِ
قولہ : وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ (درفارسیہ) ای آرام بگیر یددر خانہائے خویش یعنی اپنے گھروں میں سکون سے رہو وَقَرْنَ میں واؤ عاطفہ ہے جمع امر حاضر معروف یہ اصل میں قرار سے اِقْرَرْنَ تھا (سمع) یا اصل میں اِقَرِرْنَ تھا راء کے کسرہ اور فتحہ کے ساتھ قَرَرْتَ سے راء کی حرکت کو نقل کرکے قاف کو دیدی اور راء مع ہمزہ حذف ہوگئی، (صرف) تم ٹھہری رہو، بیضاوی اور زمخشری نیز نیشا پوری نے لکھا ہے یہ قَارَیَقَارُ بروزن خَافَ یَخَافُ سے ہے، یعنی تم جمے رہو اور بعض حضرات نے واؤ کو اصل دیکر وَقَرَیقِرُ سے مشتق قرار دیا ہے یعنی سکون اور قرار سے رہو۔ (لغات القرآن) تَبَرَّجْنَ اصل میں تَتَبَرَّجْنَ تھا، ناز وانداز سے چلنا اور اپنی زینت و محاسن کو اجنبیوں کے لئے ظاہر کرنا۔
تفسیر وتشریح
ربطِ آیات : سورة احزاب کے مقاصد میں سے اہم مقصد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذاء سے اور ہر ایسی چیز سے بچنے کی تاکید ہے جس سے آپ کو تکلیف پہنچے، نیز اس سورت میں آپ کی اطاعت اور رضاء جوئی کے مؤکد احکام ہیں، غزوۂ احزاب میں کفار و منافقین کی طرف سے آپ کو ایذائیں پہنچیں۔ مذکورۃ الصدر آیات میں خاص ازواج مطہرات کو تعلیم ہے کہ وہ خصوصاً اس کا اہتمام کریں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے کسی قول و فعل سے ایذاء نہ پہنچے اور یہ جبھی ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی مکمل اطاعت میں لگ جائیں اس سلسلہ کے چند احکام ازواج مطہرات (رض) کو خطاب کرکے بتلائے گئے ہیں۔
شان نزول : شروع آیات میں جو ازواج مطہرات کو طلاق لینے کا اختیار دینا مذکورہ ہے اس کے ایک یا چند واقعات ہیں جو ازواج مطہرات کی طرف سے پیش آئے، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی منشاء کے خلاف تھے جن میں بلا قصد و اختیار رسول اللہ کو تکلیف پہنچی، ان واقعات میں سے ایک واقعہ وہ ہے جو صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت جابر (رض) کی روایت سے مفصل آیا ہے، اس میں مذکور ہے کہ ازواج مطہرات نے جمع ہو کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا مطالبہ کیا کہ ان کا نان ونفقہ پڑھا دیا جائے، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی حالت پہلے سے کچھ بہتر ہوگئی تو انصار و میاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر ازواج مطہرات نے بھی نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کردیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ نہایت سادگی پسند تھے اس لئے ازواج مطہرات کے اس مطالبہ پر نہایت کبیدہ خاطر ہوئے اور یہی واقعہ تخییر طلاق کا سبب بنا جس کی وجہ سے آپ نے ازواج مطہرات سے علیحدگی اختیار کرلی جو ایک ماہ تک جاری رہی، اور آپ نے بالا خانہ پر تنہائی اختیار فرمالی، مدینہ میں غم کا ماحول چھا گیا، ہر شخص حیران تھا، لوگ آپ کے دولت کدہ کے دروازہ پر جمع تھے مگر کسی کو اندر آنے کی اجازت نہیں مل رہی تھی، حضرت ابوبکر (رض) تشریف لائے اور اجازت طلب کی تو آپ کو اجازت مل گئی، آپ اندر تشریف لے گئے پھر حضرت عمر (رض) تشریف لائے اور اجازت چاہی عمر (رض) کو بھی اجازت مل گئی آپ بھی اندر تشریف لے گئے دیکھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گم سم بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ کے اطراف آپ کی ازواج بیٹھی ہوئی ہیں، حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا واللہ میں ایک ایسی بات کہوں گا کس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہنسی آجائے گی، چناچہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر بنت خارجہ یعنی میری بیوی مجھ سے نفقہ طلب کرتی تو میں اس کی گردن دبا دیتا، یہ بات سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہنسی آگئی، آپ نے فرمایا یہ جو میرے پاس بیٹھی ہوئی ہیں مجھ سے نفقہ طلب کررہی ہیں، چناچہ حضرت ابوبکر اٹھے اور حضرت عائشہ (رض) کی گردن دبا دی، اور حضرت عمر نے حضرت حفضہ کی گردن دبادی اور دونوں نے یہ کہا کہ کیا تم آپ سے ایسی چیز کا مطالبہ کرتی ہو جو آپ کے پاس نہیں ہے ؟ اس کے بعد آپ ایک ماہ تک ازواج سے الگ رہے اس کے بعد مذکورہ آیت نازل ہوئی، بعض روایات میں حضرت زینب کے گھر میں شہد پینے کے واقعہ کو تخییر طلاق کا سبب بتایا گیا ہے اگر یہ دونوں واقعے قریبی زمانہ میں پیش آئے ہوں تو یہ بھی بعید نہیں کہ دونوں ہی تخییر طلاق کا سبب ہوں، لیکن آیت تخییر کے الفاظ سے زیادہ تائید اس کی ہوتی ہے کہ ازواج مطہرات کی طرف سے کوئی مالی مطالبہ اس کا سبب بنا ہے، اس لئے کہ اس آیت میں فرمایا ہے اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وزِیْنَتَھَا بالا آخر اللہ تعالیٰ نے اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللہ (الآیۃ) نازل فرمائی، اس کے بعد آپ نے سب سے پہلے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو یہ آیت سنا کر اختیار دیا، مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمادیا کہ فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کریں بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کے بعد کوئی قدم اٹھائیں، حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے بارے میں مشورہ کروں ؟ بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول کو پسند کرتی ہوں اور یہی بات دیگر ازواج مطہرات نے بھی کہی، اور کسی نے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑ کر دنیا کے عیش و آرام کو ترجیح نہیں دی (صحیح بخاری، تفسیر سورة احزاب) اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حبالۂ عقد میں نو بیویاں تھیں، پانچ قریش میں سے تھیں، حضرت عائشہ، ام حبیبہ، حفصہ، سودہ، اور ام سلمہ (رض) اور چاران کے علاوہ تھیں یعنی حضرت صفیہ، میمونہ، زینت، اور جویریہ (رض)
مسئلہ : اختیار طلاق کی دو صورتیں ہوتی ہیں، ایک یہ کہ طلاق کا اختیار عورت کے سپرد کردیا جائے اگر وہ چاہے تو خود اپنے نفس کو طلاق دیکر آزاد ہوجائے، دوسرے یہ کہ طلاق شوہر ہی کے ہاتھ میں رہے کہ اگر عورت چاہے تو وہ طلاق دیدے، آیت مذکورہ میں بعض حضرات نے پہلی صورت کو اختیار کیا ہے اور بعض نے دوسری کو، آیت کے الفاظ میں دونوں کا احتمال ہے، اور بعض حضرات نے نفس تخییر ہی کو طاق قرار دیا ہے، یہ صحیح نہیں ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب زوجین کی طبیعتوں میں مناسبت نہ ہو تو
مستحب یہ ہے کہ بیوی کو اختیار دیدیا جائے، اگر رہنا چاہے تو رہے ورنہ متعۂطلاق دیکر عزت کے ساتھ رخصت کردیا جائے۔
یانساء۔۔۔ منینۃ قرآن مجید میں الفاحِشۃَ (معروف باللام) کو زنا کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، لیکن فاحشۃٌ (نکرہ) برائی کے لئے استعمال ہوا ہے، جیسے کہ یہاں ہے، یہاں اس کے معنی بداخلاقی اور نامناسب طرز عمل کے ہیں، اس لئے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بداخلاقی اور نامناسب رویہ آپ ایذا پہنچاتا ہے، جس کا ارتکاب کفر ہے، اس کے علاوہ ازواج مطہرات خود بھی مقام کی حامل تھیں اور بلند مرتبت لوگوں کی معمولی غلطیاں بھی بڑی سمجھی جاتی ہیں اس لئے ازواج مطہرات کو دوگنے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے، اگلی آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس طرح گناہ کا وبال دوگنا ہوگا، اسی طرح نیکیوں کا اجر بھی دوہرا ہوگا۔
یٰنساء۔۔۔ النساء یعنی تمہاری حیثیت اور مرتبہ عام عورتوں کا سا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجیت کا جو شرف عطا فرمایا ہے اس کی وجہ سے تمہیں ایک امتیازی مقام حاصل ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح تمہیں بھی امت کے لئے ایک نمونہ بنتا ہے چناچہ انہیں ان کے مقام اور مرتبہ سے آگاہ کرکے انہیں کچھ ہدایات دی جارہی ہیں، مخاطب اگرچہ ازواج مطہرات ہیں لیکن انداز بیان سے صاف واضح ہے کہ مقصد پوری امت مسلمہ کی عورتیں ہیں، اس لئے یہ ہدایات تمام مسلمان عورتوں کے لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح عورت کے وجود کے اندر مرد کے لئے جنسی کشش رکھی ہے (جس کی حفاظت کے لئے بھی خصوصی ہدایات دی گئی تاکہ عورت کے لئے فتنے کا باعث نہ ہو) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی آواز میں بھی فطری طور پر دلکشی، نرمی اور نزاکت و دیعت فرمائی ہے، جو مرد کو اپنی طرف کھنچتی ہے، لہٰذا اس آواز کے لئے بھی یہ ہدایت دی گئی کہ اجنبی مردوں سے گفتگو کرتے وقت قصداً ایسا لب و لہجہ اختیار کرو کہ نرمی اور لطافت کی جگہ قدرے سختی اور روکھا پن ہوتا کہ کوئی بدباطن لہجے کی نرمی سے تمہاری طرف مائل نہ ہو اور اس کے دل میں کوئی برا خیال پیدا نہ ہو اور وقُلْنَ قولاً معروفاَ سے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ روکھا پن، صرف لب و لہجہ کی حد تک ہی ہو، زبان سے کوئی ایسا لفظ نہ نکالنا جو معروف قاعدے اور اخلاق کے منافی ہو، اس آیت سے اتنا تو ثابت ہوا کہ عورت کی آواز ستر میں داخل نہیں مگر اس پر بھی احتیاطی پابندی یہاں بھی لگا دی گئی کہ اجنبی مرد سے نزاکت اور نرمی سے گفتگو کرنے کے بجائے قدرے روکھا پن کریں چناچہ ام المومنین اس آیت کے نزول کے بعد غیر مرد سے کلام کرتے وقت منہ پر ہاتھ رکھ لیتیں تاکہ آواز بدل جائے، آگے ان اتَّقَیْتُنَّ کہہ کر اشارہ کردیا کہ یہ ہدایت اور دیگر ہدایات جو آگے آرہی ہیں متقی عورتوں کے لئے ہیں کیونکہ انہیں میں یہ فکر ہوتی ہے کہ ان کی آخرت بربادنہ ہوجائے جن کے دل خوف الہٰی سے عاری ہیں انہیں ان ہدایات سے کیا سروکار ؟ وہ کب ان ہدایات کی پرواہ کرتی ہیں ؟
وَقَرْنَ فِی بُیُوْتِکُنَّ یعنی اپنے گھروں میں ٹک کررہو، اور بغیر ضروری حاجت کے گھر سے باہر نہ نکلو، اس میں وضاحت کردی
گئی کہ عورت کا دائرۂ عمل امور سیاست اور جہاں بانی نہیں، نیز معاشی جھمیلے بھی ان کے دائرۂ عمل سے خارج ہیں، بلکہ گھروں میں
چہاردیواری کے اندر رہ کر امور خانہ داری انجام دینا عورتوں کا دائرۂعمل ہے۔
ولا۔۔۔ الاولیٰ اس آیت میں گھر سے باہر نکلنے کے آداب بتلائے گئے ہیں کہ اگر باہر جانے کی ضرورت پیش آئے تو بناؤ
سنگھار کرکے یا ایسے انداز سے جس سے تمہارا سنگھار ظاہر ہو، مت نکلو، جیسے بےپردہ ہوکر، جس سے تمہارا سر، چہرہ، بازو اور چھاتی وغیرہ لوگوں کو دعوت نظارہ دے، بلکہ بغیر خوشبو لگائے سادہ لباس میں ملبوس اور باپردہ باہر نکلو، تبرُّج بےپردگی اور زیب وزینت کے اظہار کو کہتے ہیں، قرآن نے واضح کردیا کہ یہ تبرج جاہلیت ہے جو اسلام سے پہلے تھی اور آئندہ بھی جب کبھی اسے اختیار کیا جائے گا یہ جاہلیت ہی ہوگی، اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، چاہے اس کا نام کتنا ہی خوش نما، دل فریب رکھ لیا جائے۔
وَاَقِمْنَ الصَّلوٰۃ (الآیۃ) پچھلی ہدایات برائی سے اجتناب سے متعلق تھیں، یہ ہدایات نیکی اختیار کرنے سے متعلق ہیں۔
اہل بیت سے کون مراد ہیں ؟ اہل بیت کی تعیین میں کچھ اختلاف ہے، بعض مفسرین نے اہل بیت کا مصداق ازواج مطہرات کو قرار دیا ہے، جیسا کہ یہاں قرآن کریم کے سیاق وسباق سے واضح ہے، قرآن نے یہاں ازواج مطہرات ہی کو اہل بیت کہا ہے، قرآن میں دوسرے مقامات پر بھی بیوی کو اہل بیت کہا گیا ہے، مثلاً سورة ہود آیت ٧٣ میں۔ اس لئے ازواج کا اہل بیت سے ہونا نص قرآنی سے ثابت ہے، بعض حضرات بعض روایات کی رو سے اہل بیت کا مصداق صرف حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرت حسن و حسین (رض) کو مانتے ہیں اور ازواج مطہرات کو اس سے خارج سمجھتے ہیں، جبکہ اول الذکر ان حضرات کو اہل بیت سے خارج سمجھتے ہیں، تاہم اعتدال کی راہ اور نقطہ متوسطہ یہ ہے کہ دونوں ہی اہل بیت میں شامل ہیں، ازواج مطہرات تو اس نص قرآنی کی وجہ سے اور داماد واولاد ان روایات کی رو سے جو صحیح سند سے ثابت ہیں، جن میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو چادر میں لے کر فرمایا کہ اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ بھی میرے اہل بیت سے ہیں، یا یہ دعاء ہے کہ یا اللہ ان کو بھی ازواج مطہرات کی طرح میرے اہل بیت میں شامل فرمادے، اس طرح تمام دلائل میں تطبیق ہوجاتی ہے۔
واذ۔۔۔ بیوتکن یعنی تمہارے گھروں میں کو کچھ پڑھا جاتا ہے اس پر عمل کرو، یہاں حکمت سے مراد احادیث ہیں، بعض علماء نے اس آیت سے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ قرآن کی تلاوت کی طرح، ثواب کی نیت سے حدیث کی بھی تلاوت کی جاسکتی ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)
10 Tafsir as-Saadi
رسول اللہ کی ازواج مطہرات نے جمع ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ ایسے مطالبات کیے جن کو ہر وقت پورا نہیں کیا جاسکتا تھا مگر وہ متفق ہو کر اپنا مطالبہ کرتی ہی رہیں۔ یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بہت شاق گزری۔ حالت یہاں تک پہنچی کہ آپ کو ان کے ساتھ ایک ماہ کے لیے ایلا (زوجہ کے قریب نہ جانے کا عہد) کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاملے کو آسان اور آپ کی زواج مطہرات کے درجات کو بلند کرنا چاہتا تھا اور آپ کی ازواج مطہرات سے ہر اس بات کو دور کرنا چاہتا تھا جو ان کے اجر کو کم کرے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ وہ اپنی ازواج کو (اپنے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا) اختیار دے دیں۔ فرمایا : ﴿ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا ﴾ ” اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو۔“ یعنی اگر دنیا کے سوا تمہارا کوئی مطلب نہیں اور تم دنیا کی زندگی پر راضی اور اس کے فقدان پر ناراض ہو اگر تمہارا یہی حال ہے تو مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں۔ ﴿ فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ ﴾ ” تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں۔“ یعنی میرے پاس جو بھی سروسامان ہے، وہ تمہیں عطا کردوں ﴿ وَأُسَرِّحْكُنَّ ﴾ اور تمہیں الگ کردوں ﴿ سَرَاحًا جَمِيلًا ﴾ یعنی کسی ناراضی اور سب و شتم کے بغیر، بلکہ خوش دلی اور انشراح صدر کے ساتھ، اس سے قبل کہ حالات نامناسب سطح تک پہنچ جائیں تمہیں آزاد کردوں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey nabi ! apni biwiyon say kaho kay : agar tum dunyawi zindagi aur uss ki zeenat chahti ho to aao , mein tumhen kuch tohfay dey ker khoobsurti kay sath rukhsat kerdun .
12 Tafsir Ibn Kathir
امہات المومنین سے پرسش ! دین یا دنیا ؟
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیتا ہے کہ اپنی بیویوں کو دو باتوں میں سے ایک کی قبولیت کا اختیار دیں۔ اگر تم دنیا پر اور اس کی رونق پر مائل ہوئی ہو تو آؤ میں تمہیں اپنے نکاح سے الگ کردیتا ہوں اور اگر تم تنگی ترشی پر یہاں صبر کر کے اللہ کی خوشی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضامندی چاہتی ہو اور آخرت کی رونق پسند ہے تو صبر و سہار سے میرے ساتھ زندگی گذارو۔ اللہ تمہیں وہاں کی نعمتوں سے سرفراز فرمائے گا۔ اللہ آپ کی تمام بیویوں سے جو ہماری مائیں ہیں خوش رہے۔ سب نے اللہ کو اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور دار آخرت کو ہی پسند فرمایا جس پر رب راضی ہو اور پھر آخرت کے ساتھ ہی دنیا کی مسرتیں بھی عطا فرمائیں۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ اس آیت کے اترتے ہی اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس آئے اور مجھ سے فرمانے لگے کہ میں ایک بات کا تم سے ذکر کرنے والا ہوں تم جواب میں جلدی نہ کرنا اپنے ماں باپ سے مشورہ کر کے جواب دینا۔ یہ تو آپ جانتے ہی تھے کہ ناممکن ہے کہ میرے والدین مجھے آپ سے جدائی کرنے کا مشورہ دیں۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔ میں نے فوراً جواب دیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں ماں باپ سے مشورہ کرنے کی کونسی بات ہے۔ مجھے اللہ پسند ہے اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پسند ہیں اور آخرت کا گھر پسند ہے۔ آپ کی اور تمام بیویوں نے بھی وہی کیا جو میں نے کیا تھا اور روایت میں ہے کہ تین دفعہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ دیکھو بغیر اپنے ماں باپ سے مشورہ کئے کوئی فیصلہ نہ کرلینا پھر جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا جواب سنا تو آپ خوش ہوگئے اور ہنس دیئے، پھر آپ دوسری ازواج مطہرات کے حجروں میں تشریف لے گئے ان سے پہلے ہی فرما دیتے تھے کہ عائشہ (رض) نے تو یہ جواب دیا ہے وہ کہتی تھیں یہی جواب ہمارا بھی ہے۔ فرماتی ہیں کہ اس اختیار کے بعد جب ہم نے آپ کو اختیار کیا تو اختیار طلاق میں شمار نہیں ہوا۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابوبکر نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہونا چاہا لوگ آپ کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے اور آپ اندر تشریف فرما تھے اجازت ملی نہیں۔ اتنے میں حضرت عمر بھی آگئے اجازت چاہی لیکن انہیں بھی اجازت نہ ملی تھوڑی دیر میں دونوں کو یاد فرمایا گیا۔ گئے دیکھا کہ آپ کی ازواج مطہرات آپ کے پاس بیٹھی ہیں اور آپ خاموش ہیں۔ حضرت عمر نے کہا دیکھو میں اللہ کے پیغمبر کو ہنسا دیتا ہوں۔ پھر کہنے لگے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاش کہ آپ دیکھتے میری بیوی نے آج مجھ سے روپیہ پیسہ مانگا میرے پاس تھا نہیں جب زیادہ ضد کرنے لگیں تو میں نے اٹھ کر گردن ناپی۔ یہ سنتے ہی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس پڑے اور فرمانے لگے یہاں بھی یہی قصہ ہے دیکھو یہ سب بیٹھی ہوئی مجھ سے مال طلب کر رہی ہیں ؟ ابوبکر حضرت عائشہ کی طرف لپکے اور عمر حضرت حفصہ کی طرف اور فرمانے لگے افسوس تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ مانگتی ہو جو آپ کے پاس نہیں۔ وہ تو کہئے خیر گذری جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں روک لیا ورنہ عجب نہیں دونوں برگ اپنی اپنی صاحبزادیوں کو مارتے۔ اب تو سب بیویاں کہنے لگیں کہ اچھا قصور ہوا اب سے ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہرگز اس طرح تنگ نہ کریں گی۔ اب یہ آیتیں اتریں اور دنیا اور آخرت کی پسندیدگی میں اختیار دیا گیا۔ سب سے پہلے آپ حضرت صدیقہ کے پاس گئے انہوں نے آخرت کو پسند کیا جیسے کہ تفصیل وار بیان گذر چکا۔ ساتھ ہی درخواست کی کہ یارسول اللہ آپ اپنی کسی بیوی سے یہ نہ فرمائیے گا کہ میں نے آپ کو اختیار کیا۔ آپ نے جواب دیا کہ اللہ نے مجھے چھپانے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ میں سکھانے والا آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھ سے تو جو دریافت کرے گی میں صاف صاف بتادوں گا۔ حضرت علی کا فرمان ہے کہ طلاق کا اختیار نہیں دیا گیا تھا بلکہ دنیا یا آخرت کی ترجیح کا اختیار دیا تھا لیکن اس کی سند میں بھی انقطاع ہے اور یہ آیت کے ظاہری لفظوں کے بھی خلاف ہے کیونکہ پہلی آیت کے آخر میں صاف موجود ہے کہ آؤ میں تمہارے حقوق ادا کردوں اور تمہیں رہائی دے دوں اس میں علماء کرام کا گو اختلاف ہے کہ اگر آپ طلاق دے دیں تو پھر کسی کو ان سے نکاح جائز ہے یا نہیں ؟ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ جائز ہے تاکہ اس طلاق سے وہ نتیجہ ملے یعنی دنیا طلبی اور دنیا کی زینت و رونق وہ انہیں حاصل ہو سکے واللہ اعلم۔ جب یہ آیت اتری اور جب اس کا حکم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازواج مطہرات امہات المومنین رضوان اللہ علیہن کو سنایا اس وقت آپ کی نوبیویاں تھیں۔ پانچ تو قریش سے تعلق رکھتی تھیں عائشہ، حفصہ، سودہ اور ام سلمہ (رض) اور صفیہ بنت جی قبیلہ نضر سے تھیں، میمونہ بنت حارث ہلالیہ تھیں، زینب بنت حجش اسدیہ تھیں اور جویریہ بنت حارث جو مصطلقیہ تھیں (رض) وارضاھن اجمعین۔